مدارس کا نظامِ تعلیم وتربیت اور چند معروضات

 

از: مولانامیرزاہد مکھیالوی قاسمی‏، جامعہ فلاح دارین اسلامیہ بلاسپور

 

          مدارس اسلامیہ کی افادیت واہمیت اور معنویت ایک ایسی مسلمہ حقیقت ہے کہ جس سے دینی فکر وشعور رکھنے والے کسی فرد بشر کو انکار نہیں ہوسکتا، اصولی طور پر ہرمدرسہ کے تین بنیادی عنصر ہوتے ہیں، نظام تعلیم، نظام تربیت اور تعمیری وجود، ان عناصر ثلاثہ کو ترقی وفروغ دینے والے مدرسے کے منتظمین اور معلّمین ہیں جو درحقیقت اس علمی وروحانی چمن کے معمار اور باغبان ہیں، یہ ظاہر ہے کہ جن صلاحیتوں کے حامل اور جن جذبات وحوصلوں سے متصف یہ افراد ہوں گے اسی اعتبار سے ادارہ ترقی کی راہ پر گامزن ہوگا، اور ان لوگوں کی محنت وجانفشانی اور جوانمردی کے نمایاں اثرات مدرسہ کے نظام پر مرتب ہوں گے، آئندہ سطور میں اپنے محدود تجربہ کی روشنی میں مدارس کے منتظمین ومعلّمین کے لیے چند گذارشات پیش کی ہیں، اس صالح جذبہ، حسن نیت اور توقع کے ساتھ کہ یہ اصلاحی مشورے جو دراصل اپنے حضرات اکابر کے افادات سے ماخوذ ہیں، ہمارے ہم مشرب رفیقوں کے لیے نفع کا ذریعہ ثابت ہوں گے، انشاء اللہ، دعاء ہے کہ اللہ رب العزت ہم خدام کو دینی فکر نصیب فرمائے، اور ہمیں ان اسلاف کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق بخشے کہ جن کی مخلصانہ محنتوں کے نتیجہ میں امت کو باصلاحیت افرادِ کار مہیا ہوتے رہے، اور ہمارے مدارس کی جڑیں ہمیشہ صفہٴ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے مربوط ومستحکم رہیں!

          سرپرست حضرات سے مخلصانہ وابستگی ہونا ضروری ہے: کسی بھی دینی ادارہ اور تعلیم گاہ کو صحیح معیاری نہج پر چلانے کے لیے ذمہ داری کا احساس کرنے والے تجربہ کار ماہر تعلیم سے مخلصانہ تعلق قائم کیا جائے پھر موقع بموقع اسے ادارہ کے حالات سے مطلع کرکے اس کی سربراہی میں ادارہ کا تعلیمی وتربیتی سفر طے کیا جائے۔

          انحطاط وتنزلی کے اس دور میں بہت سے اہل مدارس اس سلسلہ میں بے توجہی اور غفلت کا مظاہرہ کرتے ہیں، ان کے یہاں سرپرستان کی حیثیت مدرسہ کے تعارفی کتابچہ یا کسی کے سامنے زبانی تذکرہ سے زیادہ نہیں ہوتی، وہ اہل انتظام اپنے اکابر سے نہ تو کبھی مدرسہ کے کسی تعلیمی معاملہ کو لے کر ملاقات فرماتے ہیں اور نہ دورانِ تعلیم کبھی ان کو مدرسہ میں مدعو کرنے اور نظام کو ان کی اصلاحی نظروں سے گذارنے کی حاجت سمجھتے ہیں، ایسی صورتِ حال میں جو نتیجہ نکلے گا ظاہر ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اگر ہم لوگ اپنے کام میں مخلص ہیں، اور ہم چاہتے ہیں کہ اپنے ادارہ کو معیاری اور مثالی ادارہ بنائیں، ہمارے یہاں تعلیمی وتربیتی اور روحانی ماحول قائم ہوتو ہمیں اپنے موجودہ اکابر سے سچی وابستگی اور مخلصانہ تعلق قائم کرنا ہوگا، خاص طور سے ان حضرات کے ساتھ اپنے مراسم مستحکم کرنے ہوں گے جو ادارہ کے ضابطہ کی رو سے ہمارے سرپرست ہیں۔

ہم اپنی محنتوں کا محور تعلیم وتربیت کو بنائیں:

          ایک مدرسہ کے منتظم اور سربراہ کے لیے بحیثیت منتظم جس طرح اخلاص وتواضع اور دیانت داری جیسے اہم اوصاف سے متصف ہونا ضروری ہے اس کے ساتھ اس کا علمی ذوق ومزاج ہونا بھی لازم ہے؛ چونکہ الناسُ علی دینِ مُلوکِہِمْ قائد ورہنما جس مذاق کا حامل ہوگا اس کے مطابق ادارے کے مدرسین ومتعلّمین میں عموماً وہ چیز منتقل ہوگی۔

          آج ہم لوگوں میں یہ بات کمیاب نہیں؛ بلکہ نایاب ہوتی جارہی ہے کہ ہم نے اپنی منزل کا نشان چھوڑ دیا اور اپنی محنتوں اور کوششوں کا تمام تر محور ومقصد معیار تعلیم کی جگہ حصول زر اور تعمیرات کو بنالیا، یہی وجہ ہے کہ مدرسہ تعمیری واقتصادی حیثیت سے ترقی کرتا نظر آتا ہے اور اصل مقصد یعنی تعلیم وتربیت میں نتیجہ بعض مدرسوں میں صفر کے برابر ہوتا ہے؛تاہم اپنے اسلاف کی روشن تاریخ سے یکسر غافل ہوچکے ہیں کہ جنھوں نے ہمیشہ انسانوں پر محنتیں کیں، ان کی صلاحیتوں کو سنوارنے اور بنانے میں ہر طرح کی قربانی دینے سے دریغ نہیں فرمایا، ان حضرات کے زمانہ میں تعمیرات بہت کم، نہ کے برابر ہوتی تھیں؛ لیکن ان کی نظریں ہمیشہ مقصود پر ٹکی رہتی تھیں۔

          میرے مرشد حضرت بڑوتی علیہ الرحمہ ایسے مدرسوں کے منتظمین سے (جو خالصتاً تعمیری ذہن والے ہوتے) فرمایا کرتے تھے کہ ”بڑا مدرسہ وہ نہیں جہاں اینٹ پتھر زیادہ لگے ہوئے ہوں طلبہ کی کثرت ہو، عمارات خوب ہوں، بڑا نظام ہو، اس سلسلہ میں ہم لوگوں کو حکیم الامت حضرت تھانوی کا وعظ (ذَمُّ المکروھات) مطالعہ کرنا چاہیے، آج کل اینٹ پتھروں کی طرف خصوصی توجہ ہم لوگوں کی ہوگئی ہے، اللہ تعالیٰ حفاظت فرمائے؛ بلکہ بڑا مدرسہ وہ ہے جہاں بڑے (اللہ تعالیٰ) کی حسب منشاء کام ہو اور وہ بڑے کو پسند آجائے، تعمیر برائے تعلیم ہو اور تعلیم برائے تعمیل ہو پھر اس میں رضاء الٰہی پیش نظر ہونا چاہئے جو کہ اصل مقصود اور مطلوب ہے۔ (اصلاحی کلمات: ص:۴۲)

          ایک صاحب کو ایک مکتوب میں تحریر فرمایا: مدرسہ کا بڑا چھوٹا ہونا تعمیر کے بڑا چھوٹا ہونے پر موقوف نہیں، جیساکہ بعض لوگوں کو دھوکا ہوا ہے، طلبہ کی بھیڑ پر بھی اس کا مدار نہیں، تعلیمی نصاب بلند کردینے پر بھی یہ مبنی نہیں، جو بڑے کو پسند آجائے وہ بڑا ہے، جو پسند نہ آئے وہ چھوٹا بھی نہیں خواہ دیکھنے میں کتنا ہی بڑا نظر آتا رہے۔ (امداد السالک ص: ۱۳۴، ج:۱)

          محی السنہ حضرت مولانا شاہ ابرار الحق صاحب قدس سرہ فرمایا کرتے تھے ”جسم مدرسہ کی تعمیر وتزئین کے مقابلہ میں عمدگیٴ تعلیم کو ترجیح دینا، جسم مدرسہ میں اوّلاً ضروری باتوں کو مقدم رکھا جائے پھر عمدگی تعلیم کے بعد مناسب تزئین کی جانب توجہ فرمائی جاوے۔ (مجالس ابرار، ص:۱۶۷، ج:۱)

          حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اپنے دورِ خلافت میں سب سے پہلے بچوں کی تعلیم کے لئے مکتب جاری کرکے اس میں معلم مقرر کیے محلّی ابن حزم اور کنزالعمال میں وضین بن عطاء کی روایت ہے: کان بالمدینة ثلاثةُ مُعَلِّمِیْنَ یعلمون الصبیان فکان عمرُ یرزق کل واحد منھم خمسةَ عشرَ کلَّ شَھْرٍ مدینہ میں تین معلم بچوں کو تعلیم دیتے تھے اورحضرت عمر رضی اللہ عنہ ان میں سے ہر ایک کو ماہوار پندرہ درہم برائے خوردونوش دیا کرتے تھے۔

          کنزالعمال کی روایت میں خمسةعشر درھما کی تصریح ہے، اس روایت میں یأجر (اجرت دیتے تھے) کے بجائے یرزق کی تصریح سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت قرآن اور دین کی تعلیم دینے والے معلّمین بقدر کفایت کچھ رقم لے لیتے تھے، عامر بن عبداللہ خزاعی کے متعلق ”الفواکہ الدوانی علی رسالة ابن ابی زید القیروانی“ میں لکھا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے سب سے پہلے حکم جاری کرکے عامر بن عبداللہ خزاعی کو بچوں کی تعلیم کا حکم دیا، اور بیت المال سے ان کے لیے اجرت نہیں؛ بلکہ وظیفہ جاری کیا اور حکم دیا کہ کند ذہن بچہ کے لیے تختی پر لکھیں اور ذہین بچہ کو زبانی تعلیم دیں، اس حکم کے مطابق عامر بن عبداللہ صبح سے شام تک مکتب میں بیٹھے رہتے، لوگوں نے حضرت عمر سے اس کڑی پابندی کے بارے میں بات کرکے تخفیف کرائی کہ نماز فجر کے بعد دس گیارہ بجے تک اور ظہر کے بعد عصر تک تعلیم دیں، باقی وقت آرام کریں۔

          ابوسفیان کی معلمی کا ذکر ایک المیہ میں یوں آیا ہے کہ حضرت عمر نے ابوسفیان نامی ایک شخص کو بادیہ اور صحراء کے باشندوں کی تعلیم کے لیے بھیجا، جو طالب علم نہیں پڑھتا تھا، ابوسفیان اس کو مارتے تھے؛ چنانچہ انھوں نے اسی بات پر ایک بچہ اوس بن خالد طائی کو کئی کوڑے مارے اور اس کا انتقال ہوگیا،اس کی ماں نے رونا پیٹنا شروع کیا اور حادثہ کی اطلاع ریث بن زید الخیل طائی کو کردی، جس نے ابوسفیان کو قتل کردیا۔ (خیرالقرون کی درسگاہیں: ص ۳۳۸، موٴلفہ: قاضی اطہرمبارکپوری بحوالہ امداد السالک، ج:۱، ص:۱۴۲)

          اس مذکورہ تفصیل سے یہ بات واضح ہوگئی کہ خیرالقرون میں مکاتب کا اجراء، نیز بادیہ وصحراء میں تعلیمی بندوبست سب کچھ کیاگیا، معلّمین کے لیے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ، نے بیت المال سے وظائف مقرر فرمائے، نظام تعلیم کے سلسلہ میں مدرسین کو مختلف ہدایات فرمائیں؛ لیکن عمارت پر مستقل نہ محنت کی گئی اورنہ تعمیر وتزئین کو مقصود بنایاگیا۔

          آج ہم لوگ اپنے دینی مدرسوں میں معیار تعلیم وتربیت پر پوری توجہ کی جگہ اگر نصف حصہ بھی دھیان دیں اور طلبہ پر محنت کریں تو نظام میں نمایاں تبدیلی اور بہتری آسکتی ہے اور مدارس میں زیرتعلیم طلبہ پر عوام الناس کی شکایتوں کا سلسلہ بہت حد تک قابو میں آسکتا ہے۔ اَللّٰھُمَّ وَفِّقْنَا لِمَا تُحِبُّ وَتَرْضٰی

باصلاحیت اور سلیم المزاج اساتذہ کا انتخاب ہو:

          کسی بھی ادارہ کی بنیادی ترقی اور تعلیمی استحکام محنتی جفاکش اورمخلص اساتذہ پر موقوف ہوتا ہے وہ اگر باذوق سلیم الطبع اور باحوصلہ ہوتے ہیں تو یقینا مدرسہ روز بروز ترقی کے منازل طے کرتا ہے، نظام تعلیم کی مضبوطی میں حضرات معلّمین کی حیثیت ریڑھ کی ہڈی سے کم نہیں، ان پر صرف تعلیمی ذمہ داری نہیں ہوتی؛ بلکہ نونہالان امت کی تربیت کی ذمہ داری کا بوجھ بھی ان کے کندھوں پر ہوتا ہے، معلم تمام بچوں کے لیے آئیڈیل اور نمونہ ہوتا ہے، اس کی فکر وسوچ رفتار وگفتار، رہن سہن اور تمام حرکات طلبہ میں غیرمحسوس طریقہ پر منتقل ہوتی ہیں، بہرحال اساتذہٴ کرام اگر شریعت وسنت کے پابند اور اپنے منصب کے قدردان ہوں اور ان میں شفقت ورحم دلی اور خیرخواہی کاپہلو غالب ہو تو بلاشبہ ان کے ہاتھوں تیار ہونے والی نئی نسل بھی انھیں صفات کی حامل ہوگی۔

          ایک دینی ادارہ کے ذمہ دار اور منتظمہ کمیٹی پر یہ سب سے اہم فریضہ عائد ہوتا ہے کہ وہ ایسے معلم اور لائق مدرس کا انتخاب کرے جو باصلاحیت ہونے کے ساتھ ساتھ دینی فکر ومزاج کا حامل سلیم الطبع ہو؛ اس لیے کہ دورِ حاضر میں تجربہ یہ ہے کہ مدرس کی لیاقت طبیعت کی سلامتی کے بغیر اکثر وبیشتر ادارہ کے لیے مضر بن جاتی ہے اوراس کے ضرر سے بچنے کے لیے اہل انتظام کو بڑی مشکلات اور دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

اساتذہ وملازمین کے ساتھ منتظمین کا سلوک:

          کسی ادارہ کا منتظم ومہتمم بننا جس طرح ایک طرح خوش نصیبی اور نیک بختی کی بات ہے، اسی طرح ایک عظیم ذمہ داری بھی ہے ادارہ کے سربراہ کا عالی حوصلہ،فراخ چشم، متحمل المزاج، شریف النفس ہونا لازم ہے، اس کے اندر بزرگانہ شفقت بھی ہو اور عزیزانہ محبت بھی، اپنے ماتحتوں اور خوردوں کے ساتھ اس کا سلوک وبرتاؤ ایسا مساویانہ ومتوازن ہو کہ جس میں نفسیات وجذبات کی رعایت بھی ہو اور کسی کی حق تلفی اور دل آزاری کا پہلو بھی نہ ہو، مدرسہ کے ملازمین ومعلّمین کو ادارہ کے سچے خیرخواہ اور معمار تصور کرے کہ ان مخلص معماروں کی پرخلوص تعلیمی وتربیتی کوششوں اور محنتوں سے ہی ادارہ کا وجود قائم ہے، ورنہ محض اچھی بلڈنگوں، مزین ہوسٹلوں اور خوشنما پارکوں کا نام مدرسہ نہیں ہوسکتا؛ لہٰذا اسی نظریہ کے ساتھ ان کے اکرام واعزاز میں اور حوصلہ افزائیوں میں کوتاہی نہ کرے۔

          یہ نظام الٰہی ہے اور اسی کی جانب سے یہ تقسیم اُمور ہے کہ وہ کسی فرد کو معلمی کی خدمت کے لیے منتخب کرلے اور کسی انسان کو اہتمام وانتظام کی پُرخطر ذمہ داری پر فائز کردے، لہٰذا مہتمم کسی مدرس کو بھی حقیر نہ سمجھے، ان کے ساتھ نوکروں کی طرح برتاؤ نہ ہو۔ حضرت محی السنہ ہردوئی قدس سرہ فرماتے ہیں کہ ”اراکین ومنتظمین کو چاہیے کہ دوسرے معاونین اور بالخصوص اساتذئہ کرام کے ساتھ حسن سلوک رکھیں۔“ (مجالس ابرار، ص:۱۴۷)

          اس زمانہ میں بعض ایسے کم ظرف نظماء کے واقعات سننے کو ملتے ہیں کہ وہ اپنے مدرسہ کے معلّموں کو اپنے نوکر ہونے سے تعبیر کرتے ہیں اور فخریہ بیان کرتے ہیں، اس سطحی ذہنیت کے نتیجہ میں جو بگاڑ ایسے مدرسوں کا سامنے آتا ہے، ظاہر ہے، اللہ تعالیٰ حفاظت فرمائے، آمین۔

          اہل انتظام کے لیے ہماری ناقص رائے اور تجربہ یہ ہے کہ وہ حضرات اس سلسلہ کی مزید تفصیل ملاحظہ فرمانے کے لیے حضرت اقدس مفتی مہربان علی شاہ بڑوتی قدس سرہ کی تالیف ”تعلیم وتربیت کس طرح“ کا نیا ایڈیشن اور ”مثالی استاذ“ (موٴلفہ حضرت مولانا عبدالمجید صاحب مدظلہ) مسلسل مطالعہ میں رکھیں۔ محی السنہ حضرت اقدس شاہ ابرارالحق صاحب قدس سرہ کی ”مجالس ابرار“ بھی اس باب میں اپنی منفردانہ حیثیت رکھتی ہے۔

صفائی معاملات پر خاص توجہ دینے کی ضرورت:

          اسلامی تعلیمات میں اہل ایمان کو جس طرح اخلاقیات وعبادات اور معاشرت کا مکلف بنایا گیا ہے، وہیں معاملات کی درستگی اور صفائی رکھنے کی واضح ہدایات بھی دی گئی ہیں، قرآن کی آیات اوراحادیث نبویہ  صلی اللہ علیہ وسلم اس پر شاہد عدل ہیں، عصر حاضر میں جو بنیادی کمزوریاں اسلامی معاشرہ کی علامت بن چکی ہیں، ان میں صفائی معاملات نہ رکھنے کی عادت بھی شامل ہے، عوام الناس کا کیاذکر خواص سمجھے جانے والے، لکھے پڑھے طبقہ کے لوگ بھی اس مرض میں مبتلاہیں؛ بلکہ اس سے بھی ایک قدم بڑھ کر یہ کہ بعض مدارس ومکاتب کے ذمہ داران اور سربراہ حضرات بھی اس مہلک بیماری میں مبتلا ہیں کہ مدرسہ کے مدرسین اپنی تنخواہوں کے لیے ان کے پیچھے چکرلگاتے ہیں، مدرسہ میں تعمیری کام کرنے والے معمار ومزدوران کے پیچھے گھومتے نظر آتے ہیں، کسی اللہ کے بندے سے ان کا کوئی معاملہ خریدوفروخت کا ہوجائے وہ بھی ان کی بدمعاملگی سے محفوظ نہیں رہ پاتا، ایسے لوگوں کا معاملہ ادارہ کے داخلی اُمور میں بھی شفاف نہیں ہوتا، آمد وخرچ کا حساب لکھنے اور محفوظ رکھنے میں بھی وہ غیر محتاط ہوتے ہیں، یقینا یہ ایک تکلیف دہ صورت حال ہے جو ایک مسلمان کے اور خاص طور پر کسی دینی ادارہ کے منتظم عالم دین کے شایانِ شان نہیں۔ ضرورت ہے کہ ہم اس قسم کے سطحی طرزِ عمل سے اپنے آپ کو اوپر اٹھائیں،اور اپنے روشن مستقبل بنانے کی محنت کریں۔

طلبہ کے لیے نظامِ تعطیل:

          اس وقت تعلیمی موانع میں غیرحاضری سب سے بڑا مانع ہے اوراس میں المیہ یہ ہے کہ بچوں کے سرپرستوں کی جانب سے متواتر کوتاہیاں ہوتی ہیں، ایک طرف وہ بچہ کی اچھی معیاری تعلیم وتربیت کے خواہاں ہوتے ہیں اور دوسری جانب بچہ کو خانگی ہر تقریب شادی، عقیقہ، ولیمہ وغیرہ میں شرکت کی خواہش ہی نہیں کرتے؛ بلکہ اصرار کرکے چھٹی منظور کرانے کے لیے مجبور کرتے ہیں، ضروری ہے کہ اہل مدارس اس سلسلہ میں بھی اپنے ادارہ کے حسب حال کوئی مستحکم لائحہٴ عمل مقرر فرمائیں؛ تاکہ طلبہ کی غیرحاضری کے بڑھتے ہوئے رجحان پر روک لگ سکے اور بچے اپنے تعلیمی مقصد کے حصول میںآ گے بڑھ سکیں۔

          (۱) مثلاً ماہ یا ڈیڑھ ماہ سے پہلے تعطیل کم سے کم منظور کی جائے، پھر اس میں بھی ایک مرتب نظام ہو کہ جمعرات کی دوپہر سے ہفتہ کی دوپہر تک مثلاً رخصت منطور ہوتو وہ باقاعدہ کسی رجسٹر میں درج ہو، پھر بہ وقت واپسی حاضری ہو، اور وقت واپسی کا اندراج ہو، بہ صورتِ تاخیر مناسب فہمائش کی جائے، وقت مقررہ پر حاضری کی صورت میں حوصلہ افزائی کی جائے۔ غرض پورے تعلیمی سال میں اگر منتظمین اس سلسلہ میں مستعدی وبیداری سے کام لیں گے تو کافی حد تک ہمارے بچوں کے ماحول میں سدھار آئے گا۔

          (۲) عیدالاضحی، ششماہی یا سالانہ تعطیلات کے موقعہ پر طلبہ کو اجتماعی طور سے اصلاحِ حال کی جانب متوجہ کیا جائے،اگر ہوسکے تو تحریری طور پر کچھ ناصحانہ باتیں لکھ کر ان کے حوالہ کی جائیں، ہم یہاں اسی نوعیت کا مضمون نقل کرتے ہیں جس کا عنوان ہے ”آپ تعطیل کیسے گذاریں“؟ یہ ایک صفحہ کی تحریر ہے جس کی فوٹوکاپی چھٹیوں کے موقعہ پرجامعہ فلاح دارین الاسلامیہ بلاسپور (مظفرنگر) میں طلبہ کو تقسیم کی جاتی ہیں، اس طرز تربیت کے بھی مثبت نتائج ہمارے سامنے آئے ہیں۔

آپ تعطیل کیسے گذاریں․․․؟

          عزیز طلبہ! آپ لوگوں کے نفع اورآپ کا مستقبل روشن وتابناک بنانے کے لیے چند مفید باتیں لکھی جاتی ہیں، جن پر عمل کرنا آپ کے ذاتی فائدہ کے ساتھ دوسروں کے لیے بھی سبق اور نصیحت کا باعث ہوگا۔ ان شاء اللہ۔

(۱)      پنج وقتہ نمازوں کا اہتمام تکبیرِ اولیٰ کے ساتھ ایسا ہی ہونا ضروری ہے جس طرح آپ اپنے جامعہ کے دینی ماحول میں کرتے ہیں۔

(۲)      روزانہ بعد نماز فجر یٰسین شریف کے ساتھ قرآن کریم کی تلاوت کم از کم ایک پارہ ضرور کیا کریں اور صبح شام کی دعائیں بھی معمول میں رکھیں۔

(۳)     آپ گھر پر رہیں یا کسی قرابت داری میں جانا ہو آپ اپنا لباس ہرگز نہ بدلیں، ٹوپی اور ٹخنوں سے اوپر سلا ہوا پائجامہ جو آپ یہاں استعمال کرتے ہیں وہ باقی رہے۔

(۴)     یہاں جامعہ میں رہ کر جو آپ نے سیکھا ہے، اسے اپنے اہل خانہ اور قریبی لوگوں کو سکھانے کی کوشش کریں، روزانہ عشاء بعد اپنے بہن بھائیوں اور والدین کے سامنے ”نظامِ تربیت“ اور ”سچائی“ کے ایک سبق کا مذاکرہ کیا کریں۔

(۵)      آپ کے گھر میں اگر دینی ماحول ہے تو بہتر رونہ ادب کے ساتھ اپنے گھر کے افراد کے سامنے دینی باتوں کلمات، نماز وغیرہ کا مذاکرہ کریں،اور احترام کے ساتھ نماز پڑھنے کی ترغیب دیں۔

(۶)      اپنے گھر کے کاموں کو انجام دینے میں عار محسوس نہ کریں؛ بلکہ محنت وشوق کے ساتھ ہاتھ بٹائیں، ہمارے نبی  صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر کے چھوٹے چھوٹے کام خود انجام دے لیتے تھے، آپ لوگ سنت کی نیت سے گھروالوں کا تعاون کریں۔

(۷)     سمجھ دار اور سلیم الطبع بچے چھوٹی چھوٹی باتوں میں ضد نہیں کیا کرتے، ناز نخروں سے دور رہتے ہیں۔

(۸)     آپ کا طرز عمل ہرگز ایسا نہ ہونا چاہیے جس سے آپ کے ادارہ اور آپ کے اساتذہ کی بدنامی ہو۔

(۹)      اپنی دعاؤں میں اپنے جامعہ کو اور اپنے تمام استاذوں کو نہ بھولیں۔ اللہ آپ لوگوں کو سلامت رکھے، اپنے دین کی خدمت واشاعت اور حفاظت کے لیے قبول فرمائے، آمین۔

حضرات اساتذہٴ کرام کے لیے چند اہم مشورے

          سرکارِ دوعالم  صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت معلم مبعوث کیے گئے، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری عملی زندگی میں منجملہ دیگر عالی اوصاف کے دو خصوصیتیں حضرات معلّمین کے حق میں خاص طور سے بہترین اُسوہ ہیں۔

          (۱)      آں حضرت  صلی اللہ علیہ وسلم کی سب سے پہلی خصوصیت شفقت ورحم دلی، دل سوزی اور خیرخواہی کاپہلو ہے۔ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ کے مطالعہ سے یہ بات واضح ہوکر سامنے آتی ہے کہ آپ کے حریفوں نے آپ پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑے، مصائب وآلام پہنچانے میں کوئی کسر نہ اٹھارکھی؛ لیکن کبھی آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کے قلبِ اطہر میں جذبہٴ انتقام نہ اُبھرا؛ بلکہ ہمیشہ ایسے لوگوں پر ترس کھایا اور ان کے حق میں توفیقِ ہدایت کے لیے دعا مانگتے رہے اور تڑپتے رہے۔

          (۲)      آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کی دوسری اہم خصوصیت جو اندازِ تربیت کی سب سے موٴثر خصوصیت ہے، وہ یہ کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پیروکاروں اور مطیع لوگوں کو جس بات کا حکم فرمایا پہلے بذات خود اس کا عملی نمونہ دکھلایا؛ حالانکہ بہت سے معاملات میں اللہ تعالیٰ نے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کو رخصت وسہولت دی تھی؛ لیکن آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے عزیمت پر عمل کرتے ہوئے اپنے آپ کو عام مسلمانوں کی صف میں کھڑا کرنے کو پسند فرمایا، اور یہ بات تجربہ سے ثابت ہے کہ اپنے چھوٹوں اورماتحتوں کے لیے قول سے زیادہ عمل موٴثر ہوتا ہے۔

          (۳)     طبیعت میں سادگی تواضع اور منکسر المزاجی ہمیشہ خاصانِ خدا کا شیوہ رہا ہے، اساتذئہ کرام کو چاہیے کہ وہ اپنے اندر بہ تکلف ہی سہی یہ وصف اپنانے کی سعی فرمائیں کہ جس کو معمول میں لانے سے عمومی مقبولیت ہی نہیں؛ بلکہ اللہ کے یہاں بھی رفعت وبلندی حاصل ہوگی۔ مَنْ تَوَاضَعَ لِلہِ رَفَعَہ اللہُ (حدیث) اور حقیقت میں آپسی اعتماد و اتفاق پیدا کرنے کا بنیادی نکتہ تواضع ہی ہے، جیساکہ حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی فرماتے ہیں ”اور یہی تواضع جڑ ہے اتفاق کی بھی، آج کل لوگ اتفاق کی کوشش کرتے ہیں؛ مگر اتفاق کی جو جڑ ہے اس کو بالکل چھوڑ دیتے ہیں؛ کیوں کہ اتفاق ہمیشہ اس سے پیدا ہوتا ہے کہ ہر شخص اپنے کو دوسرے سے کم سمجھے،اس سے کبھی اختلاف اور جھگڑے کی نوبت آہی نہیں سکتی،افسوس آج اس پاکیزہ خصلت کو بالکل چھوڑدیاگیا، بالکل اس کے خلاف غرور اور اپنے کو بڑا سمجھنے کا سبق دیا جاتا ہے اور لباس میں ہمیشہ ایسی وضع پسند کرتے ہیں جس سے تمام مجمع بھر میں ہمیں کوبڑا سمجھا جائے اور غضب یہ کہ اپنی اولاد کو بھی شروع سے اس وضع کی عادت ڈلواتے ہیں، غرض ہر بات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اپنے کو فرعون کے برابر سمجھتے ہیں،پھر فرمائیے اتفاق کہا ں سے آئے؟ صاحبو! اگر اتفاق کا واقع میں شوق ہے تو صوفیوں کے طرز پر چلنے کی کوشش کرو، ان حضرات کے قدموں پر جاگرو پھر دیکھو کیسا اتفاق پیدا ہوتا ہے۔ (تسہیل المواعظ جلد اوّل حصہ دوم، ص:۴۵)

          (۴)     ایک اہم اور حساس معاملہ اس وقت طلبہ کی پٹائی کا بنتا جارہا ہے، تجربہ یہ ہے کہ بچوں سے تعلیمی کام لینے میں تشویق وتشکیل اور ذہن سازی کا طریق زیادہ موثر ہوتا ہے آئے دن اس قسم کے واقعات سننے میں آتے ہیں کہ استاذ کی پٹائی سے متوحش ہوکر بچہ مفرور ہوگیا، اب اس کی تلاش جاری ہے، کہیں سراغ نہیں ملتا، جس کی وجہ سے اہل خانہ بھی پریشان ہیں اور استاذ کے ساتھ بھی گستاخانہ طرز اپناکر دھمکیاں دینے سے گریز نہیں کرتے، اور بعض مرتبہ اس قسم کا ایک واقعہ ہی پورے ادارہ کی تعلیمی ترقیوں، تربیتی کوششوں پر پانی پھیر دیتا ہے۔

          پٹائی کا دوسرا اہم پہلو جو عموماً استاذوں سے نظر انداز ہوجاتا ہے، وہ یہ کہ شرعاً استاذ کو کس قدر ضرب کی اجازت ہے، جس پٹائی سے ہڈی ٹوٹ جائے یا کھال پھٹ جائے یا نشان پڑجائے یا مرہم پٹی اور دوا کی ضرورت پیش آئے ایسی پٹائی کرنا جائز نہیں۔ کَمَا لَوْ ضَرَبَ الْمُعَلِّمُ الصَّبِیَّ ضَرْباً فَاحِشاً فَانَّہ یُعَزِّرُہ وَیُضَمِّنُہ لَوْمَاتَ․․ قولہ ضرباً فاحشاً وھو الذی یُکْسِرُ العَظْمَ أوْیَخْرِقُ الْجِلْدَ أوْ یَسُوْدُہ کَمَا فِی التاتارخانیہ (شامی زکریا، ۶/۱۳۱)

          حضرت حکیم الامت تھانوی فرماتے ہیں ”ایک کوتاہی تعزیر کے متعلق یہ ہے کہ جفاکاروں کے نزدیک اس کی کوئی حد ہی نہیں، جب تک اپنے غصہ کو سکون نہ ہوجائے سزا دیتے ہی چلے جاتے ہیں، ایک جگہ فرمایا ”میں نے اپنے مدرسہ کے معلّموں کو بچوں کو مارنے کے لیے منع کردیا ہے؛ کیوں کہ یہ لوگ حدود سے تجاوز کرتے ہیں اور شفاغیظ کے لیے مارتے ہیں، ایسے زدوکوب کی اگر ولی اجازت بھی دے تو بھی درست نہیں، میں نے دو سزائیں مقرر کررکھی ہیں، ایک کان پکڑوانا جس کومراد آباد والے بطخ بنوانا کہتے ہیں، دوسرے اٹھنا بیٹھنا، اس میں دونوں اصلاحیں ہوجاتی ہیں جسمانی بھی کہ ورزش ہے، نفسانی بھی یعنی اخلاقی بھی کہ زجر ہوجاتا ہے۔ (کلمة الحق ص/۱۱ بحوالہ تعلیم وتربیت کس طرح: ۱۳۷ جدید ایڈیشن)

          (۵)      اساتذہٴ کرام اپنے مفوضہ امور کو پیش نظر رکھیں، اپنی ذمہ داری کے دائرہ سے باہر نہ جائیں اپنے تعلیمی کاموں اور مدرسہ کے قیام کے دوران جن باتوں کا لحاظ رکھنا ایک مخلص معلّم ومربی کے لیے ضروری ہے، اس کے متعلق چند اصلاحی رہنما نمبرات ہم یہاں محی السنہ حضرت مولانا شاہ ابرابرالحق صاحب ہردوئی کے افادات سے نقل کرتے ہیں:

          ۱- تعلیمی خدمت اپنا فرض منصبی خیال کرنا اور وظیفہ کو انعامِ خداوندی سمجھنا، انتظامِ وظیفہ وانتظامِ تعلیم کرنے والوں کو اپنا محسن سمجھنا اور اس کے لیے دعاء خیر کرتے رہنا۔

          ۲- طلبہ کو اپنا محسن خیال کرنا کہ ان کی وجہ سے علمی وعملی ترقی کا موقعہ ملتا ہے،نیز ان کو اللہ نے سببِ روزی بنایا ہے، طلبہ کی عظمت بوجہ مجاہد فی سبیل اللہ وضیفِ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم ہونے کے کرنا، ان پر مثل اولاد کے شفقت کرنا۔

          ۳- ایسے معاملات سے احتیاط فرمانا کہ طلبہ یا منتظمین یا معاونین کی تحقیر ظاہر ہو یا عامة المسلمین کے سامنے شکایت وبے وقعتی ہو۔

          ۴- غصہ کی حالت میں تادیب سے احتیاط کرنا، تادیب ضربی سے حتی الوسع احتیاط فرمانا اور بشرطِ ضرورت تادیب حدود کے اندرکرنا، طلبہ کی غلطی و بے ادبی پر اولاً فہمائش پھر تادیب حسبِ مصالح و موقع کرنا۔

          ۵- امارد (بے ریش طلبہ) کو خلوت میں آنے سے سختی سے روکنا۔

          ۶- بڑے طلبہ سے خدمت بعد اجازت منتظم لینا، امارد سے سخت احتیاط اس بارے میں رکھی جائے۔

          ۷- طلبہ کی عیادت اور ضروری اعانت کا خاص خیال رکھنا۔

          ۸- مطالعہ کی تاکید کرنا، ناغہ سبق کے نقصانات گاہ بہ گاہ بیان کرنا۔

          ۹- قرآن شریف میں ہر ایک کا سبق خود سننا، دیگر جماعتوں میں باری باری سبق پڑھانا۔

          ۱۰- طلبہ کی شرارت وبے ادبی پر صبر وتحمل کا اہتمام چاہیے اوراس وقت کفار کے حالات کو سامنے رکھ کر اسوہٴ نبیِ اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کو سوچا جاوے، بعد شفاء غیظ مناسب طریقہ اصلاح کا تجویز کیا جائے۔

          ۱۱-کسی کے توجہ دلانے پر اپنی غلطی علمی یا عملی ظاہر ہو تو اس کا ممنون ہونا چاہیے، ظہور غلطی پر اس غلطی کی تلافی کی فکر کرنا چاہیے،اس سے عظمت بڑھتی ہے۔

          ۱۲- نماز باجماعت بلکہ تکبیرِ اولیٰ، تعدیلِ ارکان اور اوقاتِ مقررہ کی پابندی کی تلقین فرماتے رہنا، گاہ بہ گاہ نگرانی ازخود کرنا۔

          ۱۳- تعلیم المتعلّم یا رحمة المتعلّمین یا اشرف التفھیم کا مطالعہ رکھانا۔ (مجالس ابرابر، ص:۲۰۱، ج:۱)

          الغرض مدارسِ اسلامیہ سے تعلق رکھنے والے طبقہ کو گاہ بہ گاہ اپنا محاسبہ کرتے رہنے کی بھی ضرورت ہے اور علمِ محض کی سطح سے بلند ہوکر عملی میدان میں سبقت کو اختیار کرنا بھی لازم ہے، ہم لوگ امتِ مسلمہ کی حالت زار پر ترس کھائیں، اپنے مقام ومنصب کو ملحوظ رکھ کر خلوص کے ساتھ خدمت سمجھ کر اپنی ذمہ داری کو انجام دیں، جمود و تعطل کو یکسرختم کریں، ملتِ اسلامیہ کو جو اُمیدیں اور توقعات ہم سے لگی ہوئی ہیں، ان کو باحسنِ وجوہ پورا کرنے کے لیے ہم خدام اپنی راتوں کو زندہ کریں،اور اپنے بزرگانِ دین سے وابستگی قائم رکھیں، اس طریق سے ہم اپنی علمی مسافت طے کریں گے تو ان شاء اللہ منزل پر پہنچنا اور کامیاب و بامراد ہونا آسان ہوگا۔ اے اللہ تو جملہ خدامِ دین میں باہمی اعتماد و اتفاق پیدا فرما، تمام اسلامی مدارس اور دینی مراکز کی حفاظت فرما اور ان دینی درس گاہوں سے سچے باحوصلہ مخلص، جواں ہمت افراد پیدا فرما، دشمنانِ اسلام کی ناپاک سازشوں اور منصوبوں کو ناکام فرما، اورہماری اس معمولی کاوش کو اپنی رضا وخوشنودی کا ذریعہ بنا۔ آمین یا رب العالمین!

***

-----------------------------------

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ 8-9 ‏، جلد: 96 ‏، رمضان-ذیقعدہ 1433 ہجری مطابق اگست-ستمبر 2012ء