نبیِ وحدت ومساوات کی انقلاب آفرینی

 

از: مولانا شفیق احمد قاسمی ابوظہبی ”متحدہ عرب امارات“

 

سرور کائنات، فخرموجودات، رحمت عالم، ہادیِ اعظم محمد عربی  صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ اور حیاتِ مبارکہ کا ایک انقلاب آفریں کارنامہ یہ ہے کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے ایمان وتوحید اورآسمانی دستور وقانون کی بنیاد پر قائم ایک ایسا صالح اور جامع معاشرہ تشکیل فرمایا جس کا ہر فرد بتانِ رنگ وخوں کو توڑ کر ملت میں گم ہوچکا تھا اور دشمنانِ اسلام کے سامنے اسلامی وحدت ومساوات کی ایک ایسی چٹان کھڑی ہوگئی تھی، جس کے مضبوط پتھروں سے ٹکراکر معاندینِ اسلام پاش پاش ہوتے گئے اور بہت قلیل مدت میں وہ سبھی طاغوتی اور فرعونی طاقتیں جو قصر اسلام کو منہدم کرنے کی سرتوڑ کوششیں کررہی تھیں، نیست ونابود ہوکر صفحہٴ ہستی سے مٹ گئیں اور تاریخ کے اوراق پر صرف ان عبرت ناک انجام کی داستان باقی رہ گئی کہ دنیا میں کبھی روم وفارس کی دوزبردست سلطنتیں پائی جاتی تھیں جن کی قوت وطاقت کے ڈنکے بجتے تھے اور شوکت وسطوت کے پھریرے اڑتے تھے اور اقوامِ عالم ان کے زیر نگیں تھیں۔

          سیرة النبی  صلی اللہ علیہ وسلم کے اس انقلابی پہلو نے دانشورانِ یورپ وامریکہ اور مفکرانِ ہندوچین کو ششدرکررکھا ہے کہ آخر کیوں کر ایک عرب نژاد اُمیّ نے عربوں کے متحارب ومتصادم قبائل کو جو ایک دوسرے کے خون کے پیاسے رہا کرتے تھے اور قبائلی نخوت اور خاندانی تفاخر کو اپنا آبائی ورثہ گمان کرتے تھے ایک پرچم تلے ایک عقیدہ ونظریہ پر متحد کرکے قوت واستقامت کا پیکر بنادیا اور ان کی صدیوں پرانی تقلیدی روایات قَدْ وَجَدْنَا عَلَیْہِ آبَائَنَا کو اسلامی نظریہٴ توحید میں بدل دیا؛ یہاں تک کہ جو عرب اپنی ذاتی خواہشات، قبائلی روایات اور خاندانی امتیازات کے تابع ہوکر برسوں لڑتے مرتے اور کٹتے رہتے تھے، وہ اللہ کے لیے جینے اور مرنے لگے اور تمام امتیاز وتفاوت کو ترک کرکے انسانی مساوات اور اسلامی وحدت کا اعلیٰ ترین نمونہ بن گئے اور ایک ایسی آندھی بن کر آگے بڑھے کہ اس کے سامنے قیصر وکسریٰ بھی ھَبَاءً مَنْثُوْرًا (بکھرے ذرات) ہوکر اڑگئے اور افریقہ واندلس، چین وسندھ کے دوردراز علاقوں تک اسلامی پرچم لہرانے لگا اور فضائے کائنات میں اللہ اکبر، اللہ اکبر کی ہمہ دم صدائیں گونجنے لگیں۔

وحدت ومساوات کا پہلا منظر:

          آج ہم کو رسولِ کامل  صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ مبارکہ کے اسی پہلو پر غور کرنا ہے کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو شرعی قوانین واحکام کا پابند بنانے سے پہلے ان کے درمیان سب سے پہلے وحدت ومساوات پیدا کرنے پر کیوں اتنا زور دیا، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے کوہِ صفا سے جو اعلا کامیابی وکامرانی نشر فرمایا تھا، اس میں تمام لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا: یَا أیُّھَا النَّاسُ قُوْلُوْا لاَ الٰہَ الاّ اللہُ تُفْلِحُوْا اے لوگو! لاالٰہ الا اللہ کہو کامیاب رہوگے۔ آپ کاروئے سخن سردارِ قریش کی طرف تھا اور غلامانِ عرب کی جانب بھی آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اعلان میں امیہ بن خلف کو بھی مخاطب کیاتھا اور بلالِ حبشی کو بھی پیغام دیا تھا، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے مردوں کو مخاطب فرمایا تھا اور عورتوں کو بھی شامل کیا تھا۔ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے جوانوں کو بھی دعوت دی تھی اور بچوں کو بھی پکارا تھا، یہ پہلا اعلانِ حق جو سرعام کیاگیا تھا رسولِ کائنات  صلی اللہ علیہ وسلم کے دعوتی مشن کی ہمہ گیری اورآ پ کی رحمة للعالمینی کا اظہار تھا، اسی کے ساتھ اس دعوت کو اول اول جن لوگوں نے قبول کیا اور انسانی مساوات کا پہلا نمونہ دنیا کے سامنے آیا ان افراد میں ابوبکر صدیق آزاد وسردار تھے، تو حضرت خدیجة الکبری آزاد ومالدار تھیں، حضرت زید بن حارثہ غلام تھے، تو حضرت علی بن طالب بچے تھے، اس کے بعد ایک جماعت آئی جن میں یاسروسمیہ اور عمار وخباب بن ارت، بلال حبشی رضی اللہ عنہم جیسے نادار وکمزور اور غلام افراد تھے، تو طلحہ بن عبیداللہ، عثمان بن عفان، ابوعبیدہ بن الجراح، عبدالرحمن بن عوف، حمزہ بن عبدالمطلب، زید بن ارقم رضی اللہ عنہم جیسے آزاد اصحابِ ثروت اور خوش حال تجار تھے، پھر بہت تیزی سے مکہ کے کمزروں، غلاموں، سنجیدہ وباوقار آزاد لوگوں میں اسلام اپنی جگہ بنانے لگا جو بھی دائرہ اسلام میں داخل ہوتا تمام مشرکانہ جاہلی رسومات وعادات کو توڑ کر ملتِ واحدہ کے سمندر کا حصہ بن جاتا تھا۔ زیادہ دن نہیں گذرا تھا کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ جیسا جری و بے باک نوجوان بھی حلقہ بگوشانِ اسلام ہوگیا۔ حضرت عمر کا قبولِ اسلام، ایک نئی طاقت ثابت ہوا، ابوجہل کے تمرد وسرکشی اور عناد کا صحیح جواب عمر ہی تھے، آپ نے پہلا قدم یہ اٹھایا کہ مسلمانوں کو خوف وہراس کے ماحول سے نکالا، عرض کیا: یا رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم اگر ہم حق پر اور مشرکین باطل پر ہیں تو پھر حق دب کر چھپ کر رہے اور باطل آزاد پھرے، کیسے ہوسکتا ہے؟ ہم کھلم کھلا حرمِ پاک میں نمازیں ادا کریں گے اور اس وقت مشرکینِ مکہ نے اسلامی وحدت اورانسانی مساوات کا دلآویز نظارہ دیکھا کہ ابوبکر صدیق وعمر فاروق، حمزہ وطلحہ کے قدم بقدم شانہ بشانہ عمار ویاسر اور بلال، صہیب وزید بن حارثہ رضی اللہ عنہم حرم شریف میں داخل ہوتے ہیں، ایک ساتھ ایک صف میں کھڑے ہوتے ہیں، ایک ساتھ رکوع وسجدہ کرتے ہیں یہ رسولِ کائنات  صلی اللہ علیہ وسلم کے عالم گیر انقلاب ومساوات کا نقشِ اولیں تھا، ابھی اس انقلاب کو وسیع سے وسیع تر ہوکر پوری دنیا میں عام ہونا تھا، مکہ کی سنگلاخ زمین کے سنگ دل باشندوں میں تحریک وحدت ومساوات کی یہ کامیابی ابھی رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے بین الاقوامی مشن دعوت وہدایت کی ابتداء تھی۔

انسانی مساوات کی بنیاد:

          آں حضور  صلی اللہ علیہ وسلم نے گروپوں، فرقوں، قبیلوں، خاندانوں میں منقسم عربوں کو ایک ایسی دعوت دی تھی جس میں رنگ ونسل اور نسب وحسب پر تفاخر، اور قبیلہ وخاندان کے امتیاز و تفوق کی کوئی گنجائش نہیں تھی، سب کو انسانی مساوات کا درس دیا جارہا تھا کہ تمام لوگ آدم کی اولاد ہیں اور آدم کی تخلیق مٹی سے ہوئی تھی کسی عربی کو کسی عجمی پر یا کسی گورے کو کسی کالے پر کوئی برتری نہیں ہے؛ مگر تقویٰ وپرہیزگاری کے ذریعہ، جیسا کہ ارشاد نبوی ہے اَلنَّاسُ بَنُوْا آدمَ وَآدمُ خُلِقَ مِنْ تُرَابٍ لاَفَضْلَ لِعَرَبِیٍ عَلیٰ عَجَمِیٍّ الاّ بِالتَّقْویٰ (ترمذی) ایک دوسری حدیث میں مزید وسعت کے ساتھ فرمایا:

          اَلنَّاسُ کُلُّھُمْ بَنُوْا آدمَ وَ آدمُ مِنْ تُرَابٍ لاَ فَضْلَ لِعَربِیٍ عَلیٰ عَجَمِیٍّ وَلاَ لِعَجَمِیٍ عَلیٰ عَرَبِیٍ وَلاَ لِأبْیَضَ عَلیٰ أسْوَدَ وَلاَ لِأسْوَدَ عَلیٰ أبْیَضَ الاَّ بِالتَّقْویٰ (مشکوٰة باب المفاخرہ والعصبہ ۴۱۷، زاد المعاد :۴/۲۲)

تمام لوگ آدم کی اولاد ہیں اورآدم مٹی سے بنے تھے کسی عربی کو کسی عجمی پر اور کسی عجمی کو کسی عربی پر اور کسی گورے کو کسی کالے پر اور کسی کالے کو گورے پر کوئی برتری وفضیلت حاصل نہیں اگر فضیلت ہے تو تقویٰ وپرہیزگاری سے۔

          خالقِ کائنات نے اس دنیا کو ایک جان سے آباد کرکے اس کی نسل درنسل اولاد کو ہر جگہ آباد کیا ان میں تعارف وتعاون اور قرابت کے لیے خاندان اور قبیلوں میں تقسیم کیا، مختلف خطوں کے افراد واشخاص کے رنگ وروپ میں فرق رکھا ؛ اس لیے کہ ان سب کی حقیقت نسل وتولید کے اعتبار سے اس باپ سے ہے جو مٹی سے بنائے گئے اور اللہ تعالیٰ نے مٹی کو الگ الگ رنگ وخاصیت کا بنایا ہے، کہیں کی مٹی سیاہ ہے تو کسی علاقہ کی مٹی سرخ ہے، کسی مقام کی مٹی زرد ہے، تو کسی جگہ کی مٹی سفیدی مائل ہے، کوئی مٹی سخت ہے تو کوئی بھربھری، ان سب کے مجموعہ اور خمیر سے حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق ہوئی، اس نکتہ وحکمت کو رسولِ حکمت وموعظت، رحمت عالم  صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جملہ ”وَآدمُ خُلِقَ مِنْ تُرَابٍ“ سے بیان فرمایا ہے اور اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا:

          یَا أیُّھَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْھَا زَوْجَھَا وَبَثَّ مِنْھُمَا رِجَالاً کَثِیْرًا وَنِسَاءً وَاتَّقُوا اللہَ الَّذِیْ تَسَاءَ لُوْنَ بِہ وَالْأرْحَامَ انَّ اللہَ کَانَ عَلَیْکُمْ رَقِیْباً(سورة النساء:۱)

اے لوگو! تم اپنے اس پروردگار سے ڈرو جس نے تم کو ایک جان (آدم) سے پیدا کیا اور اسی سے اس کی بیوی (حوا) کو پیدا کیا اور ان دونوں (کے اختلاط) سے بہت سے مردوں اور عورتوں کو پھیلایا اور ڈرو اس اللہ سے جس کے واسطہ سے تم ایک دوسرے سے سوال کرتے ہو اور رشتہ داریوں (کو قطع کرنے) سے ڈرو، بیشک اللہ تم سب پر نگراں ہیں۔

          یَا أیُّھَا النَّاسُ انَّا خَلَقْنَاکُمْ مِنْ ذَکَر وَاُنْثٰی وَجَعَلْنَاکُمْ شُعُوْباً وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوْا انَّ أکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللہِ أتْقَاکُمْ (سورة الحجرات:۱۳)

اے لوگو! ہم نے تم کو ایک نر اور مادہ (آدم وحوا علیہما السلام) سے پیدا کیا اور تم کو مختلف قوموں اور خاندانوں میں بنایا؛ تاکہ ایک دوسرے کو شناخت کرسکو، یقینا اللہ کے نزدیک تم سب میں سب سے زیادہ معزز اللہ کے نزدیک وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا ہے۔

عہدِفساد میں اعلانِ مساوات:

          رسولِ عربی نبی امی صلوات اللہ علیہ وسلامہ نے فرمایا: الرَّبُ واحدٌ والأب واحدٌ (کہ پروردگار بھی ایک ہے اور باپ بھی سب کے ایک ہیں) کی بنیاد پر انسانی وحدت ومساوات کا اصول وقاعدہ اس تاریک ترین اور پرآشوب دور میں عطا کیاتھا، جس کو رب العالمین نے عہدِ فساد سے تعبیر فرمایا ہے، اس فسادِ عام کے سبب امنِ عالم مفقود اور انسان امن وانصاف سے محروم تھا، ایک رب کو چھوڑ کر ہزاروں معبود کی پرستش ہونے اور ایک باپ کی حقیقت کو فراموش کرکے مختلف طبقوں میں بٹنے کی وجہ سے اونچ نیچ کا طبقاتی نظام رائج ہوگیا تھا؛ لہٰذا ہر طرف انتشار، بدامنی، انارکی، درندگی پھیلی تھی۔ ”اسلام کا نظامِ امن“ کے مصنف حضرت مفتی محمد ظفیرالدین صاحب سابق مفتی دارالعلوم دیوبند اس تاریک دور پر اس انداز سے روشنی ڈالتے ہیں:

          بعثتِ نبوی  صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے دنیا ظلمت وضلالت کے سمندر میں غرق تھی، چھٹی صدی عیسوی تاریخ کا تاریک ترین دور ہے جس میں انسانیت دم توڑچکی تھی۔ انسانوں کی بستی تھی، مگر انسانی مجدوشرف سے تہی دامن ہوچکی تھی۔ انسان اپنی ہی خود ساختہ غلط بنیادوں پر بے شمار ٹولیوں میں بٹا ہوا تھا، جس طرح سب نے الگ الگ اپنا خدا گھڑ رکھا تھا، اسی طرح ہر ایک نے اپنے اپنے قبیلہ کی حکومت بھی علیحدہ بنارکھی تھی۔ عرب میں لڑائی عموماً قبیلہ کے نام پر ہوا کرتی تھی پھر اس کا سلسلہ برسہا برس چلتا تھا، مختصر یہ کہ پورا ملک خونریزی، غارت گری، سفاکی اور نہ ختم ہونے والی جنگ کی زنجیروں میں جکڑا ہوا تھا۔

          پھر بیرونِ عرب یہ حقائق تھے کہ آریوں نے طاقت پاکر غیرآریوں کو پامال کیا، برہمنوں اور چھتریوں نے شودروں کو غلام بنایا، رومیوں نے افریقیوں پر غلبہ پاکر ان کو معاف نہیں کیا، یونانیوں نے ایرانیوں کو کمزور پاکر خونریزی کی، گاتھ اور گال نے بھی یہی کیا۔ فرعونِ مصر نے خدائی کا دعویٰ کرکے کونسا ظلم ہے جو نہیں ڈھایا اور آج بھی یورپ نسلی منافرت کے دام میں گھرا ہوا ہے ، کالے گورے کے عفریت وہاں زندہ ہیں۔

          یہ تاریخی شہادتیں ہیں کہ انسان ان خرافات میں مبتلاء ہوکر امن وامان کھوچکا تھا اورانسانی جان کی قدر وقیمت بھول چکا تھا، اسلام نے ضروری سمجھا کہ ان کے نظریہ میں مکمل انقلاب برپا کیا جائے اور انسانی رشتے مضبوط کیے جائیں؛ تاکہ انسانی خون کی قدر وقیمت لوگوں کے دلوں میں جاگزیں ہو۔ انسانی عزت وکرامت اجاگر ہو اور انسانی ملکیت کا احترام دلوں میں قائم ہوجائے۔ (اسلام کا نظامِ امن ص۲۷)

          رومیوں کے بارے میں مفکرِ اسلام مولانا علی میاں ندوی ”انسائیکلوپیڈیا آف برناٹیکا“ کے مصنف کا اقتباس نقل کرتے ہیں:

          روم کی مشرقی ریاست میں اجتماعی بدنظمی انتہا کو پہنچ گئی تھی، باوجود اس کے عام رعایا بے شمار مصائب کا شکار تھی، ٹیکس اورمحصول دوگنے چوگنے بڑھ گئے تھے، جس کا نتیجہ یہ تھا کہ ملک کے باشندے حکومت سے نالاں تھے اور اپنے ملک کے حکمرانوں پر بدیسی حکومتوں کو ترجیح دیتے تھے۔ اجارہ داریاں اور ضبطیاں مصیبت بالائے مصیبت تھیں، ان اسباب کی بنا پر بڑے پیمانہ پر فسادات اور بغاوتیں رونماہوئیں؛ چنانچہ ۵۳۲ھ کے فساد میں تیس ہزار افراد دارالسلطنت میں ہلاک ہوئے۔ (مسلمانوں کا عروج وزوال کا اثر ص۴۲)

          اور ایران کے حالات کے بارے میں ایران بہ عہد ساسان کے حوالے سے رقم طراز ہیں:

          اونچ نیچ کا فرق، طبقوں کا تفاوت اور پیشوں کی تقسیم، ایرانی سوسائٹی اور نظامِ زندگی کا اٹل قانون تھا، جس میں ردوبدل ممکن نہیں تھا۔ (انسانی دنیا پر مسلمانوں کے عروج وزوال کا اثر ص۵)

          اور ہندوستان کے طبقاتی نظام کے بارے میں مَنوسمرتی کے حوالے سے موٴرخِ اسلام اکبرشاہ نجیب آبادی ”نظامِ سلطنت“ میں رقم طراز ہیں:

          دنیا میں برہمن سب سے افضل ہے برہمن دھرم کی مورت، نجات کا مستحق، دھرم کا محافظ ہے دنیا میں جو کچھ ہے برہمنوں کے لیے ہے برہمن کا کام وید پڑھنا، دان لینا، چھتری کا کام رعایا کی حفاظت کرنا، دان دینا، ویش کا کام ہے چوپایوں کی حفاظت کرنا، تجارت وکھیتی کرنا اور شودر کا کام ہے مذکورہ بالا تینوں کی خدمت کرنا۔ برہمن کا حق ہے کہ وہ غلام شودر سے دولت چھین لے اگر کوئی شودر کسی کا نام لے کر بلند آواز سے کہے تو فلاں برہمن سے نیچ ہے، اس کے منھ میں گرم آہنی سیخ ڈال دی جائے۔

          اس جیسے غیرانسانی وغیر فطری ظالمانہ دستور و قانون کا ملغوبہ ہے منوسمرتی جس کے مصنف منومہاراج ہیں، طبقاتی نظام کے باعث فتنہ وفساد، ظلم و ستم کا ایک تاریک ترین بھیانک دور تھا۔

اصولِ وحدت ومساوات:

          محمد عربی  صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے عہد فساد اور دورفتن میں انسانی مساوات اور وحدت کا جو پیغام نشر کیاتھا، اس کا اصول و دستور انسانی فکر وخیال کو نہیں بنایا؛ بلکہ خالقِ کائنات کے عطا کردہ دستور وضابطہ قرآن مجید کو بنایا؛ اس لیے کہ وہی ایک ایسا اصول وضابطہ ہے جو انسانی فطرت کی مکمل رعایت کرتا ہے، اگر انسانوں کے وضع کردہ قوانین کو اصول مان لیا جائے تو اختلاف فکر کا پایاجانا لازم ہے؛ کیوں کہ ہر آدمی کی اپنی سوچ اور فکر ہوتی ہے، نظریات وخیالات میں فرق ہوتا ہے اور اسی سبب سے اختلاف پیدا ہوتا ہے، دنیا میں جو بھی فساد عقیدہ اور فساد اخلاق تھا، انسان کے کسی خودساختہ اصولوں کے باعث تھا۔ ”اسلام کا نظامِ امن“ کے مصنف مفتی محمد ظفیرالدین صاحب مفتاحی کتاب کے آغاز میں تحریر کرتے ہیں:

          یہ سب جانتے ہیں کہ اسلام کا مکمل آئینِ زندگی دنیا میں اس وقت آیا تھا، جب دنیا بربادی کے انتہائی نقطہ پر پہنچ چکی تھی، انسان اپنی انسانیت کھوچکا تھا اور پوری دنیا سے امن وامان کا نام حرفِ غلط کی طرح مٹ چکا تھا۔

          پیغمبرِ اسلام  صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نازک موقع پر انسانوں کی جس طرح رہنمائی کی اور انسانیت کے تنِ مردہ میں جس خوبی سے جان ڈالی وہ تاریخ کا ایک تابناک باب ہے اور یہ کیوں نہ ہوتا؛ جبکہ خود رب العالمین کی نگرانی میں یہ سب کچھ ہورہا تھا، خالق سے بڑھ کو مخلوقات اور کائنات انسانی کا جاننے والا اوراس کی نفسیات سے واقف دوسرا کون ہوسکتا ہے؟ جس کی نگاہ میں پوری کائنات کا ایک ایک ذرہ ہوتا ہے۔ اگر تاریخ کو سامنے رکھ کر تجزیہ کریں گے تو آپ کو ماننا پڑے گا کہ امن وامان کو جو چیز تباہ کرتی ہے، وہ انسان کی تنگ نظری ہے کوئی مذہب کے نام پر تلوار اٹھاتا ہے، کوئی رنگ ونسل کے نام پر معرکہ آرائی کے لیے میدانِ کارزار گرم کرتا ہے، کوئی وطن اور ملکی حدود کے تعصب میں مبتلاء ہوکر انسانی خون سے ہولی کھیلتا ہے۔ (اسلام کا نظام امن ص۲۶)

          اس لیے سب کور نگ ونسل وطن وعلاقہ، خاندان وقبیلہ، عرب وعجم، روم وفارس، ہندو چین کے نسلی، خاندانی، علاقائی محدود دائرہ سے نکال کر اخوت و وحدت کی لڑی میں پرونا اور ایک فکر وعقیدہ پر ایک صف میں شانہ بشانہ کھڑا کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کی شکل میں فطرتِ انسانی سے ہم آہنگ آسمانی دستور نازل فرمایا اوراس کو مضبوطی سے تھامنے کا حکم دیا، قرآنی دستور چونکہ خالقِ کائنات کا وضع کردہ ہے؛ اس لیے اس میں کسی قسم کے تغیروتبدل کا امکان نہیں، وہ زمانہ کے گذرنے سے نہ فرسودہ ہوگا، نہ اس کی تازگی اور اثر آفرینی میں مرورِ زمانہ سے فرق آئے گا، اللہ رب العزت نے اسی ابدی دستور کو اساس بناکر مسلمانوں سے ملّی واسلامی اتحاد قائم کرنے اور تفرقہ بازی سے دور رہنے کا حکم دیا ہے، نیز عربوں کی قدیم عداوت ونفرت اور آپسی اختلافات کا تذکرہ فرماکر اپنے انعام واحسان کو یاد دلایا ہے کہ ہم نے تم کو کس طرح ایک اصول وضابطہ کے تحت بھائی بھائی بنادیا۔

          وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللہِ جَمِیْعاً وَلاَ تَفَرَّقُوْا وَاذْکُرُوا نِعْمَةَ اللہِ عَلَیْکُمْ اذْ کُنْتُمْ أعْدَاءً فَألَّفَ بَیْنَ قُلُوْبِکُمْ فَأصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِہ اخْوَاناً وَکُنْتُمْ عَلیٰ شَفَا حُفْرَةٍ مِنَ النَّارِ فَأنْقَذَکُمْ مِنْھَا (سورة آل عمران۳۰ آیت نمبر۱۰)

          اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ میں مت پڑو اور یاد کرو اپنے اوپر اللہ کی نعمت کو جب کہ تم باہم دشمن تھے تو اللہ تعالیٰ نے تمہارے دلوں کو جوڑ دیا، لہٰذا تم بھائی بھائی بن گئے اور تم ہلاکت کے دہانے پر تھے تو اللہ نے تم کو اس سے بچالیا۔

اولین اسلامی معاشرہ کے اوصاف:

          رسولِ اکرم محسن اعظم محمد عربی  صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلامی وحدت وانسانی مساوات پر مبنی جو اسلامی معاشرہ تشکیل فرماکر دنیائے انسانیت کو اسلام کے دینِ فطرت ہونے کا اعلیٰ ترین نمونہ دکھایا تھا اس معاشرہ پر مفکرِ اسلام سید ابوالحسن علی ندوی اپنے خاص اسلوب میں روشنی ڈالتے ہیں:

          آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سطح سے کام شروع کیا جہاں حیوانیت کی انتہا اور انسانیت کی ابتداء ہوتی تھی اور اس اعلیٰ سطح تک پہنچادیا جو انسانیت کی انتہائی منزل ہے اور جس کے بعد نبوت کے سوا کوئی اور درجہ نہیں اور جسے محمد رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ ختم کردیاگیا۔

          امتِ محمدیہ کا ہر فرد اپنی ذات سے ایک مستقل معجزہ ، نبوت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی تھا، دنیا کے اگر تمام ادیب جمع ہوکر انسانیت کا کوئی بلند ترین نمونہ پیش کرنے کی کوشش کریں تو ان کا تخیل اس بلندی تک نہیں پہنچ سکتا، جہاں واقعاتی زندگی میں وہ لوگ موجود تھے جو آغوشِ نبوت کے پروردہ اور تربیت یافتہ تھے اور جو درس گاہِ محمدی سے فارغ ہوکر نکلے تھے ان کا قوی ایمان، ان کا عمیق علم، ان کا خیر پسند دل، ان کی ہر تکلف اور ریاء ونفاق سے پاک زندگی، انانیت سے ان کی دوری، ان کا خوفِ خدا، ان کی عفت وپاکیزگی اور انسان نوازی، ان کے احساسات کی نزاکت ولطافت، ان کی مردانگی وشجاعت، ان کا ذوقِ عبادت اور شوقِ شہادت، ان کی دن کی شہسواری اور راتوں کی عبادت گذاری، متاعِ دنیا اور آرائش زندگی سے بے نیازی، ان کی عدل گستری، رعایا پروری اور راتوں کی خبرگیری، اگلی امتوں اور تاریخ میں ان کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔

          انھیں اینٹوں سے اسلامی معاشرہ کی عمارت بنی تھی اوراسلامی حکومت انھیں بنیادوں پر قائم ہوئی تھی یہ معاشرت وحکومت اپنی فطرت میں ان افراد کے اخلاق و نفسیات کی بڑی صورتیں اور تصویریں تھیں اور ان افراد ہی کی طرح ان سے بنا ہوا معاشرہ بھی صالح، امانت دار دنیا پر آخرت کو ترجیح دینے والا، اس معاشرے کے اقدار میں تاجر کی صداقت وامانت، ایک محتاج کی سادگی ومشقت، ایک عامل کی محنت وخیرخواہی، ایک غنی ومال دار کی سخاوت وہمدردی، ایک قاضی کا انصاف اور معاملہ فہمی، ایک والیِ ملک کا اخلاص و امانت داری، ایک رئیس کی تواضع ورحم دلی، ایک وفادار خادم کی قوتِ کار اور ایک امانت دار محافظ کی نگرانی ونگہبانی جمع تھی۔ (مع تلخیص از منصبِ نبوت ص۱۷۹-۱۸۱)

          اللہ رب العزت نے اس اولیں معاشرے کے افراد اصحابِ رسول عربی  صلی اللہ علیہ وسلم کے تعارف میں ارشاد فرمایا ہے:

          مُحَمَّدُ رَّسُوْلُ اللہِ وَالَّدِیْنَ مَعَہ أشِدَّاءُ عَلی الْکُفَّارِ رُحَمَاءُ بَیْنَھُمْ تَرَاھُمْ رُکَّعاً سُجَّدًا یَبْتَغُونَ فَضْلاً مِنَ اللہِ وَرِضْوَاناً سِیْمَاھُمْ فِیْ وُجُوھِھِمْ مِنْ أثَرِ السُّجُوْد (سورہ فتح۲۹)

محمد اللہ کے رسول ہیں اور جولوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کفار پر بہت بھاری اور آپس میں بہت نرم دل ہیں تم ان کو دیکھوگے رکوع کرتے ہوئے سجدہ کرتے ہوئے وہ اللہ کا فضل اور اس کی رضا تلاش کررہے ہیں، ان کی علامتیں ان کے چہروں سے نمایاں ہیں سجدوں کے اثر سے۔

          ایک دوسرے مقام پر فرمایا:

          رِجَالٌ لاَ تُلْھِیْھِمْ تِجَارَةٌ وَلاَ بَیْعٌ عَنْ ذِکْرِ اللہ

(ایسے لوگ ہیں جن کو اللہ کے ذکر سے نہ تجارت روکتی ہے نہ خریدوفروخت)

          خود ان نفوسِ قدسیہ کی پرورش اور تربیت کرنے والے، معلمِ انسانیت، پیکرِ رحمت ورافت محمد عربی  صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب کے بارے میں فرمایا:

          مِثْلُ الْمُوٴمِنِ کَالبُنْیَانِ یَشُدُّ بَعْضُھُمْ بَعْضاً ثُمَّ شَبَکَ یَدَیْہِ (بخاری ومسلم)

مسلمانوں کی مثال عمارت کی طرح ہے، جس کا ہر فرد ایک دوسرے کو مضبوط کیے ہوئے جوڑے ہوئے ہے، پھر آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کو ایک دوسرے میں پیوست کرکے دکھایا۔

جاہلی عصبیت پر زد:

          آں حضور  صلی اللہ علیہ وسلم نے اخوت ومحبت اور وحدت ومساوات کی روح کو فنا کرنے اور انسانوں کو مختلف خانوں میں تقسیم کرنے والے جاہلی تفاخر اور انساب پر غرور کو بالکل ختم کردیا فرمایا:

          وہ قومیں جو اپنے مردہ آباء واجداد پر فخر کرتی ہیں ان کو اس سے باز آنا چاہیے وہ تو جہنم کا کوئلہ بن چکے ہیں یا پھر اللہ کے نزدیک اس کیڑے سے بھی بدتر وحقیر ہیں جو اپنی ناک سے نجاست کو دھکیلتا ہے اللہ تعالیٰ نے قطعی طور پر تم سے جاہلی عصبیت اور باپ دادا پر فخر کرنے کو مٹادیا۔ (باب المفاخرت مشکوٰة شریف ۴۱۷)

          جاہلی عصبیت وانانیت کی مذمت کرتے ہوئے فرمایا:

          لَیْسَ مِنَّا مَنْ دَعَا الیٰ عَصبِیَّة وَلَیْسَ مِنَّا مَنْ قَاتَل عَصَبِیَّةً وَلَیْسَ مِنَّا مَنْ مَاتَ عَصَبِیَّةً(رواہ ابوداؤد)

جس نے عصبیت کی دعوت دی وہ ہم میں سے نہیں ہے اور جس نے عصبیت کے باعث قتال کیا وہ ہم میں سے نہیں ہے اور جو عصبیت میں مبتلا ہوکر مرا وہ ہم میں سے نہیں ہے۔

          اسلامی معاشرہ کے جذبہ تعاون وتراحم کو قائم رکھنے اور بداعتمادی وبدگمانی کو ختم کرنے کی وہ تمام ترکیبیں فراہم کردیں جس کی طرف کوئی انسانی ذہن نہیں جاسکتا اور اس کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت و تابعداری اوراختلافات وتنازعات سے دور رہنے کی تاکید نیز بدظنی رکھنے، کسی کی ٹوہ میں پڑنے اور غیبت کرنے، پڑوسیوں کے حقوق سلب کرنے، مسلمانوں پر ظلم وستم ڈھانے کو گناہِ کبیرہ قرار دیا اور مسلمانوں سے ہمدردی رکھنے، تعاون کرنے، مصائب ومشکلات میں مدد کرنے کو اجرِ عظیم کا باعث فرمایا، ذرا ان آیات واحادیث کو ملاحظہ کریں کس طرح ہدایات دی جارہی ہیں:

          اَطِیْعُو اللہَ وَرَسُوْلَہ وَلاَ تَنَازَعُوْا فَتَفْشَلُوا وَتَذْھَبَ رِیْحُکُمْ وَاصْبِرُوا انَّ اللہَ مَعَ الصَّابِرِیْن(سورہ انفال۴۶)

اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور تنازع میں مت پڑو ورنہ ناکام ہوجاؤگے اور تمہاری ہوا اکھڑجائے گی (دشمنوں سے مقابلہ کے وقت) صبر سے کام لو بیشک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔

بدگمانی سے بچو:

          یَا أیُّھَا الذین آمنوا اجتنبوا کثیراً من الظن ان بعض الظن اثم لا تجسسوا ولا یغتب بعضکم بعضاً أیحب احدکم أن یاکل لحم اخیہ میتاً فکرھتموہ واتقوا اللہ أن اللہ تواب رحیم (سورة الحجرات ۱۲)

اے ایمان والو! بہت زیادہ بدگمانی کرنے سے بچو کیونکہ بعض بدگمانی گناہ ہے اور ٹوہ میں مت رہو اور نہ تم میں کا کوئی کسی کی غیبت کرے، کیا تم میں سے کوئی گوارہ کرے گا کہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے تو تم ناپسند کرو، اللہ سے ڈرو بیشک اللہ توبہ قبول کرنے والا رحم کرنے والا ہے۔

          اور اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

          اِیَّاکُمْ وَالظَّنَ فَانَّ الظَّنَّ أکْذَبُ الْحَدِیْثِ لاَ تَحَسّسُوا وَلاَ تَجَسَّسُوا وَلاَ تَحَاسَدُوا وَلاَ تَباغَضُوا ولاَ تَدَابَرُوا وَکُوْنُوْا عبادَ اللہِ اخْوَاناً (بخاری ومسلم)

تم بدگمانیوں سے دور رہو کیونکہ بدگمانی سب سے بڑا جھوٹ ہے، نہ کسی کی ٹوہ میں پڑو اور نہ کسی کی جاسوسی کرو اور نہ آپس میں حسد رکھو، نہ بغض وکینہ اور نہ ایک دوسرے سے رُخ پھیرے رہو اللہ کے بندو! بھائی بھائی بن کر رہو۔

حسن ظن کا درجہ:

          حُسْنُ الظَّنِ مِن حُسْنِ الْعِبَادَةِ (رواہ احمد وابوداؤد) حسن ظن بہترین عبادت ہے۔

پڑوسیوں کا خیال رکھو:

          آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ شخص بہ خدا مومن نہیں ہے (تین مرتبہ یہ جملہ فرمایا) صحابہ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول کون؟ فرمایا جس کا پڑوسی اس کے شر سے محفوظ نہیں ہے۔ (بخاری ومسلم)

          نیز فرمایا: لَیْسَ الْمُوٴْمِنُ بِالَّذِیْ یَشْبَعْ وَجَارُہ جَائِعٌ الیٰ جَنْبِہ (مشکوٰة باب الشفقہ)

وہ شخص مومن نہیں جو پیٹ بھرکر کھالے اور اس کے بغل میں اس کا پڑوسی بھوکا رہ جائے۔

جذبہٴ اخوت و تعاون کی آبیاری:

          اَلْمُسْلِمُ أخُو الْمُسْلِمِ لاَ یَظْلِمُہ وَلاَ یُسَلِّمُہ مَنْ کَان فِیْ حَاجَةِ أخِیْہِ کَانَ اللہُ فِی حَاجَتِہ وَمَنْ فَرَّحَ عَنْ مُسْلِمٍ کَرْبَةً فَرَّحَ اللہُ عَنْہُ کَرْبَةً مِنْ کرَبَاتِ یَوْمِ الْقِیَامَةِ (بخاری ومسلم)

مسلمان مسلمان کا بھائی ہے نہ اس پر ظلم کرتا ہے اور نہ اس کو بے یارومددگار چھوڑتا ہے جس نے اپنے بھائی کی ضرورت پوری کی اللہ اس کی ضرورت پوری کرے گا اور جس نے اپنے بھائی سے کسی تکلیف کو دور کیا قیامت کی تکالیف میں سے کوئی تکلیف اللہ اس سے دور کرے گا۔

          اسی طرح وحدت ومساوات اور محبت واخوت کے ماحول کو زہریلا کرنے اور نفرت پھیلانے، دشمنی پیدا کرنے کی ایک ناپسندیدہ حرکت کسی کا تمسخر ومذاق کرنا ہے کسی کو برے القاب سے یاد کرنا ہے اسلام نے اس کو انتہائی ناپسندیدہ عمل قرار دیا ہے اور یہ احساس دلایا ہے کہ جس کو تم حقیر و ذلیل جان کر مذاق کا نشانہ بناتے ہو یا اس کو برے القاب دے کر رسوا کرتے ہو، ہوسکتا ہے کہ وہ اپنے اچھے عمل کی وجہ سے اللہ کے نزدیک ان مذاق اڑانے اور استہزاء کرنے والوں سے بلند مرتبہ پر ہو۔ سورہ حجرات میں ارشادِ خداوندی ہے:

          انما المومنون اخوة فاصلحوا بین أخویکم واتقوا اللہ لعلکم ترحمون یا ایھا الذین آمنو لا یسخر قوم من قوم عسیٰ أن یکونوا خیراً منھم ولا نشاءٌ من نساءٍ عسیٰ أن یکن خیراً منھن ولا تلمزوا انفسکم ولا تنابزوا بالالقاب (سورة الحجرات۱۱)

تمام مسلمان بھائی بھائی ہیں تو اپنے دو بھائیوں کے درمیان صلح کرادو (اگر اختلاف پیداہو) اور اللہ سے ڈرتے رہو شاید تم پر رحم کیا جائے، اے ایمان والو! کوئی جماعت کسی قوم کا تمسخر نہ کرے ممکن ہے وہ لوگ تمسخر کرنے والوں سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں دوسری عورتوں کا مذاق اڑائیں ممکن ہے کہ وہ مذاق اڑانے والیوں سے بہتر ہوں اور نہ اپنوں کی عیب جوئی کرو، نہ برے القاب سے مخاطب کرو۔

          ایسے جامع اصول وقوانین کا پابند معاشرہ ہی وحدت ومساوات اور محبت ورافت، رحم دلی وخیرخواہی، ہمدردی وغمگساری اور ایک دوسرے کی نصرت واعانت کا اعلیٰ ترین نمونہ ہوسکتا ہے یہی اسلامی وحدت ومساوات ہی وہ قوت وطاقت تھی، جس کے سامنے دشمن کی کوئی فوج نہ ٹک سکی، اسی مساواتِ اسلامی کا اثر تھا کہ غزوئہ موتہ میں ایک آزاد کردہ غلام زید بن حارثہ سپہ سالار اعظم بنائے گئے اور مرض الوفات میں اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم نے جو لشکر روانہ فرمایا تھا اس کے سپہ سالار اسامہ بن زید بن حارثہ تھے، جن کے ماتحت ابوبکر وعمر، عثمان وعلی سمیت تمام کبار صحابہ تھے، یہی اسلامی مساوات کارفرماتھی کہ فتحِ مکہ کے دن سیدنا بلال حبشی بیت اللہ شریف کی چھت پر کھڑے ہوکر اذانِ توحید دے رہے تھے اور مشرکین کے بعض سردار احساسِ ذلت سے کہہ رہے تھے کہ کاش میں اس منظر کو دیکھنے سے پہلے مرچکا ہوتا، اسی اسلامی وحدت ومساوات کو دل سے قبول کرنے کا نتیجہ تھا کہ فاتحِ شام اس امت کے امین حضرت ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے:

اے لوگو! میں ایک قریشی انسان ہوں اور تمہارا کوئی بھی فرد جوتقویٰ میں مجھ سے فائق ہو خواہ سرخ ہو یاسیاہ فام میں اس جیسا بننا پسند کروں گا (اشہر مشاہیر الاسلام :۳/۵۱۴)۔

          آج دنیا میں مسلمانوں کو جو بھی مسائل درپیش ہیں یا ان کو دشمنانِ اسلام کی جن سازشوں، تحریکوں کا سامنا ہے اور ان کا توڑ نہیں کرپارہے ہیں تو اس کا سبب یہ ہے کہ ہماری وہ مثالی وحدت باقی نہیں رہی جو قوت وطاقت کا سرچشمہ تھی جس طرح قرونِ اولیٰ کے مسلمانوں نے بتانِ رنگ و خون کو توڑ کر اپنے کو ملت میں گم کردیا تھا اورسیسہ پلائی دیواربن گئے، آج انھیں کے جانشین مسلمان فرقوں، گروپوں، جماعتوں میں تقسیم ہیں، قومیت ووطنیت، علاقائیت اور خاندانی انانیت کا شکار ہیں۔ علامہ اقبال کا یہ پیغام اور ان کا منتشر بکھرے مسلمانوں پر طنز کتنا گہرا ہے:

بتانِ رنگ وخوں کو توڑ ملت میں گم ہوجا

نہ تورانی رہے باقی نہ ایرانی نہ افغانی

***

-----------------------------------------------

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ 10-11 ‏، جلد: 96 ‏، ذی الحجہ 1433 ہجری‏، محرم 1434 ہجری مطابق اکتوبر - نومبر 2012ء