کرسی پر نماز کی فقہی تحقیق

 

از: مفتی محمدشعیب اللہ خاں جامعہ اسلامیہ مسیح العلوم، بنگلور

 

الْحَمْدُ لِوَلِیِّہ وَالصَّلاَةُ عَلٰی نَبِیِّہ وَ عَلٰی آلِہ وَأصْحَابِہ أجْمَعِیْنَ، أمّا بعد!

          آج کل مساجد میں کرسیوں کا رواج عام ہورہا ہے اورلوگ عذر سے یا بلاعذر کے کرسیوں کو نماز کے لیے استعمال کررہے ہیں اور واقعہ یہ ہے کہ کرسی پر نماز پڑھنے کا رواج ابھی ابھی چند سالوں سے شروع ہوا ہے، اس سے پہلے بھی لوگ بیمار ہوتے تھے اور اعذار ان کو بھی لاحق ہوتے تھے؛ مگر کبھی لوگوں کو کرسی پر نماز کی نہیں سوجھی۔

          اکثر دیکھنے میں آیا ہے اور سنا بھی جاتا ہے کہ لوگ اچھے خاصے ہیں، چلنے پھرنے، اٹھنے، بیٹھنے کی قوت پوری طرح رکھتے ہیں،اور اپنے گھروں سے چل کر آتے ہیں؛ مگر نماز کے وقت خود ہی کرسی کھینچ کر اس پر نماز پڑھتے ہیں۔ یہ صورت حال اس بات کو سمجھنے کے لیے کافی ہے کہ لوگوں میں تکاسل وتغافل ہے اور نماز کی اہمیت سے وہ بے خبر ہیں؛ لہٰذا ان کو توجہ دلانے کی ضرورت ہے۔

          اور اس سے انکار نہیں کہ بعض اللہ کے بندے واقعی عذر اور شدید مجبوری میں کرسیوں کا استعمال کرتے ہیں اور ان کا یہ عذر شرعی ومعقول ہوتا ہے، اور آج کل قویٰ کی کمزوریوں اور نئی نئی قسم کی بیماریوں نے اصحابِ اعذار کی بھی بہتات کردی ہے۔

          الغرض! ایک جانب دین سے غافل اورلاپرواہ لوگ ہیں جو بلاوجہ و بلا عذر محض تن آسانی ولاپرواہی سے اور غفلت وسستی کی بنا پر یا محض شوقیہ یا فاخرانہ طور پر نماز کے لیے کرسیوں کا استعمال کرنے لگے ہیں، تو دوسری جانب ان حضرات کی بھی ایک بڑی تعداد پائی جاتی ہے جن کے دلوں میں اللہ کا ڈر و خوف اور احکام الٰہی کی عظمت وجلالت موجود ہے اور وہ بھی کرسیوں کا استعمال کرتے ہیں؛ مگر اس وجہ سے کہ وہ واقعی معذور ومجبور ہیں۔

          اس صورت حال میں علماء ومفیان کرام کی ذمہ داری ہے کہ وہ امت کو اس سلسلے میں صحیح وغلط اوراچھے وبرے کی تمیز بتائیں اور شریعت کی روشنی میں اس کے احکام کو واضح کریں اور شریعت کے وصف امتیازی ”اعتدال“ کو پیش نظر رکھتے ہوئے پہلی قسم کے لوگوں کی بے اعتدالیوں پر تنبیہ کے ساتھ ساتھ واقعی عذر رکھنے والوں کے لیے شریعت کی عطا کردہ سہولتوں کو پیش کریں؛ تاکہ اصحاب اعذار ان سے منتفع ہوسکیں۔

          زیر نظر تحریر اسی مسئلے کی تحقیق کے لیے لکھی گئی ہے اور اس میں ہم نے اس کے دونوں پہلوؤں کو واضح کیا ہے؛ تاکہ افراط و تفریط کی راہوں سے الگ اعتدال کے راستے پر قائم رہیں۔ واللہ اعلم۔

محوراوّل: بلاعذر کرسی پر نماز ناجائز ہے

          کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھنے کے بارے میں ہماری بحث کے تین محور ہیں: ایک یہ کہ بلاعذر کرسی پر نماز کا حکم، دوسرے عذر معقول کی وجہ سے کرسی پر نماز کاجواز، اور اس کے شرائط وقیود، اور تیسرے کرسی پر عذر کی وجہ سے جواز کی دلیل۔

          لہٰذا سب سے پہلی بات ”کرسی پر بلاعذر نماز کے حکم“کے بارے میں عرض ہے کہ بلاعذرِ معقول کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھنا ناجائز ہے، اور اس کی کئی وجوہات ہیں:

عدم جواز کی پہلی وجہ:

          ایک وجہ یہ ہے کہ نماز میں قیام ورکوع وسجدہ فرائض میں داخل ہیں، اور بلا عذر ان میں سے کسی کو چھوڑ دینے سے نماز نہیں ہوتی،اور کرسی پر نماز پڑھنے والا ان تمام فرائض کو چھوڑ دیتاہے، قیام کی جگہ کرسی پر بیٹھتا ہے اور رکوع وسجدہ دونوں کو چھوڑ کر محض اشارے سے ان کو ادا کرتا ہے، تو اس کی نماز کیسے ہوسکتی ہے؟ لہٰذا جو لوگ بلاعذر معقول کرسی پر نماز پڑھتے ہیں، وہ اپنی نمازوں کو ضائع کررہے ہیں، اور یہاں یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ ہم نے تو نمازیں پڑھی ہیں؛ لیکن جب اللہ کے یہاں پہنچیں گے تو ان کے نامہٴ اعمال اس سے خالی ہوں گے؛ لہٰذا ایسے لوگ ذرا ٹھنڈے دل سے غور کریں کہ اگر قیامت کے دن نماز کی محنت کرنے کے باوجود ہمارا نامہٴ اعمال نماز سے خالی ہوتو کیا ہوگا؟

عدم جواز کی دوسری وجہ:

          دوسرے یہ کہ نماز دراصل اللہ تعالیٰ کی عظیم ہستی کے سامنے بندے کی بندگی، عاجزی وانکساری کا نام ہے اور اللہ کی جلالت کے روبرو خدا کے غلام کی تواضع وفروتنی سے عبارت ہے، اور کرسی پر نماز پڑھنے کی صورت میں یہ مقصد ہی فوت ہوجاتا ہے؛ کیوں کہ کرسی پر بیٹھنے کی حالت عموماً عاجزی وانکساری کی نہیں ہوتی؛ بلکہ ایک حد تک یہ متکبرانہ ہوتی ہے، نیز اگرمتکبرانہ نہیں ہوتی تب بھی عرف عام میں بڑوں کے سامنے کرسی پر بیٹھنا بے ادبی سمجھا جاتا ہے، یا کم از کم خلافِ ادب خیال کیا جاتاہے۔ اب غور کیجیے کہ کیا اللہ عز و جل کے دربارِ عالی شان ودرگاہ بے نیاز میں بلاوجہ کرسی پر بیٹھنا اچھا معلوم ہوتا ہے؟ لہٰذا یہ صورت نماز کی مقصدیت کے خلاف ہونے کی وجہ سے بھی ناجائز ہے۔

عدم جواز کی تیسری وجہ:

          تیسرے یہ کہ کرسیوں پر بیٹھ کر عبادت کرنے میں غیروں سے مشابہت پائی جاتی ہے؛ چنانچہ عیسائیوں میں رواج ہے کہ وہ اپنے چرچوں میں کرسیوں پر عبادت کرتے ہیں، اور یہ بات اسلام کی اہم تعلیمات میں سے ہے کہ غیروں کی مشابہت اختیار نہ کی جائے۔

          ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : ”مَنْ تَشَبَّہَ بِقَوْمٍ فَھُوَ مِنْھُمْ“ (جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی وہ ان ہی میں سے ہوگا) (ابوداود:۴۰۳۳)

          ایک اور حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: ”لَیْسَ مِنَّا مَنْ تَشَبَّہَ بِغَیْرِنَا، لاَ تَشَبَّھُوْا بِالْیَھُوْدِ وَلاَ بِالنَّصَارٰی؛ فَاِنَّ تَسْلِیْمَ الْیھُوْدِ الْاِشَارَةُ بِالأَصَابِعِ، وَتَسْلِیْمُ النَّصَارٰی الْاِشَارَةُ بِالأَکُفِّ“

          (وہ ہم میں سے نہیں جو غیروں سے مشابہت اختیار کرے، تم یہود سے مشابہت نہ کرو اور نہ نصاری سے، یہود کا سلام انگلیوں کے اشارے سے اورنصاری کا سلام ہتھیلیوں کے اشارے سے ہوتا ہے) (ترمذی:۲۲۹۵)

          حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ: ”جُزُّوْا الشَوَارِبَ وَأَرْخُوا اللُّحٰی، خَالِفُوْا الْمَجُوْسَ“ (مونچھوں کو کٹاؤ اور داڑھی کو بڑھاؤ،اور مجوسیوں کی مخالفت کرو) (مسلم:۶۲۶، معرفة السنن بیہقی:۱/۴۴۰، مسند ابو عوانة:۱/۱۶۱)

          ان احادیث سے معلوم ہوا کہ اسلام غیروں سے مشابہت اختیار کرنے کے سلسلے میں کس قدر حساس واقع ہوا ہے؟ جب اسلامی شریعت لباس وپوشاک،اور بال وکھال تک میں غیروں کی مشابہت کو پسند نہیں کرتا تو نماز جیسی اہم ترین عبادت اور موٴمن کی زندگی کے بنیادی مقصد کے بارے میں یہ کیسے گوارا کرسکتا ہے کہ وہ غیروں کے طور وطریقے کے مطابق انجام دیا جائے؟

          لہٰذا بلا عذر کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھنا ناجائز ہے، اور اس طرح نماز پڑھنے والوں کی نماز بالکل بھی نہیں ہوتی، اور اس طرح پڑھی ہوئی نمازیں ان کے ذمہ علی حالہ باقی رہتی ہیں۔

محور دوم: عذرمعقول کی وجہ سے کرسی پر نماز جائز ہے

          دوسری بحث یہ ہے کہ عذر ہونے کی صورت میں کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھنے کا کیا حکم ہے؟ کیا کسی بھی عذر وتکلیف میں کرسی کااستعمال نماز کے لیے جائز نہیں؟ یا کچھ شرائط وقیود کے ساتھ جائز بھی ہے؟

مشقت سے احکام میں تخفیف:

          یہ جاننے سے پہلے ایک اصولی بات سمجھ لینی چاہیے؛ تاکہ بات واضح وصاف طریقہ پر سامنے آجائے۔ وہ یہ کہ ہماری شریعت نہایت معتدل ہے جس میں نہ افراط ہے نہ تفریط؛اس لیے یہ بات تو یقینی ہے کہ عذر وتکلیف کی صورت میں اس میں تخفیف وسہولت دی جاتی ہے۔

          چناں چہ شریعت کے اصول میں سے ایک اصول یہ ہے کہ اس نے بیماری وتکلیف کو تخفیف احکام کا سبب مانا ہے۔

          اسی کو فقہا یوں بیان کرتے ہیں کہ: ”الْمَشَقَّةُ تَجْلِبُ التَّیْسِیْرَ“ (مشقت آسانی کا باعث بنتی ہے) (الاشباہ والنظائر لابن نجیم: ۱/۷۵، الاشباہ والنظائر للسیوطی:۱/۱۶۰)

          اور یہ قاعدہ فقہیہ متعدد قرآنی وحدیثی نصوص سے اخذ کیاگیاہے، جیساکہ فقہاء نے ثابت کیا ہے۔ اور علماء نے لکھا ہے کہ عبادات میں تخفیف کے سات اسباب ہیں،اور ان میں سے ایک مرض کو بھی لکھا ہے۔ (الاشباہ والنظائر لابن نجیم: ۱/۷۵، الاشباہ والنظائر للسیوطی:۱/۱۶۰)

مشقت کے درجات واحکام:

          لیکن یاد رکھنا چاہیے کہ ہر قسم کی تکلیف مرض اس سے مراد نہیں ؛ بلکہ وہ مرض وتکلیف جس سے انسان کو شدید پریشانی لاحق ہوتی ہے، ورنہ تھوڑی بہت تکلیف تو ہر کام میں ہوتی ہے، حتیٰ کہ خود نماز پڑھنا بھی ایک مشکل کام ہے، اسی طرح بعض امراض خفیفہ میں بھی تھوڑی بہت مشقت ہوتی ہے، جیسے سردرد، یا معمولی زخم کی تکلیف وغیرہ؛ مگر ان کی وجہ سے تخفیف نہیں دی جاتی۔

          اسی لیے فقہاء نے لکھا ہے کہ مشقت دو قسم پر ہے: ایک وہ مشقت جو عبادت سے اکثروبیشتر جدا نہیں ہوتی، جیسے وضو وغسل میں سردی کی مشقت، اور طویل دن اور سخت گرمی میں روزے رکھنے کی مشقت․․․․․ پس اس قسم کی مشقت کا عبادات کے ساقط ہونے میں کسی بھی وقت اعتبار نہیں، اور رہی وہ مشقت جو غالب طور پر عبادات سے جدا ہوتی ہے، اس کے کئی مراتب ہیں: پہلی بڑی اور پریشان کرنے والی مشقت ہے، جیسے جان پر یا اعضاء پر، یا اعضاء کے متعلقہ فوائد پر خوف کی مشقت، پس یہ مشقت موجبِ تخفیف ہے؛ دوسری معمولی وہلکی مشقت، جیسے انگلی میں معمولی درد ہونا، یا سر میں معمولی سا چکر ہونا، یا معمولی سی طبیعت کی خرابی، پس اس کا کوئی اثر نہیں اور نہ اس کا کوئی لحاظ ہوتا ہے؛ اور تیسری ان دو کی درمیانی مشقت، جیسے رمضان میں بیمار آدمی نے روزہ رکھنے سے مرض کے بڑھ جانے کا خوف کیا، یا بیماری سے دیر سے صحت یاب ہونے کا اندیشہ کیا،پس اس کے لیے روزہ نہ رکھنا جائز ہے) (الاشباہ والنظائر لابن نجیم: ۱/۸۲، الاشباہ والنظائر للسیوطی:۱/۱۶۸)

          الغرض مشقت وبیماری اسبابِ تخفیف میں سے ہے؛ مگر ہر تکلیف وبیماری نہیں؛ بلکہ وہ جس میں انسان کو ناقابلِ برداشت تکلیف پیش آئے اور وہ اس کو سہار نہ سکے۔

شریعت میں معذور کے لیے سہولت اور اس کی شرائط:

          جب یہ تفصیل معلوم ہوگئی تو اب قابل غوربات یہ ہے کہ کرسی پر نماز کے جواز کے لیے کیا اور کون سے اعذار معتبر ہیں اور وہ کیا اور کون سے اعذار ہیں جو معتبر نہیں؟ اس کے جواب سے پہلے اصحاب اعذار کے لیے حضرات فقہاء کرام کے لکھے ہوئے مسائل پر ایک اجمالی نظر ڈال لیں:

          (۱)قیام فرض ہے، لہٰذا جو شخص قیام کرسکتا ہے اس کو کھڑے ہوکر نماز پڑھنا فرض ہے، اور جو کسی عذر کی وجہ سے کھڑا نہیں ہوسکتا، تو اس میں تفصیل یہ ہے کہ اگر وہ پورا وقت کھڑا نہیں ہوسکتا؛ لیکن کچھ دیر قیام کرسکتا ہے تو وہ کچھ دیر قیام کرے اور بعد میں بیٹھ جائے،اگر اس نے کچھ دیر قیام پر قدرت کے باوجود کچھ دیر قیام نہیں کیا، اور شروع ہی سے بیٹھ کر نماز پڑھ لی تواس کے لیے یہ جائز نہیں۔

          العنایة شرح الہدایة میں ہے کہ جب بعض قیام پر قادر ہو اگرچہ کہ ایک آیت یا ایک مرتبہ اللہ اکبر کہنے کے برابر نہ کہ پورا، تو امام ابوجعفر ہندوانی نے کہا کہ اس کو حکم دیا جائے گا کہ جس قدر کھڑا ہوسکتا ہے وہ کھڑا ہو، پس جب قیام کرنے سے عاجز آجائے تو پھر بیٹھ جائے،اور اگر ایسا نہیں کیا تو مجھے خوف ہے کہ اس کی نماز فاسد ہوجائے گی، یہی مذہب ہے اور ہمارے اصحاب سے اس کے خلاف کوئی بات مروی نہیں ہے؛ کیونکہ طاعت بقدر طاقت ہوتی ہے (العنایة شرح الہدایة: ۲/۳۱۴)

          دررالحکام میں ہے کہ اگر بعض قیام پر قدرت رکھتاہو تو وہ قیام کرے، پس اگر وہ قیام کے ساتھ تکبیر کہہ سکتا ہو یا تکبیر اور تھوڑی قراء ت کرسکتا ہوتو اس کو قیام کا حکم دیا جائے گا، شمس الائمہ نے کہا کہ یہی صحیح مذہب (احناف) ہے، اوراگر اس نے قیام کو ترک کردیا تو خوف ہے کہ اس کی نماز جائز نہیں ہوگی (دررالحکام:۲/۷۸)

          اور در مختار میں ہے کہ اگر کوئی تھوڑی دیر بھی کھڑے ہونے پر قادر ہوتو وہ اپنی طاقت کے بقدر لازمی طور پر کھڑا ہو، اگرچہ ایک آیت یا ایک تکبیر کی مقدار ہی کیوں نہ ہو، اس لیے کہ بعض کو کل پر قیاس کیاگیا ہے) (درمختار مع ردالمحتار: ۲/۹۷)

          (۲) اور جو شخص خود تو نہیں کھڑا ہوسکتا؛ لیکن کسی دوسرے آدمی یا کسی چیز کو سہارا دے کر کھڑا ہوسکتا ہے تو اس کو بھی کسی کے سہارے سے کھڑا ہونا لازم ہے، اس کو بھی بیٹھ کر نماز پڑھنا جائز نہیں، اوراگر کوئی خود بھی نہیں کھڑا ہوسکتا اور نہ کسی کے سہارے سے کھڑا ہوسکتا ہے اس کے لیے جائز ہے کہ وہ بیٹھ کر نماز پڑھے۔

          علامہ ابن الہمام نے فتح القدیر میں اور علامہ البابرتی نے عنایة شرح ہدایہ میں لکھا ہے کہ: اگر ٹیک لگاکر قیام کرسکتا ہوتو شمس الائمہ نے کہا کہ صحیح یہ ہے کہ وہ کھڑے ہوکر ٹیک کے ساتھ نماز پڑھے گا، اوراس کے سوا جائز نہ ہوگا، اسی طرح اس صورت میں بھی ہے کہ اگر عصا پر ٹیک لگانے یا خادم ہوتو اس پرٹیک لگانے سے قیام کی قدرت مل جائے (فتح القدیر: ۲/۳، العنایة: ۲/۳۱۴ واللفظ لہ)

          فتاوی ہندیہ میں ہے کہ: اگر ٹیک لگاکر قیام کرسکتا ہوتو صحیح یہ ہے کہ وہ کھڑے ہوکر ٹیک کے ساتھ نماز پڑھے گا،اور دوسری صورت اس کے لیے جائز نہ ہوگی، اسی طرح اس صورت میں بھی ہے کہ اگر عصا پر ٹیک لگانے یا خادم ہوتو اس پر ٹیک لگانے سے قیام کی قدرت مل جائے تو وہ کھڑا ہوگا اور ٹیک لگائے گا (فتاویٰ ہندیہ: ۱/۶۳۱، رد المحتار: ۲/۹۷)

          (۳) قیام کرتوسکتا ہے؛ مگر اس سے شدید تکلیف ہوتی ہے، جو ناقابل برداشت ہے یا بیماری وعذر کے بڑھ جانے کا غالب گمان ہے تو اس کے لیے بھی یہی تفصیل ہے کہ اگر کسی کے سہارے کھڑے ہونے سے تکلیف نہیں ہوتی تو وہ کسی کے سہارے قیام کرے، اور پورا وقت کھڑے ہونے سے تکلیف ہوتی ہے،مگر کسی کا سہارا لینے سے بقیہ وقت میں قیام میں تکلیف نہیں ہوتی تو وہ کچھ دیر تو خود قیام کرے اور باقی وقت کسی کے سہارے سے قیام کرے،اور اگر کسی کو ہر صورت میں شدید تکلیف ہوتی ہے تو وہ بیٹھ کر نماز پڑھ سکتا ہے۔

          دررالحکام میں ہے کہ: جب قیام کرنا بیماری کی وجہ سے متعذر ومشکل ہوجائے یا کھڑے ہونے سے بیماری کے بڑھ جانے کا خوف ہو یا بیماری کے دیر سے درست ہونے کااندیشہ ہو یا سر چکرانے کا ڈر ہو یا کھڑے ہونے سے شدید تکلیف محسوس کرے تو بیٹھ جائے) (دررالحکام:۲/۷۸)

          علامہ شامی لکھتے ہیں: ”أرادَ بالتعذُّرَ التعذُّر الحقیقيَّ؛ بِحَیْثُ لو قام سَقَطَ․․․ أو الحکمي؛ بِأنْ خَافَ زِیَادَتَہ أَوْ بُطْءَ بُرْئِہ بِقِیَامِہ أَوْ دَوَرَانَ رَأسِہ أو وَجَدَ لِقِیَامِہ ألماً شدیداً صلی قاعداً“

          (یعنی مصنف نے عذر سے عذرِ حقیقی مراد لیا ہے، اس طور پر کہ کھڑا ہوتو گرجائے، یا حکمی مراد لیا ہے؛ اس طورپر کہ اسے بیماری کے بڑھ جانے کا اندیشہ ہو، یا کھڑے ہونے کی وجہ سے صحت یابی میں تاخیر کا اندیشہ ہو، یا سرچکرانے کا اندیشہ ہو، یاکھڑے ہونے میں سخت تکلیف محسوس کرے، تو بیٹھ کر نماز پڑھے) (درمختار وردالمحتار: ۲/۹۶)

          یہ تو شدید تکلیف کا حکم ہے،اوراگر کسی کو تکلیف تو ہوتی ہے مگر تھوڑی بہت جو قابل برداشت ہے تو اس کا کوئی اعتبار نہیں اوراس کو بیٹھ کر نماز پڑھنا جائز نہیں۔ فتاویٰ ہندیہ میں ہے: ”فانْ لَحِقَہ نوعُ مَشقَّةٍ لم یجُزْ ترکُ ذٰلِکَ الْقِیَامِ“ (یعنی اگر کھڑے ہونے میں معمولی تکلیف لاحق ہوتو قیام کا چھوڑنا جائز نہیں) (فتاویٰ ہندیہ: ۱/۱۳۶)

          اور علامہ ابن الہمام نے فتح القدیر میں، علامہ زیلعی تبیین الحقائق میں اور علامہ المیدانی نے اللباب فی شرح الکتاب میں لکھا ہے کہ:

          ”فان لَحِقَہ نَوعُ مشقّةٍ لم یَجُز ترکُ القیام بِسَبَبِھَا“ (یعنی اگر کھڑے ہونے میں معمولی تکلیف لاحق ہوتو اس کی وجہ سے قیام کا چھوڑنا جائز نہیں) (فتح القدیر:۲/۳، تبیین الحقائق: ۲/۴۵۶، اللباب:۱/۴۹)

          (۴) جو شخص اوپر کی تفصیل کے مطابق کسی بھی طرح قیام نہیں کرسکتا، اور بیٹھ کر نماز پڑھ سکتا ہے تو وہ زمین پر بیٹھ کر نماز ادا کرے، اور اگر خود بیٹھ نہیں سکتا؛ لیکن کسی دوسرے شخص یا چیز جیسے دیوار، وغیرہ کے اوپر ٹیک لگاکر بیٹھ سکتا ہے تو اس کو کسی کے اوپر ٹیک لگاکر بیٹھنا ضروری ہے۔

          المحیط البرہانی میں ہے کہ: امام محمد نے اپنی کتاب ”الاصل“ میں یہ صورت ذکر نہیں کی کہ اگر ایک شخص ٹھیک سے بیٹھ نہیں سکتا،اور ٹیک لگاکر یا کسی دیوار یا انسان وغیرہ پر سہارا لے کر بیٹھ سکتا ہوتو امام شمس الائمہ حلوانی نے فرمایا کہ ہمارے مشائخ نے کہا کہ اس کے لیے کسی کے سہارے سے یا ٹیک لگاکر بیٹھے ہوئے نماز پڑھے تو جائز ہے،اورلیٹ کر نماز پڑھے تو جائز نہیں) (المحیط البرہانی:۲/۲۷۲)

          اور فتاویٰ عالمگیری میں ہے کہ: ”واذَا لَمْ یَقْدِرْ عَلَی الْقُعُوْدِ مُسْتَوِیاً وقَدَرَ مُتَّکئاً أو مُستنِداً الی حائِطٍ أو انسانٍ، یجب أن یصلي مُتّکئاً أو مُستنِدًا ولا یجوز لہ أن یصلّيَ مُضطجِعاً“ (اور جب ٹھیک سے بیٹھنے پر قادر نہ ہو؛ بلکہ ٹیک لگاکر یا کسی دیوار یا انسان کا سہارا لے کر بیٹھنے پر قادر ہوتو ضروری ہے کہ وہ نماز پڑھے ٹیک لگاکر یا سہارا لے کر اور اس کے لیے لیٹ کر نماز پڑھنا جائز نہیں) (فتاویٰ ہندیہ: ۱/۱۳۶)

          (۵) اور جو شخص بیٹھ کر نماز پڑھ سکتا ہے اور رکوع وسجدہ بھی کرسکتا ہے وہ بیٹھ کر ہی رکوع وسجدہ کرلے، لہٰذا جو شخص زمین پر بیٹھ کر رکوع وسجدے کے ساتھ نماز ادا کرسکتا ہے، اسکو رکوع وسجدہ کرنا فرض ہے، کیونکہ وہ اس پر قادر ہے اور یہ دونوں بھی نماز میں فرض ہیں۔

          امام قدوری فرماتے ہیں کہ: ”اذا تعدَّرَ علی المریض القیامُ صلّی قاعداً یَرکَعُ ویَسْجُدُ“ (جب مریض پر قیام دشوار ہوجائے تو بیٹھ کر رکوع وسجدہ کرتے ہوئے نماز پڑھے) (الجوہرة:۱/۳۱۱)

          الاختیار لتعلیل المختار میں ہے کہ: جب قیام سے عاجز ہوجائے یا قیام سے مرض بڑھ جانے کا خوف ہوتو بیٹھ کر رکوع وسجدہ کرتے ہوئے نماز ادا کرے (الاختیار لتعلیل المختار:۱/۸۲)

          اس سے معلوم ہوا کہ بیٹھ کر نماز پڑھنے والا اگررکوع وسجدے پر یا ان میں سے ایک پر قادر ہے تو اس کو بیٹھ کر رکوع وسجدہ کرنا لازم ہے، ورنہ اس کی نماز نہیں ہوگی۔

          (۶) جو شخص زمین پر بیٹھ سکتا ہے، مگر رکوع وسجدے کے لیے جھک نہیں سکتا وہ بیٹھ کر رکوع وسجدے کے لیے اشارہ کرلے، اسی طرح جو شخص رکوع وسجدے کے لیے جھکنے میں شدید تکلیف محسوس کرتا ہے جو ناقابل برداشت ہوتو وہ بھی رکوع وسجدے کا اشارہ کرسکتا ہے۔

          فقہاء نے لکھا ہے کہ: ”فانْ لَمْ یَسْتَطِعِ الرُّکُوْعَ وَالسُّجُوْدَ أوْمأ ایماءً“ پس اگررکوع وسجود نہ کرسکے تو اشارے سے کرلے (الجوہرة: ۱/۳۱۱، واللفظ لہ، البحرالرائق: ۲/۱۲۲)

          (۷) اوراگر کوئی شخص اس قدر بیمار ہے کہ وہ بیٹھ کر رکوع وسجدہ نہیں کرسکتا، تو اس کو چت لیٹ کر یا پہلو پر لیٹ کر اشارے سے نماز پڑھنے کی اجازت ہے اوراس کو چاہیے وہ سرسے رکوع وسجدے کا اشارہ کرے اور سجدہ کا اشارہ رکوع کے اشارے سے زیادہ کرے۔

          الجوہرة میں ہے کہ: ”فانْ لَمْ یَسْتَطِعِ القُعُودَ اِسْتَلْقٰی عَلیٰ ظَھْرِہ الخ“ (پس اگر بیٹھنے کی طاقت نہ ہو تو پیٹھ کے بل لیٹ جائے الخ) (الجوہرة: ۱/۳۱۲)

          اور البحرالرائق میں ہے کہ: اگر بیٹھنا دشوار ہوجائے تو چت لیٹ کر یا اپنے بازو پر لیٹ کر اشارے سے پڑھے (البحرالرائق:۲/۱۲۳)

          اس تفصیل سے بیماروں ومعذوروں کو شریعت کی دی ہوئی سہولت اور اسی کے ساتھ اس کی شرائط کا بھی علم ہوگیا، جس کا حاصل یہ نکلتا ہے کہ ان فرائض کے ادا کرنے کی جس قدر طاقت وگنجائش ہے اس قدر ان کو ادا کرنے کی کوشش کرتے ہوئے، جہاں ممکن نہ ہو یا ممکن تو ہو مگر زیادہ پریشانی وتکلیف ہوتی ہو، وہاں ان فرائض کو چھوڑنے کی اوپر کی تفصیل کے مطابق گنجائش ہے۔

کرسی پر نماز کا مسئلہ:

          اب سوال یہ ہے کہ اگر کوئی شخص کسی وجہ سے زمین پر بیٹھ کر نماز نہ پڑھ سکتا ہو؛ لیکن کرسی پر بیٹھ سکتا ہے، اس کا کیا حکم ہے؟

          (۱) مثلاً ایک شخص کا ایکسیڈنٹ ہوا اور کمر میں راڈ داخل کی گئی ہے جس کی وجہ سے وہ کرسی پر بیٹھ سکتا ہے؛ مگر جھک نہیں سکتا، بیٹھ نہیں سکتا اور رکوع یا سجدہ نہیں کرسکتا۔

          (۲) ایک شخص اس قدر کمزور ہے کہ اٹھنا بیٹھنا اس کے لیے دشوار ہے، اگر اٹھتا بیٹھتا ہے تو ناقابل برداشت تکلیف میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ لہٰذا وہ کرسی پر بیٹھ کر اپنے کام کاج کرتا ہے اور اسی میں نماز بھی پڑھ لیتا ہے۔

          (۳) ایک شخص کو موٹاپے کی وجہ سے زمین پر بیٹھنے میں شدید تکلیف ہوتی ہے، اگرچہ وہ چل سکتا ہے اور قیام بھی کرسکتا ہے؛ مگر بیٹھ نہیں سکتا، لہٰذا کرسی پر ہی اس کو اپنے تمام دنیوی کام بھی کرنے پڑتے ہیں اور نماز بھی وہ اسی پر پڑھتا ہے۔

          (۴) ایک شخص اس قدر کمزور یا بیمار ہے کہ زمین پر ازخود نہیں بیٹھ سکتا اور اگر بیٹھ گیا تو اٹھ نہیں سکتا؛ بلکہ اس کو اس صورت میں ایک دو آدمیوں سے مدد لینی پڑتی ہے۔ اور بعض دفعہ کوئی ایسا خادم یا اعانت کرنے والا میسر نہیں ہوتا؛ لہٰذا وہ اس پریشانی کی وجہ سے کرسی پر ہی نماز پڑھ لیتا ہے۔

          (۵) بعض بیماریاں ایسی ہوتی ہیں جن میں ڈاکٹروں کی ہدایت ہوتی ہے کہ نیچے نہ بیٹھا جائے، ورنہ بیماری کے بڑھ جانے کا اندیشہ ہے، اس وجہ سے بھی کرسی پر نماز کی ضرورت کسی کو پیش آسکتی ہے۔

          ظاہر ہے ان تمام صورتوں اور اس طرح کی صورتوں میں عذر معقول موجود ہے اوراس کا اعتبار کرنا شرعاً بھی درست ہے؛ لہٰذا اس قسم کے اصحابِ اعذار کو کرسی پر نماز کی اجازت ہونی چاہیے؛ کیونکہ اوپر خود فقہاء کے کلام میں یہ ضابطہ ہم نے پڑھ لیا ہے کہ: طاعت بقدر طاقت ہوا کرتی ہے۔ جب اس قسم کے اعذار میں نیچے بیٹھ کر نماز کی طاقت نہیں یا نیچے بیٹھنا بڑا مشکل ہے تو کرسی پر پڑھنے کی اجازت ایک معقول بات بھی ہے اور اصول فقہیہ کی روشنی میں شرعی بات بھی ہے۔

          لیکن اس جگہ وہی دو باتیں ذہن نشین ہونی چاہئیں: ایک تو یہ کہ عذر موجود ہو، بلاعذر کرسی پر نماز پڑھنا گناہ بھی ہے اور اس کی وجہ سے نماز ہوتی بھی نہیں،اور دوسری بات یہ کہ معمولی اور چھوٹا موٹا عذر نہیں؛ بلکہ معقول وشرعاً معتبر عذر ہو، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ زمین پر بیٹھ کر نماز پڑھنے کی یا تو سکت و طاقت ہی نہ ہو، یا طاقت تو ہو ؛ مگر اس سے ناقابلِ برداشت تکلیف و درد ہوتا ہو، یا زمین پر بیٹھنے سے بیماری وتکلیف کے بڑھ جانے کا اندیشہ ہو۔ اس صورت میں کرسی پر نمازکی اجازت ہے۔

محور سوم: عذر سے کرسی پر نماز کے جواز کی دلیل:

          اب رہا یہ سوال کہ عذر کی وجہ سے کرسی پر نماز کے جواز کی دلیل کیا ہے؟ اس مسئلے کی دلیل میں احقر کو ایک فقہی نظیر بھی الحمدللہ مل گئی جس سے اس مسئلے پر اچھی طرح روشنی پڑتی ہے۔ وہ یہ کہ حضرات فقہاء نے لکھا ہے کہ بعض صورتوں میں سواری کے جانور پر بیٹھے ہوئے بھی نماز کی گنجائش ہے۔ مثلاً:

          (۱) کسی جگہ زمین میں کیچڑ ہی کیچڑ ہے اور وہاں زمین پراترکر نماز نہیں پرھی جاسکتی تو ایسی جگہ جانور ہی پر بیٹھ کر نماز پڑھی جاسکتی ہے۔

          (۲) اسی طرح کسی کاجانور سرکش ہے جس کی وجہ سے اس پرسوار ہونا کارے دارد، لہٰذا اگراس سے اترگئے تو دوبارہ اس پرسوار ہونے میں مشکل پیش آئے گی تو اس جانور ہی پر نماز پڑھ لینے کی گنجائش ہے۔

          (۳) اسی طرح اگر جانور سے اترنے کی صورت میں کسی چور وڈاکو یا درندے کی جانب سے جان کا خطرہ ہوتو جانور پر بیٹھے ہوئے نماز جائز ہے۔

          (۴) بوڑھا آدمی جانور پر سوار ہے اگر اترے گا تو دوبارہ بیٹھنا مشکل ہے، تو اس کو سواری ہی پر نماز کی اجازت ہے۔

          (۵) کوئی بیمارہے اوراس کی وجہ سے سواری سے اتر نہیں سکتاتو اس کو بھی جانور ہی پر سوار ہوتے ہوئے نماز جائز ہے۔

کرسی پر نماز کی فقہی نظیر:

          درج ذیل عبارات میں ان مسائل کا ذکر موجود ہے:

          الجوہرة النیرة میں جانورپر نفل نماز جائز ہونے کے مسئلے کے ضمن میں ”نفل نماز“ کی قید کیوں لگائی ہے، اس کا فائدہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

          ”لأن المکتوبةَ لا تجوزُ علی الدَّابَّةِ الاَّ من عُذر، وھو أن یَخَافَ مِنَ النُّزُولِ علی نفسِہ أو دابَّتِہ من سَبُعِ أو لِصٍّ، أو کَانَ فِيْ طِیْنٍ أو رَدغَةٍ لا یجدُ علی الأرض مکانا جَافّاً، أو کانت الدابةُ جَمُوحاً لو نَزَلَ لا یمکنہ الرُّکُوب الاّ بمُعِین، أو کان شَیخاً کبیراً لا یُمکِنُہ ولا یَجِدُ مَن یُعِیْنُہ فتجوزُ صلاةُ الفَرض في ھذہ الأحوال کُلِّھا علی الدَّابَّة

          (کیونکہ بلاعذر جانور پر بیٹھ کر فرض نماز جائز نہیں ہوتی، اور عذر یہ ہے کہ جانور سے اترنے سے کسی درندے یا چور کا اپنے اوپر یا جانور پر خوف ہو، یا گارا وکیچڑ ہو جس سے زمین پر کوئی سوکھی جگہ نہ پائے، یا جانور سرکش ہوکہ اگر سواری سے اترے تو دوبارہ سوار ہونا بغیر کسی کی مدد کے ممکن نہ ہو، یا بوڑھا آدمی ہو جس کو سوار ہونا ممکن نہ ہو اور کوئی سوار کرانے والا نہ ملے، تو ان تمام احوال میں جانور پر بیٹھے ہوئے فرض نماز جائز ہے) (الجوہرة النیرة:۱/۲۹۶)

          اور یہی بات تبیین الحقائق میں ہے کہ: ”وَھِيَ أنْ یَخَافَ مِنَ النُّزُولِ علی نَفْسِہ أو دَابَّتِہ من سبعٍ أو لِصٍ، أو کَانَ فِيْ طِیْنٍ أو رَدَغَةٍ، قال في المحیط: یغیبُ وجھہ فیھا، لا یَجِدُ مکاناً جَافّاً، أو کانت الدابةُ جَمُوحاً لو نزل لا یمکنہ رکوبُھا الا بعَنَاءٍ، أو کان شیخاً کبیراً لا یمکنہ أن یرکبَ فلا یجدُ مَنْ یُعِیْنُہ علی الرُّکُوبِ، فتجوزُ صَلاةُ الفرض فی ھذہ الأحوال کُلِّھا علی الدَّابَّة“ (اور عذر یہ ہے کہ جانور سے اترنے سے کسی درندے یا چور کا اپنے اوپر یاجانور پر خوف ہو، یا گارا وکیچڑ ہو، جس میں چہرہ رکھنے سے اندر دھس جائے، اور زمین پر کوئی سوکھی جگہ نہ پائے، یا جانور سرکش ہو کہ اگر سواری سے اترے تو دوبارہ سوار ہونا بغیر مشقت کے ممکن نہ ہو، یا کوئی بوڑھا آدمی ہو جس کو سوار ہونا ممکن نہ ہو اور کوئی سوار کرانے والا نہ ملے، تو ان تمام احوال میں جانور پر بیٹھے ہوئے فرض نماز جائز ہے) (تبیین الحقائق:۲/۳۴۵)

          البحرالرائق اور ردالمحتار میں ہے: وَکذا المَرِیْضُ الرَّاکِبُ اذَا لَمْ یَقْدِرْ عَلی النُّزُولِ، وَلَا عَلیٰ مَنْ یَنْزِلُہ الخ (اسی طرح جو مریض سوار ہو جب سواری سے اترنے پر اور اتارنے والے پر قدرت نہ ہو) (البحرالرائق، شامی:۲/۹۶)

          الاختیار لتعلیل المختار میں ہے کہ: ”مریضٌ راکبٌ لا یَقْدِرُ علی مَنْ یُنزِلُہ یُصَلِّی المکتوبةَ راکباً بایماءٍ، وکذلک اذا لم یَقْدِرْ علی النُّزُول لمَرَضٍ أو مَطَرٍ أو طینٍ، أو عَدُوٍّ“ (مریض شخص جو سواری پر سوار ہوا اگر اتارنے والے پر قدرت نہ ہوتو وہ فرض نماز سواری ہی پر اشارے سے پڑھ لے، اسی طرح اس وقت بھی جب سواری سے اترنے پرمرض کی وجہ سے یا بارش یا گارے یا دشمن کی وجہ سے قدرت نہ ہو) (الاختیار:۱/۸۳)

          اور تحفة الفقہاء میں ہے کہ: ”أَمَّا الْفَرْضُ فَیَجُوْزُ عَلی الرَّاحِلَةِ بِشَرْطَیْنِ: أحَدُھُما أنْ یَکُوْنَ خَارِجَ الْمِصْرِ سَوَاءٌ کَانَ مُسَافِراً أو خَرَجَ الی الضیعة والثانی أنْ یَکُوْنَ بہ عُذرٌ مانعٌ من النُّزُول عن الراحلة، الخ“ (رہی فرض نماز تو وہ سواری پر دو شرطوں سے جائز ہے: ایک یہ کہ شہر سے باہر ہو خواہ سفر کی وجہ سے یا اپنی زمین کی جانب جانے کے واسطے، دوسری شرط یہ کہ اس کے ساتھ عذر ہو جو سواری سے اترنے سے مانع بنے) (تحفة الفقہاء:۱/۱۵۳)

          ان تمام عبارات میں دابہ یعنی سواری کے جانور پر نمازِ فرض کی اجازت دی گئی ہے، اور ان سب کو قیام ورکوع وسجود کے ساقط ہونے کے لیے عذر مانا گیا ہے۔ اور ہر کوئی جانتا ہے کہ جانور پر بیٹھنے کی ہیئت تقریباً وہی ہوتی ہے جو کرسی پربیٹھنے کی ہوتی ہے، اور اس پر نماز کی صورت بھی تقریباً وہی ہوتی ہے جو کرسی پر نماز کی ہوتی ہے، لہٰذا ان اعذار میں جانور پرنماز کا جواز دراصل کرسی پر نماز کے جواز کی واضح نظیر ہے۔

حدیث وآثار سے استدلال:

          اور فقہاء نے یہ مسئلہ ایک حدیث سے مستنبط کیاہے، جسے ترمذی، احمد، بیہقی اور دارقطنی وغیرہ محدثین نے حضرت یعلی بن مرہ سے روایت کیا ہے، چنانچہ وہ کہتے ہیں کہ:

          أنّ رَسُوْلَ اللہِ صلى الله عليه وسلم انْتَھٰی الٰی مَضِیْقٍ ھُوَ وَ أَصْحَابُہ، وَھُوَ عَلَی رَاحِلَتِہ، وَالسَّمَاءُ مِنْ فَوْقِھِمْ، وَالْبَلَّةُ مِنْ أسْفَلِھِمْ، فَحَضَرَتِ الصّلاَةُ، فَأَمَرَ الْمُوٴَذِّنَ، فَأَذَّنَ وَأَقَامَ، ثُمَّ تَقَدَّمَ رَسُوْلُ اللہِ صلى الله عليه وسلم عَلَی رَاحِلَتِہ، فَصَلّٰی بِھِمْ یُوٴْمِيْ ایْمَاءً، یَجْعَلُ السُّجُوْدَ أَخْفَضَ مِنَ الرُّکُوْعِ“ (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ ایک تنگ جگہ پہنچے جبکہ آپ سواری پر سوار تھے،اور اوپر سے آسمان برس رہا تھا اورنیچے تری وکیچڑ تھا، پس نماز کا وقت آگیا تو آپ نے موٴذن کو حکم دیا تواس نے اذان دی اور اقامت کہی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی سواری پر آگے بڑھے، اور لوگوں کو اشارے سے نماز پڑھائی، سجدے کا اشارہ رکوع کے شارے سے زیادہ پست کیا) (ترمذی:۴۱۱، مسند احمد: ۱۷۶۰۹، سنن بیہقی: ۲/۷، دارقطنی: ۱۴۲۹)

          اس حدیث کے بارے میں علماء محدثین کا اختلاف ہے کہ یہ کس درجے کی ہے؟ امام ترمذی نے کہا:

          ”ھذا حدیثٌ غریبٌ تَفَرَّدَ بِہ عمر بن الرماح البلخي، لا یُعْرَفُ الاّ مِنْ حدیثِہ، وقد رَویٰ عنہ غیرُ واحدٍ مِنْ أھلِ الْعِلْم“

          اور ابن حجر نے ”التلخیص الحبیر“ میں لکھا کہ: ”قال عبدُ الحق: اسنادُہ صحیحٌ، والنووی: اسنادُہ حَسَنٌ، وضعَّفَہُ البیھقي وابنُ العربي وابنُ القطان لحال عمرو بن عثمان“ (التلخیص الحبیر: ۱/۵۲۲)

          اور ابن عبدالبر نے ”التمہید“ میں کہا کہ: لیس اسْنادُہ بِشَیءٍ (التمہید:۲۳/۶۱)

          معلوم ہوا کہ اس کی صحت کے بارے میں اختلاف ہے، تاہم اس کی صحت حضرت انس بن مالک کے ایک اثر سے ہوتی ہے؛ کیونکہ محدثین کے نزدیک حدیث کی تقویت کا ایک ذریعہ آثار صحابہ کا اس کے موافق ہونا بھی ہے۔

          چنانچہ امام طبرانی نے حضرت ابن سیرین سے روایت کیا ہے، وہ کہتے ہیں کہ: ”أَقْبَلَنَا مَعَ أَنَسٍ مِنَ الْکُوْفَةِ حَتّٰی اِذَا کُنَّا بِأَطَّطٍ أَصْبَحْنَا وَالأَرْضُ طِینٌ وَماءٌ، فَصَلّٰی المَکتُوبَةَ عَلَی دَابَّتِہ “ (ہم حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے ساتھ کوفے سے آئے یہاں تک کہ جب ہم اطیط مقام پر تھے تو ہم نے اس حال میں صبح کی کہ زمین میں کیچڑوپانی تھا، پس حضرت انس نے فرض نماز جانور پرپڑھی) (معجم طبرانی کبیر:۱/۲۹۲)

          اور علامہ ہیثمی نے مجمع الزوائد میں اس حدیث کے بارے میں فرمایا کہ: ”رواہ الطبرانی فی الکبیر ورجالہ ثقات“ (مجمع الزوائد:۲/۱۹۲)

          اور یہ حدیث دوسرے الفاظ سے امام ابن ابی شیبہ اور امام عبدالرزاق نے بھی روایت کی ہے۔ امام عبدرالزاق کے الفاظ یہ ہیں کہ ابن سیرین نے فرمایا کہ: ”کُنْتُ مَعَ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ فِیْ یَوْمٍ مَطِیْرٍ حَتّٰی اِذَا کُنَّا بِأَطِیْطٍ وَالأرْضُ فَضْفَاضٌ، صَلّٰی بِنَا عَلٰی حِمَارِہ صَلاَةَ الْعَصْرِ یُوٴْمِيْ بِرَأسِہ اِیْمَاءً وَجَعَلَ السُّجُوْدَ أَخْفَضَ مِنَ الرُّکُوْعِ“ (مصنف عبدالرزاق:۲/۵۷۳)

          اور ابن ابی شیبہ کے الفاظ اس طرح ہیں کہ ابن سیرین نے کہا کہ: ”أَقْبَلْتُ مَعَ أَنَسٍ مِنَ الْکُوْفَةِ حَتّٰی اِذَا کُنَّا بِأَطَّطٍ، وَقَدْ أخَذَنَا السَّمَاءُ قَبْلَ ذٰلِکَ، وَالأرْضُ ضَحْضَاحٌ، فَصَلّٰی أَنَسٍ وَھُوَ عَلٰی حِمَارٍ مُسْتَقْبِلَ الْقِبْلَةِ، وَأَوْمَأَ اِیْمَاءً، وَجَعَلَ السُّجُوْدَ أَخْفَضَ مِنَ الرُّکُوْعِ“ (مصنف ابن ابی شیبہ:۲/۹۰)

          جب حضرت انس کے عمل کا صحیح طور پر ثبوت ہوگیا کہ انھوں نے بھی کیچڑکی وجہ سے جانور پر بیٹھے بیٹھے نماز پڑھی تو اس سے اندازہ ہوتاہے کہ وہ اوپر کی حدیث بھی صحیح ہے؛ کیونکہ یہ حدیث اس کی تائید کررہی ہے؛ لہٰذا اس حدیث اور حضرت انس بن مالک کے اثر سے معلوم ہوا کہ ضرورت پرجانور پر بیٹھے بیٹھے رکوع وسجدے کا اشارہ کرتے ہوئے نماز ہوسکتی ہے اوراس کی گنجائش ہے، اور جیسا کہ عرض کیاگیا یہ نظیر ہے کرسی پر نمازکی؛ لہٰذا معلوم ہوا کہ ضرورت وعذر کی بنا پر کرسی پر نماز جائز ہے۔

***

-----------------------------------------------

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ 10-11 ‏، جلد: 96 ‏، ذی الحجہ 1433 ہجری‏، محرم 1434 ہجری مطابق اکتوبر - نومبر 2012ء