تعارف وتبصرہ

 

 

 

نام کتاب             :         مقالاتِ حبیب (تین جلدیں)

          موٴلف             :         حضرت مولانا حبیب الرحمن صاحب اعظمی زیدمجدہ

                                      استاذِ حدیث دارالعلوم دیوبند

          سن اشاعت         :         ۱۴۳۰ھ -۲۰۰۶ء

          صفحات               :         (۱۱۵۸)  قیمت: (درج نہیں)

          ناشر               :         شیخ الہند اکیڈمی، دارالعلوم دیوبند

          تبصرہ نگار              :         مولانا اشتیاق احمدقاسمی، مدرس دارالعلوم دیوبند

-----------------------------------------------

          دارالعلوم دیوبند محض ایک تعلیمی ادارہ نہیں؛ بلکہ ایہ احیائے اسلام کی عظیم تحریک ہے، اسلام کی معتدل اور صحیح ترجمانی اس کا مطمحِ نظر ہے، اسلام کے خلاف اٹھنے والے ہر فتنہ کی سرکوبی کے لیے جدوجہد کرنااس کے مشن میں داخل ہے، فضلائے دیوبند، دارالعلوم سے صرف سند اور سرٹیفکیٹ لے کر نہیں جاتے؛ بلکہ اس سے زیادہ قیمتی اور گراں مایہ متاع لے کر جاتے ہیں، وہ نبی آخرالزماں  صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی آخری شریعت کو افراط وتفریط سے بچاکر حدِاعتدال پر باقی رکھنے، اس پر عمل کرنے اور کرانے کا جذبہ ہے، اسی سپرٹ کی وجہ سے چہاردانگ عالم میں ان کی ایک پہچان ہے، بحمداللہ! دنیا کے ہرگوشے میں پہنچ کر وہ اپنی اس ذمہ داری کو ادا کررہے ہیں، فضلائے دیوبند کی تعداد ڈیڑھ سو سال کے بعد اب تک محض پچاس ہزار کے آس پاس ہے؛ لیکن روئے زمین کا کوئی خطہ ایسا نہیں جہاں وہ پہنچ نہ گئے ہوں، دنیا کا کوئی ادارہ اس باب میں ہمسری کا دعویٰ نہیں کرسکتا، اس پر ہمیں اللہ رب العزت کا شکر ادا کرنا چاہیے؛ لیکن قابلِ توجہ پہلو یہ ہے کہ آخر ابنائے دیوبند میں وہ خالصیت کیسے پیداہوتی ہے؟ ا س کا منبع کہاں ہے؟ یہ طوفانِ بلاخیز کہاں سے اٹھتا ہے؟ اس سیل رواں کا سوتا اور سِرا کہاں ہے؟ تو بلاتکلف اس کا جواب ہوگا کہ یہ سب کچھ یہاں کے بافیض اساتذہ کی کرشمہ سازی ہے کہ ان کے فیض تربیت سے لوہے کندن بن جاتے ہیں، پتھر پارس کا روپ دھارلیتے ہیں، دربے مایہ گراں مایہ ہوجاتے ہیں، یا یوں کہیے کہ مُردوں میں مسیحائی آجاتی ہے؛ ان ہی عبقری اساتذئہ فضل وکمال میں حضرت الاستاذ مولانا حبیب الرحمن اعظمی زیدمجدہ ہیں، جن کا علم پختہ، ذہن استوار اور معلومات وافر ہیں، ان کی سحربیانی کی شان ہی نرالی ہے، ان کی تحریر میں علم اور مواد بہت ہوتا ہے، اردو اور عربی زبان وادب کے مشہور ومعروف اہل قلم وانشاء پرداز حضرت مولانا نورعالم خلیل امینی دامت برکاتہم کے بہ قول:

”موصوف کے ہاں دینی علمی مطالعہ کی وسعت، تجزیہ و درایت کی بہتات، دقتِ نظری، تحلیل وتجزیہ کی فراوانی کے ساتھ ساتھ قاری کو زبان کی چاشنی، شگفتگی وشستگی، سلاست اور روانی (اور صرف آمد، جس میں آورد کا کوئی شائبہ نہ ہو) کا احساس ان کے علمی موضوعات کی تحریروں کو بھی ازاول تا آخر پڑھ جانے کے لیے، اس طرح (مجبور) کرتاہے کہ بدذوق سے بدذوق انسان بھی ان کی تحریر کو مکمل پڑھے بغیر دست انداز نہیں کرسکتا، قلم کی پختگی اور تحریر کے بانکپن کی وجہ سے․․․․ پختہ کار اہلِ قلم علما پر بھی مولویانہ زبان لکھنے کی سراسرظالمانہ تہمت لگانے والے انتہائی بے حیا لوگ بھی ان پر یہ تہمت لگانے کی جرأت نہ کرسکیں گے، یہ اردو زبان پر ان کی معقول گرفت کی بہت بڑی دلیل ہے، صحافیانہ سطحیت، نامہ نگارانہ خشکی․․․․ ناپختگی و ناہمواری سے ان کی زبان بالکل مُبَرّا ہے۔“(ص۱۷)

          ”مقالاتِ حبیب“ کے تینوں حصوں کو دارالعلوم نے ”شیخ الہند اکیڈمی“ کے ذریعہ طبع کرایا ہے، طباعت واشاعت کا مقصد بھی فکری ومسلکی اعتدال کی دعوت ہے، مطبوعہ مقالات چھ ابواب پر مشتمل ہے، اس میں چون (۵۴) مرکزی عناوین ہیں، ان میں دارالعلوم دیوبند کا شش جہتی تعارف، مزاج ومذاق، خدمات اور کارناموں کا مفصل تذکرہ ہے، فرقِ باطلہ میں سے قادیانیت، شیعیت، غیرمقلدیت اور مودودیت کا خوب خوب تعاقب کیاگیاہے۔ سب سے زیادہ غیرمقلدیت کے مختلف نقطہ ہائے نظر کی قلعی کھولی گئی ہے، کوئی بات بلاحولہ نہیں کہی گئی ہے، اسلوب نہایت عمدہ اور دل نشیں ہے، خالص علم وتحقیق کے عناوین بھی زبان وبیان کی شیرینی سے خالی نہیں ہیں، ترسیل وپیش کش میں کافی سنجیدگی ہے، احادیث ورجال کی کتابوں کے حوالے، تاریخ سے استناد اور معقولیت سے استیناس نے دفاعی مقالوں میں کافی جان پیداکردی ہے، اسی کے ساتھ معروضی اندازِ تخاطب سے قاری متأثر ہوے بغیر نہیں رہتا، قادیانیت اور شیعیت کے موضوعات میں تیرونشتر بھی خوب ہیں، بعض بعض برمحل اشعار کی تیشہ زنی سے لطف پیدا ہوجاتا ہے، دلائل وبراہین کے ساتھ ہی مناظرانہ تعبیرات نے خوب بخیے اُدھیڑے ہیں، ملاحظہ فرمائیے: نبی افرنگ کی داستانِ حیات، شیعیت کا یہود نواز کردار، آئینہ ان کو دکھایا تو برا مان گئے، مرزا قادیانی اپنے عقائد اور دعووں کی روشنی میں، ”ترجمان دہلی“ کی الزام تراشیوں پر ایک نظر، دفاعی عناوین میں ”ایک مجلس کی تین طلاق“، کیا خواتین کا مساجد میں آکر باجماعت نماز پڑھنا درست ہے؟ ایک مجلس کی تین طلاق اور روشن خیال دانشوروں کا رویہ“ وغیرہ بھی بہت عمدہ ہیں۔

          پہلے باب میں دارالعلوم کا تعارف اور اس کی خدمات پر اتنا اچھا لکھا ہے کہ بقول مولانا امینی زیدمجدہ: ”قلم توڑدیا ہے“(ص۱۶) فقہی اور تاریخی، مقالات بھی اپنے اندر معلومات کا خزانہ رکھتے ہیں، مجموعہ مقالات میں گوشہٴ سیرت وتاریخ بھی ہے، اس کے آٹھ عناونین میں سے سیرت کے علاوہ تین عناوین بابری مسجد اورایودھیا سے متعلق ہیں، جب کہ چھٹے باب میں ایودھیا کے مشاہیر علماء ومشائخ کی تاریخ رقم کی گئی ہے، ان کے علاوہ محدثین، فقہاء اورارباب علم وفضل کی پچاسوں شخصیات کے تراجم مختصر اور عمدہ انداز میں مرتب کیے گئے ہیں، جون پوراور بنارس کے اہل علم اورمشاہیر کے اوپر بھی خوب خامہ فرسائی کی گئی ہے، موصوف کی شخصیت اور ان کے قلم میں عجیب تاثیر ہے، جب فقہ پرلکھتے ہیں تو خالص فقیہہ اور مفتی معلوم ہوتے ہیں،اورجب حدیث ورجال پر گفتگو کرتے ہیں تو عظیم محدث محسوس ہوتے ہیں اور تاریخ کے جس گوشے کو چھیڑتے ہیں ، اسی کے متخصص معلوم ہوتے ہیں، میں سمجھتا ہوں کہ ”مقالات حبیب“ کا ہر قاری پڑھنے کے بعد میری تصدیق ضرور کرے گا، بعض نادر تحریریں بھی منصہ شہود پر لائی گئی ہیں مثلاً حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کی روداد سفر حرمین۔

          اس طرح یہ مجموعہ کافی متنوع اور گوناگوں خصوصیات کا حامل ہے، طلبہ، علماء اور تاریخ وادب سے دلچسپی رکھنے والے لوگوں کے لیے بہت مفید ہے، بلکہ ان تمام لوگوں کے لیے جو دارالعلوم دیوبند کی خدمات،اس کے فکری اعتدال، حقیقی مزاج ومذاق کو سمجھنا چاہتے ہیں،اور ان لوگوں کے لیے بھی جو مسلک دیوبند کے خلاف ہرزہ سرائی سے متاثر ہوجاتے ہیں، اور ان کے دل میں شکوک وشبہات پیدا ہوجاتے ہیں؛ چوں کہ یہ مقالات صحیح اور درست انداز میں دارالعلوم کی ترجمانی کرتے ہیں؛ اس لیے شیخ الہند اکیڈمی کے ذریعہ خود دارالعلوم نے اس کی طباعت واشاعت کا انتظام کیاہے، کتابت، طباعت، کاغذ، ٹائٹل ہر لحاظ سے پرکشش ہے، میں نے طبع ہونے کے بعد ہی اس کا مطالعہ شروع کیا تھا؛ مگر مختلف مشاغل کی وجہ سے کافی دن کے بعد ہی مکمل پڑھ سکا اور تبصرہ لکھنے کی جرأت کیا، تاخیر کے لیے ناشر اورمحترم موٴلف زیدمجدہ سے معذرت ہے۔

***

---------------------------------------------

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ 10-11 ‏، جلد: 96 ‏، ذی الحجہ 1433 ہجری‏، محرم 1434 ہجری مطابق اکتوبر - نومبر 2012ء