حجةُ الاسلام شاہ اسماعیل شہید اور اسلامی الٰہیات

 

از:         مولانا مدثرجمال تونسوی، کراچی

 

کردار کی عظمت اور دعوت وجہاد کے عملی شہ سوار کی حیثیت سے شاہ محمد اسماعیل شہید کا نام نامی کسی تعجب وحیرت کا باعث نہیں کہ انہوں نے اپنی زندگی کے قیمتی اور اہم ترین حصے کو دعوتی اور پھر آخر میں جہادی خدمات میں اس درجہ صرف فرمایا کہ بالآخراسی راہ میں جامِ شہادت نوش کرکے بارہ گاہ قدوس میں حاضر ہو گئے؛ مگر آپ کے فکرکی عظمت وبلند پروازی اور’اسلامی الہیات‘ بالفاظ دگر’اسلامی فلسفہ‘میں ترک تازیاں اور اس نازک ومشکل ترین میدان میں آپ کے فکروقلم کی جَولانیاں حد درجہ حیرت ناک و باعثِ تعجب ہیں ۔فلسفہ وتصوف اور حکمتِ الٰہیہ کے مسائل ومباحث میں شاہ اسماعیل شہید کی تحریروں کا مطالعہ کرنے والا شخص قطعاً اس بات کا اندازہ نہیں لگا سکتا کہ یہ اُس شخص کے ذہن وفکر کے آثارونتائج ہیں، جسے عمر بھر عملی اور مصروف کن کاوشوں سے فرصت ہی نہ ملی، خاص کر جب ان مسائل ومباحث کو رئیس الجماعت شیخ اکبرابن عربی، امام ربانی مجدد الف ثانی اور حکیم اسلام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کی فلسفیانہ ومتصوفانہ مباحث کو نظروں سے گزارنے کے بعد ملاحظہ کیا جائے تو عقل دنگ رہ جاتی ہے کہ کہاں یہ تینوں بزرگ ہستیاں جن کی عمرکااکثرحصہ اسی نوع کے مشاغل میں گزرا اور کہاں یہ جہاد وشہادت کاراہی جسے اس نوع کے مشاغل کے برعکس خالص بھاگ دوڑ اور انتشار وتشتت والے مشاغل سے واسطہ رہا۔

          غرض یہ کہ شاہ اسماعیل شہید جس طرح ایک بلند پایہ صاحب کردار مجاہد تھے اس سے کہیں زیادہ ایک بلند فکر صاحبِ علم تھے۔ آپ کے فکر ونظر کی گہرائی ودقت اور دقیق علوم ومباحث سے فطری مناسبت اور کمال مہارت کا اسی وقت صحیح اندازہ لگایا جا سکتا ہے جب آپ کی تصنیف”العبقات“ کا مطالعہ کیا جائے ۔ یہ کتاب مستقل اسلامی الٰہیات (فلسفہ) ہی کے موضوع سے متعلق ہے۔ بعض اہل علم نے تواس کتاب کوآپ کا ایک اہم کارنامہ اور تجدید الہیات کا پیش خیمہ تک قرار دیا ہے اور واقعی یہ کتاب اس بات کی حق دار ہے کہ علم وتحقیق اور فلسفہ وحکمت کے شہ سوار اسے اپنی کاوشوں کی جولان گاہ بنائیں اس محنت وکاوش سے جہاں فلسفہ وحکمت کے میدان میں مزید راہیں کھلیں گی، وہاں خاص کر اہلِ علم کے طبقات میں آپ کی زندگی کے ایک اہم مگر بھولے بِسرے پہلو سے متعارف ہونے کا موقع ملے گا۔

          آپ کی یہ کتاب عربی میں ہے جسے معروف ومستند عالمِ دین سلطان القلم حضرت مولانا سید مناظر احسن گیلانی نے اردو کا قالب دیا ہے۔ یہ ترجمہ مولانا کی زندگی میں تو شائع نہ ہو سکا؛ البتہ بعد میں آپ کے ایک عقیدت مند صاحبِ علم جناب ضیاء الدین احمد شکیب نے اپنے پیش لفظ کے ساتھ شائع کرایا، اب یہی اردو ترجمہ ادارہ اسلامیات لاہورکی جانب سے شائع ہو رہا ہے؛ جب کہ اصل عربی کتاب نایاب ہے اگرچہ کافی عرصہ قبل کراچی کی مجلس علمیہ کی جانب سے شائع ہوئی تھی؛ مگر اب اس اشاعت کے نسخے بھی نایاب ہیں ۔کاش کہ اردو ترجمے کے ساتھ یہ اصل عربی بھی منظر عام پر آجائے اور کوئی صاحبِ خیر یا دینی اشاعتی ادارہ اس طرف توجہ کرے تو شایقینِ علم وفلسفہ پر بہت بڑااحسان ہوگا ۔

          الٰہیات اُن مباحث کو کہا جاتا ہے جس میں ذاتِ باری تعالیٰ، اُس کی صفات اور کائنات، مبدأ کائنات،مخلوق کے خالق سے ربط وتعلق اور ان سے متعلقہ مسائل سے گفتگو کی جائے ۔ یہ میدان بہت ہی نازک ہے، اسی لیے پوری تاریخ اسلام میں علماء اسلام میں سے چند شخصیات ہی اس موضوع کو زیر بحث لانے سے مشہور ہوئی ہیں ۔ شیخ اکبر امام ابن عربی،امام ابن تیمیہ،امام غزالی،مجدد الف،ثانی اور شاہ ولی اللہ محدث دہلوی اور قریبی دور میں مولانا محمد قاسم نانوتوی اس سلسلے کے نمایاں نام ہیں؛ لیکن ناانصافی ہوگی اگر شاہ اسماعیل شہیدکو اس فہرست میں شامل نہ کیا جائے، اس کا بین ثبوت آپ کی کتاب ”العبقات“ ہے ۔ جو خود مصنف کی تصریح کے مطابق امام ابن عربی اور مجدد الف ثانی کے علوم وافکار سے خوشہ چینی کرتے ہوئے ،شاہ ولی اللہ صاحب کی ”لمعات“ اور”سطعات“ کی شرح وتوضیح کے لیے لکھی گئی ہے۔ ”عبقات“ کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ شاہ اسمعیل شہید اسلامی الہیات کے موضوع پر ان تین شخصیات سے خاص طورپرمتاثر ہیں اور ان کے علوم وافکار کے دل دادہ اور خود ان تینوں بزرگوں کے نہایت معتقد ہیں(یاد رہے یہی وہ وصفِ جامع ہے، جسے آج بھی شاہ ولی اللہ کے طرزپر”علماء دیوبند“ مضبوطی سے تھامے ہوئے ہیں، یہ حضرت امام ابن عربی اور ان کے فلسفہ وحدت الوجود میں حددرجہ غلو رکھتے ہیں نہ انکار،اسی طرح امام ربانی مجدد الف ثانی کے فلسفہ وحدت الشہود میں غلو رکھتے ہیں نہ انکار؛بلکہ ان دونوں نظریات میں تطبیق اور دونوں بزرگوں کی عقیدت واحترام کے جذبات سے سرشار ہیں)

           شاہ اسماعیل شہید نے ان تینوں بزرگوں کو جن بلند پایہ القاب سے یاد کیا ہے ان سے ان بزرگوں سے عقیدت صاف جھلک رہی ہے ۔ شاہ ولی اللہ صاحب جو رشتے میں آپ کے دادا لگتے ہیں، ان کے متعلق لکھتے ہیں ”واقعہ یہ ہے کہ توفیق کے ہادی نے میری بھی ایقان اور تحقیق کے حاصل کرنے میں راہ نمائی فرمائی اسی سلسلہ میں لمعات اور سطعات اور ان ہی جیسی مختصر کتابوں کے مطالعہ کا موقعہ مجھے میسر آیا یہ کتابیں افضل المحققین ،فخر المدققین،اعتصامُ الحکماء،امامُ العرفاء،شیخ ولی اللہ کی تصنیفات ہیں،خدا ان کے فیوض وبرکات سے مستفید ہونے کی ہمیں سعادت نصیب کرے“۔(العبقات مترجم ،ص:۳)

          نیزاسی کتاب کے خطبے میں امام ابن عربی اور شیخ مجدد الف ثانی کا تذکرہ کرتے ہوئے یوں رقم طراز ہیں:

          ”نیز ان مختلف فوائد سے بھی مستفید ہونے کا مجھے موقع ملا جنہیں ایک سمندر بے کراں، حبر،علام، رئیس الجماعہ نے ظاہر فرمایا ہے جو شیخِ اکبرکے نام سے دنیامیں مشہور ہیں اور طبقہٴ صوفیہ کے جو قائد وشیخ وپیشوا ہیں ،اِسی کے ساتھ حق تعالیٰ نے جو باتیں امام ربانی ،غوث صمدافی ،امام اوحد شیخ احمد رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بیان کروائی ہیں، اُن سے بھی میں نے آگاہی حاصل کی یعنی وہی امام ربانی جنہیں خدا نے ارشاد کے منصب پر سرفراز فرمایا اور امتوں کو سیدھی راہ ان کے ذریعہ سے دکھلائی ،معرفت ویقین والوں کے قلوب جن سے منور ہوئے اور دین کی تجدید کا کام خدانے جن سے لیا“(العبقات مترجم ،ص:۳)

          ہمارے یہاں شاہ اسماعیل شہید کے حوالے سے دو طبقات افراط وتفریط کا شکار ہیں، ایک طبقہ انھیں صوفیائے کرام کا دشمن ومخالف ظاہر کرتا ہے اور خود کو ان کا ہم نوا کہلاتا ہے؛ بلکہ یوں کہیے کہ اپنی صوفیاء دشمنی میں شاہ شہید کو اپنا ہم نوا ظاہر کرنے کی سعی کرتا ہے ۔ دوسرا طبقہ جو صوفیاء سے محبت وعقیدت کا دعویدار ہے وہ بھی شاہ شہید کو صوفیاء کا دشمن اور ان کا مخالف ظاہر کرنے کی کوشش کرتا ہے؛ تاکہ ان کی مصلحانہ ومجاہدانہ سرگرمیوں پر یکلخت پانی پھر جائے؛مگرخودشاہ شہید کی زیرنظر کتاب’العبقات ‘سے ان دونوں نظریات کی تردید ہوتی ہے ۔ اس سلسلے میں شاہ شہید کی یہ عبارت مطالعہ کریں جو آپ نے انھیں بزرگوں کے حوالے میں نقل کی ہے:

          ”اللہ کے پاس وہی لوگ میرے وسائل ہیں اور خدا کے نزدیک وہی میرے شفیع وسفارشی ہیں ،ان ہی اماموں کی میں اقتداء کرتا ہوں اور ان ہی کی روشنی میں راہ پاتا ہوں،حق ویقین کی راہوں میں وہی میرے راہ نما ہیں، دنیا ودین میں وہی میرے سردارو پیشوا ہیں، ان کے سِرِفانی کو خدا تقدیس عطا فرمائے اور ان کے سِرباقی سے مجھے تقدس عطا کرے ۔“(العبقات مترجم ،ص:۴)

          جیسا کہ پہلے ذکر کیا: یہ کتاب شاہ ولی اللہ صاحب کی تصانیف ”لمعات“ اور ”سطعات“ کی شرح وتوضیح کے سلسلے میں لکھی گئی ہے۔ یہ بات خود مصنف کتاب نے اپنی کتاب کی وجہ تسمیہ اور تعارف کے ذیل میں یوں تحریر کی ہے۔ لکھا ہے:

          ”میں نے اس کتاب کا نام ”العبقات “ رکھا ہے ۔ اشارہ اس کی طرف ہے کہ” لمعات“ اور ”سطعات“ مذکورہ بالا کتابوں کی خوشبو اس کی راہ سے پھیلائی گئی ہے، میں اسی کا مدعی نہیں ہوں کہ ان موتیوں (یعنی سطعات ولمعات) کے سلسلہ میں اس کتاب کو بھی شمار کرنا چاہیے اور جس چیز کا مجھے حق نہیں ہے اس کا دعویٰ کیسے کر سکتا ہوں؛ بلکہ سمجھنا چاہیے کہ نقلی علوم سے عربی ادب کے فنون کا جو تعلق ہے یا عقلی فنون سے منطق کے قوانین کی جو نسبت ہے ،یہی تعلق یہی نسبت ان کتابوں سے میرے اس رسالہ کو ہے ،میں نے اس کتاب کو متون کے ڈھنگ پر لکھا ہے اور خیال یہ ہے کہ اس کی شرح بھی بعد کو انشاء اللہ کروں گا، ایسی شرح جس سے آنکھیں ٹھنڈی ہوں ،اس کتاب کو میں نے ایک مقدمہ چار اشاروں اور ایک خاتمہ پر مرتب کیا ہے۔“(العبقات مترجم ،ص:۵)

          کتاب میں کل 121عبقے ہیں 4مقدمے میں،43اشارہ اول میں،28اشارہ دوم میں 12،12 اشارہ سوم وچہارم میں جب کہ 5 خاتمے میں۔ کتاب کا اجمالی تعارف پیش لفظ میں یوں تحریر کیا گیا ہے:

          ”اس کتاب کے اہم مباحث میں سب سے پہلے یہ بحث شامل ہے کہ انسان کے نفسی اور حواسی علوم کتنے ہیں اور ان کی کیا کیا نوعتیں ہیں اس کے بعد اس کتاب کو چار اشاروں یا چار حصص پر پیش کیا گیا ہے۔ اس کے اشارئہ اول میں وجود سے بحث کی گئی ہے، اس ضمن میں جو مباحث آئے ہیں، وہ ہمارے جدید فلسفہ و طبعیات کے لیے غیر معمولی دلچسپی کے حامل ہیں اس اشارے میں یونانی اور سوفسطائی نظریات کا بھی جائزہ لیا گیا ہے؛ نیزاعیانِ ثابتہ ،حقا ئقِ امکانیہ ،اسمائے کونیہ،مظاہیرِ وجود ،مبداءِ وجود،ماہیاتِ قبل الوجود،تعین ماہیت ،مبدأاور وجود کا تعلق ،وجودِ واجب،عالم کا وجودطبعی،وجود منبسط ،نورِوجہ اللہ،توحید،عالمِ لاہوت،اِبداع،خلق،تدبیر وتدلّی سے بحث کی گئی ہے۔اشارہٴ دوم کا موضوع تجلی ہے ۔ اس اشارے میں تجلی کے عام احکامات کے علاوہ تجلی کے اقسام شخص اکبرمتجلی کے شرائط ،محل تجلی پر بحث کی گئی ہے۔ اشارہٴ سوم کا موضوع ایجاب واختیار ہے، اس موضوع کے تحت ارادئہ ممکنات ،افعالِ خداوندی ،افعالِ طبیعی اور اسباب سے بحث کی گئی ہے ،اشارہٴ چہارم میں مراتبِ نفس کی وضاحت کی گئی ہے ،اس اشارہ میں روح کی حقیقت ،نسمہ،مراتبِ کمال،معنی مومن،معنی عالم،راسخ فی العلم،صاحبِ شغل،صاحبِ مراقبہ، صاحبِ دوام الحضور،صاحبِ تجرید،صاحب کشف،حقیقتِ ولایت،اعلیٰ مقاماتِ بشر،حقیقت عالمِ وصال سے بحث کی گئی ہے ۔“(ایضا،ص:م)

          العبقات کے تذکرے میں علامہ اقبال کے اسلامی الہیات کی تشکیل جدید کے موضوع پر دیئے گئے خطبات کا ذکر بھی ناگریز ہے ۔ ہمارے ہاں جدید مغربی تعلیم یافتہ طبقے میں الہیات سے دلچسپی رکھنے والے حضرات کا عمومی منتہائے نظر اقبال کے خطبات ہیں؛ لیکن اگر وہ حضرات بھی اس موضوع کے حوالے سے اپنے علم وفکر میں اضافے اور وسعت کے خواہاں ہوں تو ان کے لیے بھی اس کتاب میں اپنی تشنگی دور کرنے کا بے بہا سامان موجود ہے؛ بلکہ اقبال کے خطبات کے مقابلے میں ایک اضافی خوبی بھی اس کتاب کا حصہ ہے۔ جسے جناب ضیاء الدین احمد شکیب نے ان الفاظ میں ذکر کیا ہے:

          ”سچ تو یہ ہے کہ (علامہ) اقبال نے جو کچھ پیش کیا ہے وہ زیادہ تران احکامات کی جانب اشارات پر مبنی ہے؛ لیکن شاہ اسماعیل سے لے کر ابن عربی تک مذکورہ بالا عارفین نے جو کچھ پیش کیا ہے وہ ایک ٹھوس اور ان کی اپنی آزمودہ حقیقت ہے“(ایضا،ص:ل)

          شاہ محمد اسماعیل شہید کی اس کتاب کی خوبیاں دیکھنے اور مطالعہ کرنے سے تعلق رکھتی ہے، شرط یہ ہے کہ اس کتاب سے استفادے کی استعداد موجود ہو اور خود راقم السطور کو بھی اپنے قصورِ فہم واستعداد کا اعتراف ہے؛ اس لیے نہ تو یہ ہمت کہ اس کتاب کا تجزیہ پیش کروں،نہ یہ ممکن کہ اس گلشن علمی سے منتخب اور چیدہ چیدہ چند پھول قارئین کی خدمت میں پیش کروں؛کیونکہ یہ مباحث اس قدر دقیق اور طویل الذیل ہیں، جنہیں بغیر سیاق وسباق اور تشریح ووضاحت کے مختصر اقتباسات کی شکل میں پیش کرنا قارئین پر مزید بوجھ ڈالنے کے مترادف ہے ۔ ہاں اگر قسمت نے ساتھ دیا تو انشاء اللہ آئندہ کی مجلس میں خاص اسی پہلو کو سامنے رکھ کر چند مسائل کے حوالے سے آپ کی کتاب کے اقتباسات پیش کرکے اس کا نمونہ دکھلادیا جائے گا۔ فی الحال تو اس حوالے سے شاہ شہید کی العبقات کا ہی مختصر تعارف اور اہل علم حضرات کو اس جانب متوجہ کرنا تھا ۔ امید ہے اس مقصد کے لیے یہ چند سطور کافی ہوں گی۔

----------------------------------------------

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ 12 ‏، جلد: 96 ‏، صفر 1434 ہجری مطابق دسمبر 2012ء