انقلابی نظریات اور پیغمبرِ انقلاب  صلی اللہ علیہ وسلم

 

از: متکلمِ اسلام مولانا محمد الیاس گھمن مدظلہ العالی

 

          انقلاب کستے کہتے ہیں؟ انقلاب کیسا ہونا چاہیے؟ اور کیسے آئے گا؟ بہت اہم سوالات ہیں۔ آج ساری دنیا میں انقلاب لانے؛ بلکہ ”برپا“ کرنے کے لیے مختلف سیاسی ومذہبی جماعتیں اور تحریکات معرضِ وجود میں آرہی ہیں۔ عموماً اسلامی ممالک میں؛ جب کہ پاکستان میں خصوصاً انقلاب کا نام زبان زدِ عام ہوگیا ہے۔

          انقلاب کہتے ہیں کسی قوم کے دماغ اور قلوب کا ایک حالت سے نکل کر دوسری حالت میں بدل جانا۔ اور انقلاب ایسا ہونا چاہیے کہ قوم سے معاشرتی برائیوں کا عنصر نکل جائے اور اچھائی کا عنصر اس کی جگہ لے لے۔

          تیسرا سوال سب سے اہم ہے کہ یہ انقلاب کیسے آئے گا؟ اس بارے میں تاریخ کے اوراق میں پھیلی ”داستانِ انقلاب“ کو سمیٹا جائے تو چند نظریے سامنے آتے ہیں۔

پہلا نظریہ:

          کسی نے تنگ دستی افلاس اور بھوک مری کو بڑھتا ہوا دیکھا تو اس نے اسبابِ دولت کی فراہمی کو نقطئہ انقلاب قرار دیا اور یہ کہا کہ دولت کماؤ اورہر جائز وناجائز، حلال وحرام کی قیود سے بالاتر ہوکر خواہ سودی نظام سے ہو یا رشوت خوری سے، طریقہٴ آمدنی کی پرواہ کیے بغیر دولت کماکر مفلوک الحال اور بے بس انسانیت کی بھوک کو مٹانا ہی اس وقت کا ”حقیقی انقلاب“ ہے۔

دوسرا نظریہ:

           جہالت اور جدید ٹیکنالوجی وعلوم وفنون سے دوری ہمیں بہ حیثیت قوم پیچھے دھکیل رہی ہے؛ لہٰذا ایسے انقلاب کی راہ ہموار کی جائے کہ سب لوگ تعلیم یافتہ ہوں۔ ہاں اس کی پرواہ بھی نہ کی جائے کہ معیارِ تعلیم کیسا ہو؟ بنیادی اکائی توحید خداوندی سے الگ تھلگ رہ کر بھی تعلیم و تعلّم کا تاج سرپر سجایاجاسکتا ہے اور نبوت ورسالت کی راہنمائی لیے بغیر بھی؛ بلکہ ان سے مخالفت کرکے بھی ”مخلوط نظامِ تعلیم“ عام کیا جائے؛ تاکہ انقلاب کا یہ عمل تشنہ نہ رہ جائے۔

تیسرا نظریہ:

          اصل درپیش مسئلہ تو غلامی ہے جب تک آزادی ہر طرح کی آزادی اور ہر قاعدے اور ضابطے سے آزادی حاصل نہ کرلی جائے، انقلاب کی روح رونما نہیں ہوسکتی؛ لہٰذا حریت اور آزادی کی مالا پہنے بغیر ”حقیقی انقلاب“ کبھی نہیں آسکتا؛ اس لیے بلا امتیاز اچھے اور برے حکمرانوں سے ٹکراکر اپنی آزادی حاصل کرو اور ”میں نہیں مانتا“ کا اصول ہر منصف اور جابر حکمران کے سامنے کہہ ڈالو۔

چوتھا نظریہ:

           انقلابی مفکرین کے گروہ اختلاف وافتراق کو قوم کی ذلت اور پسماندگی کا سبب بتلارہے ہیں اور اس مسئلے کو حل کیے بغیر کسی صورت میں قوم کو انقلاب کی معنویت سمجھانے سے قاصر ہیں۔ ان کے ہاں اتحاد ویکجہتی اور اتفاق کی فضاہموار کرنا ہی اصل انقلاب ہے، بھلے وہ اتحاد کسی سے بھی ہو․․․ دین دشمن سے ہو یا انسانیت کے دشمن سے؛ بس سب سے بناکر رکھنے میں ہی انقلاب کا راز مضمر سمجھتے ہیں۔

          یہ سب اپنی جگہ! بھوک وافلاس کو ختم کرنا ضروری ہے، جہالت اور جدید علوم سے دوری کی خلیج کو پاٹنا بھی بے شک مناسب ہے، غلامی کی زنجیروں کو توڑنا بھی لازمی ہے اور اختلاف وافتراق کی دبیز چادر کو پھاڑنا بھی ضروری ہے۔

لیکن کیسے؟

          پیغمبرِ انقلاب  صلی اللہ علیہ وسلم نے انّي رَسُوْلُ اللّٰہ! کا عالمگیر نعرہ لگاکر قرآنِ کریم جیسا ابدی دستور تھامے فاران کی چوٹیوں پر لوگوں کو یہ خطاب نہیں فرمایا تھا کہ تمہیں بھوک وافلاس نے تباہی کے کنارے پر لاکھڑا کیا ہے، تنگ دستی تمہیں ناکامی کی دلدل میں اتار رہی ہے؛ لہٰذا دولت کماؤ خوب کماؤ جائز وناجائز طریقِ کار کو اپناکر کماؤ سود اور رشوت سے مت گھبراؤ؛ بس اپنی زندگی کا مقصد دولت کا حصول رکھو۔

          اور نہ ہی پیغمبرِ انقلاب نے جدید علوم وفنون کی تعلیم کے لیے مخلوط ادارے کھولے۔ نہ ہی آپ نے تعلیم کے نام پر صنفِ نازک کے سر سے حیا وعفت اور پاک دامنی وپاک بازی کے آنچل کو سرکایا۔ آزادی کی آڑ میں پیغمبرِانقلاب کی تعلیمات میں کہیں یہ نہیں ملتا کہ بس غلامی کے طوق کو اتار پھینکنے سے تمہاری آخرت سنور جائے گی اور بس!

          اتحادِ ملل کے لیے کفار نے یہ منصوبے بھی آپ تک بہم پہنچادیے کہ ایک دن تم ہمارے خداؤں کی عبادت کرو اور ایک دن ہم تمہارے خدا کی عبادت کرکے اتحاد واتفاق کی مثال قائم کرتے ہیں۔ آپ ہی بتلادیں کہ کیا پیغمبرِ انقلاب نے اُن کی اِن شرائط کو قبول فرمالیا تھا؟ نہیں ہرگز نہیں؛ بلکہ عملاً فرمایا کہ جس کام کے کرنے کا میں حکم دوں اسے کرو اورجس سے روکوں اس سے باز آجاؤ مَا آتَاکُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوْہُ وَمَا نَھَاکُمْ عَنْہُ فَانْتَھُوْا یہ انسانی اور حقیقی انقلاب کی روح اور اساس ہے۔

          اسی اساس پر آج اصلی اور حقیقی انقلاب کی تعمیر ہوسکتی ہے۔ پھر تاریخ شاہد ہے کہ اس انقلاب کو بار آوار کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک ایسی جماعت دی جس نے ہر میدان میں پیغمبر  صلی اللہ علیہ وسلم کے انقلابی مشن کو جان پر کھیل کر پایہٴ تکمیل تک پہنچایا۔ انقلاب لانے والوں کے لیے آقائے نامدار  صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت وکردار اور صحابہ جیسی اطاعت وفرمانبرداری آج بھی لائحہ عمل ہے، جو اپنائے گا وہ انقلاب لائے گا اور جس کی زندگی میں سنت کی مہک نہ ہو وہ انقلاب، انقلاب کے نعرے لگاکر اپنا اور قوم کا وقت ضائع کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے مال ومتاع کا بھی نقصان کرے گا، جیساکہ آج تمہارے سامنے ہورہا ہے۔

***

-----------------------------------------

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ 2 ‏، جلد: 97 ‏، ربیع الثانی 1434 ہجری مطابق فروری 2013ء