حرفِ آغاز

اہل حدیث كا صحیح مطلب كیا ہے؟

 

مولانا حبیب الرحمن اعظمی

 

          اسلامی علوم، حدیث وفقہ اور تاریخ وتراجم وغیرہ موضوعات پر لکھی گئی کتابوں میں اصحابِ حدیث، اہل حدیث، علمائے حدیث، جیسے الفاظ طلبہٴ حدیث اور حدیث کی روایت اور درس وتصنیف کے ذریعہ اس کی خدمت میں مشغول رہنے والوں کے لیے استعمال ہوئے ہیں، نیز قدیم مصنَّفات میں امام مالک، امام شافعی رحمہما اللہ کے مذہب ومسلک کی پیروی کرنے والے علما کا تعارف بھی اہلِ حدیث کے لقب سے کیاگیا ہے۔ اسی طرح اہل السنہ والجماعہ کا ذکر بھی اہلُ الحدیث کے عنوان سے کتابوں میں ملتا ہے؛ جبکہ آج کل ”اہل حدیث“ کا لفظ اس فرقہ پر بولا جاتا ہے، جو عامی یعنی غیرمجتہد کے لیے بھی کسی امام وفقیہ اور مجتہد کی پیروی کو ناجائز بتاتا ہے، ”اہل حدیث“ ایک ایسی جدید اور نوپید اصطلاح ہے، جس کا اسلام کی تاریخ میں کوئی سراغ نہیں ملتا؛ اس لیے اس کا حادث وبدعت ہونا بالکل ظاہر ہے، صرف الفاظ میں یکسانیت کے علاوہ قدیم اہل حدیث واصحاب حدیث سے کوئی معنوی و حقیقی ربط و تعلق نہیں ہے۔ پھریہ حقیقت بھی پیش نظر رکھنی ضروری ہے کہ اس فرقہ کے رکنِ رکین مولانا محمدحسین کی درخواست پر برٹش حکومت نے ”اہلِ حدیث“ نام ان کے لیے الاٹ کیا تھا؛ چنانچہ ایک مشہور غیرمقلد عالم مولانا عبدالمجید لکھتے ہیں: ”مولوی محمدحسین بٹالوی نے اشاعتُ السنہ کے ذریعہ اہل حدیث کی بہت خدمت کی، لفظ ”وہابی“ آپ ہی کی کوششوں سے سرکاری دفاتر اور کاغدات سے منسوخ ہوا اور جماعت کو اہل حدیث کے نام سے موسوم کیاگیا۔ (اہل حدیث اور انگریز ص ۸۷ بحوالہ سیرتِ ثنائی ص ۳۷۲) یہی مولانا محمدحسین وہ بزرگ ہیں، جنھوں نے حکومتِ برطانیہ کی حمایت میں ”الاقتصاد فی مسائل الجہاد“ نامی کتابچہ کے ذریعہ جہاد کی منسوخی کا فتویٰ جاری کیا تھا؛ چنانچہ پروفیسر محمد ایوب قادری مرحوم لکھتے ہیں:

          ”مولوی محمد حسین بٹالوی نے سرکارِ برطایہ کی وفاداری میں جہاد کی منسوخی پر مستقل رسالہ ”الاقتصاد فی مسائل الجہاد“ ۱۲۹۲ھ میں لکھا، انگریزی اور عربی زبانوں میں اس کے ترجمے ہوئے، یہ رسالہ ”سرچارلس ایجی“ اور سرجیمس لائل گورنر انِ پنجاب کے نام معنون کیاگیا۔ مولوی محمدحسین نے اپنی جماعت کے علماء سے رائے لینے کے بعد ۱۲۹۶ھ میں یہ رسالہ اشاعتُ السنہ کی جلد دوم شمارہ گیارہ میں بطورِ ضمیمہ شائع کیا، پھر مزید مشورہ وتحقیق کے بعد ۱۳۰۶ھ میں باضابطہ کتابی صورت میں شائع ہوا۔ (جنگ آزادی ۱۸۵۷/ ص۶۴)

          یہ ہے اس فرقہ کا دینی پہلو جو ”اہلِ حدیث“ کے نام سے عام مسلمانوں کو فریب دے کر ان کو عامةُ الموٴمنین اور سوادِ اعظم سے برگشتہ کررہی ہے۔

          برصغیر میں انگریزوں کے تسلط سے پہلے ترک تقلید اور فقہ وفقہاء کی مخالفت میں کوئی آواز بلند ہوئی ہو، تاریخ کے صفحات میں اس کا ثبوت تلاش نہیں کیا جاسکتا ہے ، اوروں کو چھوڑیے خود جماعت اہل حدیث کے سب سے بڑے بزرگ -جناب نواب صدیق حسن خاں- جن کی زبان وقلم ہی نہیں دولت اور نوابی نے اس شجرئہ نورُس کی آبیاری میں بڑا نمایاں کردار ادا کیا ہے، لکھتے ہیں:

”خلاصہ حال ہندوستان کے مسلمانوں کا یہ ہے کہ جب سے یہاں اسلام آیا ہے؛ چونکہ اکثر لوگ بادشاہوں کے طریقہ اور مذہب کو پسند کرتے ہیں، اس وقت سے آج تک لوگ حنفی مذہب پر قائم رہے اورہیں، اور اسی مذہب کے عالم اور فاضل قاضی اور مفتی اور حاکم ہوتے رہے۔“ (ترجمان وہابیہ ص۱۰ مطبوعہ ۱۳۱۲ھ)

          میری معلومات کے مطابق سرزمین ہند میں اس اجنبی دعوت کی آواز بلند کرنے والوں میں قابل ذکر پہلے شخص مولوی عبدالحق بنارسی متوفی ۱۲۸۶ھ ہیں مسند ہند حضرت مولانا محمداسحاق محدث دہلوی مہاجر مکی متوفی ۱۲۶۲ھ کے تلمیذ رشید صاحب مظاہر حق شرح مشکوٰة حضرت مولانا نواب قطب الدین دہلوی متوفی ۱۲۸۹ھ اپنے رسالہ تحفة العرب والعجم کے مقدمہ میں لکھتے ہیں:

”عرصہ تخمیناً چالیس بیالیس برس کا گذرا کہ بعد تشریف لے جانے حضرت سید احمد صاحب ومولانا محمداسماعیل صاحب ومولانا عبدالحئی صاحب کے طرف پنجاب کے بعض مفسد مزاجوں کے خیال میں کچھ انکار تقلیدِ ائمہٴ دینِ متین علیہم الرحمہ کا آیا تھا اور تخمِ عناد کا فقہاء وفقہ کی طرف سے خصوصاً جناب امامِ اعظم کی طرف سے ان کے دل میں جماتھا۔ من جملہ ان کے مولوی عبدالحق بنارسی نے مدعی خلافت حضرت سیداحمد بن کر اس پردہ میں داد خوب لامذہبی کی دے کر بہت سے مسلمانوں کو بہکایا اور فساد احداث مذہب نو کا پھیلایا۔“ (بحوالہ شرعی فیصلے ص۲۷)

          حضرت سیداحمد شہید اپنے رفقا اور لشکر کے ساتھ ۱۲۴۲ھ میں علاقہٴ پنجاب میں پہنچے اور ۱۲۴۶ھ میں مشہد بالاکوٹ میں جامِ شہادت سے سرشار ہوئے، اسی چار سالہ مدت کے درمیان ترکِ تقلیداور فقہ وفقہاء بیزاری کی دعوت کا آغاز کیاگیا، جس کا صاف معنی یہ نکلا کہ اس فرقہ کی عمر پورے دوسوسال بھی نہیں ہے۔

          صاحبِ مظاہر حق یہ اطلاع بھی دیتے ہیں کہ ترکِ تقلید وغیرہ کی اس تبلیغ ودعوت کی ابتداء ؛ چونکہ علاقہٴ مشرق سے کی گئی تھی؛ اس لیے دیار پورب کے دین دار بالخصوص حضرت سیداحمد شہید کے ارادت مندوں اور ان کے خلفاء نے حرمین شریفین کے علماء سے فتویٰ طلب کیا، جس کے جواب میں وہاں کے علماء جن میں بطور خاص محدث عابد سندھی بھی شامل تھے، ایسے لوگوں کو ضال ومضل ہونے کا فتویٰ دیا، پھر اسی زمانہ میں مدرسہ کلکتہ کے مدرس اوّل مولوی محمد وجیہہ الدین نے اس فتنہٴ نو کی شرعی حیثیت سے عام مسلمانوں کو آگاہ کرنے کی غرض سے ”نظام الاسلام“ نام سے ایک رسالہ لکھا جس میں قوی دلائل سے ان کا رد کیا، اس رسالہ پر اس دیار کے علما بالخصوص حضرت سیداحمد شہید کے خلفا نے بھی اپنے دستخط ثبت کیے، اس رسالہ کا بفضلہ تعالیٰ اچھا اثر ہوا جس کا ذکر صاحب مظاہر حق ان الفاظ میں کرتے ہیں:

          ”تب لامذہب خائب وخاسر ہوئے، بعضے ساکت ہوئے اور بعضوں نے تقیہ پر کام فرمایا؛ مگر شور وفساد کا جو چرچا تھا وہ مٹ گیا اور نابود ہوا۔“ (شرعی فیصلے ص۲۸)

          آگے لکھتے ہیں:

          ”پھر ایک عرصہ کے بعد ایک شخص عبداللہ صفی پوری کے دماغ میں خلل پیدا ہوا، اور مکہ میں وہ اسی جرم میں قید ہوا، اور اظہارِ توبہ کے بعد اسے رہائی ملی اور وہاں سے ہندوستان واپس لوٹا اور گھومتے پھرتے دہلی میں رک کر ”وہی فساد لامذہبی کا پھیلانا شروع کیا“ یہ وہ زمانہ ہے کہ حضرت شاہ اسحاق صاحب دہلی میں موجود تھے اور ان کے علاوہ دیگر بڑے علماء بھی تھے، یہ سارے علماء عبداللہ صفی پوری اور اس کے ہم نواؤں سے سخت نالاں وبیزار تھے، آخر مولانا سید نذیرحسین اور مولوی خواجہ ضیاء الدین وغیرہ علماء کے مشورہ سے ان لوگوں کے متعلق حضرت شاہ اسحاق رحمہ اللہ سے استفتاء کیاگیا، انھوں نے اس کے جواب میں تقلیدِ امام معین کی واجب مخیر اور اس کے منکر کو ضال اور گمراہ لکھا، اس فتویٰ پر دیگر علماء دہلی نے بھی اپنے دستخط کیے جن میں چند معروف لوگوں کے اسماء یہ ہیں:

          مفتی صدرالدین، مفتی اکرام الدین، مفتی رحمت علی، مولوی عبدالخالق استاذ (مولانا) سیدنذیرحسین صاحب، مولوی مملوک العلی (نانوتوی) میاں شاہ احمد سعید صاحب سجادہ نشین شاہ غلام العلی صاحب مرحوم، مولوی محمد علی صاحب رام پوری خلیفہ سیداحمد صاحب، مولوی محبوب العلی جعفری تلمیذ خاص حضرت مولانا شاہ عبدالعزیز صاحب وغیرہ۔

          مولانا قطب الدین رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ ”اس بلا کے دفع میں (مولانا) سید نذیرحسین صاحب بہ جان ودل ہمارے ساتھ تھے حتیٰ کہ ”تنویرالعینین“ کے مضامین کے رد میں جس کو لوگ منسوب مولانا اسماعیل کی طرف کرتے ہیں مدلل ایک رسالہ عربی زبان میں لکھا۔“

          آگے لکھتے ہیں کہ علماء اور دین دار لوگوں کی اس سعیِ مسلسل سے، لامذہبی کا چرچا بظاہر ختم ہوگیا؛ لیکن خفیہ طور پر یہ لوگ اپنا کام کرتے رہے، بالخصوص مولانا سیدنذیرحسین صاحب کو اپنا ہم نوا بنانے میں انھوں نے بڑی سعی اور جدوجہد کی جس کا انجام کیا ہوا، صاحبِ مظاہر حق کی زبان قلم سے سنیے۔

          اور سید صاحب کو ایسا ورغلایا اور اپنے ساتھ سانٹھا کہ سید بھی ان کے ممنون ومشکور ہوکر اور لٹوبن کر ان کی حمایت کرنے لگے اور کہنے لگے کہ میں تو بیس بائیس برس سے ایسا ہی تھا پر کسی کو معلوم نہ تھا اور میں کیا کروں مجھ کو تو یونہی سوجھتی ہے۔ (ایضاً ص۳۲)

          لا مذہبیت کے برپا اس فتنے کے آگے بندھ لگانے کے لیے مولانا نواب قطب الدین دہلوی نے تنویرالحق، توقیر الحق، تحفة ابعرب والعجم وغیرہ متعدد رسالے تحریر کیے، جس کے جواب میں مولانا سیدنذیرحسین صاحب نے ”معیار الحق“ تصنیف کی۔

          اس تفصیل سے یہ بات اچھی طرح آشکارا ہوگئی کہ ہمارے پیش رو اکابر رحمہم اللہ نے اس بدعتِ جدیدہ سے اسلامیانِ ہند کو بچانے کے لیے اپنی جیسی سعی میں کوئی کمی نہیں چھوڑی اور دلائل سے حق کو پوری طرح واضح کردیا؛ لیکن جب آدمی کی نیت ہی میں فساد پیدا ہوجائے تو پھر اس کے آگے دلیل وحجت سب بے کار ہوجاتی ہے، اسی کی شکایت صاحبِ مظاہرِ حق نے اپنے الفاظ میں یوں کی ہے اور اسی پر اپنے طویل مقدمہ کو ختم کردیا ہے کہ:

”یا وقت یہ دیکھا کہ․․․ جو روایت فقہِ ظاہر میں مخالفِ حدیث معلوم ہوئی تو وہ توجیہہ و تاویل جو شارحینِ مقبول الٰہی لکھ گئے ہیں کو قبول نہ کرکے، اور فقہاء کو مخالف حدیث کا ٹھہراکر پڑھنے والے کو خلجان میں ڈال کر اور اپنے اجتہاد کو دخل دے کر شاگرد کو منکرِ فقہ اور فقہاء بناکر، تقلیدِ مذہب سے نفرت دلاکر اپنی تقلید کے جال میں پھنساکر لامذہب بنایا، مثل مشہور ہے کہ ”بڑی بہو کو بلاؤ کہ کھیر میں نون ڈالے“ حال آنکہ غیرمجتہد کو اپنی راے سے فتویٰ دینا درست نہیں، جیساکہ علماء نے اکثر اصول اور فروع میں تصریح فرمائی ہے، افسوس صد افسوس ان لوگوں پر کہ وہ مذہب مجتہدین خیرالقرون کا چھوڑ کر تابع داری غیرمجتہد، نافہم، فساد انگیز کی کرتے ہیں اور زبانِ طعن اکابرینِ دین پر دن رات جاری رکھتے ہیں (ایضاً ص۳۶)

          اس فتنہٴ نوخیز سے اسلامیانِ ہند کو محفوظ رکھنے کے لیے یہ صرف علمائے دہلی اور خانوادئہ ولی اللّٰہی سے منسلک بزرگوں کی خدمات کا ایک مختصراور سرسری تذکرہ ہے، ورنہ واقعہ یہ ہے کہ یہ فرقہ جب سے برصغیر میں وجود پذیر ہوا،اسی وقت سے علمائے حق اس کا تعاقب کرتے رہے ہیں، جس کی تفصیل اس مختصر تحریر میں پیش نہیں کی جاسکتی ہے، تفصیل کے طالب، کتاب ”شرعی فیصلے“ مرتبہ مولانا منیراحمد صاحب استاذ حدیث جامعہ اسلامیہ باب العلوم پاکستان کا مطالعہ کریں، جس سے بہ خوبی اندازہ ہوجائے گا کہ ہمارے پیش رو اکابر علماء کی نظر میں اس نوپید فرقہ کی مذہبی حیثیت کیا ہے؟

***

------------------------------------

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ 3 ‏، جلد: 97 ‏، جمادی الاولی 1434 ہجری مطابق مارچ 2013ء