معاصر دینی تعلیم اور عصر حاضر کے تقاضے

از: مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی‏، نائب ناظم امارت شرعیہ بہار، اڑیسہ وجھارکھنڈ

 

اسلام نے تعلیم وتعلم ، درس وتدریس اور علم ومعرفت کے سلسلے میں جو احکامات دیے اور اس کی وجہ سے پڑھنے پڑھانے کا جو چلن اور رواج ہوا ، اس نے دنیا کوجہالت کی تاریکیوں سے نکالا ، قرآن کریم کے نزول کے ساتھ دورِ جہالت کا خاتمہ ہوا ، مسلمان جہاں کہیں گئے علم کا چراغ روشن کیا ، اور وہاں کی ضرورت کے اعتبار سے ایجادات وانکشافات میں ایسا حصہ لیا کہ بہت سارے علوم کے وہ بانی مبانی ہوگئے، یہ وہ دور تھا جب علم شاخ در شاخ نہیں ہواتھا اور ایک فرد کے لیے ممکن تھا کہ وہ جامع معقول ومنقول کی حیثیت سے سامنے آئے اور لوگ علوم وفنون میں اس کی گہرائی اور گیرائی سے بھر پور فائدہ اٹھاسکیں ، اس زمانہ میں آج کی طرح علمِ دین ودنیا کی تقسیم نہیں تھی، اور ساری توجہ علمِ نافع کے حصول پر صرف کی جاتی تھی اور غیر نفع بخش علوم سے اللہ کی پناہ چاہی جاتی تھی، نفع بخش علوم کی حیثیت صدقہٴ جاری کی تھی اور مخربِ اخلاق علوم کی طرف کوئی جانا پسندنہیں کرتاتھا۔

پھر زمانہ کی قدریں بدلنے لگیں ، علوم میں تنوع پیدا ہوا ، اور اس کا دائرہ بڑھتا چلا گیا ، ایسے میں کسی ایک شخص کے لیے ممکن نہیں تھا کہ وہ تمام علوم پر یکساں دسترس رکھے ، اسی طرح اداروں کے لیے بھی سارے علوم اور ان کی شاخوں کو پڑھنا پڑھانا دشوار تر ہو گیا ، اس صورتِ حال کی وجہ سے عملی طور پر مختلف علوم وفنون کے لیے الگ الگ ادارے وجود میں آنے لگے ؛ تاکہ ہرادارہ اپنے موضوع پر پوری توجہ صرف کر سکے اور اس کے حاملین میں گہرائی اور گیرائی پیدا ہو سکے ، اس سوچ نے تخصصات کے اداروں کو وجود بخشا اورہندوستان میں مدرسہ اور اسکول کا مفہوم الگ الگ ہو گیا، عالم اور دانشور کی اصطلاح وجود میں آئی اور دونوں الگ الگ علوم کے نمائندہ سمجھے جانے لگے ۔

یہی وہ زمانہ ہے، جب دینی تعلیم کے لیے کثرت سے ادارے وجود میں آئے اور ان میں خالص مذہبی علوم کی تدریس ہونے لگی، یہاں کے فارغین نے دینی بنیادوں پر سماج میں کام شروع کیا ، خدا بیزاری کے بجائے خدا شناسی کی ترغیب دی ، انہوں نے” اجرت“ کے بجائے” اجر“ کی نیت سے کام کیا اور سماج ومعاشرہ میں صالح قدروں کے فروغ کے لیے اپنی زندگی وقف کر دی ، مسلمانوں نے اس کی اہمیت کو کم اور غیروں نے زیادہ سمجھا، وہ ان اداروں کو بدنام کرنے کی منظم جد وجہد میں لگ گئے اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے، ایک بڑا طبقہ دوسرے راستے سے مدارس کو بدنام کرنے پر تُل گیا اور انہوں نے معاصر دینی تعلیم کو عصرِ حاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کا نعرہ لگا یا اور اس زور وشور سے لگا یا کہ یہ عنوان بھی اہلِ علم ودانش کے لیے مرکز توجہ بن گیا ، اس مضمون میں ہم اس حقیقت کا مختصراً جائزہ لیں گے کہ آج کے دور میں جو دینی تعلیم دی جا رہی ہے ، اسے عصرِ حاضر کے تقاضوں سے کس حد تک ہم آہنگ کر سکتے ہیں اور اس میں کتنی گنجائش ہے ۔

معاصردینی تعلیم کو ہم تین مراحل میں تقسیم کرسکتے ہیں ، ایک بنیادی دینی تعلیم ، دوسرے ثانوی اور تیسرے اعلیٰ دینی تعلیم، تینوں مراحل میں عصرِ حاضر کے تقاضے الگ الگ ہیں۔ سب سے پہلے ہم بنیادی دینی تعلیم کو لیتے ہیں ، اس مرحلہ میں بچوں کو بنیادی دینی تعلیم عموماً مکاتبِ اسلامیہ کے ذریعہ فراہم کرائی جاتی ہے ، یہ مکاتب مسجد کے تحت بھی چلتے ہیں اور کسی ادارے اور تنظیم کے جزوی یاکلی تعاون سے بھی ، ان کے اوقات کہیں ”صباحی“ اور کہیں ”مسائی“ ہوتے ہیں ، ان کے علاوہ بنیادی دینی تعلیم کے درجات بھی تقریبا سبھی مدارس میں قائم ہیں ، اور واقعہ یہ ہے کہ یہی مکاتب دور دراز کے دیہاتوں میں دینی شعور کی بقا اور قرآن ونماز سمجھنے سمجھانے میں کلیدی رول ادا کر رہے ہیں ، ہمارا دانشور طبقہ ان کے طریقہٴ تدریس ، موادِ تدریس اور آلاتِ تدریس کے حوالے سے سوالات اٹھاتا رہا ہے ،واقعہ یہ ہے کہ ان تعلیمی اداروں میں اکسٹکچرکی کمی ہے ، پرانا طریقہٴ تدریس رائج ہے ، اور بچوں کو آج بھی جسمانی تعذیب کے مراحل سے گذرنا پڑتا ہے ، ان میں پڑھانے والے اساتذہ کی قابلِ قدر خدمات کے اعتراف کے باوجود یہ بھی حقیقت ہے کہ بیش تر جگہوں پر قرآنِ کریم صحت کے ساتھ پڑھنے پڑھانے کا رواج کم ہے، ”نورانی قاعدہ“ پرہو رہی محنت اور مختلف اداروں کی طرف سے تدریبُ المعلمین کے کیمپ کے ذریعہ اس کمی کو پورا کرنے کی کوشش کی جار ہی ہے ، ان اداروں کو عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ان کے معیارِ تدریس کو بڑھا یا جائے،طریقہٴ تعلیم کو پر کشش بنا یا جائے ؛ لیکن ہمہ گیر تعلیمی مہم کے پروگراموں کی طرح گا بجا کر نہیں ؛ بلکہ درس وتدریس کی سنجیدگی کو بحال رکھتے ہوئے، ایسے اقدام کیے جائیں ، جس سے طلبہ کھیل سے زیادہ تعلیم پر توجہ دینے لگیں ، اس کے لیے وسائل فراہم کیے جائیں اور اساتذہ ایسے رکھے جائیں جن کی اخلاقیات سے طلبہ کسبِ فیض کر سکیں، طلبہ کے عادات واطوار کو صحیح رخ اور صحیح سمت دینے کے لیے یہ بہت اہم زمانہ ہے ، اس عمر میں تعلیم کے ساتھ تربیت کی خاص ضرورت ہے ، قرآن کریم میں بار بار تلاوت کتاب کے ساتھ تزکیہ کا ذکر کرکے یہی پیغام دینے کی کوشش کی گئی ہے؛ اس لیے اس مرحلہ میں بچہ کو قرآن کریم صحت کے ساتھ پڑھایا جائے، کلمہ ، نماز اور دین کی بنیادی تعلیم پر پوری توجہ مرکوز کی جائے اور اس کی تربیت پر خصوصی توجہ دی جائے، کذب بیانی، چغل خوری ، لعن طعن ، گالی گلوج ، ایک دوسرے کو برا بھلا کہنے کا مزاج اسی عمر میں بنتا ہے ، تھوڑی سی توجہ سے طلبہ کے اندر اخلاقِ کریمانہ پیدا کیا جاسکتا ہے، اس مرحلہ میں ضرورت کے مطابق ٹیچنگ ایڈ وغیرہ کا بھی استعمال کرنا چاہیے۔

لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ اساتذہ کا انتخاب سوچ سمجھ کر کیا جائے ، صلاحیت کے ساتھ صالحیت پر بھی نظر رکھی جائے اور انہیں بقدر کفاف وضرورت وظیفہ یا تنخواہ دیا جائے؛ تاکہ وہ ذہنی سکون کے ساتھ اپنی اس اہم ذمہ داری سے عہدہ بر آ ہو سکیں ، عموماًدیکھا یہ جا رہا ہے کہ دیہاتوں میں امام وموٴذن اس شخص کو بنا دیا جاتا ہے ، جو کسبِ معاش کے دوسرے ذریعوں پر قادر نہیں ہوتا، موٴذن نہ تو اذان صحیح سے دے پاتا ہے اور نہ امام نماز سے متعلق مسائل سے کلی طور پر واقف ہوتا ہے ، انہیں حضرات کے ذمہ تعلیم وتعلم کا کام بھی سپر د کر دیا جاتا ہے؛ اس لیے بچوں میں قرآن کریم صحت کے ساتھ پڑھنے کا مزاج نہیں بنتا اور ان کے اخلاق وعادات بھی اساتذہ کی بے عملی سے متاثر ہوجاتے ہیں ۔

بعض کنونٹ اور پرائیوٹ تعلیمی اداروں میں دینیات کے نام پر ایک گھنٹی ہوتی ہے ، اس ایک گھنٹی میں خلوص کے ساتھ کام کیا جائے تو بہت کچھ ممکن ہے ؛ لیکن عموما یہ گھنٹیاں نام کی ہوتی ہیں، ان کا مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ وہ گارجین جو بنیادی دینی تعلیم کے سلسلے میں زیادہ حساس ہیں ، اس حوالہ سے ان کی توجہ اس طرف مبذول کرائی جا سکے اور ان کے بچے بھی ادارہ کو مل سکیں ، اس تاجرانہ ذہنیت کے باوجود اگر اساتذہ اس گھنٹی میں اپنی ذمہ داریوں کو ادا کر سکیں تو ان اداروں میں بھی قرآن کریم اور کلمہ نیز ضروری ادعیہٴ ماثورہ یاد کرائے جا سکتے ہیں اور تربیت کے لیے بھی فضا ساز گار بنائی جا سکتی ہے ۔

دوسرا مرحلہ ثانویہ کا ہے ، اسکول میں اس مرحلہ میں دینیات کا تصور نہیں ہے ، اس مرحلہ میں معاصر دینی تعلیم کا سارا نظام مدارسِ اسلامیہ میں سمٹ جاتا ہے ،نظامیہ مدارس میں یہ مرحلہ عربی اول سے شروع ہوتا ہے اور عربی پنجم ، ششم تک چلتا ہے،اس مرحلہ میں ہمارے یہاں عربی قواعد کی تدریس پر خاصی توجہ صرف کی جاتی ہے، نحو وصرف کی بنیادی کتابیں اور شروحات تک زیر تدریس آتی ہیں ، فقہ وغیرہ کی بھی کچھ کتابیں پڑھائی جاتی ہیں، اس مرحلہ میں طریقہٴ تدریس پر خاص توجہ کی ضرورت ہے ،ہو یہ رہا ہے کہ طلبہ میں کتاب فہمی سے زیادہ رٹنے رٹانے پر توجہ دی جاتی ہے ، کہنا چاہیے کہ تدریس کا انداز ،فن کی تدریس کا نہیں ، کتاب کی تدریس کاہوتا ہے، یہی حال دینیات سے متعلق دوسری کتابوں کا ہوتا ہے ، کتابوں میں جو مثالیں دیدی گئیں اور جو جزئیات ذکر کردی گئیں، وہی طلبہ کو یا د ہوتی ہیں ، اس طرزپر دوسری مثالوں اور دوسری جزئیات کی تلاش کی صلاحیت طلبہ میں پیدا نہیں ہوتی، یا بہت کم پیدا ہوتی ہے ، اس مرحلہ میں ضرورت ہے کہ فن کی تدریس کا مزاج بنایا جائے اور طلبہ میں ایسی صلاحیتیں پیدا کر دی جائیں کہ ان میں دقتِ نظر بھی ہو اور وسعتِ نظر بھی ۔

اس مرحلہ میں عصری تقاضے کا مطلب یہ سمجھا جاتا ہے کہ انہیں عصری علوم کی تعلیم دی جائے ، عصری علوم کے بعض مبادیات کا پڑھانا مفید معلوم ہوتا ہے؛ لیکن ہمیں یہاں یہ تفریق ضرور ملحوظ رکھنی چاہیے کہ ہمارا مقصد عصری علوم کی تدریس نہیں ، علوم دینیہ کی تدریس ہے ، یہ مدارس اسی کام کے لیے ہیں ، ان کا تعلیمی مزاج ، منہج اور مقصد متعین ہے ، عصری علوم کو اس مرحلہ میں وسائل کے طور پر تو داخل کیا جاسکتا ہے ، مقاصد کے طور پر نہیں ، مثلا پہلے ہم کا نڈے کے قلم سے لکھتے تھے ، پھر روشنائی والا قلم آیا ، پھر مارکیٹ میں لیڈ پین استعمال ہونے لگا اور اب ان کے ساتھ کمپیوٹر بھی لکھنے کا ایک ذریعہ بن گیا ہے ، یقینا ہمیں اس کو سیکھنا چاہیے ، بچوں کو سکھا نا چاہیے ، فقہ کے جن ابواب ومباحث کو سمجھنے کے لیے آج کی جدید اصطلاحوں کے سمجھنے کی ضرورت ہے اور جن کے بغیر عصر حاضر کے مسائل کی تفہیم، تشریح وتطبیق ممکن نہیں ہے ، ان کو ضرور پڑھا دینا چاہیے؛ لیکن بقدر ضرورت ہی ، اس سے آگے نہیں، اس سے آگے بڑھنے پر بات مقصد تک پہونچ جائے گی۔

 مدارس کی کثرت اور بہتات کے چرچے کے باوجود راجند سنگھ سچر کمیٹی کی رپورٹ یہ بتلاتی ہے کہ مسلم سماج کے پڑھنے والے بچوں میں صرف چار فی صدی مدارس کا رخ کرتے ہیں ، ان چار فی صد بچوں کو دینی علوم میں تخصص اور اسپشلائزیشن کے لیے مختص کرنا چاہیے ؛تاکہ سماج کی دینی اور مذہبی ضرورتیں ان فارغیں کے ذریعہ پوری ہو سکیں ، ان طلبہ کو بھی دوسرے علوم پڑھانے میں لگا دیا جائے تو یہ طلبہ نہ دینیات کے رہیں گے اور نہ عصری علوم کے ، جس کا تجربہ مدرسہ عالیہ ، بہار اسٹیٹ مدرسہ اکزامنیشن بورڈ اور عربک پرشین بورڈ الہ آباد کے فارغین کے ذریعہ ہمارے سامنے آیا ہے اور آتا رہتا ہے ، ہمارے تجربات نے عصری علوم کے ساتھ مدارس کی تعلیم کے غیر مفید اور غیر موٴثر ہونے پر مہر تصدیق ثبت کردی ہے ، یقینا تجربات با ر بار کیے جاسکتے ہیں؛ لیکن جب ہم میڈیکل کالج سے انجینئر اور انجینئرنگ کالج سے ڈاکٹر پیدا کرنے کی کسی تجویز کو پاگل پن اور ذہنی دیوالیہ پن سے تعبیر کرتے ہیں تو مدارس سے ہی یہ کیوں چاہا جا رہا ہے کہ وہ عصری تقاضوں کے نام پر اپنے تعلیمی اداروں کے مزاج اور مواد کا گلہ گھونٹ دیں ، اور مدارس سے نکلنے والے لوگ دوسرے علوم میں بھی کامل ہو کر نکلیں ۔

اس موقع پر تاریخ کے حوالے سے مسلم سائنس دانوں اور دوسرے علوم کے لوگوں کا ذکر کیا جاتا ہے ، عصری اور دینی تعلیم کی تفریق سے ملت کے دونیم ہونے کی بات کہی جاتی ہے ، ہندوستا ن میں مسلمانوں کے نظامِ تعلیم وتربیت کا جائزہ لے کر یہ بات کہی جاتی ہے کہ علم کی دوئی کو مٹانا چاہیے ، یہ سب بجا ہے؛ لیکن ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ ہم جس زمانے کی بات کرتے ہیں ، اس زمانہ میں علم کی اتنی شاخیں نہیں پھوٹی تھیں ، اب تو ایک موضوع سے پچاسوں ایسی شاخیں نکل آتی ہیں ، جن میں اسپسلائیزیشن (specialisation)کیا جاتاہے ، اور کسی ایک شخص کے لیے ایک ہی موضوع کی مختلف شاخوں میں مہارت پیدا کرنا ، نا ممکن سا ہو رہا ہے ۔

مدارس کے نظامِ تعلیم وتربیت کو عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے لیے زور دار دلیل یہ بھی دی جاتی ہے کہ اس طرح ان کا معاشی نظام مضبوط ہوگا اور سماج میں ان کا مقام ومرتبہ فزوں تر ہوگا ، واقعہ یہ ہے کہ یہ دونوں باتیں محض بہلاوے کی ہیں، جن لوگوں نے مذہبی علوم میں دستگاہ پیدا کی، ان کی معاش بھی مضبوط ہے اور بغیر عصری علوم کے پڑھے ہوئے ان کا مقام ومرتبہ جو سماج میں ہے، اسے کھلی آنکھوں سے دیکھا جا سکتا ہے ، جولوگ کمزور رہتے ہیں ، ان کی معاش کہیں سے پڑھنے کے باوجود کمزور ہی رہتی ہے؛ بلکہ اگر سروے کرایا جائے تو عصری علوم کے حاملین میں بے روزگاروں کا تناسب مدارس کے فارغین سے کئی گنا زیادہ نظر آئے گا۔

اس لیے اس مرحلہ میں معاصر دینی تعلیم میں زیادہ سے زیادہ عصرحاضر کے تقاضوں کو ملحوظ رکھنا ہو ، تو زبان کی حد تک ہندی، انگریزی اور کمپیوٹر کی تدریس کو داخل کر لینا چاہیے، جو پہلے ہی سے بہت سارے اداروں میں داخل ہیں ،متعدد اداروں میں اس کا کامیاب تجربہ کیا جا چکا ہے ، اس سے زیادہ کسی چیز کا داخل کرنا عصر حاضر میں دین کی تفہیم وتشریح کے لیے تو ٹھیک ہے، اس سے زیادہ کرنے سے معاصر دینی تعلیم کا رخ اور قبلہ ہی بدل جائے گا؛ اس لیے اس کی اجازت نہیں دی جا سکتی ہے ۔

تیسرا مرحلہ اعلیٰ تعلیم کا ہے، اس مرحلہ میں کہنا چاہیے کہ دینی علوم کی اعلیٰ ترین کتابیں پڑھا ئی جاتی ہیں ، ان میں طریقہٴ تدریس میں تو عصری تقاضوں کو ملحوظ رکھا جا سکتا ہے ، فقہ ، تفسیر، حدیث اور عقائد کے درس میں آج کے معاملات آج کے حالات، دین پر کھڑے کیے جانے والے نت نئے سوالات اور اعتراضات پر سیر حاصل بحث کی جانی چاہیے؛ تاکہ طلبہ آج کے لب ولہجہ میں ان اعتراضات کا دفاع اور سوالات کے جوابات پر قادر ہو جائیں ، اس مرحلہ میں علم کلام کی جو قدیم کلامی بحثیں ہیں اور جن فرقِ ضالہ منحرفہ کا ذکر بار بار آتا ہے؛ وہ تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں ، آج ہمیں جن لوگوں کا سامنا ہے ، اور جس قسم کے سوالات دین ومذہب پر اٹھائے جا رہے ہیں، لادینیت کے فروغ اور خدا بیزار سماج کے لیے جو جد وجہد سرکاری ،غیر سرکاری سطح پر کی جا رہی ہے، اس سلسلے میں ہمیں طلبہ کی رہنمائی کرنی چاہیے ، اور ان کتابوں کا انتخاب کرنا چاہیے جو اس سلسلے میں ممد ومعاون ہوں اور طلبہ کو اس کام کے لیے تیار کر سکیں۔

اس مرحلہ کی تعلیم یونیورسیٹیوں میں بھی ہوتی ہے اور بعض میں مستقل شعبے دینیات اور اسلامک اسٹڈیز کے کھلے ہوے ہیں ، ان میں بھی انہیں امور کو ملحوظ رکھنا چاہیے ،جن کا ذکر اوپر ہو چکا ہے ، خلاصہ ان ساری بحثوں کا یہ ہے کہ معاصر دینی تعلیم کو عصری تقاضوں سے ہم آہنگ ہونا چاہیے؛ لیکن ایسی ہم آہنگی نہیں جو مدارسِ اسلامیہ کے کردار اورمزاج کو بدل کر رکھ دے۔

***

-------------------------------------

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ 3 ‏، جلد: 97 ‏، جمادی الاولی 1434 ہجری مطابق مارچ 2013ء