اعادہٴ صلاة بہ ترکِ واجب میں نووارد مُفْتَرِض کی اقتداء

 

از: مولانا مفتی رشید احمد فریدی

 

          فرض نماز اس طرح اداء کی گئی کہ کوئی واجب سہواً ترک ہوگیا، اگر سجدہٴ سہو کرلیا گیا تو نماز بالکل ادا ہوگئی، کوتاہی کی تلافی بھی ہوگئی اور ذمہ سبک دوش ہوگیا۔ سلامِ قطع سے پہلے حرمتِ صلاة جو تکبیر تحریمہ سے ثابت ہوئی تھی وہ باقی ہے؛ اس لیے اگر سجدہٴ سہو کے بعد کوئی نووارد شخص اقتداء کرنا چاہے تو کرسکتا ہے ”وَأجْمَعُوْا عَلٰی أنَّہ لَوْ عَادَ الٰی سُجُوْدِ السَّھْوِ ثُمَّ اقْتَدَیٰ بِہ رَجُلٌ یَصِحُّ اقْتِدَائُہ بِہ “ (بدائع ج۱،ص۱۴۷) اور اگر سجدہٴ سہو نہیں کیا اور سلام پھیردیا تو نماز کا اعادہ واجب ہے۔ اعادہٴ نماز سے مقصود نقصان کی تلافی ہے، پس معادہ نماز سے جبر ہوگیا اور ذمہ بالکل فارغ ہوگیا۔

          یہاں سوال یہ ہے کہ مکلف کے ذمہ جو فرض الوقت تھا، اس فرض سے ذمہ سبک دوش ہوا؛ مگر صلاةِ اولیٰ سے یا ثانیہ (اعادہ) سے؟ اگر اعادہ صلاة وقت گذرنے کے بعد کیا تب تو بالاتفاق ذمہ پہلی نماز سے ساقط ہوگیا ہے اور اس معادہ نماز کی حیثیت نافلہ کی ہوگی اور اگر اعادہ قبل ختم الوقت ہے، تب بھی جمہور فقہاء کے نزدیک ذمہ پہلی نماز سے ساقط ہوا؛ چونکہ رکن یا شرط فوت نہ ہونے کی وجہ سے پہلی نماز فرض ہی ادا ہوئی ہے؛ اس لیے سقوطِ فرض اعادہ پر موقوف نہیں رہا اور معادہ نماز فرض کے مقابلہ میں نفل کہلائے گی؛ اس لیے کہ تکرار فرض مشروع نہیں ہے۔

          (۱)     وَوَجَبَ عَلَیْہِ اعَادَةُ الصَّلاَةِ بِجَبْرِ نَقْصِھَا فَتَکُوْنُ مُکَمِّلَةً وَسَقَطَ الْفَرْضُ بِالْأولیٰ (مراقی)

          (۲)     وَالْمُخْتَارُ أنَّ الْمُعَادَةَ لِتَرْکِ وَاجِبٍ نَفْلٌ جَابِرٌ وَالْفَرْضُ سَقَطَ بِالأُوْلٰی لِأنَّ الْفَرْضَ لاَیَتَکَرَّرُ (طحطاوی علی المراقی)

          (۳)     وَالْمُخْتَارُ أنَّ الْفَرْضَ ھُوَ الْأَوَّلُ وَالثَّانِيْ جَبْرٌ لِلْخَلَلِ الْوَاقِعِ فِیْہِ (غنیة المستملی شرح منیة المصلی)

          (۴)     وَالْمُخْتَارُ أنَّھَا جَابِرٌ لِلْأوَّلِ لِأنَّ الْفَرْضَ لاَیَتَکَرَّرُ قَالَہ الْمُصَنِّفُ وَغَیْرُہ (الدار المنتقی فی ہامش مجمع الانہر ص۱۳۳)

          (۵)     وَلاَ اشْکَالَ فِیْ وُجُوْبِ الْاعَادَةِ اذْ ھُوَ الْحُکْمُ فِیْ کُلِّ صَلاَةٍ أُدِّیَتْ بِکَرَاھةِ التَّحْرِیْمِ وَیَکُوْنُ جَابِرًا لِلْأوَّلِ لِأنَّ الْفَرْضَ لاَ یَتَکَرَّرُ (حاشیہ الشلبی علی تبیین الحقائق ص۲۷۷ عن فتح القدیر)

          (۶)     قَولُہ ”اَلْمُخْتَارُ أنَّہ “ أيِ الْفِعْلُ الثَّانِيْ جَابِرٌ لِلْأوَّلِ بِمَنْزِلَةِ الْجَبْرِ بِسُجُوْدِ السَّھْوِ وَالْأوَّلُ یَخْرُجُ بِہ عَنِ الْعُھْدَةِ وَانْ کَانَ عَلیٰ وَجْہِ الْکَرَاہَةِ عَلیٰ الأصَحِّ (ردالمحتار)

          صلاة ثانیہ (معادہ نماز) کا صلاة اولیٰ کے لیے جابر اور مکمل ہونا نیز پہلی نماز سے فرض کا ساقط ہوجانا جمہور کے نزدیک گویا مسلّم ہے اور علامہ شامی نے بھی اسی کو اصح قرار دیا ہے۔ پس نووارد شخص کی شرکت اعادہٴ صلاة میں جمہور کے مختار واصح قول کے مطابق درس نہیں ہے۔

          (۱) چنانچہ دارالعلوم دیوبند کے اولین مفتی حضرت مولانا مفتی عزیز الرحمن صاحب عثمانی نے یہی فتویٰ دیا۔ ملاحظہ ہو، سوال․․․․․ جواب: اس صورت میں اس کی نماز صحیح نہ ہوگی؛ کیونکہ اس صورت میں اس جماعت کے فرض اگرچہ ناقص رہے؛ مگر ادا ہوگئے، لہٰذا اب یہ دوسری نفل ہوگی اور مفترض کی اقتداء متنفل کے پیچھے صحیح نہیں۔ (فتاویٰ دارالعلوم ج۳، ص۲۴۶)

          (۲) مفتی اعظم وصدر جمعیة العلماء ہند حضرت مولانا مفتی کفایت اللہ صاحب دہلوی تحریر فرماتے ہیں: جواب: اُن لوگوں کی نمازِ فرض ادا نہیں ہوئی جو اعادہ والی نماز میں آکر شریک ہوئے اور پہلے وہ شریکِ جماعت نہ تھے۔ (کفایت المفتی ج۳،ص۹۸)

          (۳) اور فقیہ الامت مفتی اعظم ہندو دارالعلوم دیوبند حضرت اقدس مفتی محمود حسن گنگوہی نوراللہ مرقدہ نے بھی یہی فتویٰ لکھا ہے، ملاحظہ ہو: ”حامداً ومصلیا ومسلما“ اگر فرض ترک ہونے کی بنا پر اعادہ ہوا ہے تو اس میں شریک ہونا نئے آدمی کا درست ہے؛ کیونکہ پہلی نماز باطل ہوگئی اوراگر ترکِ واجب کی وجہ سے اعادہ ہوا ہے تو نئے آدمی کی شرکت درست نہیں؛ کیونکہ فرض پہلی نماز سے ادا ہوچکا ہے اور یہ صرف تکمیل ہے اَلْمُعَادَةُ لِتَرْکِ وَاجِبٍ نَفْلٌ وَالْفَرْضُ سَقَطَ بِالْأُوْلیٰ طحطاوی، ص۱۳۴۔( فتاویٰ محمودیہ ص۴۴۴، ج۶ نسخہ پاکستان)

          (۴) فقیہ النفس مفتی اعظم گجرات حضرت مفتی سید عبدالرحیم صاحب لاجپوری تحریر فرماتے ہیں: حقیقت یہ ہے کہ جو نماز پہلے پڑھی تھی وہ بیکار نہیں گئی، وہ اس درجہ میں قائم رہی کہ فرض ساقط ہوگیا؛ کیونکہ اس نماز کے سارے ارکان ادا ہوگئے، صرف ایک واجب رہ گیا تھا اس کے فوت ہونے سے نماز میں جو کمی رہی ہے، اس کی تکمیل کے لیے اعادہ کا حکم ہے، یہ اعادہ کردہ نماز بہ منزلہٴ سجدہٴ سہو ہے، جس طرح سجدہٴ سہو سے کمی و نقص دور ہوتا ہے، اسی طرح نماز کے اعادہ سے نماز کی تکمیل ہوتی ہے۔ یہ (اعادہ کردہ) نماز اصل اور مستقل نماز نہیں ہے؛ لہٰذا جو شخص پہلی نماز یعنی جماعتِ اول میں شامل نہ ہو وہ اگر اس دوسری میں شریک ہوگا تو اس کا فرض رہ جائے گا، یعنی اس کی اصل نماز ادا نہ ہوگی۔ الخ (فتاویٰ رحیمیہ ج۱،ص۱۹۸)

تحقیق وتجزیہ

          نماز کے ارکان وشرائط پورے ہونے پر فرض پورا ہوجانا حدیث سے ثابت اور فقہاء کے نزدیک مسلّم ہے، اگرچہ اس میں کسی درجہ میں نقص بھی موجود ہو؛ چنانچہ سنن ابی داؤد میں ہے کہ حضرت عبداللہ ابن مسعود نے کہا کہ حضور  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”کیف بکم اذا اتت علیکم امراء یصلون الصلوٰة بغیر میقاتھا قلت فما تأمرنی اذا ادرکنی دلک یا رسول اللہ قال صل الصلوٰة لمیقاتھا واجعل صلاتک معھم سبحةً (باب اذا اخر الامام الصلوٰة عن الوقت ص:۶۲) ترجمہ: تمہارا کیا حال ہوگا جب تم پر ایسے امراء مسلط ہوں گے، جو نماز کو اس کے (مستحب) وقت سے موٴخر کرکے پڑھیں گے۔ میں نے کہا یا رسول اللہ آپ مجھے کیا حکم فرماتے ہیں جب وہ زمانہ مجھے پالے۔ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نماز کو اس کے (مستحب) وقت میں پڑھ لو اور امراء کے ساتھ اپنی نماز کو نفل بنالو۔

          محشی ابوداؤد حضرت مولانا محمد حیات سنبھلی مذکورہ حدیث کے متعلق لکھتے ہیں: ”وفیہ الصلوٰة التی یصلیھا مرتین تکون الاولی فریضة والثانیة نفلا وھذا الحدیث صریح فی ذلک وقد جاء التصریح فی غیر ھذا الحدیث ایضاً کما فی روایة لمسلم ”واجعلوا صلاتکم معھم نافلة“ وللعلماء فیہ اربعة اقوال بینھا النووی فی شرحہ لمسلم اصحھا ان الفرض ھی الاولیٰ للحدیث وبہ قال ابو حنیفة۔ یعنی نماز جو دو مرتبہ ادا کی گئی، تو پہلی نماز فرض ہوگی اور دوسری نفل۔ یہ حدیث بالکل صریح ہے اس کے علاوہ دوسری حدیث میں بھی صراحت ہے جیسے مسلم شریف کی روایت میں ”واجعلوا صلاتکم معھم نافلة“ کا لفظ ہے، علماء کے اس میں چار اقوال ہیں جن کو امام نووی نے شرح مسلم میں بیان کیا ہے۔ اصح قول یہی ہے کہ فرض نماز پہلی ہی ہے اورامام ابوحنیفہ اسی کے قائل ہیں۔ (حاشیہ:۸ ابوداؤد) اور بعض روایت میں وضاحت کے ساتھ یہ تقسیم وارد ہے کہ جو نماز بعد میں پڑھی گئی وہ نافلہ ہے اور جو پہلے ادا کی گئی وہ مکتوبہ ہے۔ (ابوداؤد)

          (۱) خروج بصنعہ کے فرض نہ ہونے پر جس مشہور حدیث سے احناف استدلال کرتے ہیں اس میں مقدار تشہد قعدہ کرلینے پر فقد تمت صلاتک کا لفظ مصرح ہے، یعنی فرض کوئی باقی نہیں رہا پس سلام بھی واجب ہے فرض نہیں ہے۔

          (۲) تعدیلِ ارکان جو کہ علامہ ابن ہمام کی ترجیح کے مطابق واجب ہے اگر ترک کردیا تو احناف کے نزدیک فرض کا ادا ہوجانا متفق علیہ ہے اور حدیث ارجع فَصَلِّ فانک لم تُصَلِّ کو نفی کمال پر محمول کرتے ہیں۔

          (۳) فرض نماز میں قعدہٴ اخیرہ کرکے سہواً کھڑا ہوگیا تو جمیع کتب فقہ میں یہ لفظ ”تم فرضہ“ منقول ہے، یعنی فرض مکمل ہوگیا، البتہ تاخیر سلام کی وجہ سے سجدہٴ سہو واجب ہے۔

          (۴) امام اگر فاسق مُعلِن ہے، تو اس کے پیچھے نماز مکروہ تحریمی ہے اور واجبات میں سے کوئی بھی واجب ترک نہ ہوا ہو پھر بھی اعادہ واجب ہے، پس فرض ادا ہوجانے کے باوجود امام مبتدع کی وجہ سے ایسا نقص لاحق ہوا کہ اس کی تلافی کے لیے اعادہ کا حکم دیاگیا۔

          (۵) اہل اصول نے تہا فرض پڑھنے کو ادائے ناقص اور مسجد میں باجماعت پڑھنے کو ادائے کامل بتایا ہے، پس اگر مسجد کے پڑوسی نے گھر میں تنہا فرض پڑھ کر وہی نماز باجماعت مسجد میں پڑھی تو یہ نماز اس کی بالاتفاق نفل ہوگی، یہی وجہ ہے کہ فقہاء نے ایسے شخص کے لیے جماعت میں شرکت کو فجر وعصر اور مغرب میں ممنوع قرار دیا ہے۔

          (۶) جو نماز کراہت تنزیہی کے ساتھ ادا کی گئی،اس کا اعادہ مستحب ہے اور اعادہ کی صورت میں لوٹائی ہوئی نماز بلا تردد نفل ہوگی کوئی بھی فقیہ اس اعادہ کی ہوئی نماز کے فرض ہونے کا قائل نہیں ہے؛ حالانکہ اعادہ کی وجہ سے نیت، مقدار قرأت اور جماعت کا حکم سب قبل الاعادہ نماز کی طرح ہے۔

          مذکورہ مسائل میں غور فرمائیں کہ اعادہ خواہ واجب ہے یا مستحب محض جبر نقصان کے لیے ہے نہ کہ از سر نو فرض ادا کرنے کے لیے، یہی وجہ ہے کہ سقوطِ ذمہ بالاتفاق اعادہ پر موقوف نہیں ہے اورجب فرض ادا ہوجانے کی صورت میں ذمہ سبک دوش ہوگیا تو اعادہ کی ہوئی نماز کی حیثیت نفل کے سوا اور کیا ہوسکتی ہے؟ نیز سقوطِ فرض کے بعد لوٹائی ہوئی نماز کے نفل ہونے کو یوں بھی سمجھا جاسکتا ہے کہ فرض نماز میں فساد یعنی ترکِ رکن یا شرط کی وجہ سے جب فرضیت باطل ہوجاتی ہے، مثلاً قعدہ اخیرہ سہواً ترک کرکے کھڑا ہوگیا اور پھر رکعت زائدہ کو سجدہ کے ساتھ مقید کرلیا تو فرضیت باطل ہوگئی یا مثلاً صاحب ترتیب نے فائتہ کے یاد ہوتے ہوئے وقتیہ پانچ نمازیں ادا کرلیں اب اگر چھٹی سے پہلے فائتہ کی قضا کرتا ہے تو وقتیہ باطل ہوگئیں؛ مگر مشائخ فرماتے ہیں کہ صرف فرضیت باطل ہوئی نفلیت باقی ہے۔ معلوم ہوا کہ فرضیت کے ختم ہوجانے سے شیخین کے نزدیک اصل صلاة کا بطلان نہیں ہوتا ”کما فی کتب الفقہ“ گویا نماز کی ادنیٰ حیثیت مطلق نفعل سے عبارت ہے؛ لہٰذا فرض ادا ہوجانے کے بعد اعادہ کے ذریعہ وجود میں آنے والی نماز کی حیثیت نفل سے زائد نہیں ہے۔ مزید براں فرض کے نقصان کا تدارک اگرچہ وہ نقص ترک واجب کے علاوہ کسی اور طریق سے ہو نفل کے ذریعہ ہونا یوم آخرت میں حدیث پاک سے ثابت ہے۔ حاصل یہ کہ معادہ نماز نفل ہے اور نووارد کی نماز فرض۔ فلا یصح اقتداء المفترض خلف المتنفل۔ یہ امراوّل ہوا۔

          البتہ اعادہ کا واجب ہونا، اعادہ بنیة فرض ہونا، اعادہ باجماعت مشروع ہونا، قرأت کا فقط دورکعت میں ہونا یہ سب قرائن ہیں فرض ہونے کے جس پر لفظِ اعادہ دلالت کرتا ہے، غالباً اسی وجہ سے بعض فقہاء معادہ کے فرض ہونے کے قائل ہیں۔ اب اگر امر اوّل کے ساتھ اِس امر کا لحاظ کریں تو نتیجہ برآمد ہوگا کہ معادہ دو حیثیتوں کی جامع ہے اور یہی تطبیق کی اچھی شکل ہے کہ معادہ ظاہراً و صورتاً فرض ہے اور حقیقتاً ومعناً نفل ہے اور بطور تائید یہ نظیر ملاحظہ ہو کہ صلاة الطواف حقیقتاً نفل ہے اسی وجہ سے بعد العصر والفجر اس کا ادا کرنا عند الاحناف ممنوع ہے اور اداءً واجب ہے کہ اس کا ترک جائز نہیں، وغیرہ۔ اِس صورت میں معادہ اگر کامل نفل نہیں ہے تو کامل فرض بھی نہیں ہے اور جو شخص صلاة اولیٰ میں شریک نہیں تھا اس کے ذمہ جو وقتیہ ہے وہ من کل الوجوہ یعنی صورةً ومعناً فرض ہے پس اعادہ میں امام کا رتبہ نووارد سے ادنیٰ ہوا؛ لہٰذا اس صورت میں بھی اقتداء صحیح نہیں ہے۔ یہ امر ثانی ہوا۔

          اوراگر بقول بعض صلاة ثانیہ (معادہ) ہی کو فرض مانا جائے تو کئی اشکالات وارد ہوتے ہیں:

          (۱) فرض اوّل کا بغیر ترک رکن شرط کے باطل ہونا لازم آئے گا اور یہ درست نہیں۔ اس کا حل یہ پیش کیاگیا کہ وہ فرض بعد الوقوع کے قائل ہیں۔ لان القائل بان الفرض ھو الثانیة اراد بہ بعد الوقوع والا لزم الحکم ببطلان الاولیٰ بترک ما لیس برکن ولا شرط (شامی)

          (۲) صلاة ثانیہ کو فرض کہنے سے دوسرا اشکال یہ ہے کہ فرض اوّل سے گویا ذمہ ساقط نہیں ہوا؛ جبکہ نماز تمام ارکان وشرائط کے ساتھ ادا کی گئی تو اس کا جواب یہ دیاگیا کہ ذمہ تو فرض اوّل سے ہی ساقط ہوگیا ہے۔ ولا یلزم من کونھا فرضاً عدم سقوط الفرض بالاولیٰ (شامی)

          (۳) جب ذمہ فرض اوّل سے ساقط ہوگیا تو ثانیہ کو فرض قرار دینے سے الفرض لا یتکرر فی وقت واحد کے خلاف لازم آئے گا۔ علامہ شامی اس کا حل اور دونوں قولوں میں تطبیق دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ صلاة اولیٰ کو فرض ناقص اور ثانیہ کو فرض کامل کہا جائے اور اس کے نظائر پیش کیے ہیں۔

          لیکن اس صورت میں بھی نووارد کی شرکت صلاة معادہ میں کیسے درست ہوگی؟ کیونکہ جب ذمہ ساقط ہوگیا تو صلاة ثانیہ جس کی ادائیگی اگرچہ کامل ہے؛ مگر فرضیت کی شان باقی نہیں ہے ورنہ بغیر اعادہ یا بغیر قضا کے ذمہ سبک دوش نہ ہوتا اور علی سبیل التسلیم صلاة ثانیہ کی فرضیت میں نفلیت کی آمیزش ہے؛ جبکہ نووارد کی وقتیہ نماز جو اس کے ذمہ ہے وہ قطعاً اور خالصاً فرض ہے، پس اقتداء کی صورت میں نووارد کا تحریمہ اعلیٰ ہوگا اور امام کا تحریمہ ادنیٰ۔

          شاید یہی وجہ ہے کہ علامہ شامی نے اعادہٴ صلاة کے متعلق فرضیت کی بحث اور تطبیق پیش کی ہے؛ مگر صلاة معادہ میں نووارد مفترض کی جوازِ اقتداء پر کوئی کلام نہیں کیا اور نہ کسی فقیہہ سے صحتِ اقتداء کا قول نقل کیا ہے۔

          البتہ کوئی شخص سجدہٴ سہو کے بعد سلام انقطاع سے پہلے اقتداء کرے تو بالاتفاق صحیح ہے جیساکہ فقہاء نے صراحتاً ذکر کیا ہے؛ کیونکہ امام کا تحریمہ فرض جو ابتدا ء ً قائم ہوا تھا وہ ابھی ختم نہیں ہوا ہے؛ لہٰذا نووارد کی شرکت امام کے تحریمہٴ اوّل میں ہی پائی گئی۔ چنانچہ مفتی اعظم ہند ودارالعلوم دیوبند حضرت فقیہ الامت مفتی محمود حسن گنگوہی لکھتے ہیں ”اعادہ جبر نقصان کی وجہ سے واجب ہے؛ لہٰذا ابتداءً فرض پڑھنے والے کو اس کا اقتداء کرنا صحیح نہیں“ (فتاویٰ محمودیہ ج۶ ص۴۴۴)

          خلاصہ یہ کہ جو فرض نماز ارکا وشرائط کے ساتھ ادا کی گئی اگرچہ نماز میں داخل یا خارج سے نقص لاحق ہونے پر جبر نقصان کے لیے سجدہٴ سہو یا اعادہ کا حکم دیاگیا ہے، اس فرض سے ذمہ کا سبک دوش ہوجانا بالکل مسلّم اور یقینی ہے، پس اعادہ کی جانے والی نماز وہ فرض نہیں ہے جس سے ذمہ مشغول ہو، لہٰذا نووارد کی اقتداء معادہ نماز میں صحیح نہیں ہے، اگر اقتداء کی تو فریضہ ساقط نہیں ہوگا اور از سر نو فرض ادا کرنا ہوگا۔

          اتماماً للفائدہ عرض ہے کہ اعادہٴ صلوٰة میں مسبوق کی شرکت کی چند صورتیں ہیں: حضرت فقیہ الامت مفتی محمودحسن گنگوہی کے فتاویٰ کے حوالہ سے یہاں پیش کرتا ہوں۔ جس فرض نماز میں امام سے سہواً واجب ترک ہوگیا اور سجدہٴ سہو نہیں کیا، ایسی نماز میں اگر کوئی مسبوق ہوتو:

          (۱) اگر مسبوق نے پہلے اپنی بقیہ نماز بغیر سجدہٴ سہو کے پوری کی پھر امام کے ساتھ معادہ نماز میں شریک ہوا تو اس کی نماز بالکل صحیح ہوگئی۔

          (۲) اور اگر مسبوق نے اپنی نماز پوری کی اور سجدہٴ سہو بھی کیا (حالانکہ جب امام نے نہیں کیا تو مسبوق کو بھی وہ سجدہٴ سہو نہیں کرنا چاہیے تھا، رشید) پھر معادہ نماز میں شریک ہوگیا، تو نماز صحیح ہوگئی مع الکراہة۔

          (۳) اور اگر مسبوق نے اپنی نماز توڑکر معادہ نماز میں شرکت کی ہے تو جمہور کے نزدیک یہ درست نہیں ہے (اسے پھر اپنی فرض نماز دہرانی ہوگی)۔

          (۴) اوراگر امام کی پہلی نماز فاسد ہوگئی تھی اس لیے اعادہ کیا جارہا ہے تو اس میں نووارد کی شرکت بھی درست اور مسبوق کا اپنی نماز توڑ کر شریک ہونا بھی درست سب کی نماز صحیح ہوگئی۔ (فتوی محمودیہ،ج۶، ص۴۴۳ نسخہ پاکستانی)

***

          نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم اما بعد:

          ایک علمی تحریر جناب مولانا عرفان صاحب زیدمجدہم امام مسجد عمر خاں مظفرنگر کی جس کا عنوان ہے ”تکر واجب کی بناء پر معادہ نماز میں نووارد کی شرکت“ فقہی عبارتوں اور لغوی حقائق اور منطقی طرز کلام اور استدلال پر مشتمل ہے۔ یہ مضمون حضرت مولانا نورالحسن راد کاندھلوی دامت برکاتہم نے شعبان ۱۴۳۲ھ میں ناچیز کو عنایت فرمایا کہ تمہیں اس پر کچھ لکھنا ہے۔ بندہ نے ایک نظر ڈال کر دیگر مصروفیات کی وجہ سے گوشہٴ خمول میں رکھ دیا اور اب طویل وقفہ کے بعد اس پر کچھ لکھنے کی توفیق میسرآئی وللہ الحمد۔

          صاحب تحریر کا مدعا جس کو انھوں نے مسئلہ کے تحت ذکر کیا ہے یہ ہے ”اگر امام صاحب نے ترک واجب کی وجہ سے نماز کا اعادہ کیا تو جو شخص پہلی جماعت میں شامل نہیں تھا دوسری جماعت میں شامل ہونے سے اس نئے شخص کی نماز صحیح ہوجائے گی یہ دوسری نماز فرض ہی واقع ہوگی“ پھر موصوف نے کئی صفحات میں صلاة ثانیہ (معادہ) کے فرض ہونے پر مختلف نظائر سے استدلال کیا ہے؛ مگر فقہائے عظام کی صریح عبارتوں اور فحوائے کلام کو ملحوظ رکھ کر جب تحریر پر گہری نظر ڈالی گئی تو معلوم ہوا کہ معادہ کے فرض ہونے کو تسلیم کرلینے کے باوجود موصوف نے نووارد کی صحتِ اقتداء کا جو حکم لگایا ہے، تحریر اس کو ثابت کرنے سے قاصر ہے؛ البتہ صاحب تحریر نے تعریف و توصیف سے بلند ہوکر حقیقت پسندانہ رائے طلب فرمائی ہے، اس لیے اولاً مسئلہ کی صحیح صورتِ حال بالتفصیل پیش کی گئی اور ثانیاً یہ چند سطور بطور خلاصہ آں موصوف کی توجہ مبذول کرنے کے لیے سپرد قلم کیے جارہے ہیں۔

          (۱) آں محترم نے پوری تحریر میں صلاة ثانیہ (معادہ) کے فرض ہونے کی حیثیت کو متعدد طریقوں سے ثابت کرنے کی سعی فرمائی ہے، چنانچہ لفظ ”وجوب اعادہ“ کے لغوی معنی اور حقیقت سے استدلال کیا ہے۔ اس سلسلہ میں یہ عرض ہے کہ اعادہ کے وجوب وعدم وجوب ہی کے بارے میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہے، جس کا حاصل یہ ہے کہ اس میں تین اقوال ہیں: (۱)) اعادہ قبل مضی الوقت واجب ہے اور بعد الوقت مستحب ہے۔ (۲) قبل الوقت وبعدہ دونوں صورت میں مستحب ہے۔ (۳) دونوں وقت میں اعادہ واجب ہے اور راجح قول یہی ہے کہ اعادہ مطلقاً واجب ہے۔

          (۲) اعادہ واجب ہونے کی صورت میں دوسرا اختلاف صلاة ثانیہ (معادہ) کی حیثیت میں ہے؛ چنانچہ (الف) جمہور فقہاء کے نزدیک نفل ہے؛ کیونکہ صلاة اولیٰ (میں شرائط وارکان مکمل ہونے کی وجہ) سے فرض ادا ہوکر ذمہ سبک دوش ہوچکا ہے؛ بلکہ علامہ کبیری نے الفرض و الاوّل کہہ کر معادہ کو حتماً نفل قرار دیا ہے۔ علامہ شامی جمہور کے ساتھ ہیں، وہ لکھتے ہیں: سقط الفرض بالاولی وان کان مع الکراہة اس کے بالمقابل (ب) فقیہ ابوالیسر وغیرہ کہتے ہیں الفرض ہو الثانی کہ ثانیہ ہی فرض ہے اور صلاة اولیٰ کی فرضیت باطل ہوکر نفل رہ جائے گی۔ علامہ شامی نے مذکورہ دونوں اقوال میں یوں تطبیق پیش کی ہے کہ صلاة اولیٰ کو فرض ناقص اور ثانیہ (معادہ) کو فرض کامل کہا جائے تاکہ اختلاف حتی الامکان رفع ہوجائے اوراس کے کچھ نظائر پیش کیے ہیں۔ دونوں قولوں میں تطبیق یہ شامی کی خصوصیت ہے اور مولانا عرفان صاحب زیدمجدہ نے اسی تطبیق کو مقصود بناکر نظائر سے استدلال کیا اوراس کے خلاف کی توجیہ فرمائی ہے۔

          (۳) علامہ ابن ہمام کے کلام سے اس مسئلہ میں جمہور کے قول کی ترجیح ثابت ہوتی ہے، یعنی فرض ذمہ سے صلاة اولیٰ کے ذریعہ ساقط ہوگیا؛ لہٰذا صلاة ثانیہ کا نفل ہونا راجح ہے؛ چنانچہ مفتی اعظم ہند حضرت فقیہ الامت مفتی محمودحسن گنگوہی نے بھی اپنے فتاویٰ میں یہ لکھا ہے؛ مگر علامہ ابن ہمام کے کلام کے متعلق مولانا موصوف یوں لکھ رہے ہیں کہ ”شیخ ابن ہمام نے ثانی کے نفل ہونے کی طرف اشارہ تک بھی نہیں کیا ہے؛ بلکہ طرز کلام سے معلوم ہوتا ہے کہ شیخ کا میلان ثانی کے فرض ہونے کی طرف ہے“۔ حالانکہ ابن ہمام بھی اس مسئلہ میں جمہور کے ساتھ ہیں۔

          (۴) علامہ شامی کی تطبیق جس میں صلاة اولیٰ کو فرض ناقص اور ثانیہ (معادہ) کو فرض کامل کہا گیا ہے اس پر مولانا موصوف محض لفظی مناسبت کی وجہ سے صلاة جنازہ بغیر ولی اورمع الولی کی نظیر سے استدلال کرکے معادہ کی حیثیت فرض کو متعین کررہے ہیں؛ حالانکہ نماز جنازہ دونوں مرتبہ میں اپنی جگہ کامل ہے، دونوں مرتبہ کے مصلی بھی الگ ہیں۔ پہلی مرتبہ کی نماز کو ثانی کے مقابلہ میں ناقص کہنا محض اعتباری ہے اور دوسری مرتبہ والی نماز کو اعادہ کہنا بھی محض ولی کے اعتبار سے ہے ورنہ پہلی مرتبہ کی نماز پڑھنے والوں کے لیے نہ اعادہ ہے اور نہ ان کی نماز میں کوئی نقص ہے۔ ان کا ذمہ فرض سے ساقط ہوچکا ہے۔ فان صلی غیرہ ای غیر من لہ حق التقدم اعادہا ان شاء ولا یعید معہ من صلی مع غیرہ (مراقی الفلاح، فتاویٰ محمودیہ ج۱۳، ص۱۴۵) بغیر ولی کے نماز اگر ناقص ہوتی تو ایک سے زیادہ مرتبہ بغیر ولی کے نماز جنازہ کی گنجائش نہ ہوتی۔ پس معادہ کو صلاة جنازہ مع الولی پر قیاس کرکے حتماً فرض قرار دینا صحیح نہیں ہے۔

          (۵) صلاة ثانیہ (معادہ) کی فرضیت کو موصوف اپنے خیال میں متعین کرنے کے بعد ایک قدم آگے بڑھ کر صلاة اولیٰ کی فرضیت کے بطلان اور نفل میں تبدیل ہوجانے کو ایک نظیر سے ثابت کرنا چاہتے ہیں، وہ یہ کہ من علیہ الجمعہ نے اگر تنہا ظہر کی نماز ادا کی پھر جمعہ میں شریک ہوا، تو اس کی ظہر باطل ہوکر نفل ہوجائے گی اور صلاة الجمعہ جو بہ منزل اعادہ کے ہے اس سے فرض ادا ہوکر بری الذمہ ہوگا۔ یہ استدلال بھی صحیح نہیں ہے؛ کیونکہ سعی الی الجمعہ کی وجہ سے ظہر کا بطلان اس لیے ہے کہ مقیم فی المصر جمعہ کے دن ظہر کے وقت نمازِ جمعہ کے ذریعہ اسقاط فرض کا مکلف کیاگیا ہے گویا جمعہ کے دن یہی نماز اس کے ذمہ فرض ہے، پس جب اس نے تنہا ظہر پڑھی تواس نے فریضہ وقت ادا نہیں کیا اس کا تقاضہ تو یہ تھا کہ یہ فرض بالکل باطل ہوتا؛ مگر چونکہ فی نفسہ ہر مکلف پر ظہر کی نماز فرض ہے، اس اعتبار سے اس نے اپنی نماز ادا کی پس بطلان کا حکم موقوف ہوا سعی الی الجمعہ پر: جبکہ مسئلہ مبحوث عنہا میں مکلف نے امام کے ساتھ جو فرض ادا کیا وہ سب اسی کے مکلف تھے بس، لہٰذا ترک واجب سہواً کی وجہ سے نہ فرض کے خلاف ہوا اور نہ وجوب اعادہ کے حکم سے صلاة اولیٰ کی شان فرض کا بطلان لازم آتا ہے۔

          (۶) موصوف اپنے زعم میں معادہ کے فرض ہونے اور صلاة اولیٰ کے نفل ہوجانے کو جس طرح بھی ہو ثابت کرچکے تو جمہور جو سقوط فرض بالاولیٰ کے قائل ہیں اور شارح منیة المصلی علامہ حلبی نے المختار ان الفرض ہو الاول کی صراحت فرمائی ہے، یعنی پہلی نماز ہی فرض ہے (پس دوسری نماز لامحالہ نفل جابر ہے) یہ بات موصوف کے مفروضہ مدعا کے خلاف ہے اس لیے توجیہہ کرکے اپنے مدعا سے قریب کررہے ہیں، ملاحظہ ہو: ”مگر اس سے شامی کی تطبیق پر کوئی فرق نہیں پڑتا نتیجتاً حسب تطبیق علامہ شامی سقوط الفرض بالاولی والثانی جابر کے معنی یہ ہوں گے کہ سقوط فرض اعادہ پر موقوف نہیں ہے“ لیجیے اتنی پیہم سعی کے بعدجو حاصل نکلا وہ جمہور کے موافق ہے؛ کیونکہ وہ یہی تو کہتے ہیں کہ صلاة اولیٰ سے فرض ادا ہوچکا، اگرچہ کچھ کراہت کے ساتھ اور ذمہ بھی ساقط ہوگیا اورجب سقوط فرض اعادہ پر موقوف نہیں ہے تو پھر نفل کی حیثیت کے بغیر معادہ کا محض فرض ہونا ثابت نہیں ہوا؛ لہٰذا معادہ نماز میں جس کا فرض ہونا غیر متیقن ہے نووارد کی اقتداکیسے درست ہوگی۔

          (۷) معادہ نماز میں نووارد کی صحت اقتدا کو ثابت کرنے کے لیے علامہ حلبی کے کلام کی توجیہہ کرنے کے بعد صاحب مضمون شامی کی اس عبارت سے استدلال کرتے ہیں جس میں معادہ کو بہ منزلہ السجود للسہو کہا گیا ہے اور سجدہٴ سہو کے بعد قعدہ میں اقتداء بالاتفاق درست ہے۔ پوری تحریر میں یہی ایک مقام ہے جو قابل غور ہے، سو اس کے متعلق عرض ہے کہ معادہ کو بہ منزلہ السجود للسہو کہنے کا منشا محض جبر نقصان کو بتلانا ہے، یعنی دونوں جابر ہیں، نہ کہ فرضیت کو بتلانا؛ لیکن اگر امام کے سجدہٴ سہو کے بعد سجدہ اور قعدہ جو کہ فرض ہی کہلاتا ہے، اس لیے معادہ کا فرض ہونا تسلیم کرلیں تو پھر صلاة اولیٰ جو کہ بہ منزلہ ارکان وفرائض قبل سجدہٴ سہو کے ہے اس کا فرض رہنا حتمی طور پر معلوم ہوتا ہے نفل میں مبدل ہوجانا ہرگز ثابت نہیں ہوتا۔ دوسری بات یہ ہے کہ سجدہٴ سہو کے بعد اقتداکے صحیح ہونے کی بنیاد کے فرض ہونے کو ثابت کرنے کے باوجود اقتدا صحیح نہیں ہے؛ کیونکہ فرض اوّل کا تحریمہ منقطع ہوچکا ہے، یہی وجہ ہے کہ سجدہٴ سہو کے بعد اقتدا کو فقہاء نے بیان کیا ہے اور معادہ میں نووارد کی اقتدا کو بیان نہیں کیا۔ فافہم و تدبر

          (۸) موصوف نے علامہ شامی کی تطبیق کو مقصود بناکر جو بوساط تحقیق پھیلائی ہے اس میں یہ بات بھی نظر رہتی کہ صلاة ثانیہ (معادہ) کے فرض ہونے کا حکم بعد الوقوع ہے، جیساکہ شامی نے لکھا ہے پس اعادہ واجب ہونے اور فرض اوّل سے ذمہ سبک دوش ہوجانے کے ساتھ معادہ کا فرض ہونا بھی قبل الوقوع نہیں ہے تو پھر نووارد مفترض کی اقتدا کو اعادہٴ صلاة میں کیسے صحیح کہہ سکتے ہیں؛ جبکہ ابھی معادہ فرض قرار نہیں پایا ہے؟

          (۹) موصوف کی تحقیق کا اہم وخاص محور جس سے انھوں نے معادہ کے نفل ہونے کے بجائے فرض ہونے کو ثابت کرکے اس پر اقتداء المفترض لامام فی اعادة الصلاة کی درستگی کا فیصلہ کیا ہے اس میں لفظ ”اعادہ“ سے بھی ایک استدلال کیاگیا ہے، جو قابل اشکال ہے؛ کیونکہ جو نماز کراہت کے ساتھ ادا کی گئی ہو فقہاء علی حسب المراتب اس کے اعادہ کا حکم دیتے ہیں، جیسے بعض صورتوں میں اعادہ مستحب ہے، پس اگر کوئی شخص ایسی نماز کا اعادہ کرے تو کیا اس وقت بھی معادہ کو فرض کہیں گے کہ لفظ اعادہ یہاں بھی ہے؛ جبکہ بالاتفاق صلاة اولیٰ سے فرض ساقط ہوچکا ہے۔

          (۱۰) مذکورہ تبصرہ اور جائزہ کے ساتھ یہ بات بھی بطور خاص ذہن نشین کیجیے کہ پورے مقالہ میں ایک ایسی عبارت بھی متقدمین یا متأخرین فقہاء میں سے کسی سے پیش نہ کی جس میں متفرق کی اقتدا معادہ نماز میں بطور استشہاد مذکور ہو۔ اور بعض قرائن وعلامات سے معادہ کا فرض ہونا ظاہر ہوتا ہے جس پر بعض اہل علم نے صحت اقتدا کو متفرع کیا ہے، تو دوسرے قرائن ایسے ہیں جن سے معادہ کا نفل ہونا واضح ہوتا ہے اور صریح حدیث کے مطابق ہے کما قال الجمہور۔ اس لیے نووارد کی معادہ نماز میں اقتدا صحیح نہیں ہے۔

          خلاصہٴ کلام یہ کہ دلائل کے اعتبار سے جمہور کا مسلک ہی قوی ہے اور اسی کو مختار، اصح اور راجح قرار دیاگیا ہے اور وہی امت میں معمول بہ اور اہل علم کے نزدیک مفتی بہ ہے اور صحت اقتدا کا قول ضعیف اور غیرمفتی بہ ہے۔

          ھذا ما وضح لی وتبین فی ھذہ المسئلة لتقریر قول الجمھور واللہ اعلم وعلمہ اتم واحکم وللہ الحمد اوّلاً وآخرًا والصلاة والسلام علی نبینا محمد ابدا ابدا

***

------------------------------------

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ 4 ‏، جلد: 97 ‏، جمادی الثانیہ 1434 ہجری مطابق اپریل 2013ء