مصنوعی بارآوری: صورتیں اور احکام

 

از: مفتی محمداسداللہ آسامی‏، معاون مفتی، دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند

 

          آج کل میڈیکل سائنس کی ترقی کے نتیجے میں بہت سے نئے مسائل جنم لے رہے ہیں، نیز علاج کے نام پر بہت سی ایسی شکلیں مارکیٹ میں متعارف کی جارہی ہیں، جن میں سے بعض تو شرعی اعتبار سے قطعی حرام اوراسلام کے بنیادی اصول سے متصادم ہیں اور ان شکلوں کو طبی کیمپ، اخبارات اور دیگر ذرائع کے توسط سے خوب شہرت دی جارہی ہے، نتیجتاً بہت سے مسلمان بھی ان کو اپنارہے ہیں، ان جدید شکلوں میں سے ایک شکل آئی وی یف (in vitro fertilization=ivf) ہے، اس سے مراد تولید کے مصنوعی ذرائع ہیں۔ آج کل اس کی درج ذیل صورتیں رائج ہیں:

(۱)      نطفہ شوہرکاہو اور کسی ایسی عورت کا بیضہ لیا جائے، جو اسکی بیوی نہ ہو پھر یہ لقیحہ اس شوہر کی بیوی کے رحم میں رکھا جائے۔

(۲)      نطفہ شوہر کے سوا کسی اور کا ہو اور بیضہ بیوی کا ہو اور اسی کے رحم میں رکھا جائے۔

(۳)     شوہر کا نطفہ اور بیوی کا بیضہ لے کر بیرونی طور پر ان کی تلقیہ کی جائے اور پھر یہ لقیحہ دوسری عورت کے رحم میں رکھا جائے، جسے مستعار رحم کہا جاتا ہے۔

(۴)     کسی اجنبی شخص کے نطفہ اور اجنبی عورت کے بیضے کے درمیان بیرونی طورپر تلقیہ کی جائے اور لقیحہ بیوی کے رحم میں رکھا جائے۔

(۵)      شوہر کا نطفہ اور بیوی کا بیضہ لے کر بیرونی طور پر تلقیہ کی جائے پھر لقیحے کو اسی شوہر کی دوسری بیوی کے رحم میں رکھا جائے۔

(۶)      نطفہ شوہر کا اور بیضہ اس کی بیوی کا ہو، ان کی تلقیہ بیرونی طور پر کی جائے اور پھر شوہر کی اسی بیوی کے رحم میں رکھا جائے جس کا بیضہ لیاگیا ۔

(۷)     شوہر کا نطفہ لے کر اس کی بیوی کے مہبل یا رحم میں کسی مناسب جگہ پر طبی آلے کی مدد سے رکھ دیا جاتا ہے، پھر اسی جگہ بارآوری کی جاتی ہے۔

          مذکورہ پانچ شکلوں میں تو اجانب کے مادے کا باہم اختلاط یا اجنبیہ کے رحم سے استفادہ ہوتا ہے، جو بہ حکمِ زنا ہونے کی وجہ سے قطعاً ناجائز ہے، احکامِ شرعیہ سے متعلق تھوڑی سی معلومات رکھنے والا شخص بھی ان کے ناجائز ہونے میں کوئی تأمل نہیں کرے گا؛ البتہ آخرالذکر تین شکلوں میں چوں کہ غیرکے مادے سے استفادہ نہیں ہوتا ہے، جس کی وجہ سے کچھ غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں؛ اس لیے زیر نظر تحریر میں ان تینوں شکلوں سے متعلق حکمِ شرعی بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے؛ تاکہ اہلِ علم کے لیے غور کرنا آسان ہو۔

          شریعت کے اصول اور فقہائے کرام کے کلام کی رو سے یہ شکلیں بھی جواز کے دائرے میں نہیں آتیں؛ بلکہ دیگر پانچ شکلوں کی طرح یہ شکلیں بھی ناجائز اور حرام ہیں۔ ایک تواس لیے کہ ان طریقوں کو اپنانے میں خاتون کا سترِ غلیظ یعنی ناف سے لے کر گھٹنے تک کا حصہ اجنبی ڈاکٹروں؛ بلکہ بسا اوقات معاونین اور ڈاکٹروں کی ایک ٹیم کے سامنے کھولنا تقریباً لازمی ہے، جب کہ عورت کے لیے ستر کا یہ حصہ نہ مرد کے سامنے کھولنا جائزہے، نہ عورت کے سامنے۔ اور جو عورتیں ان طریقوں کو اپناتی ہیں ان کوکوئی ایسی جسمانی تکلیف نہیں ہوتی؛ بلکہ یہ تو محض جلبِ منفعت اور حصولِ اولاد کے لیے کرتی ہیں، ارتکابِ حرام کی گنجائش ضرورتِ شدیدہ کے وقت ہوتی ہے، نہ کہ محض حصول منفعت کے لیے۔

          بعض معاصرین نے تحفة الفقہاء ج۳ ص ۳۴ کی ایک عبارت(۱) سے اس مسئلے پر استدلال کیا ہے، جس میں مولف نے عورت کے ستر غلیظ کو دیکھنے اور چھونے کی اجازت محض ختنہ کے لیے دی ہے، جب کہ عورت کا ختنہ نہ تو سنت ہے اور نہ ہی واجب؛ لیکن یہ استدلال صحیح نہیں؛ اس لیے کہ تحفة الفقہا کی محولہ عبارت کو دیگر فقہاء نے نہیں لیا ہے؛ بلکہ بدائع الصنائع جو درحقیقت تحفة الفقہاء کی شرح ہے، اس میں اگرچہ اس عبارت کے بیش تر حصے کو لے لیا؛ لیکن اس جزیہ (یعنی ختنہ کے لیے عورت کے ستر کو دیکھنا اور چھونا) کو نہیں لیا۔ (ملاحظہ فرمائیں، بدائع الصنائع ج۴ ص۶۹۹، ط: زکریا، دیوبند)(۲)

          مزید یہ کہ جزئیہ مذکورہ علماء کے نزدیک مفتی بہ ہے بھی نہیں؛ اس لیے کہ فقہائے کرام نے صراحت کی ہے کہ اگر کوئی مسلمان بچہ بالغ ہوجائے اور کسی وجہ سے ختنہ نہ ہوسکا، تو بالغ ہونے کے بعد اس کا ختنہ نہ کرایا جائے اور اس کی وجہ یہ لکھی کہ ختنہ سنت ہے، جب کہ ستر چھپانا فرض ہے یعنی تحصیل سنت کے لیے ترک فرض کا ارتکاب نہیں کیا جائے گا، چنانچہ مجموعہ فتاوی میں ذخیرہ کے حوالے سے منقول ہے: فی الذخیرة أنَّ الْمُسْلِمَ یُخْتَنُ مَالَمْ یَبْلُغْ فَاذَا بَلَغَ لَمْ یُخْتَنْ، لِأنَّ سَتْرَ عَوْرَةِ الْبَالِغِ فَرْضٌ وَالْخِتَانُ سُنَّةٌ فَلاَ یُتْرَکُ الْفَرْضُ لِسُنَّةٍ وَالْکَافِرُ اذَا أسْلَمَ یُخْتَنُ بِالْاِتِّفَاقِ لِمُخَالَفَتِہ دِیْنَ الْاسْلاَمِ وَھُوَ بَالِغٌ۳ ص۹۶ بحوالہ فتاویٰ رحیمیہ ج۱۰ ص۱۳۴ کتاب الحظر والاباحة، ط: دارالاشاعت) تو جب مردوں کا ختنہ جسے تقریباً ضروری اور شعارِ اسلام سمجھاجاتا ہے۔ وہاں اس کی اجازت نہیں دی گئی تو عورت کا ختنہ جو سنت بھی نہیں، اس کے لیے کیسے اجازت دی جاسکتی ہے؟

          عدمِ جواز کی دوسری بڑی وجہ اختلاطِ نسب (جس کی شریعت نے بہت تاکید کی ہے) کا اندیشہ ہے؛ اس لیے کہ ٹیسٹ ٹیوب بے بی سے متعلق جانکاری رکھنے والوں کی تحریریں پڑھنے سے پتہ چلتا ہے کہ اس عمل کو انجام دینے والے ڈاکٹرس، عورت کا بیضةُ المنی اور مردوں کی منی لے کر باہم ملانے کے بعد ایک ٹیوب میں آبیاری کرتے ہیں، جس کی مدت کم وبیش دو یا چار دن ہے؛ پھر عورت کے رحم میں مناسب جگہ پر اس کو پیوست کرتے ہیں اور یہ کام انتہائی مشکل ہوتا ہے، اس لیے کہ لقیحہ (آمیزہ) رحم میں بہ آسانی چپکتا نہیں ہے؛ بلکہ بسا اوقات کئی کئی بار یہ کوشش ڈاکٹروں کو کرنی پڑتی ہیں؛ اس لیے عموماً ڈاکٹروں کا طرزِ عمل یہ ہے کہ وہ عورت سے حاصل کردہ بیضةُ المنی (جو بے شمار جراثیم پر مشتمل ہوتا ہے) کی مختلف ٹیوب میں آبیاری کرتے ہیں۔

          اب اس بات کی ضمانت کون دے گا کہ اگر یہ آمیزے بچ جائیں تو ڈاکٹر انھیں ضائع کردیں گے؟ جب کہ مخصوص آلے کے ذریعے عورت کا بیضةُ المنی لینا پھر مرد کی منی کے ساتھ اس کا لقیحہ تیار کرنا انتہائی مشکل مرحلہ ہوتا ہے؛ چنانچہ مجلة مجمع الفقہ الاسلامی (عدد:۲ ص۱۸۶ وغیرہ) میں اس سے متعلق کافی تفصیلات(۳) مذکور ہیں۔

          نیز ٹیسٹ ٹیوب بے بی (ivf) کا طریقہ ایجاد ہونے کے بعد ہسپتالوں میں باقاعدہ منی بینک کا انتظام ہونے لگا ہے، جس میں مختلف صلاحیتوں کے حامل مردوں (مثلاً فنکار، کھلاڑی، سیاستداں، کالا، گورا) کی منیاں محفوظ رکھی جاتی ہیں اور حسب ضرورت عورتیں ان منیوں سے حاملہ ہوتی ہیں؛ بلکہ آج کل بہت سی کمپنیاں وجود میں آچکی ہیں، جو طبی مراکز اور ہسپتالوں کے لیے منیاں، کرائے کی مائیں وغیرہ فراہم کرتی ہیں اور جن ہسپتالوں میں ٹیسٹ ٹیوب بے بی کی سہولیات فراہم ہوتی ہیں، وہاں منی بینک نیز کرائے کی کوکھ کا بھی ضرور انتظام ہوتا ہے، ابتداتو ان چیزوں کی یورپ امریکا سے ہوئی؛ لیکن اب ہر جگہ یہاں تک کہ سہارن پور، مظفرنگر جیسی جگہوں میں بھی یہ چیزیں پھیل چکی ہیں، تو کیا یہ ساری چیزیں انسانیت اور نسب انسانی کے ساتھ سراسر مذاق نہیں ہے؟ تو ان دین بے زار؛ بلکہ اسلامی اصول کو بالکل نظر انداز کرنے والوں سے کیا یہ توقع کی جاسکتی ہے، کہ مرد سے حاصل کردہ منی کو اس کی بیوی ہی کے رحم میں ڈالیں گے؟ یا اس سے بچے ہوئے حصے کو ضائع کردیں گے؟

          نیز ان بے دین؛ بلکہ نسل انسانی کو مذاق بنانے والے ڈاکٹروں سے کیا یہ امید کی جاسکتی ہے کہ وہ منشأ شریعت(اختلاط نسب سے بچانا ) کے مطابق یہ امور انجام دیں گے؟ ہرگز نہیں؛ اس لیے کسی مسلمان کے لیے جو اللہ پر ایمان رکھتا ہے، ہرگز جائز نہیں کہ اس طریقہٴ تولید کو اپنائے، اگرچہ خاتون ڈاکٹرنی ہی سارا کام انجام دے، ہاں اگر شوہر خود اس لائن کا تجربہ رکھتا ہو اور وہ دیانت داری کے ساتھ اس کام کو انجام دے تو شرعاً اس کی گنجائش ہوگی۔ اکابر اربابِ افتاء میں سے حضرت مفتی نظام الدین صاحب نے منتخبات نظام الفتاویٰ (ج۱ ص۳۳۹) حضرت مفتی رشید احمد صاحب نے احسن الفتاویٰ (ج۸ ص۲۱۴،ط:دارالاشاعت) اور حضرت مفتی عبدالرحیم صاحب لاجپوری نے فتاوی رحیمیہ (ج۵ ص۴۸۴، کتاب الحظر والاباحة ط: مکتبہ الاحسان) میں عدمِ جواز کا ہی فتویٰ دیا ہے، دارالعلوم دیوبند نے بھی حال ہی میں اس طریقہٴ تولید سے متعلق عدم جواز کا فتوی جاری کیا۔ (سوال۷۴، د ۱۴۳۴ھ)

          یہاں ایک سوال ہوگا کہ اگر کسی نے ناواقفیت یا کسی اور وجہ سے ان شکلوں میں سے کسی کو اپنالیا اور اس کے نتیجے میں بچہ پیدا ہوا، تو بچہ ثابت النسب ہوگا یا نہیں؟ نیز ایک بیوی کے بیضے کو دوسری بیوی کے رحم میں ڈالنے کی صورت میں بچے کی ماں کون بنے گی؟ جس نے بچہ جنا؟ یا وہ عورت جس کا بیضہ لیاگیا؟ تو اس سلسلے میں عرض یہ ہے کہ حدیث میں الولد للفراش․․․ وللعاھر الحجر (بخاری رقم ۶۸۱۷، باب للعاہر الحجر) فرمایاگیاہے، جس کا حاصل یہ ہے کہ منکوحہ کا بچہ اس کے شوہر کی طرف ہی منسوب ہوگا، بہ شرطے کہ مدت کے اندر اس کی گنجائش ہو یعنی نکاح کے کم از کم چھ مہینے کے بعد بچہ پیدا ہوا ہو۔ نیز یہ بات بھی ملحوظ رہے کہ شرعاً ثبوتِ نسب کے لیے فطری طریقے پر ہی رحم میں منی کا ادخال ضروری نہیں؛ بلکہ غیر فطری طریقے پر ادخال کی صورت میں بھی نسب ثابت ہوجاتا ہے۔ چنانچہ فتاویٰ ہندیہ میں ہے: رَجُلٌ عَالَجَ جَارِیَةً فِیْ مَا دُوْنَ الْفَرَجِ فَأنْزَلَ فَأخَذَتِ الْجَارِیَةُ مَائَہ فِیْ شَیْءٍ فَاسْتَدْخَلَتْہُ فِیْ فَرْجِھَا فَعَلَقَتْ، عِنْدَ أبِیْ حَنِیْفَة أنَّ الْوَلَدَ وَلَدُہ وَتَصِیْرُ الْجَارِیَةُ أمَّ وَلَدٍ لَہ۴ ص۱۱۴، الفصل الاول فی مراتب النسب، زکریا)؛ لہٰذا دونوں صورتوں میں بچہ ثابت النسب ہوگا، پہلی صورت تو جن دو میاں بیوی کا نطفہ لیاگیا ہے، ان سے ہی نسب ثابت ہوگا۔ رہی دوسری صورت کہ اس میں بچے کی ماں شرعاً کون بنے گی؟ جس کا بیضة المنی لیاگیا وہ؟ یاوہ جس نے حمل کی مشقت اٹھائی اور جنم دیا؟ تو صحیح بات یہ ہے کہ بچے کا نسب اس خاتون سے ثابت ہوگا جس کے بطن سے وہ پیدا ہوا ہے، جس نے حمل و وضع حمل کی مشقت برداشت کی، قرآن کریم میں ہے انْ اُمَّھَاتُھُمْ الاّ الاَّئی وَلَدْنَھُمْ (المجالة:۲) ترجمہ: ان کی مائیں تو بس وہی ہیں جنھوں نے ان کو جنا ہے۔ یہاں پر اللہ تعالیٰ نے ماں انھیں قرار دیا ہے، جنھوں نے بچوں کو جنا اور حصر کے ذریعے غیر سے ماں ہونے کی نفی کی ہے۔ نیز دوسری آیت میں ہے یَخْلُقُکُمْ فِیْ بُطُوْنِ أمَّھَاتِکُمْ (الزمر، الآیة۶) یہاں پر بھی موضع تخلیق ماؤں کے بطون کو بنایا،اس سے بھی یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ مائیں وہ ہوں گی جن کے بطن میں بچہ کی تخلیق ہوئی ہے، نیز آیت کریمہ حَمَلَتْہُ أمُّہ کُرْھًا وَ وَضَعَتْہُ کُرْھاً سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔

***

          (۱) وَلاَ یُبَاح الْمس وَالنَّظَر الی مَا بَین السّرَّة وَالرکبَة الاَّ في حَالة الضَّرُورَة بأن کَانت الْمَرْأةُ خَتّانةً تختن النّساء أو کَانت تنظر الَی الْفرج لمعْرفة الْبکارة أو کَانَ في موضع العورة قرح أو جرح یحْتَاج الی التَّداوی وَان کانَ لا یعرفُ ذلک الاّ الرجل یکشف ذلک الخ (تحفة الفقھاء ج۳ ص۳۴ کتاب الاستحسان الناشر: دارالکتب العلمیة، بیروت۔ لبنان)

          (۲) ولا یجوز لھا أن تنظر ما بین سرتھا الی الرکبة الا عند الضرورة بأن کانت قابلة فلا بأس لھا أن تنظر الی الفرج عند الولادة وکذا لا بأس أن تنظر الیہ لمعرفة البکارة في امرأة العنین والجاریة المشتراة علی شرط البکارة اذا اختصما وکذا اذا کان بھا جرح أو قرح في موضع لا یحل للرجال النظر الیہ فلا بأس أن تداویھا اذا علمت المداواة فان لم تعلم تتعلم ثم تداویھا فان لم توجد امرأة تعلم المداواة ولا امرأة تتعلم وخیف علیھا الھلاکُ أو بلاء أو وجع لا تحتملہ یداویھا الرجل لکن لا یکشف منھا الا موضع الجرح ویغض بصرہ ما استطاع (بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع ج۴ ص ۶۹۹ ط: زکریا)

          (۳) علی کل حال نکاحُ الاستبضاع الآن أخذ شکلا جدیدا․․․ یجمع المني من العباقرة والأذکیاء والأقویاء ویکتب علی کل قارورة منی اسم مانحھا وتحفظ في بنوک المنی․․․ وتقدم کالتوجات للنساء وللأسر․․ ھل تریدون منی الرجل العبقري فلان؟ انہ حصل علی جائزة نوبل في الآداب؟ أم تریدون منی الرجل القوي الجیار فلان فقد کان قائدا عسکریا بارعا، أم أن المکتشف والمخترع فلان ھو الذي یناسبکم؟ أتریدون ولدا أبیض أم أسمر الی أخر قائمة الطلبات․․․ تکونت في الولایات المتحدة وبعض دول أوربا شرکات تجاریة لبیع الأرحام المستعارة یتراوح ثمن الرحم المستأجرة ما بین خمسة آلاف وعشرة آلاف دولار․․․․

          (مجلة مجمع الفقہ الاسلامي التابع لمنظمة الموٴتمر الاسلامي بجدة وہد تصدر عن منظمة الموٴتمر الاسلامي بجدة، العدد الثاني ص۱۸۶)

***

---------------------------------

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ 4 ‏، جلد: 97 ‏، جمادی الثانیہ 1434 ہجری مطابق اپریل 2013ء