مجاہد جلیل حضرت مولانا سیّد حسین احمد مدنی

(سیاسی جدوجہد کے آئینے میں)

 

از: ڈاکٹر رشید الوحیدی قاسمی

 

تمہید:

          اللہ کے مخلص بندے جب خانقاہوں میں ذکر وفکر، دعا وتسبیح میں مشغول ہوتے ہیں تو اُن کا مقصد صرف اللہ تعالیٰ کی رضا اوراس کی خوشنودی کو حاصل کرنا ہوتا ہے اورجب بڑی بڑی تنخواہوں، اعلیٰ عہدوں کو ٹھکراکر صبر وقناعت کے ساتھ قرآن وحدیث کا مطالعہ وتدریس اور پُرسکون ماحول میں علم دین کی خدمت کرتے ہیں اس وقت بھی اللہ کی رضا کا حصول ہی اُن کے پیشِ نظر ہوتا ہے، پھر اچانک ایک ایسا موقع آتا ہے جب وقت کا ظالم پنجہ اللہ کے مظلوم بندوں کی گردنوں کے چاروں طرف اپنا شکنجہ کسنے لگتا ہے اور پھر حالات تقاضا کرتے ہیں کہ ان مظلوموں کی گلوخلاصی اور ان کی مدد کی جائے، ایسے نازک حالات میں اللہ کے یہ مخلص اور باشعور بندے اب اللہ کی رضا اس میں دیکھتے ہیں کہ خانقاہ کا گوشہٴ عافیت لذّتِ سحرگاہی اور درسِ حدیث کا محبوب وپاکیزہ مشغلہ سب کچھ یک قلم چھوڑ کر سربکف شمشیر بدست اور کفن بردوش میدانِ کارزار میں نکل کھڑے ہوں کہ اب اللہ کی سب سے بڑی عبادت، رضاء الٰہی کے حصول کا سب سے قریبی اور یقینی راستہ یہی یعنی اللہ کے بندوں کی مدد اور اُن کی دست گیری ہے، اللہ کی رضا اوراس کی خوشنودی اب اسی میں ہے:

”دین کی خدمت کا یہی مطلب نہیں ہے کہ آپ لوگ مدرسہ وخانقاہ میں گوشہ گیر ہوکر کتاب ہی تک منحصر رہیں، مسلمانوں کی اور ملک کی اقتصادی، معاشی نیز سیاسی ترقی بھی دینی فرائض میں شامل ہے“۔( مولانا حسین احمد مدنی مکتوبات جلد اول،ص۲۱)

          ہندوستان میں انیسویں بیسویں صدی کے دوران شاہ ولی اللہ دہلوی سے شروع ہوکر شاہ اسماعیل شہید، حضرت سیّد احمد شہید کے نفسِ گرم سے ہوتی ہوئی یہی مجاہدانہ اسپرٹ اور یہی روش اکابرِ دیوبند کے قائد سالاروں کی جماعت مہاجر مکی حضرت حاجی امداد اللہ، مولانا محمد قاسم، مولانا رشید احمد گنگوہی، پیرجی ضامن شہید کے سینوں میں پیوست ہوگئی تھی اور پھر رہبرانِ اُمت کے اِن سپہ سالاروں نے علَم جہاد کی یہ امانت اپنے علمی، روحانی اور سیاسی وارث مولانا (شیخ الہند) محمودحسن کو سونپ دی اور پھر شیخ الہند نے اس نصیحت اور وصیت کے ساتھ کہ:

 ”جب تک فتح کامل نصیب نہ ہوجائے اور ہندوستان آزاد نہ ہوجائے ۱۸۵۷/ کا علم جہاد سرنگوں نہ ہونے پائے اورجنگ آزادی پورے حوصلے، ہوشمندی اور جاں نثاری کے ساتھ جاری رہے۔“

اپنے عزیز شاگرد مولانا حسین احمد کو یہ امانت سونپ دی، مولانا حسین احمد مدنی نے اس اِرادے، عزم اور نیت کے ساتھ اپنے محبوب استاذ، علم وجہاد کے مُربّی کی امانت کو سنبھالا کہ ”یا تن رسد بجاناں یا جاں زتن برآید“ بہر حال اکابر کی اِس مُہم کو کامیابی تک پہنچانا ہے، اور پھر دنیا نے دیکھا اور بھارت کی جنگ آزادی کی تاریخ نے اِس کو اپنے صفحات میں محفوظ کرلیا کہ حضرت مدنی نے شیخ سعدی سے مستعار لے کر ایک سرمدی اعلان فرمایا۔

آں نہ من باشم کہ روز جنگ بینی پُشتِ من

آں منم کہ درمیانِ خاک وخوں بینی سَرے

          اور جنگ آزادی کی سنگلاخ وادی میں اترگئے اوراس شان سے اترے کہ جب ہر قسم کی قربانیوں کے بعد اِس وادی کو طے کرکے ساحل مراد پر کامیابی کے ساتھ قدم رکھا تو جریدئہ عالم پر اپنے عہد کے اس عالم عارف اور مجاہد کا نام چمک رہا تھا اور بھلا کیوں نہ ہوتا حضرت تو:

”ہندوستان کی جہادِ آزادی میں موت کو شہادت کا درجہ دیتے اور قرآن سے اپنے اس دعوے کو ثابت فرماتے تھے“ (شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مصنفہ مولانا فریدالوحیدی،ص۳۶۷)

          جس قدر شدت عزم وہمت کے ساتھ مولانا پورے ملک میں دورے کرکے برطانیہ کے خلاف فضا بنارہے تھے، ہندوستانیوں کے ذہن میں حکومت کے خلاف نفرت اور قربانی کا جذبہ ابھار رہے تھے، حکومت اُسی قدر اُن پر ظلم وسزا کے تیر برسارہی تھی؛ چنانچہ جس قسم کی خوفناک سزائیں آپ جھیل رہے تھے، اس کا تقاضا تو یہ تھا کہ انگریزی حکومت جو رعاتیں دے کر آپ کو راضی کرنا چاہتی تھی، مولانا اس کو قبول کرلیتے اور بہت سے مشائخ، شیخ الاسلام، اساتذہ، علامہ، حکیم الامت کی طرح مدارس، مکاتیب، خانقاہوں کے عافیت خانے میں آرام فرماتے؛ مگر نہیں! سکھ وچین کی زندگی، دنیاوی راحتوں کو قربان کردینے اور ہر لمحہ آزمائشوں اور صبرآزما مشکلات کے باوجود آپ اور آپ کی سرکردگی میں آپ کی جماعت، جمعیة العلماء بلاکسی شرط کے مکمل آزادی سے کم پر کسی طرح راضی نہ تھے۔ اس سلسلے میں ابھی کانگریس گفت وشنید اور پس وپیش کے مرحلے میں تھی، حکومت سے رعایتوں اور مطالبات میں مصروف تھی، آزادیِ کامل اور سوراج کا اُس کے یہاں کوئی تصور بھی نہ تھا کہ ۱۹۲۶/ کلکتے کے اپنے اجلاس میں جمعیة کے پلیٹ فارم سے مولانا مدنی نے آزادیٴ کامل کااعلان کردیا اور اس سے بھی پہلے جمعیة ہی کے ایک فرزند مولانا حسرت موہانی نے ۱۹۲۱/ میں احمدآباد کانگریس کے اجلاس میں آزادی کامل کی تجویز پیش کردی تھی۔ (حسرت موہانی شیخ الہند کی جماعت کے ایک رکن بھی تھے اور جمعیة مجلس عاملہ کے ممبر بھی)۔

          حضرت کے جدوجہد آزادی کی رُوداد بہت تفصیل طلب ہے، کئی جلدوں میں بھی یہ تاریخ ختم ہونے والی نہیں ہے، ہم مختصر طور پر برطانیہ عہد کے بعض اہم واقعات کا تذکرہ کریں تو سامنے آتا ہے ۴۷-۱۹۴۶/ میں لارڈ پیتھک اور دوسرے دو افسروں کی سہ نفری کمیٹی کی ہندوستان میں آمد مایہ مشن ہندوستانی مسائل کے حل اور ہندوستان کو آزادی دینے کی پالیسی پر گفتگو کرنے آیا تھا، ہنوستانی لیڈروں کے شملہ میں گفتگو ہوتی رہی، مسئلے سے متعلق مولانا مدنی نے جو تجویز پیش کی برطانیہ کے اِن ذمے داروں نے اُسی کو پسند کیا اور اسی کو سامنے رکھ کر اپنی رپورٹ پیش کی۔ (سائمن کمیشن) ہندوستان میں دستورسازی کے نام پر برطانیہ نے لارڈ جان سائمن کو بھیجا ۱۹۳۸/ میں مسٹرجان سائمن کی سربراہی میں کمیشن (سائمن کمیشن) پہنچ گیا، مگر ہندوستانیوں نے کمیشن کا بائیکاٹ کیا اور اس مقاطعے اور بائیکاٹ میں مولانا مدنی نے پورے ملک کا دورہ کیا، آپ کا یہی کہنا تھا: ”ملک ہمارا ہے“ عوام ہمارے ہیں برطانیہ قانون بنانے والا کون ہوتا ہے“ (موتی لال نہرو رپورٹ) سائمن کمیشن رپورٹ کے مقابلے میں کانگریس نے دستور سازی کے لیے ایک کمیٹی موتی لال نہرو کی سربراہی میں بنائی، اس رپورٹ کی بعض شق ایسی تھی جس سے کانگریس کو، نیشنلسٹ مسلمانوں کو اور جمعیة کو اتفاق نہ تھا، مولانا مدنی کی سربراہی میں جمعیة نے کھل کر نہرو رپورٹ کی مخالفت کی، مفتی کفایت اللہ نے کھل کر اس کے خلاف بیان دیا (شاردا ایکٹ) نابالغ بچوں بچیوں کی شادی روکنے کے لیے ایکٹ پاس کیاگیا۔ ہندوؤں کے لیے یہ ایکٹ مفید ہوسکتا تھا؛ مگر اسلامی پرسنل لا کے خلاف تھا، جمعیة نے آخر تک اس کی مخالفت کی، یہ چند عنوانات تفصیل کے قابل مطالعہ ہیں۔

          اپنے عہد کے عظیم مفکر جناب خلیق نظامی نے صحیح فرمایا:

”محدث، مجاہد، پیرطریقت جو انسانی پیکر اِن تین عظیم الشان حیثیتوں کا جامع ہو اس کی شخصیت کی عظمت و دل آویزی الفاظ کے سہارے بیان نہیں کی جاسکتی۔“ (مقدمہ اسیرمالٹا)

          جنگ آزادی میں حضرت مدنی کی قربانی کی تفصیل تو ہم جستہ جستہ پیش کریں گے، اس سے پہلے محترم خلیق صاحب مرحوم کے اسی مقدمے والے مضمون سے ایک اہم اقتباس پیش کررہے ہیں جس سے اس قربانی کے جذبے، ہمت اور اس انقلابی پروگرام میں عملی اشتراک کی جانب روشنی پڑتی ہے۔ (معافی کے ساتھ اقتباس کچھ طویل ہے) فرماتے ہیں:

”پھر جب آزادیِ وطن کے لیے قربانی دینے اور قید وبند کے مصائب برداشت کرنے کا وقت آیا تو ایسے سرفروشانہ انداز میں سرگرم عمل ہوئے کہ شاملی کے جہاد کی صدائے بازگشت دیوبند سے مالٹا تک گونج اُٹھی، وہ ایک کڑی ہے اس عظیم الشان تحریک کی جو بالاکوٹ سے سیداحمد شہید کی قیادت میں اٹھی اور شاملی میں نیا پیکر اختیار کرکے یاغستان کے پہاڑوں اور مالٹا کے بیابانوں تک پہنچی، تاریخ میں ایسی مثالیں بہت کم ملیں گی کہ ایک شخص بیک وقت روحانی زندگی اور سیاسی زندگی کے تقاضوں کو اس طرح پورا کرسکے کہ جیسے مولانا مدنی - اس کا راز صرف ایک تھا اور وہ یہ کہ ان کی ذات میں یہ دونوں زندگیاں ایک ہی مقصد کے تابع تھیں ان کا عقیدہ تھا کہ جس نے ربِّ کائنات سے رشتہ نہیں جوڑا وہ مقصد حیات سے بیگانہ رہا“

          یہ مقصد ہی رضائے الٰہی ہے جس کی طرف تمہید میں اشارہ کیاگیا ہے۔

جدوجہد آزادی میں شرکت کے اسباب:

          وہ کون سا جذبہ تھا کیا اسباب تھے جس نے پُرسکون گوشہٴ عافیت کو ترک کرکے سمندر کے بپھرے ہوئے طوفان میں کود پڑنے پر مولانا کو مجبور کیا، اس کی وضاحت کے سلسلے میں مولانا فریدالوحیدی صاحب لکھتے ہیں:

”مالٹا سے آنے کے بعد مدینہ طیبہ کا فوری ارادہ تھا اور وہاں سے اعزاء ، بھائیوں، تلامذہ اور شاگردوں کا برابر اصرار بھی تھا کہ آپ واپس آجائیں؛ مگر حضرت کے نزدیک اس وقت دین وملّت قوم وملک کی خدمت ہندوستان میں زیادہ ضروری تھی۔“

          خود حضرت مدنی کا اس بارے میں کیا تاثر تھا۔ فرماتے ہیں: ”جس چیز سے مسلمانوں کو فائدہ پہنچے وہ میرے نزدیک زیادہ محبوب ہے، اسی لیے میں نے دور دراز ملک (ہندوستان) میں قیام کرنا پسند کیا ہے؛ حالانکہ میرا دل مدینہ منورہ، آں حضرت …، شانِ مدینہ اور برادرانِ عزیز کی یاد میں بے چین رہا کرتا ہے۔“

          حضرت مولانا کی جنگ آزادی میں شمولیت کے سلسلے میں دو گوشے بطور اسباب ہمارے سامنے آتے ہیں، خارجی اور داخلی اسباب:

          خارجی: عالمِ اسلام پر انگریزوں کے بے پناہ مظالم۔

          داخلی: اپنے وطن ہندوستان کے ساتھ نازیبا سلوک۔

خارجی کی تفصیل:

          اسلامی ممالک کی شان وشوکت سے دنیا کی نظریں خیرہ ہورہی تھیں، اسلامی شعائر واحکام ہر طرف سربلند تھے، یہ ترقی یہ عروج خارکی طرح یورپ کی آنکھ میں کھٹک رہا تھا، عیسائی دنیا نے اپنے روایتی مکروفریب، عہد شکنی اور دھوکے سے عالم اسلام کے قلب میں اپنے پنجے مضبوط کرنے شروع کردیے، بہت جلد اسلامی سلطنتوں خصوصاً ترکی پر اپنی دشمنی، بدعہدی، مکروفریب اور بہانے بازی کے ذریعے قیامت کا منظر پیش کردیا، انسانی ذہن اُن مظالم کا تصور نہیں کرسکتا، جو مغرب کے بھیڑیوں نے مشرق کے مظلوموں کے ساتھ روا رکھے اور اُن کے جسم وجان، مال منال عزت و آبرو کو لوٹا، برباد کیا، غرض کہ اسلام دشمنی اور مسلماوں کے ساتھ نفرت میں ایسے مظالم کیے کہ خود عیسائی دنیا چلا اٹھی۔

          انگریزوں کے مظالم کا یہ ایک ایسا طوفان تھا، جس نے پہلے شیخ الہند کے قلب کو پھر مولانا مدنی کے دل ودماغ کو انگریز نفرت سے بھردیا اور ایسی نفرت پیدا کی کہ دنیا کی تمام چیزوں سے زیادہ دشمنی اس قوم سے ہوگئی۔ اپنے ملک میں اُن کا ناپاک وجود کسی طرح گوارا نہ تھا۔

داخلی کی تفصیل:

           دوسرا سبب داخلی تھا، یعنی اس کا تعلق اپنے وطن سے تھا اور اس نے بھی آپ کے دن کا چین اور رات کی نیند حرام کررکھی تھی، اس کا پس منظر یہ ہے کہ ۱۶۰۰/ سے ۱۸۵۷/ تک پھر ۱۹۴۷/ تک مادرِ وطن پر سامراج کا بھیانک ظلم وستم، لوٹ کھسوٹ،اور استحصال کا خطرناک سلسلہ جاری تھا۔ مولانا کا ذہن اس بارے میں بہت حساس تھا اور احساس کی یہ شدت اُس ماحول کی دین تھی جو بچپن میں اسکول کے نصاب سے ان کے ذہن نے قبول کیا خود انھیں سے سنئے۔ فرماتے ہیں:

”جب کہ میں اسکول میں پڑھتا تھا تو مجھ کو تاریخ اور جغرافیہ سے خصوصی دلچسپی پیداہوئی، ہندوستان کی پرانی عظمتوں اور جغرافیائی قدرتی ہمہ گیر برکتوں نے نہایت گہرا اثر کیا اور پھر اہل ہند کی موجودہ بے کسی کا اثر روز افزوں ہوتا رہا، اس زمانے کے ختم ہونے پر مجھ کو آزاد ممالک عرب، مصر، شام وغیرہ کی سیاحت اور قیام کی نوبت آئی، اس نے مجھ کو وطن کی محبت میں اور زیادتی پیداکردی اور اس احساس کو نہایت قوی کردیا کہ آزادی کس قدر ضروری ہے اور بغیر آزادی کے کسی ملک کے باشندے کس قدر بے بس اور اپنے ملک کی قدرتی فیاضیوں سے محروم ہوتے ہیں۔“ (شیخ الاسلام مولانا حسین احمد، فریدالوحیدی،ص۱۶۷)

          ہندوستان میں انگریزوں کے منحوس قدم آنے سے پہلے کی برکتوں اور اُن کے آنے، قبضہ اور لوٹ گھسوٹ کے بعد کنگال ہندوستان کا موازنہ کرتے ہوئے حضرت مولانا بڑے بڑے جلسوں میں اعداد وشمار کے ساتھ گھنٹوں ہندوستان کے اقتصادی، معاشی، تجارتی اور صنعتی ترقی، اشیاء کی قیمتوں، بازار کے نرخ وغیرہ کا تفصیلی بیان فرماتے، اس ضمن میں انگریزوں کے لوٹ گھسوٹ کی اور غریب ہندوستان پر ان کے مالی بوجھ رکھنے کی داستان بھی بیان کرتے تھے۔ تفصیل میں جانے سے بات بڑھ جائے گی، اتنا ضرور کہنا ہے کہ حضرت کی اِن تقاریر کے بعد عام ہندوستانیوں کے دل میں انگریزی حکومت کے خلاف شدید غصّہ، نفرت اور غیض وغضب بھرجاتا تھا۔ حضرت اس پر بہت زور دیتے تھے اور ہندوستان پر انگریزوں کے قبضے میں دلچسپی کے حوالے سے یہ ایک تاریخی صداقت بھی تھی کہ ”برٹش حکومت نے صرف ہندوستان پر حکومت اور طاقت کے بل پر ساری دنیا پر اپنی دھاک بٹھارکھی ہے اور قبضہ کررکھا ہے، جس دن ہندوستان سے اس کی حکومت ختم ہوگی ساری دنیا ایشیا،افریقہ عرب ممالک سے اس کا بوریا بستر گول ہوجائے گا“ یہ فیصلہ تاریخ نے ثابت کردیا، دنیا دیکھ رہی ہے آج برطانیہ کتنا سمٹ کر رہ گیا ہے (اس موقعے پر ایک لطیفہ لکھنے کو بار بار جی چاہ رہا ہے،موضوع سے غیرمتعلق ہی سہی)

          میرے چھوٹے بھائی ڈاکٹر سعید الوحیدی اپنے بیٹے فیصل وحیدی سے ملنے لندن گئے، لندن میں ایئرپورٹ پر ایک کاؤنٹر پر انگریز افسر نے اُن کے (کسی ضابطے کے مطابق) دریافت کیا: ”تم یہاں کتنے دن ٹھہروگے؟“ سعید نے برجستہ جواب دیا، جب آپ ہمارے ملک میں آئے تھے تو ہم نے تو نہیں پوچھا تھا کہ آپ کتنے دن ٹھہریں گے اورآپ ۲۰۰ سال ٹھہرگئے) ۔

          بہرحال یہ خارجی وداخلی محاذ پر دو ایسے المناک حادثے تھے جس نے عبادت، ریاضت، تعلیم وتدریس حتی کہ حرم محترم اوراپنے محبوب … کے روضہٴ پاک سے دور رہ کر ہندوستان اور اپنے بھائیوں کی خدمت پر آمادہ کیا، خدا ہی جانتا ہے دیارِ محبوب سے دور رہ کر دلِ سوزاں اور قلب سوختہ جان کی حرارت کا کیا حال رہتا تھا؛ مگر جیساکہ پیچھے گذرا ”آپ کو ہندوستانی مسلمانوں کی خدمت بہت محبوب تھی“ اور کیا خبر یہ ”مدینہ والے پیا“ کے اشارے پر فیصلہ کیاگیا ہو۔

میانِ عاشق معشوق رمزیست

کراماً کاتبین راہ ہم خبر نیست

          (کبھی حضرت کی زبانِ مبارک سے اسی خادم راقم تحریر نے نہایت بے چینی سے ایک مصرعہ پڑھتے سنا، ممکن ہے ضبط ٹوٹ کر اُسی درد کا اظہار ہوجاتا ہو۔

پیا بنا تلپے موری ناری ناری

          خیر! یہ تو سخن گسترانہ بات مقطع میں آپڑی۔

          بقول خود حضرت مدنی کے ”قومی خدمت خارجی کا گھر نہیں ہے اس میں پاپڑ بیلنے اور ایلوے کے گھونٹ پینے پڑتے ہیں (ایک مکتوب سے) ایک جوش تھا، ایک جنون تھا، سُود وزیاں سے بے نیاز نکلے تھے اور ہوا بھی یہی ۔

جنوں کے جوش میں نکلے جو گھر سے

اِدھر سے ہم چلے پتھر اُدھر سے

          راہ میں کتنے طوفان آئے حاسدین ومخالفین نے کیسے کیسے کانٹے بچھائے، قدم قدم پر آپ کو مہلک ترین خطرات سے نبرد آزما ہونا پڑا۔

معاندین ومخالفین کی حرکتیں:

          لارڈ منٹو کی گورنری کا دور تھا، ہندوؤں، مسلمانوں میں انگریزوں ہی کی چالبازی سے کچھ خفگی اور ناچاقی پیداہوگئی تھی ”لڑاؤ اور حکومت کرو“ پالیسی کے مطابق منٹو نے اختلاف کی اس خلیج کو اور بھی وسیع کردیا، انگریز نواز کانگریس اور نیشنلسٹ ہندو مسلمانوں سے ناراض کچھ نادان مسلمانوں کو ملاکر ۱۸۰۶/ میں مسلمانوں کی ایک تنظیم مسلم لیگ کے نام سے قائم کردی گئی، مسلم لیگ کی پالیسی (انگریز موافقت مخالف کے حوالے سے) کانگریس سے الگ تھی، ہمارے حضرت مدنی جو کانگریس پالیسی کے تحت انگریز مخالفت میں پیش پیش تھے، لامحالہ مسلم لیگی جوان طبقہ اُن کے خلاف تھا اور اس اختلاف کو جس بھونڈے، جارحانہ انداز پر اختیار کیاگیا، حضرت کی جان، عزت آبرو سے کھلواڑ کیاگیا نقصان پہنچانے کی کوشش کی گئی، اس سے انسانیت سو سو بار شرمسار ہوئی۔ اپنوں، پرایوں کی گالی، طنز وتشنیع، سب وشتم، لاٹھی ڈنڈے جوتے چپل حتی کہ تھوک وگندگی حضرت پر پھینکی گئی، داڑھی پکڑ کر ہلائی گئی، یہ تو حضرت کے لیے اپنے وطن اور اپنے ہم قوم نادانوں کی سوغات تھی، ایک دوسری قوم جو نشہٴ غرور، طاقت اور حکومت میں غرق تھی جس سے نہ وطنی رشتہ نہ مذہبی وسماجی جوڑ جو بالکل اجنبی اور ہر طرح ظلم وستم پر آمادہ تھے یعنی حکومت کے طبقے کے لوگ اُن کی طرف سے، جیل قید خانہ، ہتھکڑی، بیڑی، پھانسی کا تختہ کالی کوٹھری ملک بدری طرح طرح کی سزائیں منھ کھولے کھڑی تھیں اور بہانے تلاش کررہی تھیں، حضرت اِن بندربھبکیوں سے ڈرنے والے کب تھے، ایمان ویقین، عزم وحوصلے کے پہاڑ تھے، ہنستے کھیلتے موج حوادث کو شکست دیتے آگے بڑھتے چلے جارہے تھے، بقول شاعر۔

راستہ روکو نہ میرا ، دُور جانا ہے مجھے

ساتھ ساتھ آتے رہو اور گالیاں دیتے رہو

          اُنھیں اپنے اکابر سے عہد کی لاج رکھنی تھی، مظلوم ہندوستان کو ظالم کے شکنجے سے آزاد کرنا تھا۔

آزادی کے معرکے میں سیاسی طریقہٴ کار

          انگریزوں سے مقابلے میں تشدد اور مقابلہ بالسیف (سلطان ٹیپو، سراج الدولہ اور ۱۷۵۷/ سے ۱۸۵۷/ پھر اُس کے بعد قریبی زمانے میں معرکہٴ شاملی، نیز حضرت شیخ الہند اورآپ کے برسوں بعد سبھاش چند بوس) سب کا تجربہ ناکام ثابت ہوچکا تھا۔ ۱۹۲۰/ میں مالٹا سے واپسی کے بعد حضرت شیخ الہند نے ایک ہوشیار تجربے کار جرنیل کی طرح میدان جنگ کا نقشہ اور جنگ کی ٹیکنک بدل دی، اب آپ نے ملک میں سرگرم سیاسی پروگرام عدم تشدد، خلافت اور کانگریس کی پالیسی کو اپنالیا، چنانچہ ہندومسلم اتحاد، ترکِ موالات، بائیکاٹ، عدم تعاون فوج میں شرکت سے ہندوستانیوں کو روکنا، مغربی مصنوعات کی جگہ دیسی مصنوعات کا استعمال یہ موٹے موٹے عنوانات اور افعال تھے جو ہندوستان کے سیاسی ماحول میں شدّت سے رائج تھے اور حضرت مدنی نے اسے اپنالیا اور پھر پورے اذعان ویقین کے ساتھ استحکام ومضبوطی سے اس پر قائم رہے۔ یوں تو حضرت مدنی کی خدمات آپ کی شخصیت آپ کی خصوصیت کے مختلف پہلو ہیں، ہر پہلو پر تصنیف کی کئی کئی جلدوں میں گفتگو ہوسکتی ہے، حدیث وقرآن کے عالم اس کے معانی ومطالب کے رمز آشنا، ازہرہند دارالعلوم کے شیخ الحدیث، روحانیت میں پیر طریقت اور رئیس الاولیا، ریشمی رومال تحریک کے اہم سپاہی، مہمان نوازی، اخلاق، اخلاص تحریک خلافت کے داعی اعظم، ہندومسلم اتحاد کے مضبوط حامی وداعی وغیرہ وغیرہ سیکڑوں ابواب ہیں، ہم ان میں سے چند اہم کی طرف اشارہ کرکے خدمات عالی میں نذرِ عقیدت پیش کرسکتے ہیں۔

فوج کی مخالفت اور مقدمہٴ کراچی:

          ۱۹۲۰/ میں مالٹا سے واپسی کے بعد حضرت شیخ الہند کے انقلابی فیصلے (عدم تشدد) کے بعد حضرت مدنی کا پورے ملک میں، اسی فیصلہ شدہ اسکیم کے تحت، دورہ شروع ہوگیا، ایسے ہی ایک کانفرنس میں تقریر ہوئی ، آپ حکومت برطانیہ پر کھل کر برسے اور دشمن کو للکارا، آپ نے اعلان کیا ”حکومت برطانیہ کی فوج میں شامل ہونا حرام ہے“ لوگوں کو سمجھایا برطانیہ کی ناپاک پالیسی ہندوستانی فوجوں سے مسلمانوں کو قتل کروانے والی ہے، ان کا گھر مال ودولت لوٹاتی ہے، ان کو بے عزت و بے آبرو کرواتی ہے، اگر کوئی فوجی اس چیزکو حلال سمجھے گا تو وہ کافر ہوجائے گا، شرعی حیثیت سے کسی قسم کی مدد حکومت برطانیہ کی کرنا حرام ہے، ہر قسم کا موالات اور تعاون حرام ہے، مسلمانوں پر ترکِ موالات فرض ہے۔ یہ تقریر کیا تھی حکومت کو ایک چیلنج تھا، ایک دھمکی بلکہ حکومت کے خلاف ایک دھماکہ تھا؛ چنانچہ آپ کے نام وارنٹ جاری ہوگیا، قید ہوئے اور کراچی میں مقدمہ چلا، خالق دنیا ہال کراچی کی خصوصی عدالت میں سماعت ہوئی، عدالت کیا تھی وہ بھی سُن لیجیے: انگریز جج جن کی حکومت کو حضرت نے للکارا تھا، ہر قسم کی سنگین سے سنگین سزا دینے کے موڈ میں۔ پورے ہال میں کھلی ہوئی سنگینیں تانے ہوئے انگریز فوجی اور سپاہی، ہر آنکھ انتقام، غصّے اور حقارت سے سرخ۔ اور کٹہرے میں ایک ایسا ملزم جس کی، اُن کی نگاہ میں کوئی وقعت نہ تھی، جو ان کی حکومت کے لیے سخت خطرہ تھا، ایسے خوفناک پُرہول ماحول میں بدن ہی نہیں روح میں لرزہ طاری ہوجائے، ایک شیردہاڑ رہا تھا۔

          پہلے تو مولانا نے قرآن وحدیث کی روشنی میں انگریزوں کی فوج میں ہندوستایوں کی شرکت کو حرام قرار دیا، آزادی اور اس کے حصول کی ہر قسم کی جدوجہد کو ہر ہندوستانی کا حق ثابت کیا، بیان تو اِسی انداز پر گھنٹوں چلتا رہا، مجمع تھا کہ خوف وحیرت میں گم سُم سوچ رہا تھا، مولانا کو پھانسی گولی سے کم سزا نہ ملے گی؛ مگر جہاں ”موت وحیات صرف اور صرف اللہ کے ہاتھ میں ہے اس پر ایمان ہی نہیں یقین ہو، جہاں ظالم وجابر حاکم کے منہ پر حق بات کہنی ایک سچے مومن کا فرض سمجھا جاتا ہو وہ ایسی سزا کو بھی کب خاطر میں لاتا، اس بیان کا آخری جملہ غور سے سننے کے اور دل پر رکھنے کے لائق ہے، جس سے آسمان ہِل گیا، زمین لرزگئی، سننے والوں کا کلیجہ منھ کو آگیا، یہی وہ تاریخی جملہ تھاکہ جیسے ہی ایک بہادر نڈر حق گو کے ہونٹوں سے نکلا، مولانا محمد علی جوہر آگے بڑھ کر پیروں پر گرپڑے، آپ نے بیان ختم کرتے کرتے فرمایا:

”اگر گورنمنٹ مذہبی آزادی چھیننے پر تیار ہے تو مسلمان اپنی جان تک قربان کرنے کو تیار ہوں گے اور حسین احمد پہلا شخص ہوگا جو اپنی جان قربان کردے گا۔“

          بہرحال مقدمے کا فیصلہ ہوا، تمام کوششوں کے باوجود بغاوت ثابت نہ ہوسکی، گویا موت آپ کو چھوکر نکل گئی،ابھی اللہ کو اپنے اس نیک بندے سے اپنی مخلوق کی اور خدمت لینی تھی، فیصلہ دو سال قید بامشقت پر آکر ختم ہوگیا۔

اس سیاسی جدوجہد کاایک اور موثر طریقہ:

          حضرت مدنی ہندومسلمانوں کے درمیان فکری، سیاسی اور عملی اشتراک کو ہندوستان کی آزادی کے حصول کے لیے نہایت ضروری اور اہم خیال فرماتے تھے۔آپ کا سیاسی عقیدہ تھا کہ اگر ہندوستانی اقوام کے درمیان اتحاد نہیں ہوتا تو ایشیا بالخصوص ہندوستان آزادی کی برکت سے محروم رہے گا، سامراج کا پنجہ یہاں جمارہے گا؛ چنانچہ ملک بھر میں دورہ کرکے تقریروں میں متحدہ قومیت پر پورا زور دیتے تھے۔ حدیث وقرآن اور سیاسی تجربے کی بنیاد پر اس کے حق میں دلائل کا انبار لگادیتے تھے، یہ امرِواقعہ بھی ہے کہ انگریز اگر اپنی حکومت کے استحکام وبقا کے لیے ”لڑاؤ اور حکومت کرو“ کی پالیسی پر عمل کو ضروری سمجھتا تھا، تواس زہر کے توڑ کے لیے،متحدہ قومیت، سے بہتر کوئی تریاق نہیں تھا اور اسی سے اس ظالم حکومت کی کمر ٹوٹ سکتی تھی اس کے مقابلے میں Two Nation the ory (دوقومی نظریہ) اور جداگانہ انتخاب کی پالیسی ملک کی آزادی کی راہ میں سخت رکاوٹ تھی۔

جمعیة علماء ہند:

          ”جو جمعیة کی کسی حیثیت سے خدمت کرے گا انشاء اللہ خدا کے یہاں اجر کا مستحق ہوگا“ (حضرت مدنی کے ایک مکتوب سے)

          حضرت شیخ الاسلام کی تمام سرگرمیوں، عملی سیاست، اصلاح وتبلیغ کا مرکزی اسٹیج مسلمانوں کی تاریخی جماعت، جمعیة علماء ہند تھی، اس جماعت کی سرپرستی قیادت بہ طور صدر حضرت ہی انجام دیتے رہے، جمعیة علماء اپنے زمانے میں ملک کے بعض اہم معاملات میں صحیح فیصلہ لینے میں کانگریس کو اور دوسری تنظیموں کو پیچھے چھوڑ چکی تھی؛ چنانچہ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ جب کانگریس اور دوسری جماعتیں حکومت برطانیہ سے محض رعایتیں مانگ رہی تھیں، گفت وشنید اور اصلاحات کی طلب گار تھیں، بوریہ نشین علماء کی اس جماعت نے جس کے رہبر، قائد اور پالیسی میکر صدر حضرت شیخ الاسلام تھے، آگے بڑھ کر ببانگ دُہل ”آزادیٴ کامل“ کا مطالبہ کیا، یاد رہے جمعیة نے ۱۹۲۶/ میں یہ انقلابی اعلان کردیا تھا؛ جبکہ کانگریس نے ۱۹۲۹/ میں یہ تجویز پاس کی، جمعیة کو یہ تقدم بھی حاصل ہے کہ اس کے ایک فرزند ملک کے شعلہ جوالہ انقلابی لیڈر مولانا حسرت موہانی نے ۱۹۲۱/ ہی میں احمد آباد کانفرنس میں قصربرطانیہ میں یہ صور پھونک دیا تھا، واضح رہے کہ جناب حسرت موہانی جمعیة علماء کی مجلس عاملہ (ورکنگ کمیٹی) کے ممبر اور جمعیة کے رہبر اعظم حضرت شیخ الہند اور آپ کے وفادار تلمیذ وسپاہی مولانا عبیداللہ سندھی کی ہندوستان سے باہر حکومت موقتہ کے ہندوستانی ممبرتھے، اس طرح اس انقلابی اعلان کی اس اوّلیت کا اعزاز بھی جمعیة ہی کو حاصل ہے۔

          حضرت مدنی کے سیاسی فیصلوں اور رجحان کے مطابق ہمیشہ جمعیة متحدہ قومیت کی شدّت سے حامی رہی۔

اور اب شام ہوگئی:

          آزادی کے بعد کے حالات اور عمر بھر کی تگ ودو کا یہ نتیجہ دیکھ کر ملک میں خون کی ندیاں بہہ گئیں، اپنی قوم مایوسی اور قنوطیت کا شکار تھی اُسے آزاد ملک میں جینے کا حق بھی نہ مل سکا، بقول فیض احمد فیض مرحوم۔

یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر

وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں

          ان حالات نے ہمارے حضرت کو مغموم ودل شکستہ کردیا تھا، یہ داستان بہت طویل ہوجائے گی کلیجہ خون بن کر آنسو کی جگہ آنکھوں سے بہنے لگے گا، بہتر ہے حضرت ہی کے ایک مختصر، دل سوز بیان سے اس حقیقت پر سے پردہ اٹھادیا جائے۔ فرمایا:

”ہماری اسکیم فیل ہوگئی، ہماری کوئی تدبیر کارگر نہ ہوسکی؛ اگر مسلمان ہماری بات مان لیتے تو یہ تبادلہٴ آبادی نہ ہوتا اور یہ خون کی ندیاں نہ بہتیں۔“ (شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی، فرید الوحیدی)

          ۱۹۵۷- ۳/بجے دوپہر، ساری زندگی کا تھکا ہوا مسافر عاشق رسول …، مقبول بارگاہِ رب صمد، بندگانِ خدا کا خیرخواہ اور ہمدرد، شیخ طریقت، شیخ الحدیث والتفسیر اسیرمالٹا وکراچی اپنے مولانا کے حضور حاضر ہوگیا۔ فرشتوں نے یَا اَیَّتُھَا النفسُ المُطمئنّة اِرجِعی اِلیٰ ربِک رَاضِیَةً مَّرضِیَّة کہہ کر استقبال کیا۔ رحمة اللّٰہ علیہ․

آخری بات:

          ہمارے حضرت صبر کا پہاڑ تھے، بڑے بڑے مصائب ومشکلات آزمائش وامتحان آئے، کبھی زبان سے ایک حرفِ شکایت نہ نکلا، دوسری بات یہ کہ آپ نے جو کچھ کیا دنیوی نفع، سود وزیاں، کسی منفعت ولالچ ، کسی عہدے، منقبت وتعریف کا کبھی خیال بھی نہ آیا۔ ۴۰ برس وقار وعزیمت کے ساتھ حضرت نے ہر قسم کی عداوتیں، رقابتیں، طنز و تشنیع، سب وشتم، مختلف قسم کی ناروا حرکات برداشت کیں، اس کوہ گراں نے کبھی اپنے ساتھ بُرائی کا بدلہ بُرائی سے نہیں دیا، کسی مخالفت، عداوت، جلسوں میں ہلڑبازی، پتھر بازی پر کبھی کوئی شکوہ ، ناراضگی، خفگی کا اظہار نہیں فرمایا:

          آزادی کے بعدہماشما، جس نے کبھی اس جنگ میں شرکت بھی نہیں کی، برطانیہ کی جی حضوری کرتا رہا یا جو انگلی کٹاکر شہیدوں میں داخل ہوگیا، سب نے خوب خوب قیمتیں وصول کیں؛ مگر حضرت مدنی کا دامن کسی آلودگی سے ملوث نہ ہوا اور جب ہندوستان کا سب سے بڑا اعزاز ”پدم بھوشن“ کا تمغہ دیاگیا تو شکریے کے ساتھ واپس کردیا، بقول مولانا ارشد مدنی صدرجمعیة علماء ہند: ”ساری زندگی قربانی دی جب مُراد پوری ہوئی مقصد حاصل ہوگیا، انعام ملنے کا وقت آیاتو منھ پھیرلیا، کروٹ لے کرلیٹ گئے“۔ (تقریر بمبئی جلسہ زیرصدارت جناب ابوعاصم اعظمی)

***

------------------------------------------

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ 4 ‏، جلد: 97 ‏، جمادی الثانیہ 1434 ہجری مطابق اپریل 2013ء