حرفِ آغاز

اہل السنة والجماعة كے مصداق  ۔ كون؟

 

مولانا حبیب الرحمن اعظمی

 

          محدثین دہلی اوران کے چشمہٴ علم وعرفان سے سیراب علمائے دیوبند اپنے مسلک اور دینی رخ کے اعتبار سے کلیتاً اہل السنة والجماعة ہیں پھر وہ خودرَو قسم کے اہل سنت نہیں؛ بلکہ اوپر سے ان کا سندی سلسلہ جڑا ہوا ہے؛ اس لیے مسلک کے اعتبار سے وہ نہ کوئی جدید فرقہ ہیں نہ بعد کی پیداوار ہیں؛ بلکہ وہی قدیم اہل السنة والجماعة کا مسلسل سلسلہ ہے جو اوپر سے سند متصل اور استمرار کے ساتھ کابراً عن کابرٍ چلا آرہا ہے۔

          علمائے دیوبند کے اس جامع، افراط وتفریط سے پاک مسلک معتدل کو سمجھنے کے لیے خود لفظ میں غور کرنا چاہیے جو دو اجزاء سے مرکب ہے ایک ”السنة“ جس سے اصول قانون اور طریق نمایاں ہیں اور دوسرا ”الجماعة“ جس سے شخصیات اور رفقائے طریق نمایاں ہیں۔ اہل السنة والجماعة کے اس ترکیبی کلمہ سے یہ بات پورے طور پر واضح ہوتی ہے کہ اس مسلک میں اصول وقوانین بغیر شخصیات کے اور شخصیات بغیر قوانین کے معتبر نہیں؛ کیوں کہ قوانین ان شخصیات ہی کے راستے سے آتے ہیں اس لیے ماخوذ کو لیا جانا اور ماخذ کو چھوڑ دینا کوئی معقول مسلک نہیں ہوسکتا۔

          حدیث ”ما أنا علیہ وأصحابي“ میں بہتّر فرقوں میں سے فرقہٴ ناجیہ کی نشاندہی فرماتے ہوئے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے معیار حق ان ہی دو چیزوں کو قرار دیا ”ما انا“ سے اشارہ سنت یعنی طریق نبوی یا قانون دین کی طرف ہے اور ”واصحابی“ سے اشارہ الجماعة یعنی برگزیدہ شخصیات کی طرف ہے؛ بلکہ مسند احمد اور سنن ابی داؤد میں اصحابی کے بجائے الجماعة کا صریح لفظ موجود ہے۔

          اس لیے تمام صحابہ، تابعین، فقہائے مجتہدین، ائمہ محدثین اور علمائے راسخین کی عظمت ومحبت ادب واحترام اور اتباع وپیروی اس مسلک کا جوہر ہے؛ کیوں کہ ساری دینی برگزیدہ شخصیتیں ذات نبوی سے انتساب کے بدولت ہی وجود میں آتی ہیں۔ پھر مختلف علوم دینیہ میں حذاقت و مہارت اور خداداد فراست وبصیرت کے لحاظ سے ہر شعبہٴ علم میں ائمہ اور اولوالامر پیدا ہوئے اور امام ومجتہد کے نام سے انھیں یاد کیاگیا۔ مثلاً ائمہ اجتہاد میں امام ابوحنیفہ، امام مالک، امام شافعی، امام احمد بن حنبل وغیرہ ائمہ حدیث میں امام بخاری، امام مسلم، امام ابوداؤد، امام ترمذی، امام نسائی وغیرہ، ائمہ احسان واخلاص میں اویس قرنی، فضیل بن عیاض وغیرہ، ائمہ حکمت وحقائق میں امام رازی، امام غزالی وغیرہ، ائمہ کلام میں ابوالحسن اشعری، ابومنصور ماتریدی وغیرہ نیز اسی قسم کی دین کی اور برگزیدہ شخصیتیں ہیں جن کی درجہ بدرجہ توقیر وعظمت مسلک دیوبند میں شامل ہے۔

          پھر ان تمام دینی شعبوں کے اصول وقوانین کا خلاصہ دو ہی چیزیں ہیں: ”عقیدہ وعمل“ عقیدے میں تمام عقائد کی اساس وبنیاد عقیدئہ توحید ہے اور عمل میں سارے اعمال کی بنیاد اتباع سنت ہے۔

          مسلک دیوبند میں عقیدئہ توحید پر بطور خاص زور دیا جاتا ہے تاکہ اس کے ساتھ شرک یا موجبات شرک جمع نہ ہوں اور کسی بھی غیر اللہ کی اس میں شرکت نہ ہو۔ ساتھ ہی تعظیم اہل اللہ اور اربابِ فضل وکمال کی توقیر کو عقیدئہ توحید کے منافی سمجھنا مسلک کا کوئی عنصر نہیں۔

          علمائے دیوبند کا یہ ایمان ہے کہ سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم افضل البشر وافضل الانبیاء ہیں، مگر ساتھ ہی آپ کی بشریت کا بھی عقیدہ رکھتے ہیں۔ وہ آپ کے علو درجات کو ثابت کرنے کے لیے حدود عبدیت کو توڑ کر حدود معبودیت میں پہنچادینے سے کلی احتراز کرتے ہیں۔ وہ آپ کی اطاعت کو فرض عین سمجھتے ہیں؛ مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کو جائز نہیں سمجھتے۔

          علمائے دیوبند برزخ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات جسمانی کے قائل ہیں؛ مگر وہاں معاشرت دنیوی کو نہیں مانتے۔ وہ آپ کے علم عظیم کو ساری کائنات کے علم سے بدرجہا زیادہ مانتے ہیں پھر بھی اس کے ذاتی ومحیط ہونے کے قائل نہیں۔

          علماء دیوبند تمام صحابہ کی عظمت کے قائل ہیں؛ البتہ ان میں باہم فرق مراتب ہے تو عظمت مراتب میں بھی فرق ہے؛ لیکن نفس صحابیت میں کوئی فرق نہیں اس لیے محبت و عقیدت میں فرق نہیں پڑسکتا پس ”الصحابة کلھم عدول“ اس مسلک کا سنگ بنیاد ہے۔ صحابہ بحیثیت قرن خیر من حیث الطبقة ہیں اور پوری امت کے لیے معیار حق ہیں۔ علمائے دیوبند انھیں غیرمعصوم ماننے کے باوجود ان کی شان میں بدگمانی اور بدزبانی کو جائز نہیں سمجھتے اور صحابہ کے بارے میں اس قسم کا رویہ رکھنے والے کو حق سے منحرف سمجھتے ہیں۔

          علمائے دیوبند کے نزدیک ان کے باہمی مشاجرات میں خطا وصواب کا تقابل ہے حق وباطل کا، طاعت ومعصیت کا نہیں؛ اس لیے ان میں سے کسی فریق کو تنقید وتنقیص کا ہدف بنانا جائز نہیں۔

          علمائے دیوبند تمام صلحائے امت واولیاء اللہ کی محبت وعظمت کو ضروری سمجھتے ہیں؛ لیکن اس محبت وتعظیم کا یہ معنی قطعاً نہیں لیتے کہ انھیں یا ان کی قبروں کو سجدہ وطواف اور نذر وقربانی کا محل بنالیا جائے۔

          وہ اہل قبور سے فیض کے قائل ہیں استمداد کے نہیں۔ حاضری قبور کے قائل ہیں؛ مگر انھیں عیدگاہ بنانے کو روا نہیں سمجھتے وہ ایصال ثواب کو مستحسن اور اموات کا حق سمجھتے ہیں؛ مگر اس کی نمائشی صورتیں بنانے کے قائل نہیں۔

          وہ تہذیب اخلاق، تزکیہٴ نفس اور عبادت میں قوتِ احسان پیدا کرنے کے لیے اہل اللہ کی بیعت وصحبت کو حق اور طریق احسانی کے اصول وہدایت کو تجربتاً مفید اور عوام کے حق میں ایک حد تک ضروری سمجھتے ہیں اور اسے شریعت سے الگ کوئی مستقل راہ نہیں سمجھتے؛ بلکہ شریعت ہی کا باطنی واخلاقی حصہ مانتے ہیں۔

          جیساکہ پہلے عرض کیاجاچکا ہے کہ علمائے دیوبند احکامِ شرعیہ وفروعیہ اجتہادیہ میں فقہ حنفی کے مطابق عمل کرتے ہیں؛ بلکہ برصغیر میں آباد کم وبیش پچاس کروڑ مسلمانوں میں نوے فیصد سے زائد اہل السنة والجماعة کا یہی مسلک ہے؛ لیکن اپنے اس مذہب ومسلک کو آڑ بناکر دوسرے فقہی مذاہب کو باطل ٹھہرانے یا ائمہٴ مذاہب پر زبانِ طعن دراز کرنے کو جائز نہیں سمجھتے؛ کیوں کہ یہ حق وباطل کا مقابلہ نہیں ہے؛ بلکہ صواب وخطا کا تقابل ہے۔ مسائلِ فروعیہ اجتہادیہ میں ائمہٴ اجتہاد کی تحقیقات میں اختلاف کا ہوجانا ایک ناگزیر حقیقت ہے۔ اور شریعت کی نظر میں یہ اختلاف صحیح معنوں میں اختلاف ہے ہی نہیں؛ قرآن حکیم ناطق ہے:

          شَرَعَ لَکُمْ مِنَ الدِّیْنِ مَا وصّٰی بہ نُوحاً وَالَّذِیْ اَوْحَیْنَا الَیْکَ وَمَا وَصَّیْنَا بِہ اِبْرَاھِیْمَ وَمُوسٰی وَعِیسٰی أَنْ اَقِیمُوا الدِّیْنَ وَلاَ تَتَفَرَّقُوْا (الشوریٰ)

          ظاہر ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام سے لے کر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دور تک شریعتوں اور منہاج کا کھلا ہوا اختلاف رہا، پھر بھی قرآن حکیم اس کو ایک ہی دین قرار دے رہا ہے اور شریعتوں کے باہمی فروعی اختلاف کو وحدتِ دین کے معارض نہیں سمجھتا۔ اگر یہ فروعی اختلاف بھی افتراق واختلاف کی حد میں آسکتے تو پھر ”وَلاَ تَتَفَرّقُوْا فِیْہِ“ کا خطاب کیوں کر درست ہوتا۔

          لہٰذا جس طرح شرائعِ سماویہ فروعی اختلاف کے باوجود ایک ہی دین کہلائیں اور ان کے ماننے والے سب ایک ہی رشتہٴ اتحاد واخوت میں منسلک رہے۔ تحزب وتعصب کی کوئی شان ان میں پیدا نہیں ہوئی؛ اسی لیے وہ ”وَکَانُوْا شِیَعاً“ کی حد میں نہیں آئے۔ ٹھیک اسی طرح ایک دینِ حنیف کے اندر فروعی اختلافات، اس کی شانِ اجتماعیت وحدت میں خلل انداز نہیں ہوسکتے۔

          مواقعِ اجتہاد میں اہل اجتہاد کا اجتہاد دین ہی کا مقرر کردہ اصول ہے، اسے دین میں اختلاف کیسے کہا جاسکتا ہے۔ رہا جماعتِ مجتہدین میں سے کسی ایک کی پیروی وتقلید کو خاص کرلینا تو دین کے بارے میں آزادیِ نفس سے بچنے اور خودرائی سے دور رہنے کے لیے امت کے سوادِ اعظم کا طریقِ مختار یہی ہے، جس کی افادیت وضرورت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ بابِ تقلید میں علمائے دیوبند کا یہی طرزِ عمل ہے۔ وہ کسی بھی امام، مجتہد یا اس کی فقہ کی کسی جزئی کے بارے میں تمسخر، سوئے ادب، یا رنگِ ابطال و تردید سے پیش آنے کو خسرانِ دنیا وآخرت سمجھتے ہیں، ان کے نزدیک یہ اجتہادات شرائعِ فرعیہ ہیں، شرائعِ اصلیہ نہیں کہ اپنے فقہ کو موضوع بناکر دوسروں کی تردید یا تفسیق وتضلیل کریں؛ البتہ اپنے اختیار کردہ فقہ پر ترجیح کی حد تک مطمئن ہیں۔

          اب رہا مسئلہ احکامِ اجتہادیہ میں ان کی ترجیحات اور طریقِ عمل کا تو کتاب وسنت اور امت میں متوارِث قواعدِ نصوص کی روشنی میں ان پر بحث وگفتگو کی جاسکتی ہے، جس کا دروازہ ہمیشہ سے کھلا ہے، عہدِ صحابہ سے یہ تعامل چلا آرہا ہے کہ اس نوع کے مسائل میں اہلِ نظر علماء قواعد و اصول کے تحت صواب وخطا اور راجح و مرجوح کی حد تک بحث ونظر کرتے رہے ہیں۔

          لیکن ان اجتہادی ومختلف فیہ مسائل کو آڑ بناکر ملتِ واحدہ میں انتشار اور تفرقہ پیدا کرنا اور انھیں حق وباطل کا معیار ٹھہراکر مسلمانوں کو ہدایت وضلالت کے متضاد خانوں میں تقسیم کردینا، تو یہ نہایت خطرناک رویہ ہے جس سے اہل السنة والجماعة کے سلف وخلف کا دامن پاک وصاف رہا ہے؛ بلکہ اس غیرمعقول ناروا روش کے دروازے کو بند کرنے کے لیے؛ تاکہ امتِ مسلمہ کی وحدت برقرار رہے، سلفِ صالحین وعلمائے راسخین نے نصوص فہمی اور تاویل واجتہاد کے سلسلے میں ایک علمی دستور اور منہاج مقرر کردیا، جس کے ذریعے انھوں نے نصوص وآراء میں جمع وتطبیق کی راہیں ہموار کیں اور امت کو ”مِنَ الَّذِیْنَ فَرَّقُوْا وَکَانُوْ شِیَعاً، کُل حِزبٍ بِمَا لَدَیْھِمْ فَرِحُوْنَ“ کا مصداق بننے سے بچالیا۔

***

----------------------------------------

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ 5 ‏، جلد: 97 ‏، رجب 1434 ہجری مطابق مئی 2013ء