انتشار بین المسلمین کس کے مفاد میں ہے؟

 

از: ڈاکٹر ایم اجمل‏، ۱۵- گاندھی روڈ، دہرہ دون

 

        عالمِ اسلام میں پر مسلکی تشدد اور منافرت کے فروغ میں اسلام دشمن طاقتوں کی شیطانی حرکتوں میں ایک سازش کا پردہ برطانوی اخبار گارجین اور بی․ بی․ بی سی عربی کی کھوج مہم میں ہوا ہے جو روزنامہ ”دی ہندو“ کے شکریہ کے ساتھ پیش خدمت ہے۔ یہ تمام قائدین عالمِ اسلام اور خصوصاً مذہبی شخصیات وقائدین کے لیے انتہائی سبق آموز معلومات سے بھرپور ہے۔ امید ہے کہ ہماری قیادت اس سے سبق لے کر مسلم امت میں ہر طرح کے اختلاف کو ان کے حدود میں رکھیں گے۔

          جیمس اسٹیلی نے ۱۹۸۰/ میں ایل سلواڈور کی خانہ جنگی میں گندی۔ جنگ کے تحت پنٹاگن کے لیے کام کیا؛ تاکہ وہاں کے مخالفین کو آپس میں لڑایا جائے۔ کرنل جیمس کی اسی مہارت کو امریکی وزیردفاع نے ۶-۲۰۰۳/ کے دوران عراق میں شیعہ، سنی تفرقہ پھیلاکر مخالفت کو کمزور کرنے میں کیا، اس کا ساتھ کرنل کاف مین Caffman نے دیا۔ دونوں براہ راست وزیردفاع زونالڈ رمسفیلڈ کو جوابدہ تھے۔ ان کا کام تھا سنّی مزاحمت کاروں کے خلاف شیعہ مزاحمت کاروں کی حمایت اورپکڑے گئے مزاحمت کاروں سے معلومات حاصل کرنا۔ انھوں نے عراق شیعہ ملیشیا، لیڈر بریگیڈ کے لوگوں کو اپنے ساتھ ملاکر ان کی مدد سے متعدد عقوبت خانہ اور تفتیشی مراکز قائم کیے CIA کا ڈائریکٹر جنرل پیٹریاس جیسے حال ہی میں ایک جنسی اسکینڈل میں ملوث ہونے کے جرم میں CIA چھوڑنا پڑا، وہ بھی مہم میں ایک صلاح کار کے واسطہ سے ہے براہِ راست ان ٹارچرسیل میں ہونے والی زیادتیوں میں شامل تھا۔ عراقی جنرل منتظرالاسماری نے جو کاف مین اور اٹیلی دونوں کے ساتھ کام کرچکا ہے، بتایا کہ میں نے ان ٹارچر کے مراکز میں ان دونوں کو کبھی الگ الگ نہیں دیکھا۔ ہرمرکز میں آٹھ لوگوں پر مشتمل ٹیم ہوتی تھی، جس میں ایک انٹیلی جنس آفسیر اور باقی تفتیش کار ہوتے تھے۔ یہ کمیٹی معلومات حاصل کرنے کے لیے قیدیوں کو تشدد کا نشانہ بناتے تھے، انھیں کرنٹ لگاتے تھے، الٹا لٹکادیتے تھے، ان کے ناخن اکھاڑتے تھے اور ان کے نازک مقامات پر ضربیں لگاتے تھے۔ گارجین اور BBC کی تفتیشی رپورٹ کی وکی لیکس کے انکشافات نے مہمیز دی، میں نے امریکی سفارتی یاد داشتوں کے ذخیرہ کو لاکھوں کی تعداد میں افشاء کرکے امریکی بے رحم مطلب پرست سیاست کا پردہ چاک کیا تھا۔ ان معلومات کو حاصل کرکے افشا کرنے میں وکی لیکس کا ساتھ ۲۵/امریکی فوجی بریڈلی میٹنگ نے دیا، جس پر ملتوی عدالت میں مقدمہ چل رہا ہے، جسے اس جرم میں ۲۵/سال کی سزا ہوسکتی ہے۔ اسماری نے بتایا ان کمانڈوکنٹرول اڈوں پر تشدد اور ٹارچر روزانہ کا معمول تھا۔ مجھے یاد ہے کہ کس طرح ایک ۱۴سالہ قیدی کو کھمبے میں باندھ کر اس کے پیر اس کے سرسے اوپر باندھے گئے تھے، اس کا سارا جسم خون سے میلا ہوگیا تھا اور وہ تکلیف کی وجہ سے اللہ اکبر، اللہ اکبر! کا نعرہ لگارہا تھا۔ گلبس پیریز جونیویارک ٹائمس کے لیے کام کرتا تھا جولائبریری اٹیلی سے انٹرویو دے رہا تھا تو ہر طرف بکھرا ہوا تھا پٹریاس نے جب ایل سلواڈور میں اٹیلی اور کاف مین نے کاموں کو دیکھا تو ۱۹۸۶/ میں وہ بھی مزاحمت کاری کے خلاف ان طریقوں کا معترف ہوگیا؛ مگر اٹیلی نے دونوں مقامات پر اپنے کسی بھی رول سے انکار کیا، پٹریاس کے سرکاری ترجمان نے کہا کہ ہمیں اس طرح کے تشدد کی شکایات ملیں، ہم نے عراقی سرکارسے تبادلہٴ خیال کیا۔ ہم نے اپنے یہاں بھی کنٹرول کمانڈ کو آگاہ کیا اور عراقی حکومت کو بھی (مطلب یہ کہ حکومتں کے علم کے ساتھ حقوقِ انسانی کی پامالی ہورہی تھی اس تشدد کو عراق کی شیعہ عوام میں مقبولیت حاصل ہوئی جس کے فروغ کے لیے وہ ان تشدد کے شکار قیدیوں کو T.V پر پیش کرتے تھے۔ اس پروگرام کو ”دہشت گردی انصاف کے ہاتھوں میں“ کے نام سے دکھایا جاتا تھا۔ جنرل عدنان ثابت جو ان عقوبت خانوں کا نگراں تھا کا کہنا ہے کہ جو کچھ بھی عقوبت خانوں میں ہورہا تھا، امریکی جنرل سب کچھ جانتے تھے، وہ قیدیوں کے بارے میں سب کچھ جانتے تھے؛ بلکہ بہت سے قیدیوں کو ہم نے اسرئیلیوں کی اطلاعات پر ہی گرفتار کیا تھا۔ ۲۰۰۵/ میں جب پٹریاس اور اٹیلی نے عراق چھوڑا تو جابرالسلاج کو وزیرداخلہ بنایا، جو کہ شیعہ ملیشیا اور بریگیڈ سے قریبی ربط رکھتا تھا۔ جابر کے عقوبت خانوں میں تشدد اور بھیانک ہوگیا تھا۔ اس بات کے بھی شواہد ہیں کہ یہ تفتیشی کمانڈویونٹ آگے چل کر موت کے دستوں Death Squadمیں تبدیل ہوگئے تھے، یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ خود عراقی حکمرانوں نے بھی پٹریاس سے جابر کو وزیر داخلہ بنانے سے منع کیا تھا؛ مگر ان کے مشوروں کو پٹریاس نے ٹال دیا تھا۔ اس نیم فوجی یونٹ کی معاشی اور تکنیکی مدد امریکہ نے اس لیے کی کہ وہ اس کے ذریعہ عراق میں ایک مہلک فرقہ وارانہ جنگ کے بیج بونا چاہتا تھا اور بعد میں اس کی وجہ سے اب تک لاکھوں لوگ مارے جاچکے ہیں۔ فرقہ وارانہ تشدد کے عروج کے دنوں میں عراق کی سڑکوں پر اوسطاً ۱۰۰ لاشیں روزانہ یا ۳۰۰۰ لاشیں ماہانہ ملتی تھیں۔ (دی ہندو دہلی ۱۳/۳/۲۰۰۸/)

تشدد اور تعذیب کا عامل محور یا تشدد اور تعذیب کا گلوبلائزیشن:

          جدید شیطانی جاہلی تہذیب اپنے جرائم اور مکروہ عزائم پر پردہ ڈالنے کے لیے جمہوریت وصنفی مساوات Justice Gender حقوق نسواںآ زادی کی گرد اڑاتا ہے اور اس گرد وغبار کو عالمی پروپیگنڈہ مشینری کے ذریعہ دنیا بھر میں پھیلاکر اپنے حقوق انسانی کے خلاف وحشیانہ ریکارڈ وسائل کی لوٹ سرمایہ دارانہ لوٹ مار، بے حیائی اور عصمت فروشی کے کاروبار کو چھپانا چاہتا ہے۔ گذشتہ ماہ وزیراعظم منموہن سنگھ کی بیٹی امرت سنگھ نے ایک امریکی ادارہ کے تعاون سے امریکی جنگی جرائم پر رپورٹ خصوصاً عراق اور افغانستان کے قیدیوں پر کیے گئے بے رحمانہ تشدد، ٹارچر کی عالمگیریت کے عنوان سے شائع کی ہے، جس میں بتایاگیا ہے کہ امریکہ نے 9/11 کے بعد دنیا بھر سے مشکوک لوگوں کو غیرقانونی طریقہ سے گرفتار کرکے انھیں غیرقانونی طریقہ سے غیرقانونی اور خفیہ پروازوں کے ذریعہ دنیا کے لگ بھگ ۵۴ ممالک میں بنے ٹارچر کے مراکز میں لے جاکر غیرانسانی وغیرقانونی اور بے رحمانہ طریقہ سے تشدد اور پوچھ تاچھ کا نشانہ بنایا۔ یوروپ سے ۲۵ ممالک و ایشیا سے ۱۴ ممالک و افریقہ سے ۱۳ ممالک کے علاوہ کنیڈا اور آسٹریلیا نے بھی اس مذموم انسانیت سوز مہم میں شیطان خبیث کا ساتھ دیا۔ بھارت ان میں شامل نہیں ہے؛ لیکن سب سے چونکانے والا نام اسلامی جمہوریہ ایران کا ہے۔ اس کے علاوہ افغانستان، مملکت خداداد پاکستان، مصر، لیبیا، شام، جیسے مسلمانوں کے ”ہمدرد ممالک“ کے علاوہ سویڈن، فن لینڈ، اٹلی، جرمن، برطانیہ، ڈنمارک،آئس لینڈ سب نے آزادی اور جمہوریت اور حقوقِ انسانی کو ”محفوظ“ کرکے اس شیطانی مقدس فریضہ میں پوری دلجمعی سے ساتھ دیا۔ ایک ایک قیدی کو ہوائی جہازوں میں خصوصی فلائٹ سے ہزاروں کلومیٹر دور لے جاکر پرتشدد وظالمانہ ٹارچرکا نشانہ بنایا۔ جس کی کچھ تفصیل پچھلی رپورٹ میں آچکی ہے، اس سے پہلے بھی امرت سنگھ کی کوششوں سے ۲۰۰۹/ میں ابوغریب جیل میں تشددپر مشتمل ہزاروں صفحات پر مشتمل پوسٹ مارٹم رپورٹ سامنے آچکی ہے۔ دسمبر ۲۰۱۲/ میں مقدونیہ میں ٹارچر کیے گئے اور امریکی مقدونیائی سیکورٹی اہل کاروں کے ذریعہ اغوا کرکے مارپیٹ اغلام بازی کا نشانہ بناکر اور ہتھکڑیاں پہنانے کے الزام میں یوروپی کورٹ نے خالد المصری کو ۶۰۰۰۰ یورو کا جرمانہ ادا کرایا۔ بعد میں C.I.A نے کہا کہ ہم نے جرمن وزیرداخلہ کو اطلاع دے کر کارروائی کی تھی؛ مگر انھوں نے اپنی کابینہ تک کو اس کی اطلاع نہیں دی C.I.A نے قبول کیا کہ ہم نے دھوکہ سے غلط آدمی کو پکڑلیا تھا۔ امریکی سپریم کورٹ نے خالد المصری کے کیس کو سننے سے منع کردیا اور کہا کہ قومی تحفظ کا مسئلہ متاثر کو پہنچے نقصان سے زیادہ اہم ہے؛ مگر اٹلی کی عدالت نے ۲۳/امریکیوں کو ملزم گردانا ہے اور ان کے خلاف قانونی کارروائی جاری ہے۔ اٹلی کی حکومت ۹ دیگر حکومتوں کے افراد کے خلاف بھی قانونی کارروائی کی تیاری کررہی ہے۔ شرم اور افسوس کی بات ہے کہ اپنے قومی تحفظ کے نام پر دنیا بھر میں بے گناہوں کو پکڑپکڑ کر تشدد اور ٹارچر کی نہایت شرم ناک مثالیں قائم کی گئیں۔ مثلاً قیدیوں کو دوسرے ممالک میں لے جاکر غیرقانونی طریقہ سے تشدد کے ساتھ تفتیش کا نام دیاگیا Rendition Ques جس کا مطلب ہوتا ہے کہ آرٹ یا میوزک کی تفسیر (تفتیش کی ترقی یافتہ تکنیک) Enhanced Intrerogation techniques تلخیص (سیما سروہی دی ہندو ملی ۱۳/۳/۲۰۰۹-۱۳/۳/۲۰۰۸/)

          ان دستاویزی شواہد کے ساتھ حال ہی میں کچھ اور خبریں اور شواہد عالمی پیمانہ پر آرہے ہیں، جن سے ثابت ہوتا ہے کہ ملت اسلامیہ میں پرتشدد مسلکی اور گروہی منافرت کو مغرب اور تمام اسلام دشمن طاقتوں کے ذریعہ انتہائی ترجیحی اور وسیع بنیادوں پر پورے وسائل جھونک کر ملت کے لوگوں (ایمان فروشوں) کے ذریعہ ہی بھڑکیا جارہا ہے، کہیں صوفی اسلام کو آگے کیا جارہا ہے (بھارت، بنگلہ دیش، مغرب، مالی، مالدیپ وغیرہ) کہیں شیعہ - سنی (لبنان، ایران، پاکستان، بحرین وغیرہ) کہیں لبرل بمقابلہ انتہا پسند (مصر، تیونس، پاکستان، ایران، الجزائر وغیرہ) کہیں ساری تقسیموں کو بہ یک وقت منظم کیا جارہا ہے اس کام کے لیے مذہبی طبقہ غیرسرکاری تنظیمیں N.G.O فنون لطیفہ سے وابستہ لوگوں کو خرید کر ان کو میڈیا کوریج دے کر مسلمانوں کا مدد گار بناکر ان کے ذریعہ مسلمانوں میں اختلاف وانتشار کو پروان چڑھایا جارہا ہے، جیساکہ عراق میں شیعہ- سنی تفریق کو پرتشدد خونریزی میں امریکی خصوصی افواج نے تبدیل کیا، یہی کھیل مختلف ناموں سے Remote کنٹرول کے ذریعہ کئی کئی واسطوں سے اسلام دشمن طاقتیں خفیہ ایجنسیوں کے معرفت کھیل رہی ہیں۔ ورنہ مصر میں ایک عیسائی N.G.O کے دفتر میں مصری افواج کی تنصیبات کے نقشہ ملنے کا کیا جواز؟ اس N.G.Oتک کو اعلیٰ امریکی عہدیداروں کا قریبی رشتہ دار چلارہا تھا، اس طرح انڈونیشیا، بنگلہ دیش، پاکستان میں یوروپی ممالک کے N.G.O کا جال اندر ہی اندر مقامی غریب ضرورت مند باشندوں کا کیسے استعمال کرتے ہیں، وہ ملالہ کے معاملہ سے ظاہر ہے ورنہ ایک چھوٹے سے اسکول کے مالک کی بیٹی ملالہ اور ماں کا امریکہ کے اعلیٰ ترین خفیہ اداروں کے سربراہوں سے ملنا کیا راز کھولتا ہے؟ ایسے میں مذہبی افراد اگر وہ عیسائیوں اور یہودیوں کی طرح احبار و رہبان نہیں ہوگئے ہیں تو انھیں ملت میں ہر طرح کے انتشار سے انتہائی صبر اور ضبط سے نبٹنا ہوگا۔ ورنہ کل اللہ کے حضور․․․․

***

-----------------------------------------

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ 5 ‏، جلد: 97 ‏، رجب 1434 ہجری مطابق مئی 2013ء