حرفِ آغاز

دہشت گردی

 

مولانا حبیب الرحمن اعظمی

 

          اپنے ملک میں مسلم دہشت گردی کا شوشہ این، ڈی، اے دورِ حکومت میں اس وقت چھوڑا گیا، جب اس حکومت کے گروپ آف منسٹرس نے اپنی ایک رپورٹ میں یہ دعویٰ کیا کہ ”اسلامی مدرسے دہشت گردی کی نرسری ہیں، دہشت گردی کے فکر وذہن کی نشوونما، انھیں مدرسوں سے ہوتی ہے، یہیں سے اس کو غذا فراہم کی جاتی ہے“ جبکہ واقعہ یہ ہے کہ مسلمان شرانگیزی، تخریب کاری اور دہشت گردی کا اسی طرح مخالف ہے؛ جتنا کہ کوئی امن پسند، انسانیت نواز ہوسکتا ہے؛ لیکن واقعات و شواہد سے یکسر آنکھیں بند کرکے اسی من گھڑت رپورٹ کو بنیاد بناکر، مدارس کے طلبہ وعلماء کی پکڑ دھکڑ کا سلسلہ شروع کردیاگیا، اور صورتِ حال ایسی دہشت خیز بنادی گئی کہ مدرسوں سے متعلق طلبہ وعلماء؛ بلکہ ٹوپی کرتہ پہننے والے باریش عام مسلمان بھی، اپنے آپ کو اپنے گھروں تک میں غیرمحفوظ خیال کرنے لگے، جس سے مسلمانوں میں اضطراب وبیچنی کا پیدا ہوجانا، ایک فطری امر تھا؛ بالآخر دھیرے دھیرے دلوں میں برپا اسی اضطراب نے صورتِ احتجاج اختیار کرلی، حالات کی سنگینی کی بنا پر چاہے کچھ زبانیں خاموش تھیں؛ لیکن واقعی صورتِ حال یہ تھی کہ ملک کا ہر مسلمان اس وقت سراپا احتجاج بنا ہوا تھا۔

یہ آگ سلگتی ہے جتنی، اتنا ہی دھواں کم دیتی ہے

احساسِ ستم بڑھ جاتا ہے تو شورِ فغاں کم ہوتا ہے

          اس موقع پر دارالعلوم دیوبند نے اپنے تاریخی قائدانہ کردار کا مظاہرہ کرتے ہوئے فرقہ پرستی اور انسان دشمنی کی کوکھ سے جنم لینے والی، اس زرد دہشت گردی کے خلاف ملک گیر پیمانہ پر ایک عظیم کانفرنس کی اور مسلکی فرق وامتیاز کو پس انداز کرتے ہوئے، ملتِ اسلامیہ کے ہر مکتبِ فکر کو کانفرنس میں شرکت کی دعوت دی؛ چنانچہ دارالعلوم دیوبند کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اسلامیانِ ہند کے ہر طبقہ کے نمایندے جوق در جوق اطرافِ ملک سے امنڈپڑے، اور بحمداللہ کانفرس حاضرین کی تعداد اور نتائج واثرات ہر اعتبار سے توقع سے زیادہ کامیاب ہوئی، کانفرس نے اپنے متفقہ اعلامیہ میں پوری قوتِ وضاحت کے ساتھ یہ اعلان کیا کہ مدارسِ اسلامیہ اور ان سے متعلق طلبہ وعلماء اور عام مسلمانوں پر دہشت گردی کا الزام فرقہ پرست ذہن کا محض افتراء ہے، جس کا صداقت وواقعیت سے کوئی واسطہ نہیں ہے، اور سرکاری اہل کاروں کی طرف سے مسلمانوں کی گرفتاری کا یہ غیر قانونی سلسلہ بجائے خود دہشت گردی ہے، جسے بند ہونا چاہیے۔

          ملک میں پھیلے ہوئے انصاف پسند برادرانِ وطن کی ایک بڑی جماعت اور میڈیا کے حق پرست طبقہ نے بھی کانفرنس کی تجاویز اور اعلامیہ کی تصویب وتائید کی، اور این، ڈی، اے حکومت کے اس فرقہ وارانہ غیرمنصفانہ رویہ کی کھلے لفظوں میں مذمت کرتے ہوئے، اسے جمہوری اَقدار کے منافی اور انسانی حقوق کی پامالی قرار دیا، حقیقتِ واقعہ یہی ہے کہ مدرسوں اور عام مسلمانوں کے سلسلہ میں دہشت گردی سے متعلق جو غلط فہمیاں پھیلائی گئیں، ان کو عملی اور حقیقی سطح پر آج تک نہیں ثابت کیا جاسکا ہے، حتیٰ کہ اس وقت کے وزیر داخلہ اور نائب وزیراعظم جو مسلمانوں کے احتجاج پر کہا کرتے تھے ”چلیے ہم مان لیتے ہیں کہ سارے مسلمان دہشت گرد نہیں؛ لیکن سارے دہشت گرد تو مسلمان ہی ہیں“ انھیں بھی راجیہ سبھا میں اس سچائی کا اعتراف کرنا پڑا کہ ”ہمیں کسی مدرسہ میں دہشت گردی سے جُڑا ہوا کوئی ثبوت یا فرد نہیں ملا“؛ لیکن فرقہ پرستی کا برا ہو کہ بھارتیہ جنتا پارٹی اپنے مہانیتا اور صفِ اوّل کے عظیم لیڈر کے اس سچائی کے اعلان کے بعد بھی مسلم دہشت گردی کا بے سرا راگ الاپے جارہی ہے۔

          اسے ایک ٹریجڈی اور المیہ ہی کہا جائے گا کہ فرقہ پرست پارٹیاں اور تنظیمیں مسلم دشمنی کا خاکہ تیار کرتی ہیں توجمہوریت اور سیکولرزم کا مالا جپنے والی کانگریس پارٹی اس میں رنگ بھرنے کی خدمت انجام دیتی ہے؛ چنانچہ این، ڈی، اے حکومت کے خاتمہ کے بعد جب مرکز میں کانگریس پارٹی کی زیرقیادت یو، پی، اے کی حکومت بنی تو کسی حد تک مدرسہ والوں کو بخش دیا گیا؛ لیکن ان کی بجائے جدید تعلیم یافتہ مسلم بچوں کو نشانہ بنانا شروع کردیاگیا، اور کانگریسی وزیر داخلہ نے تو اپنے عہدِ وزارت میں وہ سب کردکھایا جو این، ڈی، اے اپنی حکومت کے دوران نہیں کرسکی، خاص طور پر ٹیکنالوجی، ڈیفنس، میڈیکل ، انجینئرنگ وغیرہ میدانوں میں اپنی شناخت اور پچان بناچکے یا آگے بڑھ رہے نوجوانوں پر بغیر کسی معقول وجہ کے دہشت گردی کا الزام چسپاں کرکے گولیوں سے بھون دیاگیا، یا پھر انھیں نامعلوم مدت کے لیے جیلوں میں ٹھونس دیاگیا، اس وقت کتنے مسلم نوجوان جیلوں کی سلاخوں کے پیچھے کربناک زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، ان کی صحیح تعداد خداے عالم الغیب والشہادة کو معلوم ہے یا پھر سرکاری اہل کاروں کو جو اس مہم پر مامور ہیں۔ کیا ایک مہذب، انصاف پسند سیکولر جمہوری حکومت کا اندازِ حکمرانی یہی ہواکرتا ہے؟ اور اب تو حال یہ ہے کہ حقوقِ انسانی کی پامالی کی ساری حدیں پار کرکے جیلوں میں بند اور پولیس تحویل میں بھی نوجوانوں کے قتل کا سلسلہ شروع کردیاگیا ہے اور انصاف وقانون ان کے حق میں لفظِ بے معنی ہوکر رہ گئے ہیں۔

          ملک میں آباد ایک طرف یہ سب سے بڑی اقلیت ہے جس نے ملک کی عزت وعظمت، احترام ووقار، استحکام و ترقی اور خوشحالی ونیک نامی کے لیے کسی بھی قربانی سے کبھی دریغ نہیں کیا ہے، یہ ملک کے مفاد کو اپنا مفاد اور ملک کے نقصان کو اپنا نقصان باور کرتی ہے؛ اسی لیے اس نے کبھی سرکاری املاک تباہ و برباد نہیں کی، سرکاری دفاتر اور جیلوں میں آگ نہیں لگائی، سرکاری فورس اور پولیس کے افراد کا قتل نہیں کیا، پھر بھی قومی حکومتیں انھیں شک کی نگاہ سے دیکھتی ہیں اور ان کے اہلِ کار انھیں دہشت گرد بتا کر جیلوں میں ڈال دیتے ہیں۔

           دوسری طرف اسی ملک کے باشندہ اور شہری نکسلی ہیں، قتل وغارت گری جن کا شیوہ ہے سال کا کوئی مہینہ ایسا نہیں گزرتا جس میں ان کے ہاتھوں سرکاری اہلِ کار قتل نہ ہوتے ہوں، ابھی کل کی بات ہے کہ چھتیس گڑھ میں انھوں نے بے قصور تیس افراد کو قتل کردیا، جن میں اکثر کانگریس پارٹی کے کارکن اور لیڈر تھے، ملک کے اٹھارہ اضلاع پر ان کا جابرانہ قبضہ ہے، جہاں انھوں نے حکومتِ ہند کے متوازی اپنی حکومت قائم کررکھی ہے، جو کھلی بغاوت ہے، اس کے باوجود کوئی حکومت انھیں دہشت گرد کہنے اور ماننے کے لیے تیار نہیں؛ بلکہ ابھی ماضی قریب میں ایک کانگریسی مرکزی وزیر نے ان کے ساتھ ہم آہنگی جتاتے ہوئے، یہاں تک کہا کہ یہ تو اپنے لوگ ہیں، یہ ہے کانگریس کا من وتو کا فرق، صدر کانگریس کی بھیدبھاؤ سے پاک صاف امیج اور وزیر اعظم کی شرافت اور انصاف پروری، آخر کہاں سورہی ہے؟ کیا اسی کا نام جمہوریت ہے؟ کیا سیکولرزم یہی ہے؟ آخر ملک میں دستور وآئین اور انصاف وقانون کی حکومت اور بالادستی کب قائم ہوگی؟ اور مظلوموں کی داد رسی کون کرے گا؟

          حیرت تویہ ہے کہ مسلمانوں کی ہمدردی کا دعویٰ کرنے والی اترپردیش کی سماج وادی پارٹی کی حکومت بھی بھارتیہ جنتا پارٹی اور کانگریس پارٹی کے نقشِ قدم پر چل پڑی ہے، نہ جانے وہاں کے وزیراعلیٰ نے سماج وادی پارٹی کے بانی وصدر اپنے پتا کے طرزِ حکومت میں کیا کمی محسوس کی کہ اسے چھوڑ کر انھوں نے ایک دوسرا راستہ اختیار کرلیا، ہم ان سے سرِدست یہی کہیں گے:

تمہیں معلوم کیا گلشن کے سرد وگرم کا عالم

ابھی تو یہ بہارِ صبح گاہی تیرا بچپن ہے

          اور اس عمر میں اپنے بڑوں کی پیروی ہی باعثِ نیک نامی و ترقی ہوتی ہے۔ وعدوں کے کھلونوں سے پیروں تلے سے کھسکتی زمین کو تادیر روکانہیں جاسکتا ہے۔

***

-----------------------------------

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ 6 ‏، جلد: 97 ‏، شعبان 1434 ہجری مطابق جون 2013ء