حِلف الفُضول

(متحدہ قومیت کے پس منظر میں)

 

از: ڈاکٹر محمد عارف عمری

دارالعلوم عزیزیہ، میراروڈ (ممبئی)

 

          اس کارخانہٴ عالم میں انسانی آبادیاں جغرافیائی حدود اور قدرتی تقسیم کی بنا پر نہ صرف اپنے ظاہری خدوخال، جسمانی ساخت، وضع قطع اور طرزِ معاشرت میں علیحدہ علیحدہ شناخت رکھتی ہیں؛ بلکہ وہ اپنے عقلی و فکری میلانات ، عادات و اطوار اور جبلت وخصائل کے لحاظ سے بھی الگ پہچان رکھتی ہیں۔ غالباً اسی سبب سے قرآن مجید میں سابقہ امتوں کے جرائم ومعاصی حدود مکانی کے اعتبار سے علیحدہ علیحدہ نوعیت کے بیان کیے گئے ہیں۔ قوم عاد کا جبروقہر ، ثمود کی ماہرانہ سنگ تراشی پر تعلّی، اہلِ سَدوم کا اخلاقی زوال اور اہلِ مَدْیَنْ کا معاملاتی بگاڑ وفساد؛ اس بات کا ثبوت فراہم کرتا ہے کہ الگ الگ خطوں اور علاقوں کے رہنے والوں کا علیحدہ علیحدہ مزاج اور طبیعت ہوا کرتی ہے، جو وہاں کے باشندوں میں قدر مشترک کا درجہ رکھتی ہے۔

          اسی طرح ملک عرب کی عام اخلاقی ذہنیت لوٹ مار، قتل و غارت گری اور قبائلی عصبیت سے عبارت تھی، وہاں کے رہنے والے غلط یا صحیح ہر معاملہ میں اپنے قبیلہ و خاندان کی حمایت و نصرت اور اس کے لیے اپنی پوری قوت صرف کرنے کو اعلیٰ اخلاقی قدر سمجھتے تھے۔ ایسے ماحول میں سیرت نبوی کے قبل از بعثت مکی دور کا ایک اہم واقعہ حلف الفضول کا قیام اور اس اتحاد میں آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بنفس نفیس شرکت کا ہے، عام طور پر سیرت نگاروں نے اس مہتم بالشان اتحاد کا ذکر سرسری طور پر کیا ہے؛ حالاں کہ یہ معاہدہ ملک عرب بالخصوص مکہ مکرمہ کے اس دور کی روایتی معاشرتی زندگی میں انقلاب کا نقطئہ آغاز تھا۔

          حلف الفضول سے چند ماہ پیشتر حرب فجار کا واقعہ پیش آیا، یہ معرکہ عربوں کی روایتی عصبیت کا مظہر تھا، آں حضور صلّی اللہ علیہ وسلم کو بھی خاندانی مروت اور صلہ رحمی کے جذبہ کی بنا پر اس جنگ میں شریک ہونا پڑا، سیرت نگاروں کی تصریح کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چچاوٴں کے اصرار پر اس جنگ میں حصہ لیا اور صرف اس قدر کہ آپ نے اپنے چچاوٴں کا محض دفاع کیا۔ اسی دور میں آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک چچا زبیربن عبد المطلب اور بعض دوسرے سرداروں نے مروجہ قبائلی تعصب سے علاحدہ ہوکر مظلوموں کی حمایت ونصرت کے عنوان سے مکہ مکرمہ کے باشندوں کا ایک اتحاد ی فورم بنایا تو آپ نے نہایت بشاشت کے ساتھ اس اتحاد میں شمولیت اختیار کی اور اسی کو ”حلف الفضول“ کے نام سے جانا جاتا ہے۔

          کتب سیرت میں ”حلف الفضول“ کے یہ نام رکھے جانے کے متعدد اسباب مذکور ہیں، اور سب کا حاصل یہی ہے کہ حدود مکہ میں قبائلی عصبیت سے پرے ہوکرمظلوموں کی حمایت ونصرت کا یہ ایک نیا اور انوکھا اتحاد تھا، جس سے عرب کے لوگ مانوس نہ تھے، غالباً یہی وجہ ہے کہ حلف الفضول کے وجہ تسمیہ کا ایک محرک یہ بھی بتایا گیا ہے کہ قریش نے نامانوسیت کی بناء پر اس قسم کے اتحاد و معاہدہ کو فضول اور بے فائدہ کام سمجھا اورا سی سے یہ نام چل پڑا ۔ (۱)

          مذہب اسلام کی نشر واشاعت اور اس کے عادلانہ نظام حکومت کے قیام کے بعد بظاہر حلف الفضول جیسے کسی اتحاد کی کوئی معنویت باقی نہیں رہتی ہے؛ لیکن یہ امر قابل غور ہے کہ آں حضور صلّی اللہ علیہ وسلم نے دعوتِ اسلام کے زمانہ میں نہ صرف یہ کہ اس معاہدہ کا تذکرہ فرمایا ہے؛ بلکہ اس عنوان کی دعوت پر حاضری کا اشتیاق بھی ظاہر فرمایا ہے، امام حمیدی نے اس سلسلہ میں یہ روایت نقل کی ہے کہ آپ نے فرمایا کہ میں عبدللہ بن جدعان کے گھر میں منعقد ہونے والے معاہدہ میں شریک تھا، اگر زمانہٴ اسلام میں بھی مجھ کو اس کا واسطہ دے کر بلایا جائے تو میں ضرور حاضر ہوں گا۔ مکہ کے لوگوں نے لُٹے پٹے لوگوں کو ان کا چھینا ہوا مال واپس دلانے کی لیے یہ معاہدہ کیا اور یہ مقصد بھی تھا کہ کوئی ظالم کسی کو مظلوم نہ گردانے(۲)۔

          کتب سیرت میں وارد بعض روایتوں میں یہ تصریح بھی موجود ہے کہ آپ نے فرمایا کہ اس اتحاد کے عوض مجھ کو سرخ اونٹ لینا منظور نہیں، بعض روایتوں سے یہ بھی پتہ چلتا ہے ابتدائے اسلام میں حق و انصاف کی دہائی کے لیے حلف الفضول کی اصطلاح استعمال کی جاتی تھی؛ چنانچہ حضرت حسین نے ایک موقع پر امیر مدینہ ولید بن عتبہ کے ساتھ اپنے ایک قضیہ میں ان الفاظ سے عوامی مدد طلب کی :

”تم میرے ساتھ حق و انصاف کا معاملہ کرو ورنہ میں اپنی تلوار لوں گا اور مسجدِ رسول میں کھڑے ہوکر حلف الفضول کی دہائی دوں گا“۔

          اس وقت کے ماحول میں حلف الفضول کی اصطلاح کا ایسا اثر تھا کہ حضرت عبداللہ بن زبیر ، حضرت مسعودبن مخرمہ اور حضرت عبدالرحمن بن عثمان اس لفظ کو سنتے ہی حضرت حسین کی حمایت ونصرت کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے، حضرت عبداللہ بن زبیر نے حضرت حسین کی تائید میں جو جملے کہے اس سے بھی حلف الفضول کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے، انہوں نے فرمایا:

”اور میں بھی قسم کھاتا ہوں کہ اگر انہوں نے ”حلف الفضول“ کا واسطہ دیا تو میں بھی اپنی تلوار اٹھاوٴں گا اور ان کا ساتھ دوں گا، یا تو ان کا حق ملے گا یا ہم دونوں مرجائیں گے“(۳)۔

          اس تفصیل سے بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ مشرکین مکہ کے ذریعہ قائم کیے گئے اس وطنی اتحاد و معاہدہ سے ابتدائے اسلام کے مسلمان خوف زدہ نہیں تھے، جاہلی عصبیت پر مبنی ”قومیت“ بلاشبہ مذہب کا کفن ہے؛ لیکن عوامی فلاح و بہبود کے جذبہ سے اپنے ہم وطنوں کو متحد کرنا یا اس اتحاد میں شامل ہونا محمد عربی  صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ ہے، اس حقیقت سے باخبر ہونے کے لیے حلف الفضول کا مطالعہ نہایت اہمیت کا حامل ہے اور اسی حقیقت کا دوسرا نام ”متحدہ قومیت “ ہے۔

          نیشنل ازم کا وہ مغربی تصور جس کے مطابق محض رنگ و نسل اور قبیلہ و وطن کی بنیاد پر تفوق و امتیاز اور نصرت و تائید کا مزاج و ماحول بنتا ہے ”متحدہ قومیت “کی تعریف سے یکسر جد اہے۔ متحدہ قومیت کا مظہر حلف الفضول ہے اور جاہلی عصبیت پر مبنی نیشنل ازم کی عکاسی حرب فجار سے ہوتی ہے اور اس تفریق کو پیش نظر رکھنا عین انصاف کا تقاضا ہے ۔ قبل نبوت آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنے ہم وطنوں کے ہاتھوں قائم کی گئی مشترکہ جمعیت میں شمولیت اختیار کرنا اور زمانہٴ اسلام میں اس اجتماعی کاوش کو نہ صرف خراجِ تحسین پیش کرنا؛ بلکہ اس کی دعوت پر حاضری کا اشتیاق ظاہر فرمانا اور اس کو ایک اہم قومی خدمت کا درجہ دینا، نیزجماعت صحابہ میں عہدِ جاہلی کی اس اصطلاح کا اپنے مفہوم و منشاء کے مطابق رائج رہنا، کیا اس امر کی واضح دلیل نہیں ہے کہ واقعہ ٴ حلف الفضول ہی ”متحدہ قومیت “ کا سنگِ اساس ہے اور اس کو محض وطن و علاقہ کے دائرہ میں محدود ہونے کی بنا ء پر محمد عربی  صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے دینِ متین کا مد مقابل نہیں کہا جاسکتا ہے ۔ اور نہ ہی یہ اس کے فکری و عملی غلبہ میں سدِّ راہ بنتا ہے؛ بلکہ اگر وسعتِ قلب و نظر سے دیکھا جائے تو ہر ملک اور ہر خطہ کے باشندوں میں خواہ وہ عربی ہوں یا عجمی برادران وطن کو اسلام کی حقانیت سے روشناس کرانے کا یہ ایک اہم وسیلہ بھی ہے۔

          اصل مقصود کے اعلیٰ اور پاکیزہ ہونے کی صورت میں قوم و وطن کی محدودیت اور اسلام کی عالمگیریت دو مدِمقابل کی راہیں نہیں ہوتی ہیں؛ بلکہ یہ غزوہٴ حنین کے موقع پر جس میں اہلِ ایمان کے ساتھ مشرکین مکہ کی بھی ایک تعداد موجود تھی، زبانِ رسالت سے ادا ہونے والے اس فقرہ کی ترجمانی کرتی ہیں۔

          أَنَا النَّبِيُّ لاَ کَذِبْ، أنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبْ(۴)

ترجمہ: میں نبی ہوں ، اس میں کوئی جھوٹ نہیں ہے، میں عبدالمطلب کا سپوت ہوں!

          اس ارشادِ رسول  صلی اللہ علیہ وسلم میں نبیِ صادق ہونے کا اعلان اور خاندانی نسبت کا اظہار بظاہر دومتضاد جہتیں ہیں اور اس کی تطبیق متحدہ قومیت کی معنویت کے اعتراف ہی میں مضمر ہے۔

***

حواشی:

(۱) تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: مولانا محمد اسلم قاسمی، سیرتِ حلبیہ (اردو ترجمہ) جلد اول، ص ۴۱۳۔۴۱۵، مکتبہ قاسمی بدون تاریخ

(۲) علامہ ابن کثیر، البدایة والنھایة، جلد دوم ص ۲۸۹، دارالمنار، ۲۰۰۱ء

(۳) ایضاً، ص ۲۹۱۔

(۴) امام محمد ابن اسماعیل البخاری ، الجامع الصحیح جلد ۲ ص ۶۱۷،مطبع اصح المطابع دہلی۔

***

------------------------------------

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ 6 ‏، جلد: 97 ‏، شعبان 1434 ہجری مطابق جون 2013ء