تعارف و تبصرہ

 

 

 

نام کتاب             :           تذکرہ علماءِ اعظم گڈھ

          تالیف                :           حضرت مولانا حبیب الرحمن اعظمی زِیْدَمجدُہ

                                         ایڈیٹر: ماہ نامہ دارالعلوم و استاذ حدیث دارالعلوم دیوبند

          صفحات               :           ۶۰۴

          قیمت                 :           (درج نہیں)

          اشاعت دوم        :         ۱۴۳۳ھ= ۲۰۱۲ء

          ناشر                  :         مرکز دعوت وتحقیق دیوبند

          تبصرہ نگار              :         اشتیاق احمد قاسمی

----------------------------

          ”تذکرہ“ میں اختصار کے ساتھ کسی شخصیت کے بارے میں بنیادی معلومات درج کی جاتی ہیں، جس کے ذریعہ شخصیت کا ایک خاکہ قاری کے سامنے آجاتا ہے، پھر اسے ”حروف تہجی“ کی ترتیب پرجمع کیا جاتا ہے، اردو زبان کے اولین تذکرہ ہونے کا شرف ”نِکاتُ الشعراء“ کو حاصل ہے، جس میں میر نے شعراء کے حالات قلمبند کیے ہیں، اردو ادب کی غیر افسانوی اصناف میں ”تذکرہ“ کی بڑی اہمیت ہے، اس کے ذریعہ اسلاف کی شخصیت اور ان کے کارنامے محفوظ ہوجاتے ہیں، عربی زبان میں اس کی کمی نہیں ”اَعلام“ پر ڈھیر ساری کتابیں موجود ہیں، اردو زبان میں جہاں شعراء اور ادباء کے تذکرے ملتے ہیں، وہیں علماء کے تذکرے بھی بے شمار ہیں۔

          حضرت الاستاذ مولانا حبیب الرحمن اعظمی زیدمجدہ استاذ حدیث دارالعلوم دیوبند نے ”حاکم نیشاپوری“ کی طرح خاص اپنے خطہ کے ان علمائے کرام کے تذکرے نہایت ہی خوبی سے جمع کیے ہیں، جن کی وفات ہوچکی ہے، ان کے سلسلے میں معلومات دست یاب ہوسکی ہیں۔

          ایک نومسلم راجہ کے فرزند ارجمند اعظم خاں نے اپنے نام پر شہر اعظم گڑھ کی بنیاد رکھی، آبادی سے پہلے وہاں جنگل تھا، جہاں سادھو، سنت شرکیہ ریاضات کیا کرتے تھے، سید سالار مسعود غازی علوی نے سب سے پہلے اس علاقے میں توحید کا ڈنکا بجایا، تب سے آج تک وہاں دین اور علمائے دین باقی ہیں، مختلف علوم وفنون میں مہارت رکھنے والے مشاہیر سپوتوں نے وہاں جنم لیا، ایک سے ایک قابلِ رشک علمی شخصیات نے وہاں قابلِ فخر وابتہاج خدمات انجام دی ہیں، تذکرہ کو پڑھ کر اندازہ ہوا کہ وہاں ”حافظِ حدیث“ علماء بھی تھے، اس تذکرہ کا پہلا ایڈیشن جب حضرت مولانا حبیب الرحمن ابوالمآثر اعظمی کے پاس پہنچا تو وہ بے انتہا خوش ہوئے اور تحریر فرمایا کہ یہ ہم سب پر فرض تھا جو آپ نے ادا فرمایا ہے، اس سے پہلے انھوں نے بھی اس موضوع پر کام کرنا شروع کیا تھا اور مسودہ گم ہوگیا، اس مجموعہ کو دیکھنے کے بعد فرمایاکہ اب مجھے اپنی کاوش کے گم ہوجانے پر قطعاً افسوس نہیں۔ حضرت الاستاذ زیدمجدہ کو اللہ رب العزت نے تاریخ کے فن سے خصوصی دل چسپی عطا فرمائی ہے، اس کی دلیل یہ مجموعہ ہے،اس کے پہلے ایڈیشن کی طباعت کے بعد دسیوں عربی اردو رسائل ومجلات میں نہایت عمدہ تبصرے چھپے اور ہند وبیرونِ ہند کی علمی شخصیات نے مصنف کو مبارک باد دی، اور آپ کے اس عظیم کارنامے کو سراہا، اور کیوں نہ ہو جب کام پورے اخلاص اور محنت سے کیا جائے تو اُسے ضرور قبولیت حاصل ہوتی ہے، اس مجموعہ کے تیار کرنے میں محنت کتنی کرنی پڑی ہے،اس کا اندازہ وہی شخص کرسکتا ہے جس نے کبھی اس موضوع پر کام کیا ہو، پوری کتاب کے پڑھنے اور حوالہ جات دیکھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس کے لیے مصنف زیدمجدہ نے تھکادینے والی درج ذیل محنتیں کی ہیں:

          (الف) اہلِ علم کی سوانح، تذکرے اور خاکوں پر لکھی گئی، اردو، عربی اور فارسی کتابوں کا مطالعہ کیا ہے۔

          (ب)    مختلف شخصیات کے سلسلے میں معلومات فراہم کرنے کے لیے مختلف مقامات کا سفر کیا ہے۔

          (ج)     اہلِ علم کے مزارات کی خاک چھانی ہے۔

          (د)      مختلف مقامات میں موجود کتبات سے بھی مواد فراہم کیا ہے۔

          (ھ)     مختلف ادارتی کتب خانوں اور شخصی لائبریریوں میں موجود قلمی مخطوطوں سے استفادہ کیا ہے۔

          (و)      معلومات کو قابلِ اعتماد بنانے کے لیے ثقہ اور معتبر شخصیات سے ملاقاتیں کی ہیں۔

          موٴرخین نے لکھا ہے کہ سرسید علیہ الرحمة نے بھی دہلی میں گھوم گھوم کر آثار کا معائنہ کرکے، کتبات پڑھ کر نہایت ہی عرق ریزی سے مواد فراہم کیا اور ”آثار الصنادید“ تصنیف فرمائی، جو ایک قابلِ اعتماد تاریخی دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے، حضرت الاستاذ زیدمجدہ نے بھی اسی طرح کی محنت شاقہ برداشت کی ہے، علمائے اعظم گڑھ کے تذکرے پر جتنے بھی مقالات، رسالے، کتابچے اب تک لکھے گئے ہیں، اس مجموعہ میں سب کا عطر کشید کرلیاگیا ہے۔

          تذکرہ کا یہ دوسرا ایڈیشن چھتیس سال بعد اضافے اور نظر ثانی کے بعد منظر عام پر آیاہے،اس میں ساٹھ سے زائد علمائے کرام کے تذکرے کا اضافہ ہے، اب اس میں کل دو سو پینتالیس علمائے اعظم گڈھ کے تذکرے ہیں اور حواشی میں نواسی اہلِ علم ودانش کا تذکرہ شاملِ اشاعت ہے۔ کتابت، طباعت، کاغذ اور ٹائٹل سب عمدہ اور دیدہ زیب ہیں۔

          تبصرہ نگار کے محدود علم میں علمائے اعظم گڑھ کے تذکرہ پر اس سے جامع دوسری کتاب نہیں ہے،اس کی مندرج معلومات نہایت ہی مستند اور حوالہ جات تحقیقی ہیں، زبان وبیان کے اعتبار سے بھی نہایت ہی سادہ اور شستہ ہے، تاریخ کا موضوع خشک مانا جاتا ہے؛ مگر مصنف زیدمجدہ نے ایسا انداز اختیار کیا ہے کہ قاری کو کہیں بھی اکتاہٹ محسوس نہیں ہوتی، اللہ تعالیٰ اسے قبول فرمائیں اور مصنف کو صحت وعافیت کے ساتھ رکھیں اور مزید درمزید خدمات کی توفیق بخشیں! وباللہ التوفیق۔

***

----------------------------

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ 6 ‏، جلد: 97 ‏، شعبان 1434 ہجری مطابق جون 2013ء