مسائل کلامیہ کے باب میں مصنَّفاتِ امامِ نانوتویاستفادہ کا منہاج  (۱)

 

 

از: فخرالاسلام مظاہری علیگ‏، ایم․ ڈی میڈیسن،

پروفیسر احمد غریب یونانی میڈیکل کالج اکل کوا

 

حضرت شیخ الہند کی تحریر فرمودہ یہ عبارت ہے کہ ”خدامِ عالیہ مدرسہ دیوبند نے تو یہ تہیہ بنامِ خدا کرلیا ہے کہ تالیفاتِ موصوفہ (یعنی تصنیفاتِ امامِ نانوتوی-ف) ․․․․ کسی قدر توضیح وتسہیل کے ساتھ عمدہ چھاپ کر اور نصابِ تعلیم میں داخل کرکے، اِن کی ترویج میں اگر حق تعالیٰ توفیق دے، تو جان توڑکر ہرطرح کی سعی کی جائے اور اللہ کا فضل حامی ہو، تو وہ نفع جو اُن (حامیانِ اسلام-ف) کے ذہن میں ہے (امام قاسم نانوتوی کی تصنیفات کے ذریعہ-ف) اوروں کو بھی، اس کے جمال سے کامیاب کیا جائے۔“ اِس کی روشنی میں اپنی بعض معروضات پیش کرنے کی جسارت کررہا ہوں۔

          شیخ الہند اکیڈمی سے امامِ قاسم نانوتوی رحمة اللہ علیہ کی چند کتابیں شائع ہوئی ہیں، وہ حضرت شیخ الہند کے خواب کی تعبیر اور حضرت کے عزم کی جانب پیش رفت معلوم ہوتی ہے، جیسا کہ شائع شدہ کتاب کے حرفِ آغاز میں اس عزم کا اظہار اِن الفاظ میں کیاگیا ہے کہ اکیڈمی نے مولانا نانوتوی کی ”کتابوں کو بھی شائع کرنے اور ان سے استفادہ کو سہل بنانے کے خیال سے صاف ستھرے انداز میں طبع کرانے کا عزم کیا ہے“ پھر ”حرفِ آغاز“ ہی میں یہ بھی لکھا ہے کہ ”آج کے زمانہ کا اسلوبِ تحریر ایک صدی قبل کے اسلوبِ تحریر سے مختلف ہے․․․ اسی لیے پرانی کتابوں کو پڑھتے ہوئے لوگ گھبراتے ہیں، اس پریشانی اور مشکل صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے اکیڈمی نے پیراگراف کا خیال رکھنے، کومے اور فل اسٹوپ وغیرہ لگانے کا التزام کیا ہے، نیز بعض وہ الفاظ جو اُس دور میں مستعمل تھے اور آج متروک ہیں، یا بہت مشکل معلوم ہوتے ہیں جن کے معنی سمجھ میں نہیں آتے، ان الفاظ کو باقی رکھتے ہوئے، ان کے ہم معنی عام فہم الفاظ بریکٹ میں لکھ دیے گئے ہیں، اس سے یقینا قارئین کو فائدہ ہوگا۔ علاوہ ازیں ضرورت کے مطابق یعنی مضمون کو قریب فہم کرنے کے لیے ذیلی سرخیال بھی لگادی گئی ہیں اور جہاں کہیں ضروری بات لکھنی پڑی، اسے حاشیہ پر لکھ دیاگیا ہے۔“

          نیز یہ کہ ”مولانا بدرالدین صاحب ڈائرکٹر شیخ الہند اکیڈمی․․․ کو اپنے اکابر سے اور ان کے علوم وفنون سے کتنا تعلق ہے، وہ ان کو نہ صرف محفوظ ہی رکھنا چاہتے ہیں؛ بلکہ فروغ دینے کے بھی آرزومند ہیں۔“ (مجموعہ ہفت رسائل ص۱۹،۲۰)

          ظاہر ہے کہ یہ بات بہت عمدہ اور لائقِ صد آفریں ہے جس کے لیے نہ صرف مولانا بدرالدین اجمل قاسمی صاحب؛ بلکہ جملہ اراکینِ شوریٰ دارالعلوم دیوبند، بھی شکریے اور سپاس گزاری کے مستحق ہیں، جن کی تائید واجازت سے ”وقت کے تقاضہ کو پورا کرنے والا“ تصنیفات کا مجموعہ شائع ہوا۔ نیز سطور بالا میں اکابر کے علوم وفنون کی حفاظت اور انھیں فروغ دینے، کی جو بات کہی گئی ہے وہ بھی نہایت اہم ہے؛ کیوں کہ ان تصانیف سے استفادہ کرنے والا اس بات کو سمجھتا ہے کہ اِن کے الفاظ کی حفاظت، الفاظ کے ساتھ معانی کی حفاظت اور معانی کے ساتھ فکر کی حفاظت کس قدر ضروری ہے؟

          اس اِجمال کی تفصیل یہ ہے کہ جب ہم یہ سمجھے ہوئے ہیں کہ تمام ادیان وملل میں سے نجات، اسلام میں منحصر ہے اور اسلام کے نام پر بھی مختلف فرقوں میں سے ناجی فرقہ وہ ہے جو ”ما انا علیہ واصحابی“ کا مصداق ہو، چنانچہ اِس کے مصداق، ابتداء ہی سے، وہ اہلِ حق رہے ہیں جو صحابہ اور سلف کے طریقہ پر قائم رہے۔ پھر اسلاف کے بعد اخلاف میں یہی سلسلہ چلتا رہا۔ بعد کی صدیوں میں، جب ہم ہندوستان کے حالات میں غور کرتے ہیں، تو حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی، شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی، شاہ اسمٰعیل شہید دہلوی اور حضرت سیداحمد شہید بریلوی وغیرہم کی جماعت اہلِ حق کی ترجمان کے طور پر نظر آتی ہے۔ پھر اِس جماعت کے بعد دین کے صحیح فکر ومسلک کی حفاظت کے لیے اکابردیوبند کے محیرالعقول کارنامے ہیں اور واقعہ یہ ہے کہ صرف کارنامے نہیں ہیں؛ بلکہ عقل ان کے کارناموں سے، ایسی دنگ اور حیران ہے کہ اِس دورِ مفتون میں اِس سے زیادہ کا تصور، جی ہاں مملکت تصور کی تمام تر وسعتوں کے باوجود، اس سے زیادہ کے تصور کی، عقل متحمل نہیں۔

          ہندوستان بھر میں اِن اکابر دیوبند کا امتیاز یہ ہے کہ اِن کے پیش نظر سوائے دین کے اور کچھ نہیں تھا۔ یہی وجہ ہے کہ پچھلے ڈیڑھ سو سال سے زائد عرصہ سے اہلِ حق کی ترجمان، یہی جماعت رہی ہے اور حکیم الامت مولانا تھانوی کے الفاظ میں ”حق کچھ ہمارے حضرات ہی میں منحصر سا معلوم ہوتا ہے۔“ (ملفوظات جلد ۱۲ ص۱۸۰) اس سے معلوم ہوا کہ اہلِ حق کی فکر کی صحیح ترین تعبیر ”فکرِ دیوبند“ ہے۔

          اب فکرِ دیوبند کے مصداق پر بھی نظر کرنا چاہیے۔ جب اِس حیثیت سے غور کیا، تو معلوم ہوا کہ فکرِ دیوبند اصلاً منسوب ہے حجة اللہ فی الارض حضرت امامِ محمد قاسم نانوتوی اور قطب الارشاد امامِ ربانی حضرت رشید احمد گنگوہی سے۔ اور جیساکہ معلوم ہے کہ یہ دونوں حضرات، علوم ومعارف، حقائق و بصائر اور رشد واہتدائے ربانی کے امام حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی کے منتسبین میں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حاجی امداد اللہ مہاجرمکی کا، حضرات اکابر دیوبند کی نظر میں جو مرتبہ ومقام ہے، وہ نہایت اعلیٰ وارفع ہے، جس کا ندازہ ذیل کے اقتباسات سے ہوسکتا ہے، حکیم الامت مولانا تھانوی فرماتے ہیں:

          ”حضرت حاجی صاحب نے صرف کافیہ تک پڑھا تھا اور ہم نے اتنا پڑھا ہے کہ ایک اور کافیہ لکھ دیں؛ مگر حضرت کے علوم ایسے تھے کہ آپ کے سامنے علماء کی کوئی حقیقت نہ تھی۔“(۱) یعنی علماء خود اپنے کو کچھ نہ سمجھتے تھے؛ لیکن فی الواقع وہ علماء کیسے تھے، اس کا اندازہ اس سے کیجیے کہ ”حضرت حاجی صاحب سے ایسے بڑے بڑے علماء مستفید ہوئے کہ اگر وہ علماء اپنے وقت میں اجتہاد کا دعویٰ کرتے تو چل جاتا اور وہ اس کو نباہ بھی دیتے“۔(۲) اور اِن بڑے بڑے علماء میں حضرت امامِ محمد قاسم نانوتوی اور قطب الارشاد حضرت رشید احمد گنگوہی جیسے سرخیل علماء شامل تھے۔ پھر امامِ محمد قاسم نانوتوی تو ”یوں فرماتے تھے کہ حضرت حاجی صاحب کا کوئی تقویٰ کی وجہ سے معتقد ہے، کوئی کرامت کی وجہ سے، میں حضرت کے علم کی وجہ سے معتقد ہوں۔“(۳) ایک اور جگہ حضرت حاجی صاحب کے علوم ومعارف کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد ہے ”حضرت (حاجی صاحب) کی تحقیقات کو دیکھ لیجیے کہ بڑے بڑے متبحرعلماء اور فضل وکمال رکھنے والے، حضرت کی تحقیق کے وقت انگشت بدنداں ہوجاتے تھے اور اُس وقت حضرت کی یہ شان معلوم ہوتی تھی۔

بینی اندر خود علومِ انبیاء         بے کتاب وبے معید واوستاد“(۴)

          مزید فرماتے ہیں کہ: ”حضرت حاجی صاحب فلسفی نہ تھے؛ مگر آپ کے کلام کو فلسفی سمجھ بھی نہیں سکتے․․․ ایک چھوٹی سی تحریر، رسالہ وحدة الوجود، اب موجود ہے کہ فلسفی سرپٹخ کر مرجاویں، تو اس جیسی تحقیق کرنا تو درکنار، اس کو سمجھ بھی نہیں سکیں گے۔“(۵)

          امام قاسم نانوتوی کی تصنیف آبِ حیات کے متعلق مولانا سید مناظراحسن گیلانی نے یہ صراحت کی ہے کہ ”سیدنا الامام الکبیر کی تمام کتابوں میں سب سے زیادہ ادق اور حد سے زیادہ عمیق لطائف وحقائق پر مشتمل ہے“ لیکن اِس کتاب کو، حضرت حاجی صاحب کی خدمت میں حضرت امام نانوتوی جس غرض سے لے کر گئے، اس کا حال خود حضرت نانوتوی سے سنیے، فرماتے ہیں:

          ”بامید ہائے چند درچند، ایک بار حضرت پیر ومرشد ادام اللہ فیوضہ کے گوش گزار کردینا یا ملاحظہ سے گزاردینا ضروری سمجھا۔“

          جب کتاب حضرت حاجی صاحب کو سنادی گئی، اس کے بعد حضرت نانوتوی ارشاد فرماتے ہیں ”اپنی کم مائیگی اور ہیچ مدانی کے سبب جو تحریر مذکور، کی صحت میں تردد تھا، رفع ہوگیا․․․ پھر کوئی یہ سمجھے اور متعجب ہو کہ قاسم نادان کی تحقیق اورتنقیح اور ایسی مستحسن وصحیح

ع       زبان گنگ وچنیں نغمہ خوش آئندہ

          میں کہاں اور یہ مضامین عالی کہاں، یہ سب اسی شمس العارفین (حاجی صاحب قبلہ) کی نور افشانی ہے۔ یہاں بھی مثل زبان دوست وقلم، واسطہ ظہور مضامین مکنونہ دل عرش منزل ہوں․․․․ جب زبانِ فیض ترجمان سے آفرین وتحسین سن لی، تو اصل مضامین کی حقیقت تو اپنے نزدیک محقق ہوگئی۔“(۶)

          یہ ہے مقام ومرتبہ حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی کا،حضرات اکابر دیوبند کی نظر میں۔ اِس طرح حضرت حاجی صاحب تو سب کی اساس ہیں۔ اُن کے بعد حجة الاسلام حضرت امامِ قاسم نانوتوی اور قطب الارشاد امامِ ربانی حضرت رشید احمد گنگوہی ہیں اور دراصل یہی دونوں حضرات گویا اِس فکر دیوبند کے متن کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اِن کے بعد اِس فکر کی تتمیم وتکمیل چار اماموں سے ہوتی ہے اور وہ ائمہ اربعہ یہ ہیں: مولانا محمد یعقوب نانوتوی، شیخ الہند مولانا محمودحسن دیوبندی، مولانا خلیل احمد سہارنپوری اور حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی۔

          اس طرح یہی ”سبعہ سیارہ“ ہیں جن کی طرف فکر دیوبند منسوب ہے۔ اور یہ ایسے حضرات ہیں جن کی نسبت عموماً اور حضرت نانوتوی وحضرت گنگوہی کے متعلق خصوصاً حکیم الامت مولانا تھانوی فرماتے ہیں کہ: ہمارے اکابر کے ملفوظات وتحقیقات دیکھ لو، معلوم ہوجائے گا کہ اِس زمانے میں بھی رازی اور غزالی موجود ہیں․․․ فرق صرف یہ ہے کہ اُن کا (رازی وغزالی کا-ف) زمانہ اِس قدر فتن اور شرور کا نہ تھا، جیساکہ اب ہے۔ یہ سب اِن حضرات کی تصنیفات اور تحقیقات دیکھنے سے معلوم ہوسکتا ہے؛ مگر ان کو دیکھتا کون ہے؛ کیونکہ مذاق ہی بگڑ گیا ہے۔“(۷) ”مخالفین تو ہمارے حضرات کو کیا پہچانتے، جو معتقدین اور موافقین ہیں، انھوں نے بھی اِن حضرات کو جیسا کہ حق ہے نہیں پہچانا۔“(۸)

          فکردیوبند کی اِس فہم کے بعد ہماری نظر اِس پر جاتی ہے کہ مولانا بدرالدین اجمل قاسمی صاحب مدظلہ نے ایک بات تصانیف نانوتوی کے حوالے سے ”وقت کے تقاضہ کو پورا“ کرنے کی، بھی فرمائی ہے اور یہ بات نہایت اہم ہے؛ کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ اِس آخری دور میں ضرورت اسی کی ہے کہ ایک طرف تو حالاتِ حاضرہ علومِ جدیدہ اور سائنسی مزاج ورجحان کے زیراثر پیدا ہونے والے شبہات پر امام الاصول مولانا محمدقاسم نانوتوی کے اصولوں کا اِطلاق وانطباق بالدلائل دکھلادیا جائے، گویا خارجی حملوں سے اسلام کی حفاظت کی ایک فصیل قائم کردی جائے اور دوسری طرف امام الفروع مولانا رشید احمد گنگوہی کی تنظیم واِنصرام اور نظم ونسق سے اسلام کی داخلی بناؤں کا انتظام اور رکاوٹوں سے حفاظت کا اہتمام بتمامہ وکمالہ ہو۔ پھر اسلام کے اِن دونوں اماموں کی مذکورہ دونوں حیثیتوں کے بہترین شارح یعنی جامع الاصول والفروع حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی کی تحقیقات منصہ شہود پر لاکر، ان کے فوائد کو عام وتام کردیا جائے۔

          لیکن اِس وقت ہماری گفتگو علم کلام کے باب میں ہے؛ لہٰذا اِس نقطئہ نظر سے ایک بات تو یہ عرض ہے کہ مجموعہٴ ہفت رسائل میں سے چار رسائل جو مذکورہ موضوع علم کلام جدید سے تعلق رکھتے ہیں، اُن کو الگ سے شائع کردیا جائے۔ یعنی (۱) ”قبلہ نما“ (۲) ”جواب ترکی بہ ترکی“ (۳) ”مذہبی گفتگو“ (۴) ”تحفہٴ لحمیہ“۔ پھر اس کے ساتھ ”حجة الاسلام“، ”انتصار الاسلام“، ”تقریر دل پذیر“ کے بعض اجزاء اور ”آب حیات“ جس میں علاوہ اُس خاص مسئلہ کے جو اِس رسالہ کا خاص موضوع ہے، جن بے شمار اسرار ونکات سے پردہ اُٹھایاگیا ہے، اُن میں سے بعض کا ماحصل بھی (اگر ہوسکے)، جب یہ بھی شامل ہوجائیں گے، تو بیرونی حملوں سے اسلام کی حفاظت کا قلعہ مضبوط ومستحکم ہوجائے گا۔ اور بہت زیادہ مشکل یہ، یوں نہیں ہے کہ متعدد جگہوں پر سابق مضمونوں کی یادوسری کتابوں کی تفسیر یا تسہیل حضرت نانوتوی کے قلم سے خود ہی موجود ہے۔ اس کے بعد اندرونی دشمنوں سے یعنی مسلمان اہل زیغ، نیم ملحدوں اور فطرت پرستوں کے لیے امام قاسم نانوتوی کی کتاب ”تصفیة العقائد“ اور حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی کی کتاب ”الانتباہات المفیدہ عن الاشتباہات الجدیدہ“ بالکل کافی ہیں۔ اول الذکر کتاب اکیڈمی سے شائع ہوچکی ہے اور ثانی الذکر کی تعریب مع تشریح کے اکیڈمی سے شائع ہوئی ہے؛ لیکن صرف نصف کتاب یعنی آٹھ انتباہات تک شائع ہوئی ہے؛ جب کہ کتاب کل ۱۶، انتباہات پر مشتمل ہے۔ گویا اِس کتاب کا نصف آخر شائع ہونا باقی ہے۔

          یہ سب کتابیں، جب اپنی تشریح، تسہیل اور جزئیات پر انطباق کے ساتھ، نیز وقت کے فکری مستوی پر اطلاقی حیثیت کے ساتھ آجائیں گی، تو کسی رازی وغزالی کی حسرت نہ رہ جائے گی، جیساکہ بعض مفکرین اس تشنگی اور حسرت کا اظہار کرچکے ہیں، چنانچہ جناب شہاب الدین احمد ندوی مرحوم سرسید کے متعلق لکھتے ہیں کہ انھوں نے ”قرآن کو توڑ مروڑ کر افکارِ جدیدہ سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش ضرور کرڈالی۔“ ”حالاں کہ کرنے کا کام اس کے برعکس یہ تھا کہ نصوص قرآنیہ پر راسخ العقیدگی کے ساتھ ایمان رکھتے ہوئے افکار جدیدہ کو باطل یا مشتبہ ٹھہرادیا جاتا۔ اور یہ ضرورت آج بھی باقی ہے اور اسی اعتبار سے آج ایک نئے غزالی، ایک نئے رازی اور ایک نئے ابن تیمیہ کی ضرورت ہے۔“

          لیکن افسوس ہے کہ! جناب شہاب الدین احمد ندوی مرحوم کو شاید امام قاسم نانوتوی اور حکیم الامت مولانا تھانوی کی کلامی تحقیقات دیکھنے کا موقع نہ مل سکا، ورنہ وہ گواہی دیتے کہ ”ایک نئے غزالی، ایک نئے رازی کی ضرورت“ باحسن وجوہ پوری ہوگئی۔ اور واقعہ یہ ہے کہ وقت کے فکری مستوی، زمانہ کی کسوٹی کی حقیقت اور زمانہ حال کے Juriceprudence کا سراب، اِن سب تناظر میں اسلام کی ابدیت، مذکورہ کتابوں میں، نہایت موثر طریقہ پر دکھادی گئی ہیں، جس کے بعد اس مرعوبیت کی کوئی گنجائش نہیں رہ جاتی کہ: ”اس وقت مذہب اسلام گویا زمانہ کی کسوٹی پر کسا جارہا ہے جو شخص زمانہ حال کے Juriceprudence پر تنقیدی نگاہ ڈال کر احکام قرآنیہ کی ابدیت کو ثابت کرے گا، وہ بنی نوع انسان کا سب سے بڑا خادم اورشاید اسلام کا مجدد ہوگا۔“

          مولانا نانوتوی کے بعد حکیم الامت مولانا تھانوی کو داخلی حملوں سے اسلام کی حفاظت کا بہت زیادہ اہتمام تھا، یعنی خود مسلمانوں کی طرف سے اسلام پر پڑنے والے شبہات اور علومِ جدیدہ کی راہ سے مسلمانوں کے ذہنوں میں پنپنے والے خلجانات کے ازالہ کا بہت زیادہ احساس تھا، جس کا تذکرہ ایک مجلس میں اس طرح فرمایا:

          ”روز بروز علومِ دین کی کمی لوگوں میں ہوتی جاتی ہے۔ مجھے تو یہ خوف ہے کہ اپنے حضرات کے بعد پسماندگان کا طبقہ بددینوں کے جواب بھی شائد نہ دے سکے اور اسی وجہ سے کبھی کبھی خیال ہوتا ہے کہ ایک رسالہ علم کلام جدید میں لکھا جائے․․․․․․ اس وقت تو بحمداللہ ایسے علماء موجود ہیں کہ اگر مجھے کسی مقام پر شبہ ہو، تو ان سے رجوع کرسکتا ہوں۔“(۹) اسی احساس کے تحت الانتباہات المفیدہ لکھی گئی۔

          بددینوں اور بدفکروں کے اعتراضات جن کی طرف مولانا تھانوی نے اشارہ کیا، ان پر بھی ایک نظر ڈال لینا مناسب ہے؛ تاکہ سطور بالا میں ذکر کی گئی کتابوں کی قدر معلوم ہوکہ الحمدللہ اہل حق کے عقائد وافکار کے تحفظ کی تدبیر اور دین کی حفاظت کا انتظام ہمارے پاس موجود ہے۔ یہاں بطور نمونہ اہل زیغ کے چند اقتباسات ملاحظہ ہوں، جن سے اُن کے اعتراضات اور خود ساختہ تجویزات کا اندازہ ہوسکے گا:

          ”نئے علوم وفنون بالخصوص فلسفہ جدیدہ (سائنس-ف) کی تعلیم سے طلبہ کے عقائد میں خلل وفساد واقع ہوتا ہے وہ اس کلام (علم کلام-ف) سے دور نہیں ہوسکتا جسے عباسی دور کے متکلمین نے یونانی فلسفہ کے نقصانات کے لیے ایجاد کیا تھا اور نہ ہی قدیم علم کلام کی تعلیم سے ان اعتراضات کے دفاع کی صلاحیت پیدا ہوسکتی ہے جو جدید فلسفہ اور سائنس کی روشنی میں اسلامی عقائد وتعلیمات پر عائد کیے جاتے ہیں۔“ (سرسید اور علوم اسلامیہ ”سرسید کا تصور تعلیم“ ص۱۵۹، ازظفرالاسلام اصلاحی بحوالہ خطبات سرسید ۲/۲۹۴،۲۹۸)

          ”جو کتب مذہبی ہمارے یہاں موجود ہیں اور پڑھنے پڑھانے میں آتی ہیں، ان میں کونسی کتاب ہے جس میں فلسفہ مغربیہ اور علوم جدیدہ کے مسائل کی تردید یا تطبیق، مسائل مذہبیہ سے کی گئی ہو۔“ (ایضاً ص۱۵۹ بحوالہ تعلیم مذہبی از سرسید احمد خاں، ونیز حیات جاوید ص۲۱۵ تا ۲۱۸ قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، پانچواں ایڈیشن ۲۰۰۴/)

          انیسویں صدی میں ”امتِ مسلمہ کو غیرمسلم اقوام․․․․ کے علمی، دینی اور تہذیبی حملوں کا سامنا تھا، علمائے امت اپنے طریقے سے ان کا مقابلہ کررہے تھے؛ مگر ان کا دفاع ناکافی بھی تھا، ناقص بھی اور معذور بھی۔“ (پروفیسر یٰسین مظہر صدیقی علوم اسلامیہ اور سرسید ص۵،۷)

          ”ہمارے علماء جو فلسفہٴ قدیم اور علومِ دینیہ میں تمام قوم کے نزدیک مسلم الثبوت ہیں اور جن کا یہ منصب تھا کہ فلسفہٴ جدیدہ کے مقابلہ میں اسلام کی حمایت کے لیے کھڑے ہوتے، ان کو یہ بھی خبر نہ تھی کہ یونانی فلسفہ کے سواکوئی اور فلسفہ اور عربی زبان کے سوا کوئی اور علمی زبان بھی دنیا میں موجود ہے، وہ اس بات سے بالکل بے خبر تھے کہ علومِ جدیدہ نہ صرف کرسچینیٹی یا صرف اسلام کی بلکہ تمام دنیا کے مذاہب کی جڑ کاٹ رہے ہیں۔ اور اگر بالفرض وہ اسلام کی حمایت کا کوئی نیا طریقہ مقتضائے وقت کے موافق اختیار کرنے کا ارادہ بھی کرتے، تو ہرگز امید نہ تھی کہ وہ اپنے ارادہ میں کم وبیش کامیابی حاصل کرسکتے، ان کو تقلید کی عادت نے ہرگز اس قابل نہیں رکھا کہ وہ قدماء کی پیروی کے دائرہ سے قدم باہر رکھ سکیں۔“ (حیات جاوید ص۲۱۶،۲۱۷)

          ”اور جو طریقہ دین کی حمایت کا بمقابلہ یونانی فلسفہ کے ہمارے قدیم متکلمین نے اختیار کیا تھا، وہ اِس زمانے میں کچھ کار آمد نہیں رہا؛ یہاں تک کہ جو مصنّفین اِس زمانے میں اُس طریقے پر کاربند ہوتے ہیں، اُن کی تصنیفات سے تعلیم یافتہ لوگوں کی تشفی نہیں ہوتی اور جو شبہات مذہب کی نسبت کے دل میں خطور کرتے ہیں وہ بدستور کھٹکتے رہتے ہیں۔“ (حیاتِ جاوید ص۲۱۶،۲۱۷)

          ”موجودہ زمانہ میں مسلم رہنماؤں کا اولین اور اہم ترین کام یہ تھا کہ ․․․․ اسلام کی ابدی تعلیمات کو موٴثر اور طاقتور انداز میں پیش کریں؛ تاکہ آج کا انسان اور جدید مسلم نسل اس کو پڑھے اور اس کے ذریعہ سے اپنے کھوئے ہوئے عقیدہ کو دوبارہ حاصل کرے۔“ ”میں اپنے چالیس سالہ مطالعہ کی بنا پر یہ کہہ سکتا ہوں کہ اس پورے دور (انیسویں اور بیسویں صدی) میں مسلمانوں کا دینی طبقہ کوئی ایک بھی ایسی قابل ذکر کتاب وجود میں نہ لاسکا جو جدید سائنٹفک اسلوب اور وقت کے فکری مستوی پر اسلامی تعلیمات کو پیش کرنے والی ہو۔“ (فکرکی غلطی ص۲۷۵ بحوالہ الرسالہ جولائی ۱۹۸۹/ ص۱۵،۱۶)

          ”ضروری ہے کہ ہمارے علماء ․․․ سائنسی نقطئہ نظر سے ان مادہ پرستانہ دعووں کی نامعقولیت پوری طرح ثابت کردیں۔ یہ عصرجدید کا ایک تجدیدی کارنامہ ہوگا اور دین ومذہب کی بہت بڑی خدمت بھی۔ اسی کا نام علم کلام ہے اور یہ موجودہ دور کی ایک اہم ترین علمی ضرورت ہے۔“

          ”ایک علم کلام وہ تھا جس کو ہمارے متقدمین نے قرون وسطیٰ میں یونانی فلسفہ کے مقابلہ کے لیے ایجاد کیا تھا جب کہ موجودہ علم کلام وہ ہے جو جدید علوم ونظریات اور خاص کر مادی افکار وفلسفوں کے مقابلہ کے لیے مطلوب ہے․․․․ اگر ہمارے ارباب فکر ونظر نے موجودہ حالات کی سنگینی کو محسوس نہ کیا اور ان کے تدارک کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھایا تو پھر آنے والا وقت ہمیں کبھی معاف نہیں کرسکتا۔“

          ”جدید علم کلام کا دائرہ اب صرف عقائد تک محدود نہیں رہا؛ بلکہ وہ عبادت واخلاق اور تمام معاملات زندگی تک وسیع ہوگیا ہے․․․․ ذہنی وفکری اعتبار سے کوئی انقلاب برپا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اسلامی نظام حیات کو ایک نئے فلسفے یا نئے کلام کے روپ میں پیش کیا جائے․․․․ موجودہ دور عقلیت پسندی Rationalism کا دور ہے اور آج لوگوں کو وہی چیزیں مطمئن کرسکتی ہیں جو عقلی واستدلالی اعتبار سے مُسْکِت اور تسلی بخش ہوں۔ محض وعظ نصیحت سے کوئی فائدہ نہیں ہوسکتا؛ کیوں کہ آج زمانہ کی قدریں Values بدل چکی ہیں۔“ (مقدمہ تخلیق آدم اور نظریہ ارتقا، ص۲۲،۲۳، از شہاب الدین احمد ندوی)

          ”ابتدائی صدیوں میں، جب اسلام کے عقائد پر فقہائے اسلام اور متکلمین کام کررہے تھے، تو اسلام کے عقائد پر جو اعتراضات اور حملے یونانیوں کی طرف سے ہورہے تھے․․․ ان اعتراضات کا جواب علماء اور متکلمین نے احادیث کی روشنی میں دیا۔ آج اسلام اور اسلام کے عقائد پر وہ اعتراضات نہیں ہورہے ہیں۔ قدیم یونانی فلسفہ ختم ہوگیا․․․ آج نئے انداز سے حملے ہورہے ہیں، آج اسلامی عقائد اور تعلیمات پر مغربی نظریہٴ علم کے حوالہ سے اسلام پر اور ہی انداز کے اعتراضات ہورہے ہیں، آج مغربی نفسیات نبوت پر اعتراض کررہی ہے۔ آج کی سائیکالوجی نبوت کو بطور ماخذ علم نہیں مانتی، وحی کو بطور مصدرِ علم نہیں مانتی“۔ ”وحی بطور ذریعہ علم کے قابل قبول ہے کہ نہیں، ابھی اس کے ماننے میں بھی آج کے انسان کو تردد ہے۔“ ”آج فن تاریخ، آرکیالوجی اور آثارِ قدیمہ کے نقطئہ نظر سے اعتراضات ہورہے ہیں۔“ (محاضرات حدیث ص۴۵۷ تا ۴۵۹ از محمود احمد غازی)

          سرسید نے ”اپنے جدید علم کلام کا موضوع اور اسلام کا حقیقی مصداق محض قرآن مجید کو قرار دیا اور اس کے سوا تمام مجموعہ احادیث کو اس دلیل سے کہ اس میں کوئی حدیث مثل قرآن کے قطعی الثبوت نہیں ہے اور تمام علماء ومفسرین کے اقوال وآراء اور تمام فقہاء ومجتہدین کے قیاسات واجتہادات کو، اس بنا پر کہ ان کے جوابدہ خود علماء ومفسرین اور فقہاء ومجتہدین ہیں نہ اسلام، اپنی بحث سے خارج کردیا۔“

          پھر حاشیہ میں اس رجحان اور روش کے مویِّد ”شمس العلماء“ کے خطاب کے اعزاز یافتہ حالی لکھتے ہیں: ”لیکن جولوگ مذہب اسلام کا اطلاق مجموعہ کتاب وسنت واجماع وقیاس پر کرتے ہیں، ان کو اسلام کی حمایت کے لیے ضرور ہے کہ وہ اس تمام مجموعہ کو سائنس کے حملے سے بچائیں، عام اِس کے کہ اس کو سائنس کے مسائل پر منطبق کریں، یا اس کے مقابلہ میں سائنس کے مسائل کا بطلان ثابت کریں یا ان کو غیرمحقق ٹھیرائیں۔“(۱۰)

          علماء پر الزام یہ ہے کہ ”․․․بزرگانِ سلف نے نہایت بے تعصبی کے ساتھ معترضوں کے ہرقسم کے اعتراض کو سنا اور ان کو اپنی تصنیفات میں درج کرکے، ان کے جواب دیے، بخلاف اس کے آج ہمارے علماء یہ تلقین کرتے ہیں کہ دشمن کو آتا دیکھ کر اپنی آنکھیں بند کرلینی چاہئیں۔“ (شبلی۔ الکلام ص۲)

          لیکن اِس باب میں نوعیت وحقیقت جو کچھ ہے، اسے جدید علوم وافکار پر نظر رکھنے والے جدید دور کے ایک محقق پروفیسر محمدحسن عسکری نے ظاہر کردیا ہے، وہ کہتے ہیں کہ ہمارے علماء فرماتے ہیں کہ: ”مغربی تعلیم سے متاثر ہونے والے لوگ کوئی ایسا شبہ یا اعتراض نہیں لاسکتے جس کا جواب ہمارے پاس نہ ہو۔ یہ بات سوفیصدی درست ہے، گمراہی کی جتنی بھی نئی شکلیں سامنے آئی ہیں، یا آسکتی ہیں، وہ بنیادی طور پر وہی ہیں جن سے اسلامی علماء کو تاریخ میں پہلے بھی واسطہ پڑچکا ہے۔“ آگے لکھتے ہیں، مگر نئی گمراہیاں چند باتوں میں اختصاص اور امتیاز رکھتی ہیں:

          (۱) پہلے گمراہیوں کا دائرہ بہت محدود تھا، رقبے کے لحاظ سے بھی اور گمراہیوں کی تعداد کے لحاظ سے بھی۔ ․․․․ مگر نئی گمراہیوں کا دائرہ عالمگیر ہے۔

          (۲) یہ گمراہیاں اپنے ساتھ سائنس کی ایسی ایجادات بھی لائی ہیں جس کے اثر کے تحت لوگ ذہن سے کام نہیں لیتے، حسی مشاہدات کو ہی عقلی دلیل سمجھتے ہیں۔

          (۳) یورپ نے پچھلے چھ سو سال میں جتنی گمراہیاں پیدا کی ہیں، ان سب نے ایک ساتھ ہمارے اوپر حملہ کیا ہے․․․․ خود ہمارے یہاں بھی پچھلے ڈیڑھ سوسال کے عرصے میں، عام لوگوں کا اور خصوصاً جدید تعلیم پانے والوں کا ذہن آہستہ آہستہ مسخ ہوتا چلا گیا ہے۔

          (۴) زبان اور اصطلاحات کا فریب: مہمل سے مہمل نظریہ بھاری بھرکم اصطلاحات کے پردے میں اِس طرح چھپ جاتا ہے کہ آدمی خواہ مخواہ مرعوب ہوجاتا ہے۔ یہ الفاظ واصطلاحات دو قسم کی ہیں: ایک تو بھاری بھرکم پیچیدہ الفاظ ہیں جن کا بعض دفعہ کوئی مطلب نہیں ہوتا؛ مگر علمیت ضرور ٹپکتی ہے۔ لکھنے والوں کی تحریر میں ایسی اصطلاحات کی تعداد اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ پڑھنے والا کوئی مطلب اخذ نہیں کرسکتا، اور اس کا ذہن معطل ہوجاتا ہے، دوسرے وہ اصطلاحات ہیں جو بظاہر خوشنما ہوتی ہیں اور براہ راست جذبات کو متاثر کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ دونوں قسم کی اصطلاحات کا مقصد اصل میں یہ ہوتا ہے کہ پڑھنے والا اپنے ذہن سے کام نہ لے سکے۔“ (جدیدیت ص۱۷)

          اس تمام گفتگو کے بعد، جہاں تک امام قاسم نانوتوی کی تصانیف سے استفادہ کا تعلق ہے، تو چونکہ حضرت امامِ قاسم نانوتوی کی تصانیف حقائق شرعیہ کے سلسلہ میں غامض دلائل پر مشتمل ہیں، جن کے سمجھنے میں قوتِ فکریہ کو جب تک پورے طور پر یکسو نہ رکھا جائے، ساتھ ہی فنونِ عقلیہ اور علومِ ضروریہ سے مناسبت نہ ہو، نیز بعض مضامین کو جب تک کئی کئی مرتبہ نہ پڑھا جائے، ہم جیسوں کے لیے ان کا سمجھنا ازحد دشوار ہے، دوسری طرف عقائد کی حفاظت اور افکار کی اصلاح کے لیے، خصوصاً اُن اہل علم جو عقائد اسلام کو غیروں کے حملوں سے بچانے کے جذبے سے اسلام کے دفاع کا کام کرتے ہیں، اُن کے واسطے ان کتابوں سے اِستفادہ ازبس ضروری ہے۔ جس کی اہمیت کو محسوس فرماتے ہوئے حضرت شیخ الہند نے نہایت صاف لفظوں میں فرمایا تھا کہ: ”طالبانِ حقائق اور حامیانِ اسلام کی خدمت میں ہماری یہ درخواست ہے کہ تائید احکامِ اسلام اور مدافعت فلسفہ قدیمہ وجدیدہ کے لیے جو تدبیریں کی جاتی ہیں، ان کو بجائے خود رکھ کر حضرت خاتم العلماء کے رسائل کے مطالعہ میں بھی کچھ وقت ضرور صرف فرماویں اور پورے غور سے کام لیں اور انصاف سے دیکھیں کہ ضروریاتِ موجودہ زمانہ حال کے لیے وہ سب تدابیر سے فائق اور مختصر اور بہتر اور مفید تر ہیں یا نہیں․․․․ باقی خدامِ عالیہ مدرسہ دیوبند نے تو یہ تہیہ بنامِ خدا کرلیا ہے کہ تالیفاتِ موصوفہ ․․․․ کسی قدر توضیح و تسہیل کے ساتھ عمدہ چھاپ کر اور نصابِ تعلیم میں داخل کرکے، اِن کی ترویج میں اگر حق تعالیٰ توفیق دے، تو جان توڑ کر ہرطرح کی سعی کی جائے اور اللہ کا فضل حامی ہو، تو وہ نفع جو اُن (حامیانِ اسلام-ف) کے ذہن میں ہے (یعنی حمایت اسلام، تائید احکامِ اسلام، نیز مدافعت فلسفہ قدیمہ وجدیدہ اور افکارِ زائغہ کی اصلاح کا نفع، جس کے لیے ایک عمدہ تدبیر، اِن موضوعات پر مولانا نانوتوی کی تصانیف ہیں، اِن تصانیف سے نفع نہ صرف اُن کو حاصل ہو؛ بلکہ-ف) اوروں کو بھی، اس کے جمال سے کامیاب کیا جائے۔“ (حجة الاسلام ص۱۶،۱۷)

(باقی آئندہ)

***

-------------------------------------------

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ 7 - 8 ‏، جلد: 97 ‏، رمضان – شوال 1434 ہجری مطابق جولائی - اگست 2013ء