فرقہٴ اباضیہ

اپنے عقائد وافکار کے آئینے میں

 

از: مولانا اشرف عباس قاسمی‏، استاذ دارالعلوم دیوبند

 

پس منظر:

          امسال رمضان شریف کا بیشتر حصہ تنزانیا (مشرقی افریقہ) کے دارالسلطنت دارالسلام میں گزرانے کا موقع ملا، دارالسلام میں مختلف شیعی گروہوں کے علاوہ فرقہٴ اباضیہ بھی اپنی ایک خاص شناخت اور طاقت رکھتا ہے، اس فرقے کی پرشِکُوہ مسجدیں کسی بھی زائر کو دعوت نظارہ دیتی ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے ایشیائی مسلمان، اباضیہ کو بھی اہل السنة والجماعة میں شمار کرتے ہوئے بلاجھجک ان کی مسجدوں میں نماز پڑھتے ہیں، اس صورتِ حال سے بے چین ہوکر میرے بعض فکرمند میزبانوں نے مجھ سے فرقہٴ اباضیہ کی اصلیت اور معتقدات کے واضح کرنے کا مطالبہ کیا، میں نے ان سے وعدہ کرلیا تھا،یہ تحریر ان کے وعدہ کی تکمیل ہے۔

فرقہٴ اباضیہ تعارف وانتساب:

          اسلام کی بنیادوں کو متزلزل کرنے اور مسلمانوں کو ابتداہی سے غیرمعمولی نقصانات پہنچانے میں روافض کے ساتھ خوارج کا اہم کردار رہا ہے، یہ صحیح ہے کہ مرورِزمانہ کے ساتھ خوارج کی ساکھ کمزور ہوتی گئی اور وہ رفتہ رفتہ ناپید ہوتے گئے؛ تاہم بعض علاقے اب تک خارجی اثرات ومعتقدات کے زیراثر ہیں اورانھی خوارج کی باقیات میں سے فرقہٴ اباضیہ بھی ہے۔

          مذہب اباضیہ کو عام طور سے عبداللہ بن اباض تمیمی کی طرف منسوب کیاجاتاہے، جن کی وفات ۸۰ھ میں ہوئی ہے؛ جبکہ علمی اور فکری اعتبار سے اس کا سرچشمہ ابوالشعثاء کو قرار دیا جاتا ہے۔ ابوالشعثاء جابر بن زید متوفی ۹۳ھ محدث، فقیہہ اور ابن عباس کے شاگرد ہیں، دیگر مذاہب کی طرح اباضیہ کے پاس بھی مسائل کے استنباط کے خاص مناہج اور فقہی اصول وضوابط ہیں۔ فرقہٴ اباضیہ کو ”اہلِ دعوت، اہل استقامت اور جماعة المسلمین“ کے ناموں سے بھی جانا جاتا رہا ہے۔ (دیکھیے مقدمة الفقہ الاسلامي وأدلتہ ۱/۵۶)

اباضی علماء اور مستند کتابیں:

          مشہور اباضی علماء میں جنھیں مرجعیت حاصل رہی ہے۔ ابراہیم اَطّفش الجزائری اور ابراہیم بن عمر بیوض الجزائری ہیں۔ یہ دونوں اباضیت میں متشدد نہیں تھے، حتیٰ کہ آخرالذکر کے بارے میں بعض لوگوں نے دعویٰ کیا ہے کہ مرنے سے پہلے انھوں نے اباضیت سے توبہ کرکے مالکی مسلک کو اختیار کرلیاتھا؛ اگرچہ اباضیین اس کی سختی سے تردید کرتے ہیں۔ اباضیین کے یہاں معتمد اور مستند کتابوں میں، عقیدہ میں نورالدین سالمی کی مشارق الانوار، اصول فقہ میں طلعة الشمس، فقہ میں محمداظفیش کی شرح النبیل وشفاء العلیل۔ سعدی کی قاموس الشریعة اوراحمد کندی کی المصنف جیسی کتابیں ہیں؛ جبکہ حدیث میں مسند الربیع بن حبیب کو اتنی زیادہ اہمیت دے رکھی ہے کہ وہ اسے اصح الکتب بعد کتاب اللہ کا مصداق اور صحیح بخاری وصحیح مسلم سے فائق قرار دیتے ہیں۔

عمان، اباضیہ کا مرکز:

          اس وقت اباضیین کی بڑی تعداد الجزائر، تونس، لیبیا، مشرقی افریقہ اور سلطنت عمان وغیرہ میں آباد ہے۔ عمان کو ان کی مذہبی اور فکری سرگرمیوں کا مرکز قرار دیا جاسکتا ہے؛ کیوں کہ ایک اندازے کے مطابق وہاں کے پچھتّر فیصد باشندے اباضی ہیں۔ شیخ ابوزہرہ مصری فرماتے ہیں: یہ فرقہ خارجیوں میں معتدل اور فکر ورائے میں عام مسلمانوں سے زیادہ قریب، غلو اور انتہاپسندی سے الگ تھا، نیز وہ لکھتے ہیں: یہی وجہ ہے کہ عالمِ اسلام کے بعض اطراف میں یہ اب تک موجود ہیں۔“ (تاریخ المذاہب الاسلامیہ مترجم: ۱۰۷)

          یاقوت حموی نے بھی اپنے دور کے باشندگان عمان کی اکثریت کو اباضی قرار دیا ہے، وہ کہتے ہیں:

        ”أکثر أھلھا في أیامنا خوارج اباضیة، لیس بھا من غیر ھذا المذھب الا طاری غریب، وھم لا یخفون ذٰلک“ (معجم البلدان ۴/۱۵۰)

          ترجمہ:ہمارے زمانے میں عمان کے اکثر باشندے اباضی خوارج ہیں، اور سوائے کسی اجنبی نووارد شخص کے اباضیہ کے علاوہ کو ماننے والا کوئی شخص نہیں ہے، اور اباضیین اپنے عقائد کو چھپاتے بھی نہیں ہیں۔

عقائد میں اباضیہ کا اہل السنة والجماعة سے اختلاف

          چند اہم عقائد جن میں اباضیہ کا نقطئہ نظر اہل السنة والجماعة سے مختلف ہے، درج ذیل ہیں:

          ۱- اباضیین صفاتِ الٰہی کا انکار کرتے ہیں،اور صفات کو عین ذات باری تعالیٰ قرار دیتے ہیں؛ جبکہ اہل السنة والجماعة، ذات باری تعالیٰ کے لیے صفات کو ثابت جانتے ہیں۔

          ۲- آیات ربانیہ اور صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ آخرت میں اہل ایمان کو اللہ پاک کا دیدار نصیب ہوگا؛ چنانچہ سورئہ یونس کی آیت کریمہ ”للذین أحسنوا الحسنٰی وزیادة“ (یونس:۶) ”جن لوگوں نے نیکی کی ہے ان کے واسطے خوبی ہے اور مزید برآں بھی“ میں زیادہ کی تفسیر خود نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم نے دیدار الٰہی سے کی ہے؛ چنانچہ حضرت صہیب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ”رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت پاک ”للذین أحسنوا ․․․ کی تلاوت کرنے کے بعد فرمایا: جب جنتی جنت میں اور دوزخی دوزخ میں چلے جائیں گے تو ایک پکارنے والا پکارے گا، اے جنتیو! اللہ پاک نے تم سے ایک وعدہ کررکھا ہے، اللہ اپنے اس وعدے کو پورا کرنا چاہتا ہے، تو جنتی جواب دیں گے، وہ کیا ہے؟ کیا اللہ پاک ہمارے ترازو کو بھاری، ہمارے چہروں کو روشن اور ہمیں دوزخ سے دور کرکے جنت میں داخل نہیں کردیاہے؟ رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں: اس کے بعد پردہ ہٹادیا جائے گا اور جنتی اللہ پاک کا دیدار کریں گے، تو خدا کی قسم اللہ کی عطا کردہ ساری نعمتوں میں اللہ کا دیدار سب سے پسندیدہ اور آنکھوں کو ٹھنڈک بخشنے والا ہوگا“۔ یہ حدیث مسلم شریف، ترمذی شریف سمیت کئی کتب حدیث میں موجود ہے، اور اس مضمون کی اور بھی متعدد روایات ہیں، لہٰذا قرآنی آیات اور احادیث وآثار کے پیش نظر اہل السنة کا اجماعی عقیدہ ہے کہ آخرت میں اللہ پاک کا دیدار ہوگا؛ لیکن اباضیین اس کا انکار کرتے ہیں اورکہتے ہیں یہ ممکن ہی نہیں ہے۔

          ۳- اباضیین، قرآن کریم کے مخلوق اور حادث ہونے کے قائل ہیں، جو معتزلہ کا مشہور عقیدہ ہے۔ اسی کے انکار کی وجہ سے معتزلہ کی ایماء پر عباسی خلفاء نے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ پر کوڑے برسائے اور سخت اذیتیں دیں؛ لیکن حضرت امام کے پائے استقامت میں ذرا جنبش نہیں ہوئی اور وہ اہل السنة والجماعة کے اس عقیدے پر جمے رہے کہ قرآنِ مقدس مخلوق نہیں، جو حادث ہو، یہ اللہ پاک کا کلام ہے جو اس کی صفات میں سے ہے۔

          ۴-اباضیین کا عقیدہ ہے کہ جو شخص گناہ کبیرہ کا ارتکاب کرکے دنیا سے جائے گا؛ اگرچہ وہ کلمہ گو اور پابند نماز وغیرہ ہو، پھر بھی اسے ہمیشہ کے لیے جہنم میں جانا پڑے گا۔ اسے کبھی جنت نصیب نہیں ہوگی؛ جبکہ اہل السنة والجماعة کا متفقہ عقیدہ ہے کہ مرتکب کبیرہ ہمیشہ جہنم میں نہیں رہے گا۔ اگر ایمان پر اس کا خاتمہ ہوا ہے تو اسے بھی اللہ پاک جنت کا داخلہ نصیب کریں گے، یا تو اللہ پاک اس کا گناہ معاف کردیں یا گناہوں کی سزا بھگتنے کے بعد اللہ پاک اس کے حق میں جنت کا فیصلہ فرمادیں؛ چنانچہ رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:

          ”اہل توحید میں سے کچھ لوگوں کو جہنم میں عذاب دیا جائے گا، یہاں تک کہ وہ اس میں کوئلہ بن جائیں گے، پھر اللہ کی رحمت متوجہ ہوگی، تو انھیں آگ سے نکال کر جنت کے دروازوں پر ڈال دیا جائے گا، تو جنتی ان پر پانی چھڑکیں گے جس کے نتیجے میں وہ اس طرح اگیں گے جس طرح سیلاب کے بہاؤ میں گھاس اگ جاتی ہے“۔

          ۵- جنھوں نے گناہ کبیرہ کا ارتکاب کیا ہے، اباضیین کے نزدیک وہ مستحق شفاعت نہیں ہیں، جبکہ اہل السنة والجماعة کا عقیدہ ہے کہ ان کے حق میں بھی شفاعت ہوگی۔ حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”لیخرجن قوم من امتی من النار بشفاعتي یُسمّون الجھنمیین“

          ترجمہ: میری سفارش کی وجہ سے میری امت کے ایک گروہ کو جن کا لقب جہنمی پڑجائے گا، جہنم سے نکالا جائے گا۔

          ۶- قرآن وحدیث میں آخرت کے متعلق کئی چیزوں کا تذکرہ ہے، مثلاً میزانِ عدل قائم کیا جائے گا، پل صراط سے گزرنا ہوگا؛ لیکن اباضیین اس طرح کی چیزوں میں تاویل کرتے ہیں اور احادیث میں ان چیزوں کی جو تفصیلات ہیں انھیں نہیں مانتے ہیں؛ جبکہ اہل السنة والجماعة اسی طرح ان کو مانتے ہیں جس طرح رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی ہے۔

          ۷- اہل السنة والجماعة کا اتفاق ہے کہ قرآنِ مقدس کے بعد روئے زمین پر سب سے صحیح کتاب بخاری شریف ہے،اس کے بعد مسلم شریف وغیرہ دیگر کتب احادیث کا مقام ہے؛ لیکن اباضیین اس تصور کو خارج کردیتے ہیں، ان کے نزدیک بخاری ومسلم سے بڑھ کر مسند ربیع بن صہیب ہے۔ قرآن مجید کے بعد سب سے اہم کتاب وہ اسی مسند کو قرار دیتے ہیں۔ اسی طرح اباضیین نے بہت سے اجماعی مسائل کا بھی انکار کیا ہے۔ (تفصیل کے لیے دیکھیے: موسوعة الأدیان والمذاہب المعاصرة ۱/۶۲)

چند متفقہ فقہی مسائل میں اباضیہ کا شذوذ:

          جب اصول وعقائد میں اباضیہ کا نقطئہ نظر اہل السنة والجماعة کے نقطئہ نظر سے مختلف ہے، تو فروع وجزئیات فقہیہ میں اختلاف تو لابدی اور فطری ہے۔ ہم یہاں چند اہم مسائل درج کررہے ہیں، جن میں اباضیین نے اہل السنة والجماعة کے اجتماعی موقف سے شذوذ کیاہے۔

          ۱-شیعوں کی طرح اباضیین بھی اس بات کے قائل ہیں کہ خفین پر مسح کرنا جائز نہیں؛ حالاں کہ چمڑے کے موزے پر مسح کا جواز اہل السنة کا متفقہ مسئلہ ہے اورامام ابوحنیفہ نے خفین پر مسح کے جواز کو اہل السنة والجماعة کی علامتوں میں شمار کیا ہے۔

          ۲- نماز کے آغاز میں تکبیر تحریمہ کے وقت ہاتھ اٹھانے کے قائل نہیں، اور پوری نماز ہاتھ چھوڑ کر ہی ادا کرتے ہیں۔

          ۳- اگر رمضان میں حالت جنابت میں صبح ہوئی تواس کا روزہ ٹوٹ جائے گا۔

          ۴- جو جزیہ نہیں دیتے، مثلاً موجودہ اہل کتاب، ان کا ذبیحہ حرام ہے۔

          ۵- ورثہ کے علاوہ دیگر رشتہ داروں کے لیے وصیت واجب ہے۔

          ۶- مکاتب، عقد کتابت کے وقت سے ہی آزاد ہے۔

اباضیین کے پیچھے نماز پڑھنے کا حکم:

          اباضیین کے پیچھے نماز پڑھنے کا بھی وہی حکم ہوگا،جو حکم خوارج کے پیچھے نماز پڑھنے کا ہے۔ یعنی اگرچہ اہل السنة والجماعة انھیں کافر نہیں قرار دیتے؛ لیکن ان کے عقائدِ فاسدہ اور اعمالِ شنیعہ کی وجہ سے ان کے پیچھے نماز پڑھنے سے ضرور منع کرتے ہیں، عرب علماء، چوں کہ اباضیین کے احوال سے زیادہ واقف ہیں؛اس لیے ہم اس سلسلے میں زیادہ تر انھیں کے فتاویٰ نقل کرتے ہیں۔

          مشہور عرب عالم ابن جبرین فرماتے ہیں: ”ثم ھم مع ذٰلک یکفرون أھل السنة ویمنعون خلفنا، فلذٰلک یقول: لا یصلی خلف ھٰذہ الطائفة“

          ترجمہ:اباضیین اپنے غلط افکار کے ساتھ اہل السنة کو کافر قرار دیتے ہیں اور ہمارے پیچھے نماز پڑھنے سے روکتے ہیں؛ اس لیے ہم کہتے ہیں کہ اس فرقے کے پیچھے نماز نہیں پڑھی جائے گی۔

          شیخ محمد بن ابراہیم نے تو اباضیہ کے پیچھے نہ صرف نماز پڑھنے کو ناجائز قرار دیا ہے؛ بلکہ واضح طور پر کہا ہے کہ فرقہٴ اباضیہ سے تعلق رکھنے والے کسی شخص کی گواہی بھی شرعاً معتبر نہیں ہوگی۔ (دیکھیے: فتاویٰ الشیخ محمد بن ابراہیم ۱۳/۳۰)

          سعودی عرب کے مفتیان کرام کی جماعت نے بھی یہی فتویٰ دیا ہے کہ اباضیین کے پیچھے نماز درست نہیں ہوتی؛ کیوں کہ اباضیہ فرق ضالہ میں سے ہے۔ (دیکھیے: فتویٰ اللجنة الدائمة رقم: ۶۹۳۵)

          ان کے علاوہ شیخ سلمان العودة اور شیخ سلمان الغصن بھی اباضیہ کے پیچھے نماز درست نہیں قرار دیتے۔

          حضرت مولانا مفتی رشیداحمد صاحب لدھیانوی نے بھی ایک سوال کے جواب میں تحریر کیا ہے: ”عبداللہ بن اباض کی جانب منسوب جو فرقہٴ اباضیہ ہے اورجو خوارج ہی کی شاخ ہے، ان کے عقائد کتابوں میں ملتے ہیں، اگر یہ فرقہ بعینہ وہی ہے یا ان کے عقائد ان کے مطابق ہیں تو ان کے پیچھے نماز نہیں ہوتی؛ اس لیے ان کے پیچھے نماز نہ پڑھی جائے“۔ (احسن الفتاویٰ:۱/۱۹۸)

          مفتی شعیب اللہ خاں مفتاحی مدظلہ فرماتے ہیں:

          ”عمان کے اباضیہ دراصل خوارج ہیں؛ لہٰذا ان کے پیچھے نماز درست نہ ہوگی، اگرچہ یہ بہ نسبت دیگر فرق خوارج کے معتدل ہیں، تاہم جو بنیادی عقائد خوارج کے ہیں، ان میں یہ بھی شامل ہیں۔“ (نفائس الفقہ ۴/۴۲۰)

اہل السنة والجماعة کے تئیں اباضیہ کا سخت موقف:

          یہاں اس امر کا بھی اظہار مناسب ہے کہ خوارج کی طرح، اباضیین بھی اپنے علاوہ اہل السنة والجماعة اور عامة المسلمین کے حوالے سے انتہا پسندانہ نظریات رکھتے ہیں۔ ان کی رائے میں ان کے علاوہ تمام مسلمان کافر ہیں۔ اورجنت میں وہی داخل ہوگا جو اباضی عقیدے پر مرا ہو۔ اباضیین کے علاوہ جتنے مسلمان ہیں سب کو ہمیشہ کے لیے جہنم میں جانا پڑے گا۔

          چنانچہ مشہور اباضی عالم ابوبکر بن عبداللہ الکندی نے لکھا ہے:

          ”ونحن نَشْھَدُ لمن مات من ھٰوٴلاء مصرا علی خلاف ما دانت بھا الاباضیة بالخزی والصغار والخلود فی النار“ (الجوھر المقتصر ص ۱۲۱)

          ترجمہ: اور ان مسلمانوں میں سے جو اباضیہ کے عقیدے سے ہٹ کر کسی اور عقیدے پر مرے ہم اس کے لیے رسوائی، ذلت اور ہمیشہ کے لیے جہنم کی شہادت دیتے ہیں۔

          ایک اور اباضی عالم مہنا بن خلفان نے اباضیہ کے معتقدات وافکار ذکر کرنے کے بعد لکھا ہے: ”وان مات علی خلافہ فلیس لہ فی الآخرة الا النار وبئس المصیر“ (لباب الآثار ۱/۲۷۸)

          ترجمہ:اوراگر کوئی اس کے علاوہ کسی اور عقیدے پر مرے تو آخرت میں اس کے لیے صرف جہنم ہے اور جہنم بہت برا ٹھکانہ ہے۔

          درج بالا تصریحات سے واضح ہے کہ فرقہٴ اباضیہ اپنے معتقدات کی وجہ سے اہل السنة والجماعة سے خارج ہے اور یہ ایک گمراہ فرقہ ہے جو دیگر مسلمانوں کو جہنمی خیال کرتا ہے؛ اس لیے اس فرقے کے زہریلے اثرات سے اپنے معاشرے کو محفوظ رکھنے کی کوشش کرنی چاہیے اوراس کے پیچھے نماز پڑھنے سے بالکلیہ احتراز کرنا چاہیے۔ اللہ پاک ہم سب کو صراط مستقیم پر گامزن رکھیں! (آمین)

***

-------------------------------------------

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ 7 - 8 ‏، جلد: 97 ‏، رمضان – شوال 1434 ہجری مطابق جولائی - اگست 2013ء