ویکسین! ایک غور طلب پہلو

 

تحریر و تخریج: ڈاکٹر مبشر حسین رحمانی

بہ تعمیلِ ارشاد: حضرت مولانا مفتی محمدنعیم میمن صاحب، خلیفہ حضرت مولانا محمدیوسف لدھیانوی شہید رحمة اللہ

 

          بنی نوع انسان کو ازل سے ہی طرح طرح کی بیماریوں سے واسطہ پڑتا رہا ہے، ان میں سے کچھ بیماریاں ایسی ہیں جو موروثی (genetic) ہوتی ہیں اور کچھ وبائی (epidemic) صورت اختیار کرجاتی ہیں۔ میڈیکل سائنس کی ترقی کی وجہ سے انسان نے نہ صرف ان بیماریوں کی تشخیص کی ہے؛ بلکہ ان بیماریوں کے اسباب اور سدِباب کی تدابیر اختیار کیں۔ ان بیماریوں میں کچھ بیماریاں ایسی ہیں جو کہ وائرس (virus)اور بکٹیریا (bacteria) کے ذریعہ پھیلتی ہیں، جن کو انسانی آنکھ خرد بین (microscope) کے بغیر نہیں دیکھ سکتی۔ اس قسم کی بیماریوں کے تدارک کے لیے ویکسین (vaccine) کا استعمال کئی دہائیوں سے جاری ہے۔

          ویکسین، مائیکروآرگینیزم (microorganism) کی مدد سے تیار کی جاتی ہے اور ایک صحت مند انسان کو قوتِ مدافعت بڑھانے کے لیے دی جاتی ہے، اس مائیکروآرگینیزم کے مقابلے میں جس کی مدد سے وہ ویکسین تیار کی گئی ہے۔ عمومی طور پر ۵ سال کی عمر تک آتے آتے ایک بچے کو تقریباً ۱۵ سے ۲۰/اقسام کی ویکسین دی جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ ایک ملک سے دوسرے ملک سفر کرنے سے پہلے بھی ویکسین دی جاتی ہے، جن کی تعداد ۱۰ سے ۱۲ کے قریب ہے۔ پاکستان میں بھی حکومتی سطح پر ویکسین پلانے کی مہم چلائی جاتی ہے حتیٰ کہ حج کے سفر سے پہلے کئی اقسام کی ویکسین حاجی کو پلانا لازمی قرار دیاگیا ہے۔

          ویکسین کی تیاری کے لیے کئی اقسام کے خلیات استعمال کیے جاتے ہیں۔ یہ امر توجہ طلب ہے کہ یہ خلیات انڈا، دودھ، جیلیٹن (gelatin)کے علاوہ کئی اقسام کے جانوروں کے خلیات مثلاً گھوڑا، گائے، سور اور بندر سے بھی حاصل کیے جاتے ہیں۔ ہم قارئین کی سہولت کے لیے آسٹریلوی ڈاکٹروں اور سائنس دانوں کی ایک ٹیم کے تحقیقاتی مقالے سے جو Medical Journal of Australia (4) میں چھپا ہے، ان خلیات کو ذکر کرتے ہیں، جن سے ویکسین تیار کی جاتی ہیں (دیکھیے ٹیبل نمبر۱) اس تحقیق سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ کچھ ویکسین کی تیاری میں سور، بندر اور گھوڑوں کے خلیات کا بھی استعمال کیا گیا ہے۔ پاکستان میں چونکہ آج کل پولیو ویکسین کا خاص چرچہ ہے؛ لہٰذا ہم اس سے متعلق چند تفصیلات ذکر کرتے ہیں۔

ٹیبل نمبر۱: ویکسین اور ان کے اجزائے ترکیبی کی تفصیل (4)

خلیات

 

ویکسین

 

بیماری

 

Monkey cell culture, biological culture بندر

Infanrix IPV (GSK)

 

Diphtheria/ Pertussis/ Poliomyelitis پولیو / tetanus

Yeast )hep B), monkey cell culture, biological culture

Infanrix Penta (GSK)

 

Diphtheria/ hepatitis B/ pertussis/ poliomyelitis پولیو / tetnus

Monkey cell culture بندر

Ipol (Aventis Pasteur)

Poliomyelitis پولیو

Yeast (hep B), monkey cell culture, Biological culture بندر

Infanrix Hexa (GSK)

 

Diphtheria/ Haemophilus/ influenzae/ hepatitis B/ pertussis/ poliomyelitis پولیو / tetnaus

گائے، سور یا گھوڑا

ADT (CSL); CDT (CSL)

Diphtheria/ tetanus

گائے، سور یا گھوڑا

 

Diphtheria Vacc (Adsorbed) (CSL); Diphtheria Vacc (Adsorbed) (Adult)

Diphtheria toxoid

 

خرگوش

Pneumovax 23 (MSD)

Pneumococcal نمونیا

گائے، سور یا گھوڑا

Tet-Tox (CSL)

Tetanus

گائے، سور یا گھوڑا

Plague Vaccine (CSL)

Plague (Yersinia pestis) طاعون

 

          پولیو ویکسین(Polio or Poliomyelitis) : پولیو ایک ایسا مرض ہے جو کہ وائرس کے ذریعے پھیلتا ہے۔ یہ وائرس انسان کے اعصابی نظام (nervous system) پر حملہ کرتا ہے جس کی وجہ سے گھنٹوں کے اندر انسانی جسم مفلوج ہوجاتا ہے۔ ابھی تک پولیو کا کوئی علاج دریافت نہیں ہوا۔ پولیو کو روکا جاسکتا ہے، اگر پولیو ویکسین کئی مرتبہ پلائی جائے۔ عالمی ادارہ صحت کی رپورٹ (Polio Fact Sheet No: 112, Oct 2012 www.who.int) کے مطابق زیادہ تر ۵ سال کے کم عمر بچوں پر پولیو اثر انداز ہوتا ہے۔ پولیو کیسسز کے اندر ۱۹۸۸ سے ۲۰۱۱ تک ٪۹۹ کمی واقع ہوئی ہے۔ ۲۰۱۲ کے اندر صرف تین ممالک پاکستان، افغانستان، اور نائیجیریا، وہ ممالک ہیں جن کے اندر پولیو ابھی باقی ہے۔ پولیو پر سالانہ ایک بلین ڈالر خرچ کیے جاتے ہیں؛ جب کہ ۲۰۱۳ سے ۲۰۱۸ تک ۵․۵ بلین ڈالر خرچ کرنے کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ حکومت پاکستان کے نیشنل ایمرجنسی ایکشن پلان NEAP 2012 کی دستاویز کے مطابق پاکستان میں ۲۰۱۱ میں ۱۵۴ پولیو کے کیسسز سامنے آئے ہیں۔

          بحیثیت مسلمان ہم لوگوں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ حلال وحرام میں تمیز کریں، حلال کو اختیار کریں اور حرام کو چھوڑیں۔ پولیو ویکسین کی حلت وحرمت پر تو حضرات مفتیانِ کرام ہی فیصلہ صادر فرمائیں گے؛ مگر ہم ذیل میں صرف کچھ سائنسی تحقیقات کے حوالہ جات دے رہے ہیں جن سے یہ بات عیاں ہے کہ پولیو ویکسین بنانے کے لیے بندر کے گردے کے خلیے استعمال کیے جاتے ہیں۔

*       ویلفریڈ بیکر اور ان کے ساتھی ڈاکٹروں نے ۲۰۱۱/ میں ویکسین جرنل میں تحقیقی مقالہ لکھا ہے جس میں کئی جگہ اس بات کا ذکر ہے کہ پولیو ویکسین کی تیاری کے لیے بندر کے گردے کے خلیے استعمال کیے جاتے ہیں۔(۱)

*       جاپان کے KAKETSUKEN Institute اور Astellas Pharma Inc کے درمیان پولیو ویکسین بنانے کی تفصیل کے ذیل میں بندر کے گردے کے خلیے کے استعمال کا ذکر موجود ہے۔ یہ معاہدہ جولائی ۲۰۱۲/ میں ہوا۔ (۲)

*       Newzealand کے وزارتِ صحت کے ذیلی ادارے MEDSAFE نے Polio Sabin بنانے کی تفصیل ذکر کی ہے جس میں بندر کے گردے کے خلیے کے استعمال کا ذکر ہے۔(۳)

*       آسٹریلیا کے ڈاکٹروں اور سائنسدانوں کی ایک ٹیم نے ایک تحقیقی مقالہ میڈیکل جرنل آف آسٹریلیا MJA میں ۲۰۰۶/ میں لکھا ہے، جس کے اندر پولیو ویکسین کے اجزائے ترکیبی میں بندر کے خلیے کے استعمال کا ذکر موجود ہے۔(۴)

*       نیل ملر نے ایک تحقیقی مقالہ Medical Veritas میں لکھا ہے اور اس بات پر تفصیلی بحث کی ہے کہ جو پولیو ویکسین بنانے کے لیے بندر کے خلیے استعمال کیے گئے ہیں، اس سے کئی طرح کی بیماریاں پیدا ہوسکتی ہیں جن میں ایڈز اور Mad Cow Disease کا ذکر بھی موجود ہے۔(۵)

*       نیچر (Nature) جو تحقیقی مقالوں کو چھاپنے کا سب سے اعلیٰ جرنل ہے، میں ۲۰۰۴/ کے اندر ایک تحقیقی مقالہ چھپا ہے جس میں ڈاکٹروں کی ایک ٹیم نے اس بات پر بحث کی ہے کہ جو ایڈز ہے وہ پولیو ویکسین سے نہیں پھیل رہا ہے اور اس تحقیقی مقالے میں یہ بات بھی ذکر کی گئی ہے کہ پولیو ویکسین بنانے کے لیے بندر کے گردے کے خلیے استعمال کیے جاتے ہیں۔(۶)

*       Hooper E. نے ۱۹۹۹ میں کتاب لکھی ہے جو کہ لندن میں چھپی ہے، جس میں ایڈز کو پولیو کے قطروں کا شاخسانہ قرار دیاگیا ہے۔(۷)

          ان تمام تفصیلات کے بتانے کے بعد ہم دعا گو ہیں کہ اللہ رب العزت ہمیں حلال کو حلال اور حرام کو حرام سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین!

***

حوالہ جات

(1)           Wilfried A. M. Bakker, Yvonne E. Thomassen, Aart G. van't Oever, Janny Westdijk, Monique G.C.T. van Oijen, Lars C. Sundermann, Peter wan't Veld, Eelco Sleeman, Fred W. van Nimwegen, Ahd Hamidi, Gideon F.A. Kersten, Nico van den Heuvel, Jan T. Hendriks, Leo A. van der pol, Inactivated polio Vaccine development for technology transfer using attenuated sabin poliovirus strains to shift from Salk-IPV to Sabin- IPV, Elsevier Vaccine Journal, vol 20, pages 7188-7196, 2011

(2)           Agreement between KAKETSUKEN (The Chemo-Sero-Therapeutic Research Institute) and Astellas Pharma Inc., July 27, 2012.

(3)           MedSafe: http://www.medsafe.govt.nz/profs/datasheet/p/poliosabinoralsus.htm

(4)           Barbara E Eldred, Angela J Dean, Treasre M McGuire and Allan L Nash, Vaccine components and constituents: responding to consumer concerns, MJA, Volume 184, Number 4, 20 February 2006.

(5)           Neil Z. Miller, The polio vaccine: a critical assessment of it’s a cane history, efficacy, and long-term health-related consequences, Medical Veritas 1 (2004) 239-251.

(6)           Michael Worobey et al., Contaminated polio vaccine theory refuted, NATURE, Vol 428, 22 April 2004, www.nature.com/nature

(7)           Hooper, E. The River: A Journey Back to the Source of HIV and AIDS, (Penguin, London, 1999).

 

***

---------------------------------------

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ 7 - 8 ‏، جلد: 97 ‏، رمضان – شوال 1434 ہجری مطابق جولائی - اگست 2013ء