دہلی اور اقوام متحدہ کا فروغ ”زنا“ قانون

 

از: ڈاکٹر ایم اجمل فاروقی‏، ۱۵-گاندھی روڈ، دہرہ دون

 

          الگ الگ خوش نما ناموں سے دو قانونی دستاویز دہلی اور اقوام متحدہ میں قانونی شکل میں زنا، بے حیائی، بے لگام آزادی کو تحفظ دینے کے لیے وجود میں آرہی ہیں؛ حالاں کہ دہلی والی دستاویز دہلی اجتماعی عصمت دری کے پس منظر میں زنا مخالف قانون کہلائی جارہی ہے؛ مگر اس کی خصوصی شق جس پر سب سے زیادہ زور دیاگیا ہے، وہ یہ ہے کہ زنا بالرضا (رضامندی سے غیرقانونی جنسی فعل) کی عمر میں لڑکی کی مرضی کی عمر۱۸ سال سے کم کرکے ۱۶ سال کردی جائے گی، یعنی اب لڑکی جو ۱۶ سال کی ہوگئی ہو، اپنی مرضی سے کسی سے بھی جنسی تعلق استوار کرسکے گی (حکومت میں اس پر اختلاف ہے؛ مگر فیصلہ اسی کے حق میں ہونے کی امید ہے) اور کوئی بھی اسے روک نہیں سکے گا، ماں باپ بھی نہیں اور جس طرح یہ پہلے جرم سمجھا جاتا تھا، اب یہ جرم نہیں رہے گا۔ اس کے علاوہ دہلی کی دستاویز میں جس طرح تاک جھانک ، گھورنا، چھونا وغیرہ کو قابل دست اندازی پولیس جرم بنایا گیا ہے، اور زنا کی تشریح اس طرح کی گئی ہے کہ اس میں متاثرہ Victim ہمیشہ خاتون ہوگی اورمرد ہمیشہ مجرم ہوگا۔ یعنی اس کو ناممکن مانا گیا ہے کہ عورت کبھی بھی مرد کو زنا کرنے پر مجبور کرسکتی۔ قانون کا نام ”زنا مخالف بل“Anti rape law ہے؛ مگر یہ سب سے زیادہ زور زنا کے محرکات کو فروغ دینے والی شق پر کیوں دے رہا ہے؟ اپنی مرضی سے شادی کرنے کی عمر ۱۸ سال اور زنا کرنے کی عمر ۱۶ سال، یہ ہے انسانی دماغ کی قانون سازی کے ناقص ہونے کا بہترین نمونہ۔ ہندوستان میں یہ ”فروغ زنا قانون“ بنایا جارہا ہے، اس کے لیے سارا فکری، ذہنی اور سازشی مواد دراصل اقوام متحدہ کی آڑ میں بین الاقوامی شیطانی، دجالی تہذیب کے سرداروں؛ بلکہ ائمہٴ ضلالت وخباثت امریکہ، یوروپ اور اسرائیل سے منظم طریقہ سے مہیا کرایا جارہا ہے۔ ایک طرف یہ ادارہ مذہبی شخصیات کی توہین کے خلاف قانون پاس نہیں کررہا ہے، جس سے دنیا کے ہر مذہب کے ماننے والے دنیا کی بڑی آبادی کے لوگ سکون حاصل کرسکیں، اور یہی ادارہ اِن مسلم ممالک پر دباؤ ڈال رہا ہے جہاں توہین رسالت کے خلاف قوانین بنائے گئے ہیں؛ مگر دنیا بھر میں جنگ وجدال، ہتھیاروں کی تجارت، بھکمری، بے روزگاری، ماحولیاتی آلودگی، لڑکیوں کی کم ہوتی تعداد، ڈرگس اور الکوحل، سگریٹ کے بڑھتے استعمال کو کنٹرول کرنے میں دلچسپی نہیں دکھا رہا ہے۔ ابھی اقوام متحدہ نے ”خواتین کے حقوق کے اعلامیہ“ کی آڑ میں جس طرح یوروپ اور امریکہ کی جنسی بے راہ روی، حرامی بچوں، بے شادی کے جوڑوں، ہم جنسی، طلاق کی بے پناہ کثرت، عزت اور عصمت فروشی، جسم فروشی کی غلیظ تہذیب کو اقوامِ عالم پر تھوپنے کی شیطانی کوشش کی ہے، وہ دنیا کے تمام انسان دوست طاقتوں کو اس کے خلاف صف آرا ہونے کے لیے آخری موقع ہوسکتا ہے۔ پہلے ذرا اس شیطانی دستاویز کے نکات پر سرسری نظر ڈال لیں- شوہر کی اجازت کے بغیر سفر کرنے، نوکری کرنے، مانع حمل دواؤ کا استعمال کرنے، جنسی تعلقات بنانے، اسقاطِ حمل کرانے، کم عمر لڑکیوں کے لیے مانع حمل ادویات کا استعمال کرنے، بچوں کی پرورش میں زن وشوہر میں ذمہ داریاں تقسیم ہوجانے کی آزادی ہوگی۔ بچوں کی پیدائش پر بھی خاتون کا کنٹرول ہوگا، خاتون اپنے شوہر کے خلاف زنا یا جنسی دست درازی کا مقدمہ درج کراسکے گی۔ اس دستاویز کے ذریعہ ہم جنس پرستوں، عورتوں کا کاروبار کرنے والوں، ولدالزنا (ناجائز اولادوں)، شوہروں کے ساتھ دوسروں سے بھی جنسی تعلقات بنانے والیوں کے برابر کے حقوق دیے جانے کا حکم دیاگیا ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ اس دستاویز کے خلاف امت مسلمہ کی تنظیم O.I.C. یا خادم الحرمین شریفین کی حکومت یا عرب حکومتوں کا مجموعی طور پر کوئی مزاحمتی رویّہ سامنے نہیں آیا۔ بھارت بھی اپنی سنسکرتی کی لاج بچانے کے بجائے ”ترقی پسند“ حقوق نسواں کا چمپین کہلانے کے شوق میں چپ رہا۔ صرف روس، ویٹکن، مصر، لبنان، ایران، فلسطین، اردن، تیونسیا نے مخالفت میں آواز اٹھائی، سب سے زیادہ خوشی کا اظہار دجّالی تہذیب کے سردار کی جانب سے ہی کیاگیا ہے۔

          دہلی اور اقوام متحدہ کی دستاویز پوری دنیائے انسانیت کو اس بربادی، خاندانی انتشار، جنسی بے راہ روی، طلاق کی کثرت، ناجائز اولادوں کی کھیپ بڑھانے، معاشرہ میں بھروسہ اعتماد اور محبت وتعاون کے جذبہ کی فضاء کو ختم کرنے کی طرف لے جارہی ہے، جس سے آج امریکہ یوروپ اور ان کے دل دادہ غلام حکمراں لے جانا چاہتے ہیں۔ یہ سب مل کر دنیا میں عدل، امن، انصاف، سماجی، اقتصادی، معاشی برابری اور انصاف کی حکمرانی کے بجائے دنیا میں نفس پرستی، امیر طبقہ کی عیاشیوں اور سرمایہ داروں کی تجوریوں کو بھرنے کا ماحول بنانا چاہتے ہیں۔

          اقوام متحدہ اور دہلی کے لال بجھکڑوں سے صرف ایک سوال ہے کہ کیا پورے امریکہ اور یوروپ میں پچھلے کم سے کم ایک سو سالوں سے ہی قوانین جاری و ساری نہیں ہیں؟ تو کیا وہاں عورتوں کی حالت، خاندانی نظام، امراض خبیثہ کی شرح، طلاق کی شرح، ناجائز اولادوں کی شرحِ پیدائش، شادی کے باہر تعلقات کے نتیجہ میں ہونے والا تشدد اور مایوسی وانتشار کی سطح تمام دنیا کے لیے لائق تقلید ہے؟ کیا مغرب کی عورت آج خود مطمئن ہے؟ کیا یہ خواہش پرستی ہمیں جانوروں کی سطح پر نہیں لارہی ہے، شاید اُس سے بھی کمتر سطح پر؛ کیونکہ شاید جانوروں میں ہم جنس پرستی نہیں پائی جاتی، ہاں ہوسکتا ہے کہ وہ اقوام متحدہ اور دہلی کی دستاویزوں کے عملی نمونوں سے شہ پاکر انسانوں کی طرح ترقی یافتہ ہوجائیں۔ گمراہی اور انسانی تباہی کی طرف نسل انسانی کو دعوت دینے والے یہ سارے ادارہ اور افراد کیا اتنے جاہل اور اندھے ہیں کہ انھیں نظر نہیں آتا کہ دونوں کی ظاہری اور اندرونی بناوٹ، ساخت، افعال، ہارمون، حیض، حمل، نفاس کا مختلف نظام کسی طرح چیخ چیخ کر اپنے لیے الگ الگ طرح کے حقوق اور دائرہ کار کا تقاضہ کررہے ہیں؟ کیا ماضی میں کبھی بھی اس فطرت سے بغاوت کرنے والی کوئی بھی تہذیب باقی رہ سکی؟ کیا برائی یا بے انصافی کا علاج زیادہ بڑی برائی اور بے انصافی سے ممکن ہے؟ اگر اقوام متحدہ اور مغرب تقسیم دائرہ کار کو نہیں مانتا تو ان کو ریکارڈ دکھانا ہوگا کہ پچھلے سوسالوں میں کتنی خواتین C.E.O ہوئیں، FBI. CIA یا کسی بھی یوروپی ملک کی کمانڈر انچیف مقرر ہوئیں؟ سوائے عریانیت کے دنیا کو اس آزادی نے کیا دیا؟ کم سے کم امت مسلمہ کے پاس اَمر بالمعروف ونہی عن المنکر ایسے حال میں فرض ولازم ہے۔

***

--------------------------------------------

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ 7 - 8 ‏، جلد: 97 ‏، رمضان – شوال 1434 ہجری مطابق جولائی - اگست 2013ء