ایک ”محدث گر“ کی رحلت

 

از: مولانا محمد صاحب پرتاب گڑھی‏، استاذ فیض العلوم، نیرل

 

          حضرت مولانا زین العابدین صاحب ایک محدث ہی نہیں؛بلکہ محدث گر تھے ،وہ نہ صرف ناقد ،اصولی اورفن اسماء الرجال کے ماہر تھے۔ان کی سادگی ،بے نفسی ،تو ا ضع،فروتنی اورعاجزی کودیکھ کر کوئی اندازہ نہیں لگاسکتا تھا کہ وہ دریائے علم کے اتنے بڑے شناور اورفضل وکمال کے اتنے بڑے پیکر ہیں۔ میانہ قد،سرپرعمامہ ،ہاتھ میں عصا، منھ میں پان اور لب پرسرخی کے خفیف اثرات، سرخی مائل چہرہ، نحیف وناتواں جسم کے اس مشت استخواں کو دیکھ کر شائبہ بھی نہ گزر تا کہ علوم ومعارف کے ایسے ایسے دریا ان کے سینے میں موج زن ہوں گے۔سنا ہے کہ زمانہ طالب علمی میں مولاناکے ذوق مطالعہ کا یہ عالم تھا کہ جمعہ کے دن جب ہفتہ واری تعطیل رہتی ؛تو آپ نے ناظم کتب خانہ سے معاہدہ کررکھا تھا کہ وہ آپ کو صبح سویرے کتب خانہ کے اندرداخل کرکے باہر سے دروازہ بند کردیتے اور نماز جمعہ تک آپ محو مطالعہ رہتے ۔اسی طرح آپ چھٹی کے دنوں میں بھی کتابوں کا کیڑہ بنے رہتے تھے ۔اس دور انحطاط وتنزل میں وہ سلف صالحین اورقدیم علماء و محدثین کی جیتی جاگتی تصویر تھے، وہ اپنے علم وفضل ،تقوی وطہارت ،صبر وشکر ، سادگی وانکساری اورخشیت وانابت میں قرون اولی کی یاد گار تھے ۔علم حدیث اور فن اسماء الرجال تو خیر حضرت مولانا کا خصوصی فن تھا ،دیگر علوم میں بھی ان کو اتنی مہارت تامہ حاصل تھی کہ انتہائی مشکل سے مشکل گتھی اور پیچیدہ سے پیچیدہ علمی مباحث کو چٹکیوں میں حل فرمادیتے تھے ،میرے بڑے بھائی مولانا صغیر صاحب حضرت علامہ انور شاہ کشمیر ی رحمة اللہ علیہ کی” رد قادیانیت“ کی بابت معرکةالآراء تصنیف ”عقیدة الاسلام فی حیات عیسی علیہ االسلام “کی ترجمانی کا کام حضرت مولانا انظر شاہ صاحب علیہ الرحمہ کے حسب حکم کررہے تھے ،اس وقت مشکل مباحث اور پیچیدہ گتھیوں کا حل حضرت مولانا زین العابدین اعظمی کے پاس ہی ملتا تھا۔حضرت مولانا کتاب کو صرف ایک نظر دیکھتے اورفوراًپوری بحث کا خلاصہ بتادیتے تھے،جب کہ بعض مرتبہ اسی عبارت کے حل کے لیے اس سے پہلے کی جانے والی بڑی سے بڑی کوشش بے سود ثابت ہوچکی ہوتی۔اساتذئہ دارالعلوم دیوبند میں سے ایک قدیم اورمشہور ومعروف استاذ نے بھائی صاحب سے پوچھا تھاکہ مولانا صغیر! اس کتاب کو تم حل کیسے کرتے ہو؟میں نے تو اسے سات مرتبہ پڑھا ؛مگر میری سمجھ میں نہیں آئی۔اس کتاب کا حوالہ حضرت علامہ شبیر احمد عثمانی رحمة اللہ علیہ نے تفسیر عثمانی برترجمہ شیخ الہند میں آیت ”اِذْقَالَ اللہُ یَا عِیْسٰی إنِّی مُتَوَفِّیْکَ“ کی تفسیر کرتے ہوئے دیا ہے اور آخر میں لکھا ہے:اہل علم حضرا ت سے میری یہ گزار ش ہے کہ اس کتاب کو پڑھنے کی ہمت فرمائیں ۔

          حضرت مولانازین العابدین صاحب اعظمی کی پوری زندگی جہد مسلسل اور عمل ِپیہم سے عبارت تھی ،وہ اپنے شاگردوں اور خدام کے جھرمٹ میں بھی اپنا ذاتی کام خود سے انجام دے لینے میں کبھی کسی قسم کا تکلف محسوس نہ کرتے ،زندگی میں انہیں جن پرُپیچ راہوں اور دشوار گزار گھاٹیوں سے واسطہ پڑاتھا،ان کی وجہ سے وہ منجھ کر کندن بن گئے تھے ، مشکل سے مشکل احوال میں دینی خدمات کی انجام دہی اور علوم اسلامیہ کی حفاظت کے لیے ہمہ وقت کمربستہ رہنا ان کا خصوصی امتیاز تھا،انھوں نے اس راہ میں بڑی اولوالعزمی اور خندہ پیشانی کے ساتھ تمام مصیبتوں اور پریشانیوں کا سامناکیاتھا۔و ہ سنت نبوی کے حقیقی شیدائی اور علم دین کے سچے عاشق تھے ۔ایسا نہ تھا کہ دینی وعلمی تعلیم وتدریس میں ان کی مشغولیت کسی مجبوری کا نتیجہ تھی،بلکہ ان کے گھر پر نہایت عمدہ” بنارسی ساڑیاں“ بنانے کا کارخانہ تھا ،وہ اس میں لگ کر ایک مال دار اور اعلی صنعت کار بن سکتے تھے ؛مگر انھوں نے ان بکھیڑوں سے یکسوہوکر ”لیلائے علم“ کے گیسو سنوارنے کے لیے اپنے آپ کو وقف کررکھاتھا،وہ ضرورت کا ہر کام از خود اپنے ہاتھ سے کرنے کے عادی تھے۔یاد پڑتا ہے کہ بڑے بھائی مولانا صغیر صاحب جس زمانہ میں مظاہرعلوم کے شعبہ تخصص فی الحدیث میں تعلیم حاصل کررہے تھے،ان کے ساتھ حضرت مولانا سید ارشدمدنی دامت برکاتہم العالیہ کے فرزند ارجمند مولانا سید ازہر مدنی بھی تھے،یہ حضرات کھانا اورناشتہ وغیرہ ساتھ ہی کیا کرتے تھے، بند ہ راقم انہی ایام میں گنگوہ پڑھنے کے لیے گیا تھا ؛مگر طبیعت نہ لگنے کی وجہ سے گنگوہ سے واپس آکر بھائی جان کے پاس ”شعبہ تخصص“ کے احاطہ ہی میں ڈیرہ ڈالے ہوا تھا ،ہولی کا دن تھا ،اس دن مدرسہ کا دروازہ دن بھر بند رہتا ،باہر رہنے والے اساتذہ اس دن دوپہر کو باہر نہیں نکلتے؛تاکہ کسی ناخوش گوار واقعہ سے بچا جاسکے، بھائی صاحب نے بتایا کہ آج حضرت الاستاذمولانااعظمی اور مولانا عبد اللہ صاحب معروفی ساتھ ہی میں کھانا تناول فرمائیں گے۔ مولاناعبد اللہ صاحب حضرت کے بھتیجے اور ان کے خصوصی تربیت یافتہ شاگر د ہیں،پہلے وہ مظاہرعلوم کے شعبہ تخصص میں استاذ تھے،بعد میں جب یہ شعبہ دارالعلوم دیوبند میں قائم ہوا ؛تو انتظامیہ دارالعلوم نے ان کو حضرت مولانا نعمت اللہ اعظمی کے تعاون کے لیے دارالعلوم دیوبندطلب کرلیا۔کھانا کھاتے وقت دیکھا کہ حضرت کے گھر سے جو کھانے کاڈبہ آیا ہے،اس میں کا گوشت کچھ کچّا رہ گیا تھا،حضرت فرمانے لگے کہ بھائی ہولی کی وجہ سے جلدی جلدی میں فجر سے پہلے ہی کھانا پکایا گیا تھا،اس وجہ سے گوشت ذرا کم پکاہے ۔حیرت وتعجب تو اس وقت ہوا ؛جب معلوم ہوا کہ وہ پورا کھانا خود حضرت مولانا نے اپنے ہاتھوں سے بنایا تھا ۔اللہ اکبر! یہ محدث کبیر اور عمر کے اس نہائی حصہ میں! اورحال یہ کہ اپنا ذاتی کام اس خاموشی اور چابکدستی سے انجام دے لیتے ہیں کہ شاگردوں کوخبر بھی نہیں ہونے پاتی!اس کو کہتے ہیں استغناء اورزہد عن الدنیا، اس کو کہتے ہیں ورع اور تقوی!۔

          علاوہ استاذی وشاگردی کے رشتہ کے؛ کچھ اس وجہ سے بھی بھائی صاحب، حضرت مولانا اعظمی کے الطاف وعنایات کے خاص مورد تھے کہ حضرت مولاناا ورہمارے والد ماجد مولانا محمد یار صاحب پرتا پ گڑھی دونوں کا زمانہٴ طالب علمی ایک ہی تھا،اوردونوں ہی میکدئہ مدنی (حضرت مولانا حسین احمد مدنی )کے قدح خواروں میں تھے ؛اس وجہ سے حضرت مولانا دیوبند تشریف لاتے ؛تو بھائی کے مکان پر قیام فرماتے اور اپنی عنایتوں و شفقتوں سے ہم لوگوں کو گراں بار فرماتے۔ خداوند قدوس نے مولانا زین العابدین صاحب کو تصنیف وتالیف کا بھی عمدہ ذوق عطافرمایا تھا،بڑے بڑے علماء اپنے علمی مضامین اورتحقیقی کتابوں کی اصلاح آپ سے کرایا کرتے تھے۔حضرت مولانا کا اچھاخاصا وقت ان ہی امورمیں صرف ہوجایا کرتاتھا۔ نامور اور معتبر علماء کی غیر مستند باتو ں پر آپ استدراک بھی فرمایا کرتے تھے۔ آپ نے اپنے استاذ حضرت مولانا عبد الجبارصاحب معروفی کی عظیم علمی شاہکار”امدادالباری شرح بخاری “جو تشنہ تکمیل رہ گئی تھی ؛اس کا تکملہ لکھا۔محدث جلیل حضرت علامہ طاہرپٹنی کی اسماء الرجال سے متعلق مشہورومعروف تصنیف ”کتاب المغنی “کو اپنے حاشیہ اورتحقیق وتعلیق سے مرصع ومزین کیا ۔ فارسی زبان میں”علمائے ہندوسندھ“ کے تذکروں پرمشتمل”رحمان علی صاحب“ کی کتاب ”تذکرہ علماء ہند“ کا اردو ترجمہ کیا ۔حضرت مولانا سید ابوالحسن علی میاں ندوی کی کتاب” المرتضیٰ“ پر علمی نقد لکھا۔ تبلیغی جماعت کے امور ستہ کو کتاب وسنت کے حوالوں سے مبرہن کیا۔علامہ ذہبی کے رسالہ ”من یعتمد قولہ فی الجرح والتعدیل “میں مذکور اصولیین محدثین کے تراجم کو ایک مستقل تصنیف میں یکجا کیا ۔امام ترمذی نے اپنی سنن میں جن روایات پرحسن، صحیح ،حسن صحیح ،حسن غریب ،حسن صحیح غریب ،غیرمحفوظ، مضطرب وغیرہ کا حکم لگایا ہے ؛ان کو شمار کرکے ان پر اجمالاًو تفصیلاً احکام لگائے ۔ شرح عقائد نسفی کی عربی زبان میں شرح لکھی اوراردو زبان میں بھی اس کا ایک مختصراور جامع نوٹ تیارکیا۔اسماء حسنیٰ اورالقراء ة المسنونہ نام کی کتابیں الگ سے تصنیف کیں۔ وہ صاحب نسبت بزرگ اورشیخ طریقت بھی تھے ،اس سلسلے میں ان کو اجازت وخلافت اپنے استاذ وشیخ حضرت مولانا عبد الجبارصاحب اعظمی شیخ الحدیث مدرسہ شاہی مرادآباد سے تھی،رمضان المبارک کی چھٹیوں میں جب مولانا زین العابدین صاحب اپنے وطن میں ہوتے؛تو طالبین ومسترشدین کی ایک بڑی جماعت آپ کے ہمراہ اعتکاف میں ہواکرتی اوراپنے دلوں کو مزکی ومصفی کرتی ۔

          مولانا زین العابدین صاحب اطراف اعظم گڑھ کی مشہورومعروف علمی بستی قصبہ ”پورہ معروف“ضلع ”مئو“ کے رہنے والے تھے۔ان کی ولادت اکتوبر ۱۹۳۲ء میں ہوئی تھی۔انھوں نے ابتدائی تعلیم پورہ معروف ہی میں حاصل کی۔وہاں آپ کے اہم اساتذہ میں حضرت مولانا عبدالستار صاحب معروفی سابق شیخ الحدیث دارالعلوم ندوة العلماء تھے؛ جب کہ عربی تعلیم کے لیے آپ نے مدرسہ” احیاء العلوم مبار ک پور“ اعظم گڑھ میں داخلہ لیا؛جہاں حضرت مولانا عبدالجبارصاحب سابق شیخ الحدیث مدرسہ شاہی مرادآباد وغیرہ کے پاس تحصیل علم کیا۔پھر مزید علمی تشنگی نے آپ کو” دارالعلوم دیوبند“ پہونچادیا؛ جہاں آپ نے چار سال تک قیام کرکے علوم نقلیہ قرآن وحدیث وفقہ اورعلوم عقلیہ منطق ،فلسفہ وغیرہ میں مہارت حاصل کی ۔ ۱۳۷۲/ھ میں اپنے تمام ساتھیوں پرسبقت حاصل کرتے ہوئے آپ نے دورہٴ حدیث شریف میں اول درجے سے کامیابی حاصل کی ۔ دارالعلوم دیوبند میں آپ کے اہم اساتذہ میں حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی ،مولانا اعزاز علی امروہوی ،علامہ محمد ابراہیم بلیاوی رحمہم اللہ وغیرہم ہیں۔فراغت کے بعد اپنے استاذ حضرت مولانا اعزاز علی امروہوی رحمہ اللہ کے مشور ہ سے میرٹھ کے آس پاس تدریسی خدمات انجام دیں،پھرآسام کے مدرسے میں تعلیم وتعلم سے وابستہ رہے ۔اس کے بعد اپنے مادرعلمی احیاء العلوم مبارکپور اعظم گڑھ میں آئے اور بارہ سال تک تدریسی خدمات انجام دیں، پھرمدرسة الاصلاح سرائے میر میں بھی ۸ /سال تک مدرس رہے ،پانچ سال تک ”چھاپی“ گجرات کے مدرسہ میں بھی تعلیمی خدمات انجام دیں،پھرمدرسہ مظہرالعلوم بنارس میں ۱۵/سال تک شیخ الحدیث کے عہدے پرفائز رہے ۔دارالعلوم سبیل السلام حیدرآباد میں بھی دوسال تک تدریسی خدمات انجام دیں۔اس کے بعد مظاہرعلوم سہارنپور میں شعبہ تخصص فی الحدیث کے بانی و سربراہ کی حیثیت سے آپ نے ۱۸/سال گزارکرگزشتہ ۲۸/اپریل ۲۰۱۳ء کو جان جاں آفریں کے حوالہ کردی ۔اس طرح علم حدیث نبوی کا یہ نیرتاباں پون صدی تک علم حدیث کی عظیم ترین خدمات انجام دینے اورآسمان علم کو اپنی ضوفشانیوں اور درخشانیوں سے منور کرنے کے بعد قصبہ پورہ معروف ضلع مئو کے شہر خموشاں میں ہمیشہ ہمیش کے لیے روپوش ہوگیا۔

آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے!

***

---------------------------------------------

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ 7 - 8 ‏، جلد: 97 ‏، رمضان – شوال 1434 ہجری مطابق جولائی - اگست 2013ء