مسنون سلام اسلامی تہذیب کا اٹوٹ حصہ

 

از: مولانامحمد تبریز عالم قاسمی‏،استاذ دارالعلوم حیدرآباد

 

اسلام ایک ایسا آفاقی اور ہمہ گیر مذہب ہے، جس کی ہر تعلیم کی بنیاد فلاح وکامیابی اور خیر وبرکت پر ہے، اس کی عالمگیر تعلیمات میں معاشرے کی بھلائی، سماج کا سدھار، کلچر کا حسن اور سارے جہاں کا امن وامان پنہاں ہے؛ اور یہ ایسی بات ہے جس کی گواہی اپنے پرائے سب نے دی ہے، اس کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ اس کی تعلیمات ابدی ہیں، جن میں قیامت تک کے آنے والے انسانوں کا خیال یکساں رکھا گیا ہے؛ ایسی ہی ابدی اور عالمگیر تعلیم کا ایک اٹوٹ حصہ، ”اسلامی سلام“ ہے۔

           اسلام میں، اتحاد و اتفاق اور اخوت والفت کو پوری انسانیت کے لیے بالعموم اور سارے مسلمانوں کے لیے بالخصوص ضروری قرار دیاگیاہے، انفرادیت، اختلاف اور انتشار وخلفشار کو ناپسندیدہ بتایاگیا ہے، خدا تعالیٰ کا ارشاد ہے: ”انَّمَا الْمُوٴْمِنُوْنَ اخْوَةٌ فَأصْلِحُوْا بَیْنَ أخَوَیْکُمْ“ (الحجرات) دوسری جگہ ہے: ”وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللہِ جَمِیْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوا“ (آل عمران) اسی اتحاد واتفاق کو مضبوط سے مضبوط کرنے، باہمی قلبی ربط، آپسی مواسات ومساوات اور محبتِ دینی کو پختہ اور کامل ومکمل کرنے کے لیے اسلام نے ایک دوسرے کو ”اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ“ کے ذریعہ سلام کرنے کی تعلیم وتلقین کی اور مسلمانوں پر ضروری قرار دیاگیا کہ جب وہ ایک دوسرے سے ملیں تو ایک دوسرے کو امن وسلامتی کی دعادیں؛ تاکہ یہ آپسی دل جمعی اور باہمی ربط و محبت کا ذریعہ بنے؛ اور یہ جملہ اتنا گراں قدر ہے کہ اگر اس کو اخلاص کے ساتھ برتا جائے تو اس کی وجہ سے معاشرے کی برائی، ایک دوسرے سے دوری، ناراضگی، غلط فہمی، بغض وکینہ اور عداوت وحسد نہ صرف کم ہوں گے؛ بلکہ ان شاء اللہ ختم ہوجائیں گے اور انسان کو ایک ایسا معاشرہ نصیب ہوگا، جس کی معطر فضا میں وہ کھل کر سانس لے سکے گا۔

          اسلامی سلام کی خوبی، مثبت نتیجہ خیزی اوراس کی جامعیت پر روشنی ڈالتے ہوئے مفتی محمد شفیع صاحب رقم طراز ہیں:

          ”دنیا کی ہر مہذب قوم میں اس کا رواج ہے کہ جب آپس میں ملاقات کریں تو کوئی کلمہ آپس کی موانست اور اظہارِ محبت کے لیے کہیں؛ لیکن موازنہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ” اسلامی سلام“ جتنا جامع ہے، کوئی دوسرا ایسا جامع نہیں؛ کیوں کہ اس میں صرف اظہارِ محبت ہی نہیں؛ بلکہ ساتھ ساتھ ادائے حقِ محبت بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کرتے ہیں کہ آپ کو تمام آفات اور آلام سے سلامت رکھیں، پھر دعا بھی عربِ جاہلیت کے طرز پر صرف زندہ رہنے کی نہیں؛ بلکہ حیاتِ طیبہ کی دعا ہے یعنی تمام آفات اور آلام سے محفوظ رہنے کی، اسی کے ساتھ اس کا بھی اظہار ہے کہ ہم اور تم سب اللہ تعالیٰ کے محتاج ہیں، ایک دوسرے کو کوئی نفع بغیر اس کے اذن کے نہیں پہنچاسکتا، اس معنی کے اعتبار سے یہ کلمہ ایک عبادت بھی ہے اور اپنے بھائی مسلمان کو خدا تعالیٰ کی یاد دلانے کا ذریعہ بھی۔

          اسی کے ساتھ اگر یہ دیکھا جائے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ سے یہ دعا مانگ رہا ہے کہ ہمارے ساتھی کو تمام آفات اور تکالیف سے محفوظ فرمادے، تو اس کے ضمن میں وہ گویا یہ وعدہ کررہا ہے کہ تم میرے ہاتھ اور زبان سے مامون ہو، تمہاری جان، مال، آبرو کا میں محافظ ہوں۔ (معارف القرآن:۲/۵۰۳)

مسنون سلام کو رواج دیجیے

          ”سلام“ چوں کہ عربی زبان کا لفظ ہے، اس کی ادائیگی میں کبھی ناواقفیت کی وجہ سے غلطیاں ہوجاتی ہیں؛ اس لیے ذیل میں صحیح اور مسنون طریقہ درج کیا جارہا ہے:

          افضل اور مسنون یہ ہے کہ ”اَلسَّلاَمُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَةُ اللہِ وَبَرَکَاتُہ “ کہا جائے اور ادنیٰ درجہ کا سلام ”اَلسَّلاَمُ عَلَیْکُمْ“ ہے، اس پر دس نیکیاں ملتی ہیں اور ”رحمةُ اللہ“ کے اضافہ پر دس نیکیاں مزید بڑھ جاتی ہیں اور ”وبَرَکاتُہ“ کا اضافہ کرنا بہتر ہے اور زیادتی ثواب کے سلسلے میں اس کا حکم وہی ہے جو سلام کرنے والے کے لیے ہے(مظاہرِحق ۵/۳۴۵، ردالمحتار ۹/۵۹۳، فتاویٰ رحیمیہ ۱۰/۱۳۳)

          قرآن کی آیت ”وَاِذَا حُیِّیْتُمْ بِتَحِیَّةٍ فَحَیُّواْ بِاَحْسَنَ مِنْھَا“ اور حضور علیہ السلام کے طرزِ عمل سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ سلام کا جواب اس سے اچھے الفاظ میں دیا جائے، جس کی صورت یہ ہے کہ سلام کرنے والے کے الفاظ سے بڑھا کر جواب دیا جائے، مثلاً جس نے کہا: ”اَلسَّلاَمُ عَلَیْکُمْ“ تو آپ جواب دیں: ”وَعَلَیْکُمُ السَّلاَمُ وَرَحْمَةُ اللہ“ اور اس نے کہا: ”السَّلامُ عَلَیْکُمُ وَرَحْمَةُ اللہ“ تو آپ جواب دیں: ”وَعَلَیْکُمُ السَّلاَمُ وَرَحْمَةُ اللہ وَبَرَکَاتُہ “ کلمات کی زیادتی صرف تین کلمات تک مسنون ہے، اس سے زیادہ کرنا مسنون نہیں؛ اسی لیے جب ایک صاحب نے اپنے ابتدائی سلام میں ہی تینوں کلمے جمع کردیے تو حضور پرنور صلی اللہ علیہ وسلم نے آگے اور زیادتی سے احتراز فرمایا۔

چند ضروری مسائل

          ترمذی کی ایک حدیث میں ہے کہ جب آدمی اپنے گھر میں جائے تو اپنے گھر والوں کو سلام کرنا چاہیے کہ اس سے اس کے لیے بھی برکت ہوگی اور اس کے گھر والوں کے لیے بھی، ابوداؤد کی ایک حدیث میں ہے کہ ایک مسلمان سے بار بار ملاقات ہوتو ہر مرتبہ سلام کرنا چاہیے اور جس طرح اوّل ملاقات کے وقت سلام کرنا مسنون ہے، اسی طرح رخصت کے وقت بھی سلام کرنا مسنون اور ثواب ہے؛ البتہ چند حالات مستثنیٰ ہیں، جو شخص نماز پڑھ رہا ہے؛ اگر کوئی اس کو سلام کرے تو جواب دینا واجب نہیں؛ بلکہ مفسدِ نماز ہے، اسی طرح جو شخص خطبہ دے رہا ہے یا قرآن مجید کی تلاوت میں مشغول ہے یا اذان یا اقامت کہہ رہا ہے، یا دینی کتابوں کا درس سے دے رہا ہے، یا انسانی ضروریات استنجاء وغیرہ میں مشغول ہے، اس کو اس حالت میں سلام کرنا بھی جائز نہیں اوراس کے ذمہ جواب دینا بھی واجب نہیں، نامحرم اوراجنبی عورتوں کو سلام کرنا مکروہ ہے، (ردالمحتار ۹/۵۹۳، مظاہر حق ۵/۳۵۹، رحیمہ ۱۰/۱۳۰، معارف ۲/۵۰۵)

تنبیہ

          (۱)      سَلَامْ عَلَیْکُمْ (بغیر الف لام اور میم کے سکون کے ساتھ) یا سَلاَمَالیکم اور سلامْ لیکم وغیرہ جو ہمارے دیار میں رائج ہیں؛ بہ قول علامہ شامی: یہ سلام مسنون نہیں ہیں، صحیح اور مسنون سلام السلامُ عَلیکم ہے۔

          (۲)      صرف ہاتھ کے اشارہ پر اکتفا کرنا بدعت ہے؛ البتہ سلام اوراشارہ دونوں کو جمع کرنے کی گنجائش ہے، اگرچہ بہتر نہیں ہے، ہاں! اگر سامنے والا دُور ہوتو الفاظ کے ساتھ ہاتھ کا اشارہ بھی کرنا چاہیے۔

          مفتی محمد شفیع صاحب لکھتے ہیں:

          کاش مسلمان اس کلمہ کو عام لوگوں کی رسم کی طرح ادا نہ کرے؛ بلکہ اس کی حقیقت کو سمجھ کر اختیار کرے، تو شاید پوری قوم کی اصلاح کے لیے کافی ہوجائے، یہی وجہ ہے کہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کے باہم سلام کو رواج دینے کی بڑی تاکید فرمائی اوراس کو افضلُ الاعمال قرار دیا اور اس کے فضائل وبرکات اوراجر وثواب بیان فرمائے، ایک حدیث میں سلام کو محبت میں اضافہ کا سبب بتایاگیا ہے، ایک حدیث میں ہے کہ اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ قریب وہ شخص ہے جو سلام کرنے میں ابتداء کرے، دوسری حدیث میں ہے کہ وہ آدمی بڑا بخیل ہے، جو سلام میں بخل کرے۔ (معارف القرآن ۲/۵۰۳)

مصافحہ تکملہٴ سلام ہے

          مصافحہ یعنی دو آدمیوں کا باہم ایک دوسرے سے ہاتھ ملاکر مغفرت کی دعائیں دینا، حدیث میں اس کی بڑی فضیلت وارد ہوئی ہے، حضور علیہ السلام نے ارشاد فرمایا: جب دو مسلمان ملتے ہیں اور مصافحہ کرتے ہیں، ان کے جدا ہونے سے پہلے خدا ان کو بخش دیتا ہے، دوسری حدیث میں ہے تمہارا پورا سلام جو تم آپس میں کرتے ہو، مصافحہ ہے، معلوم ہوا کہ مصافحہ تکملہٴ سلام اوراس کا تتمہ ہے؛ لہٰذا پہلے سلام کرے پھر مصافحہ کرے اور مصافحہ دونوں ہاتھوں سے کرنا چاہیے، محض ایک ہاتھ سے مصافحہ کرنا، جیساکہ بعض ناواقف لوگ کرتے ہیں غیرمسنون ہے۔ (مظاہر۵/۳۶۷، فتاویٰ رحیمیہ ۱۰/۱۲۵) اور مصافحہ کے وقت ”یَغْفِرُ اللہُ لَنَا وَلَکُمْ“ پڑھنا مسنون ہے۔

لمحہٴ فکریہ

          غور فرمائیں! مسلمان چاہے جس علاقہ کا ہو، اس کی زبان چاہے جو بھی ہو، اس کا تعلق چاہے جس خاندان سے ہو، اسلام نے اس کو یہی سکھلایا کہ وہ ”اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ“ ہی کہے، اس روشن تعلیم میں اجتماع و ارتباط کا کیسا جامع اور حسین مفید نسخہ مضمر ہے، ہر مذہب میں، مذہب والوں کے لیے کچھ مخصوص علامتیں ہوتی ہیں، جس سے امتیاز ہوتا ہے کہ فلاں کس مذہب کا ماننے والا ہے، اسلام نے بھی اپنے ماننے والوں کے لیے کچھ مخصوص علامتیں مقرر کیں اور اپنی ایک الگ شناخت بنائی؛ تاکہ اسلام وکفر میں فرق ہوسکے،سلام بھی انھیں علامتوں میں سے ایک اسلامی علامت ہے، اس سے بندگانِ خدا اور باغیانِ خدا کے درمیان امتیاز وفرق ہوتا ہے؛ لیکن اس کا دوسرا رخ بڑا ہی مہیب اور تاریک وتلخ ہے، وہ یہ کہ آج اسلامی معاشرے سے پیغمبرِاسلام کی یہ سنت اور اس کی اشاعت کم ہوتی جارہی ہے، اسلام نے شناسا وغیر شناسا، ہر ایک کو سلام کرنے کی تعلیم دی ہے؛ لیکن آج اولاً سلام ہی نہیں کیا جاتا اور اگر کیا جاتا ہے تو اکثر جان پہچان ہی کے لوگوں کو، یہ ہمارے لیے لمحہٴ فکریہ ہے اوراسی کا منفی نتیجہ یہ سامنے آرہا ہے کہ باہمی الفت، دلی درد اور اخوت ومواسات کی عمارت کمزور تر ہوتی جارہی ہے۔

          موجودہ ماحول جو یورپی تہذیب سے متاثر ہے، اس بات کا متقاضی ہے کہ ہم اپنا اور اپنے گرد وپیش کا جائزہ لیں اوراس سلسلے کی جو کوتاہیاں اور کمیاں، ہماری زندگیوں میں درآئی ہیں انھیں دور کریں، سلام کو خوب رواج دیں کہ سلام اسلامی تہذیب کا اٹوٹ حصہ ہے، غیروں کی تہذیب (ہیلو، گڈبائی، نمستے، پرنام، بائے وغیرہ) سے پرہیز کریں؛ لہٰذا ہمیں اپنی تہذیب کی اشاعت اوراسے بروئے کار لانے کی کوشش کرنی چاہیے۔

          شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی نے بڑی اچھی بات لکھی ہے، اسی پر مضمون ختم کرتا ہوں۔

          جو قوم اپنے یونیفارم کی محافظ نہیں رہی، وہ بہت جلد دوسری قوموں میں منجذب ہوگئی، مسلمان جب سے ہندوستان میں ہیں، اگر اپنا یونیفارم باقی نہ رکھتے تو کب کے مٹ چکے ہوتے، انھوں نے صرف یہی نہیں کیا کہ کرتا، پاجامہ، عبا، قبا اور دستار محفوظ رکھا؛ بلکہ مذہب اور اسماء الرجال، تہذیب وکلچر، رسم ورواج اور زبان وعمارت وغیرہ جملہ اشیاء محفوظ رکھے؛ اس لیے ان کی مستقل ہستی قائم رہی اور جب تک اس کی مراعات ہوتی رہے گی، رہیں گی، لہٰذا ایک محمدی کو حسبِ اقتضاء فطرت اور عقل لازم ہوتا ہے کہ وہ اپنے آقا کا سارنگ ڈھنگ، چال چلن، صورت وسیرت، فیشن وکلچر وغیرہ بنائے اور اپنے محبوب آقا کے دشمنوں کے فیشن سے پرہیز کرے۔ (خلاصہ مکتوباتِ شیخ الاسلام ۲/۱۳۰)

          اللہ رب العزت ہم تمام مسلمانوں کو سلام کی اشاعت وترویج اور اس پر صد فیصد عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے، دنیا و آخرت کی کامیابی کا راز اسلامی تعلیمات میں ہی پوشیدہ ہے۔

***

-----------------------------------------

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ 9 - 10 ‏، جلد: 97 ‏، ذیقعدہ – ذی الحجہ 1434 ہجری مطابق ستمبر – اکتوبر 2013ء