خانوادہٴ صدیقی کے چشم وچراغ اور مشہور محدث و فقیہ

قاسم بن محمدرحمة اللہ- حیات وآثار

 

از: مفتی ابوالخیر عارف محمود‏، استاذ ورفیق شعبہٴ تصنیف وتالیف جامعہ فاروقیہ، کراچی

 

نام ونسب

          آپ مشہور محدث و فقیہ قاسم بن محمدبن أبی بکر الصدیق عبد اللہ بن عثمان بن عامر بن عمرو بن کعب بن سعد بن تمیم بن مرہ قریشی تیمی مدنی ہیں ۔( الطبقات الکبریٰ : ۵/ ۱۸۷، تہذیب الکمال : ۲۳/ ۴۳۰)

          ابو محمد ان کی کنیت ہے ،ابو عبد الرحمن بھی کہا جاتا ہے ۔( تاریخ الاسلام :۳/ ۳۲۸)

ولادت باسعادت 

          علامہ ذہبی نے ”سیر اعلام النبلاء “ میں قاسم بن محمد کی ولادت حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں ہونا نقل کی ہے ؛ جب کہ ” تاریخ الاسلام “میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت میں پیدا ہونا لکھا ہے۔( سیر اعلام النبلاء : ۵/ ۵۴ ،تاریخ الاسلام : ۳/ ۳۲۸) دونوں میں تطبیق یوں ہے کہ ان کی پیدائش اختتام خلافت حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور ابتدائے خلافت حضرت علی رضی اللہ عنہ میں ہوئی ہوگی ۔

          امام بخاری نے فرمایا کہ ان کے والد محمد بن أبی بکر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے بعد تقریباً ۳۶ ہجری میں شہیدکیے گئے تو قاسم یتیم ہوئے اورحضرت عا ئشہ رضی اللہ عنہا کی پرورش میں آئے۔ ( تہذیب الکمال ۲۳/ ۴۳۰،تہذیب التہذیب : ۸/ ۳۳۴)

دادا جا ن سے مشابہت

          حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے فرمایامیں نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی اولاد میں ان جیسا سوائے قاسم کے کسی اور کو نہیں پایا ۔( سیرأعلام النبلاء:۵/۵۵،تہذیب اکمال:۲۳/۴۳۰)

 تحصیلِ علوم

          حضرت قاسم بن محمد یتیم ہو کر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی پرورش میں آئے اور ایک طویل عرصہ ان کی صحبت میں رہے،ان سے حدیث کا علم بکثرت حاصل کیا اور دینی مسائل میں تفقہ پیدا کیا۔ ( سیر اعلام النبلاء :۵/ ۵۴ ،تذکرة الحفاظ : ۱/ ۹۷،تاریخ الاسلام : ۳/ ۳۲۸)علامہ واقدی نے اپنی سند کے ساتھ حضرت قاسم سے نقل کیا ہے ،وہ فرماتے ہیں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا خلفائے ثلاثہ حضرت ابو بکر ،حضرت عمر ،حضرت عثمان رضی اللہ عنہم کے زمانہٴ خلافت میں فتویٰ دیا کرتی تھیں اور یہ سلسلہ ان کی وفات تک جاری رہا ،حضرت قاسم کہتے ہیں کہ میں نے اپنی بچکانہ حرکتوں کے با وجود ان کی صحبت کو لازم پکڑا تھا اور میں علم کے سمندر حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہما اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی مجلس میں بیٹھا کرتا تھا، ان کے علاوہ حضرت ابنِ عمر رضی اللہ عنہا کی مجلس میں بکثرت بیٹھا کر تا تھا۔( تہذیب الکمال: ۲۳/۴۳۰،۴۳۱،سیر اعلام النبلاء :۵/۵۵)

 شیوخِ حدیث

          آپ رحمة اللہ علیہ نے حدیث کا علم حضرت عائشہ ، حضرت ابنِ عمر، حضرت ابنِ عباس، اپنی دادی حضرت اسماء بنت عمیس ، حضرت ابو ہریرہ ، حضرت فاطمہ بنت قیس ، حضرت رافع ابن خدیج ، حضرت عبد اللہ بن خباب ، حضرت عبد اللہ بن عمرو، حضرت معاویہ رضی اللہ عنہم ، اسلم مولیٰ، عمرابن الخطاب ،صالح بن خوات بن جبیر ،عبد اللہ بن جعفر بن أبی طالب ،عبد اللہ بن زبیر،عبد اللہ بن عمر اپنے چچا زاد بھائی عبد اللہ بن عبد الرحمن بن أبی بکر الصدیق ،عبد اللہ بن عمرو بن العاص ا ور عبد بن جاریہ کے دو بیٹوں سے حاصل کیا(رضی اللہ عنھم اجمعین)(تہذیب الکمال :۲۳/۴۲۷، تہذیب التہذیب :۸/۳۳۳،سیر اعلام النبلاء :۵/ ۵۴،تاریخ الاسلام : ۳/ ۳۲۸)

          ان کے علاوہ حضرت عبد اللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ اور حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا سے مرسل روایت کرتے ہیں ۔(سیر اعلام النبلاء : ۵/۵۴،تہذیب الکمال : ۲۳/ ۴۲۷، ۴۲۸) اپنے والد محمد اور دادا ابو بکرصدیق سے روایت منقطع ہے ۔( سیر أعلام النبلاء :۵/۵۴،حاشیة الکاشف:۲/۱۳۰) ابو بکر بن محمدبن عمرو بن حزام ،اور ابو عثمان وغیرہ شامل ہیں ۔

ائمہ کے توثیقی کلمات اور جلا لتِ شان

          حضرت قاسم بن محمد فقہائے مدینہ میں سے تھے ،امام ابو نعیم اصفہانی نے ”حلیة الاولیاء“ میں آپ کا تذکرہ ان الفاظ میں کیا ہے :قاسم بن محمد بن أبی بکر فقیہ،پرہیزگار ،شفیق، متواضع صدیق کے فرزند، عمدہ حسب والے،غامض احکام کے بتلانے میں فائق اور اچھے اخلاق کی طرف سبقت کرنے والے تھے ۔(حلیة الاولیاء :۲/۱۸۳)

          ابنِ عیینہ نے فرمایا کہ وہ اپنے زمانے میں سب سے افضل لوگوں میں سے تھے۔(التاریخ الکبیر: ۷/۱۵۷ ،الجرح والتعدیل :۷/۱۵۸)

          ابو الزناد نے فرمایا :”میں نے قاسم سے بڑھ کر کسی کو سنت کا عالم نہیں پایا ،اور کسی کو اس وقت تک بڑا آدمی شمار نہیں کیا جاتا؛جب تک کہ اسے سنت کا علم نہ ہو “۔(حلیة الاولیاء :۲/۱۸۴،التاریخ الکبیر :۷/۱۵۷،تاریخ الاسلام :۳/۳۲۸،سیر أعلام النبلاء ۵/ ۵۶)

          یحییٰ بن سعید نے فرمایا کہ ہم نے اپنے زمانے میں مدینہ میں کسی کو نہیں پایا کہ ہم اسے قاسم پر فضیلت دیتے ۔(تاریخ الاسلام :۳/ ۳۲۸،حلیة الاولیاء :۲/ ۱۸۴ ،تھذیب الکمال :۲۳/ ۴۳۱)

          امام بخاری نے علی بن مدینی سے نقل کیا ہے کہ قاسم بن محمد کی دوسو حدیثیں ہیں۔(تہذیب الکمال :۳۲/ ۴۳۰،سیر أعلام النبلاء:۵/ ۵۴)امام بخاری نے اپنی” صحیح“ میں حضرت قاسم کے بیٹے عبد الرحمن سے بواسطہٴ سفیان حدیث نقل کرتے ہوئے فرمایا: ”حدثنا عبد الرحمن بن القاسم وکان أفضل أھل زمانہ، أنہ سمع أباہ وکان أفضل أھل زمانہ“ ہم سے حدیث بیان کی عبد الرحمن بن قاسم نے اور وہ اپنے زمانے کے افضل ترین لوگوں سے تھے،انھوں نے اپنے والد قاسم سے سنا اور وہ اپنے زمانے کے افضل ترین لوگوں میں سے تھے ۔(کتاب الحج، باب الطیب بعد رمی الجمار والحلق قبل الإفاضة،رقم:۱۷۵۴)

          ابوالزناد نے فرمایا کہ اہلِ مدینہ میں سات بڑے لوگ ہیں (یعنی فقہاء ) جب کسی مسئلہ میں اختلاف ہوتا ہے تو ان میں سے کسی ایک کے قول کو لیا جاتا ہے ،ان میں سے ایک قاسم ہیں۔ (تاریخ الاسلام :۳/ ۳۲۸)یحییٰ بن قطان نے فرمایا کہ فقہائے مدینہ دس ہیں پھر ان میں سے قاسم کا نام لیا ۔(تاریخ الاسلام :۳/۳۲۸)عبد اللہ بن وھب کہتے ہیں کہ امام مالک نے قاسم بن محمد کا تذکرہ کیا اور فرمایا کہ وہ اس امت کے فقہاء میں سے تھے۔( تہذیب الکمال: ۲۳/ ۴۳۳، تہذیب التہذیب :۸/۳۳۴)

          امام مالک نے فرمایا ابنِ سیرین جب بیمار ہوئے اور حج پر نہ جا سکے توحج پر جانے والوں سے کہتے کہ وہ قاسم بن محمد کی سیرت،لباس وغیرہ کا جائزہ لے کر آجائیں ،لوگ واپس آکر ان کوقاسم بن محمد کے حالات و معمولات کے بارے میں بتلاتے تو ابن سیرین ، قاسم کی ا قتدا کیا کرتے تھے ۔(سیر أعلام النبلاء:۵/۵۷ ،تہذیب الکمال :۲۳/۴۳۳)

          احمد بن عبد اللہ عجلی نے فرمایا :”کان من خیار التابعین و فقھائھم“․ ایک اور جگہ فرمایا: مدنی، تابعی، ثقة، نزہ، رجل صالح“ (تہذیب التہذیب:۸/۳۳۵،سیر أعلام النبلاء: ۵/۵۷)

          مصعب بن عبد اللہ زبیری نے فرمایا : ”القاسم بن محمد من خیار التابعین “(تہذیب الکمال :۲۳/۴۳۳،تہذیب التہذیب ۸/ ۳۳۵)

تواضع اور علمی معاملات میں حزم واحتیاط

          یونس بن بکیر کہتے ہیں کہ ہم سے ابنِ اسحاق نے بیان کیاکہ ایک اعرابی قاسم بن محمد کے پاس آیا اور پوچھا کہ آپ زیادہ علم والے ہیں یا سالم؟قاسم بن محمد نے جواب میں فرمایا :سبحان اللہ! ہم میں سے ہر ایک تمہیں اپنے علم کے مطابق جواب دے گا یعنی تم جو بات معلوم کرنا چاہتے ہواس کے بارے میں سوال کرو ،اس نے پھر پوچھا کہ تمہارے میں اَعلم کون ہے؟آپ نے جواب میں کہا ؟سبحان اللہ !اس نے پھر سوال دہرایا، تو آپ نے جواب میں فرمایا :جو پوچھنا ہو سالم سے پو چھو،یہ کہہ کر اپنی جگہ سے اٹھ گئے ،ابنِ اسحاق کہتے ہیں کہ آپ نے اس بات کو نا پسند کیا کہ یہ کہیں کہ میں زیادہ جاننے والا ہوں؛ کیونکہ یہ اپنی ہی تعریف وتزکیہ ہے اور یہ بھی نا پسند کیا کہ سالم کو اَعلم کہیں؛کیوں یہ غلط بیانی تھی ،ابنِ اسحاق کہتے ہیں قاسم سالم سے زیادہ علم والے تھے۔ (سیر اعلام النبلاء:۵/۵۶،حلیة الاولیاء :۲/ ۱۸۴)

          ایوب کہتے ہیں کہ میں نے یحییٰ کو قاسم سے کچھ پوچھتے ہوئے سنا ،جواب میں قاسم کبھی لاأدری اور کبھی لاأعلم فرماتے ،یحییٰ نے جب اور پوچھنا شروع کیا تو فرمایا :اللہ کی قسم!جو کچھ تم ہم سے پوچھتے ہو ہم اس میں سے ہر بات کا علم نہیں رکھتے ہیں ۔(تاریخ الاسلام :۳/۳۲۹، حلیة الاولیاء:۲/ ۱۸۴)

          حماد بن زید نے عبید اللہ سے نقل کیا ہے کہ حضرت قاسم بن محمد قرآن کی تفسیر نہیں کر تے تھے۔ (الطبقات الکبریٰ:۵/۱۸۷،تاریخ الاسلام :۳/۳۲۹)

          ابو الزناد کہتے ہیں کہ حضرت قاسم صرف ظاہری چیزوں سے متعلق سوال کا جواب دیا کرتے تھے ۔(تاریخ الاسلام :۳/۳۲۹،الطبقات الکبریٰ :۵/۱۸۷)ابنِ عون کہتے ہیں حضرت قاسم نے کسی سوال کے جواب میں کچھ کہا اور اس کے بعد فرمایا کہ یہ میری رائے ہے،میں یہ نہیں کہتا کہ یہی حق ہے۔(الطبقات الکبریٰ :۵/۱۸۷،تاریخ الاسلام :۳/۳۲۹)

          عمران بن عبد اللہ کہتے ہیں کہ بعض لوگ تقدیر کے بارے میں بات کر رہے تھے حضرت قاسم نے ان سے فرمایاکہ جس کو اللہ نے بیان نہیں کیا تم اس کے بارے میں گفتگو مت کیا کرو۔ (الطبقات الکبریٰ:۵/۱۸۸)ابنِ عمار کہتے ہیں کہ میں نے قاسم اور سالم کو ”قدریہ “پر لعن کرتے ہوئے سنا ۔(تاریخ الاسلام :۳/ ۳۲۹،الطبقات الکبریٰ:۵/۱۸۸)

          عبد اللہ بن العلاء کہتے ہیں کہ میں نے حضرت قاسم سے گزارش کی کہ وہ مجھے کچھ احادیث کا املا لکھوائیں ،تو انہوں نے کہا کہ حضرت عمررضی اللہ عنہ کے دور میں احادیث بہت زیادہ ہوگئیں تھیں یعنی لوگ بغیر احتیاط کے ہر با ت کی نسبت حضور… کی طرف کرنے لگے تھے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں کواللہ کا واسطہ دیا کہ وہ اپنی لکھی ہوئی احادیث ان کے پاس لے کر آئیں ،لوگ جب اپنی لکھی ہوئیں احادیث ان کی خدمت میں لائے تو آپ نے ان کے جلانے کا حکم دیا اور فرمایا کہ یہ اہلِ کتاب کی کجی کی طرح کجی ہے ،عبد اللہ کہتے ہیں کہ قاسم نے اس دن کے بعد سے مجھے حدیث لکھنے سے منع کردیا ۔(تاریخ الاسلام :۳/۳۲۹،سیر اعلام النبلاء:۵/۵۹)

          یحییٰ ابنِ سعید کہتے ہیں کہ حضرت قاسم اور ان کے ساتھی عشاء کے بعد ایک دوسرے کو حدیث سناتے تھے ۔(الطبقات الکبریٰ۵/۱۸۸)

          عبد الرحمن بن ابی الموال کہتے ہیں کہ قاسم بن محمد صبح گھر سے مسجد تشریف لاتے اور دو رکعت نفل پڑھ کر پھر لوگوں کے درمیان تشریف فرماہوتے تو لوگ آپ سے سوال کرتے تھے۔ (الطبقات الکبریٰ :۵/۱۸۹،تاریخ الاسلام :۳/۳۲۹)

وصیت اور وفات

          افلح بن حمید کہتے ہیں کہ قاسم نے اپنی وصیت لکھواتے ہوئے فرمایا کہ یہ قاسم بن محمد کی وصیت ہے کہ وہ اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ۔(الطبقات الکبریٰ: ۵/۱۹۳)

          سلیمان بن عبد الرحمن کہتے ہیں کہ قاسم بن محمد نے (موت کے وقت کہا )مجھے میرے ان کپڑوں میں کفن دینا جن میں نماز پڑھا کرتا ہوں یعنی قمیص،ازاراور چادر،آپ کے بیٹے نے کہا، ابا جان آپ دو کپڑوں کو بھی پسند نہیں کرتے (یعنی نیا کفن لیا جائے )جواب میں فرمایا: بیٹے! حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کا بھی اسی طرح تین کپڑوں کا کفن تھا، میت سے زیادہ زندہ آدمی نئے کپڑوں کا محتاج ہے ۔(سیرأعلام النبلاء:۵/۶۰،الطبقات الکبریٰ:۵/۱۹۳)

          خالد بن ابی بکر کہتے ہیں کہ قاسم بن محمد نے وصیت کی تھی کہ ان کی قبر پر کوئی تعمیر نہ کی جائے۔ (تاریخ الاسلام:۳/۳۳،سیر أعلام النبلاء:۵/۶۰) مزید کہتے ہیں کہ میں قاسم بن محمد کے انتقال کے وقت موجود تھا وہ قُدید میں فوت ہوئے اور مشلل میں دفن ہوئے ،ان دونوں جگہوں کے درمیان تین میل کا فاصلہ ہے، ان کے بیٹے نے چارپائی اپنے کندھے پر رکھی اور چلتے رہے، یہاں تک کہ مشلل پہنچے۔(الطبقات الکبریٰ:۵/۱۹۳،۱۹۴)

          قاسم بن محمد کے سنہ وفات میں اختلاف ہے ،متعدد اقوال پائے جاتے ہیں؛چنانچہ ضمرہ نے رجاء بن جمیل ایلی سے نقل کیا ہے کہ عمربن عبد العزیز کی وفات کے بعد عبد الملک کے دور میں ۱۰۱ ہجری، یا ۱۰۲ ہجری میں انتقال ہوا ۔(الثقات لابن حبان :۵/۳۰۲،التاریخ الکبیر:۷/۱۵۷، تہذیب الکمال :۲۳/۴۳۴،۴۳۵،تہذیب التہذیب :۸/۳۳۵)

          عبد اللہ بن عمروعمری سے ۱۰۵ ہجری منقول ہے ۔(التاریخ الکبیر :۷/۱۵۷ ،سیر أعلام النبلاء: ۵/۵۸،تہذیب الکمال :۲۳/۴۳۵،تہذیب التہذیب :۸/۳۳۵)خلیفہ بن خیاط کہتے ہیں کہ ۱۰۶ھ کے اواخر یا ۱۰۷ ہجری کی ابتدا میں فوت ہوئے ۔(تاریخ الاسلام :۳/۳۳۰،تہذیب التہذیب :۸/ ۳۳۵،سیر اعلام النبلاء :۵/۵۸ ،تذکرة الحفاظ :۱/۹۷)

          یحییٰ بن معین اورعلی بن مدینی سے بھی ۱۰۶ ھ منقول ہے ،حافظ ابنِ حجر نے ”تقریب التہذیب “۱۰۶ھ کے قول کو صحیح قرار دیا ہے ۔(۲/۲۳)

          ہیثم بن عدی اور اور یحی بن بکیر سے ۱۰۷ھ مروی ہے (سیر أعلام النبلاء :۵/ ۵۸تہذیب الکمال : ۲۳/ ۴۳۵،تاریخ الاسلام :۳/۳۳۰)علامہ ذہبی نے ”الکاشف “ میں اسی کو اختیار کیا ہے۔ (۲/۱۳۰)

          علامہ واقدی، یحی بن معین ،علی بن مدینی ،ابو عبید اور فلاس سے ۱۰۸ ھ کا قول مروی ہے، واقدی نے کہا کہ ۷۰ یا ۷۲سال کی عمر میں انتقال ہوا ،اس وقت قاسم بن محمدکی بینائی بھی چلی گئی تھی۔(تہذیب الکمال :۲۳/ ۴۳۵،سیر أعلام النبلاء :۵/۵۸،تاریخ الاسلام :۳/۳۳۰، الطبقات لابن سعد :۵/۱۹۴)

          عمر الضریر نے کہا کہ۱۰۹ ھ میں فوت ہوئے ۔(تہذیب الکمال :۲۳/۴۳۵)

          ابنِ سعد سے ۱۱۲ھ ھ منقول ہے ۔(تہذیب الکمال :۲۳/۴۳۵)سیرأعلام النبلاء :۵/۵۸، تہذیب التھذیب:۸/ ۳۳۵)حسن بن بترا نے ابنِ مدینی سے ایک قول ۱۱۲ھ کا بھی نقل کیا ہے ۔(تہذیب الکمال:۲۳/ ۴۳۵،سیرأعلام النبلاء :۵/ ۵۸)لیکن علامہ ذہبی نے ابنِ سعد کے قول کو شاذ قرار دیا ہے ۔(سیرأعلام النبلاء :۵/ ۵۸،تاریخ الاسلام :۳/ ۳۳۰)نوح بن حبیب سے ۱۱۷ھ کا قول مروی ہے ۔(تہذیب الکمال: ۲۳/ ۴۳۵) یہ بھی شاذ ہے۔

قاسم بن محمد کے چند بیش بہا اقوال

          * اللہ کے حق کو پہچاننے کے بعد جاہل بن کر زندگی گزارنا بہتر ہے اس سے کہ وہ ایسی بات کہے جس کا اسے علم نہ ہو۔(الطبقات لابن سعد :۵/۱۸۸،تہذیب الکمال :۲۳/ ۴۳۳، تاریخ الاسلام :۳/۳۲۹،سیر أعلام النبلاء :۵/۵۷)

          * صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کا اختلاف امت کے لیے رحمت ہے ۔(الطبقات : ۵/ ۱۸۹، سیر أعلام النبلاء :۵/۶۰،تاریخ الاسلام:۳/ ۳۲۹)

          * آدمی کی اپنی عزت کرنا یہ ہے کہ وہ اپنے احاطہٴ علم سے باہر کوئی بات نہ کرے۔ (تہذیب الکمال :۲۳/ ۲۳/ ۴۳۴،سیرأعلام النبلاء :۵/۵۷)

          *اپنی بیٹے کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:بیٹے! ان چیزوں کے بارے میں حلفیہ گفتگو نہ کرو جن کا تمہیں علم نہ ہو۔(الطبقات لابن سعد:۵/۱۸۹)

          *نئے کپڑے کا میت سے زیادہ زندہ محتاج ہوتا ہے۔(تاریخ الاسلام :۲/ ۳۳۰، الطبقات :۵/ ۱۹۳)

***

---------------------------------------------

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ 11 ‏، جلد: 97 ‏، محرم الحرام 1435 ہجری مطابق نومبر 2013ء