تصوّف اور مستشرقین

 

از: ڈاکٹر ابوعدنان سہیل

 

تحریک مستشرقین (Orientalism) کا آغاز اس دور میں ہوا تھا؛ جب کہ تیرہویں صدی عیسوی میں عیسائی دنیا، اسلام کے خلاف برپا کی گئی اپنی صلیبی جنگوں میں پے درپے ناکام ہونے لگی تو اس کے مفکرین اوراس دور کے نظریہ سازوں کو اس بات کا یقین ہوگیا کہ موجودہ حالات میں طاقت وقوت اور تشدد وجارحیت کے ذریعہ اسلام کو مذہبی اور سیاسی اقتدار سے بے دخل کیا جانا ممکن نہیں ہے؛ چنانچہ اس مرحلہ پر غور وفکر کے بعد انھوں نے یہ لائحہ عمل طے کیا کہ سرِدست اپنی جارحانہ مہم اور جنگ جو پالیسی کو ختم یا کچھ عرصہ کے لیے ملتوی کرکے علم وتحقیق کے عنوان سے اسلام کو نشانہٴ افکار باطلہ بنانا چاہیے اور تلوار کے بجائے قلم کے ذریعہ اسلام کی بیخ کنی کی جائے۔

          چنانچہ اس مقصد سے دشمنانِ اسلام مغربی مفکرین نے ایک منصوبہ بند سازش کے تحت اپنی فطری عیاری سے کام لیتے ہوئے یہودی ربّی اورعیسائی مبلغین (Missionary) کو اس بات پر آمادہ کیا کہ اسلامیات کے منفی مطالعہ کے لیے یورپ میں تعلیمی ادارے قائم کیے جائیں اور ان میں ”ریسرچ اسکالرس“ کے نام سے ذہین عیسائی عالم اور یہود ربی کارکن متعین کیے جائیں جو اسلام کے بنیادی سرچشموں یعنی قرآن واحادیث نبوی اور دیگر اسلامی لٹریچر کے معروضی مطالعہ کے بعد تعلیماتِ اسلامی کے خدوخال مسخ کرکے دنیاکے سامنے ”تحقیق“ (Research) کے نام سے مقالات اور کتابوں کی صورت میں پیش کریں اور ان میں اسے خود ساختہ ”شواہد“ مہیّا کریں جن سے یہودیت کی برتری اور دین مسیح کی حقانیت اور ترجیح خود بخود ثابت ہوجائے اور جدید تعلیم یافتہ مسلمانوں میں اپنے دین کی نسبت سے احساسِ کمتری (Inferiority Complex) اور اپنے مسلمان ہونے پر شرمندگی کا جذبہ پیدا ہونے کے ساتھ ساتھ مسیحیت کا تفوّق اور یہودی افکار ونظریات کی برتری کا تصور ان کے ذہنوں پر حاوی ہوجائے۔ پروفیسر آرنلڈ کی کتاب ”پریچنگ آف اسلام“ اس کی زندہ مثال اور واضح ثبوت ہے۔!

          مدت دراز سے یہ مستشرقین یورپ (Orientalists) قرآن واحادیث، سیرت نبوی، فقہ اسلامی اور اخلاق و تصوّف یا ”احسان اسلامی“ کا مطالعہ اسی مقصد سے کرتے رہے ہیں کہ ان میں خامیاں نکالی جائیں اور پھر انھیں اپنے سازشی مقصود کے مطابق اسلام کو سبوتاژ کرنے اور سیاسی مقاصد حاصل کرنے کے لیے استعمال کیا جائے۔ ان کا طریقہٴ کار یہ ہے کہ پہلے وہ اسلام کے خلاف ایک باطل نظریہٴ فکر اور شرانگیز بات اپنے ذہن میں طے کرلیتے ہیں اور پھر اس کے اثبات کے لیے تاریخ، حدیث، سیرتِ نبوی، فقہ اور اسلامی لٹریچر میں سے ہر طرح کی غیرمستند اور رطب ویابس باتیں اکٹھی کرلیتے ہیں اوراس مقصد کے لیے وہ افسانہ طرازی کرنے اور جھوٹ کا طومار باندھنے سے بھی نہیں شرماتے؛ غرض جہاں کہیں بھی ان کی مقصدبراری ہوتی ہو، خواہ علمی اصول کی رُوسے یا صحت واستناد کے اعتبار سے وہ بات کتنی ہی مشکوک وبے تکی کیوں نہ ہو وہ اس کو نہایت ڈھٹائی کے ساتھ اور پوری جسارت سے ”سائنٹفک“ بتاکر بڑی آب وتاب اور کرّوفر کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔ چنانچہ قرآن وحدیث، فن تفسیر، فقہ، کلام، سیرت صحابہ، تابعین کرام، ائمہ مجتہدین، اکابر محدثین، فقہاء امت، قضاة، رواة حدیث، اسماء الرجال، فن جرح و تعدیل، جمع قرآن، تدوین حدیث، حجیت حدیث اور مشائخ سلوک و تصوف وغیرہ غرض ہر موضوع پر ان مستشرقین کی تصانیف اور نام نہاد تحقیقاتی مقالوں میں اس قدر مواد پایا جاتاہے جو کہ ایک ذہین اور حساس تعلیم یافتہ انسان کو جو ان موضوعات پر وسیع اور گہری نظر نہ رکھتا ہو، اسلام کے بارے میں اس کے ذہن میں شکوک وشبہات پیدا کرنے اور سلف صالحین وعلماء راسخین کی شخصیتوں کو مجروح کردینے اور ان پر سے اعتماد ختم کردینے کے لیے کافی ہے۔ سطحی علم رکھنے والا اور کچے ذہن کے لوگ ان کے خیالات سے بآسانی مرعوب ہوجاتے ہیں، خصوصاً جدید تعلیم کے مراکز جیسے یونیورسٹی، کالج اور اسکول میں پڑھنے والے طالب علم یا مغربی ممالک میں تعلیم حاصل کرنے والے ان ”مستشرقین“ کے دام فریب میں بہت جلد پھنس جاتے ہیں۔

          مستشرقین یورپ نے - جن میں اکثریت یہودی اور درپردہ صہیونیت کے علم برداروں کی ہے - تصوّف پر- جو ”احسانِ اسلامی“ کا مظہر اور اس کی شبیہ ثانی ہے- جو نظر عنایت کی ہے اور اس کے خصوصی مطالعہ اور تحقیق وجستجوکے نام پر اس کی اقدار و نظریات کو سبوتاژ (Sabutage) کرنے کے لیے انھوں نے جس قدر محنت اور لگاتار کوششیں کی ہیں، ان کا اندازہ لگانے کے لیے ہم سطور ذیل میں ان کی تصوف کے موضوع پر تصنیف وتالیف اور تصوف کی قدیم امہات کتب کی یورپ کی سرزمین سے توزیع واشاعت کی بھرپور جدوجہد کا ایک مختصر سا جائزہ لینے کی کوشش کریں گے۔ ظاہر ہے کہ یہ سب کچھ انھوں نے محض ”اسلام کی خدمت“ کے جذبہ سے تو کیا نہیں ہے، اور نہ وہ حالت کفر میں رہتے ہوئے اسلام اور مسلمانوں کے لیے کبھی مخلص ثابت ہوسکتے ہیں۔ ان کی ان تمام مساعی اور تگ وتاز کا واحد مقصد صرف اور صرف یہ ہے کہ وہ اس طرح تصوف کے افکار ونظریات اوراسلامی معتقدات میں دراندازی اور ان کتب تصوف میں تدسیس کے ذریعہ اپنے اسلام دشمنی کے مشن کو پورا کرسکیں۔ تصوف کی نایاب یا کم یاب امہات کتب کے مسودوں کو تلاش کرکے اور زرکثیر صرف کرنے کے بعد ان کی اشاعت اور ان کے مندرجات کی تشہیر وتوضیح کی کوششیں مغرب کے ان مادہ پرست دشمنانِ اسلام کی کس ذہنیت کی عکاسی کرتی ہیں، اس کا جائزہ لینے کے لیے ہم سطور ذیل میں ان کتابوں کی ایک مختصر سی فہرست درج کررہے ہیں جو ان یورپین مستشرقین کی یا تو اپنی تالیفات ہیں، یا پھر انھوں نے تصوف کی قدیم امہات کتب میں سے کچھ مخصوص کتابوں کو خود Edit کرکے یورپ کے مختلف ملکوں سے شائع کیا ہے۔ ان میں سے کچھ کتابیں انگریزی زبان(English) میں ہیں- جو موجودہ دور میں ”بین الاقوامی زبان“ کا درجہ رکھتی ہے- اور کچھ کتابیں جرمن زبان (German Language) میں اور کچھ کتابیں فرانسیسی زبان (Franch Language) میں شائع کی گئی ہیں۔

 

نمبرشمار

نام کتاب

مصنف

مطبع/ سن طباعت

1

Preaching of Islam

(اسلام کا تعارف)

Thomas Arnold

 

Constable & Company Ltd. London (U.K.) 1913

2

Mystics of Islam

(صوفیان اسلام)

Rennold, a, Nicholson

 

Oxford Press

1914

 

3

Studies in Islamic Mysticism

(اسلامی تصوف کا مطالعہ)

Rennold, A, Nicholson

 

Oxford Press

1921

 

4

Mystical Demension of Islam

(اسلام کی صوفیانہ مجذوبیت)

Schimmel

 

Chapel Hill, North Carolin a University 1975

 

5

Oriental Mysticism

(مشرقی تصوّف)

E. H. Palmer

 

London

1867

 

6

Sufism

(صوفی مذہب)

Arberry A. J.

 

Allen & Unwin, London 1950 Reprint Harper & Row, Newyork (USA) 1970

7

A, Historical Enquiry concerning the origin and development of Sufism

صوفی مذہب کے نقطئہ آغاز اور اس کی نشوونما کا ایک تاریخی جائزہ

A. J. Arberry

 

J. R. A. S.

1906

 

8

An Introduction of Sufi Doctrine

(صوفیانہ عقائد کا تعارف)

DM Metheson کی فرانسیسی کتاب کا انگلش ترجمہ

Burckhard

TITUS

 

London

1968

9

The Transcendental Unity of Religions

(مذاہب اور مسحوریت بے اختیاری کے نفسیاتی عمل) کا باہمی انجذاب

Schuon Frith jof

Eng. Translation by (Peter Town Send)

London

1953

 

10

A, Comparative study of the Philosophical Concepts of Sufism and Taoism

(صوفیانہ فلسفہ اور ماؤازم کا تقابلی مطالعہ)

Toshihuko, Izutsu

 

Tokyo (Japan)

1966-67

11

Readings from the Mystics of Islam

(اسلامی تصوف کی تعلیمات)

Margret Smith

 

Luzac & Co,

London. 1972

12

Asiatic Researches

(ایشیائی تحقیقات)

W. Johnes

 

London

1803

 

13

Hindu & Muslim Mysticism

(ہندو اورمسلمانوں کا تصوّف)

R. C. Zaehner

 

New York (USA)

1969

14

The Passion of Al-Hallaj

(الحلّاج کا جذب دروں)

Herbert Mason

 

Princetion University Press. 1982 (4 Vol)

15

Akhbar Al-Hallaj

(اخبار الحلاّج)

 

Paul Karaus

 

Paris

1936

 

16

Creative Imagination in the Sufism of Ibne Arabi

(تصوف میں ابن عربی کے تخلیقی تصورات)

Corbin Henry

 

Princetion University Press. 1969

 

17

Al-Muhasibi an Early Mystic of Baghdad

(المحاسبی- بغداد کا ابتدائی دور کا صوفی)

Margret Smithp

 

Philo Press

Amsterdam

 

18

Rabia, the Mystic and her fellowsaints in Islam

(رابعہ صوفیہ اوراس کے مسلم ہم خیال ساتھی)

Margret Smith

 

Philo Press Amsterdam

1928

 

19

Ibne Taymiah's Sharah on the Futuh-Al-Ghaib

(ابن تیمیہؒ  کی فتوح الغیب کی شرح)

Michal Thomas

 

London

 

20

Ibne Taymia. A Sufi of the Qadiria Order

(ابن تیمیہؒ، قادری دور کا ایک صوفی)

George Makdisi

 

American Journal of Arabic Studies 1973

 

21

Simnani on Wahdat-Al-Wujud in Collecter papers on Islamic Philosophy and Mysticism

(سمنانی کا نظریہٴ وحدة الوجود، اسلامی فلسفہ اور تصوف کے منتخب اوراق کے مطابق)

Hermann

Landolt

 

Tehran

1971

 

22

Shaykh Ahmad Sirhindi, an outline of his Thought and history of his Image in the Eyes of Prosperity

شیخ احمد سرہندی کے تخیلات اور تصورات کا فروغ تاریخ کے تناظر میں

Mc Gill

 

Cannada

1971

 

23

Studies in Islam in India before Shah Waliullah

(شاہ ولی اللہ سے پہلے ہندوستان میں اسلام کا مطالعہ)

Freeland, Abbot

 

New Delhi

(Vol I II)

 

24

Vorlesungen Uber des Islam

(فرنچ زبان میں)

Ignaz Goldziher

 

Paris

1925

 

25

Mysticque Musalmane

(فرنچ زبان میں)

Louis Gardet & G.C. Anawati

 

Paris

1968

 

26

Essai sur les origines du lexique technique de la Mysticque Muslamane

(فرنچ زبان میں)

Louis Massigon

 

Paris

1968

 

27

Le Passion de Husayn ibn Mansur Hallaj

(فرنچ زبان میں)

Louis Massigon

 

Paris

 

28

Culturgesc, Hichtliche strefz uge auf dem Gebiete des Islam

(فرنچ زبان میں)

Alfred

Von Kramer

 

Paris

1873

 

29

Sufismus sive theologia

(جرمن زبان میں)

Persica Pantheistics

 

Berlin

1921

 

30

Ideen and Gundlinier einer algemeine n geschichte der Mystic

(جرمن زبان میں)

Adalbert Merx.

 

Heidel Berg

1993

 

31

Sufism

A. J. Arberry

London 1950

32

Muslim Studies

Ignaz Goldziher

London 1971

33

The Sufi Orders in Islam

J. Spencer Trimingham

 

Oxford University

Press 1973

34

The Heritage of Iran

A. J. Arbery

London

35

Kitabul - Lamaa

(کتاب اللمع) عربی میں

(مولفہ شیخ ابو نصر سراج طوسی)

Edit by R. A Nicholson

 

Ledon (Holland)

1914

 

36

Encyclopaedia of Religion and Ethics

 

 

New York Vol. VIII

1955

 

          دیارِ مغرب کے رہنے والے ان دشمنانِ اسلام - یہود ونصاریٰ- نے امتِ مسلمہ کے تعلق باللہ قائم کرنے کے سب سے بڑے مظہر ”احسانِ اسلامی“ یا بعد کے دور میں ”تصوف“ کے نام سے شہرت اور فروغ پانے والے ”اسلامی نظریہ“ کی تفہیم و تبلیغ کی یہ ساری کوششیں ظاہر ہے کہ پورے خلوص اور ایمان داری سے محض ”خدمتِ اسلام“ کے جذبے کے تحت تو یقینا نہیں کی ہوں گی۔ ان دشمنانِ اسلام کا تصوف کی نادر ونایاب قدیم کتب کے ”مخطوطات“ کو مختلف ملکوں اور دور دراز مقامات سے تلاش کرکے اور زر کثیر صرف کرنے کے بعد یورپ سے شائع کرنے میں لامحالہ ان کی اپنی غرض اور مفاد شامل ہے، اتنی بات ہر پڑھالکھا اور باشعور انسان بآسانی سمجھ سکتا ہے۔ اسلام اور اکابرین امت کی صاف وشفاف شبیہ کو داغ دار کرنا اور ان سے منسوب کرکے غلط اور واہی تباہی باتیں ان کی لکھی ہوئی کتابوں میں شامل کردینا دشمنان اسلام یہود کا ہمیشہ سے مشغلہ اور نصب العین رہا ہے، جو لوگ قرآن مجید کی تفسیروں میں اسرائیلی روایات کا ایک بڑا ذخیرہ شامل کرسکتے ہیں اور تاریخ اسلام کی اہم شخصیات خصوصاً صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے پاکیزہ کرداروں کو مسخ کرکے تاریخ کے نام سے پیش کرسکتے ہیں، ان دشمنان اسلام سے یہ توقع رکھنا تو فضول ہوگا کہ انھوں نے ”تصوف“ کے اسلامی نظریات پر اپنی کرم فرمائی نہ کی ہوگی اور تصوف کو اس کی قدیم اور اصلی شکل میں دنیا کے سامنے پیش کردیا ہوگا؟

          اسلامی لٹریچر خصوصاً تصوف کی اُمہات کتب کو یورپ کے مختلف ملکوں جیسے انگلینڈ اور امریکہ یا ہالینڈ وغیرہ سے شائع کرنے کا ایک اہم مقصد یہ بھی تھا کہ ان دشمنانِ اسلام نے ”صلیبی جنگوں“ میں اپنی مسلسل اور بدترین شکستوں کے بعد مسلمانوں سے انتقام لینے کی اپنی نئی ”حکمت عملی“ کے مطابق یورپ میں مختلف مقامات پر اسلام کے خلاف جو سازشی ادارے ”تحقیقات اسلامی“ (Islamic Research) کے نام سے قائم کیے تھے ، ان میں تعلیم وتربیت پانے والے نام نہاد طلبا اور مستشرقین کی اپنے خود ساختہ منصوبہ کے مطابق اسلام کے خلاف ذہن سازی کے لیے ایسا اسلامی لٹریچر وجود میں لایا جائے جس کو پڑھ کر اسلام کی شبیہ مکروہ اور قابل نفرت معلوم ہو اوراسلام دشمن نام نہاد ”مستشرقین“ ان تحریف شدہ کتابوں سے اپنے مقصد کے لیے ”تحقیقات اسلامی“ کے نام پر اسلام کے خلاف زہریلا مواد حاصل کرسکیں۔ اس طرح انھیں اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرنے اوراسلام کی حقانیت کو داغ دار کرنے میں نمایاں کامیابی حاصل ہوگی۔

          اسلام دشمن مستشرقین مغرب، اسلامی نظریات کو مسخ اور داغ دار کرنے کے لیے کس طرح کے ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں، اس کا اندازہ ان مستشرقین کی مرتب کردہ کتابوں کو پڑھ کر بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ مثال کے طور پر تصور میں شیخ محی الدین ابن عربی کا بدنام زمانہ نظریہ ”وحدة الوجود“ کی تشریح وتفہیم مشہور مستشرق نکلسن (Nicholson) نے اپنی کتاب "Studies In Islamic Mysticism" (Delhi-1876) (یعنی اسلامی تصوف کا مطالعہ) میں صفحہ ۷۷ تا صفحہ ۱۴۳ پر ایران کے صوفی عبدالکریم الجیلی کے حوالہ سے ابن عربی کے فلسفہ میں جو ترمیمات کی ہیں ظاہر ہے کہ اس کا مقصد راہ سلوک کے اس اہم ”ذہنی مرحلے“ پر شیخ محی الدین ابن عربی کے مخصوص مفہوم اور تاثرات کو غلط معنی پہناکر مسلمانوں کے ذہنوں پر ابن عربی کی غلط اور قابل نفرت شبیہ بٹھانا ہی ہے اور اس طرح تصوف کا ایک منفی تعارف کرانا ہی نکلسن کا مطمح نظر ہے اور کچھ نہیں۔ چنانچہ نکلسن اپنی اس کتاب Islamic Mysticism کے صفحہ ۱۴۹ پر تصوف کا تعارف کراتے ہوئے لکھتا ہے:

”صوفی وہ ہے جو اپنی ذات میں فنا ہوجاتا ہے اور خدا میں زندہ رہتا ہے۔ اس معنوں میں فنا ہوجانا دراصل خدا کے ساتھ متحد ہوجانا ہے۔ خلاصہ یہ کہ مسلم صوفیہ کی آخری غایت خدا بن جانا اورالوہیت میں شریک ہوجانا (Deification) ہی ہے“

          حالانکہ حقیقی ”اسلامی تصوف“ کا مقصد اسرار ورموز کائنات کی معرفت یا ذات باری تعالیٰ میں ادغام یا وصل ہرگز نہیں ہے اور نہ ہی الوہیت یا صفات الٰہی میں انسان کی شرکت اس کی منتہا و مقصود ہے۔ بقول مجدد الف ثانی:

”فنا وبقا کے تجربہ کو الوہیت میں شرکت تصور کرنا درست نہیں ہے؛ کیونکہ دوران مراقبہ صوفی جب خود کو فنا کرکے خدا کے ساتھ متحد ہوجانے کی کیفیت محسوس کرتا ہے تو یہ کیفیت بعینہ خواب کی طرح ہوتی ہے۔ یہ سب حقیقتاً نہیں ہوتا۔ مثلاً اگر تم خواب میں دیکھو کہ بادشاہ بن گئے ہو تو اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہوتا کہ تم حقیقت میں بادشاہ ہوگئے ہو۔ اسی طرح جب سالک دیکھتا ہے کہ وہ خدا کے ساتھ متحد ہوکر خود بھی ”خدا“ بن گیا ہے تو وہ سچ مچ خدا نہیں بن جاتا۔“ (مکتوبات امام ربانی ج۱، م۲۶۶، ص:۵۸۹)

          تصوف کے اس ”ذہنی مرحلہ“ کی کیفیت کی وضاحت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے زیادہ واضح الفاظ میں کی ہے۔ ان کے خیال کے مطابق ”سالک عشق الٰہی میں ہمہ تن غرق اور اپنی ہستی کو فنا کرکے بزعم خود اللہ تعالیٰ کی ذات میں اس طرح جذب ہوجاتاہے جس طرح لوہے کا ٹکڑا آگ میں تپ کر آگ ہی کی طرح سرخ اور شدید گرم ہوجاتا ہے، گویا وہ بھی آگ ہے؛ حالانکہ حقیقت میں وہ آگ نہیں؛ بلکہ لوہا ہی ہے۔ ٹھیک اسی طرح عشق الٰہی کی آگ میں تپ کر سالک بھی خود کو ذاتِ خدا وندی سے ہم آہنگ محسوس کرنے لگتا ہے۔ بہر نوع! یہ سب محض تصوراتی اور ”خیالی فلسفہ“ ہے، حقیقت میں نفس الامری نہیں ہے“۔ (ہمعات، ص:۳۶)

***

-------------------------------------------------

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ 11 ‏، جلد: 97 ‏، محرم الحرام 1435 ہجری مطابق نومبر 2013ء