ولادتِ مبارکہ ۹یا ۱۲ – تاریخی و شرعی حیثیت

 

 

از: مولانا تنویرالاسلام قاسمی         

‏ استاذمفتاح العلوم، میل وشارم، تمل ناڈو

 

پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت شریفہ موسمِ بہار، واقعہٴ عام الفیل کے ۵۵ روز بعد آج سے تقریباً ڈیڑھ ہزار سال پہلے مطابق ۲۲/اپریل ۵۷۱ء مطابق یکم جیٹھ ۲۲۸ بکرمی یا ۹/یا ۱۲/ربیع الاوّل کو دوشنبے کے دن، صبح صادق کے بعد طلوعِ آفتاب سے پہلے عرب کے مشہور ترین اور مقدس ترین شہر مکہ معظمہ میں ہوئی۔

          تاریخِ ولادت باسعادت میں موٴرخین نے بہت کچھ اختلافات کیے ہیں، مثلاً ابوالفداء نے ۱۰/ربیع الاوّل لکھی ہے، بعض نے ۸/ربیع الاوّل، طبری اور ابن خلدون نے ۱۲/ربیع الاوّل لکھی ہے اور مشہور یہی روایت ہے؛ مگر سب کا اس پر اتفاق ہے کہ ولادتِ شریفہ دوشنبے کے دن ہوئی اس پر بھی سب کا اتفاق ہے کہ دو شنبہ کے دن ۹/ربیع الاوّل کے سوا کسی اور تاریخ سے مطابقت نہیں رکھتا؛ اس لیے زیادہ صحیح اور راجح قول یہی ہے کہ ۹/ربیع الاول ہی میں ولادت مبارکہ ہوئی؛ چنانچہ فلکیات کے مشہور مصری عالم اور محقق محمود پاشا کی تحقیق بھی یہی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادتِ شریفہ دوشنبہ کے دن، ۹/ربیع الاوّل کو واقعہٴ فیل کے پہلے سال ہوئی، اسی طرح ”تاریخ دول العرب والاسلام“ میں محمد طلعت عربی نے ۹/تاریخ ہی کو صحیح قرار دیا ہے۔ (رحمة للعالمین: قاضی سلیمان منصورپوری، نبیِ رحمت: مولانا علی میاں ندوی)

          تاریخِ ولادت باسعادت میں ایک طرف تو یہ اختلافات ہیں، پھر یہ کہ راجح اور اصح ۹/ربیع الاوّل ہے اور دوسری طرف تاریخِ وفات کو ملاحظہ فرمایے؛ چنانچہ ”رحمة للعالمین“ میں قاضی سلیمان منصور پوری نے لکھا ہے کہ ۱۲/ربیع الاوّل ۱۲ھء یوم دو شنبہ، بوقتِ چاشت جسمِ اطہر سے روحِ انور نے پرواز کیا، امام اسیر ابن اسحاق اور جمہور کا قول بھی یہی ہے، ابن سعد، عمر بن علی ابن ابی طالب اور وہ اپنے باپ حضرت علی سے نقل کرتے ہیں کہ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ۱۲/ربیع الاوّل کو انتقال کیا (اصح السیر)۔

          اس اختلاف کے تناظر میں بجا طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ آں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت مبارکہ ۹/ربیع الاوّل کو ہوئی ہے اور وصال ۱۲/ربیع الاوّل ۱۱ھ بروز دو شنبے کو ہوا (لہٰذا جو لوگ اس بات پر مُصِر ہیں کہ نہیں ولادت شریفہ تو ۱۲/ ہی میں ہوئی، ۸ یا ۹/میں نہ ہوئی اور سانحہٴ ارتحال ایک یا دو ربیع الاوّل میں پیش آیا ہے نہ کہ ۱۲/ میں؛ اس لیے اگر ہم ۱۲/ ربیع الاوّل میں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کی خوشی میں جشن میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم مناتے ہیں، جلسے جلوس کا اہتمام کرتے ہیں، مسجدوں، مزاروں، مکانوں، دوکانوں اور سڑکوں کو سجاتے ہیں، مٹھائیاں تقسیم کرتے ہیں) تو کیا غلط کرتے ہیں؟

          یہ ان کی تاریخ سے ناواقفیت کی کھلی دلیل ہے اور حقائق سے چشم پوشی کا بیّن ثبوت ہے؛ کیوں کہ جب یہ بات واضح طور پر معلوم ہوچکی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت با سعادت کا ۹/ربیع الاوّل کو ہونا زیادہ راجح اور زیادہ صحیح ہے اور وصال کا ۱۲/ربیع الاوّل میں ہونا اصح اور راجح ہے تو ۱۲/ربیع الاوّل میں یوم وفات ہونے کی وجہ سے زیادہ سے زیادہ ایصال ثواب تو کیا جاسکتا ہے؛اس لیے کہ ایصالِ ثواب کے لیے کسی دن اور کسی وقت کو متعین کرنا بے اصل اور بے بنیاد ہے؛ مگر اس دن میں خوشیاں منانا، محفلیں آراستہ کرنا، بزم میلاد کرنا، جلسے جلوس کا اہتمام کرنا چہ معنی دارد؟

          جن موٴرخوں نے ۱۲/ربیع الاوّل کو یوم ولادت لکھا ہے، اگر ان کی بات تسلیم کربھی لی جائے، پھر بھی ۱۲/ربیع الاوّل میں خوشیاں نہیں منائی جاسکتیں، محفلیں منعقد نہیں کی جاسکتیں؛ اس کو خوشی کا دن نہیں شمار کیا جاسکتا؛ کیوں کہ اکثر محققین؛ بلکہ جمہور کی رائے بھی یہی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات بھی بارہ ربیع الاوّل ۱۱ ھ میں ہوئی اور یہی رائے زیادہ صحیح بھی ہے، جیساکہ ماقبل میں گزر چکا۔

          جب بارہ ربیع الاوّل ولادت، وصال دونوں کا سنگم ہے، بارہ ربیع الاوّل میں اسبابِ خوشی اور اسبابِ غم دونوں پائے جاتے ہیں، تو پھر یہ کہاں کی عقلمندی اور دانشمندی ہے کہ بارہ ربیع الاوّل میں صرف اسبابِ خوشی کو ذہن میں رکھ کر اور بارہ ربیع الاوّل کو صرف یوم ولادت مان کر جو کہ قطعی نہیں ہے، عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم منعقد کی جائے، جلوس نکالے جائیں اور وہ جلوس بھی ایسے جن میں ہزاروں طرح کے خرافات وبدعات پائی جاتی ہوں، جن میں سڑکوں کو جام کرکے راہ چلتے لوگوں کو پریشانی میں ڈالنا، امن وسکون کے ماحول کو غارت وبرباد کرنا اور اس کو پُرخطر ومخدوش بنانا، فضا کو مسموم کرنا وغیرہ وغیرہ ہوتا ہو۔

          اسی پر بس نہیں ؛ بلکہ ان جلوس میں تو یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ اوباش اور لاخیرے قسم کے نوجوان لڑکے ہڑبونگ مچاتے رہتے ہیں، سڑک پر اُتر اُتر کرناچتے رہتے ہیں، ڈھول اور تاشے بجاتے رہتے ہیں، نماز کا وقت ہوجاتا ہے، مسجدوں میں نمازیں ہوتی ہیں؛ مگر یہ نام نہاد عاشقان رسول شور وغل میں نمازوں کو برباد کرتے ہیں؛ بلکہ نمازیوں کو پریشان کرکے ان کی نمازوں کو بھی خراب کرتے ہیں، مسجدوں کی بے حرمتی کرنے تک سے باز نہیں آتے؛ جبکہ ایذائے مسلم حرام، مسجدوں کی بے حرمتی حرام ہے۔

          یہ تو جلوس کے ہنگامے اور شور شرابے کی بات ہے، عرسوں میں مردوزن کے اختلاط کی وجہ سے بدکاریوں، برائیوں، تباہ کاریوں کا رونما ہونا، قبروں کی بے حرمتی کرنا، مزاروں پر چادر اور پھول چڑھانا، صاحب قبر کو داتا سمجھنا اور اس سے حاجت روائی کرنا، اس کے سامنے سجدہ ریز ہونا، اس طرح کے دیگر اعمالِ شرکیہ اور خرافات وبدعات کا ہونا جو ہر عرس کے موقع پر اور ہر جگہ کے عرس میں دیکھنے کو ملتے ہیں یہ سب جلوس کے ہنگامے کے ما سوا ہے۔

          علاوہ ازیں اگر بارہ ربیع الاوّل کو جشن میلاد النبی منعقد کیے جانے کا سبب جلوس وغیرہ نکالے جانے کی وجہ اور بنیاد صرف یہ ہو کہ آفتاب رسالت اسی روز کی صبح کو طلوع ہوا تھا، تو یہ وجہ اور یہ سبب تو خود آقائے مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں موجود تھا، نبی کے زمانے میں بھی بارہ ربیع الاوّل آتا تھا؛ مگر آقائے مدنی صلی اللہ علیہ وسلم نے بارہ ربیع الاوّل کی آمد پر کبھی بھی عید میلاد النبی منعقد نہیں کی، نہ کبھی جلسے جلوس نکلوانے کا اہتمام فرمایا، کیا نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نعوذ باللہ اس عید سے ناواقف تھے؟

          نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیا سے پردہ فرماجانے کے بعد صحابہٴ کرام کی ایک بہت بڑی جماعت اس روئے زمین پر موجود تھی، جن میں خلفائے اربعہ: حضرت ابوبکر، حضرت عمر، حضرت عثمان اور حضرت علی رضی اللہ عنہم بھی تھے، جنھیں اللہ تبارک و تعالیٰ نے خلافت سے بھی نوازا تھا، اگر وہ چاہتے تو عالمی پیمانے پر نہیں تو کم از کم ملکی پیمانے پر تو ضرور عید میلاد النبی منعقد کرواتے، اگر کوئی اس عید سے سرموبھی انحراف کرتا تو اس کے ساتھ قتال کرتے، جیساکہ حضرت ابوبکر صدیق نے مانعینِ زکوٰة سے قتال فرمایا۔ خلفائے اربعہ کے دنیا سے چلے جانے کے بعد اس کرئہ ارضی پر ہزاروں صحابہ موجود تھے؛ مگر کسی صحابی نے بارہ ربیع الاوّل میں عید میلاد النبی کی مجلسیں منعقد نہ کیں، کیا نعوذ باللہ صحابہ کا فہم یہاں تک نہیں پہنچا تھا؟ کیا صحابہ سے زیادہ آج کے نام نہاد عاشقانِ رسول دین کو سمجھتے ہیں؟ کیا صحابہ سے بھی زیادہ یہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرنے والے ہوگئے؟ اسی طرح تابعینِ عظام کے دور میں بھی بارہ ربیع الاوّل کی آمد کی مناسبت سے عید میلاد النبی کے نام سے محفلیں نہیں سجائی جاتی تھیں؛ نہ ہی جلوس نکالے جاتے تھے اور نہ ہی تبع تابعین کے عہد میں عیدمیلاد النبی کا کہیں ثبوت ملتا ہے۔

          جب بارہ ربیع الاوّل کی یہ رسمیں عید میلاد النبی، جلوس، عرس، قبروں پر چادر چڑھانا، چراغاں روشن کرنا وغیرہ وغیرہ خیرالقرون: عہد نبوی، عہد صحابہ، عہد تابعین میں نہیں پائی جاتی تھیں باوجودے کہ خیرالقرون میں ان رسموں کا باعث موجود تھا، معلوم ہوا کہ بعد میں لوگوں نے اپنے اپنے مقاصد کی خاطر ان چیزوں کو دین میں داخل کرلیا ہے، شریعت سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے؛ اس لیے یہ رسمیں از روئے شرع بدعت قرار پائیں گی، صورةً بھی اور حقیقتاً بھی۔

          اخیر میں قارئین کے مزید اضافے کے لیے بدعت کی پہچان، سنت وبدعات کے درمیان فرق، کونسی چیز صورةً وحقیقتاً بدعت ہے اور کونسی صرف صورةً، بارہ ربیع الاوّل میں عیدمیلاد النبی مذہبی خوشی ہے یا دنیوی؟ وغیرہ کے سلسلے میں حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی نے اپنے خطبات میں جو بیان فرمایا ہے مختصراً یہاں پر نقل کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے؛ چنانچہ حضرت قدس سرہ بدعت کی پہچان کراتے ہوئے فرماتے ہیں: ”بدعت کی ایک پہچان بتلاتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ جو بات قرآن وحدیث، اجماع و قیاس چاروں میں سے کسی ایک سے ثابت نہ ہو اور اس کو دین سمجھ کر کیا جائے تو وہ بدعت ہے۔“

          خیرالقرون کے بعد ایجاد کی جانے والی چیزوں میں کونسی بدعت ہے اور کونسی سنت ؟ ان کو حضرت تھانوی ان الفاظ میں بیان فرمارہے ہیں:

          ”جتنی چیزیں خیرالقرون کے بعد وجود میں آئیں، ان میں سے کونسی بدعت ہے اور کونسی مندوب، مستحب اور شریعت سے ثابت ہے، کون سا طریقہ مقبول اور کونسا مردود؟ فلاں مروجہ طریقہ بدعت ہے یا نہیں؟ اس کو جاننے کے لیے یہ سمجھ لیجیے کہ خیرالقرون کے بعد جو چیزیں ایجاد کی گئیں ان کی دو قسمیں ہیں: ایک تو یہ ہے کہ ان کا سبب اور داعی بھی جدید ہے اور وہ کسی مامور بہ کی موقوف علیہ ہو کہ اس کے بغیر اس شرعی حکم پر عمل نہیں ہوسکتا، جیسے دینی کتابوں کی تصنیف، خانقاہوں اور مدرسوں کی تعمیر کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ان میں سے یعنی اس انداز کی کوئی چیز نہیں تھی اور ان کا سبب اور داعی بھی جدید ہے، نیز یہ چیزیں ایسی ہیں کہ شرعی حکم ان پر موقوف ہے اور دین کی حفاظت بھی ان پر موقوف ہے؛ یہ اعمال گو صورةً بدعت ہیں؛ مگر حقیقتاً بدعت نہیں؛ بلکہ اس قاعدہ ”مقدمة الواجب واجب“ سے واجب ہے۔

          دوسری قسم کی چیزیں وہ ہیں جن کا سبب قدیم ہے، یعنی خیرالقرون میں وہ سب موجود تھا مثلاً مروجہ میلاد کی مجلسیں، تیجہ، دسواں، چہلم وغیرہ بدعات کہ ان کا سبب قدیم ہے، مثلاً مجلس میلاد منعقد کرنے کا سبب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت شریفہ پر خوشی ہے اور یہ سبب حضور اکرم کے زمانے میں بھی موجود تھا؛ لیکن حضور نے یا صحابہ نے مجلسیں منعقد نہیں کیں، اگر اس کا سبب اس وقت نہ ہوتا تو البتہ یہ کہہ سکتے تھے کہ ان کا منشاء موجود نہ تھا؛ لیکن جب اس کا باعث اور اس کی بنیاد موجود تھی، پھر کیا وجہ ہے کہ نہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی میلاد کی مجلس منعقد کی، نہ صحابہ نے، ایسی شے کا حکم یہ ہے کہ وہ صورةً بھی بدعت ہے اور معنیً بھی۔“

          اس تفصیل سے یہ بات واضح ہوگئی کہ خیرالقرون کے بعد ایجاد کی جانے والی وہ چیزیں جن کا سبب جدید ہو یعنی خیرالقرون میں اس کی ضرورت کے دواعی اور اسباب نہیں پائے گئے؛ مگر کوئی مامور بہ اور شرعی حکم اس پر موقوف ہو اس طور پر کہ اس کے بغیر اس شرعی حکم پر عمل کیا جانا ممکن نہ ہو تو ایسی چیزیں صورةً تو بدعت ہیں جس کو بدعت حسنہ سے بھی تعبیر کیا جاتاہے؛ مگر معنیً اور حقیقتاً بدعت نہیں ہیں، یعنی اس کو بدعت سیئہ نہیں کہا جائے گا؛ البتہ بعد میں ایجاد کی جانے والی وہ چیزیں جن کے دواعی واسباب خیرالقرون میں پائے جاتے تھے؛ مگر پھر بھی وہ چیزیں خیرالقرون میں وجود میں نہیں آئیں اور خیرالقرون کے بعد ان چیزوں کو دین سمجھ کر کیا جارہا ہے تو ایسی چیزیں صورةً اور معنی ً وحقیقتاً دونوں طرح بدعت کہی جائیں گی۔

          حضرت تھانوی ان دونوں قسموں کے درمیان عجیب وغریب فرق بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ”پہلی قسم کی تجویز کرنے والے خواص یعنی علماء ہوتے ہیں اور اس میں عوام تصرف نہیں کرتے اور دوسری قسم کی تجویز کرنے والے عوام ہوتے ہیں اور وہی ہمیشہ اس میں تصرف کرتے رہتے ہیں؛ چنانچہ میلاد شریف کی مجلس کو ایک بادشاہ نے ایجاد کیا ہے اس کا شمار بھی عوام ہی میں سے ہے اور عوام ہی اب تک اس میں تصرف کررہے ہیں۔“

          اس سے یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ بارہ ربیع الاوّل کے موقع پر نبی علیہ السلام کی ولادت کی خوشی میں عیدمیلاد النبی کا انعقاد کیا جانا دراصل ایک بادشاہ کا ایجاد کردہ ہے شرعاً اس کی کوئی حیثیت نہیں اور نہ شرع میں اس کی کوئی اصل اور بنیاد ہے۔ شرعاً اس کی اصل اور بنیاد کیوں کر ہوسکتی ہے؛ کیوں کہ شریعتِ اسلامیہ میں صرف دو عیدوں کی اصل ملتی ہے؛ ایک عید الفطر، دوسری عید الاضحی، چنانچہ آقائے مدنی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قَدْ أَبْدَلَکُمُ اللہُ بِھَا خَیْرًا مِنْھَا یَوْمَ الأَضْحٰی وَیَوْمَ الْفِطْرِ․․․․ رواہ ابوداوٴد“ ترجمہ: اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کے بدلے میں تمھیں دو بہتر دن عطا فرمائے ہیں، عیدقرباں کا اور عید فطر کا (ابوداؤد) اب اگر شریعت اسلامیہ میں کسی تیسری عید کا اضافہ کرکے اس کو بھی منایاجائے اور اس کو دین وشریعت ہی کی عید سمجھی جائے اور اس تیسری عید کے بارے میں یہ دعویٰ کیا جائے کہ یہ بھی عید الفطر اور عید الاضحی کی طرح ایک عید ہے، جس کو بارہ ربیع الاوّل کے موقع پر منعقد کیا جاتا ہے تو نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اچھا خاصا معارضہ ہوجائے گا اور شریعت محمدیہ میں تبدیلی کرنا لازم آئے گا، جس کے ناجائز ہونے میں کیا شبہ ہوسکتا ہے؟

          بارہ ربیع الاوّل کے موقع پر عید میلاد النبی کے غیرشرعی ہونے کی ایک بڑی دلیل یہ بھی ہے کہ اگر یہ شرعاً عید ہوتی تو مذہبی عید ہوتی اور مدہبی خوشی ہوتی نہ کہ دنیوی، اور مذہبی عید کے ثبوت کے لیے وحی کی ضرورت ہوتی ہے، جیساکہ عید الفطر، اور عید الاضحی کے لیے اور اس طرح کی کوئی وحی ہے نہیں، جس سے بارہ ربیع الاوّل کی عید میلاد النبی ثابت ہو، اگر اس طرح کی کوئی وحی ہوتی جس سے اس عید مُحْدَث کا ثبوت ہوتا تو سب سے پہلے خود صاحبِ وحی آقائے مدنی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو معلوم ہوتی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم بار ربیع الاوّل کے موقع پر جشن میلاد منعقد کرتے، پھر صحابہ بھی مناتے، ان کے بعد تابعین اور تبع تابعین؛ آج تک پوری امتِ مسلمہ متفقہ طور پر مناتی، جس طرح عیدالفطر اور عیدالاضحی کو خود نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے منایا، صحابہ نے اور تابعین، تبع تابعین نے منایا اور آج تک پوری امتِ مسلمہ متفقہ طور پر منارہی ہے اور قیامت تک منائے گی، انشاء اللہ۔

          رہی یہ بات کہ عید میلاد النبی مذہبی خوشی اور مذہبی عید ہے نہ کہ دنیوی، تو وہ کیسے؟ اس کو حضرت حکیم الامت نے اس طرح سمجھایا ہے:

          ”یہ تو سب کو معلوم ہے کہ دنیا کا اطلاق اس خطہٴ ززین پر یا زیادہ سے زیادہ چند فرسخ اوپر ہَوَا پر ہوتا ہے، پس اگر کوئی دنیوی خوشی ہوگی تو اس کا اثراس خطہٴ زمین تک محدود رہے گا، اس کے آگے نہ بڑھے گا اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کے دن نہ صرف زمین کی موجودات؛ بلکہ ملائکہ، عرش، کرسی اور باشندگانِ عالم بالا سب کے سب مسرور وشادمان تھے․․․․․ اور وجہ اس کی یہ تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ظہور؛ چوں کہ تمام عالم کے بقا کا سبب تھا؛ اس لیے تمام عالم میں یہ خوشی ہوتی اور جب اس کا اثر دنیا سے آگے بڑھ گیا تو اس خوشی کو دنیوی خوشی نہیں کہہ سکتے؛ بلکہ یہ مذہبی خوشی ہوگی۔“

          اللہ تعالیٰ پوری امتِ مسلمہ کو اس طرح کے شرک وبدعات سے محفوظ رکھے اور صحیح بات سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے! آمین۔

***

 

----------------------------------

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ 1‏، جلد: 98 ‏، ربیع الاول 1435 ہجری مطابق جنوری 2014ء