مسئلہٴ معاش اور اسلامی تعلیمات (۱/۲)

 

 

از: مولانا مفتی ابوالخیر عارف محمود                 

‏ رفیق شعبہٴ تصنیف وتالیف واستاذ جامعہ فاروقیہ کراچی

 

انسان کی معاشی کفالت کا خدائی اعلان

          حضرت انسان کی ابتدائے آفرینش میں غورکرنے سے پتہ چلتاہے کہ جس طرح خالق بشریت نے اسے وجودعطافرمایا،اسی طرح اس کی تمام ضروریات کابھی انتظام فرمایا،تخلیق آدم علیہ الصلاة والسلام کے وقت سے ہی انسان کی بنیادی ضرورتوں اورحوائج کے پیش نظراللہ رب العزت نے جب اسے جنت میں مکین فرمایاتواس کی معاشی کفالت بھی فرمائی،اوراس کی بھوک،پیاس،لباس اوررہائش کے انتظام کااعلان بھی ان الفاظ میں فرمایا:

          ﴿انَّ لَکَ أنْ لاَ تَجُوْعَ فِیْھَا وَلاَ تَعْریٰ، وَأنَّکَ لاَ تَظْمَوٴُ فِیْھَا وَلاَ تَضْحٰی﴾(۱)

          ترجمہ:تجھ کویہ ملاکہ نہ بھوکاہوتواس میں اورنہ ننگا اوریہ کہ نہ پیاس کھینچے تواس میں،نہ دھوپ۔

          حضرت مولاناادریس کاندھلوی رحمہ اللہ آیتِ مذکورہ کی تفسیرمیں فرماتے ہیں:”غرض یہ کہ کھانے اورپینے اورغذااورقیام اورطعام اورلباس کے سب آرام تجھ کویہاں حاصل ہیں، اگر یہاں سے نکالاگیاتودنیاوی رزق اورغذاکے حول کے لیے تجھے بڑی مشقتیں اٹھانی پڑیں گی۔“(۲)

          حضرت مولانامفتی محمدشفیع عثمانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:”جنت میں ضروریاتِ زندگی کی یہ بنیادی چاروں چیزیں بے مانگے، بلامشقت ملتی ہیں“۔(۳)

          یعنی جنت میں توضروریاتِ زندگی کی ان چاربنیادی چیزوں کاحصول بغیرکسی مشقت کے ہے؛ لیکن دنیامیں ان کے حصول میں مشقت ومحنت کی ضرورت ہوگی،لہٰذاجب اللہ تعالیٰ نے انسان کودنیاکے اندربھیجاتوضرورتِ معاش کے ساتھ اسے کسبِ معاش کی صلاحیتوں سے بھی نوازا، اور اس صلاحیت کوآرزوئے خوب سے خوب ترکی مہمیزلگائی؛چناں چہ بتدائے انسانیت سے لے کر عصرِحاضرتک انسان اپنی ضرورتوں اورصلاحیتوں کے مطابق کسبِ معاش کے لیے تگ ودو کرتا نظر آتا ہے،اوراسے ہمیشہ سے خوب سے خوب ترکی جستجورہی ہے۔

 انسانی ضروریات اور معیشت کا تعلق

          یہ بات بھی روزِروشن کی طرح عیاں ہے کہ انسانی ضروریات کا عمومی تعلق انسانی معیشت کے ساتھ جوڑاگیاہے اورمعیشت کوآسمانی بارش اورزمین کے خزانوں سے منسلک کردیا گیا ہے۔ اللہ رب العزت کاارشادہے:

          ﴿وَلَقَدْ مَکَّنَکُمْ فِي الْأَرْضِ وَجَعَلْنَا لَکُمْ فِیْھَا مَعَایِشَ﴾(۴)

          ارشادربانی کامطلب یہ ہے: ہم نے تمہیں زمیں میں باختیاربناکرتمہاری معیشت کا سامان اس میں رکھ دیاہے،جس طرح اللہ رب العزت نے انسان کے رزق اورمعیشت کوزمین اوراس کے خزانوں کے ساتھ مربوط فرمایاہے، اسی طرح آسمان سے بذریعہٴ بارش رزق اتارکرجسم کی غذا کے اسباب مہیاکیے ہیں،قرآن مجیدمیں ارشادربانی ہے:

          ﴿وَفِي السَّمَاءِ رِزْقُکُمْ وَمَا تُوْعَدُوْنَ﴾(۵)

          ترجمہ: اورآسمان میں ہے روزی تمہاری اورجوکچھ تم سے وعدہ کیا۔

          ”وفی السماء رزقُکم“ کی تفسیرمیں بعض حضرا ت نے بیان کیاکہ یہ بارش ہے، جس سے اللہ بندوں کارزق پیدافرماتاہے۔(۶)

          خالقِ کون ومکان نے انسان کی تخلیق فرماکرپیدائش سے لے کرموت تک،ہرمرحلے میں اس کے حال کے مناسب اس کی ضروریات کے اسباب مہیافرمائے ہیں،نہ صرف اس کی غذا؛ بلکہ پرورش کانظام بھی قائم فرمایاہے،پیدائش کے روزِاول سے ہی اللہ کی مہربانیوں کاسلسلہ شروع ہوجاتاہے کہ نومولودکی ماں کے محبت بھرے سینے سے دودھ کے چشمے جاری فرمادیتے ہیں، پھر جوں جوں بچپن سے لے کربلوغ اورشعورکوپہنچتاہے تواس کے رزق اوروسائلِ رزق رزّاق العالمین کی طرف سے فراہم کیے جاتے ہیں،جن کے ذریعے وہ اپنی ضروریات کاانتظام کرتاہے،اللہ تعالیٰ کی رزاقی کاکیاکہناکہ وہ تمام عالم کے انسانوں کوان کے ماحول کے مطابق رزق فراہم کرتاہے،اس کی عطاسے بدترین دشمن اورنافرمان بھی محروم نہیں رہتا۔

انسان کی بے راہ روی

          مگریہ انسان ہی ہے کہ جب اس پرنفسیانی خواہشات کاغلبہ ہوجاتاہے اورشیطان اس کوصراطِ مستقیم سے ہٹاکراتباعِ نفس کی راہ پرڈال دیتاہے تویہ اپنی جائز وناجائزخواہشات کی تکمیل کے لیے افراط وتفریط سے کام لیتاہے ،دیگرانسانوں کے حقِ معاش پربھی ڈاکہ ڈالنے لگتاہے،کبھی طاقت کے نشے میں مست ہوکردولت اوروسائلِ دولت پرقابض ہوجاتاہے،توکبھی دوسرے انسانوں سے محنت ومزدوری کرواکران کاحق ِمحنت اوراجرت ادانہیں کر تااورکبھی خوب سے خوب ترکی تلاش وجستجو میں خدائی پابندیوں کو پھلانگ کر سود اور دیگر ناجائز ذرائعِ آمدنی کو اختیار کرتا ہے، غرض، ہرممکن طریقہ سے اپنی ناجائزخواہشات کی تکمیل ہوتی ہے۔

 کسبِ معاش میں افراط وتفریط سے ممانعت

          رب العالمین نے تمام مخلوقات کی روزی اپنے ذمہ لی ہے،اوردنیاکودارُالاسباب قراردے کر اپنی سنت جاری فرمائی کہ محنت اورکوشش کے بقدرمعاش اوراسبابِ معاش فراہم کیے جائیں گے، انسان خداکی عطاکردہ کسبی صلاحیتوں سے خداکے خزانوں سے بھرپوراستفادہ کرسکتا ہے؛ مگر یادرہے کہ انسانیت کاتقاضہ ہے کہ اس حوالے سے افراط وتفریط سے کام نہ لیاجائے ،عدل وانصاف کادامن چھوٹنے نہ پائے،جائزاورصحیح ذرائع آمدنی ومعاش کواختیارکیاجائے،خداکی منع کردہ چیزوں سے مکمل اجتناب کیاجائے ،جوچیزجس شخص کی ملکیت میں ہے، اس کے حق کااحترام کیاجائے؛البتہ دوسرے کی شئے مملوکہ کوحاصل کرنے کادرست طریقہ یہ ہے کہ خرید و فروخت اورلین دین کے ذریعے تبادلہ کی شکل اختیارکی جائے۔

حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ کا قول

          حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ نے ”حجة اللہ البالغہ“میں اس مضمون کوبہت ہی خوبصورت پیرائے میں بیان فرمایاہے:

          اعْلَمْ! أنَّ اللہَ تَعَالٰی لَمَّا خَلَقَ الْخَلْقَ وَجَعَلَ مَعَایِشَھُمْ فِي الْأرْضِ، وَأبَاحَ لَھُمُ الاِنْتِفَاعَ بِمَافِیْھَا، وَقَعَتْ بَیْنَھُمُ الْمَشْحَةُ وَالْمُشَاجَرَةُ، فَکَانَ حُکْمُ اللہِ عِنْدَ ذَلِکَ تَحْرِیْمٌ أنْ یُزَاحِمَ الإْنْسَانُ صَاحِبَہ فِیْمَااخْتُصَّ بِہ؛ لَسَبَقَ یَدُہ إلَیْہِ أوْ یَدُ مُوْرِثِہ، أوْ لِوَجْہِ مِّنَ الْوُجُوہِ الْمُعْتَبَرَةِ عِنْدَھُمْ، إلاّبِمُبَادَلَةٍ أوْتَرَاضٍ مُعْتَمَدٍ عَلٰی عِلْمٍ مِنْ غَیْرِ تَدْلِیْسٍ وَرُکُوْبِ غَرَرٍ، وَأیْضًا لَمَّا کَانَ النَّاسُ مَدْنِیِّیْنَ بِالطَّبْعَةِ لَا تَسْتَقِیْمُ مَعَایِشُھُمْ إلاَّ بِتَعَاوُنٍ بَیْنَھُمْ، نَزَلَ الْقَضَاءُ بِإیْجَابِ التَّعَاوُنِ، وَأنْ لَایَخْلُوَ أَحَدٌ مِّنْھُمْ مِمَّا لَہ دَخَلٌ فِي التَّمَدُّنِ، إلَّا عِنْدَ حَاجَةٍ لَایَجِدُ مِنْھَا بُدًّا۔(۷)

          (ترجمہ)یہ واضح رہے کہ اللہ تعالی نے جب مخلوق کوپیداکیااورزمین میں اس کی معاشی ضروریات کے لیے سامان فراہم کردیا،اوران کوسب کے لیے مباح اورعام کردیاتومخلوق میں(ان سے متمتع ہونے کے حوالے سے)مزاحمت اورمناقشت شروع ہوگئی،تب اللہ تعالی نے حکم دیاکہ کوئی شخص سبقت اورپہل کرکے کسی شئے کواپنے قبضے میں کرلے،یامورث کے قبضہ کی وجہ سے اس کی وراثت میں آجائے،یاان کے علاوہ ایسے دوسرے طریقوں سے اس کاقبضہ ہوجائے جواللہ تعالی کے نزدیک جائزطریقے قرارپاچکے ہیں،تودوسرے شخص کواس کی مقبوضہ شئے میں مزاحمت کاحق نہیں؛البتہ دوسرے کی مقبوضہ شئے کوحاصل کرنے کے لیے جائز طریقہ یہ ہے کہ خریدوفروخت اورلین دین کے ذریعے تبادلہ کی شکل اختیارکی جائے،یامعتبرطریقوں یاباہمی رضامندی سے لین دین انجام پائے توبہت بہترہے،انسان چوں کہ مدنی الطبع یعنی معاشرے میں مل جل کررہنے والاواقع ہواہے ،لہٰذااس کی زندگی تعاون واشتراک کے بغیرناممکن ہے،تواللہ تعالی نے تعاون واشترک ِباہمی کوواجب قراردیاہے اوریہ بھی لازم کیاکہ بغیرضرورت ِ شدیدہ کے کسی فردکوایسے امورسے کنارہ کش ہونے کاحق نہیں جوتہذیب ومعاشرت کے مسئلہ میں دخیل ہوں“۔

مسئلہٴ معاش اور انسانی کوششیں

          مشاہدہ ہے کہ انسان اپنے معاشی مسائل کے حل اوراس کے تقاضوں کوپوراکرنے کے لیے نہ صرف یہ کہ سرگرمِ عمل رہتاہے؛ بلکہ جنون کی حد تک اس میں مصروفِ کارہوتاہے،اسی تگ ودومیں بعض دفعہ اس کی سوچنے اورسمجھنے کی قوتیں ماؤف ہوجاتی ہیں،اوروہ اپنے ہوش وہواس تک کھوبیٹھتاہے،غرض معاشی تحفظ کے لیے جوبھی راہ سوجھتی ہے ،یاجس راہ پربھی روشنی دکھائی دیتی ہے اس کے نتائج وعواقب سے بے نیازہوکرخواہشات کے بے لگام گھوڑے پرسوارہوکرسرپٹ دوڑے چلے جاتاہے،کبھی ایک راہ اختیارکرتاہے توکبھی دوسری،درست راہ کی طرف راہنمائی نہ ہونے کی وجہ سے ہربارگوہرِمقصودہاتھ نہیں آتا،اس کادامن یاس وحرمان کے کانٹوں میں مزید الجھ جاتاہے،مسائل حل ہونے کے بجائے بڑھتے چلے جاتے ہیں،معاشی بوجھ سے سبکدوش ہونے کے بجائے وہ مزیداس کے پنجے میں دبتاچلاجاتاہے۔

مختلف زمانوں میں انسانی ذرائع معاش

          ہرزمانہ میں انسان نے اپنے معاشی مسائل کے حل اورضروریاتِ زندگی کی فراہمی کے لیے مختلف ذرائع کواختیارکیا،اوّلاًرزق کے تمام ذرائع زمین میں تھے اورانسانی زندگی کاپہلادوراسی زمین کی پیداوارپراکتفاکرتاتھا،یازمین پرچلنے والے جانوراسے شکارکی صورت میں مل جاتے تھے،صدیوں تک یہی عمل جاری رہا،پھرتہذیب وتمدن کاعمل بڑھتاگیااورضروریات میں اضافہ ہواتونئے نئے ذرائعِ معاش بھی وجودمیں آنے لگے،اوریوں مصنوعات کادورشروع ہوا،انسانی زندگی کے ابتدائی دورمیں تبادلہٴ اشیاء کانظام رائج ہوااورایک طویل زمانہ تک اسی کارواج رہا، ہرایک اپنی ضرورت کی چیزلے کردوسرے کواس کی ضرورت کی چیزفراہم کرتاتھا،مرورِزمانہ کے ساتھ اس مقصدکے لیے مختلف ذرائع ایجادہوتے رہے،یہاں تک کہ سونے، چاندی، دھاتوں کے بدلے معاملات انجام پانے لگے،پھرسکوں کادورآیا،پھرمعیشت کی جدیدشکلیں اورنظریے وجودپذیرہوئے اوردنیاسکوں سے کاغذی کرنسی کی طرف آگئی،اورآج نوبت کاغذی کرنسی سے مختلف کارڈزتک پہنچ گئی کہ ضروت مندخریداری کرکے بجائے عوض میں کاغذی نوٹ دینے کے تاجرکوکارڈدکھاتاہے اوراپنی مطلوبہ اشیاء حاصل کرلیتاہے،جس رفتارسے ایجادات ہورہی ہیں اور جس طرح انسان لامحدودخواہشات کی تکمیل میں لگاہواہے،اس سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ اسی پربات رکے گی نہیں؛بلکہ مزید نئی صور تیں جودمیں آئیں گی۔

کسبِ معاش اور اسلامی تعلیمات

          اسلام کسی معاشی نظام اورمعاشی نظریے کانام نہیں؛بلکہ یہ ایک دین اورمکمل نظامِ حیات ہے،جس میں زندگی کے تمام شعبوں سے متعلق کامل واکمل رہنمائی موجودہے،دیگرشعبہ جات زندگی کی طرح معاش،کسبِ معاش اوران سے متعلقہ امورکے لیے اسلام نے احکامات بیان فرمائے ہیں،بعض حضرات اسلام کوبھی ایک معاشی نظریہ اورنظام سمجھ کراس کاتقابل دیگر جدید وقدیم معاشی نظاموں سے کرتے ہیں،جوکسی طرح بھی درست نہیں؛اس لیے کہ تاریخِ انسانی کے ہردور میں معاشی مسائل کے حل کے لیے ہمہ نوع اورباہم دیگرمتضادنظریات پیش کیے جاتے رہے ہیں،اورآئندہ بھی ایسا ہوتارہے گا؛لیکن زمانہ شاہدہے کہ یہ نظریات زمان ومکان کے ساتھ سا تھ بدلتے مٹتے اورتبدیل ہوتے رہتے ہیں؛جب کہ اسلام نوعِ انسانی کے لیے عالم گیر،دائمی، ابدی ،حتمی اورکامیابی کاضامن لائحہٴ عمل مہیا کرتا ہے،اپنی وسعت ،ہمہ گیری،جامعیت اوراکملیت کے باوصف اسلام نے حیاتِ انسانی کے تمام پہلوؤں کے لیے جامع ومانع پروگرام مرحمت فرمایاہے،اس میں معاشی زندگی کے حوالے سے بھی رہنمائی کی گئی ہے۔

          کسبِ معاش کے لیے اسلامی احکامات اوراس کے فراہم کردہ اصولوں میں محنت،اس کی ضرورت واہمیت سرمایہ کاحصول وحرفت،زمین کی ملکیت ،پیداواری صلاحیت اورپیداوارکے احکام،لین دین میں معاہدات اورعہدکی پابندی،صداقت ،امانت،دیانت داری ،راست بازی، حق گوئی اورسچائی کی تلقین،دھوکہ دہی،ذخیرہ اندوزی،ناجائزمنافع خوری، بلیک مارکیٹنگ اور ملاوٹ کی مذمت و ممانعت،رشوت اورسودکی قباحت وحرمت اورمخربِ اخلاق ذرائع آمدنی سے اجتناب ودیگرکئی اورپہلوؤں سے متعلق احکام وہدایات کووضاحت کے ساتھ بیان کیا گیاہے۔ اس کے علاوہ معاشرتی زندگی کے حوالہ سے ہمدردی ،غم گساری ،ایثاروقربانی اوراللہ کی راہ میں خرچ کواہمیت دی گئی ہے،فرداورمعاشرہ کوان کاحکم دیاگیاہے۔

محنت

          کسبِ معاش میں محنت کوخاص اہمیت حاصل ہے،خودمحنت کرکے کمانے کو سراہا گیا ہے؛ چناں چہ بخاری شریف کی ایک روایت میں ہے :

          ”مَا أکَلَ أحَدٌ طَعَاماً قَطُّ خَیْرًا مِنْ أنْ یَأکُلَ مِنْ عَمَلِ یَدِہ، وَأنَّ نَبِيَّ اللہِ دَاؤُدَ علیہ السلامُ کَانَ یَأکُلُ مِنْ عَمَلِ یَدِہ (۸)

          ترجمہ:تم میں کوئی اپنے ہاتھ کی کمائی سے بہترکوئی چیزنہیں کھاتا،اوراللہ کے نبی داؤدعلیہ السلام اپنے ہاتھ سے کماکرکھاتے تھے۔

          ایک دوسری روایت میں ہے:

          ”لأنْ یَّحْتَطِبَ أحَدُکُمْ حِزْمَةً عَلٰی ظَھْرِہ خَیْرٌ مِنْ أنْ یَّسْأَلَ أَحَدًا فَیُعْطِیَہ أَوْ یَمْنَعُہ (۹)

          ترجمہ: تم سے کوئی اپنی پشت پرلکڑیوں کاگٹھااٹھائے یہ اس بات سے بہترہے کہ کسی سے کوئی سوال کرے،کوئی اسے دے یانہ دے۔

          حلال کمائی کوفریضہ سے تعبیرکیاگیاہے؛چناں چہ ارشادنبوی ہے:

          ”کَسْبُ الْحَلَالِ فَرِیْضَةٌ بَعْدَالْفَرِیْضَةِ“(۱۰)

          ترجمہ: حلال روزی کمانافرائضِ (لازمہ)کے بعدفریضہ ہے۔

          حضرت ابوہریرة رضی اللہ عنہ کی ایک روایت میں حضورِاکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے طلبِ معاش کی فکر کو (مخصوص)گناہوں کاکفارہ قراردیاہے؛چناں چہ ارشاد گرامی ہے:

          ”اِنَّ مِنَ الذُّنُوْبِ ذُنُوْبًا، لاَ تُکَفِّرُھَا الصَّلٰوةُ وَلاَ الصِّیَامُ وَلاَ الْحَجُّ وَلاَ الْعُمْرَةُ، قَالُوْا: فَمَا یُکَفِّرُھَا یَا رَسُوْلَ اللہِ؟! قَالَ: اَلْھُمُوْمُ فِيْ طَلَبِ الْمَعِیْشَةِ“(۱۱)

          (ترجمہ)”گناہوں میں سے بعض گناہ ایسے ہیں،جنہیں نہ نمازمعاف کرواتی ہے، نہ ہی روزہ اورنہ حج وعمرہ معاف کراتے ہیں،صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: یارسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم! پھر انھیں کون سی چیزمعاف کرواتی ہے؟آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:ان کاکفارہ کسبِ معاش میں پیش آنے والی پریشانیاں ہیں“۔

          خودحضورِاکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہٴ حسنہ کااولین پہلویہ ہے کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم خودمحنت فرماکراللہ تعالیٰ کے خزانوں سے روزی کماتے،خودکھاتے اوردوسروں کوکھلاتے تھے،قبل ازنبوت کی حیاتِ طیبہ میں کئی ایک تجارتی اسفارجوشام،بصرہ اوریمن کی طرف اختیارفرمائے قابلِ ذکرہیں۔(۱۲)

          حضورِ اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک اورپاکیزہ تعلیمات سے یہ معلوم ہوتاہے کہ خوداپنے ہاتھ سے محنت کرکے حلال روزی کماناشریعت میں محموداورمطلوب ہے۔

سرمایہ اوراس کاحصول

          اسلام دولت اورسرمایہ کوناپسندیدہ نظرسے نہیں دیکھتا؛بلکہ اسلامی تعلیمات میں جگہ جگہ اسے ”خیر“ کے لفظ سے تعبیرکیاگیاہے؛چناں چہ ارشادربانی ہے: ﴿وَانَّہ لِحُبِّ الْخَیْرِ لَشَدِیْد﴾(۱۳)

          ترجمہ: بے شک وہ مال کی محبت میں بہت سخت ہیں۔

          سورة البقرة میں ارشادخداوندی ہے:﴿وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ خَیْرٍ یُّوَفَّ الَیْکُمْ﴾(۱۴)

          ترجمہ: اورتم مال میں سے جوکچھ خرچ کروگے تمہیں پوراپورادیاجائے گا۔

 حلال ذرائعِ آمدنی

          مال کاحصول حلال طریقے سے ہوناضروری ہے،حلال مال وہی ہوگا جس کاذریعہ بھی حلال ہوگا،ورنہ حلال رزق بھی حرام اورناپاک تصورہوگا،جیسے حلال اناج اورگندم چوری کے ذریعے ،اسی طرح حلال روپے رشوت اورغبن کے ذریعے،ناپ تول میں کمی،یاملاوٹ کرکے اورجھوٹ بول کرکمائے جائیں تویہ ساری چیزیں حلال رزق کوبھی حرام کردینے والی ہیں۔

          مال کے حصول میں دیانت وامانت کے اصول کومرکزی نکتہ کی حیثیت دی گئی ہے؛تاکہ باہمی مفادات کااحترام وتقدس قائم رہ سکے؛چناں چہ باطل طریقے سے ایک دوسرے کے مال کوکھانے سے منع کیاگیاہے،ارشاد باری تعالی ہے:

          ﴿یَاأیُّھَاالَّذِیْنَ آمَنُوْالَاتَاْٴکُلُوْا أَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ﴾(۱۵)

          ترجمہ: اے ایمان والو!اپنے مال آپس میں باطل طریقہ سے مت کھاؤ۔

          حلال رزق کوحلال طریقہ سے کمانے کی ترغیب آپ علیہ الصلوٰة السلام نے ایک دوسرے اندازمیں بھی ارشاد فرمائی ہے؛چناں چہ ارشادمبارک ہے:

          ”أیُّمَاعَبْدٍ نَبَتَ لَحْمُہ مِنَ السُّحْتِ وَالرِّبَا، فَالنَّارُأوْلٰی بِہ (۱۶)

          ترجمہ: جس شخص کاگوشت پوست ظلم اورسودسے پلے بڑھے،اس کے لیے جہنم کی آگ ہی زیادہ بہترہے۔

          دوسرے کاحق چاہے زیادہ ہویامعمولی ،ناجائزطریقہ سے قبضہ کرنے سے منع کیاگیاہے، حدیث آیا ہے:

          ”مَنِ اقْتَطَعَ شِبْرًا مِنَ الأرْضِ ظُلْماً طَوَّقَہ اللہُ ایَّاہُ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ مِنْ سَبْعِیْنَ أَرْضِیْنَ“․(۱۷)

          ترجمہ: جس شخص نے ظالمانہ طورپرکسی سے زمین کا ایک بالشت حصہ لے لیا،قیامت کے روزاللہ تعالی سات زمینوں کابوجھ اس کے گلے میں ڈال دے گا۔

          ایک اورروایت میں معمولی اشیاء کے بارے میں فرمایا:

          ”مَنِ اقْتَطَعَ حَقَّ امْرِیٴٍ مُسْلِمٍ بِیَمِیْنِہ فَقَدْ أوْجَبَ اللہُ لَہ النَّارَ وَحَرَّمَ عَلَیْہِ الْجَنَّةَ، فَقَالَ لَہ رَجُلٌ: وَانْ کَانَ شَیْئًا یَسِیْرًا یَا رَسُوْلَ اللہِ؟! قَالَ: وَانْ کَانَ قَضِیْباً مِنْ أرَاکٍ“․(۱۸)

          ترجمہ: جس نے کسی مسلمان کاحق قسم کے ذریعے ختم کردیا،اللہ نے اس کے لیے جہنم واجب کردی اوراس پرجنت کوحرام کردیا،ایک شخص نے عرض کیاکہ اگربہت معمولی سی چیزکامعاملہ ہوتو؟(پھربھی ایساہی ہوگا)فرمایا:اگرچہ اراک درخت کی شاخ ہی کیوں نہ ہو۔

جدیدمعاشی نظریات اوراسلام

          معاشی مسائل میں غوطہ زنی سے پہلے ایک بنیادی نکتے کاسمجھناضروری ہے،جس کی وجہ سے جدیدماشی نظریات اورمعاش کے اسلامی احکام میں تمیزاورفرق سہل ہوجاتاہے،وہ یہ کہ اسلام اگرچہ سہولیات دنیوی کے ترک اورطلبِ رزق کی مشغولیت کوناپسندیدہ سمجھنے میں رہبانیت کامخالف ہے،اورمعاشی میدان میں انسانی حرکت کونہ صرف مباح؛ بلکہ بعض اوقات اسے پسندیدہ اورضروری قراردیتاہے؛لیکن اس سب کے باوجودمعاش کوانسان کے لیے بنیادی مسئلہ قرار نہیں دیتا، نہ ہی معاشی ترقی کوحیاتِ انسانی کامقصودومنتہاسمجھتا ہے،یہیں سے مادیت پرمبنی معیشت اورمعیشت کے اسلامی احکام میں بڑااوربنیادی فرق واضح ہوجاتاہے کہ مادیت پرست معیشت ہی کوانسان کی زندگی کامقصودومنتہاقراردیتے ہیں،جب کہ اسلام یہ کہتاہے کہ بقدرضرورت طلبِ معاش سے کوئی فردبشرمستغنی نہیں؛لیکن اسی کوانسانیت کی معراج سمجھنے کی ہرگزاجازت نہیں کہ انسان اسے اپنی کامیابی وناکامی کے لیے معیارقراردے۔(۱۹)

مسائلِ اربعہ کا حل اسلامی تعلیمات کی روشنی میں

          معاش کوانسانی زندگی کامقصدومنتہاقراردینے والوں نے جن چارمسائل کومعیشت کی بنیاد بنایا اورانھیں حل کرنے کے لیے اپنے مذعومہ نظریات پیش کیے ،اسلامی احکامات کے تناظرمیں ان کاجائزة لینے سے جوباتیں سامنے آتی ہیں،ان کاخلاصہ درج ذیل ہے:

طلب ورسدکے فطری قوانین کااعتراف

          اسلام طلب ورسدکے فطری قوانین کانہ صرف معترف ہے؛بلکہ اس حوالے سے ہدایات بھی فراہم کرتاہے،قرآن کریم میں اللہ رب العزت کاارشادہے:

          ﴿نَحْنُ قَسَمْنَا بَیْنَھُمْ مَعِیْشَتَھُمْ فِي الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَرَفَعْنَا بَعْضُھُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجَاتٍ لِیَتَّخِذَ بَعْضُھُمْ بَعْضًا سُخْرِیَّا﴾(۲۰)

          ترجمہ: ہم نے ان کے درمیان معیشت کوتقسیم کیاہے اوران میں سے بعض کوبعض پردرجات میں فوقیت دی ہے؛تاکہ ان میں سے ایک دوسرے سے کام لے سکیں۔

          یہاں کام لینے کوطلب اورکام کرنے کورسدسے تعبیرکیاجاسکتاہے،یہی وہ چیزہے جس کی باہمی کشمکش اورامتزاج سے ایک متوازن معیشت وجودمیں آسکتی ہے۔

          ہم نے پہلے عرض کیاتھاکہ اسلام اس حوالے سے ہدایات بھی فراہم کرتاہے،لہٰذاایک موقع پرجب آپ علیہ السلام سے بازارمیں فروخت ہونے والی اشیاء کی قیمتیں اورنرخ متعین کرنے کی درخواست کی گئی توجواب میں آپ علیہ السلام نے ارشادفرمایا:

          ”إنَّ اللہَ ھُوَالْمَسْعُرِالْقَابِضُ الْبَاسِطُ الرَّازِقُ“(۲۱)

          ترجمہ:بے شک اللہ تعالی ہی قیمت مقررکرنے والے ہیں،وہی چیزوں کی رسدمیں کمی اور زیادتی کرنے والے ہیں،اوروہی رزاق ہیں۔

          ایک اورحدیث میں اس بات کی طرف اشارہ فرمایاگیاہے کہ بازارمیں رائج طلب ورسد کے قوانین فطری ہیں،ان میں تبدیلی درست نہیں،آپ نے شہریوں کودیہات والوں کے لیے یعنی ان سے مال لے کرخودشہرمیں مہنگے داموں فروخت کرنے سے منع فرمایااورساتھ ہی یہ بھی ارشادفرمایا:

          ”دَعُوا النَّاسَ یَرْزُقُ اللہُ بَعْضَھُمْ مِنْ بَعْضٍ“․(۲۲)

          ترجمہ: لوگوں کوآزادچھوڑدوتاکہ اللہ تعالی ان میں سے بعض کوبعض کے ذریعے رزق عطافرمائے۔

          اس حدیث میں تیسرے شخص کی مداخلت کومنع فرمایاگیا؛تاکہ طلب ورسدکاصحیح توازن قائم ہو،اورذخیرہ اندوزی کے ذریعے مصنوعی قلت پیداکرکے طلب ورسدکے قدرتی نظام میں بگاڑ سے حفاظت ہوسکے،گویااسلام کے معاشی احکام سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ فی الجملہ طلب ورسداورذاتی منافع کے محرک کااعتبارہے؛لیکن ساتھ ساتھ یہ بھی بتادیا کہ جدیدمعاشی نظریات کی طرح ان کوبے لگام نہیں چھوڑاگیاکہ جس طرح چاہیں معاملہ کریں؛ کیوں کہ مطلق آزادی ذخیرہ اندوزیوں کوجنم دیتی ہے،جس سے مارکیٹ کانظام درہم برہم ہوجاتاہے۔(۲۳)

 متوازن معیشت

          مارکیٹ کوسرمایہ داروں کے تسلط اوردیگرمفاسدسے بچانے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اسلام کے معاشی احکام سے واقف ہوں اوران پرعمل پیرا ہوں، تاکہ شخصی آزادی اورمارکیٹ کی آزادفضاکے درمیان توازن ومعاشرہ کی آزادی کے درمیان توازن قائم ہوسکے۔

          اسلام کے بتائے ہوئے احکام میں سود،قماراورسٹہ بازی کی حرمت خاص اہمیت رکھتی ہے؛ کیوں کہ یہی وہ ذرائع ہیں جن کے ذریعے سے مال وسرمایہ سمٹ کرصرف چندسرمایہ داروں کے ہاتھوں میں آجاتاہے،تاریخ گواہ ہے کہ سرمایہ داریت ومادیت کاطوفان انہی مذکورہ بالااسباب کے نتیجے میں برپاہوا،اورآج پورے خطہٴ ارضی کواپنی لپیٹ میں لیے ہوئے ہے۔ذخیرہ اندوزی، قافلوں کے شہرمیں آمدسے قبل ہی خریدوفروخت،شہری کادیہاتی کے لیے معاملہ اورتمام بیوعاتِ فاسدہ اورباطلہ کی حرمت کی وجہ یہ بھی ہے کہ ان سے مارکیٹ کے فطری اصول متاثرہوتے ہیں، رسدوطلب کے قوانین معطل ہوکرچندسرمایہ داروں کے ہاتھ کھلونا بن کررہ جاتے ہیں۔(۲۴)

ذاتی منافع کے محرک پرعائد اسلامی پابندیاں

          اسلام کی پاکیزہ تعلیمات کے مقابلے میں سرمایہ داریت میں ذاتی منافع کے محرک کوبالکل آزاد چھوڑ دیاگیاہے،جس کے نتیجے میں وہ خرابیاں پیداہوئیں جن کاذکرگزشتہ سطور میں کیاگیا، اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ذاتی منافع کے محرک پرجوپابندیاں عائد ہوتی ہیں، وہ تین طرح کی ہیں:

(۱)     خدائی پابندیاں

          سب سے پہلے تواسلام نے معاشی سرگرمیوں پرحلال وحرام کی کچھ ایسی ابدی پابندیاں عائد کی ہیں جوہرجگہ اورہرزمانے میں نافذالعمل ہیں،یہ پابندیاں نہ صرف عقلِ انسانی کے موافق ہیں؛ بلکہ وحیِ الٰہی کے ذریعہ سے ان کوابدی حیثیت بھی دی گئی ہے؛تاکہ کوئی مادہ پرست اور فاسدالعقل شخص اپنی عقلی تاویلاتِ فاسدہ کے ذریعے ان سے چھٹکاراحاصل کرکے معیشت اور معاشرے کوناہمواریوں میں مبتلانہ کرسکے ۔

          تکملة فتح الملہم میں ان پابندیوں کوان الفاظ میں بیان کیاگیاہے:

          ”فَلاَ یَجُوْزُ لِأَحَدٍ مِّنَ الْمُکْتَسِبِیْنَ أنْ یَکْسِبَ الْمَالَ بِطَرِیْقَةٍ غَیْرِ مَشْرُوْعَةٍ مِّنَ الرِّبَوٰ وَالْقِمَارِ وَالتَّخْمِیْنِ وَسَائِرِ الْبُیُوْعِ الْفَاسِدَةِ أَوِ الْبَاطِلَةِ“․(۲۵)

          ترجمہ: کسی تاجرکے لیے یہ جائزنہیں کہ وہ سود،قمار،سٹہ بازی وردیگرتمام بیوع فاسدہ وباطلہ کے غیرمشروع طریقہ سے مال کمائے۔(کیوں کہ یہ چیزیں عموماًاجارہ داریوں کے قیام کاذریعہ بنتی ہیں)۔

(۲)    حکومتی پابندیاں

          تمام حالات میں جب کہ معاملات ہدایاتِ الٰہیہ کی روشنی میں انجام دیے جارہے ہوں تواسلام معاشی سرگرمیوں میں حکومت کومداخلت کی اجازت نہیں دیتا؛البتہ اگرکوئی عمومی مصلحت ہو، یاکوئی اپنی ذاتی اجارہ داری قائم کررہاہوتوحکومتِ وقت تاجروں پرایسی پابندیاں عائدکرسکتی ہے،جن سے معیشت ناہمواری کاشکارہونے سے بچ جائے۔

          چناں چہ ایک مرتبہ حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ بازارتشریف لائے تودیکھاکہ ایک شخص کوئی چیزاس کے معروف نرخ سے بہت کم داموں میں فروخت کررہاہے ،توآپ نے اس سے فرمایا:

          ”إمَّا أنْ تَزِیْدَ فِي السِّعْرِ وَإمَّا أنْ تَرْفَعَ مِنْ سُوْقِنَا“․(۲۶)

          ترجمہ: یاتم دام میں اضافہ کرو،ورنہ ہمارے بازارسے اٹھ جاؤ۔

          اس حدیث سے یہ معلوم ہواکہ حکومت کسی مصلحت کے تحت کوئی پابندی عائدکرسکتی ہے؛ کیوں کہ مارکیٹ میں اگرکوئی معروف نرخ سے کم قیمت پرخریدوفروخت کرے تواس سے دیگر تاجروں کے لیے جائزنفع کاراستہ بندہوسکتاہے،لہٰذااس سے کہاگیا:یاتوتم معروف بھاؤ پر فروخت کرو،ورنہ یہ بازارچھوڑکرچلے جاؤ؛البتہ یہ ضروری ہے کہ حکومت کی طرف سے عائدکردہ پابندیاں قرآن وسنت کے کسی حکم سے متصادم نہ ہوں،وگرنہ وہ پابندیاں قابلِ التفات وقابلِ عمل نہیں ہوں گے؛ کیوں کہ اسلام ہمیں اس کی تعلیم دیتا ہے کہ خدا ئی احکام کے مقابلہ میں کسی مخلوق کی اطاعت جائز نہیں،جیسا کہ حدیث میں وارد ہوا ہے:

          ”لاَ طَاعَةَ لِمَخْلُوْقٍ فِيْ مَعْصِیَةِ الْخَالِقِ“۔(۲۷)

          ترجمہ: خالق کی نافرمانی میں کسی مخلوق کی اطاعت جائز نہیں۔

(۳)    اخلاقی پابندیاں

          اسلامی تعلیمات میں قدم قدم پرانسان کویہ بتایاگیاہے کہ معاشی سرگرمیاں اوران سے حاصل ہونے والے مادی فوائدانسان کی زندگی کامنتہاء مقصودنہیں؛بلکہ وجہ تخلیقِ آدم اخروی زندگی کی لازوال کامیابیوں کاحصول ہے،اگرکائنات کے کسی بھی خطے میں اسلام کی پاکیزہ تعلیمات اوراحکام کامکمل نفاذہوتووہاں سے اشتراکیت،شیوعیت اورسرمایہ داریت کے تمام زہریلے اثرات ختم ہوجائیں گے،جس کے نتیجہ میں وہاں ظلم،قساوت اورنفس پرستی سے پاک معیشت وجود میں آئے گی۔(۲۸)

          اسلام نے تجارت ومعیشت کوپاکیزہ اورصاف ستھرارکھنے کے لیے جوضوابط وقوانین مقرر کیے ہیں وہ نہ صرف دنیامیں حلال رزق کے حصول کاذریعہ ہیں؛بلکہ آخرت میں اعلیٰ درجات کاباعث بھی ہیں۔ (باقی آئندہ)

***

حوالہ جات

(۱)         طہ:۱۱۸،۱۱۹۔

(۲)        معارف القرن،سورة طہ،آیت :۱۱۸،۱۱۹:۵/۱۶۶،(۱۴۲۲ھ)ط،مکتبہ المعارف، شہدادپور،سندھ۔

(۳)        معارف القرن،سورة طہ،آیت :۱۱۸،۱۱۹:۵/۱۶۶،(۱۴۲۲ھ)ط،ادارة المعارف، کراچی۔

(۴)        الأعراف:۱۰۔

(۵)        الذاریات:۲۲۔

(۶)        معارف القرآن للکاندھلوی:۷/۶ص۵،طةمکتبہ المعارف شہدادپور۔

(۷)        حجة اللہ البالغہ،باب من أبواب ابتغاء الرزق:۲/۲۷۳،ط،زمزم پبلشرزکراچی۔

(۸)        البخاری،ابوعبداللہ محمدبن اسماعیل،الجامع الصحیح،کتاب البوع،باب کسب الرجل وعملہ بیدہ،(رقم الحدیث: ۲۰۷۴): ۴۱۲، دارالکتاب العربی ،بیروت۔

(۹)        حوالاسابق،رقم الحدیث:۲۰۷۴۔

(۱۰)       البیہقی،أبوبکرأحمدبن الحسین بن علی،السنن الکبری،کتاب الاجارة،باب کسب الرجل وعملہ بیدہ“(رقم الحدیث:۱۲۳۰): ۶/۱۲۸‘ ط ۱۳۴۴ھ،مجلس دائرة النظامیة،حیدرآباد،الہند۔

(۱۱)        الہیثمی،نورالدین علی بن أبی بکر،مجمع الزوائد،کتاب البیوع،باب الکسب والتجارة ومحبتہا والحث علی طلب الرزق،(رقم الحدیث:۶۲۳۹):۴/۱۰۹،دارالفکر‘بیروت۔

(۱۲)       علامہ شبلی نعمانی،سیرة النبی  صلی اللہ علیہ وسلم،ظہورِقدسی،شغل تجارت:۱/۱۸۷کواپریٹیو کیپٹل پرنٹنگ پریس،لاہور،ط:پنجم۔

(۱۳)       العادیات:۸۔

(۱۴)       البقرة:۲۷۲۔

(۱۵)       البقرة:۱۸۸۔

(۱۶)       الطبرانی،أبوالقاسم سلیمان بن أحمد،المعجم الأوسط،(رقم لحدیث:۶۴۹۵): ۶/۳۱۰، ت:طارق بن عوض اللہ الحسینی، ط: دارالحرمین‘ القاہرة ۱۴۱۵ھ۔

(۱۷)       القشیری،أبوالحسین مسلم بن حجاج بن مسلم،صحیح مسلم،کتاب البیوع ،باب تحریم الظلم وغصب الأرض وغیرہا،(رقم الحدیث: ۴۱۳۲)، ص:۷۰۳،ط،دارالسلام ،الریاض ۱۴۱۹ھ۔

(۱۸)       الأصبحی،مالک بن أنس بن مالک بن أبی عامربن الحارث ،موطاالإمام مالک ،کتاب الأقضیة،باب ماجاء فی الحنث علی منبرالنبی  صلی اللہ علیہ وسلم،ص:۶۳۶،قدیمی،کراچی۔

(۱۹)       تکملة فتح الملہم،کتاب البیوع،مسئلة الاقتصاد فی الإسلام(ملخصاً):۱/۳۰۰،۳۰۱،مکتبة دارالعلوم کراتشی،۱۴۱۴ھ۔

(۲۰)       الزخرف:۳۲۔

(۲۱)       السجستانی،أبوداؤد سلیمان بن الأشعث الأذدی،سنن أبی داؤد،کتاب الإجارة،باب فی الشعیر،(رقم الحدیث:۳۴۵۱): ۳/۳۷۴، ۳۷۵،دارإحیاء التراث العربی،۱۴۲۱ھ۔

(۲۲)       الترمذی،أبوعیسی محمدبن عیسی بن سورة،سنن الترمذی،کتاب البیوع،باب ماجاء لایبیع حاضرلباد،(رقم الحدیث:۱۲۲۳): ۲/۲۶۶، دارالکتب العلمیة،بیروت ۱۴۲۱ھ۔

(۲۳)      تکملة فتح الملہم،کتاب البیوع،المذہب الاقتصادی الإسلامی:۱/۳۱۰،۳۱۱،مکتبة دارالعلوم کراتشی۔

(۲۴)      حوالا سابق:۱/۳۱۱،۳۱۲۔

(۲۵)      تکملة فتح الملہم،کتاب البیوع،المذہب الاقتصادی الإسلامی:۱/۳۱۲،مکتبة دارالعلوم کراتشی۔

(۲۶)       إمام دارالہجرة،مالک بن أنس،مؤطاالإمام مالک،کتاب البیوع،باب الحکرة والتربص، ص: ۵۹۱،قدیمی،کراچی۔

(۲۷)      التبریز ی،الخطیب،ولی الدین ابو عبد اللہ محمد بن عبد اللہ،مشکاة المصابیح،کتاب الامارة والقضاء،الفصل الثانی،(رقم الحدث:۳۶۹۶):۳/۸،دارالکتب العلمیة، بیروت، ۱۴۲۴ھ- ۲۰۰۳م۔

(۲۸)      تکملة فتح الملہم،کتاب البیوع،المذہب الاقتصادی الإسلامی،تدخل الأخلاق:۱/۳۱۳،مکتبة دارالعلوم کراتشی۔

***

-----------------------------------

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ 1‏، جلد: 98 ‏، ربیع الاول 1435 ہجری مطابق جنوری 2014ء