ذمہ دارانِ مساجدسے چندگزارشات

 

از: مولانا محمد مجیب الرحمن دیودُرگی    

‏ استاذ دارالعلوم حیدرآباد              

 

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اگر کسی شخص کی مسجد میں آمد ورفت رہتی ہے تو تم اس کے ایمان کی گواہی دو“! صرف آمدورفت پر ایمانی شہادت کی تعلیم دی گئی ہے،اس سے آگے بڑھ کر اگر کوئی مسجد کی خدمت میں مصروف رہتا ہو تو اس کے کیا فضائل ومناقب ہونگے؟ کسی کو مسجد کی خدمت نصیب ہوجائے تو یہ ایک بڑی نعمت ہے ، اس پر جس قدر شکر گزاری کی جائے کم ہے مشرکینِ مکہ بھی مسجد ِ حرام کی تعمیر اور اس کی دیکھ بھال کو اپنے لیے قابلِ فخر تصور کرتے تھے ، اور جابجا اس کا اظہار بھی کرتے تھے؛ لیکن قرآنِ کریم نے اس کا رد کیا کہ بغیر ایمان کے صرف تعمیرِمسجد انسانی نجات کے لیے کافی نہیں ، آج ذمہ دارانِ مساجد مساجد کی دیکھ بھال میں مساجد کی نگرانی سے متعلقہ امور کی انجام دہی میں تندہی کا مظاہرہ تو کرتے ہیں؛لیکن ساتھ ہی کچھ نقائص کچھ خامیاں بھی ہیں جن کی نشاندہی مقصود ہے جن کے ازالہ سے انشاء اللہ یہ خدمت مزید سرخروئی کا باعث ہوگی۔

 امام کا احترام

           افضل شخص ہی کو امام بنایا جاتا ہے ، کم از کم قرأتِ قرآن و علم کے اعتبار سے افضل ہو ، امامتِ کبریٰ کے لیے بھی حضرت علی نے امامتِ صغریٰ ہی کو دلیل بنایا تھا ، شریعتِ مطہرہ میں بھی امام کے کچھ اوصاف بیان کیے گئے ہیں کہ متقی ہو ، صاحبِ ورع ہو وغیرہ وغیرہ، جب ہم نے اس شخص کو اپنی نمازایسی مہتم بالشان عبادت کے لیے امام تسلیم کر لیا تو پھر اس کے خلاف رکیک جملے ، اس کے روبرو طنزیہ کلمات ، اس کی غیبت کیا معنیٰ رکھتی ہے؟

           مساجد کا جائزہ لینے سے بکثرت مشاہدہ ہوتا ہے کہ ائمہٴ کرام کی ناقدری ایک عام وبا کی شکل اختیار کرتی جارہی ہے، ایک شخص کو امام بھی بنایا جارہاہے اور اس کی ناقدری بھی ہو رہی، امام کی عزت وعظمت ایک ذمہ دارِ مسجد کا وطیرہ ہونا چاہیے؛ تاکہ ذمہ دار سے اور لوگ بھی سبق سیکھیں، اگر کوئی امام مسجد کے جائز اصولوں کے مطابق خدمت کے لیے آمادہ نہ ہو تو شرافت کے ساتھ اسے علاحدہ کر دیا جائے ، اب تو بالعموم ائمہٴ کرام حافظ وعالم ہوتے ہیں ، ان کے ساتھ نازیبا رویہ تو انتہائی مہلک ہے ، صحابہٴ کرام تو ان افراد کی خدمت میں مصروف ہوتے جو قرآن ِکریم کی تلاوت یا نماز میں مشغول ہوتے ۔

          امام ابوداوٴد نے اپنے مراسیل میں نقل کیا ہے کہ کچھ صحابہٴ کرام ایک شخص کی بڑی تعریف کررہے تھے ، اور یہ کہنے لگے کہ ہم نے ان جیسا آدمی نہیں دیکھا ، جب سفر میں ہوتے تو قرأتِ قرآن میں مصروف ہیں ، اور جب سواری سے اترتے ہیں، نماز میں مصروف ہیں ، تو ان صحابہٴ کرام سے کہا گیا کہ اس شخص کا سامان کون اٹھائے گا؟ اس کے جانور کون چرائے گا؟ تو صحابہٴ کرام نے فرمایا ہم کریں گے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا تم سب خیر پر ہو۔(حیاةالصحابہ ۲/۱۰)

          بعض دفعہ ابتدا ء ً امام کی آمد کے ساتھ اعزاز و اکرام کا معاملہ ہوتا ہے؛ لیکن رفتہ رفتہ امام کی خامیوں کی تلاش شروع ہو جاتی ہے،امام کی غلطیو ں پر نکتہ چینی کی جاتی ہے، مستحبات کے ترک پر نکیر کی جاتی ہے؛حالانکہ یہ نکیر درست نہیں،اسی طرح قرآن کریم میں اللہ تعالی نے فرمایا: لا تَجَسَّسُوا (الحجرات)کسی کی ٹوہ میں مت پڑے رہو، کسی کے عیوب پر مطلع ہونے کی کوشش مت کرو۔

          ذمہ دارانِ مسجد یہ بات ذہن میں رکھیں کہ امام بھی انسان ہی ہے، کوئی معصوم فرشتہ نہیں کہ ان کی غلطیوں کو نظر انداز کریں ۔ حضرت مفتی عبد الرحیم صاحب لاجپوری فرماتے ہیں :

           ” فی زمانہ یہ ذمہ داری متولیانِ مسجد اور محلہ و بستی کے بااثر لوگوں کی ہے ، ان کو اس اہم مسئلہ پر توجہ دینا بہت ضروری ہے ،ائمہ مساجد کے ساتھ اعزازو احترام کا معاملہ کریں ، ان کو اپنا مذہبی پیشوا اور سردار سمجھیں، ان کو دیگر ملازمین اور نوکروں کی طرح سمجھنا منصبِ امامت کی سخت تو ہین ہے ، یہ بہت ہی اہم دینی منصب ہے، پیشہ ور ملازمتوں کی طرح کوئی ملازمت نہیں ہے، جانبین سے اس عظیم منصب کے احترام ، وقار ،عزت،عظمت کی حفاظت ضروری ہے ۔“(فتاویٰ رحیمیہ۹/ ۲۹۳جدید)

موٴذن کے ساتھ رویہ

           حدیث پاک میں آتا ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا : کہ روزِ محشر لوگوں میں گردن کے اعتبار سے لمبے موٴذن حضرات ہوں گے، ایک اور حدیث میں فضیلت والی چیزوں کا تذکرہ کرتے ہوئے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا : اگر پہلی صف اور اذان دینے کی فضیلت کا علم ہوجائے تو آپس میں قرعہ اندازی کی نوبت آجائیگی۔ ایک جانب موٴذن کی یہ فضیلت ہے ، دوسری جانب ذمہ داروں کا رویہ ہے کہ وہ موٴذنین کے ساتھ آبائی وخاندانی ملازمین کا سا برتاوٴ کرتے ہیں ، انھیں تنخواہ دینے کا یہ مطلب نہیں کہ وہ ہمارے زر خرید غلام ہیں ، اگر اسلامی حکومت ہوتی تو بیت المال ان کا کفیل ہوتا ، اب چوں کہ بیت المال کا وجود نہیں؛ اس لیے عوام ان کی تنخواہوں کے ذ مہ دار ہیں ، اسی لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ موٴذن اور امام دونوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھیں ، ان کے ساتھ حسنِ اخلاق کا معاملہ کریں، غیر اخلاقی رویہ سے کلی اجتناب کریں ۔ کئی موٴذنین اپنے ذمہ داروں کے رویہ سے نالاں رہتے ہیں ،بعض دفعہ ذ مہ د اروں کے ہراساں کرنے سے موٴذنین اس عظیم خدمت سے دستبردار ہوجاتے ہیں ، ذمہ دار موٴذنین کی معاش کی بنا پر انھیں تنگ نہ کریں۔

 مساجد کی جائیداد واموال کا تحفظ

          بہت سے لوگوں نے اپنی جائدادیں مسجد کے لیے وقف کی ہیں ، اب ان اوقافی جائدادوں کا تحفظ اربابِ انتظام کے سپرد ہے، کئی مقامات پر مساجد کی جائیدا دپر خود ذمہ دار ہی قابض ہیں ، اور کرایہ بڑھانے کے لیے تیار نہیں، عرف کے خلاف سب سے سستے کرایہ میں خود رہ رہے ہیں ، اور اگر ابتداءً معاہدہ نہیں ہوا ہے، اس کے باوجود قانونی جھول وکمزوری کا سہارا لے کر کرایہ میں اضافہ نہیں کر رہے ہیں ، یہ اپنی قوت اور عہدے کا ناجائز استعمال ہے، کئی مقامات پر مسجد کا مال کہہ کر بے دریغ استعمال کیا جاتا ہے ، کوئی پُرسانِ حال نہیں ، آج مساجد کے نام پر عطیہ دینے والوں کی کمی نہیں، لیکن صحیح اور معتمد افراد کی قلت ہے ، جس کی بنا پر لوگ دینے سے کتراتے ہیں؛ اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ متولی حضرات مساجد کے اموال کی صحیح نگرانی کریں ، صحیح مقام پر کفایت شعاری کے ساتھ خرچ بھی کرنے کا اہتمام کریں۔

 مساجد میں شور

           مسجد اللہ کا گھر ہے کوئی کھیل کود کی جگہ نہیں ،یہ مساجد عبادت وذکر کے لیے ہیں، یہاں دنیوی باتوں سے احتراز ضروری ہے، چیخنا چلّا نا ویسے بھی ناپسند دیدہ ہے، قرآنِ حکیم میں اللہ تعالیٰ نے گدھے کی آواز کو سب سے بھونڈی آواز شمار کیا ہے ، اور آواز میں میں پستی اختیار کرنے کا حکم دیا ہے ،آج جب مساجد کی میٹنگیں ہوتی ہیں، تو مسجد میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے لیے آوازیں بلند ہو تی ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے جو قیامت کی علامتیں بیان کی ہیں، ان میں ا یک یہ بھی ہے کہ مساجدمیں آوازیں بلند ہونے لگیں گی۔

          امام رازی مشہور مفسر ہیں ، انہوں نے سورہٴ توبہ (آیت:۱۸) کی تفسیر کے ضمن میں تعمیر مسجد کے خواہاں افراد کے لیے کم ازکم چار اوصاف سے متصف ہونا ضروری قراردیاہے: (۱) اللہ اور آخرت پر ایمان (۲)نماز کا اہتمام(۳) ادائیگی زکوة کا اہتمام (۴) صرف اور صرف اللہ کا خوف۔

          نماز کا اہتمام کیونکہ مسجد کی رونق ِتعمیر سے نہیں، مسجد کا مقصد تعمیر نہیں؛ بلکہ مسجد کا مطلوب نماز اور نمازی ہے ، مسجد کی تعمیر سے زیادہ مسجد کو نمازیوں سے آباد کرنے کی ضرورت ہے، جب مسجدیں ناپختہ تھیں تو نمازی پکے تھے ، اب مسجدیں پختہ ہیں ، رنگ وروغن سے مزین ہیں؛ لیکن نمازیوں سے خالی ہیں۔

          اب اگر جائزہ لیں گے تو پتہ چلے گا کہ کتنے ذمہ درانِ مساجد نمازوں کا اہتمام کرتے ہیں ، اور کتنوں کی صرف ہفتہ وار حاضری ہوتی ہے ، ادائیگی نماز فرض ہے، نگرانی ِ مسجد نفل ہے، فرائض سے غافل ہوکر صرف نوافل کی کثرت یا نوافل میں انہماک کسی کی نجا ت کے لیے کا فی نہیں،یہ نوافل تو رنگ وروغن کے مماثل ہیں ،اور فرائض دیوار کی طرح ہیں ، جب دیوار ہی نہ ہوتو رنگ وروغن کس پر؟

           فرائضِ اسلام میں ایک فرض زکوٰة بھی ہے ،گویا فرائض ِاسلام کے خوگر شخص کو تعمیر ِمسجد کا اہل قرار دیا گیا ہے؛ کیوں کہ جو فرائض پر مداومت کرے گا وہ نوافل کو بھی صحیح ڈھنگ سے انجام دینے کی کوشش کرے گا، جو فرائض ہی سے غافل ہو وہ نوافل میں بدرجہٴ اولیٰ کوتاہ ہوگا ، بعض مساجد کے ذمہ دار زکوة کی ادائیگی سے جی چراتے ہیں ، فرض چھوڑ کر غرباء کا حق دبا کر مسجد کی خدمت سے کیا فائدہ؟

          چوتھا اہم اور بنیادی وصف یہ ہے کہ ان پر صرف اور صرف اللہ کا خوف غالب ہو ، اللہ کے علاوہ کسی اور کا خوف نہ ہو، ذمہ دارانِ مسجد کا کوئی کام ریا کاری پر مبنی نہ ہو ، اوروں کے دکھانے کے لیے کوئی کام نہ کیا جائے، اب اگر جائزہ لیا جائے تو محسوس ہوگا کہ کتنے ہی اعمال ایسے ہیں جو صر ف اور صرف عوامی خوشنودی کے لیے کیے جاتے ہیں، جن میں رضائے الٰہی کا شائبہ بھی نہیں ہوتا۔

           سورہٴ توبہ کی مذکورہ آیت کی تفسیر کرتے ہوئے امام الہند مولانا ابوالکلام آزاد تحریر فرماتے ہیں:

          ”نیز یہ حقیقت بھی واضح کردی کہ خدا پاک کی عبادت گاہ کی تولیت کا حق متقی مسلمان کو پہونچتا ہے اور وہی اسے آباد رکھنے والے ہوسکتے ہیں، یہاں سے یہ بات معلوم ہوگئی کہ فاسق و فاجر آدمی مساجد کا متولی نہیں ہو سکتا؛کیونکہ دونوں کے درمیان مناسبت باقی نہیں رہتی؛ بلکہ متضاد باتیں جمع ہو جاتی ہیں، وہ یہ کہ مسجد خدا پرستی کا مقام ہے اور متولی خدا پرستی سے نفور(منھ موڑنے والا)(ترجمان القرآن بحوالہ فتاویٰ رحیمیہ ۹/۲۹۵)

          نیز مفتی عبد الرحیم صاحب لاجپوری رقمطراز ہیں:

          ”متولی اور مہتمم کا عالم باعمل ہونا ضروری ہے، اگر میسر نہ ہو سکے تو صوم و صلاةکا پابند، امانت دار،مسائلِ وقف سے واقف کار، خوش اخلاق ،رحم دل، منصف مزاج،علم دوست،اہلِ علم کی تعظیم و تکریم کرنے والا ہو ، جس میں یہ اوصاف زیادہ ہوں اس کو متولی اور مہتمم بنانا چاہیے۔ (فتاویٰ رحیمیہ۹/۲۹۳)

          نیز ایک اور مقام پر مفتی صاحب رقم طراز ہیں:

           ”افسوس فی زمانہ صرف مالداری دیکھی جاتی ہے، اگر چہ وہ بے علم و عمل ہو،نماز و جماعت کا پابند نہ ہو، فاسق ہو؛ حا لانکہ مسجد کا متولی حقیقت میں نائبِ خدا شمار ہوگا تو ایسے عظیم منصب کے لیے اس کے شایانِ شان متولی ہونا چاہیے؛ مگر افسوس لائق نالائق فاسق و فاجرسب متولی بننے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں، حدیث میں ہے کہ قیامت کی علامتوں میں سے ایک علامت یہ ہے کہ بڑے بڑے عہدے نا اہلوں کے سپرد کردیے جا ئیں گے، اور قوم کا سردار فاسق بنے گا۔“ (مشکوٰة: فتاویٰ رحیمیہ ۹/۶۷۴)

           اللہ تعالیٰ سے دعاء ہے کہ ذمہ دارانِ مساجد کی اصلاح فرمائے اور اخلاصِ نیت کے ساتھ صحیح طرز پر مساجد کا نظام سنبھالنے کی توفیق نصیب فرمائے ۔ آمین !

***

----------------------------------------

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ 1‏، جلد: 98 ‏، ربیع الاول 1435 ہجری مطابق جنوری 2014ء