مسئلہٴ معاش اور اسلامی تعلیمات

(۲/۲)

 

از: مولانا مفتی ابوالخیر عارف محمود                 

رفیق شعبہٴ تصنیف وتالیف واستاذ جامعہ فاروقیہ، کراچی

 

عقیدہ ،اخلاق اور معیشت

          اسلام نے معیشت کی بنیادعقیدہ اوراخلاق پررکھی ہے،اوروہ تجارکوفہمائش کرتاہے کہ اللہ ان کے ہرڈھکے چھپے کوہروقت دیکھتااورجانتاہے:

          ﴿إنَّ اللہَ کَانَ عَلَیْکُمْ رَقِیْبًا﴾(۲۹)

          اسلام تمام مسلمانوں کوآپس میں بھائی قراردے کران کویہ تعلیم دیتاہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کے لیے وہی پسندکریں جوانہیں اپنے لیے پسندہے: ”لاَ یُوٴْمِنُ أَحَدُکُمْ حَتّٰی یُحِبَّ لِأخِیْہ مَا یُحِبُّ لِنَفْسِہ(۳۰)

          ترجمہ:”تم میں کوئی شخص اس وقت تک کامل ایمان والانہیں ہوسکتا؛ جب تک وہ اپنے (مسلمان)بھائی کے لیے وہی پسندنہ کرے جواپنے لیے پسندکرتاہے،،۔

          غورفرمائیں!جب ایک مسلمان دوسرے کے لیے وہی پسندکرے گاجواس کی اپنی پسندہے توپھریہ کیوں کر ممکن ہے کہ وہ ناپ تول میں کمی کرکے،یاعیب داراورناقص چیزفروخت کرکے زیادہ اورکھرے مال کی قیمت وصول کرے اوریوں اپنے بھائی کامعاشی استحصال کرے،اسلام تواپنے ماننے والوں کواس بات کی تعلیم دیتاہے کہ وہ عیوب کوچھپاکرچیزوں کوفروخت نہ کریں، ورنہ ان کایہ عمل نہ صرف ان کے کاروبارسے برکت کوختم کردے گا؛بلکہ اللہ کی لعنت کاباعث بھی بن جائے گا،حدیث شریف میں اس مضمون کویوں بیان فرمایاگیاہے:

          ”مَنْ بَٓعَ عَیْبًا لَمْ یُبَیِّنْہُ، لَمْ یَزَلْ فِیْ مَقْتِ اللہِ، أَوْ لَمْ تَزَلِ الْمَلَائِکَةُ تَلْعَنُہ“(۳۱)

          ترجمہ:”جس کسی نے کوئی چیز فروخت کی،جس کے عیب پراس نے خریدارکوآگاہ نہیں کیا تھا، توووہ ہمیشہ اللہ کے غصہ میں رہے گا،یافرشتے ہمیشہ اس پرلعنت کرتے رہیں گے“۔

          اسی طرح اسلامی تعلیمات میں یہ بھی ہے کہ خریدوفروخت کرنے والابااخلاق ہو،نرم خوئی اس کی طبیعت میں رچی بسی ہوئی ہو،دورانِ معاملہ عزتِ نفس کادامن ہاتھ سے جانے نہ دے، ایسے افرادکے لیے زبانِ نبوت سے ان الفاظ میں دعاکے الفاظ واردہوئے ہیں:

          ”رَحِمَ اللہُ رَجُلاً سَمْحًا اذَا بَاعَ وَاذَا اشْتَریٰ وَاذَا اقْتَضٰی“(۳۲)

          ترجمہ: اللہ کی رحمت ہواس شخص پرجو درگزر کرنے والا ہو،جب کبھی بیچے،خریدے اورقرض کامطالبہ کرے۔

          ذیل میں ہم کچھ خدائی قیودات اوراخلاقی پابندیوں کاذکرکرتے ہیں:

ذخیرہ اندوزی کی ممانعت

          معیشت کے عمل کوصاف وشفاف رکھنے اوراجارہ داریوں سے حفاظت کے پیش نظراسلام نے ذخیرہ اندوزی(Hoarding)کواس کی تمام انواع واقسام کے ساتھ ممنوع قرار دیا ہے، اور اسلامی حکومت کواس بات کی اجازت دی ہے کہ وہ ا س ملعون عمل کوروکنے کے لیے دخل اندازی کرے۔

          جوتاجرذخیرہ اندوزی کرکے مصنوعی قلت پیداکرے اورپھرمارکیٹ میں اپنامال اپنی مرضی کی قیمت پرفروخت کرے، اسے خطاکاراورملعون قراردیاگیاہے،ارشادِنبوی  صلی اللہ علیہ وسلم ہے:

          ”مَنِ احْتَکَرَ یُرِیْدُ أنْ یَتَعَالٰی بِھَا عَلی الْمُسْلِمِیْنَ فَھُوَ خَاطِیٴٌ“(۳۳)

          ترجمہ: ”جس نے ذخیرہ اندوزی اس ارادہ سے کی کہ وہ اس طرح مسلمانوں پراس چیزکی قیمت چڑھائے وہ خطاکارہے“۔

          دوسری روایت میں ہے:

          ”اَلْجَالِبُ مَرْزُوْقٌ وَالْمُحْتَکِرُ مَلْعُوْنٌ“(۳۴)

          ترجمہ:”تاجرکو(اللہ تعالی کی طرف سے)رزق دیاجاتاہے اورذخیرہ اندوزی کرنے والا لعنتی ہے“۔

          اسلام کے قانونِ تجارت نے ذخیرہ اندوزی کی تمام ممکنہ صورتوں کوبھی مردود قرار دیا ہے، دورِحاضرمیں سرمایہ داربسااوقات کسی جنس کوممکن طورپرمارکیٹ سے خریدتے ہیں،یاپھروہ جنس صرف ان کے کارخانے اورمل میں بنتی ہے،اسے ذخیرہ کرلیتے ہیں،پھربعدازاں اپنی مرضی سے رسدوطلب میں عدمِ توازن قائم کرکے من مانی قیمتیں وصول کرتے ہیں،کچھ عرصہ قبل پاکستان میں آٹے اورچینی کابحران اس کی واضح مثالیں ہیں کہ حکمرانوں اورچندسرمایہ داروں کی ملی بھگت سے غریب ایک ایک لقمے کوترس گئے تھے۔

ذخیرہ اندوزی کی مہذب صورتیں

          موجودہ دورمیں ذخیرہ اندوزی کی درج ذیل مہذب صورتیں رائج ہیں:

(۱)شرکتِ قابضہ

          ایسی شرکت میں پیداواری کاروبارکے اکثرحصص حصہ دارہی خریدتے ہیں،لہٰذاوہ کسی شے یاخدمت کی پیداواری حداورقیمت اپنی مرضی سے معین کرتے ہیں اوریوں خریداروں کااستحصال کرتے ہیں۔

(۲)اوماج

          یہ ایک ایسااستحصالی طریقہ ہے جس میں چندکمپنیاں مل کرایک وحدت(Uonit)قائم کرتی ہیں، جس سے اشیاء کی پیداواراورقیمتوں پران کی اجارہ داری قائم ہوجاتی ہے ،وہ اپنی مرضی سے اشیاء کی پیداوارکوبڑھاتے اورگھٹاتے ہیں،مارکیٹ میں ضرورت کے باوجودصرف قیمتیں بڑھانے کے لیے اسے گوداموں میں اسٹاک کردیاجاتاہے اور قیمتیں چڑھ جانے کے بعد بیچا جاتا ہے۔

(۳)وحدتِ قیمت

          سرمایہ دارانہ نظام کی ”برکات“ میں سے یہ بھی ہے کہ چندمل مالکان یاکارخانہ دارمل کرکسی شے کی بازارمیں ایک قیمت طے کرلیتے ہیں،چوں کہ وہ شے ان کے علاوہ کوئی اورنہیں بناتا،تواس متعین قیمت سے کم پرکہیں اورسے دستیاب نہیں ہوتی،جس کی وجہ سے گاہک ان کی من مانی قیمت پرخریداری کرنے پرمجبورہوجاتاہے،یوں اس طرح سرمایہ دارعوام کااستحصال کرکے اپنے نفع کازیادہ سے زیادہ حصول ممکن بنالیتے ہیں۔

سودکی حرمت

          دنیاکے قدیم اورجدیدمعاشی نظریوں میں سودکومرکزی حیثیت حاصل ہے،سرمایہ دارانہ نظام نے پورے معاشی ڈھانچے اورکاروباری لین دین کوکچھ اس طرح ترتیب دیاہے کہ سودبین الاقوامی طورپرمعاملات میں جزولاینفک کی حیثیت اختیارکرچکاہے،معاشی تعلقات کے انفرادی اوراجتماعی پہلوممکن طورسے اس کینسرمیں مبتلاہوچکے ہیں۔

          سوداوراس کی تمام اقسام حتی کہ شبہ سودسے بھی مسلمانوں کومنع کیاگیاہے،مسلمان ہونے کے باوجودکسی کے لیے یہ ہرگزروانہیں کہ وہ سودی معاملات میں ملوث ہو،اللہ نے سودکی حرمت کونہایت واضح الفاظ میں بیان فرمایاہے:

          ﴿وَأحَلَّ اللہُ الْبَیْعَ وَحَرَّمَ الرِبوا﴾(۳۵)       

          اس جرم میں ملوث افرادکوشدیدترین وعیدسنائی گئی ہے،قرآن مجیدمیں ارشادربانی ہے:

          ﴿یَا أیُّھَا الَّذِیْنَ آمنوا اتَّقُوا اللہَ وَذَرُوا مَا بَقِیَ مِنَ الرِّبَوا، انْ کُنْتُمْ مُوٴمِنِیْنَ، فَانْ لَمْ تَفْعَلُوا فَأذَنُوا بِحَرْبٍ مِنَ اللہِ وَرَسُوْلِہ﴾(۳۶)

          ترجمہ:”اے ایمان والو!اللہ سے ڈرو،اورسودکی باقی (تمام رقم)چھوڑدو،اگرتم واقعی ایماندارہو،اوراگرتم نے ایسانہ کیا،تواللہ اوراس کے رسول کی طرف سے اعلانِ جنگ سن لو“۔

          سودی معاملات میں کسی بھی طرح ملوث ہونے والے پراللہ نے لعنت فرمائی ہے،اللہ کے رسول کاارشادہے:

          ”لَعَنَ اللہُ آکلَ الرِبوا وَمُوْکِلَہ وَکَاتِبَہ وَشَاھِدَیْہِ، وَقَالَ: ھُمْ سَواء“(۳۷)

          ترجمہ:”اللہ نے سودخور،اورسودکھلانے والے اورسودی دستاویزلکھنے والے اوراس کی گواہی دینے والوں پرلعنت کی ہے،اورفرمایاکہ اللہ کی لعنت میں وہ سب برابرہیں“۔

سودی معاملات اورسودخواری کی شناعت وقباحت بیا ن کرتے ہوئے فرمایا:

          ”اَلرِّبَا سَبْعُوْنَ حَوْبًا أیْسَرُھَا نِکاحُ الرَّجُلِ أمَّہ“(۳۸)

          ترجمہ:”سودکے سترگناہ ہیں،(یعنی اس کے گناہ کے ستردرجے ہیں)اس کاکم تردرجہ آدمی کااپنی ماں سے ہمبستری کرناہے“۔

ملاوٹ سے ممانعت

          کسبِ معاش کی جدوجہدکے دوران حصولِ دولت کی بعض آسان راہیں بھی نکلتی ہیں،اشیاء صرف کی کوالٹی کوتبدیل کرکے گھٹیااورمعمولی شے کوصحیح داموں میں فروخت کرنا،ملاوٹ سے کام لینا عصرِحاضرمیں ہنراورنفع آوری کابہترین ذریعہ بن چکاہے،اسلام میں اس طرح کے عمل کونہایت قبیح اورانسانیت سوزقراردے کرممنوع قراردیاگیاہے،حضورِاکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ملاوٹ کرنے والوں کو انتہائی شدیدوعیدسنائی ہے:

          ”مَنْ غَشَّ فَلَیْسَ مِنَّا“(۳۹)

          ترجمہ:”جس نے ملاوٹ کی وہ ہم میں سے نہیں“۔

          مدینہ منورہ میں ایک بازارسے گزرتے ہوئے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے غلہ کے ڈھیرکی نچلی سطح کو گیلا پاکر اس کے تاجرسے ارشادفرمایا:

          ”أَفَلَا جَعَلْتَہ فَوْقَ الطَّعَامِ کَیْ یَراہُ النَّاسُ“(۴۰)

          ترجمہ:”گیلی گندم کواس ڈھیرکے اوپرکیوں نہیں ڈالتا تاکہ لوگ اسے بہ آسانی دیکھ سکیں“۔

          بغیرعیب بتائے شے کوفروخت کرنے سے منع کیاگیاہے:ارشادنبوی ہے:

          ”لاَ یَحِلُّ لِمُسْلِمٍ بَاعَ مِنْ أَخِیْہِ بِیْعًا فِیْہِ عَیْبٌ الاَّ بَیَّنَہ (۴۱)

          ترجمہ:”کسی مسلمان کے لیے جائزنہیں کہ وہ بغیربتائے کسی عیب دارچیزکودینی بھائی کے ہاتھ فروخت کرے“۔

          غرض اسلام نے ملاوٹ اوردھوکہ دہی کے تمام چوردروازوں کوبندکرکے ایک مامون اورپاکیزہ معیشت کاماحول فراہم کیاہے۔

رشوت اورسٹہ بازی کی ممانعت

          آج کی معاشی زندگی میں رشوت معاشرہ کاایک جزولاینفک بن چکاہے،لوگ اسے آسان اورسہل ذرائع آمدنی میں شمارکرتے ہیں،اسلام نے اسے ان الفاظ میں ممنوع قراردیا:

          ”لَعَنَ رَسُوْلُ اللہِ صلی اللہ علیہ وسلم الرَّاشِیْ وَالْمُرتَشِیْ“۔(۴۲)

          ترجمہ:”رشوت لینے اوردینے والے پراللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم  نے لعنت فرمائی ہے“۔

          جوا،سٹہ ،قماربازی،شراب سازی وشراب فروشی،زنااورمحرکاتِ زنااوردیگرمخربِ اخلاق کام جن سے معاشرے کااخلاقی معیارپست ہوتاہے،اسلام ایسے ذرائع آمدنی ووسائلِ دولت کوکسبِ معاش کے اسباب کے طور پر اختیار کرنے سے منع فرماتا ہے، موجودہ دور میں لاٹری، ریس، سٹہ بازی کی مختلف صورتیں جنہیں جدیدترین سائنٹفک بنیادوں پررواج دیاگیاہے،وہ بھی اسلامی نقطئہ نظرسے ممنوع قرارپاتی ہیں،قرآن مجیدمیں ارشادباری تعالی ہے:

          ﴿انَّمَا الْخَمَرُ وَالْمَیْسِرُ وَالأنْصَابُ وَالأزْلاَمُ رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الشَّیْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْہ﴾(۴۳)

          ترجمہ:”بے شک شراب ،جوا،بت اور(پانسے)جوئے کے تیرسب ناپاک ہیں، اور کارِ شیطان ہیں،ان سے بچو“۔

اجرت زنا کی حرمت

          زناکاری کو بطورذریعہٴ معاش اپنانے سے منع کر تے ہوئے حضورِاکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے زناکاری کی اجرت کوناجائزقراردیا،حضرت ابومسعوانصاری فرماتے ہیں:

          ”انَّ رَسُوْلَ اللہِ صلی اللہ علیہ وسلم نَھٰی عَنْ ثَمَنِ الْکَلْبِ وَمَھْرِ الْبَغْیِ وَحُلْوَانِ الْکَاھِنِ“(۴۴)

          ترجمہ:”رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے کتے کی قیمت ،زناکی اجرت اورکہانت کامعاوضہ لینے سے منع فرمایاہے“۔

          اسی طرح فلم سازی،فلم فروشی ،ٹی وی،وی سی آراورجرائدکے ذریعہ مخربِ اخلاق ناظر اور لٹریچر کی ترویج واشاعت ،ڈانسنگ کلب اورتھیٹر،غیراخلاقی کام اورجانداروں کی تصویرسازی وغیرہ تمام مخربِ ایمان واخلاق ذرائعِ آمدن سے اسلام منع کرتاہے۔حضور  صلی اللہ علیہ وسلم  کاارشادگرامی ہے:

          ”انَّ اللہَ اذا حَرّم شَیْئًا حَرَّمَ ثَمَنَہ(۴۵)

          ترجمہ:”اللہ تعالی نے جس چیزکوحرام کیاہے اس کی قیمت کوبھی حرام فرمایاہے“۔

حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ تعالی کا قول   

          حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں:

          ”زناکی اجرت خبیث ہے،اورآپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے کاہن کواجرت دینے اورمغنیہ کے کسب سے منع فرمایاہے،اس کی دوحکمتیں نظرآتی ہیں،ایک تویہ کہ ممنوعہ کسب اختیارکرنے سے لوگوں کو معصیت کی ترغیب ملتی ہے؛جبکہ اس مال کی حرمت اوراس سے انتفاع کی ممانعت لوگوں کواس برائی سے روکنے کاسبب بنتی ہے“۔

          چندسطروں کے بعدفرماتے ہیں:

          ”الإعَانَةُ فِی الْمَعْصِیَةِ وَتَرْوِیْجِھَا وَ تَقْرِیْبُ النَّاسِ الَیْھَا مَعْصِیَةٌ وَفَسَادٌ فِی الأرْضِ“(۴۶)

          ترجمہ:”گناہ کے کام میں معاونت اوراس کی ترویج اورلوگوں کوگناہ کے قریب کرنا(یعنی اس کاماحول فراہم کرنا)اللہ کی نافرمانی اورزمین پرفسادپھیلانے کاباعث ہے“۔

ناپ تول میں کمی کی حرمت

          ناپ تول میں کمی ایک ایسی لعنت ہے، جس میں آج کے لوگوں کی طرح بعض اممِ سابقہ کے تجار بھی مبتلاتھے،اللہ تعالیٰ نے ہرزمانے میں جب یہ قبیح عادت لوگوں میں رائج ہوئی تووقت کے نبی کے ذریعے اس کی مذمت کی،اوراس سے بازرہنے کاحکم دیا،سورئہ اعراف میں حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم کواس قبیح حرکت سے بازرہنے کاحکم دیاگیاہے۔(۴۷)

          ناپ تول میں کمی یہ ایسامکروہ حیلہ ہے، جس کے ذریعے تاجرکم مال دے کرزیادہ دام وصول کرلیتے ہیں،قران مجیدمیں اس حوالے سے ارشادِباری تعالی ہے:

          ﴿وَیْلٌ لِلْمُطَفِّفِیْنَ، الَّذِیْنَ اذَا اکْتَالُوا عَلی النَّاسِ یَسْتَوْفُوْنَ، وَاذَا کَالُوا ھُمْ أَوْ وَزَنُوھُمْ یُخْسِرُوْنَ﴾(۴۸)

          ترجمہ: ”خرابی ہے گھٹاکردینے والوں کے لیے ،وہ لوگ کہ جب دوسروں سے مال لیں تو پورا پورالیں اورجب دوسروں کوناپ کریاتول کردیں توکم دیں“۔

          اسلام توناپ تول میں عدل وانصاف سے آگے بڑھ کرلوگوں کے ساتھ مزیداحسان کادرس دیتاہے ،آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے ا سی بات کی تعلیم دیتے ہوئے ارشادفرمایا:

          ”زِنْ وَأرْجِحْ“(۴۹)

          ترجمہ:”تول اورجھکتاتول“۔

          ناپ تول پوراپورادینے سے خوشگوارمعاشرتی نتائج برآمدہوتے ہیں،لوگ ایک دوسرے پر اعتمادکرنے لگ جاتے ہیں اورتعلقات میں بہتری پیداہوجاتی ہے،اسلام اپنے ماننے والوں کو ہمیشہ سے اس بات کی تعلیم دیتاہواآیاہے کہ وہ نہ صرف ناپ تول میں عدل وانصاف سے کام لیں؛بلکہ مزیداحسان کرنے کواختیارکریں۔

معیشت سے متعلق اسلامی احکامات کاسیکھنا

          اس کے علاوہ معیشت کے اسلامی احکام میں خریدوفروخت سے متعلق عاقدین(معاملہ کرنے والے)کی اہلیت،رضامندی،خریدوفروخت میں اختیار،شرائط،بیع کی جملہ اقسام، مرابحہ، سلم،قبضہ کے مسائل،شرکت ومضاربت،قرض وتجارتی معاہدات حتی کہ غیرمسلموں سے بھی معاشی معاملات کے حوالے سے مکمل تفصیلات موجودہیں،ضرورت اس بات کی ہے کہ ان کوسیکھ کرعمل کیاجائے؛ تاکہ ایک بہترین اورمتوازن معیشت وجودمیں آئے۔

          خیرالقرون کے زمانہ میں اس بات کاباقاعدہ اہتمام کیاجاتاتھاکہ لوگ معیشت سے متعلق اسلام کے احکامات کوسیکھنے کے بعدمارکیٹ اوربازارمیں آئیں،جولوگ اس حوالے سے اسلامی تعلیم سے بے بہرہ ہوتے انھیں بازارمیں خریدوفروخت کے لیے بیٹھنے سے منع کیاجاتاتھا،حضرت عمررضی اللہ عنہ سے یہی بات منقول ہے:

          ”کَانَ عُمَرُ بْنُ الْحَطَّابِ یَضْرِبُ بِالدُّرَّةِ مَنْ یَقْعُدُ فِی السُّوْقِ وَھُوَ لاَ یَعْرِفُ الأحْکَامَ وَیَقُوْلُ: لاَ یَقْعُدُ فِی سُوْقِنَا مَنْ لاَ یَعْرِفُ الرِّبا“(۵۰)

          ترجمہ:”حضرت عمررضی اللہ عنہ ایسے شخص کودرہ سے مارتے جو بازار میں آکر (خرید و فروخت)کے لیے بیٹھتا؛مگروہ ان کے احکام سے جاہل ہو،اورفرماتے:جوشخص ربا(سود)کے احکام نہیں جانتاوہ ہمارے بازارمیں نہ بیٹھاکرے“۔

          اس زمانے میں باقاعدہ محتسب(بازارکانگران) مقررکیاجاتا تھا،جوبازارمیں گھوم پھرکرمختلف دکانداروں سے بیع وشراء کے متعلق سوالات کرتا،اگرکسی کواحکام کاعلم نہ ہوتاتووہ اسے دکان سے اٹھادیتاتھا۔امام مالک رحمہ اللہ امراء کویہ ہدایت فرماتے تھے کہ وہ تجارکواکٹھاکرکے ان کے سامنے پیش کریں،آپ ان میں کسی کواس حوالے سے جاہل پاتے تواس سے ارشاد فرماتے: ”پہلے خریدوفروخت کے احکام سیکھو،پھربازارمیں آکربیٹھو“۔(۵۱)

          قارئینِ کرام!جب تک اسلامی خلافت وحکومت قائم تھی تومسلمانوں نے جیسے زندگی کے دیگر شعبوں میں قابلِ تقلیداوربے مثال کارنامے سرانجام دیے،ایسے ہی معیشت اورکفالتِ عامہ کے حوالے سے بھی ایسابھرپورکرداراداکیاکہ رہتی دنیاتک کوئی اس کی مثال پیش نہیں کرسکتا، مسلمان حکمرانوں اوراربابِ حل وعقدکی جہاں یہ کوشش ہوتی تھی کہ تجارمعیشت کے احکام سیکھ کر تجارت کریں؛تاکہ سوداوردیگرناجائزوحرام معاملات سے بچ سکیں،وہاں کفالتِ عامہ کاایساجامع نظام ترتیب دیاجس میں بلاکسی تخصیص واعتبارمعاشرے کے ہرفردکوکسی نہ کسی شکل میں اتناسامان معاش ہرحال میں ضرورمیسرہو،جس کے بغیرعام طورپرکوئی بھی انسان نہ اطمینان کے ساتھ جی سکتاہے اورنہ ہی اپنے متعلقہ فرائض وحقوق سرانجام دے پاتاہے۔(۵۲)

 معاشی مساوات

          ان حضرات نے اسلام کے دیے ہوئے مقدس اورپاکیزہ احکام کوعملی طورپرنافذکیا،جس کی وجہ سے ملکی اورقومی دولت کی گردش چنداغنیاء اوربڑے مالدارلوگوں تک محدودہونے کے بجائے معاشرے کے تمام طبقات تک پہنچی،خصوصاًغرباء اورمستحقین کواس سے خوب مستفید ہونے کاموقع ملا،یہاں یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ اسلام افرادمعاشرہ کے درمیان جس معاشی مساوات کوپیداکرناچاہتاہے وہ یہ نہیں کہ معاشرے کے تمام افراددولت وثروت میں یکساں اور برابر ہوں،جتنی دولت اوروسائل معاش ایک فردکے پاس ہوں،اتنے ہی دیگرتمام کے پاس بھی ہوں؛کیوں کہ ایسی مساوات خیالی دنیامیں توممکن ہے؛لیکن حقیقت کی دنیامیں ایسانہ توممکن ہے اور نہ ہی سنتِ الٰہیہ کے مطابق ؛کیوں کہ اللہ تعالی نے درجاتِ معیشت میں تفاوت کاجونظام قائم فرمایاہے،وہ اس کے ذریعے اپنے بندوں کوآزمارہے ہیں کہ کون اس کابندہ ہے اورکس نے مادے کوالٰہ بنایاہواہے۔

اسلام میں دولت کے بہاؤ کا رخ

          اسلام کے بتائے ہوئے اصول وضوابظ کے مطابق معیشت میں ہمیشہ دولت کا بہاؤ اوپر سے نیچے کی طرف رہتاہے،دولت وسرمایہ سمٹ کرچندمخصوص ہاتھوں میں کھلونا بننے کے بجائے معاشرے کے ہرفردکی پہنچ میں ہوتاہے،اگرکسی خطے میں بھی اسلامی نظامِ حکومت نافذ کردیا جائے، اورکفالتِ عامہ کے شعبوں میں سے صرف زکوة کاعمل ہی صحیح معنوں میں شروع ہوجائے، توسوفیصدیقین سے کہاجاسکتاہے کہ وہ خطہ ہرطرح کے افلاس اورمعاشی بدحالی سے پاک ہوجائے گا اورپھرسے قرونِ اولی کی یادتازہ ہوجائے گی کہ معاشرہ میں پھرزکوة کابھی کوئی محتاج نہیں رہے گا۔

اسلام میں معیشت وکفالتِ عامہ

          اسلام میں معیشت کے احکام کوجاننے اوراسلام میں کفالتِ عامہ کے تصورکوسمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم قرآن وحدیث اورفقہِ اسلامی میں مذکوربیوع اوراس کی اقسام،قرض،سود،لین دین، ہبہ،عاریت، مضاربت،شرکت، مزارعت،پانی کے احکام،زمینوں کے احکام،زکوة کی فرضیت، وصولی اورتقسیم کے مسائل،غنائم ،فئ،خراج اورجزیہ کے احکام،تقسیمِ دولت، وراثت، حلال وحرام،اجارہ ،احتکارواکتنازکی ممانعت،ضرائب ونوائب،صدقات نافلہ اوران سے متعلقہ دیگر تمام مضامین کابغورمطالعہ کریں؛تاکہ علی وجہ البصیرة مذکورہ نظام کوسمجھاجاسکے ،اس فقہی معاشی خزانہ کے علاوہ مسلمان علماء کرام نے اس حوالے سے مستقل تصانیف بھی چھوڑی ہیں،جواپنی جامعیت کے اعتبارسے مختلف مسائل کاحل بتاتی ہیں،افسوس !صدافسوس!کہ ان کتب کاترجمہ یورپ کے مستشرقین اپنی اپنی زبانوں میں کرکے ان سے استفادہ کررہے ہیں،اورہم مسلمان اپنے اس وقیع علمی ورثے سے غافل ہیں۔

          ان گراں قدرکتب میں سے چندیہ ہیں:

          (۱) کتاب الأموال:حمیدبن رنجویہ اورابوعبیدقاسم بن سلام رحمہم اللہ کی ایک ہی عنوان سے الگ الگ تصنیف ہے۔

          (۲) کتاب الخَراج:امام ابویوسف اوریحییٰ بن آدم القرشی رحمہم اللہ کی مایہ ناز تصانیف ہیں۔

          (۳) الأحکام السلطانیة:ابوالحسن علی بن حبیب البصری اورابویعلی محمدبن حسین الفراء کی بیش بہااورمستندکتب ہیں۔(۵۳)

          اسلام جواپنی حقانیت اورسچائی کی وجہ سے مختصرسے عرصے میں جزیرہٴ عرب سے نکل کر سارے عالم پرچھاگیااورہزاروں سال تک دنیاپرحکمرانی کی،لوگوں کوہدایت کی راہیں دکھائیں، زندگی کے تمام شعبوں میں بہترین قابلِ تقلیدکارنامے انجام دیے،باطل روزِاول سے ہی اس سے نالاں تھا،اس نے ہرممکن کوشش اورسازش کے ذریعہ یہ چاہاکہ اسلام کامقدس نظامِ زندگی خطہ ارض پرنافذ نہ رہے،وگرنہ لوگ اسلام کے نظامِ زندگی کے محاسن کی وجہ سے نہ صرف دیگرتمام باطل نظاموں کوٹھکرادیں گے؛بلکہ خود مذہبِ اسلام کے پیروکار بن بیٹھیں گے ،ساتویں صدی عیسوی میں وجودمیں آنے والے نظامِ زندگی کومٹانے کے لیے دنیانے کیاکیانہ کیا!!،تاریخ کاہرادنی طالب علم اس سے پوری طرح واقف ہے۔

          افسوس! خلافت کے زوال کے بعدسے دنیائے باطل کواس بات کابھرپورموقع ملاکہ وہ اسلام اوراس کے پاکیزہ نظام کے خلاف کھل کرپروپیگنڈہ کرے،اوراسے ایک ناقص اورپرانے زمانے کانظام قراردے،خاص کرمعاشیات کے شعبے میں نئے نظریات متعارف کرواکے اس نے انسانیت کوجس دردناک عذاب میں مبتلاکیاہے، اس کاصرف اورصرف ایک ہی حل ہے اوروہ اسلامی نظامِ حکومت یعنی خلافت ہے۔

فقدان ِخلافت کے نقصانات

          اب چوں کہ بدقسمتی سے اور بوجہ شامتِ اعمال ہمارے سامنے کوئی ایساماڈل اسلامی طرزِحکومت وخلافت کاموجودنہیں کہ جس میں زندگی کے دیگرشعبوں کی طرح معاش کانظام بھی عملی طورسے نافذہوتااورتمام طبقات کے لوگوں کی کفالتِ عامہ کاکوئی عملی مظہرسامنے موجود ہوتا، توہم عالمِ انسانیت کوبتادیتے کہ اسلام نے معیشت کے مسائل کا یوں حل بتایا ہے۔ خیر! اسلام چوں کہ قیامت تک کے لیے رہنمائی اوررہبری کرنے آیاہے،تواب ہم اسلام کے اصول وضوابط ہی کی روشنی میں موجودہ جدیدنظریات کوپرکھیں گے اوران کے صحیح اورغلط ہونے کافیصلہ کریں گے۔

          جدیدمعاشی نظریات میں بینک اورکمپنی کومرکزی حیثیت حاصل ہے،پھران دونوں سے سیکڑوں مسائل نے جنم لیاہے،ان میں سے ایک کریڈٹ کارڈاوراس طرح کے دیگرکارڈزکے ذریعے معاملات کانجام دیناہے۔

جدیدمعاشی نظریات سے پیداشدہ مسائل

          آج کی دنیاصنعتی انقلاب کے بعدتکنیکی اعتبارسے بہت آگے جاچکی ہے،تجارت اور سرمایہ کاری کی اس قدرجدیداورمتنوع شکلیں پیداہوچکی ہیں جن کی ماضی میں کوئی نظیر نہیں ملتی، مثلا بینکنگ کانظام،کرنسی کانظام،موجودہ عالمی تجارت کانظام،کریڈٹ کارڈزکانظام،انشورنس اور تکافل، شیرز کی خریدوفروخت کانظام،اوران سب نظاموں کوچلانے کے لیے اداروں، فرموں اور کمپنیوں کانظام وغیرہ۔(۵۴)

          اس طرح کے تجارتی مسائل میں ایک اہم مسئلہ یہ ہے کہ کیاخریدی ہوئی شے پرقبضہ کرنے سے پہلے اس کوفروخت کیاجاسکتاہے یانہیں؟اوراس کامنافع حاصل کرناجائزہوگایانہیں؟آج قبضہ کے عنوان سے بہت سارے مسائل پیداہورہے ہیں،کیاچیک،ڈرافٹ،کریڈٹ کارڈ یا دوسری سنداتِ مالی کوقبضہ تصورکیاجائے گا،یانہیں؟یاکریڈٹ کارڈکے ذریعہ ادائیگی کوفوری قبضہ تسلیم کیاجائے گایانہیں؟بین الاقوامی تجارت میں آج زیادہ ترمعاملات،فیکس اورای میل کے ذریعے انجام پارہے ہیں،کروڑہاکروڑ روپے کے معاملات اور لین دین طے پاتے ہیں؛جب کہ ہر دو فریق ہزارہامیل کی دوری پرہوتے ہیں،اسی طرح ایک ملک کاتاجردوسرے ملک میںLC (سندِاعتماد) کھلواکرکاروبارکرتاہے،دوسرے ملک کاتاجرمال کاشمپنٹ (Shipment) کرتا ہے اورقبل اس کے کہ مال خریدارتک پہنچے،خریداریہ محسوس کرتے ہوئے کہ بازارمیں تیزی آچکی ہے،اگرمیں ابھی اس مال کوفروخت کرڈالوں تومجھے زیادہ نفع ملے گا،وہ اس مال کواپنے قبضہ میں آنے سے قبل ہی( جب کہ مال راستہ میں ہوتاہے)،فروخت کرڈالتاہے۔(۵۵)

          عصرِ حاضر میں ان تمام جدیدصورتوں میں زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کرنا مقصود ہوتا ہے، معاملات میں عدل وقسط کی رعایت کم سے کم ،یامعدوم ہے اورغرراوردھوکہ عام ہے ،نہ ذہنوں میں خدا کاتصورہے،نہ آخرت کی جواب دہی کی فکر؛اس لیے تجارت کے رائج طریقوں میں صرف مادی اورنقدنفع مطلوب رہ گیاہے۔(۵۶)

          ایک متوازن معاشی نظام کو وجود دینے کے لیے ضروری ہے کہ اسلامی نظامِ خلافت قائم کیا جائے اور معیشت سے متعلق تمام اسلامی احکامات کو عملی شکل دی جائے۔

حوالہ جات

(۲۹)       النساء:۱۔

(۳۰)      البخاری،الجامع الصحیح،کتاب الإیمان،باب من الإیمان أن یحب لآخیہ مایحب لنفسہ۔(رقم الحدیث:۱۳)

(۳۱)       القزوینی، أبوعبداللہ محمدبن یزید،سنن ابن ماجہ،کتاب التجارات،باب من باع عیبافلیبینہ(رقم الحدیث: ۲۲۴۷) : ۳/۵۷۸، دارالجیل،بیروت ۱۴۱۸ھ۔

(۳۲)      البخاری،أبوعبداللہ محمدبن اسماعیل ،الحامع الصحیح،کتاب البیوع،باب:السمولة والسماحة فی الشراء،والبیع ومن طلب حقافلیطلبہ فی عفاف،(رقم الحدیث :۲۰۷۵) ، ص:۴۱۲،دارالکتاب العربی۔

(۳۳)      النیسابوری،ابوعبد اللہ محمد بن عبداللہ الحاکم،المستدرک علی الصحیحین،کتاب البیوع،(رقم الحدیث:۲۲۱۱،:۲/۱۴۵،قدیمی کراچی۔

(۳۴)      القزوینی،ابوعبد اللہ محمد بن یزید،سنن ابن ماجہ،کتاب التجارات،باب الحکرةوالجلب(رقم الحدیث: ۲۱۵۳): ۳/۵۱۸، دار الجیل،بیروت ۔

(۳۵)      البقرة:۲۷۵۔

(۳۶)      البقرة:۲۷۸۔

(۳۷)      القشیری،أبوالحسن مسلم بن حجاج ،صحیح مسلم،کتاب المساقاة،باب لعن آکل الربوا وموکلہ،(رقم الحدیث:۴۰۹۳)، ص:۶۹۷، دارالسلام،الریاض۔

(۳۸)      العبسی،أبوبکرعبداللہ بن محمدبن أبی شیبہ،المصنف،کتاب البیوع والأقضیة،(رقم الحدیث:۲۲۴۳۷):۱۱/۳۱۹،المجلس العلمی ۱۳۲۷ھ۔

(۳۹)       القشیری،أبوالحسین مسلم بن مسلم بن الحجاج بن مسلم ،صحیح مسلم،کتاب الإیمان،باب قول النبی  صلی اللہ علیہ وسلم :من غش فلیس منا، (رقم الحدیث:۲۸۳)، ص:۵۷، دارالسلام،الریاض ۱۴۱۹ھ۔

(۴۰)      حوالہٴ سابق۔

(۴۱)       القزوینی،أبوعبداللہ محمدیزید،سنن ابن ماجہ،کتاب التجارات،باب من باع عیبافلیبینہ(رقم الحدیث:۲۲۴۶): ۳/۵۷۸، دارالجیل ،بیروت۔

(۴۲)      الترمذی،أبوعیسی محمدبن عیسی بن سورة،سنن الترمذی،کتاب الأحکام،باب ماجاء فی الراشی والمرتشی فی الحکم،(رقم الحدیث: ۱۳۳۷): ۲/۳۳۵،دارالکتب العلمیة،۱۴۲۱ھ۔

(۴۳)      المائدہ:۹۰۔

(۴۴)      النسائی،أباعبدالرحمن أحمدبن شعیب،سنن النسائی،کتاب الصید والذبائح،النہی عن ثمن الکلب (رقم الحدیث: ۴۳۰۳) الجزء الرابع:۴/۲۱۵،دارالمعرفة،بیروت ۱۴۲۲ھ۔

(۴۵)      الدارمی،أبوحاتم محمدبن حبان بن أحمدبن حبان،صحیح ابن حبانةکتاب البیوع،ذکرالخبرالدال علی أن بیع الخنازیروالکلاب محرم ولایجوزاستعمالہ،(رقم الحدیث:۴۹۳۸):۱۱/۳۱۳،مؤسسة الرسالة۔

(۴۶)      الدہلوی،أحمدبن عبدالرحیم شاہ ولی اللہ،حجةاللہ البالغة،باب البیوع المنہی عنہا،وجوہ کراہیة البیوع:۲/۲۸۸،زمزم پیلشرز کراتشی۔

(۴۷)      الأعراف:۸۵۔

(۴۸)      المطففین:۱،۳۔

(۴۹)       القزوینی،أبوعبداللہ محمدبن یزید،سنن ابن ماجة،کتاب التجارات،باب الرحجان فی الوزن(رقم الحدیث: ۲۲۲): ۳/۵۶۲، دارالجیل ،بیروت ۱۴۱۸ھ۔

(۵۰)      الکتانی،عبدالحی،نظام الحکومة النبویة المسمی ب”التراتیب الإداریة،القسم التاسع،حتی یتعلموا أحکامہ وآدابہ وماینجی من الربا: ۲/۱۸،دارالکتاب العربی،بیروت۔

(۵۱)       حوالہٴ سابق:۲/۱۹۔

(۵۲)      مروجہ تکافل کاجائزة،مفتی محمد راشد ڈسکوی،باب اول،اسلام کانظام کفالت،ص:۱۰،دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی، غیرمطبوع۔

(۵۳)      تفصیلی تعارف کے لیے دیکھیئے:اسلام کامعاشی نظام،ڈاکٹرنورمحمدغفاری،اسلامی معاشیات کے مصادر ومراجع: ۴۳-۵۷، مرکزتحقیق دیال سنگھ ٹرسٹ لائبریری،لاہور۱۹۹۴ء۔

(۵۴)      شیئرزکی شرعی حیثیت اوراس کے احکام،مقدمہ، ص :۱،۲،دارالإفتاء جامعہ فاروقیہ کراچی،غیرمطبوع ۔

(۵۵)      جدیدتجارتی شکلیں،مولانامجاہدالاسلام قاسمی صاحب،ابتدائیہ،ص:۷،۸ ادارة القرآن والعلوم الإسلامیة،کراچی۔

(۵۶)      حوالہٴ سابق۔

***

------------------------------------

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ 2‏، جلد: 98 ‏، ربیع الثانی 1435 ہجری مطابق فروری 2014ء