دارالعلوم دیوبند اور فتنہٴ عدمِ تقلید کا تعاقب

 

 

از: مولانا محمد اللہ قاسمی

 

برصغیر ہندوستان میں مسلمانوں کی آمد کے ساتھ اسلامی علوم و فنون اور تہذیب و روایت کی آمد کا آغاز ہو گیا تھا۔ ہندوستان کے تقریباً تمام ہی حکمراں علم دوست اور مذہبی واقع ہوئے تھے۔ تاریخ شاہد ہے کہ ہندوستان کی تقریباً تمام اہم مسلم حکومتوں نے مذہبِ حنفی کا اتباع کیا اور فقہ حنفی ہی تمام قوانین و ضوابط کی بنیاد بنا رہا۔ ہندوستان کے مسلمانوں کی غالب اکثریت مذہب حنفی کی پابند تھی۔ پوری مسلم تاریخ میں تقلید سے انحراف، اسلامی روایات سے بغاوت اور سلفِ صالحین سے نفرت و کدورت کا کوئی قابلِ ذکر ثبوت نہیں ملتا؛ لیکن آخری زمانے میں جب سلطنتِ مغلیہ رو بہ زوال تھی اور ہندوستان میں انگریزوں کے ناپاک قدم پڑ چکے تھے، اس وقت نت نئی جماعتوں نے جنم لینا شروع کیا۔ عدمِ تقلید کا فتنہ بھی اسی تاریک زمانے کی پیداوار ہے۔

          حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی اور ان کے جانشینوں کی کوششوں سے ہندوستان میں ہمہ جہت اصلاحی تحریک شروع ہوئی۔ حضرت سید احمد شہید رائے بریلوی اور حضرت مولانا اسماعیل شہید کی تحریک کا ایک محاذ جس طرح جہاد اور سیاسی اصلاح کا تھا، اسی طرح مسلم معاشرہ میں بدعات اور کفریہ و شرکیہ عقائد کے خلاف بھی محاذ کھولا گیا تھا۔ ان تحریک کے بانیوں کی جہاد بالاکوٹ میں ۱۲۴۶ھ / ۱۸۳۱ء میں شہادت کے بعد بعض مفسد مزاجوں کے ذہن میں ائمہٴ دین متین کی تقلید کا انکار اور فقہ و فقہاء بالخصوص حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کی طرف سے عناد کا خیال پیدا ہوا۔ اس جماعت کے سرغنہ مولوی عبد الحق بنارسی تھے، جنھوں نے حضرت سید احمد شہید کی خلافت کے مدعی بن کر لوگوں کو لامذہبیت کی طرف بلایا۔ وہ سفرِ حج میں سید صاحب کے ہم قافلہ تھے؛ لیکن ائمہٴ کرام پر بد زبانی اور دیگر فاسد نظریات کی وجہ سے سید صاحب نے ان کو اپنے قافلہ سے نکال دیا تھا۔ مولوی عبد الحق بنارسی نے ہزارہا لوگوں کو عمل بالحدیث کے پردے میں قیدِ مذہب سے ہی بیگانہ کردیا۔ عمل بالحدیث کے نام سے صحابہ و سلف سے بے زاری اور ائمہٴ فقہ کی توہین کی یہ تحریک بظاہر مسلمانوں میں تفریق پیدا کرنے کی گھناؤنی سازش تھی۔ مولوی عبد الحق بنارسی کے انجام سے ایسا ہی معلوم ہوتا ہے، جیسا کہ انھوں نے خود اعتراف کیا کہ میں نے عمل بالحدیث کے پردے میں وہ کام کیا کہ عبد اللہ بن سبا سے نہ بنا تھا۔ (۱)

          بدقسمتی سے اس تحریک میں مولانا نذیر حسین دہلوی، نواب صدیق حسن خان قنوجی اور مولانا محمد حسین بٹالوی جیسے لوگ شامل ہوگئے۔ ان حضرات نے تقلید سے بیزاری اور نام نہاد عمل بالحدیث کو خوب فروغ دیا۔ یہ تمام غیر مقلد علماء انگریزوں کے بے حد خیر خواہ، برطانوی حکومت کے قصیدہ خواں اور پکے وفادار تھے۔ انھوں نے انگریزی حکومت کے خلاف جہاد کے فتوے پر دستخط سے نکار کیا اور جہاد کی تنسیخ پر رسائل بھی لکھے۔ ان کی خدمات کے صلہ میں برطانوی حکومت کی طرف سے ان کو انعامات اور نوازشیں ملیں؛ حتی کہ انگریزی سرکار نے ہی اس جماعت کو جو پہلے خود کو ”محمدی“ کہتی تھی ”اہلِ حدیث “ کا نیا اور پُر فریب نام الاٹ کیا۔ آج بھی یہ جماعت خود کو فخریہ اسی نام یاد کرتی ہے۔ (۲)

علمائے دیوبند کا ردِ عمل

          انقلاب۱۸۵۷ء کے بعد، دارالعلوم دیوبند کا قیام عمل میں آیا ۔ دارالعلوم دیوبند کے اکابر و علماء جماعتِ ولی اللّٰہی کے وارث ہونے کی حیثیت سے اسلامی علوم و روایات کے امین تھے اور ہندوستان پر انگریزوں کی حکومت کے مخالف تھے ۔دارالعلوم کے قیام کے ساتھ ہی جن داخلی فتنوں سے علمائے دیوبند کو سابقہ پڑا ، ان میں ایک اہم فتنہ عدمِ تقلید کا بھی تھا۔ حضرت شاہ اسحاق محدث دہلوی کے مدینہ ہجرت کرجانے کے بعد دہلی میں میاں نذیر حسین دہلوی نے جو اکثر مسائل میں امام شافعی کی مسائل پر عمل کرتے تھے؛ مگر کسی امام کی تقلید کے قائل نہ تھے، حنفیوں کے خلاف ایک محاذ کھول دیا اور احناف کو دعوتِ مبارزت دینے لگے۔ انھوں نے ایسے تلامذہ تیار کیے جو پورے مک میں ان کے خیالات و رجحانات کی تبلیغ کرتے۔ جن جن علاقوں میں ان کے تلامذہ تھے ان علاقوں میں ان کے مسلک کی اشاعت ہوئی اور بقیہ ملک میں وہ زیادہ کام یاب نہیں ہوسکے۔

          چوں کہ میاں نذیر حسین صاحب کامرکز نشر و اشاعت دہلی تھا؛ اس لیے قریبی مقامات تک ان کی تبلیغی سرگرمیوں کی اطلاع پہنچتی رہتی تھی۔ یہ غیر مقلدین کسی امام کی تقلید کو ضلالت و گمراہی سے تعبیر کرتے اور دینی و شرعی مسائل پر گفتگو اور بحثوں میں انتہائی جارحانہ رویہ اختیار کرتے ۔ چناں چہ اکابر علمائے دیوبند نے اس فتنہ کا بھرپور تعاقب کیا اور عوام الناس کے دلوں میں دین و شریعت، صحابہ و سلف اور اسلامی علوم و روایات کی عظمت و عقیدت کو کم نہیں ہونے دیا۔

درسِ حدیث کا نیا طریقہ

          اکابرین دیوبند نے ایک طرف درسِ حدیث کے طریقہٴ کار میں نمایاں تبدیلی پیدا کی؛ تاکہ علماء کا ایک ایسا طبقہ پیدا ہوسکے جس کو قرآن و حدیث اور فقہِ اسلامی پر مکمل بصیرت اور اعتماد حاصل ہو۔ تیرھویں صدی ہجری کے وسط تک درسِ حدیث میں صرف حدیث کا ترجمہ اور مذاہبِ اربعہ کا بیان کر دینا کافی سمجھا جاتا تھا؛ مگر جب اہلِ حدیث کی جانب سے احناف پر شد و مدکے ساتھ یہ الزام لگایا گیا کہ ان کا مذہب حدیث کے مطابق نہیں ہے تو حضرت شاہ محمد اسحق صاحب اور ان کے بعض تلامذہ نے مذہبِ حنفی کے اثبات و ترجیح پر توجہ فرمائی۔ علمائے دیوبند میں حضرت نانوتوی، حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی ، حضرت شیخ الہند اور دوسرے حضرات نے اس سلسلہ کو یہاں تک فروغ دیا کہ آج حدیث کی کوئی معروف درس گاہ اس طرزِ تدریس سے خالی نظر نہیں آتی۔درسِ حدیث میں حنفیہ کے اثبات و ترجیح کا یہ طریقہ اور تنقیحات و تشریحات کا وہ انداز جو آج دارالعلوم دیوبند کا طرہٴ امتیاز ہے اور کم و بیش مدارسِ عربیہ کے درسِ حدیث میں مروج و متداول ہے، اسے غیر مقلدیت کے اسی فتنہ کے ردِ عمل میں فروغ دیا گیا۔

          دوسری طرف اکابرو علمائے دیوبند نے کتبِ احادیث کی شروح کا سلسلہ شروع کیا جس میں فقہی احادیث پر ان حضرات نے تفصیلی کلام کیا اور احناف کی مستدل روایات کو واضح کیا اور بظاہر ان کے خلاف نظر آنے والی روایات کا مدلل جواب پیش کیا۔ ان حضرات کی یہ علمی کاوشیں فیض الباری شرح بخاری، اللامع الدراری شرح بخاری، فتح الملہم شرح صحیح مسلم، الکوکب الدری شرح جامع ترمذی، بذل المجہود شرح سنن ابی داؤد، معارف السنن شرح جامع ترمذی، اوجزالمسالک شرح موٴطا امام مالک، امانی الاحبار شرح معانی الآثار للطحاوی وغیرہ میں دیکھی جاسکتی ہیں۔ کتبِ احادیث کی شرح و تحقیق کا یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے اور اس میں بیش بہا اضافے بھی کیے گئے ہیں۔ اس ضمن میں سب سے اہم علمی خدمت ’اعلاء السنن‘ کے ذریعہ انجام دی گئی، جس کی تکمیل حضرت تھانوی کی زیر نگرانی خانقاہ امدادیہ تھانہ بھون میں حضرت مولانا ظفر احمد عثمانی کے ہاتھوں انجام پائی۔ اس ضخیم مجموعہ میں فقہِ حنفی کے تمام مسائل کے مستدلات یعنی احادیث و آثار کو یکجا کرنے کا عظیم الشان کارنامہ انجام دیا گیا ہے۔

مختلف فیہ مسائل پر تحریریں

          ملک بھر میں اگر چہ غیر مقلدین آٹے میں نمک کے برابر تھے؛ لیکن ان کی جارحیت، ائمہٴ فقہ کی شان میں گستاخی اور چھوٹے چھوٹے مسائل پر تعصب کی وجہ سے بہت سے مقامات پر عوام الناس میں تشویش پیدا ہونے لگی تھی جس کی اطلاعات خطوط وغیرہ کے ذریعہ اکابر دیوبند کو ہوتی تھی۔ ان حضرات نے ملتِ اسلامیہ کو درپیش دیگر مسائل سے نمٹنے کے ساتھ ساتھ ان مسائل کی طرف بھی توجہ دینا ضروری سمجھا؛ چناں چہ حضرت نانوتوی نے قرأت خلف الامام، آمین بالجہر، رفع یدین، تراویح وغیرہ مسائل پر قلم اٹھایا ۔ حضرت نانوتوی اس وقت عیسائیت ، آریہ سماج، سناتن دھرم جیسی اسلام دشمن طاقتوں سے نبرد آزما تھے اور ان کی زیادہ تر توجہ انھیں طاقتوں کی طرف تھی جو اسلام کے قلعہ پر حملہ آور تھیں۔ اسی طرح حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی نے بھی اسلام پر حملہ آور تمام داخلی فتنوں کے خلاف محاذ کھول دیا تھا؛ چناں چہ حضرت گنگوہی نے بھی تقلید،تراویح، قرأة فاتحہ خلف الامام، رفع یدین، آمین بالجہر، جمعہ فی القریٰ وغیرہ مسائل پر تحقیقی رسائل رقم فرمائے۔

          غیر مقلدین، عوام میں شورش پیدا کرنے اور مسلمانوں کے درمیان افتراق و انتشار پیدا کرنے کے لیے نت نئے حربے اختیار کرتے۔ انھوں نے اپنے چند مخصوص مسائل کے سلسلہ میں عوامی سطح پر بہت عامیانہ لب و لہجہ میں احناف کے خلاف بدگمانیاں پیدا کرنے کے لیے اپنے اعتراضات اشتہارات کی شکل میں شائع کرنا شروع کیا جس سے ان کا مقصد عوام میں اشتعال پیدا کرنا اور خود کو مشہور کرنا تھا۔ علمائے حق کو مجبور ہو کر ان کی حرکتوں کا مناسب جواب دینا پڑا۔ مولوی محمد حسین امرتسری کے اسی طرح کے ایک اشتہار کے جواب میں حضرت شیخ الہند نے ’ادلہٴ کاملہ‘ تحریر فرمائی اور غیر مقلدین کے دس سوالات کا جواب لکھا۔ مولوی امرتسری کی طرف سے اس کتاب کا کوئی جواب نہیں آیا؛ بلکہ ان کے ایک ہم خیال مولوی احمد حسن امروہوی نے اس کا جواب لکھنے کی کوشش کی اور مولوی محمد حسین امرتسری نے اس کو ہی کافی سمجھا۔ پھر حضرت شیخ الہند نے اس کے جواب میں ’ایضاح الادلہ‘ تحریر فرمائی جو بڑے سائز کے چار سو صفحات پر شائع ہوئی۔ یہ کتاب حضرت شیخ الہند کا ایک علمی شاہ کار ہے اور مسائل مختلف فیہ میں قولِ فیصل کا درجہ رکھتی ہے۔

          حضرات علمائے دیوبند نے دینِ اسلام کی نشر و اشاعت کے ساتھ شریعتِ اسلامیہ کی حدود و ثغور کی حفاظت میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا۔ عمل بالحدیث کے نام سے اباحیت، ذہنی آزاد ی اور ہویٰ پرستی کے اس فتنہ کے سلسلہ میں انھوں نے حسبِ موقع و ضرورت زبان و قلم کا استعمال کیا۔ یہی وجہ ہے کہ غیر مقلدین کے ذریعہ اٹھائے گئے مسائل پر ان حضرات نے تحقیقی مواد یکجا کردیا۔ اس میدان میں خصوصیت سے حضرت مولانا اشرف علی تھانوی، حضرت علامہ انور شاہ کشمیری، مولانا ناظر حسین دیوبندی،مولانا خیر محمد جالندھری،مولانا منصور علی مرادآبادی وغیرہ حضرات نے تحقیق کا حق ادا کردیا۔

غیر مقلدیت سلفیت کے پردے میں

          ہندوستان میں انگریزوں کے خلاف عوامی ردِ عمل اور تحریکِ آزادی میں شدت کی وجہ سے یہ فتنہ کچھ کمزور سا پڑ گیا اور خصوصاً ملک کے آزاد ہونے کے بعد یہ انگریزوں کی سرپرستی سے محروم ہوگیا؛ جس کی وجہ سے ایک عرصہ تک یہ فتنہ کچھ زیادہ طاقت ور نہ رہا؛ لیکن عالمِ عرب خصوصاً سعودی عرب میں تیل کی دولت کے ظہور کے بعد اس فتنے نے دوبارہ نہایت شد و مد کے ساتھ بال و پر نکالنے شروع کیے۔ عرب کی سلفی و وہابی تحریک سے ہم آہنگ ہو کر اس فرقہ کے لوگوں نے عربوں میں سلفیت کے پس پردہ اثر و رسوخ قائم کرنا شروع کیا اور وہاں سے مالی امداد پا کر ہندوستان میں دوبارہ افتراق بین الامت کے مشن پر لگ گئے۔ اس فرقہ نے بالکل خارجیوں جیسا طریقہٴ کار اپناکر نصوص فہمی کے سلسلہ میں سلفِ صالحین کے مسلمہ علمی منہاج کو پس پشت ڈال کر اپنے علم و فہم کو حق کا معیار قرار دے کر اجتہادی مختلف فیہ مسائل کو حق و باطل اور ہدایت و ضلالت کے درجہ میں پہنچادیا، اور فرد و طبقہ جو اُن کی اس غلط فکر سے ہم آہنگ نہیں تھا، اس کو وہ ہدایت سے عاری، مبتدع، ضال و مضل، فرقہٴ ناجیہ بلکہ دین اسلام سے ہی خارج قرار دے دیا۔ اس فرقہ نے بالخصوص علمائے دیوبند کے خلاف ہمہ گیر مہم چھیڑ دی اور انھیں نہ صرف دائرہٴ اہل السنة والجماعة سے خارج قرار دیا؛ بلکہ دائرہٴ اسلام سے ہی خارج کردینے کی ناپاک و نامراد کوشش میں لگ گئے۔

          غیر مقلدین کی اس تکلیف دہ اور دل آزار مہم کے خلاف علمائے دیوبند نے پھر اس موضوع پر قلم اٹھایا اور جن مسائل کو غیر مقلدین نے حق و باطل کا معیار بنادیا تھا، ان کو واضح کیا کہ ان میں اختلاف کی کیا نوعیت ہے اور ان اختلافات میں کہاں تک جانا ”اختلاف امتی رحمة“ کا مصداق ہے اور کہاں تک جانا ”بغیاً بینھم“ کا مصداق ہے۔ اس سلسلہ میں حضرت مولانا حبیب الرحمن اعظمی، حضرت مولانا سرفراز خان صفدر، حضرت مولانا ابو بکر غازی پوری وغیرہم نے نہایت قابلِ قدر خدمات انجام دیں اور علمی طور پر اس فتنہ کا سدِ باب کیا۔

          غیر مقلدوں کی اشتعال انگیزیوں اور حکومت سعودی عرب کی طرف سے ان کی سرپرستی کے رد عمل میں حضرت مولانا اسعد مدنی کی سربراہی میں جمعیة علمائے ہند نے ۲، ۳ مئی ۲۰۰۱ء میں دہلی میں تحفظِ سنت کانفرنس کا سلسلہ شروع کیا؛ تاکہ علمی طور پر اس فتنہ کا جواب دینے کے ساتھ ساتھ سعودی عرب کی حکومت کو بھی اس فتنہ کی سرپرستی پر خبر دار کیا جائے۔ اسی طرح دارالعلوم دیوبند نے بھی ۱۳/ فروری ۲۰۱۳ء کو مدارسِ اسلامیہ اور علماء کا نمائندہ اجلاس بلایا اور ملک و بیرون ملک اس فتنہ کے تعاقب کا عہد کیا۔ علمائے دیوبند نے پورے ملک کے طول و عرض میں تحفظِ سنت اجلاسات اورکانفرنسوں کے ذریعہ شریعتِ اسلامیہ پر مسلم عوام کے اعتماد کو بحال کیا اور غیر مقلدین کے خارجیت زدہ ناپاک مشن پر قدغن لگانے کی بھر پور کوشش کی۔

فقہ اور فقہاء کے سلسلہ میں علمائے دیوبند کا موقف

          علمائے دیوبند احکامِ شرعیہ فروعیہ اجتہادیہ میں فقہ حنفی کے مطابق عمل کرتے ہیں؛ بلکہ برصغیر میں آباد کم وبیش پچاس کروڑ مسلمانوں میں نوے فیصد سے زائد اہل السنة والجماعة کا یہی مسلک ہے؛ لیکن اپنے اس مذہب و مسلک کو آڑ بناکر دوسرے فقہی مذاہب کو باطل ٹھہرانے یا ائمہٴ مذاہب پر زبانِ طعن دراز کرنے کو جائز نہیں سمجھتے؛ کیوں کہ یہ حق و باطل کا مقابلہ نہیں ہے؛ بلکہ صواب و خطا کا تقابل ہے۔ مسائلِ فروعیہ اجتہادیہ میں ائمہٴ اجتہاد کی تحقیقات میں اختلاف کا ہوجانا ایک ناگزیر حقیقت ہے اور شریعت کی نظر میں یہ اختلاف صحیح معنوں میں اختلاف ہے ہی نہیں۔

          رہا جماعتِ مجتہدین میں سے کسی ایک کی پیروی و تقلید کو خاص کرلینا تو دین کے بارے میں آزادیِ نفس سے بچنے اور خودرائی سے دور رہنے کے لیے امت کے سوادِ اعظم کا طریقِ مختار یہی ہے، جس کی افادیت و ضرورت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ بابِ تقلید میں علمائے دیوبند کا یہی طرز عمل ہے۔ وہ کسی بھی امام، مجتہد یا اس کی فقہ کی کسی جزئی کے بارے میں تمسخر، سوئے ادب یا رنگِ ابطال و تردید سے پیش آنے کو خسرانِ دنیا و آخرت سمجھتے ہیں، ان کے نزدیک یہ اجتہادات شرائع فرعیہ ہیں اصلیہ نہیں کہ اپنے فقہ کو موضوع بناکر دوسروں کی تردید یا تفسیق و تضلیل کریں؛ البتہ اپنے اختیار کردہ فقہ پر ترجیح کی حد تک مطمئن ہیں۔(۳)

رد غیر مقلدیت پر علمائے دیوبند کی علمی خدمات

          (۱)      توثیق الکلام فی الانصات خلف الامام، حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی

          (۲)      الحق الصریح، ، حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی

          (۳)     لطائفِ قاسمی، ، حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی

          (۴)     سبیل الرشاد، حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی

          (۵)      ہدایة المعتدی فی قرأة المقتدی، حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی

          (۶)      الرأی النجیح، حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی

          (۷)      ادلہٴ کاملہ، شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندی

          (۸)     ایضاح الادلہ، شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندی

          (۹)      الاقتصاد فی الضاد، حضرت مولانا رحیم اللہ بجنوری

          (۱۰)     الاقتصاد فی التقلید والاجتہاد، حضرت مولانا اشرف علی تھانوی

          (۱۱)     استجاب الدعوات عقیب الصلوات، حضرت مولانا اشرف علی تھانوی

          (۱۲)     القول البدیع فی اشتراط المصر للتجمیع ، حضرت مولانا اشرف علی تھانوی

          (۱۳)    فصل الخطاب فی مسئلة ام الکتاب ، حضرت مولانا علامہ انور شاہ کشمیری

          (۱۴)    خاتمةالکتاب فی مسئلة فاتحة الکتاب ، حضرت علامہ انور شاہ کشمیری

          (۱۵)     نیل الفرقدین فی مسئلة رفع الیدین، حضرت مولانا علامہ انور شاہ کشمیری

          (۱۶)     بسط الیدین لنیل الفرقدین ، حضرت علامہ انور شاہ کشمیری         

          (۱۷)    کشف الستر عن صلاة الوتر، حضرت مولانا علامہ انور شاہ کشمیری

          (۱۸)    ہدایة المقتدین ، حضرت مولانا سید اصغر حسین دیوبندی

          (۱۹)     الفرقان فی قرأة ام القرآن،حضرت مولانا ناظر دیوبندی

          (۲۰)    الجواب الکامل فی ازہاق الباطل،حضرت مولانا ناظر دیوبندی

          (۲۱)     خیر التنقید فی مسئلة التقلید، حضرت مولانا خیر محمد جالندھری

          (۲۲)    خیر المصابیح فی عدد التراویح، حضرت مولانا خیر محمد جالندھری

          (۲۲)    الفتح المبین فی کشف مکائد غیر المقلدین ، حضرت مولانا منصور علی مرادآبادی

          (۲۳)    نور العینین فی تحقیق رفع الیدین، حضرت مولانا اشفاق الرحمن کاندھلوی

          (۲۴)    قرآن و حدیث کے خلاف غیر مقلدین کے ۵۰ مسائل ، حضرت مفتی مہدی حسن شاہجہان پوری

          (۲۵)    کشف الغمة بسراج الامة ، حضرت مفتی مہدی حسن شاہجہان پوری

          (۲۶)    امام ابو حنیفہ کی سیاسی زندگی، حضرت مولانا مناظر احسن گیلانی

          (۲۷)     الازہار المربوعة فی رد الآثار المتبوعة، حضرت مولانا حبیب الرحمن محدث اعظمی

          (۲۸)    رکعات تراویح، حضرت مولانا حبیب الرحمن محدث اعظمی

          (۲۹)    الاعلام المرفوعةفی حکم الطلاقات المجموعة، حضرت مولانا حبیب الرحمن محدث اعظمی

          (۳۰)    تحقیق اہلِ حدیث، حضرت مولانا حبیب الرحمن محدث اعظمی

          (۳۱)    الالبانی: شذوذہ واخطاؤہ ، حضرت مولانا حبیب الرحمن محدث اعظمی

          (۳۲)    حجیتِ حدیث، حضرت مولانا محمد ادریس کاندھلوی

          (۳۳)    اجتہاد و تقلید کی بے مثال تحقیق، حضرت مولانا محمد ادریس کاندھلوی

          (۳۴)    حفظ الرحمن لمذہب النعمان، حضرت مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی

          (۳۵)    امام ابو حنیفہ، حضرت مولانا مفتی عزیز الرحمن بجنوری

          (۳۶)    تقلید ائمہ، حضرت مولانا محمد اسماعیل سنبھلی

          (۳۷)    قرأت خلف الامام، حضرت مولانا سید فخر الدین مرادآبادی

          (۳۸)    رفع یدین، حضرت مولانا سید فخر الدین مرادآبادی

          (۳۹)    آمین بالجہر، حضرت مولانا سید فخر الدین مرادآبادی

          (۴۰)    الکلام المفید فی اثبات التقلید، حضرت مولانا سرفراز خان صفدر

          (۴۱)    تسکین الصدور فی تحقیق احوال الموتی فی البرزخ والقبور ، حضرت مولانا سرفراز خان صفدر

          (۴۲)    احسن الکلام مسئلہ فاتحہ خلف الامام ، حضرت مولانا سرفراز خان صفدر

          (۴۳)    طائفہٴ منصورہ ، حضرت مولانا سرفراز خان صفدر

          (۴۴)    عمدة الاثاث (طلاق ثلاث) ، حضرت مولانا سرفراز خان صفدر

          (۴۵)    مقامِ ابی حنیفہ ، حضرت مولانا سرفراز خان صفدر

          (۴۶)    ینابیع (تراویح)، حضرت مولانا سرفراز خان صفدر

          (۴۷)    وقفة مع اللامذھبیة ، حضرت مولانا ابو بکر غازی پوری

          (۴۸)    غیر مقلدین کی ڈائری، حضرت مولانا ابو بکر غازی پوری

          (۴۹)    ارمغانِ حق، حضرت مولانا ابو بکر غازی پوری

          (۵۰)    صحابہٴ کرام کے بارے میں غیر مقلدین کا موقف، حضرت مولانا ابو بکر غازی پوری

          (۵۱)     عورتوں کا طریقہٴ نماز، حضرت مولانا مفتی ابوالقاسم نعمانی

          (۵۲)    فقہ حنفی اقرب الی النصوص ہے، مولانا مفتی سعید احمد پالن پوری

          (۵۳)    حضرت امام ابو حنیفہ پر ارجاء کی تہمت، حضرت مولانا نعمت اللہ اعظمی

          (۵۴)    علم حدیث میں امام ابوحنیفہ کا مقام و مرتبہ، حضرت مولانا حبیب الرحمن قاسمی اعظمی

          (۵۵)    مسائل نماز، حضرت مولانا حبیب الرحمن قاسمی اعظمی

          (۵۶)    امام کے پیچھے مقتدی کی قرأت کا حکم، حضرت مولانا حبیب الرحمن قاسمی اعظمی

          (۵۷)    تحقیق مسئلہٴ رفعِ یدین،حضرت مولانا حبیب الرحمن قاسمی اعظمی

          (۵۸)    خواتینِ اسلام کی بہترین مسجد، حضرت مولانا حبیب الرحمن قاسمی اعظمی

          (۵۹)    طلاق ثلاث، حضرت مولانا حبیب الرحمن قاسمی اعظمی

          (۶۰)    شریعتِ مطہرہ میں صحابہٴ کرام کا مقام اور غیر مقلدین کا موقف، حضرت مولانا عبد الخالق سنبھلی

          (۶۱)     اجماع و قیاس کی حجیت ، حضرت مولانا مفتی محمد راشد اعظمی

          (۶۲)    محاضرات رد غیر مقلدیت، حضرت مولانا مفتی محمد راشد اعظمی

          (۶۳)    مسائل و عقائد میں غیر مقلدین اور شیعہ مذہب کا توافق، حضرت مولانا محمد جمال میرٹھی

          (۶۴)    توسل و استغاثہ بغیر اللہ اور غیر مقلدین، حضرت مولانا مفتی محمود حسن بلند شہری

          (۶۵)    غیر مقلدین کے ۵۶ اعتراضات کے جوابات، حضرت مولانا مفتی شبیر احمد قاسمی

          (۶۶)    ایضاح المسالک، حضرت مولانا مفتی شبیر احمد قاسمی

          (۶۷)    رسائل غیر مقلدیت، حضرت مولانا مفتی شبیر احمد قاسمی

          (۶۸)    فضائل اعمال پر اعتراض: ایک اصولی جائزہ، حضرت مولانا عبد اللہ معروفی

          (۶۹)    تقلید کی شرعی حیثیت، حضرت مولانا مفتی تقی عثمانی

          (۷۰)    تذکرة النعمان، حضرت مولاناعبد اللہ بستوی مدنی

======================

حواشی:

(۱)         کشف الحجاب ص ۲۱، از قاری عبد الرحمن پانی پتی

(۲)        الحیاة بعد الممات، مولوی تلطف حسین؛ الاقتصاد فی مسائل الجہاد، مولوی محمد حسین بٹالوی (تفصیل کے لیے دیکھئے: محاضرہ رد غیر مقلدیت، جزء اول، مولانا مفتی محمد راشد اعظمی، دارالعلوم دیوبند)

(۳)        تفصیل کے لئے دیکھئے: علمائے دیوبند کا دینی رخ اور مسلکی مزاج، حکیم الاسلام حضرت قاری محمد طیب صاحب ، سابق مہتمم دارالعلوم دیوبند

***

-------------------------------------

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ 2‏، جلد: 98 ‏، ربیع الثانی 1435 ہجری مطابق فروری 2014ء