مولانا محمد ابوالحسن علی قاسمی بھاگلپوری

۱۳۴۷ھ/۱۹۲۹ء - ۱۴۳۴ھ/۲۰۱۳ء

 

بہ قلم : مولانا نور عالم خلیل امینی                               

چیف ایڈیٹر ”الداعی“ (عربی) و استاذ ادبِ عربی‏، دارالعلوم دیوبند

 

دارالعلوم دیوبند کے ایک پختہ علم عالم اور با فیض مدرس حضرت مولانا محمد ابوالحسن علی قاسمی دُمْکوی گُڈَّاوی ثم البھاگلپوری شیخ الحدیث دارالعلوم ماٹلی والا شہر ”بھروچ“ گجرات کا تقریباً ۸۷ سال کی عمر میں انتقال ہوگیا۔ اِنا للہ واِنا اِلیہ راجعون۔ وہ عرصے سے، بڑھاپے کی وجہ سے خاصے ناتواں اور طرح طرح کے امراض کا شکار تھے۔ اُن کی وفات یک شنبہ: ۱۵/ذی قعدہ ۱۴۳۴ھ مطابق ۲۲/ستمبر ۲۰۱۳/ کو۳۰:۳ بجے سہ پہر واقع ہوئی۔ سنہ ہاے عیسوی کے حساب سے اُن کی عمر بہ وقتِ وفات ۸۴سال تھی۔

          دوشنبہ: ۱۶/ذی قعدہ مطابق ۲۳/ستمبر کو ۳۰:۹بجے صبح اُن کی نمازِ جنازہ دارالعلوم ماٹلی والا میں ہی ہوئی اور مدرسے سے متصل قبرستان میں اُن کی تدفین عمل میں آئی۔ نمازِ جنازہ وتدفین میں موسم کی خرابی اور مسلسل بارش کے باوجود علما وطلبہ اور عام مسلمانوں کی بڑی تعداد شریک ہوئی، جن میں سے بہت سے لوگ گجرات کے دور دراز علاقوں سے بھی آئے تھے۔ مولانا نے مذکورہ مدرسے میں تقریباً ۴۲ سال تدریسی خدمت انجام دی، ( محرم ۱۳۹۳ھ/ فروری ۱۹۷۳/ سے اپنی وفات ذی قعدہ ۱۴۳۴ھ /ستمبر ۲۰۱۳/ تک)۔

          مولانا ضلع ”گُڈَّا“ جھارکھنڈ سابق ضلع ”دُمْکاَ“ بہار کے باسی تھے؛ لیکن ساٹھ (۶۰) سال کا عرصہ اُنھوں نے درس وتدریس میں ”گجرات“ میں گزارا؛ اِس لیے وہ عادات واطوار میں بھی خاصے ”گجراتی“ ہوگئے تھے۔ گجراتی علما وعوام بھی اُن سے بہت مانوس تھے، نہ صرف ہم وطنوں؛ بل کہ اعزا واقربا کی طرح اُن سے اِظہارِ تعلق کرتے تھے۔ مولانا اصل باشندے ضلع ”گُڈَّا“ کے ایک گاؤں ”سرمدپور“ کے تھے؛ وہیں وہ مُتَوَلِّدْ بھی ہوے؛ لیکن بعد میں اُنھوں نے شہر ”بھاگلپور“ صوبہ ”بہار“ میں بود وباش اختیار کرلی تھی؛ اِس لیے وہ ”مولانا محمد ابوالحسن علی بھاگلپوری“ مشہور ہوگئے تھے۔ دارالعلوم دیوبند میں داخلہ رجسٹر کے مطابق وہ ”ابوالحسن دمکوی“ تھے۔

          مولانا محمد ابوالحسن علی بن محمد حسین انصاری دارالعلوم دیوبند کے اپنے ہم عصر فضلا میں ممتاز تھے، دورہٴ حدیث شریف میں تین امتیازی نمبرات لانے والے خوش قسمتوں میں سے ایک تھے۔ اُنھوں نے دارالعلوم میں چار سال تعلیم حاصل کی اور ۱۳۷۲ھ/۱۹۵۳/ میں دارالعلوم سے فارغ ہوے۔ وہ مشہور ذی علم عالم مولانا زین العابدین معروفی قاسمی کے ہم سبق رہے تھے۔ فراغت کے بعد اُنھوں نے بھی درس وتدریس کے لیے اپنے کو وقف رکھا۔ مسلسل ۶۰ سال تک تدریس کے ذریعے اپنی علمی لیاقت سے طلبہٴ علوم دین کو فائدہ پہنچایا۔ ۱۸ سال وہ دارالعلوم ”چھاپی“ ضلع ”بناس کانٹھا“ میں مدرس رہے اور ۴۲ سال دارالعلوم ماٹلی والا شہر ”بھروچ“ میں شیخ الحدیث کے منصبِ جلیل پر فائز رہے۔

          مولانا چوں کہ حضرت شیخ الادب والفقہ مولانا محمد اِعزاز علی (۱۳۰۰ھ/۱۸۸۲/ - ۱۳۷۴ھ/ ۱۹۵۴/) کے اَخَصِّ تلامذہ میں تھے، اِس لیے اپنے استاذ گرامی ہی کی طرح دوباتوں میں بہت ممتاز تھے: عام اوقات کی حفاظت کے ساتھ ساتھ درسی گھنٹوں کے اوقات کی اِتنی پابندی کہ لوگ اُن کی درس گاہ میں آمد کے ذریعے اپنی گھڑیاں ملایاکرتے تھے کہ مولانا درجے میں تشریف لے آئے ہیں تواِتنا بج کر اتنے منٹ ضرور ہوگئے ہیں۔ دوسرے تدریس واِفادے سے غیرمعمولی دلچسپی۔ اِس حوالے سے تو لوگ حضرت شیخ الادب کے متعلق کہا کرتے تھے کہ وہ اللہ کی طرف سے مدرس بناکر ہی پیدا کیے گئے تھے؛ کیوں کہ ہر آدمی اللہ تعالیٰ کے علم مُحْکَم کے مطابق کچھ مخصوص صلاحیتوں کے ساتھ مخلوق ہوتا ہے، جو دوسروں میں یا تو بالکل مفقود ہوتی ہیں یا اتنی نہیں ہوتیں جتنی اُس کے اندر ہوتی ہیں۔

          مولانا ابوالحسن کے تلامذہ اِن دونوں باتوں کے تعلق سے اُن کے بڑے مداح نظر آئے، وہ اِن کے حوالے سے اُن کا اپنی مجلسوں میں نہ صرف تذکرہ کرتے؛ بل کہ اِن کی وجہ سے اُن کا حد درجہ احترام بھی کرتے تھے۔ راقم نے اپنی زندگی میں تجربہ کیا ہے کہ لوگوں کو فائدہ پہنچانے سے دلچسپی لینے والا لوگوں کے نزدیک حد درجہ محبوب ہوتا ہے؛ بالخصوص علم وثقافت اور فضل وکمال کے ذریعے دوسروں کو فائدہ پہنچانے اور اُن کی طرف اپنی صفات کو ہنرمندی سے منتقل کرنے والا۔

          مولانا نے بعض دفعہ اپنے مدرسے میں جہاں دارالعلوم دیوبند ہی کی طرح تعلیمی گھنٹے مکمل ساٹھ منٹ کے ہوتے ہیں، چھ چھ گھنٹے اِس طرح پڑھائے کہ اُن کے چہرے پر کسی تعب کا اثر تھا نہ ذہنی تھکاوٹ کی کوئی علامت، وہ اُسی طرح چست اور تازہ دم تھے، جیسے پہلے گھنٹے میں ابتدائے تدریس کے وقت، جس سے صاف محسوس ہوتا تھا کہ وہ تدریس کے سلسلے میں مُوٴَیَّدْ من اللہ تھے۔ خداے کریم کی غیبی مدد اُس کام کے حوالے سے اُن کا ساتھ دیتی تھی جس کے لیے وہ مخلوق ہوے تھے۔

          اُن کے ایک باصلاحیت وباتوفیق شاگردِ رشید مولانا رشید احمد قاسمی بن مولانا موسی قاسمی سیلوڈی سورتی استاذ جامعہ اسلامیہ تعلیم الدین ”ڈابھیل- سملک“ ضلع ”نوساری“ گجرات اُن سے دارالعلوم ماٹلی والا ”بھروچ“ میں طالب علمی کے زمانے میں اپنے پڑھنے کا بڑی لذت سے تذکرہ کرتے ہوے کہتے ہیں کہ طلبہ کو اُن سے جتنا فائدہ ہوتا تھا اُتنا دگر اساتذہ سے اُن کی علمی جلالتِ شان اور تفہیمی امتیاز کے باوجود اِس لیے نہیں ہوتا تھا کہ مولانا ٹھہر ٹھہر کر بہت اطمینان سے بولتے تھے، نیز سبق میں بڑی پابندی سے آتے تھے؛ اِس لیے اُن کی تدریس وتعلیم میں نہ صرف برکت تھی؛ بل کہ اُن کی شخصیت میں بھی بڑی محبوبیت تھی۔ درس گاہ میں ٹھہر ٹھہر کر بولنے کی وجہ سے طلبہ کے لیے اُن کے زیر تدریس اسباق کو اَخذ کرنا اور یاد کرنا آسان ہوتا تھا اور امتحان دینے کے دوران اُنھی کی بتائی ہوئی باتیں ”اصل سرمایے“ کا کام دیتی تھیں، جس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ مولانا صرف کام کی اور بہت اہم وضروری باتیں ہی بتایا کرتے تھے۔

          علمی لیاقت اور تدریسی مہارت کے ساتھ مولانا بہت متواضع، حلیم، سادہ طبیعت انسیّت شعار اور بے تکلف واقع ہوے تھے۔ اُن میں کسی طرح کا ترفع اور تکلف نہ تھا جو ذی استعداد اہلِ علم کے لیے بالعموم لازم کا درجہ رکھتا ہے۔ خدا کی توفیق سے وہ یہ سمجھتے اور ہمہ وقت مستحضر رکھتے تھے کہ علم وکمال کا جو حصہ اُنھیں ملا ہوا ہے، وہ محض خدا کی دین ہے، اُس میں اُن کا کوئی عمل دخل نہیں، اُنھوں نے محنت کرکے اُسے حاصل کیاتو محنت بھی خدا ہی کی دین تھی؛ لہٰذا ساری تعریف صرف اُسی خداے بے نیاز ویکتا کی ہے، کسی انسان کے کسی کمال میں اِنسان کا کوئی کمال نہیں۔

          علم کے ساتھ حلم مولانا کے امتیازات میں تھا، وہ دارالعلوم جیسی عظیم درس گاہ وتربیت گاہ کے فارغ تھے، جس کی یہ خصوصیت اِس گئے گزرے دور میں بھی باقی ہے کہ یہاں محض علم ومعلومات ہی کی تلقین نہیں کی جاتی؛ بل کہ علم کے ساتھ تربیت،معلومات کے ساتھ دین داری، صحتِ عقیدہ کے ساتھ خداترسی، صالحیت کے ساتھ استقامت واِنابت اور تعلق مع اللہ کو سارے فضلا کی حسبِ توفیقِ الٰہی، زندگی کا جزوِ لاینفکّ بنادیا جاتا ہے؛ جس کی وجہ سے یہاں کا ہر فاضل منشا ٴ اِلٰہی کے بہ قدر ایک خاص ایمانی وروحانی رنگ میں رنگا ہوتا ہے، جس کی مثال دیگر اداروں کے فارغین میں بہ مشکل ہی مل پاتی ہے؛ اِسی لیے فرزندانِ دارالعلوم دیوبند کسی باطل نظریے اور گم راہ تحریک سے کسی طرح تال میل کے لیے تیار نہیں ہوپاتے؛ بل کہ ہر باطل اور ہرقسم کی گم راہی کے لیے وہ شمشیرِ برہنہ اور سُمِّ قاتل ثابت ہوتے ہیں۔

          مولانا یہاں کے مثالی فضلا میں سے ایک تھے، وہ ہمیشہ یہاں کے پیغام کو سینے سے لگائے رہے اور سیرتِ نبوی پر کاربندی اور صلابت فی الدین کے حوالے سے وہ اپنے اساتذہ کا نسخہ مطابق اصل بنے رہنے کے لیے ہمیشہ کوشاں رہے؛ اِسی لیے دین کی دعوت اور علومِ شریعت کی نشر واِشاعت ہی اُن کا اوڑھنا بچھونا بنی رہی۔

          وہ نہ صرف نماز روزے کے پابند تھے؛ بل کہ عام احکام الٰہی اور سنتِ نبوی کے باریک خاکوں پر بھی عمل پیرا رہنے کی کوشش کرتے تھے۔ تہجد کی نماز اور صلاة اللیل اُن سے کبھی قضا نہ ہوتی تھی۔ وہ جماعت کی نماز میں پہلی صف میں ٹھیک امام کے پیچھے کھڑے ہوتے اور جماعت شروع ہونے سے بہت پہلے یعنی اذان کے معاً بعد مسجد میں موجود ہوتے اور جماعت سے پہلے کے اوقات کو نفل نمازوں یا تلاوتِ قرآن پاک یا اوراد واذکار میں مشغول رکھتے، جاڑا ہو یا گرمی اُن کے اِس معمول میں کوئی فرق واقع نہ ہوتا۔ وہ رات کا ایک حصہ اپنے رب سے مناجات میں اور دن کا اکثر حصّہ ذمے داریوں کی ادایگی میں صرف کرتے۔ وہ ظاہر وباطن دونوں سے سادہ محسوس ہوتے تھے۔ اُن کے کسی رویّے سے تصنّع اوربناوٹ اور زندگی کی تراش خراش پر کسی درجہ بھی توجّہ دینے کا کوئی عندیہ نہیں ملتا تھا۔ وہ واقعی سچے پکے دین دار اور نمونے کے مسلمان تھے۔

          مولانا نے تصنیف وتالیف کی طرف توجہ نہ دی؛ بل کہ ساری توجّہ صرف درس وتدریس پر مرکوز رکھی، جس سے اُنھوں نے بہت سے کام کے علماے دین وداعیانِ اِلی اللہ پیدا کیے؛ البتہ اسلامک فقہ اکادمی انڈیا کی طرف سے اُس کے سیمیناروں کے لیے وہ مدعو ہوتے اور اُن کے لیے مختلف فقہی موضوعات پر علمی وفقہی مقالے لکھتے رہے، جو اہلِ علم نے بہت پسند کیے؛ کیوں کہ اُن کے مقالات عمیق مطالعے کا نتیجہ ہوتے تھے۔ وقتاً فوقتاً عوامی جلسوں کو بھی اُنھوں نے خطاب کیا؛ لیکن اُن کی تقریریں عوام سے زیادہ خواص کے لیے مفید ہوتی تھیں؛ کیوں کہ اُن کے علمی مزاج کا رنگ اُن کی تقریروں پر بھی غالب رہتاتھا۔

          مرحوم سے اِس راقم کی ملاقات سب سے پہلے اُنھی کے مدرسے میں، اُس وقت ہوئی جب مدرسے کی دعوت پر سہ شنبہ: ۱۷/ربیع الثانی تا چہار شنبہ ۲۵/ربیع الثانی ۱۴۰۸ھ مطابق ۸/ تا ۱۶/دسمبر ۱۹۸۷/ کے عرصے میں طلبہ کے تقریری وانعامی مقابلے میں افتتاحی جلسے کی صدارت کے لیے اِس راقم کی حاضری ہوئی۔ اِس موقع سے جہاں زندگی میں پہلی بار خطہٴ گجرات سے متعارف ہونے کا موقع ملا، جہاں کے مسلمانوں کو اللہ نے دینی کاموں اور اسلامی اِداروں کو مدد دینے میں ملک کے سارے مسلمانوں کے درمیان سب سے زیادہ حصہ لینے کی فضیلت سے نوازا ہے، وہیں بہت سے اہلِ علم ودین سے تعارف کی سعادت حاصل ہوئی، جن میں ایک ممتاز نام مولانا محمد ابوالحسن علی بھاگلپوری کا ہے، جن سے بعد میں کئی بار ملنے اور علمی فائدہ اُٹھانے کا موقع ملا۔

          اس سفر میں کئی روز اُسی مدرسے میں راقم کا قیام رہا گو بیچ بیچ میں دگر مدرسوں میں جانے اور طلبہ کو خطاب کرنے کا موقع ملتا رہا۔ راقم نے مولانا کی سب سے ممتاز صفت اُن کی نماز باجماعت کی پابندی دیکھی۔ وہ راست امام کے پیچھے پہلی صف میں کھڑے ہوتے۔ شب بیداری کی بھی عادت تھی۔ مانوس کرلینے اور مانوس ہوجانے والے آدمی تھے۔ چہرے بشرے پر ایک طرح کی معصومیت تھی، اہل علم کا کرّ وفرّ اُن میں بالکل نہ تھا، ہنس مکھ اور خوش اخلاق تھے، عموماً سلام کرنے میں پہل کرتے تھے۔ راقم سے اس سفر میں مہمان خانے میں (جو دریاے نرمدا کے کنارے خوب صورت ونستعلیق گوٹھی کی شکل میں تھا) بار بار ملنے آتے رہے، جب بھی اپنی ڈیوٹی اور ضروری فرائض کی ادایگی سے فرصت پاتے اِس خُرد سے ملنے آجاتے۔ ایک روز تقریباً ایک گھنٹہ بیٹھے اور گجرات کے اِس مغربی علاقے، جس میں بھروچ اور سورت وغیرہ داخل ہیں، کے باشندوں کی خصوصیات، اُن کی فیاضیاں، اپنے اعزا واقربا وعام محتاج مسلمانوں کے ساتھ اُن کی ہم دردیوں کے چشم دید قصے اِس طرح سنائے کہ اُس وقت سے آج تک یہ راقم اُن لوگوں کا قائل ہے۔

          راقم کو اُن کے شاگردِ رشید مولانا رشید احمد قاسمی سیلوڈی سورتی بن مولانا موسیٰ قاسمی سیلوڈی سورتی نے بتایا کہ مولانا کی نماز باجماعت کی پابندی آخر عمر تک باقی رہی؛ حتی کہ شدید کم زوری کی وجہ سے وہ نماز کے دوران کئی بار گر بھی گئے اور لوگوں نے اُن سے گزارش بھی کی کہ آپ بہت کم زور ونحیف ہوگئے ہیں، آپ کمرے پر ہی نماز پڑھ لیا کریں؛ لیکن اُنھوں نے کسی کی نہ سنی اور مسجد میں جانا موقوف نہیں کیا۔

          مذکورہ سفر کے دوران راقم نے اُنھیں پایا کہ وہ جمعیة علماے ہند اور دارالعلوم دیوبند کا بہت تذکرہ کرتے تھے، جس سے اندازہ ہوا کہ اُنھیں اِن دونوں سے بہت محبت ہے ؛ کیوں کہ آدمی محبوب کا تذکرہ جتنا کرتا ہے، کسی دوسرے کا اُتنا نہیں کرتا۔ اُنھیں واقعی اُن دونوں سے اٹوٹ محبت تھی۔ دارالعلوم تو اُن کی مادرعلمی تھا اور جمعیة علما اُن کے اسلاف کی یادگار اور اُن کی طالب علمی میں اُس کے صدرنشیں بھی اُن کے عظیم استاذ عالمِ باعمل مجاہدِ بطل شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنی (۱۲۹۵ھ/ ۱۸۷۹/- ۱۳۷۷ھ/۱۹۵۷/) تھے؛ اس لیے دونوں سے اُن کی بے پناہ محبت قدرتی بات تھی؛ اِسی لیے دونوں پر کوئی آنچ آئے تو وہ تڑپ اٹھتے تھے۔ دارالعلوم دیوبند میں ۱۴۰۰ھ= ۱۹۸۰/ کے صدسالہ اِجلاس کے بعد جو اختلاف وانتشار کی صورتِ حال پیدا ہوئی تو اُن کے شاگردوں نے بتایا کہ وہ بہت بے چین رہتے تھے اورلمحے لمحے کی خبر سے باخبر رہنے کی کوشش کرتے تھے۔ جمعیة علما دولخت ہوئی تو وہ کم زور، بیمار اور بڑھاپے کے بہت سے عوارض کا شکار تھے؛ لیکن اُن کی دلی خواہش تھی کہ دونوں دھڑے کسی طرح ایک ہوجائیں۔ وہ جمعیة کے اختلاف سے بہت دکھی تھے۔ وہ ”بھروچ“ ضلع کی سطح پر جمعیة علما کے ایک زمانے میں کئی سال تک صدر رہے اور بہت سے دینی واجتماعی کام کیے جن سے اُس خطے کے مسلمانوں کو بہت فائدہ ہوا۔

          مولانا عالمِ اسلام کے حالات وواقعات سے بھی تازہ بہ تازہ باخبر رہنے کی کوشش کرتے تھے۔ جو لوگ ریڈیو سنتے یا اخبار کا پابندی سے مطالعہ کرتے تھے، اُن سے ہمیشہ رابطہ رکھتے اورحالات معلوم کرتے رہتے تھے۔ اسلام اور مسلمانوں کے مسائل سے اُنھیں طبعی دلچسپی تھی، جس سے اُن کی دینی غیرت اور اسلامی حمیت کااندازہ ہوتا تھا۔

مختصر سوانحی خاکہ

*       اسم گرامی:        محمد ابوالحسن علی بن محمد حسین انصاری

*       تاریخ پیدایش:     ۲۷/رمضان ۱۳۴۷ھ مطابق ۱۰/مارچ ۱۹۲۹/

          (یہ تاریخ اُن کے اہلِ خانہ نے بتائی ہے؛ لیکن دارالعلوم دیوبند کے داخلہ رجسٹر کے مطابق اُن کا سنہٴ پیدایش ۱۳۵۲ھ / ۱۹۳۳/ ہے)

*       جاے پیدایش و وطن اصلی: گاؤں ” سَرْمَدْ پور“ ڈاک خانہ ”مہگاواں“ ضلع ”دُمْکا“ صوبہ ”بہار“ حالیہ ضلع ”گُڈَّا“ صوبہ ”جھارکھنڈ“

          بعدمیں وہ شہر ”بھاگلپور“ صوبہ ”بہار“ کے محلہ ”حبیب پور“ کے باسی ہوگئے تھے۔

*       تعلیم وتربیت: اُن کی تعلیم وتربیت کی سرپرستی ”سرمد پور“ کے ہی ایک عالم مولانا عبدالحمید نے کی جو شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندی (۱۲۶۸ھ/۱۸۵۱/- ۱۳۳۹ھ/۱۹۲۰/)کے شاگرد تھے۔

*       ابتدائی تعلیم: مدرسہ محمودیہ ”سمریا“ بھاگلپور میں حاصل کی۔

*       متوسط واعلیٰ تعلیم: دارالعلوم دیوبند میں پائی جہاں وہ ۲۲/شوال ۱۳۶۸ھ مطابق ۲۲/جون ۱۹۴۹/ میں داخل ہوے۔

          دارالعلوم میں اُنھوں نے مسلسل چار سال تعلیم حاصل کی اور ۱۳۷۲ھ/ ۱۹۵۳/ میں تعلیم مکمل کی۔ دورہٴ حدیث میں اُن کے مندرجہٴ آسمانِ علم وفضل اساتذہ تھے:

          شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنی (۱۲۹۵ھ/۱۸۷۹/- ۱۳۷۷ھ/۱۹۵۷/) علامہ محمد ابراہیم بلیاوی (۱۳۰۴ھ/۱۸۸۶/- ۱۳۸۷ھ/۱۹۶۷/) شیخ الادب والفقہ مولانا محمداِعزاز علی مروہوی (۱۳۰۰ھ/۱۸۸۲/- ۱۳۷۴ھ/ ۱۹۵۴/) مولانا سید فخرالحسن مراد آبادی (۱۳۲۳ھ/۱۹۰۵/- ۱۴۰۰ھ/۱۹۸۰/) مولانا محمد جلیل کیرانوی (متوفی ۱۳۸۸ھ/ ۱۹۶۸/) مولانا ظہور احمد دیوبندی (۱۳۱۸ھ/۱۹۰۰/- ۱۳۸۳ھ/۱۹۶۳/)۔

          ذیل میں دورہٴ حدیث میں پڑھی ہوئی حدیث کی کتابوں، سالانہ امتحان میں اُن کے نمبرات اور جن اساتذہ سے وہ پڑھیں، کی تفصیل درج کی جاتی ہے:

          ۱-       صحیح بخاری          :         شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنی، چوتھا گھنٹہ                  /۵۰

          ۲-       صحیح مسلم           :         علامہ محمد اِبراہیم بلیاوی، پہلا گھنٹہ                              /۵۰

          ۳-       جامع الترمذی        :         شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنی، دوسرا وتیسرا گھنٹہ            /۵۰

          ۴-       سنن ابی داود         :         شیخ الادب والفقہ مولانا محمد اعزاز علی امروہوی، پانچواں گھنٹہ       /۴۶

          ۵-       شمائل ترمذی        :         شیخ الادب والفقہ مولانا محمد اعزاز علی امروہوی، بعد مغرب         /۵۰

          ۶-       سنن نسائی          :         مولانا سید فخرالحسن مرادآبادی، خارج میں                       /۵۰

          ۷-       موطأ امام مالک       :         مولانا سید فخرالحسن مرادآبادی، خارج میں                       /۴۳

          ۸-       موطأ امام محمد         :         مولانا محمد جلیل کیرانوی، بہ روز جمعہ                            /۵۰

          ۹-       سنن ابن ماجہ        :         مولانا ظہور احمد دیوبندی، بعد عصر                              /۴۴

          ۱۰-      معانی الآثار للطحاوی:علامہ محمد ابراہیم بلیاوی، بعد فجر                                           /۵۰

          پیش نظر رہے کہ اُس وقت دارالعلوم دیوبند میں نمبرات کی آخری حد ۵۰ ہوا کرتی تھی، دو تین سالوں سے نمبرات کی آخری حد یہاں بھی ۱۰۰ ہوگئی ہے۔

          * مولانا میانہ قد، گندم گوں رنگ تھے، چہرے پر چیچک کے نمایاں داغ تھے، دوہرے بدن کے تھے، وقار سے قدم اٹھاتے اور سنجیدگی سے چلتے، ٹھہر ٹھہر کے باتیں کرتے، قدرے کم گو تھے، صرف ضرورت کی باتیں کرتے تھے۔ غیبت، چغل خوری، حسد، بغض جیسے اِخلاقی امراض سے بالکل مُبَرَّا تھے۔

 

                   (اردو تحریر:        ۱۱/بجے صبح جمعرات: ۲۵/ذی الحجہ ۱۴۳۴ھ = ۳۱/اکتوبر ۲۰۱۳/

                   عربی تحریر:         ۳۰:۱۰/بجے صبح، چہارشنبہ: ۳/ذی الحجہ ۱۴۳۴ھ مطابق ۹/اکتوبر۲۰۱۳/

                                      برائے ”الداعی“ شمارہ ۱-۲، جلد نمبر ۳۸، بابت ماہ محرم و صفر ۱۴۳۵ھ

                                       مطابق نومبر ودسمبر ۲۰۱۳/)

***

-----------------------------------------

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ 3‏، جلد: 98 ‏، جمادی الاولی 1435 ہجری مطابق مارچ 2014ء