اسلام انسانیت کی کامیابی کا ضامن

 

از: مولانا محمد ساجد قاسمی‏، استاذِ دارالعلوم دیوبند

 

          اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا، اسے غیرمعمولی ظاہری اور معنوی خوبیوں سے آراستہ کیا، اس کے اندر مختلف تقاضے وضروریات رکھیں اوراس کی ضرورتوں اور تقاضوں کی تکمیل کا بھی انتظام فرمایا۔ انسان چونکہ جسم وروح کے مجموعے کا نام ہے؛ اس لیے اس کے ساتھ دونوں قسم کی ضرورتیں لگی ہوئی ہیں، جسمانی بھی اور روحانی بھی۔

          اللہ تعالیٰ نے انسان کی جسمانی ضروریات پوری کرنے کے لیے وسیع وعریض کائنات پیدا کی اور اس کے لیے مسخر کردیا؛ چنانچہ آسمان وزمین، چاند وسورج، پانی وہوا، بہتے ہوئے سمندر اور دریا اور زمین کے مادی ذخائر وغیرہ سب کے سب انسان کے لیے پیدا کیے، اسے یہ صلاحیت دی کہ وہ ان سے فائدہ اٹھائے اور اپنی جسمانی ومادی ضروریات کی تکمیل کرے۔

          اسی طرح اللہ تعالیٰ نے انسان کی روحانی ضرورت پوری کرنے کے لیے انبیاء کی بعثت کا سلسلہ جاری فرمایا؛ چنانچہ حضرت آدم علیہ السلام، حضرت نوح علیہ السلام، حضرت ابراہیم علیہ السلام، حضرت اسماعیل علیہ السلام، حضرت اسحاق علیہ السلام، حضرت داود علیہ السلام، حضرت سلیمان علیہ السلام، حضرت موسیٰ علیہ السلام، حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور پیغمبر آخرالزماں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم، اس سلسلة الذہب کی کڑیاں ہیں، جنھیں اللہ تعالیٰ نے انسان کی روحانی ضرورت کی تکمیل کے لیے بھیجا۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں اپنا پیغام دے کر بھیجا، پیغام یہ تھا کہ انسان کو خدائے واحد کی عبادت کی دعوت دیں، اسے اس کی زندگی کا نصب العین بتائیں اوراسے اس کائنات کی تخلیق کے مقصد سے آگاہ کریں۔

          تمام انبیاء نے خدا کا پیغام اپنی قوموں کو پہنچایا؛ لیکن تمام قوموں کا خدائی پیغام کے تئیں ردِعمل انتہائی غیرمناسب رہا، انھوں نے انبیاء کی تکذیب کی، ان کا مذاق اڑایا اوران سے عذاب کا مطالبہ کیا۔ انبیاء کے مشن کی تکمیل کے بعد اللہ تعالیٰ نے بھی نافرمان قوموں کو ایک ایک کرکے ہلاک کردیا۔

          اللہ تعالیٰ نے سب سے آخر میں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا، آپ پر انبیاء کی بعثت کا سلسلہ ختم ہوگیا۔ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا، آپ پر آخری کتاب نازل فرمائی، اب اس کے بعد کوئی کتاب نہیں آئے گی۔ آپ کے لائے ہوئے خدائی پیغام کو اسلام کہا جاتا ہے، یہ آخری پیغام ہے، یہ قیامت تک آنے والے انسانوں کے لیے ہے، اس میں پوری انسانیت کے لیے فلاح وکامرانی کی ضمانت ہے۔ دنیوی فلاح وکامرانی بھی اوراخروی بھی۔

          اسلام ایک دینِ کامل اور مکمل دستورِحیات ہے، انسانی زندگی سے متعلق اس میں واضح تعلیمات وہدایات موجود ہیں اوراس میں قیامت تک آنے والے مسائل کا حل بھی موجود ہے، اسلام نے انسانی تاریخ میں غیرمعمولی انقلاب برپا کیا، اسلامی تاریخ اس کی شاہد ہے۔

          اسلام نے تقریباً تیرہ صدیوں تک انسانیت کی قیادت کی، اس کی قیادت کا دور پوری انسانیت کے لیے خیر کا دور تھا، نہ صرف مسلمانوں؛ بلکہ غیرمسلموں کو بھی اس کی قیادت وحکمرانی کے زمانے میں مکمل آزادی، حقوق اور امن وامان حاصل رہا۔ دیگر اقوام کے ساتھ رواداری وخیرخواہی کی جو مثالیں دوراسلام میں ملتی ہیں، وہ نہ اس سے پہلے ملتی ہیں، نہ اس کے بعد۔

          لیکن بدقسمتی سے عالمی قیادت اسلام کے بجائے مغربی اقوام کے ہاتھوں میں پہنچی، ۱۹۲۴/ میں خلافتِ عثمانیہ کا خاتمہ ہوگیا، اسلامی ممالک یکے بعد دیگرے مغربی حکومتوں کے زیرتسلط آتے چلے گئے اور پوری دنیا پر مغربی تہذیب کا تسلط ہوگیا؛ چونکہ دنیا کے بہت سے ممالک مغربی حکومتوں کی نوآبادیات میں شامل تھے؛ اس لیے ان میں مغربی طرزِ زندگی بڑی تیزی سے پھیلا۔ اسی طرح صنعتی اور تیز رفتار ذرائع ابلاغ نے بھی مغربی طرزِزندگی اور مغربی تہذیب کے پوری دنیا میں پھیلنے میں زبردست کردار ادا کیا۔

          مغربی تہذیب ایک خالص مادی تہذیب ہے،اس کے تمام فلسفے ونظریات مادی ہیں، اس تہذیب کا سب سے خطرناک پہلو یہ ہے کہ اس میں خدا کا کوئی تصور ہے نہ آخرت کا اور نہ اس میں انسان کی روحانی ضرورتوں اور تقاضوں کی تکمیل کا کوئی سامان ہے؛ چونکہ یہ خالص مادی تہذیب ہے؛ اس لیے اس میں تمام انسانی سرگرمیوں کا محور دنیاوی منافع، مادی وسائل اور اعلیٰ معیارِ زندگی کا حصول ہے۔ انسان کے لیے اپنی مادی ہوس پوری کرنے کے لیے اس میں حدود ہیں اور نہ بندشیں۔

          اس تہذیب کے زیراثر انسان اپنے مقصدِ زندگی سے ناواقف ہے اور اس وسیع وعریض کائنات کی مقصدیت سے بھی نابلد ہے۔ وہ داخلی بے چینی اور ناصبوری وناشکیبائی کا شکار ہے۔ اس کا خاندانی نظام درہم برہم ہورہا ہے۔ اس تہذیب کا ایک اہم حصہ جدید دریافتیں ہیں، جو دریافتیں انسانیت کے لیے مفید ہیں، وہ یقینا قابلِ قدر ہیں؛ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ بہت سی دریافتوں کا استعمال غلط ہورہا ہے۔ اسی کے ساتھ تباہ کن جدید ہتھیار بھی اسی تہذیب کی دین ہیں۔ اس نے تباہ کن ہتھیاروں اور زہریلی گیسوں کی شکل میں انسانیت کی خودکشی کا سامان بہم پہنچایا ہے۔ نیز لہوولعب کے نت نئے سامان آرہے ہیں، جنھیں دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ لہوولعب ہی مقصدِ زندگی ہے۔

          جس وقت عالمِ اسلام پر مغربی تہذیب کی یلغار ہوئی، اس وقت ضرورت اس بات کی تھی کہ عالمِ اسلام میں ایک ایسا طبقہ کھڑا ہوتا، جسے ایک طرف تو اسلام کی صلاحیت اور ا ٓفاقیت پر پورا یقین ہوتا اور دوسری مغربی علوم اور فلسفوں پر استاذانہ نظر ہوتی۔ یہ طبقہ مغربی تہذیب کا بے لاگ تنقیدی جائزہ لیتا، اس کے مفید اور مضر پہلوؤں کی نشاندہی کرتا اور ان علوم اور فلسفوں کو اختیار کرنے کا مشورہ دیتا جو اسلام کے فکری نظام سے ہم آہنگ ہیں اور ان افکار ونظریات کا بھی تعین کرتا جو اسلامی عقائد سے متصادم ہیں۔

          لیکن مختلف وجوہات کی بناپر ایسا نہ ہوسکا۔ ایک وجہ اس تہذیب سے غیرمعمولی مرعوبیت تھی، جس وقت عالم اسلام میں معربی تہذیب کی آمد ہوئی؛ چونکہ یہ ایک تازہ دم اور طاقت ور تہذیب تھی؛ اس لیے اس سے مرعوبیت عام تھی۔ ایساکوئی طبقہ تیار نہ ہوسکا جو اس کا تنقیدی جائزہ لیتا، اس کی خوبیوں اور خامیوں کی نشاندہی کرتا، اسلامی ممالک کے لیے لائحہٴ عمل تیار کرتا جس میں ایک طرف مکمل اسلامی روح ہوتی اور دوسری طرف مغرب کے مفید علوم بھی ہوتے۔

          دوسری وجہ یہ تھی کہ چونکہ عالم اسلام مغربی حکومتوں کی نوآبادیات بن چکا تھا؛ اس لیے اسلامی حکومتوں کا اس کے مقابلے میں کوئی ٹھوس موقف اختیار کرنا ممکن نہ رہا۔

          تیسری وجہ یہ ہے کہ خود عالم اسلام میں مغربی تہذیب کاایک نمائندہ طبقہ پیدا ہوگیا، یہ تھا مغربی تعلیم یافتہ طبقہ، اس نے مغربی طرز زندگی کو نہ صرف اپنایا؛ بلکہ جدت پسندی کے نام پر اس کی دعوت دی اور اپنے دائرئہ اختیار میں اسے نافذ بھی کیا۔ اس طبقے نے ہرمغربی چیز کو مقدس سمجھ کر اپنانا شروع کردیا؛ چنانچہ انگریزوں کی طرح کتاپالنا، کوٹ پینٹ پہننا، ٹائی لگانا اور اسلام زبان کے رسم الخط کے بجائے لاطینی رسم الخط اپنانے کو ترقی کی معراج سمجھا۔ علامہ اقبال نے اسی جدت پسندی کی تحریک کو دیکھ کر کہا تھا:

لیکن مجھے ڈر ہے کہ یہ آوازہٴ تجدید          مشرق میں ہے تقلیدِ فرنگی کا بہانہ

          استعماریت کا دور ختم ہوا، اسلامی ممالک کو بھی مغرب کے سیاسی استعمار سے آزادی ملی؛ لیکن وہ مغرب کی فکری غلامی میں آج بھی جکڑے ہوئے ہیں۔ وہاں مغربی طرز حکومت، مغربی نظام تعلیم اور مغربی طرز زندگی رائج ہے۔ مغرب کی سیاسی غلامی سے آزاد ہونے کے بعد بھی وہ نہ صحیح اسلامی حکومت قائم کرسکے، نہ ہی اپنا مستقل نظام تعلیم تشکیل دے سکے اور نہ اپنی زندگی کو اسلامی اصولوں پر ڈھال سکے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ اسلامی ممالک میں مادیت کا سیلاب دن بہ دن بڑھتا جارہا ہے، اسلامی روح رفتہ رفتہ نکلتی چلی جارہی ہے اور مغربی تہذیب کے تباہ کن اثرات تیزی سے پھیلتے جارہے ہیں۔

          آج پوری انسانیت مغربی تہذیب کے اثراتِ بد سے تباہی کے دہانے پر ہے، اگر انسانیت فلاح وکامرانی چاہتی ہے تو اسے اسلام کی طرف لوٹنا ہوگا، زندگی کے مختلف میدانوں میں اس کی رہنمائی لینی ہوگی۔ انفرادی زندگی میں بھی اور اجتماعی زندگی میں بھی۔ زمامِ قیادت اسلام کے ہاتھ میں دینی ہوگی۔ انسان خدا کی مخلوق ہے اور اسلام خدا کا قانون ہے، خدا کی مخلوق کے لیے خدا کا ہی قانون موزوں ہے، اس قانون اور نظام کے سامنے انسانوں کے خودساختہ نظام ہائے زندگی اور قوانین ناقص اور بونے ہیں، یہی واحد نظام ہے جو انسانیت کی فوزوفلاح کا ضامن ہے۔

$ $ $

 

----------------------------------

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ 5‏، جلد: 98 ‏، رجب 1435 ہجری مطابق مئی 2014ء