دینی خُدّام اور ان کی تنخواہیں

 

 

از: مولانا محمد مجیب الرحمن دیودرگی    

‏ استاذِ دارالعلوم، حیدرآباد             

 

ایک جانب مہنگائی آسمان سے باتیں کررہی ہے، روپے کی قیمت دن بہ دن گرتی جارہی ہے، دوسری جانب خدامِ دین کی تنخواہوں میں کٹوتی ہورہی ہے، ایک زمانہ وہ بھی تھا کہ انسان چند ہی روپیوں میں گزربسر کرلیا کرتا تھا؛ لیکن دورِ حاضر میں ایک متوسط درجے کے فرد کے لیے ضروریاتِ زندگی کی تکمیل عقدئہ لا ینحل بن چکا ہے، ایسے میں غور کرنے کی ضرورت ہے کہ جوادنیٰ شخص ہوگا، وہ کیسے اپنے لیے دو وقت کی روٹی مہیا کرسکے گا؟

          مہنگائی کی روز افزوں بگڑتی صورتِ حال نے گھروں کے نگراں افراد کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے اور ضروریاتِ زندگی کی تکمیل کے لیے انتھک جدوجہد کے باوجود کوئی سبیل نظر نہیں آتی، اس صورتِ حال کے باوجود جو علماءِ عظام اپنے آپ کو قلیل تنخواہوں پر دینی خدمات سے وابستہ کیے ہوئے ہیں، مہنگائی کے اس دور میں دینی خدام کے لیے مشاہرہ وتنخواہ کا کیا معیار ہونا چاہیے، جس سے وہ اپنا گزربسر کرسکیں اور موجودہ معیار تنخواہوں کا کیا ہے، اور نظامِ تنخواہ میں بے اعتدالی کے جو منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں اس پر کیسے قابوپایا جائے؟ اکابر کے دور میں تنخواہوں کا کیا معیار تھا؟ ان گوشوں پر زیر نظر مضمون میں تعمیری انداز میں روشنی ڈالنے کی کوشش کی جائے گی، امید کہ عمل کے ذریعہ حوصلہ افزائی ہوگی۔

اکابر کا دور

          فقہ حنفی کی رو سے دینی خدمت پر اجرت درست نہیں، اکابر فقہاءِ احناف نے یہی مسئلہ لکھا ہے، یہ اس دور کی بات ہے جب علماء کی کفالت بیت المال سے ہوتی تھی، جب اسلامی نظامِ حکومت کے ساتھ بیت المال کا نظم ختم ہوگیا، تو متاخرین فقہاءِ احناف نے دینی خدمت پر اجرت کو درست قرار دیا، اور اب بھی یہی مسئلہ معمول بہا ہے، حضرت عطاء سے مروی ہے کہ تین اساتذہٴ کرام مدینہ منورہ میں بچوں کو پڑھایا کرتے تھے اور عمر بن الخطاب ان میں سے ہر ایک کو ہر مہینہ پندرہ درہم عطا کرتے تھے، (تاریخ دمشق ۲۴/۳۵، شاملہ) علامہ نووی نے خطیب کی بات نقل کرتے ہوئے اجرت کی مقدار ذکر کی ہے: امام پر یہ بات لازم ہے کہ جو شخص اپنے آپ کو فقہ وفتاویٰ کے لیے فارغ کرے، اس کے لیے اتنی اجرت مقرر کرے جو اُسے دیگر پیشوں کے اختیار کرنے سے بے نیاز کردے، اور یہ بیت المال سے مقرر کرے، پھر حضرت عمر کا معمول نقل کیا کہ جو شخص فتویٰ دینے کا اہل ہوا کرتا تھا، اسے سال بھر میں سو دینار حضرت عمر عطا فرماتے تھے، (مقدمہ رسم المفتی:۱۵) ۱۵ھ میں جب تمام لوگوں کے روزینے مقرر ہوئے تو اور اکابرِ صحابہ کے ساتھ حضرت عمر کے لیے بھی پانچ ہزار درہم سالانہ مقرر کیے گئے (الفاروق۲/۲۹۸) حضرت عمر کے پاس خرچ کے لیے باضابطہ ایک فہرست تھی، جس میں ان کے علم وفضل کاکیا جاتا تھا، اگر کوئی بدری صحابی ہو تو ان کا وظیفہ زیادہ ہوتا تھا، ان کے مقابلے میں جو بعد کے مسلمان ہیں، ایک دفعہ حضرت عمر نے اہلِ بیت کے افراد کو زیادہ نفقہ عطا کیا تو صاحب زادہ حضرت عبداللہ بن عمر کو اعتراض ہوا (الفاروق) جامع صغیر میں منقول ہے: کتاب اللہ کے حامل کو بیت المال سے ہر سال دو سو دینار دیے جائیں گے (الجامع الصغیر۱/۳۳۶، شاملہ) علامہ مناوی نے اس حدیث کے نقل کرنے کے بعد لکھا ہے کہ اگر یہ مقدار اس کے خرچ کے لیے کافی ہوتو ورنہ اگر کم ہوجائے تو اس مقدار میں اضافہ کیا جائے گا (تیسیر بشرح الجامع الصغیر۱/۹۹۹، شاملہ) ایک دینار عموماً ایک مثقال سونے کا ہوتا تھا (رحیمیہ ۹/۷۶، جدید) حضرت عمر کے زمانے میں جب لوگوں کو ایک دن کا نفقہ ملتا تھا تو اس کی مقدار یہ ہوتی کہ ہر آدمی کو نصف بکرا دیا جاتا، یہ ابتدائی دور کی چند جھلکیاں تھیں، جس میں خدام دین کی ہمت افزائی کا سلسلہ تھا اور خدام دین کی اتنی رعایت کی جاتی کہ وہ مکمل توجہ کے ساتھ دینی خدمت میں مشغول ومصروف رہیں۔

تنخواہوں میں کمی کے منفی اثرات

          آج ایسے کئی افراد کو شمار کیاجاسکتا ہے جو اس قابل تھے کہ وہ علمی میدان کے شہسوار ہوتے تو گراں قدر کارنامے انجام دے سکتے؛ لیکن اسی تنخواہوں کے عدمِ توازن نے انھیں اس راہ کو خیرباد کہنے پر مجبور کردیا؛ بلکہ بعضے طلبہ ابتداء ہی سے یہ ذہن بناتے ہیں کہ فراغت کے بعد دوسری لائن کو اختیار کرنا ہے، یورپی ملک یا کسی خلیجی ملک کا سفر کرنا ہے، ورنہ مدارس ومساجد کی تنخوہوں پر گزبسر کیسے ممکن ہے؟ نیز علمی کاموں کے لیے یکسوئی درکار ہوتی ہے؛ لیکن جب ایک شخص کو وسائل ہی میں مصروف کیا جائے گا اور اسی کی فکر میں اس کی صبح وشام ہوگی تو وہ علمی کام کے لیے کب اپنے آپ کو فارغ کرے گا؟ یہی وجہ ہے کہ آج علم وتحقیق کے میدان کے شہسواروں کی روز بہ روز قلت ہوتی جارہی ہے، اور قابل افراد کی ناقدری تحقیقی کام کے لیے سمِ قاتل بنتی جارہی ہے،اگر ذمہ دارانِ مدارس اس مقام پر غور کریں اور اساتذہ کی قدردانی کریں اور انھیں وسائل سے مستغنی کرنے کی سعیِ مسعود کریں، انھیں معاشی تنگیوں سے آزاد کرنے وچھٹکارا دلانے کی کوشش کریں اور تحقیقی وتصنیفی کام اور افراد سازی کی جانب ان اساتذہ کی توجہ مبذول کریں تو کیا آج گزشتہ تاریخ نہیں دہرائی جاسکتی؟ تعلیم وتدریس میں کمی وکوتاہی کا ایک بنیادی سبب تنخواہوں میں عدم توازن بھی ہے، ہر ذمہ دار کی دلی خواہش ظاہراً یہ ہوتی ہے کہ تعلیم میں ترقی ہو، ان کا مدرسہ علاقہ کا مثالی مدرسہ بنے، ان کی جانب بچوں کا رجوع بڑھتا چلا جائے، ان کی تعلیم کا ہر جگہ چرچا ہو، یہ باتیں اور خیالات تو دلفریب ہیں؛ لیکن اس کے لیے مطلوبہ محنت ندارد، مطلوبہ وسائل کا استعمال نہیں، جس کے نتیجے میں اساتذہ طلبہ پر محنت کرنے سے قاصر ہیں اور وقتی طور پر ایک آدھ اردو شرح پر ہی اکتفا کیاجاتا ہے، بالآخر ناکارہ طلبہ کی ایک بڑی تعداد ان مدارس سے فارغ ہوکر عوام تک پہنچ رہی ہے، جو دینی خدمت کے قابل نہیں ہوتی۔

تنخواہ کا معیار صاحبِ فتاویٰ رحیمیہ کی نظر میں

          حضرت مفتی عبدالرحیم صاحب لاجپوری ماضی قریب کے بے نظیر مفتی گزرے ہیں، جن کے فتاویٰ اہلِ علم، عوام وخواص میں یکساں مقبول ہیں، انھوں نے اپنے فتاویٰ میں کئی مقامات پر دینی خدام کی تنخواہوں پر تبصرہ وتجزیہ کیا ہے، اور تنخواہ کے معیار کے سلسلہ میں گفتگو کی ہے، اور کم تنخواہ پر خدمت بھی کی ہے،اسی کو یہاں نقل کردینا مناسب ہے۔

          خادمانِ مساجد (امام وغیرہ) ومدارس کو ان کی حاجت، علمی قابلیت اور تقویٰ وصلاح کو ملحوظ رکھتے ہوئے مشاہرہ دینا چاہیے، مسجد سے متعلق وقف کی آمدنی میں گنجائش ہوتو اس میں سے اور اگر گنجائش نہ ہوتو مسلمانوں سے چندہ کرکے ان کی ضرورت کے مطابق مشاہرہ کا انتظام کرنا چاہیے، (فتاویٰ رحیمیہ ۹/۲۹۳، جدید) ایک دوسرے مقام پر رقمطراز ہیں: جب مسجد کی آمدنی کافی ہے اور امام وخطیب صاحب ماشاء اللہ مدت سے امامت کی خدمت انجام دے رہے ہیں، جمعہ کے دن بیان بھی کرتے ہیں، نیک اور متقی بھی ہیں اور صاحب عیال بھی ہیں تو متولیوں پر لازم ہے کہ ان کی تنخواہ میں گرانی کے پیش نظر رکھتے ہوئے اضافہ کریں، مسجد کی آمدنی ہونے کے باوجود امام صاحب کے گھریلو اخراجات کے مطابق تنخواہ نہ دینا ظلم ہے۔ (رحیمیہ ۹/۱۵۳،جدید)

          ایک اور مقام پر ذمہ داران مساجد ومدارس کو متنبہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ مزدوری پوری نہ دینے کا مطلب صرف اتنا ہی نہیں کہ اس کی مزدوری مارلے اور پوری نہ دے؛ بلکہ اس میں یہ بھی شامل ہے کہ جتنی اجرت اس کام کی ملنی چاہیے اتنی نہ دے، اور اس کی مجبوری سے فائدہ اٹھائے کہ کم سے کم اجرت پرکام لے، فقہاء کرام نے تصریح کی ہے: وَیُعْطِيْ بِقَدْرِ الْحَاجَةِ وَالْفِقْہِ وَالْفَضْلِ فَانْ قَصَرَ کَانَ اللہُ عَلَیْہِ حَسِیْبًا، یعنی متولی اور مدرسہ کے مہتمم کو لازم ہے کہ خادمانِ مساجد ومدارس کو ان کی حاجت کے مطابق اور ان کی علمی قابلیت اور تقویٰ وصلاح کو ملحوظ رکھتے ہوئے وظیفہ، مشاہرہ اور تنخواہ دیتے رہیں، باوجود گنجائش کے کم دینا بُری بات ہے اور متولی ومہتمم خدا کے حضورجواب دہ ہوں گے۔ (ایضا۴/۱۳۸)

          حضرت مفتی صاحب نے متولی ومہتمم حضرات کی توجہ شدت سے اس جانب مبذول کرائی ہے کہ مدرس وامام کو ان کی حاجت وضرورت کے مطابق تنخواہ دیں،اس میں کسی بھی طرح کی کمی ظلم کے مترادف ہے اور کمی کرنے والوں کو خدا کے حضور جواب دہی سے ڈرنا چاہیے؛ بلکہ اس سے آگے بڑھ کر علامہ علاء الدین حصکفی نے فرمایا: اہلِ عطا یعنی قاضی، مفتی اورمدرس کو سال بھر میں اتنا دیا جائے کہ جس سے نہ صرف ان کی ضرورت پوری ہو؛ بلکہ اس تنخواہ پر راضی رہتے ہوئے دینی کام پر جم جائیں اور دینی کام کو مکمل تندہی سے انجام دیں (درمختار۷/۲۱۹، شاملہ)

ذمہ داروں کی خوش حال زندگی

          یہ بات بالکل بجا اور اپنے مقام پر درست ہے کہ ہمارے اکابر نے کبھی دینی خدمت کے لیے تنخواہوں کو معیار نہیں بنایا؛ بلکہ بعض ایسے واقعات بھی ہیں کہ ذمہ دار نے تنخواہ میں اضافہ کیاتو اساتذہٴ کرام نے اضافہ قبول کرنے سے انکار کردیا؛ لیکن یہ اس وقت کی بات ہے کہ جب ضروریات کم ہوتی تھیں اور مہنگائی کا یہ عالم نہ تھا اور جب استاذ اور ذمہ دار دونوں کی زندگی میں کوئی نمایاں فرق نہیں ہوتا تھا، اکابر کی صف میں سب کی طرزِ رہائش ایک تھی، مدرس ومہتمم دونوں سادگی کے حامل ہوتے، حضرت نانوتوی ذمہ دار بھی ہیں؛ لیکن سادگی میں اپنی مثال آپ ہیں، حضرت خلیل احمد محدث سہارنپوری ذمہ دار ہیں، اس کے باوجود فاقہ کی وجہ سے غشی طاری ہورہی ہے، باوجود یہ کہ ذمہ دار ہیں، گھر میں چولھا نہیں جلتا تھا،اگر یہی کیفیت آج بھی پیدا ہو کہ ذمہ دار بھی بھوکے ہوں تو اساتذہ بھی بھوک برداشت کرنے کے لیے تیار ہیں؛ لیکن یہاں تو معاملہ کچھ الٹا ہے، آج ذمہ دارانِ مدارس کے اخراجات کا جائزہ لیاجائے تو نت نئے ملبوسات، قسم قسم کے جوتے، ہمہ وقت ہزاروں روپے جیب میں موجود اور رنگ برنگے فونوں سے ہاتھ مزین، گویا ان کی زندگی ہی وسعت وفراخی سے تعبیر ہے، ہمیں اس بات سے انکار نہیں کہ آپ نے ابتداء تنگی وعسرت کی زندگی بسر کی ہے، آپ کے ابتدائی ایام بڑے پریشان کن رہے؛ لیکن کیااس کا یہ مطلب تو نہیں کہ اوروں کو بھی پریشانی سے دوچار کیا جائے؟

          آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ذمہ دارانِ مساجد ومدارس حقائق سے آگاہ ہوں، حالات سے باخبر ہوں، تنخواہ میں توازن پیداکریں، اور ایسی مقدار مقرر کریں کہ جس سے ایک متوسط خاندان بہ آسانی اپنی ضروریاتِ زندگی کی تکمیل کرسکے اور تنخواہوں میں اضافہ کے ذریعہ خدامِ دین کو وسعت و فراخی اور آزادی کے ساتھ کام کے مواقع عطا کریں، اور اتنی تنخواہ ہو کہ انھیں ذہنی سکون ویکسوئی حاصل ہوجائے، جو کسی بھی دینی خدمت کے لیے ناگزیر ہے۔

$ $ $

 

----------------------------------------------

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ 5‏، جلد: 98 ‏، رجب 1435 ہجری مطابق مئی 2014ء