عہدِ نبوی میں نظامِ تعلیم وتربیت کی اہمیت

 

از: مولاناظفردارک قاسمی           

ریسرچ اسکالر شعبہٴ دینیات، اے ایم یو، علی گڑھ

 

          حضرت محمدِ عربی صلی اللہ علیہ وسلم جس زمانے میں پیدا ہوئے اس وقت مکہ بت پرستی کا سب سے بڑا مرکز تھا۔کعبہ میں تین سوساٹھ بت تھے۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان کا تمغہٴ امتیاز صرف یہ تھا کہ اس صنم کدے کے متولی اور کلید بردار تھے ۔ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی بتوں کے آگے سر نہیں جھکایا۔مکہ معظمہ سے تین میل کے فاصلے پر ایک غار تھا۔ جسے حراء کہتے ہیں، آپ وہاں جاکر قیام فرماتے اور مراقبہ کرتے۔ کھانے پینے کا سامان لے جاتے، بخاری شریف کی روایت کے مطابق آپ غارِ حرا میں ”تحنث“ یعنی عبادت کیا کرتے تھے۔علماء نے لکھا ہے کہ یہ عبادت غور و فکر اور عبرت پذیری تھی؛ چنانچہ اس غار میں آپ کو نبوت کے عظیم ترین منصب پر فائز کیا گیا۔ نبوت کے بعد جو حالات پیش آئے وہ کسی بھی طالبِ سیرت کی نگاہ سے مخفی نہیں ہے؛ چنانچہ ہجرت سے پہلے مکہ مکرمہ میں اسلام اور مسلمانوں کے لیے کوئی متعین تعلیمی و دعوتی مرکز نہ تھا، جہاں رہ کر وہ اطمینان اور سکون کے ساتھ اپنی دعوتی سرگرمیوں کو جاری رکھتے۔ در حقیقت مکی دور میں خود رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ اقدس ہی متحرک درس گاہ تھی۔ سفر و حضر، دن اور رات ہر حال اور ہر مقام میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی ذات دعوت و تبلیغ تھی۔ صحابہٴ کرام عام طور پر چھپ کر ہی قرآن مجید کی تعلیم حاصل کرتے تھے ۔کفارِ مکہ کی ستم رانیوں کے باوجود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہٴ کرام اسلام کی تبلیغ و اشاعت میں مصروف رہے۔ مکی دور کے ایسے مقامات اور حلقہ جات کو دعوت و تبلیغ کے مراکز سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ جہاں حالات کی نزاکت اور ضرورت کے مطابق کسی نہ کسی انداز میں اسلام کی نشر و اشاعت کا کام ہوتا رہا، بنا بریں۔سطور ذیل میں مکے کے تعلیمی و تربیتی نظام پر روشنی ڈالی جائے گی۔

 درس گاہ بیت ابو بکر

          مکی دور میں دعوت و تبلیغ کا اولین مرکز حضرت صدیق اکبر کا گھر تھا، آپ نے گھر کے صحن کومسجدبنارکھا تھا۔ ابتدا میں یہ ایک کھلی جگہ تھی جس میں آپ قرآن مجید کی تلاوت کرتے اور نماز پڑھا کرتے تھے۔ عام طور پر آپ بلند آواز سے قرآن مجید کی تلاوت کرتے تو کفارِ مکہ کے بچے اور عورتیں ان کے گرد جمع ہوکر قرآن سنتے۔ جس سے وہ خود بخود اسلام کی طرف مائل ہوتے۔ یہ صورتِ حال مشرکینِ مکہ کو بھلا کب گوارا تھی؛ چنانچہ انھوں نے حضرت ابوبکر کو سخت اذیت میں مبتلا کیا، جس کی وجہ سے آپ نے مکہ سے ہجرت کا ارادہ کرلیا؛ مگر راستے میں قبیلہٴ قارہ کے رئیس ابن الدغنہ سے ملاقات ہوئی۔ اس نے پوچھا اے ابوبکر کدھر کا ارادہ ہے؟ آپ نے فرمایاقوم نے مجھے ہجرت پر مجبور کردیا ہے، اب دنیا کی سیر کروں گا اور کسی گوشہ میں اطمینان سے اپنے رب کی عبادت کروں گا؛ مگر ابن الدغنہ یہ کہہ کر آپ کو واپس لے آیا کہ آپ جیسے باکردار شخص کو ہجرت پر مجبور نہیں کیا جاسکتا اور پھر حضرت صدیق اکبر کے لیے اپنی پناہ کا اعلان کیا۔ ابوبکر واپس تشریف لے آئے اور گھر کے صحن میں باقاعدہ مسجد بنالی:(۱)

          مسجد ابی بکر میں نہ کوئی مستقل معلم مقرر تھا اور نہ کوئی باقاعدہ طالب علم تھا؛ البتہ یہ کہا جاسکتا ہے یہ مسجد تعلیم و تربیت اور دینی مسائل سیکھنے کے لیے مکی دور کی اولین درس گاہ تھی اوریہیں سے تبلیغی خدمات انجام دی جاتی تھیں، نیز یہاں کفار مکہ کے بچے بچیاں اور عورتیں قرآن کے آفاقی پیغام کو سنتے تھے اور مائل بہ اسلام ہوتے تھے:

          ”حضرت ابوبکر رقیق القلب انسان تھے، جب قرآن پڑھتے تو روتے، اس وجہ سے آپ کے پاس لڑکے، غلام اور عورتیں کھڑی ہوجاتیں، اور آپ کی اس ہئیت کو پسند کرتے، قریش کے چند لوگ ابن الدغنہ کے پاس گئے اور اس سے کہا : اے ابن الدغنہ تو نے اس شخص کو اس لیے تو پناہ نہیں دی تھی کہ وہ ہمیں تکلیف پہنچائے۔ وہ ایسا شخص ہے کہ جب نماز میں وہ کلام پڑھتا ہے جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا لایا ہوا ہے تو اس کا دل بھر آتا ہے اور وہ روتا ہے۔ اس کی ایک خاص ہیئت اورطریقہ ہے جس کی وجہ سے ہمیں بچوں، عورتوں اور دیگر لوگوں کے متعلق خوف ہے کہ کہیں یہ انھیں فتنے میں نہ ڈال دے؛ اس لیے تو اس کے پاس جا اور حکم دے کہ وہ اپنے گھر کے اندر رہے اور اس میں جو چاہے کرے“۔

          چنانچہ ابن الدغنہ حضرت ابوبکر کے پاس آیا اور کہا کہ یا تو آپ اس طریقے سے باز آجائیں یا میری پناہ مجھے واپس لوٹادیں۔ حضرت ابوبکر نے فرمایا : میں نے تیری پناہ تجھے واپس کردی۔ میرے لیے اللہ کی پناہ کافی ہے(۲)۔

درس گاہ بیتِ فاطمہ

          اسی طرح فاطمہ بنت خطاب کا گھر بھی دینی، تبلیغی،دعوتی، اور تربیتی مرکز کی حیثیت رکھتا تھا۔ یہ حضرت عمر بن خطاب کی بہن ہیں جنہوں نے ابتدائی دور میں ہی اپنے خاوند سعید بن زید سمیت اسلام قبول کرلیا۔ یہ دونوں میاں بیوی اپنے گھر میں ہی حضرت خباب بن الارت سے قرآن مجید کی تعلیم حاصل کرتے تھے۔ حضرت عمر ایک دن اسلام لانے سے پہلے تلوار لیے ہوے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کے ارادے سے نکلے؛ لیکن راستے میں اپنی بہن اور بہنوئی کے مسلمان ہونے کی خبر ملی تو انتہائی غصے کی حالت میں تلوار ہاتھ میں لے کر ان کے مکان پر پہنچے تو ان کو قرآن کی تلاوت اور تعلیم میں مشغول پایا ابن اسحاق نے لکھاہے :

          وَعِنْدَھُمَا خباب بنُ الارْتِ مَعَہ صحیفة فیھا طہ یقرھما ایاھا(۳)

          ”ان دونوں کے پاس خباب بن الارت تھے جن کے پاس ایک صحیفہ تھا جس میں سورہٴ طہ لکھی ہوئی تھی جو وہ ان دونوں کو پڑھا رہے تھے۔“

           حضرت عمر کی زبانی منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے بہنوئی کے یہاں دو مسلمانوں کے کھانے کا انتظام کیا تھا، ایک خباب بن الارت اور دوسرے کا نام مجھے یاد نہیں۔ خباب بن الارت میری بہن اور بہنوئی کے پاس آتے جاتے تھے اور ان کو قرآن کی تعلیم دیا کرتے تھے۔ (۴) اس سلسلہ میں حضرت عمر کا یہ بیان ہے:

          وکان القوم جُلوساً یقروٴن صحیفةً معھم(۵)

          ”اور ایک جماعت بیٹھ کر صحیفہ پڑھ رہی تھی جوان کے پاس موجود تھا“

          بیت فاطمہ بنت خطاب کو مکی دور میں قرآن مجید کی تعلیم و اشاعت کا مرکز کہا جاسکتا ہے جہاں کم از کم دو طالب علم اور ایک معلم تھا۔ اور اگر حضرت عمر کے بیان میں لفظ ”قوم“ کا اعتبار کیا جائے تو یقینی طور پر یہاں قرآن پڑھنے والی ایک پوری جماعت کا پتہ چلتا ہے۔

درس گاہِ شعب ابی طالب

          کفارِ مکہ کو یہ خوش فہمی تھی کہ وہ اپنے وحشیانہ جبر و تشدد سے اسلام کی اس تحریک کو موت کی نیند سلادیں گے؛ لیکن جب ان کی تمام مساعی اور تدبیروں کے باوجود اسلام کا دائرہ پھیلتا ہی چلا گیا اور انہوں نے دیکھا کہ حضرت حمزہ اور عمر جیسے لوگوں نے بھی اسلام قبول کرلیا اور نجاشی کے دربار میں بھی ان کے سفیروں کو ذلت آمیز ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے تو اس چوٹ نے کفار مکہ کو مزید حواس باختہ کردیا؛ چنانچہ ان لوگوں نے طویل غور و خوض کے بعد متفقہ طور پر یہ فیصلہ کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے خاندان کو محصور کرکے تباہ کردیا جائے؛ چنانچہ تمام قبائل نے ایک معاہدہ کیاکہ کوئی شخص خاندان بنی ہاشم سے قربت کرے گا؛ نہ ان کے ہاتھ خرید و فروخت کرے گا اور نہ ہی ان کے پاس کھانے پینے کا سامان جانے دے گا۔ یہ معاہدہ لکھ کر کعبة اللہ کے دروازے پر آویزاں کردیاگیا(۶)۔

          حضرت ابو طالب مجبور ہوکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور تمام خاندان بنی ہاشم سمیت شعب ابی طالب میں محرم ۷/نبوی میں محصور ہوگئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خاندان سمیت اس حصار میں تین سال بسر کیے۔ ایامِ حج میں چونکہ تمام لوگوں کو امن کی خواہش تھی؛ اس لیے حج کے موسم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شعب ابی طالب سے باہر نکل کر مختلف قبائلِ عرب کو دعوت دیتے؛ جبکہ باقی اوقات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسی گھاٹی میں مسلمانوں کی تربیت فرماتے۔ شعب ابی طالب میں خاندانِ بنی ہاشم کے علاوہ صحابہٴ کرام کی موجودگی کے اشارات بھی ملتے ہیں۔ امام سہیلی نے سعد بن ابی وقاص کا بیان نقل کیا ہے جو خود بھی محصور ین میں شامل تھے۔ وہ فرماتے ہیں:

          ”میں ایک دن از حد بھوکا تھا۔ رات کو اندھیرے میں میرا پاوٴں کسی گیلی چیز پر آگیا میں نے اسے اٹھا کر منہ میں ڈالا اور نگل لیا۔ مجھے اتنا ہوش بھی نہ تھا کہ میں پتہ کرتا کہ وہ کیا چیز ہے اور اب تک مجھے اس کے بارے میں کوئی علم نہیں“(۷)۔

          اسی طرح حضرت عتبہ بن غزوان نے ایک دفعہ خطبہٴ جمعہ میں ارشاد فرمایا:

          ”میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ساتواں مسلمان تھا اور ہمارے پاس کھانے کے لیے درختوں کے پتوں کے سوا کچھ نہ تھا، حتی کہ ہماری باچھیں زخمی ہوگئیں“(۸)۔

درس گاہِ دارارقم

          حضرت ارقم بن ابی ارقم ابتدائی دور میں اسلام لانے والوں میں سے ہیں، حافظ ابن حجر نے بھی الاصابہ میں ابن سعد کے قول کو ہی اختیار کیا ہے؛ تاہم ابن الاثیرکے مطابق حضرت ارقم کا قبول اسلام میں دسواں یا بارہواں نمبر ہے(۹)۔

          وَکَانَتْ دَارُہ عَلَی الصَّفاء(۱۰) ”مکہ میں ان کا مکان کوہِ صفا کے اوپر تھا“۔

          دارِارقم کے نام سے شہرت حاصل کرنے والے اس مکان کو اسلامی تاریخ میں بڑی اہمیت حاصل ہے۔ یہ مکان ”دارُالاسلام“ کے متبرک لقب سے بھی یاد کیا جا تا ہے(۱۱)۔

          مشرکینِ مکہ جب اسلام کے پھیلاوٴ کو کسی طرح بھی نہ روک سکے تو انھوں نے کمزور مسلمانوں پر عرصہٴ حیات تنگ کردیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کو بیت اللہ میں آزادانہ نماز ادا کرنے سے روکتے، ذکرِ الٰہی اور تلاوتِ قرآن میں خلل انداز ہوتے۔ دست درازی کرتے اور اکثر ان کا رویہ انتہائی گستاخانہ ہوتا تھا۔ حالات اس قدر نازک ہوچکے تھے کہ مسلمانوں کے لیے گوشوں اور گھاٹیوں تک میں محفوظ اور آزادانہ طور پر عبادت اور نماز کا ادا کرنا ممکن نہ تھا۔

          ”ایک دفعہ مسلمان مکہ کی گھاٹی میں نماز پڑھ رہے تھے کہ مشرکین کے ایک گروہ نے انھیں دیکھ لیا اور ان کو سخت سست کہنا شروع کیا۔ بات بڑھتے بڑھتے لڑائی تک پہنچ گئی اور حضرت سعد بن ابی وقاص نے ایک شخص کو اونٹ کی ہڈی کھینچ ماری جس سے اس کا سر پھٹ گیا۔ یہ پہلا خون تھا جو اسلام کے بارے میں بہایا گیا“(۱۲)۔

          یہ وہ سنگین حالات تھے جن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں کو لے کر ”دارارقم“ میں پناہ گزیں ہوگئے؛ تاکہ مسلمان پورے انہماک سے اپنے رب کے حضور اپنی جبینِ نیاز کو جھکاسکیں؛ چنانچہ جلد ہی ”دار ارقم“ دعوتی سرگرمیوں کا مرکز بن گیا، جہاں پر نہ صرف لوگوں کو دائرہ اسلام میں داخل کیا جاتا تھا؛ بلکہ ان کی مناسب تعلیم و تربیت اور تزکیہٴ نفس بھی کیا جاتا تھا۔ابن سعد اسدالغابہ میں اس کی تائید کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:

          ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابتدائے اسلام میں اس مکان میں رہتے تھے، لوگوں کو اسلام کی دعوت دیتے تھے اور بہت سے لوگ یہاں مشرف بہ اسلام ہوئے“(۱۳)۔

          صاحب طبری نے بھی مکی عہدِ نبوت میں دارارقم کو دعوتی،تعلیمی اور تربیتی سرگرمیوں کا مرکز قرار دیاہے، جہاں پر کثیر لوگوں نے اسلام قبول کیا؛ چنانچہ حضرت ارقم کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

          وَکَانَتْ دَارُہ عَلَی الصَّفَا، وَھِيَ الدَّارُ الَّتِي کَانَ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وسلم یَکُوْنُ فِیْھَا فِیْ أوَّلِ الاِسْلاَمِ وَفِیْھَا دَعَا النَّاسَ الیَ السَّلامِ فَأسْلَمَ فِیْھَا قَوْمٌ کَثِیْرٌ(۱۴)

          ”حضرت ارقم کا گھر کوہِ صفا پر واقع تھا، آغازِ اسلام میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسی گھر میں رہا کرتے تھے، یہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کودعوتِ اسلام دیا کرتے تھے اور یہاں پر بہت سے لوگ حلقہ بگوشِ اسلام ہوئے“

          تاریخ کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ دارارقم تعلیمی و تربیتی مرکز ہونے کے ساتھ ساتھ مکی عہد میں دعوتی انتظام و انصرام کا بھی مر کز تھا۔

          ”یہ ارقم بن ابی ارقم وہی ہیں جن کے گھر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ میں قریش سے پوشیدہ مقیم رہتے تھے۔ کھل کر سامنے آنے سے قبل، اسلام قبول کرنے کی دعوت دیتے تھے۔ حضرت ارقم کا یہ مکان مکہ میں کوہِ صفا پر واقع تھا؛ چنانچہ یہاں پر بہت بڑی جماعت نے اسلام قبول کیا“(۱۵)۔

          دارارقم کومرکزِ اسلام بننے کے بعد دعوت و تبلیغ کا کام قدرے اطمینان کے ساتھ ہونے لگا۔ دعوتِ اسلام کا یہ وہ مرحلہ ہے جس میں مکہ مکرمہ کے بے کس، غریب اور غلام اس نئی تحریک میں اپنی دنیاو آخرت کی نجات تصور کرتے ہوئے داخل ہوتے تھے۔

          نیز دارارقم نہ صرف ضعفائے اسلام کی جائے پناہ تھی؛ بلکہ یہاں صحابہٴ کرام کی تعلیم و تربیت کے ساتھ اجتماعی طور پر عبادات، ذکر اللہ اور دعاوٴں کا سلسلہ ہمہ وقت جاری رہتا تھا۔اس میں وہ دعا خصوصیت سے قابل ذکر ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر بن خطاب اور (ابوجہل) عمرو بن ہشام میں سے کسی ایک کے قبولِ اسلام کے لیے مانگی تھی۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ ایک دن حضرت عمر (معاذ اللہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے کے ارادے سے روانہ ہوئے۔ راستہ میں اپنی بہن فاطمہ بنت خطاب کے گھر سورہٴ طہٰ کی تلاوت سنی تو کایا ہی پلٹ گئی، ان کو مائل بہ اسلام دیکھ کر حضرت خطاب بن الارت نے انھیں خوشخبری کے انداز میں بتایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دارارقم میں یہ دعا کرتے سنا ہے:

          اَللّٰھُمَّ أیِّدِ الاسْلاَمَ بِأبي الْحَکَمِ بْنِ ہِشَامٍ أوْ بِعُمَر َبْنِ الْخَطَّابِ(۱۶)

          ”اے اللہ ! ابوالحکم بن ہشام یا عمر بن خطاب سے اسلام کی تائید فرما“؛چنانچہ حضرت عمر یہاں سے سیدھے دارااقم پہنچے اور اسلام قبول کرلیا۔

دارارقم بحیثیت دارالشوریٰ

          دارارقم ”دارالاسلام“ ہونے کے ساتھ ساتھ مسلمان کے لیے ”دارالشوریٰ“ بھی تھا۔پہلی اور دوسری ہجرتِ حبشہ جیسے اہم معاملات بھی اسی جگہ باہمی مشاورت ہی سے انجام پائے۔

          ” رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہٴ کرام سے فرمایا! اگر تم سر زمین حبشہ کی طرف نکل جاوٴ تو وہاں ایک بادشاہ ہے، جس کے یہاں کسی پر ظلم نہیں کیا جاتا۔ وہ سچائی کی سر زمین ہے، حتی کہ اللہ تعالیٰ تمہیں اس مشکل سے نجات دلادے جس میں تم گرفتار ہو“(۱۷)

          ان الفاظ پر غور کیا جائے تو ظاہر ہوتا ہے کہ یہ خطاب صحابہٴ کرام کے کسی اجتماع سے ہی ہوگا جو دارارقم میں انعقاد پذیر ہوگا۔ اسی طرح ایک روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ جمع ہوئے اور باہمی مشاورت سے طے کیا کہ قریش نے قرآن کو اپنے سامنے بلند آواز سے پڑھتے ہوئے کبھی نہیں سنا، لہٰذا کوئی ایسا شخص ہو جو یہ فریضہ انجام دے؛ چنانچہ حضرت عبداللہ بن مسعود نے یہ ذمہ داری قبول کی اور قریش کو ان کی مجلس میں جاکر قرآن کی طرف دعوت دی(۱۸)۔

           البتہ یہ یقینی طور پر نہیں کہا جاسکتا ہے کہ صحابہٴ کرام کی یہ مجلس مشاورت کہاں پر منعقد ہوئی؟ تاہم غالب گمان یہی ہے کہ یہ مجلسِ مشاورت دارارقم ہی میں قائم ہوئی ہوگی؛کیونکہ اس کے علاوہ صحابہ کا اجتماع کسی اور جگہ پر مشکل تھا۔

           جس طرح ”عام الفیل“ اور ”حلف الفضول“، جیسے واقعات کے حوالے سے اہلِ مکہ اپنی معاصر تاریخ کے واقعات کا تعین کرتے تھے، مسلمان مورخین بھی مکی نبوت میں سیرت و تاریخِ اسلام کے واقعات کا تذکرہ اور اندراج بھی محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے دارارقم میں فروکش ہونے کے حوالے سے کرتے ہیں۔ مثلامورخ ابن الاثیر نے مسعود بن ربیعہ، عامربن فہیرہ، معمر بن حارث وغیرہ کے تراجم (تذکروں ) میں وضاحت کی ہے کہ یہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے داررقم میں منتقل ہونے سے قبل مسلمان ہوچکے تھے۔ اسی طرح معصب بن عمیر، صہیب بن سنان، طلیب بن عمیر، عمار بن یاسر، عمر فاروق وغیرہ کے تذکروں میں ابن الاثیر نے تصریح کی ہے کہ یہ لوگ دارارقم میں جاکر اسلام کی دولت سے مالامال ہوئے تھے(۱۹)۔

           مہاجرینِ مکہ میں سے اولین و سابقین اسلام کے قبول دینِ حق کودو مرحلوں میں تقسیم کیا ہے کہ وہ حضرات کون کون تھے جو دارارقم کو دعوتِ دین کا مرکز بنانے کے بعد حلقہ بگوش اسلام ہوئے۔ ابن سعد نے مندرجہ ذیل صحابہٴ کرام کے تذکروں میں یہ بات خصوصیت سے ذکر کی ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دارارقم میں تشریف فرماہونے سے قبل اسلام قبول کرچکے تھے:

           حضرت خدیجہ، ابوبکر، عثمان غنی، علی المرتضی، زیدبن حارثہ، عبیدہ بن حارث، ابوحذیفہ بن عتبہ، عبداللہ بن حجش، عبدالرحمن بن عوف، عبداللہ بن مسعود، خباب بن الارت، مسعودبن ربیع، واقد بن عبداللہ، عامر بن فہیرہ، ابوسلمہ بن اسد، سعید بن زید، عامر بن ربیعہ، خنیس بن حذافہ، عبداللہ بن مظعون اور حاطب بن عمرو۔

          اسی طرح ابن سعد نے ان بزرگوں کی بھی نشاندہی ضروری سمجھی ہے جو دارارقم کے اندر آکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دستِ مبارک پر مشرف بہ اسلام ہوئے۔ ان صحابہٴ کرام میں حضرت صہیب، عمار بن یاسر،معصب بن عمیر،عمر بن خطاب، عاقل بن ابی بکر، ایاس بن ابی بکر اور خالد بن ابی بکر شامل ہیں(۲۰)۔

دارارقم میں قیام کی مدت

          تاریخ کے مطالعہ سے پتہ چلتاہے کہ اس طرز ترتیب سے یہ حقیقت ظاہر ہوتی ہے کہ ان کے نزدیک دارارقم کو دین حق کی دعوتی و تبلیغی سرگرمیوں کا مرکز و محور بنانے کا واقعہ ایک ایسا نقطئہ تغیر ہے جس نے دنیا کی بے مثال اور انقلابی اسلامی تحریک کو ایک نیا رخ عطا کرنے میں ایک محفوظ پناہ گاہ اور بے مثال تربیت گاہ کا کام دیا۔ اس بات پر تمام مورخین اورمحققین کا اتفاق ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عمر فاروق کے قبول اسلام تک دارارقم میں ہی مقیم رہے؛ جبکہ بعض روایات کے مطابق حضرت عمر نے نبوت کے چھٹے سال میں اسلام قبول کیا تھا؛ البتہ مورخین کا اس بارے میں اختلاف ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دارارقم میں کب فروکش ہوئے اور کتنا عرصہ دارارقم مسلمانوں کی پناہ گاہ کا کام دیتا رہا۔ اگر چہ بعض مورخین نے دارارقم میں قیام کی مدت کے حوالے سے چھ ماہ اور ایک ماہ کے اقوال بھی نقل کیے ہیں(۲۱)۔

           لیکن اگر ماخذ کا تفصیلی جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ دارارقم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قیام کافی مدت تک رہا ہے۔ اگر چہ اس مدت کا تعین تو مشکل ہے اور یہ بتانا بھی ممکن نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کب دارارقم میں پناہ گزین ہوئے؛ تاہم مورخین کے بعض نامکمل اشارات سے ہم اس مدت کا اندازہ کرسکتے ہیں، مثلاً ابن الاثیر نے حضرت عمر کے قبولِ اسلام کے واقعہ کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے:”عمر بن خطاب تلوار لٹکائے گھر سے نکلے۔ ان کا ارادہ (معاذ اللہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے کا تھا ۔ مسلمان بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دارارقم میں جمع تھے۔ جو کوہِ صفا کے پاس تھا۔ اس وقت آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان مسلمانوں میں سے تقریباً چالیس مرد و زن کے ساتھ وہاں پناہ گزین تھے جو ہجرت حبشہ کے لیے نہیں نکلے تھے(۲۲)۔

          ابن الاثیر کے اس قول سے واضح ہوتا ہے:

          (۱) حضرت عمر نے ہجرتِ حبشہ کے بعد اسلام قبول کیا جبکہ ابن قیم نے تصریح کی ہے کہ پہلی ہجرت حبشہ ما ہ رجب ۵ نبوی میں پیش آئی(۲۳)۔

          (۲) دارارقم میں صرف وہ مسلمان پناہ گزین ہوئے تھے جو کسی وجہ سے حبشہ کی طرف ہجرت نہ کرسکے تھے۔ لہٰذا ان باقی ماندہ مسلمانوں کی تعداد تقریبا چالیس تھی، نہ کہ اس وقت تک اسلام قبول کرنے والوں کی کل تعداد ہی چالیس تھی۔

          پہلی اور دوسری ہجرت حبشہ کا فیصلہ دارارقم ہی میں باہمی مشاورت سے ہوا تھا۔ اس لحاظ سے اگر حضرت عمر کے قبولِ اسلام اور ہجرتِ حبشہ کے درمیانی عرصہ کو شمار کیا جائے تو وہ بھی ایک سال سے زائد ہی بنتا ہے؛ جبکہ یہ یقینی بات ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہجرتِ حبشہ سے کافی پہلے دارارقم میں پناہ گزیں ہوچکے تھے۔ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ ابتدائی ایک دو سالوں میں ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دارارقم میں مقیم ہوگئے تھے۔ مثلا! ابن الاثیر حضرت عمار بن یاسر کا یہ بیان نقل کرتے ہیں:”میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو (اپنے اسلام لانے کے بعد) دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صرف پانچ غلام، عورتیں اور ابوبکر صدیق تھے“(۲۴)۔ مجاہد کا بیان ہے کہ حضرت عمار بن یاسر ابتدا میں اسلام قبول کرنے والے سات آدمیوں میں سے تھے(۲۵)؛ جبکہ اس بات پر تمام مورخین کا اتفاق ہے کہ وہ ان لوگوں میں سے تھے جنہوں نے دارارقم میں جاکر اسلام قبول کیا(۲۶)۔ اس صورت میں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ابتدائے اسلام ہی میں دارارقم میں قیام پذیر ہونا ثابت ہوتا ہے۔

          اسی طرح حضرت حمزہ نے کب اسلام قبول کیا؟ اس بارے میں مختلف اقوال ہیں، بعض نے کہا ہے کہ اعلانِ نبوت کے پانچویں سال اور بعض نے اعلانِ نبوت کے چھٹے سال۔ لیکن محققین کی تحقیق یہ ہے کہ آپ اعلان نبوت کے دوسرے سال مشرف بہ اسلام ہوئے؛ چنانچہ علامہ ابن حجر تحریر فرماتے ہیں:

          وَأسْلَمَ فِی السَّنَةِ الثَّانِیَةِ مِنَ الْبِعْثَةِ وَلاَزَمَ نَصْرَ رسولِ اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وَھَاجَرَ مَعَہ (۲۷)

          ”آپ بعثت کے دوسرے سال ایمان لائے اور ہمیشہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد کرتے رہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہی ہجرت کی“

          أسْلَمَ فِی السَّنَةِ الثَّانِیَةِ مِنَ الْمَبْعَثِ(۲۸) ”آپ بعثت کے دوسرے سال ایمان لائے“ حضرت عمر نے حضرت حمزہ کے مسلمان ہونے کے صرف تین دن بعد اسلام قبول کیا اور علماء محققین کی یہ رائے بھی بیان کی گئی ہے کہ صحیح قول کے مطابق حضرت حمزہ نبوت کے دوسرے سال مشرف بہ اسلام ہوئے۔ اس سے یہ بات واضح ہوگئی کہ حضرت عمر نے نبوت کے دوسرے سال حضرت حمزہ کے تین دن بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دستِ مبارک پر اسلام کی بیعت کی۔ اس قول کی مزید تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ اکثر علماء کی یہ رائے ہے کہ آپ سے پہلے انتالیس مرد مسلمان ہوچکے تھے۔ آپ کے مسلمان ہونے سے چالیس کا عدد پورا ہوا۔ حضرت عمر کا بیان ہے:

          ”میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صرف انتالیس آدمی اسلام لاچکے ہیں اور میں نے ایمان لاکر چالیس کا عدد مکمل کیا“(۲۹)۔

          حاصلِ بحث یہ ہے کہ اگر محققین کے اس قول کا اعتبار کیا جائے کہ حضرت حمزہ اور عمر نے نبوت کے دوسرے سال ہی اسلام قبول کرلیا تھا تو یہ حقیقت مزید واضح ہوجاتی ہے کہ رسول اللہ بہت ابتدا ہی میں دارارقم کو اپنی دعوتی سرگرمیوں کا مرکز بنا چکے تھے؛ کیونکہ اس بات پر تمام مورخین کا اتفاق ہے کہ ان دونوں حضرات نے دارارقم میں ہی جاکر اسلام قبول کیا تھا۔

خلاصہ

          مورخینِ اسلام اور سیرت نگاروں کی مذکورہ بالا تصریحات سے یہ حقیقت بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ:

$       رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہاںآ نے والے طالبانِ حق کو دعوتِ اسلام دیتے تھے اور جو یہاں آیا فیض ہدایت پاکر ہی نکلا۔

$       دارارقم مسلمانوں کے لیے اطمینانِ قلب کا مرکز تھا، بالخصوص نادار، ستائے ہوئے اور مجبور و مقہور اور غلام یہاںآ کر پناہ لیتے تھے۔

$       یہاں پر ذکر اللہ اور وعظ و تذکیر کا فریضہ بھی مسلسل انجام پاتا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے جاں نثاروں کے ساتھ اجتماعی دعائیں بھی فرماتے تھے۔ حضرت خباب کے بیان سے تو یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ محسنِ انسانیت یہاں راتوں کو بھی بندگان خدا کی ہدایت کے لیے اللہ تعالیٰ کے حضور التجا فرماتے تھے۔

$       اس مکان میں مبلغینِ اسلام کی کارکردگی کا جائزہ لیا جاتا تھا، تبلیغ کے آئندہ منصوبے بنتے تھے اور خود مبلغین کی تربیت کا کٹھن کام بھی انجام پاتا تھا۔ دارارقم کے تربیت یافتہ معلّمین میں سے حضرت ابوبکر ،خباببن الارت، عبداللہ بن مسعود اور مصعب بن عمیر خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔

$       دارارقم مسلمانوں کے لیے ”دارالاسلام“ ہونے کے ساتھ ساتھ ”دارالشوریٰ “ بھی تھا، جس میں باہمی مشاورت سے آئندہ تبلیغ کے منصوبے بنتے تھے۔ ہجرتِ حبشہ کا فیصلہ بھی باہمی مشورہ سے یہیں پر طے ہوا، اور اس جگہ کو تاریخِ اسلام میں وہی مقام حاصل تھا جو قریش کے ہاں دارالندوہ کو حاصل تھا۔

$       دارارقم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پناہ گزین ہونا ایک تاریخ ساز مرحلہ تھا اور یہ بھی حلف الفضول، حرب الفجار اور عام الفیل جیسا واقعہ تھا جس طرح کفار مکہ اپنی معاصر تاریخ کا تعین ان واقعات سے کرتے تھے، اسی طرح مسلمان مورخین بھی مکی عہد نبوت میں پیش آنے والے واقعات کا تعین دارارقم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے داخل ہونے سے قبل اور بعد کے حوالے سے کرتے ہیں۔

$       حضرت ارقم ان لوگوں میں سے جو اسلام کی دولت سے سرفراز ہوگئے تھے اور انھوں نے شروع میں ہی اپنے مکا ن کو تعلیمی ، تربیتی اور دعوتی سرگرمیوں کے لیے وقف کردیا تھا۔جومکی دور میں اسلام کی نشرواشاعت کا اہم ترین مرکز قرار پایا۔

$       مورخین کے مختلف بیانات کی روشنی میں کہا جاسکتا ہے کہ دارارقم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قیام کی مدت ایک سال سے بہر حال زائد تھی۔

$       کفار مکہ مسلمانوں کے دارارقم میں پناہ گزیں ہونے سے پوری طرح واقف تھے؛تاہم دارارقم کی اندرونی سرگرمیوں اور منصوبہ بندیوں سے وہ قطعاناواقف تھے۔

$       شعب ابی طالب میں صحابہٴ کرام کی موجودگی کا بھی واضح طور پر اشارہ ملتا ہے۔ محصوری کے اس دور میں جس قدر وحی نازل ہوئی، یقینا شعب ابی طالب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہٴ کرام کو اس کی تعلیم دی ہوگی اور یہاں صحابہٴ کرام بھی دینی امور پر تبادلہٴ خیال کرتے ہوں گے۔ اس لحاظ سے شعبِ ابی طالب کو بھی مکی عہدِ نبوت کا ایک دعوتی مرکز قرار دیا جاسکتا ہے، جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہٴ کرام تین سال تک تعلیم و تعلم اور دعوت و تبلیغ میں مشغول رہے۔

$       اخری بات یہ ہے کہ ہمیں موجودہ زمانے میں حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوہ سے سبق حاصل کرناچاہیے، سطورِ بالا میں، مکی دور میں اسلام کی نشر و اشاعت اور دعوتی مساعی کو بڑی حکمت اور مصلحت سے پیش کیاہے آپ کایہ اسوہ تمام انسانیت کے لیے نمونہ ہے۔

$ $ $

حوالہ جات

(۱)         صحیح البخاری، کتاب الکفالة ، باب جورارابی بکر الصدیق فی عہد النبی صلی اللہ علیہ وسلم

(۲)        ابن ہشام۔ دخول ابی بکر فی جوارا بن الدغنہ ورد جوار ہ علیہ، ۱/۴۱۱

(۳)        ابن ہشام، اسلام عمر بن الخطاب ۱/۳۸۲

(۴)        السیرة الحلبیة، ۲/۱۳

(۵)        السمہودی، نور الدین علی بن احمد السیرة الجیلہ“ ۲/ ۱۳ دارالعفائس۔ الریاض

(۶)        ابن ہشام، خبرالصحیفة ۔ ۱/۲۸۸

(۷)        الروض الانف، حدیث نقض الصحیفة ، ۱/۲۳۲، حلیة الاولیا، تذکرہ سعد بن ابی وقاص، ۱/۱۳۵،۱۳۶

(۸)        المسند، حدیث عتبہ بن غزوان، ح:۲۰۰۸۶، ۲۲/۵۲۔ الاستیعاب ، تذکرہ عتبہ بن غزوان ۳/۱۰۲۶۔حلیہ الاولیا، تذکرہ سعد بن ابی وقاص ،۱/۱۳۴     

(۹)        اسد الغابہ، تذکر ارقم بن ابی ارقم،۱/۶۰

(۱۰)       المستدرک ۔ تذکرہ ارقم بن ابی الارقم ۳/۵۰۲

(۱۱)        ابن سعد تذکرہ ارقم بن ابی ارقم ۔ ۳/۲۴۳

(۱۲)       ابن ہشام مباداة رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قومہ وماکان منھم ،۱/۲۳۶

(۱۳)       المستدرک تذکرہ ارقم بن ابی ارقم ، ۳/۵۰۲

(۱۴)       الطبری، محمد بن جریر۔ تاریخ الامم والملوک“ ۳/۲۳۰ا

(۱۵)       ابن عبدالبر ”الاستیعاب الاصحاب “ تذکرہ ارقم بن ابی الارقم ۱/۳۱۔ دار الجلیل بیروت ۱۹۹۲ء

(۱۶)       ابن ہشام اسلام عمر بن الخطاب ۱/۳۸۳۔ الکامل فی التاریخ ۲/۵۸

(۱۷)       ابن ہشام، ذکر الحجرة الاولی الی ارض الحبثہ، ۱/۳۵۸

(۱۸)       ایضاً اول من جہربالقرآن، ۱/۳۵۱

(۱۹)       تفصیل کے لیے ”اسد الغابہ “ میں ان صحابہٴ کرام کے تراجم ملاحظہ کیجیے

(۲۰)       ابن سعد، ۳/۱۱۵،۲۷۳،۴۲۵

(۲۱)       حلیة الاولیا ، ۱/۱۹۲۔۱۹۵

(۲۲)       الکامل فی التارخ، ۲/۵۸

( ۲۳)     زاد المعاد، ۲/۱۰۰۔ تاریخ الامم ولملوک، ۱/۹۵

(۲۴)      اسدالغابہ تذکرہ عمار بن یاسر۴/۴۴

(۲۵)      ایضاً

(۲۶)       ایضاً

(۲۷)      الاصابہ ،تذکرہ حمزہ بن عبدالمطلب، ۱/۳۵۴         

(۲۸)      الاصابہ، تذکرہ حمزہ بن عبدالمطلب، ۱/۴۶

(۲۹)       ابن حجر، ابوالحسن، احمد بن علی ”فتح الباری“ کتاب فضائل الصحابہ، مناقب عمر بن الخطاب ، ۷/۴۸، دارالمعرفہ بیروت

$ $ $

 

-------------------------------

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ 6‏، جلد: 98 ‏، شعبان 1435 ہجری مطابق جون 2014ء