رہن کی شکلیں اور مالِ مرہون سے استفادہ

 

از: مولانا مفتی محمد فیاض قاسمی

رہوا، رامپور، وارث نگر، سمستی پور

 

          روز مرہ کی زندگی میں امت کو درپیش مختلفُ النوع مسائل میں شریعتِ اسلامیہ نے مکمل راہنمائی کی ہے۔ زندگی کے ہرگوشہ کو واضح طور پر اجاگر کیا ہے؛ تاکہ امت قرآن وحدیث اور اسلامی شریعت کے سائے تلے اپنے سارے مسائل کو حل کرسکے؛ لیکن بعض دفعہ معاشرہ میں کچھ ایسی چیزیں رواج پا جاتی ہیں، جن کاتعلق شریعت سے بالکل نہیں ہوتا اور لوگ دانستہ یا نادانستہ اسی پر عمل کرتے چلے جاتے ہیں۔

          آج معاشرہ میں رائج ”رہن“ کا معاملہ بھی اسی قبیل سے تعلق رکھتا ہے۔ جس میں تقریبا ً۹۰/ فیصد لوگ مالِ مرہون سے فائدہ اٹھانے کو مباح اور اپنا حق سمجھتے ہیں؛ یہاں تک کہ راہن اور مرتہن کوئی بھی اس کو قبیح اور غیر شرعی نہیں سمجھتا۔ ضرورت ہے اس کی صحیح اسلامی صورت معلوم کرکے عمل کرنے کی۔

          ”رہن“ عربی لفظ ہے اور اس کو ہماری علاقائی زبان میں ’بھرنا‘ اور’بندھک‘ کہتے ہیں۔اور اردو زبان میں’گروی‘کہتے ہیں۔ رہن کی شرعی تعریف یہ ہے کہ کسی شی ٴمالی کا دَین (قرض) کے بدلے محبوس کرنا کہ اس سے یا اس کی قیمت سے بہ وقتِ تعذر اپنے دَین کی وصولی ممکن ہو، اَلرَھنُ ھو حَبسُ شئیٍ مالیٍ بِحَقٍ یُمکِنُ اِستِیفائُہ مِنہ کَالْدَّینِ“ (درمختار ج۵/ ص۳۰۷) ھُو جَعلُ عَینٍ مَالیَةٍ وَثِیقَةٍ بِدَینٍ یَستَوفِی مِنھا أو مِن ثَمَنِھا اِذا تَعَذَّرَ الوَفَاءُ (الموسوعة ج۲۳/ ص ۱۷۵)۔ رہن رکھنے والے کو راہن، جس نے قرض دیا ہے یعنی جس کے پاس رہن رکھا گیا ہے ،اس کو مرتہن اور جو چیز رہن رکھی گئی ہے، اس کو شی ٴ مرہون کہتے ہیں۔ شریعت میں انسانوں کی ضرورت کے لیے رہن کے معاملہ کو جائز اور مباح قرار دیا گیا ہے۔ لِقَولِہ تعالی فَرِھَانٌ مَقْبُوضَةٌ؛تاکہ انسان اپنی پیش آمدہ ضرورتوں کی تکمیل بہ آسانی کرسکے؛ لیکن اس کے لیے کچھ شرعی حدود بھی ہیں، جن کے اندر رہ کر ہی اس معاملہ کو انجام دینا ہوگا۔ اس کے خلاف اور عدول قابلِ مواخذہ ہوگا۔ مثلاً مدتِ دَین کی ایسی تعیین کہ اس سے پہلے راہن کو فکِ رہن پر قدرت نہ دینا، مرتہن کا شی ٴ مرہون سے انتفاع کی شرط لگانا وغیرہ۔ یہ ایسی بنیادی خرابیاں ہیں جو عقدِ رہن کے لائق ومناسب نہیں ہیں اور فسخِ معاملہ کو لازم کرتی ہیں۔

          اس معاملہ کی شرعاً تین شرطیں نکلتی ہیں (۱) راہن اور مرتہن دونوں مسلمان ہوں (۲) راہن غیر مسلم اور مرتہن مسلمان ہو (۳) راہن مسلمان اور مرتہن غیر مسلم ہو؛ چوں کہ رہن کا معاملہ عموماً قرض کے واسطے سے ہوتا ہے اور لوگ قرض بھی اسی لالچ میں دیتے ہیں؛ تاکہ اس کے مال مرہون سے فائدہ اٹھایا جائے؛ اس لیے پہلے قرض کی کچھ وضاحت پیش کی جارہی ہے۔

          قرض لینے کے بارے میں حکم شرعی یہ ہے کہ انسان قرض وہاں سے لے جو قرض پر رشوت نہ لیتا ہو، رشوت پر قرض لینا جائز نہیں ہے؛ کیوں کہ سود لینا دینا مطلقاً حرام ہے؛ البتہ مجبور و محتاج کے لیے اس کی گنجائش ہے۔ ”یَجُوزُ لِلْمُحْتَاجِ اَلاِسْتِقْرَاضُ بِالْرِبْحِ“ (الاشباہ) اور محتاج وہ ہے جو کمانے پرقدرت نہ رکھتا ہو اور اسے بغیر سود کے کوئی قرض بھی نہ دے رہا ہوکہ وہ اپنا گزارا کرسکے، تو ایسی صورت میں اس کے لیے سودی قرض لینا جائز ہوگا اور وہ گنہگا ر بھی نہ ہوگا۔ لہٰذا قرض کی اس وضاحت کی روشنی میں رہن کے معاملہ کی تیسری صورت کا حکم یہ ہے کہ غیر مسلم کے پاس رہن رکھ کر قرض نہ لیا جائے؛ کیوں کہ وہ لامحالہ سود وصول کرے گا، خواہ اس مالِ مرہون سے نفع ہی کی صورت میں ہو۔ اور یہ سود پر قرض لینا کہلا ئے گا، جس کی ممانعت ہے۔

          پہلی اور دوسری صورت کی تفصیل سے پہلے بنیادی باتیں ملاحظہ ہوں: اسلامی قانون کے مطابق رہن میں رکھی جانے والی چیز کی حیثیت محض ضمانت کی ہوتی ہے اور رہن میں رکھے جانے کے بعد بھی وہ شی ٴ مرہون اس کے اصل مالک کی ہی ملک رہتی ہے؛ البتہ قبضہ مرتہن کا ہوتا ہے۔ نیز اس میں پیدا ہونے والی زیادتی بھی مالک کی ملک قرار پاتی ہے۔ وَنَماءُ الْرَّھنِ کَالوَلَدِ وَالْثَّمَرِ وَالْلَّبَنِ وَالصُوفِ والوَبرِ وَالاَرْشِ وَنَحوِ ذٰلکَ لِلْرَّاھِنِ لِتَوَلُّدِہ مِنْ مِلْکِہ (درمختار ج۵/ ص۳۳۵)

          جس کے پاس کوئی چیز رہن رکھی جائے اس کو نہ اس سے فائدہ اٹھا نے کا حق ہے اور نہ کسی تصرف کا؛ کیوں کہ اگر اس کو استفادہ کا موقع دیا جائے تو قرض کے عوض مزید فائدہ اٹھانا ہوا، جس کی حدیث پاک میں ممانعت ہے۔ ”کُلُّ قَرْضٍ جَرَّ نَفْعاً فَھُوَ حَرَامٌ“۔ اب پہلی اور دوسری شکل کا حکم ملاحظہ ہو: پہلی شکل یعنی راہن اور مرتہن دونوں مسلمان ہوں، تو ان کے لیے بالاتفاق شی ٴ مرہون سے انتفاع جائز نہیں۔ اور دوسری شکل یعنی راہن غیر مسلم اور مرتہن مسلمان ہو اور وہ اس کے شی ٴ مرہون سے فائدہ اٹھانا چاہے، تو حضرت امام ابوحنیفہ اور امام محمد کے نزدیک جائز ہے؛ کیوں کہ ان حضرات کے پیش نظر دارالحرب میں حربیوں کے مال سے فائدہ اٹھانا جائز ہے؛ لیکن امام شافعی اور امام ابو یوسف کے نزدیک جا ئز نہیں، وَکَذٰلِکَ اِذَا تَبَایَعَا بَیْعاً فَاسِداً فیِ دَارِالْحَرْبِ فَھُوَ جَائِزٌ وَھٰذا عِندَ اَبیِ حَنِیفَةَ وَمُحمدٍ وَقَالَ اَبو یوسفَ وَالشافعیُ لایَجوزُ۔ اس مسئلہ میں گر چہ علماءِ ہند نے طرفین کی رائے کے مطابق جواز کا فتویٰ دیا ہے؛ لیکن چونکہ ہندوستان کے دارالحرب یا دارالاسلام ہونے کی بحث معرکة الآرا ء مسائل میں سے ہے، اس لیے حضرت قاضی مجاہدالاسلام صاحب کی رائے یہ ہے کہ احوط اور انسب یہ ہے کہ امام ابویوسف کے قول کو اختیار کیا جائے (فتاویٰ امارت شرعیہ ج۱/ ص ۲۳۶)

          بہر حال مرتہن کا مال مرہون سے فائدہ اٹھانا یا تو راہن کی اجازت سے ہوگا یا بغیر اجازت کے یاعرف ورواج کے اعتبار سے ہوگا، تمام صورتیں شرعاً ممنوع ہیں۔ اجازتاً ممنوع اس لیے ہے کہ وہ نفع ربوا ہے اور سود اجازت سے بھی حلال نہیں ہوتا، اور بغیر اجازت کے تو بدرجہ اولیٰ جائز نہ ہوگا۔ لاَ یَحِلُ لَہ اَنْ یَنْتَفِعَ بِشَیٍٴ مِنہ بِوَجْہٍ مِنَ الْوُجُوہِ اِنْ اَذِنَ لَہ الْرَّاھِنُ لانَّہ اَذِنَ لَہ فیِ الْرِبَوا (شامی ج۵/ ص۳۱۰) اور عرفاً انتفاع اس لیے جائز نہیں ہے کہ معروف مشروط کی طرح ہے اور جوحکم مشروط کا ہے وہی حکم معروف کا ہے۔ وَالْغالِبُ مِنْ اَحْوَالِ النَّاسِ اَنَّھُمْ اِنَّمَا یُرِیْدُونَ عِنْدَ الْدَفْعِ اَلاِنْتِفَاعَ وَلَولَاہ لَمَا اَعْطَاہ الْدَّرَاھِمَ وَھٰذا بِمَنْزِلَةِ الْشَرْطِ لِاَنَّ الْمَعْرُوفَ کَالْمَشْرُوطِ وَھُوَ یُعِیْنُ الْمَنْعَ (شامی ج۵/ ص۳۱۱) غرض فقہاء کرام کے نزدیک کسی بھی صورت میں مال مرہون سے فائدہ اٹھا نا ربو ااور سود ہے؛ اس لیے رہن کی اشیاء سے مرتہن کے لیے مطلقاً انتفاع جائز نہ ہوگا۔ (امدادالفتاوی ج۳/ ص۴۶۰۔ فتاوی رشیدیہ ص۵۲۰۔ جدید فقہی مسائل ج۱/ ص۲۵۷)

          اب اگر مرتہن شی ٴ مرہون مثلاً زمین سے غلہ پیدا کرکے سالہا سال کھا تا رہا اور اس میں سے مالک زمین کو کچھ بھی نہ دیا، تو بوقت ادائیگیِ دَین راہن اور مرتہن کو کیا طریقہ اپنانا چاہیے جو شرعاً قابلِ مواخذہ نہ ہو، تو اس کے بارے میں حکمِ شرعی یہ ہے کہ راہن مکمل قرض واپس کرے اور مرتہن زمین والے کی زمین کے ساتھ اس سے حاصل ہونے والی زیادتی بھی واپس کرے؛ کیوں کہ یہ نفع جو اس نے زمین سے حاصل کیا ہے وہ شرعاً مالک زمین کی امانت ہے اور امانت کا لوٹانا ضروری ہے، اگر نہ لوٹا ئے گا تو وہ سود ہوگا جوکہ حرام ہے۔

          بصورتِ دیگر مرتہن اگر زمین سے حاصل شدہ زیادتی کو واپس کرنا نہیں چاہتا، تو پھر قرض کی مقدار اور حاصل شدہ زیادتی دونوں کا موازنہ اور مقابلہ کیا جائے گا، اگر وہ نفع جو مرتہن نے راہن کی زمین سے اٹھایا ہے، اس کے قرض کی مقدار کے برابر ہو جائے تو راہن سے دین ساقط ہوجائے گا، یعنی مرتہن اب راہن کی صرف زمین واپس کردے، راہن پرنہ دین کی ادائیگی لازم ہوگی اور نہ مرتہن پر حاصل شدہ زیادتی کی واپسی؛ کیوں کہ مرتہن نے اپنے قرض کے برابر اس کی زمین سے فائدہ حاصل کرلیا ہے۔

          اور اگر حاصل شدہ زیادتی قرض کی مقدار سے زیادہ ہے، مثلا قرض دس ہزار روپیہ تھا اور حاصل شدہ زیادتی کی مقدار پندرہ ہزار کو پہنچ گئی، تو مرتہن زمین کے ساتھ پانچ ہزار روپیہ جو زائد ہے راہن کو واپس کرے گا۔ اور اگر حاصل شدہ زیادتی کی مقدار قرض کی مقدار سے کم ہے، مثلا پانچ ہزار کے بقدر اس نے نفع حاصل کیا، تو اب مرتہن اپنے قرض میں سے راہن سے صرف پانچ ہزار واپس لے گا اور اس کی زمین واپس کر دے گا۔ الغرض مقدارِ نفع کی کمی یا زیادتی کی صورت میں منہا والی شکل اختیار کرنی پڑے گی جو ابھی بالتفصیل اوپر بیان کی گئی ہے۔ (فتاوی رشیدیہ ص۵۲۰۔ فتاوی محمودیہ ج۱۳/ ص۳۸۳)

          گویا معاملہ کی منہا والی صورت اسی طرح ہے، جس طرح شی ٴ مرہون کے مرتہن کے قبضہ سے ہلاک ہونے کے بعد ہوتی ہے کہ اگر شی ٴ مرہون کی قیمت وہی ہوتی ہے جو مقدارِ قرض کی ہوتی ہے، تو کسی پر کچھ واجب نہیں، یعنی نہ مرتہن پر شی ٴ مرہون کی واپسی لازم ہوتی ہے اور نہ راہن پر قرض کی واپسی۔ اور شی ٴ مرہون کی قیمت اور مقدار قرض میں اگر تفاوت ہوتا ہے تو اسی کے اعتبار سے منہا ہو تا ہے،(شامی ج۵/ ص ۳۱۰)۔

$ $ $

 

-------------------------------

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ 6‏، جلد: 98 ‏، شعبان 1435 ہجری مطابق جون 2014ء