امام بخاری کا تدریسی منہج

 

از: مولانا سعیدالحق جدون

 

          امام بخاری امت کے ان عظیم محسنوں میں سے ہیں، جن کی محنت کے پھل سے آج بھی امتِ مسلمہ فائدہ اٹھا رہی ہے۔ ان کا صحیح نام محمد بن اسماعیل بن ابراہیم بن مغیرہ جعفی بخاری، کنیت ابوعبداللہ اور لقب بخاری ہے۔ ۱۳ شوال ۱۹۴ھ کو بخارا میں پیدا ہوئے اور ۲۵۶ھ میں وفات ہوئی۔

          امام بخاری کو اللہ تعالیٰ نے بلا کا حافظہ دیا تھا۔ علم میں ملکہٴ تامہ عطافرمایا تھا۔ مطالعہ ان کے دل و دماغ کی غذا تھی۔درس و تدریس ان کی فطرتِ ثانیہ بن گئی تھی، علمی مشاغل ان کا اوڑھنا بچھونا تھا، پوری عمر حدیث پڑھی اور پڑھائی، حدیث لکھی اور دوسروں کو لکھوائی۔ احادیث میں انتہائی مہارت کی وجہ سے اس فن کے امام جانے جاتے ہیں۔

          جوہستی احادیث کی تدریس میں امامت کے بلند ربتے پر فائز ہو، عظیم محدث ،بلند پایہ مربی واتالیق اور منجھے ہوئے استاد؛ بلکہ استاد الاساتذہ ہو،ان کے تدریسی تجربات تعلیمی میدان میں ایسی حیثیت رکھتے ہیں، جیسے ادب میں ضرب الامثال، گویا امام بخاری جیسے مثالی استاد کے تدریسی اصول و قواعد تعلیمی میدان میں معلّمین اور متعلّمین کے لیے قابلِ تقلید نمونے ہیں۔

          اس لیے اس وقت کا تقاضا ہے کہ ہم امام بخاری جیسے مثالی استاد کے تدریسی منہج اوراصول کے بارے میں تحقیق کریں؛ تاکہ دینی و عصری تعلیمی اداروں کے معلّمین امام بخاری کے تدریسی منہج اوراصول وقواعد سے باخبرہوجائیں اوران اصولوں سے فائدہ اٹھا کر اپنے تدریسی اسلوب کو بہتر بنا کر طلبہ کو موثر انداز میں تعلیم دیں۔ اس کا طلبہ کو یہ فائدہ ہوگا کہ وہ جان لیں گے کہ ہم استاد کی تدریس سے کس طرح بہتر انداز میں مستفید ہوسکیں گے۔ معلّمین، متعلّمین اور عوام الناس اس سے یہ استفادہ کرسکتے ہیں کہ ہمارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کس طرح پڑھاتے تھے، جو ہستی معلمِ انسانیت ہو، اس کے بتائے ہوئے طریقے،ان کے تدریسی اصول اور منہج سے زیادہ سہل،مفید اورموثر اسلوب کہاں ملے گا؟ اس لیے اس مقالے میں امام بخاری کی شہرہ آفاق کتاب” صحیح بخاری “میں ”کتاب العلم“ سے ان کے تدریسی طریقہ کے اصول وقواعد پیش کیے جاتے ہیں۔

درس سے پہلے طلباء کے علمی شوق کو ابھارنا

          امام بخاری کے تعلیمی نظریات کے مطابق معلم سب سے پہلے شاگردوں کو سبق کی طرف راغب کرے گا۔ ان کے علمی شوق کو مختلف فضائل اور سابقہ علمی واقفیت سے ابھارے گا، یہی وجہ ہے کہ انھوں نے سب سے پہلے باب باندھا ہے۔”باب فضل العلم“ (۱) اس باب کے انعقاد سے امام بخاری کی غرض یہ ہے کہ علم کی فضیلت واہمیت کو دیکھ کر علمی شوق پیدا ہوجائے ۔

درس کے درمیان سوال نہ پوچھنا

          معلم سے درس کے دوران اگر شاگرد کوئی سوال پوچھے تو معلم اپنے درس کوپورا کرلے اور بعد میں جواب دے، درس کے درمیان پوچھنا آدابِ گفتگو کے خلاف ہے، شاگرد کواس دوران نہیں پوچھنا چاہیے اگر کسی شاگرد نے غلطی سے پوچھ لیا تواستاد کا درس کے درمیان جواب نہ دینا قابلِ ملامت بات نہ ہوگی۔

          امام بخاری نے اس قاعدے کے اثبات کے لیے حدیثِ اعرابی کو بطور استدلال پیش کیا ہے۔ اعرابی نے بیان کے درمیان آپ سے سوال کیا، آپ نے بیان ختم ہونے کے بعد سائل کے سوال کا جواب دیا۔

          یہاں یہ قید ملحوظ رکھی جائے کہ سوال اہم اور ضروری نوعیت کا نہ ہو، اگر ایسا ہو تو فوراً سوال کرنے کی گنجائش ہے اور معلم کو فوری طور پر جواب دینا چاہیے۔(۲) جیسا کہ رسول سے خطبے کے دوران ایک دیہاتی نے سوالات کئے۔آپ خطبہ دینے والی کرسی سے نیچے اترے اس دیہاتی کو جوابات دیے اور خطبہ مکمل کیا۔ (۳)

سائل کو نہ جھڑکنا

          مذکورہ حدیث اعرابی اورترجمة الباب سے امام بخاری استاد کو یہ ادب سکھلا رہے ہیں کہ اگر اشتعال کے وقت اس سے سوال کیا جائے تو سائل کو زجر کرنے اور جھڑکنے کی ضرورت نہیں؛ بلکہ اپنا کام پورا کرے، اس کے بعد سائل کا جواب دیں، جیسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ہے۔(۵)

طلباء کے استفسار پر ناراض نہ ہونا

          حدیث ِ اعرابی میں سائل اضاعتِ امانت کا مطلب نہ سمجھ سکا، اس نے کہا کَیْفَ اضَاعَتُھَا؟(۶) اس سے معلوم ہوا کہ اگر متعلّم کی سمجھ میں بات نہ آئے تووہ استفسار کرسکتا ہے اوراس کے استفسار پر معلم کو ناراض نہیں ہونا چاہیے؛ البتہ اگر سوال کا مقصد امتحان لینا ہو تو پھر ناراضگی بجا ہے(۷)

بلند آواز سے درس دینا

          معلم کو بلند آواز سے درس دینا چاہیے ۔بعض اوقات اساتذہ دھیمی آواز سے درس دیتے ہیں، جس کی وجہ سے طلباء کو سننے میں دقت پیش آتی ہے۔یا سرے سے سنتے ہی نہیں۔ اس بات کی تائید کے لیے امام بخاری نے ابن عمر کی روایت پیش کی، وہ فرماتے ہیں کہ ہم ایک سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے۔ نماز کا وقت ہونے کی وجہ سے ہم جلدی جلدی وضو کررہے تھے۔ تو ہم ہاتھ سے پاؤں پر پانی پھیرنے لگے۔ آپ نے پکار کر فرمایا” ایڑیوں کے لیے آگ کا عذاب ہے“ دو مرتبہ یہ یاتین مرتبہ فرمایا (۸)گویا اس حدیث سے امام بخاری اساتذہ کو ادب سکھلا رہے ہیں کہ علمی بات بلند آواز سے بیان کرے؛ تاکہ سب لوگ سن سکیں۔(۹)

تدریس کو دلچسپ بنانا

          تدریس کو دلچسپ بنانا چاہیے،اساتذہ اگرامتحان کے طورپر کوئی مسئلہ طلبہ کے سامنے پیش کرنا چاہیں توکرسکتے ہیں‘ کوئی مضائقہ نہیں۔(۱۰) امام بخاری نے استدلال کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک عمل پیش کیا ہے، جس کی روایت ابن عمر نے کی ہے فرماتے ہیں کہ رسول نے ارشاد فرمایا کہ درختوں میں ایک درخت ایسا ہے جس کے پتے خزاں میں نہیں جھڑتے ہیں وہ درخت مومن کی طرح ہے ۔مجھے یہ بتائے کہ وہ کونسا درخت ہے لوگوں (کادھیان) جنگلی درختوں پر پڑ گیا۔عبداللہ ابن عمر فرماتے ہیں کہ میرے دل میں آیا کہ وہ کھجور کا درخت ہے؛ لیکن مجھے شرم آئی کہ بڑوں کے سامنے کچھ کہوں۔توصحابہ نے عرض کیا: یار سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ ہی فرمائیں کہ وہ کون سا درخت ہے۔ آپ نے فرمایا: وہ کھجور ہے“(۱۱)

          اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ تدریس کو دلچسپ بنانے کے لیے بعض اوقات موقع کی مناسبت سے مثال دینا اور کبھی کبھار طلباء سے پوچھنا چاہیے۔

طلباء کی علمی آزمائش کرنا

          امام بخاری نے اس عنوان سے باب قائم کیا ہے ”بَابُ طَرْحِ الْامَامِ الْمَسْئَلَةَ عَلٰی أصْحَابِہ لِیَخْتَبِرَ مَا عِنْدَہُمْ مِنَ الْعِلْمِ“(۱۲)

          یعنی ایک استاد اپنے رفقاء کی علمی آزمائش کے لیے کوئی سوال کرے، اس عنوان کے تحت امام بخاری نے وہی مذکورہ ابن عمر کی کھجور والی روایت بطور استدلال پیش کی ہے۔ گویا یہ حدیث مکرر ہے؛ مگر عنوان الگ الگ ہے۔ اور سند بھی جدا ہے۔ پہلے باب میں تدریس کودلچسپ بنانے کے لیے بطور مثال اس حدیث کو پیش کیا گیا؛ جب کہ اس باب میں طلبہ کی ذہنی،صلاحیت کا اندازہ لگانے کے لیے لائی گئی ہے، ترجمة الباب سے امام بخاری کا مقصد یہ ہے کہ استاد کو چاہیے کہ کبھی کبھی طلبہ کا امتحان لے؛ تاکہ استاد کو کلاس میں طلبہ کے علمی معیار کااندازہ ہوسکے، اساتذہ کا اپنے شاگردوں سے سوالات کرنا، نہ صرف یہ کہ جائز ہے؛ بلکہ بہتر ہے؛ تاکہ تلامذہ بیدار رہیں اور غفلت میں وقت ضائع نہ کریں۔(۱۳)

تدریس کے طریقے

          امام بخاری تدریس کے دو طریقوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں، ایک یہ کہ استاد درس دے اورشاگرد سنے۔ اوردوسرا یہ کہ شاگرد عبارت پڑھے اور استاد سنے۔ امام بخاری فرماتے ہیں کہ بعض محدثین نے عالم کے سامنے قراء ت پر ضمام بن ثعلبہ کی حدیث سے استدلال کیا ہے کہ انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا” کہ اللہ نے آپ کو یہ حکم دیا کہ ہم نماز پڑھیں۔آپ نے فرمایا ”ہاں“ تو یہ گویا رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پڑھنا ہے۔ اور ضمام نے اس بات کی اپنی قوم کو اطلاع دی۔ اوران کی قوم نے اس خبر کو کافی سمجھا۔(۱۴)

درس گاہ کے آداب

          بَابُ مَنْ قَعَدَ حَیْثُ یَنْتَھِیْ بِہ الْمَجْلِسُ(۱۵) میں امام بخاری درس گاہ کے دو آداب بتلارہے ہیں، ایک یہ کہ اگر درس گاہ میں طلبہ زیادہ ہوں تو جہاں جگہ ہے ،وہیں بیٹھ جائیں اور اگر قریب بیٹھنے کی خواہش ہو توپہلے آیا کرے۔ اور دوسرا یہ کہ اگر پہلے بیٹھنے والے اس طرح ہوں کہ اگلی صف میں یا بیچ میں جگہ خالی ہو تو پھاند کر آگے جاسکتا ہے، اگرچہ تخطیِ رقاب سے منع کیا گیا ہے؛ تاہم یہ اس لیے جائز ہے کہ پہلے سے بیٹھنے والوں نے ہی خود بے تمیزی کی کہ آگے جگہ خالی چھوڑ دی۔(۱۶)

اپنے سے کم سے علم حاصل کرنا

          بَابُ قَوْلِ النَّبِیِّ رُبَّ مُبَلَّغٍ أوْعیٰ مِنْ سَامِعٍ(۱۷) سے امام بخاری یہ تنبیہ فرماتے ہیں کہ اگر کوئی طالب علم بڑا فہیم و ذکی ہو اوراستاد اس جیسا ہوشیار نہ ہو تواس کو اس استاد سے طلب علم میں اعراض نہیں کرنا چاہیے کہ میں تو اتنا فہیم ہوں۔ بھلا میں اس سے کیسے علم حاصل کروں۔ ایسا ہرگزنہ کریں؛ کیونکہ نبی کریم کا ارشاد ہے” رُبَّ مُبَلَّغٍ أوْعیٰ مِنْ سَامِعٍ“ بسااوقات وہ جسے حدیث پہنچائی جائے براہِ راست سننے والے سے زیادہ حدیث کو یاد رکھتا ہے (۱۸) اس باب میں یہ ترغیب دینا ہے کہ اپنے سے کم سے بھی علم حاصل کرنے کا اہتمام کرنا چاہیے۔

بلا امتیاز ہرکسی کو پڑھنا چاہیے

          ” رب مبلغٍ اوعٰی من سامع سے ایک بات یہ بھی معلوم ہورہی ہے کہ معلم کسی کو پڑھانے سے انکار نہ کرے، ہر کسی کو پڑھائے۔ کیا معلوم کون زیادہ سمجھنے والا ہے ۔بعض اوقات شاگرد سمجھ بوجھ کے لحاظ سے اپنے استاد سے آگے نکل جاتا ہے اور وہ اس سبق سے ایسے فوائد اور معلومات کا ادراک کرتا ہے جواستاد نہ کرسکتا ہو۔ تو رُبَّ مُبَلَّغٍٍ میں اس طرف اشارہ ہے۔

درس و تدریس کے بغیر محض مطالعہ سے علم حاصل نہیں ہوتا

          ترجمة الباب کے تحت فرمان نبوی ”اِنَّمَا الْعِلْمُ بِالتَّعَلُّمْ“(۲۰)سے یہ بات معلوم ہوئی کہ علم تعلّم سے حاصل ہوگا۔محض مطالعہ سے کوئی عالم نہیں بن سکتا۔ استاد سے باضابطہ تعلیم حاصل کرنا چاہیے: یہ بالکل دھوکہ ہے کہ صرف کتب وشروح دیکھ کر بغیر استاد سے پڑھے علم حاصل ہوسکتا ہے:(۲۱)اس حدیث کی بناء پر فقہاء نے لکھا ہے کہ جو آدمی ماہر اربابِ فتویٰ سے تربیت مکمل کیے بغیر صرف کتابیں دیکھ کر فتوے دے اس کی بات کا اعتبار نہیں کرنا چاہیے۔ (۲۲)

تدریس میں تدریجی طریقہ

          امام بخاری نے اس باب کے تحت علماء و ربانین کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا:

          وَیُقَالُ الرَّبَّانِیُّ الَّذِی یُرَبِّی بِصِغَارِ الْعِلْمِ قَبْلَ کِبَارِہ (۲۳)

          ربانی اس شخص کو کہاجاتا ہے جو بڑے مسائل سے پہلے چھوٹے مسائل سمجھا کر لوگوں کی علمی تربیت کرے، گویا ان الفاظ سے امام بخاری کے تدریسی منہج کی یہ اصل معلوم ہورہی کہ تدریس میں اجمال سے تفصیل،آسان سے مشکل اور کم سے زیادہ کی طرف آہستہ آہستہ پڑھنا چاہیے۔ تدریس میں اہم بات یہ ہے کہ استاد اپنے شاگردوں کو علم کے پیچیدہ مسائل میں شروع سے نہ الجھا دیں کہ وہ انھیں میں پھنس کہ رہ جائے؛ بلکہ آسان چیزیں پہلے سکھائیں؛ تاکہ شاگردوں کے اندر علم سے محبت بڑھے اوران کے حوصلے بلند ہوں(۲۴)

تدریس میں طلبہ کی نفسیات کو مدنظر رکھنا

          ایک معلم کو طلبہ کی نفسیات کو مدنظر رکھتے ہوئے سبق پڑھانا ضروری ہے،تدریس میں نہ اتنی طوالت ہو کہ طلبہ میں بوریت پیدا ہو اور نہ اتنا اختصار ہو کہ غبی طلبہ نہ سمجھ سکیں ۔ امام بخاری اس نے طرف اشارہ کرتے ہوئے باب قائم کیا ہے :

          ”مَا کَانَ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وسلم یَتَخَوَّلُھُمْ بِالْمَوْعِظَةِ وَالْعِلْمِ کَیْ لاَ یَنْفَرَّ“

          یعنی نبی کریم لوگوں کی رعایت کرتے ہوئے نصیحت فرماتے اور تعلیم دیتے؛ تاکہ ان کو ناگوار نہ گزرے۔حضرت انس سے روایت ہے کہ رسول نے فرمایا ”آسانی کرو اور سختی نہ کرو اور خوش کرو اور نفرت نہ دلاؤ (۲۶) ابن مسعود فرماتے ہیں ”کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں کچھ دن نصیحت فرمانے کے لیے مقرر کردیتے تھے۔ ہمارے پریشان ہوجانے کے خیال سے (۲۷) یعنی آپ ہرروز نصیحت نہ فرماتے“۔

          تدریس کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ استاد سبق پڑھاتے وقت کچھ لطیفے یااشعار وغیرہ بھی سنا دیا کرے‘ اس طرح ذہن تروتازہ ہوجاتا ہے،اور طلبہ بیزاری اور اکتاہٹ محسوس نہیں کرتے ہیں‘ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مزاح فرمایا کرتے تھے۔(۲۸)

تدریس میں طلبہ کی صف بندی کرنا

          فہم فی العلم(۲۹) سے یہ مستنبط ہوتا ہے کہ لوگ سمجھ میں مختلف ہوتے ہیں‘ کوئی ذہین تو کوئی متوسط اور غبی، لہٰذا استاد کو سب کی رعایت کرنی چاہیے ایک اچھے معلم کی یہ خوبی ہے کہ وہ ان تین قسموں میں صف بندی کرے اور ہر ایک گروہ کو علیحدہ علیحدہ پڑھائے۔ یا ایک تقریر کرے اور ان میں سے ان تینوں قسم کے طلبہ کے معیار کا خیال رکھے۔

تعلیم بالغاں

          تَفَقَّھُوا قَبْلَ أنْ تَسَوَّدُوْا سردار بنائے جانے سے پہلے تفقہ حاصل کرو یا یہ سواد الحیہ سے ماخوذ ہے۔ بالوں کی سفیدی سے پہلے علم حاصل کرو۔(۳۱)

          امام بخاری فرماتے ہیں کہ حضرت عمر کے اس قول سے یہ نہ سمجھا جائے کہ سیادت کے بعد علم نہ حاصل کیا جائے۔ ”وَقَدْ تَعَلَّمَ أصْحَابُ النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وسلم فِيْ کِبْرِ سِنِّھِمْ (۳۲)

          حضور کے اصحاب نے کبرسنی میں تعلیم حاصل کی ہے۔ لہٰذا ادھیڑعمر والوں کے لیے ان کی کبر سنی میں علم حاصل کرنے سے مانع نہیں، ان کو بھی پڑھانا چاہیے۔

طلبہ کے درمیان مباحثے کااہتمام کرنا

          امام بخاری نے قصہٴ خضر و موسیٰ میں حضرت ابن عباس اور حربن قیس کا مناظرہ ذکرکیا ہے۔ حضرت ابن عباس حربن قیسکے مقابلہ میں جیت گئے۔(۳۴) اس سے امام بخاری کے تدریسی منہج کا یہ قاعدہ مستنبط ہورہاہے کہ استاد بعض اوقات طلبہ کے درمیان کسی موضوع پر مباحثہ کرائے؛ تاکہ طلبہ کی دلچسپی پیدا ہوجائے اور سبق سننے کے لیے بیدارہوجائیں۔

مثال دے کر طلبہ کو سمجھانا

          امام بخاری نے باب مَنْ عَلِمَ وَ عَلَّمَ میں ابوموسیٰ اشعری سے روایت نقل کی ہے کہ آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اِس علم و ہدایت کے ساتھ بھیجا ہے، اس کی مثال زبردست بارش کی سی ہے ۔ جوزمین پر خوب برسے‘ بعض زمین جو صاف ہوتی ہے وہ پانی کو پی لیتی ہے اور بہت سبزہ اور گھاس اُگاتی ہے اور بعض زمین جو سخت ہوتی ہے، وہ پانی کو روک لیتی ہے،اس سے اللہ تعالیٰ لوگوں کو فائدہ پہنچا تا ہے،وہ اس سے سیراب ہوتے ہیں اور سیراب کرتے ہیں اور کچھ زمین کے بعض خطوں پر پانی پڑا، وہ بالکل چٹیل میدان ہی تھے،نہ پانی کو روکتے ہیں اور نہ سبزہ اُگاتے ہیں تویہ مثال ہے اس شخص کی جو دین میں سمجھ پیدا کرے اور نفع دے۔ اس کو وہ چیز جس کے ساتھ میں مبعوث کیا گیا ہوں،جس نے علم دین سیکھا اور سکھایا، اور اس شخص کی مثال جس نے سر نہیں اٹھایا، جو ہدایت دے کر میں بھیجا گیا ہوں اسے قبول نہیں کیا۔(۳۶)

          رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کواللہ تعالیٰ نے جو علم و حکمت عطا فرمایا اس کو آپ نے بڑی اچھی مثال سے واضح فرمایا کہ تین طبقے ہیں: ایک طبقہ ایسا ہے جس نے خود بھی فائدہ اٹھایا اور دوسروں کوبھی پہنچایا۔ دوسرا طبقہ وہ ہے،جس نے خود تو فائدہ نہیں اٹھایا؛ مگر دوسرے اس سے مستفید ہوں۔یہ دونوں جماعتیں بہرحال بہتر ہیں،پہلی کو دوسری پر فضیلت حاصل ہے؛ لیکن تیسری جماعت وہ ہے جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت پر کان ہی نہ دھرا۔ وہ سب سے بدترجماعت ہے۔(۳۷)

          اس روایت سے امام بخاری کی تدریسی طریقہٴ کار کا اندازہ ہوتا ہے کہ تدریس کے وقت طلبہ کو سمجھانے کے لیے مثال دینا چاہیے۔ جس طرح پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم صحابہٴ کرام کو سمجھانے کے لیے مثال دیتے تھے؛ کیونکہ بعض اوقات ایک مثال ہزار الفاظ سے بہتر ہوتی ہے۔

طلبہ کو ہوم ورک دینا

          امام بخاری کا نظریہ یہ ہے کہ معلم فقط پڑھانے پر اکتفا نہ کرے؛ بلکہ اسباق کو طلبہ سے یاد کرائیں اور دوسروں تک منتقل کرنے کی ترغیب دیں؛ تاکہ تعلیم و تعلّم کا سلسلہ جاری رہ سکے۔ اہل علم اور مدرسین کو چاہیے کہ متعلّم کو اسباق یاد کرنے اوران اسباق کی تبلیغ کرنے کی تاکید میں قصور نہ کریں۔(۳۸)

تعلیم وتربیت کے لیے استاد بعض اوقات اظہارِ غضب کرسکتا ہے

          امام بخاری نے باب قائم کیا ہے بَابُ الْغَضَبِ فِی الْمَوْعِظَةِ وَالتَّعْلِیْمِ (۳۹)

          اس باب سے امام بخاری کا مقصد ہے یَسِّرُوْا وَلَا تُعَسِّرُوْا اوران جیسی روایات کو دیکھ کر یہ نہ سمجھنا کہ تعلیم و تدریس میں غضب کی گنجائش نہیں ہے؛ بلکہ بعض مواقع میں غضب اورشدت نہ صرف جائز ہے؛ بلکہ مستحسن ہے۔(۴۰)

تدریس میں اعتدال پسندی

          تدریس میں اعتدال سے کام لینا چاہیے،تدریس جب طویل ہو تو طلبہ میں تھکان اور بوریت پیدا ہوجاتی ہے۔ امام بخاری نے آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد نقل کیا ہے کہ أیُّھَا النَّاسُ انَّکُمْ مُنْفِرُوْنَ فَمَنْ صَلّٰی بِالنَّاسِ فَلْیُخَفِّفْ(۴۱) ”اے لوگو! تم لوگ نفرت پھیلاتے ہو، جو شخص لوگوں کو نماز پڑھائے، وہ تخفیف کرے“ اس جملے سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ استاد اتنا طویل لیکچر نہ دے جس سے طلبہ میں نفرت پیدا ہو۔

کلاس میں بیمار اور حاجت مند طلبہ کا خیال رکھنا

          اس غرض کے لیے امام بخاری نے مذکورہ کتاب الصلوٰة والی روایت کتاب علم میں لائی ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم امام کو طویل نماز سے بچنے کی تنبیہ ان الفاظ میں فرمارہے ہیں۔

          فَانَّ فِیْھِمْ الْمَرِیْضَ وَالضَّعْفَ وَذَالْحَاجَةِ(۴۲)

          اس لیے کہ ان نمازیوں میں بیمار،کمزوراور حاجت مند لوگ ہیں۔ کتاب علم میں اس روایت سے ہم یہ استدلال کرسکتے ہیں کہ درس گاہ میں استاد کو چاہیے کہ وہ بیمار کمزور اور حاجت مند طلبہ کا خیال رکھے۔

رک رک کردرس دینا

          امام بخاری کا تدریسی منہج یہ ہے کہ استاد لیکچر ہمیشہ رک رک کر سمجھاتے ہوئے واضح الفاظ میں دے ۔یہی وجہ ہے کہ انھوں نے باب قائم کیا ہے مَنْ أعَادَ الْحَدِیْثَ ثَلاَثاً لِیُفْھَمَ عَنْہ(۴۳)

          اس باب میں انھوں نے استدلال کے لیے حضرت انس کی روایت نقل کی ہے:

          أنَّہ اذَا تَکَلَّمَ بِکَلِمَةٍ تَکَلَّمَ ثَلاَثًا لِیُفْھَمَ عَنْہُ (۴۴)

          جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم گفتگو فرماتے تو تین مرتبہ دہراتے تھے؛ تاکہ آپ کی بات اچھی طرح سمجھ میں آجائے۔حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی ہرجگہ تکرار کی عادت نہیں تھی؛ بلکہ یہ تکرار وہاں ہوتی جہاں افہام کی ضرورت پیش آتی۔مثلاً یہ کہ آپ کو اندیشہ ہوتا تھا کہ ایک مرتبہ سن کر بات ذہن نشین نہیں ہوئی یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس موقع پر تکرار فرماتے جہاں ابلاغ وتعلیم مقصود ہو یا کہیں مجمع زیادہ ہوتا اور آواز نہیں پہنچ پاتی یا زجر مقصود ہوتا تو تکرار فرماتے (۴۵)

$ $ $

نتائج

(۱)            تعلیم دینے کے لیے استاد کی تربیت ضروری ہے،جو استاد تربیت یافتہ نہ ہو وہ طلباء کو اچھے طریقے سے نہیں سمجھا سکتا ہے۔

(۲)            محدثین مفسیرین اور علمائے دین نے تعلیم و تربیت کے حوالے سے ایسے اصول و قواعد وضع کیے ہیں، جن کی افادیت آج کے جدید دور میں بھی مسلم ہے۔

(۳)           امام بخاری نے حدیث نبوی کی روشنی میں معلّمین کی تربیت کے لیے ایک مکمل قابلِ تقلید خاکہ پیش کیا ہے۔

حواشی

(۱)            محمد بن اسماعیل البخاری،صحیح بخاری،اصح المطابع دہلی ۱۹۳۸ء باب فضل العلم، ج ۱، ص ۱۴

(۲)            محمد بن اسماعیل البخاری،صحیح بخاری،اصح المطابع دہلی ۱۹۳۸ء باب من سُئل علماً وھو مشتعل فی حدیثہ ج ۱، ص ۱۴

(۳)           مولانا سلیم اللہ خان،کشف الباری، مکتبہ فاروقیہ کراچی ۲۰۰۶ء ج۳ ، ص۵۲

(۴)           ابن حجر عسقلانی،فیض الباری، دارالفکر بیروت ۔ ج۱ ، ص۱۴۲

(۵)           مولانا سلیم اللہ خان،کشف الباری، مکتبہ فاروقیہ کراچی ۲۰۰۶ء ۔ج ۱، ص ۱۴

(۶)            محمد بن اسماعیل البخاری،صحیح بخاری،اصح المطابع دہلی ۱۹۳۸ء باب من سُئل علماً وھو مشتعل فی حدیثہ ج ۱، ص ۱۴

(۷)           محمد بن اسماعیل البخاری،صحیح بخاری،الادب المفرد ۔دارالبشائر الاسلامیہ بیروت ۱۴۰۱ھ

(۸)           محمد بن اسماعیل البخاری،صحیح بخاری،اصح المطابع دہلی ۱۹۳۸ء باب من رفع صوتہ بالعلم ج ۱، ص ۱۴

(۹)            مولانا محمد زکریا ۔تقریرا بخاری، جمع و ترتیب محمد شاہد خان،مکتبہ الشیخ کراچی ۱۳۹۳ھ ۔ ج ۱، ص ۱۶۶

(۱۰)           مولانا محمد زکریا ۔تقریرا بخاری، جمع و ترتیب محمد شاہد خان،مکتبہ الشیخ کراچی ۱۳۹۳ھ ۔ ج ۱، ص ۱۶۸

(۱۱)           محمد بن اسماعیل البخاری،صحیح بخاری،اصح المطابع دہلی ۱۹۳۸ء ”باب طرح الامام المسئلة علی صحابہ لیختبر ما عندھم من العلم“ج۱۳، ص ۱۳۴

(۱۲)           ایضاً

(۱۳)          مولانا سلیم اللہ خان،کشف الباری، مکتبہ فاروقیہ کراچی ۲۰۰۶ء ۔

(۱۴)          محمد بن اسماعیل البخاری،صحیح بخاری،اصح المطابع دہلی ۱۹۳۸ء باب القراة والعرض علی المحدث ج ۱، ص ۱۴

(۱۵)          محمد بن اسماعیل البخاری،صحیح بخاری،اصح المطابع دہلی ۱۹۳۸ء ۔ باب من قعد حیث بنتھی بہ المجلس ج ۱، ص ۱۵

(۱۶)           مولانا محمد زکریا ۔تقریر بخاری، جمع و ترتیب محمد شاہد خان،مکتبہ الشیخ کراچی ۱۳۹۳ھ ۔ ج ۱، ص ۱۷۲

(۱۷)          محمد بن اسماعیل البخاری،صحیح بخاری،اصح المطابع دہلی ۱۹۳۸ء ۔ باب قول النبی رب مبلغ اوعی من سامعٍ ج ۱، ص ۱۶

(۱۸)          مولانا محمد زکریا ۔تقریر بخاری، جمع و ترتیب محمد شاہد خان،مکتبہ الشیخ کراچی ۱۳۹۳ھ ۔ ج ۱، ص ۱۷۴

(۱۹)           مولانا محمد زکریا ۔الابواب والتراجم لصحیح البخاری،ایچ ایم سعید کمپنی

(۲۰)          محمد بن اسماعیل البخاری،صحیح بخاری،اصح المطابع دہلی ۱۹۳۸ء باب رب مبلغ اوعیٰ من سامعٍج ۱، ص ۱۶

(۲۱)           مولانا محمد زکریا ۔تقریر بخاری، جمع و ترتیب محمد شاہد خان،مکتبہ الشیخ کراچی ۱۳۹۳ھ ۔ ج ۱، ص ۱۷۵

(۲۲)          علامہ محمد امین بن عمر بن عبدالعزیز عابدین الشامی، شرح عقود رسم المفتی،سہیل اکیڈمی لاہور، ص۱۵۔۱۶

(۲۳)          محمد بن اسماعیل البخاری،صحیح بخاری،اصح المطابع دہلی ۱۹۳۸ء باب رب مبلغ اوعی من سامع ج۱،ص۱۶

(۲۴)          علامہ یوسف القرضاوی الرسول والعلم،مترجم ابومسعود واظہر ندوی، اسلامک بک ڈپو لاہور ۱۹۹۸، ص۱۵۲

(۲۵)          محمد بن اسماعیل البخاری،صحیح بخاری،اصح المطابع دہلی ۱۹۳۸ء باب ماکان النبی یتخولھم باموعظة والعلم کما لاینفر ج ۱، ص ۱۶

(۲۶)          ایضاً

(۲۷)          ایضاً

(۲۸)          علامہ یوسف القرضاوی الرسول والعلم،مترجم ابومسعود واظہر ندوی، اسلامک بک ڈپو لاہور ۱۹۹۸، ص۱۶۰

(۲۹)          محمد بن اسماعیل البخاری،صحیح بخاری،اصح المطابع دہلی ۱۹۳۸ء باب الفہم فی العلم ج ۱، ص ۱۶

(۳۰)          محمد بن اسماعیل البخاری،صحیح بخاری،اصح المطابع دہلی ۱۹۳۸ء باب تفقہوا قبل ان تسودوا ج ۱، ص ۱۶

(۳۱)          علامہ شمس الدین محمد بن یوسف الکبرمانی، شرح الکرمانی، داراحیاء التراث العربی بیروت ۲۰۰۰ء،ج ۲، ص ۴۱

(۳۲)          مولانا سلیم اللہ خان، کشف الباری،مکتبہ فاروقیہ شاہ فیصل کالونی کراچی ۲۰۰۶ء ج ۳، ص ۳۱۵

(۳۳)         محمد بن اسماعیل البخاری،صحیح بخاری،اصح المطابع دہلی ۱۹۳۸ء باب تفقہوا اقبل ان تسودوا ج ۱، ص ۱۶

(۳۴)         محمد بن اسماعیل البخاری،صحیح بخاری،اصح المطابع دہلی ۱۹۳۸ء باب الخروج فی طلب العلمج ۱، ص ۱۷

(۳۵)         محمد بن اسماعیل البخاری،صحیح بخاری،اصح المطابع دہلی ۱۹۳۸ء باب من علم وعلم ج ۱، ص ۱۷

(۳۶)          ایضاً

(۳۷)         مولانا ظہور احمد الباری، تفہیم البخاری،اسلامی کتب خانہ لاہور۔ ج۱،ص۸۵

(۳۸)         مولانا محمدزکریا،الابواب والتراجم لصحیح البخاری، ایچ ایم سعید کمپنی۔ ص ۵۱

(۳۹)          محمد بن اسماعیل البخاری،صحیح بخاری،اصح المطابع دہلی ۱۹۳۸ء باب الغضب والموعظة فی التعلیم ج ۱، ص۱۸

(۴۰)          مولانا محمدزکریا،الابواب والتراجم لصحیح البخاری، ایچ ایم سعید کمپنی۔ص ۵۲

(۴۱)          محمد بن اسماعیل البخاری،صحیح بخاری،اصح المطابع دہلی ۱۹۳۸ء باب الغضب والموعظة فی التعلیم ج ۱، ص۱۸

(۴۲)          ایضاً

(۴۳)         ایضاً

(۴۴)         ایضاً

(۴۵)         مولانا سلیم اللہ خان، کشف الباری،مکتبہ فاروقیہ شاہ فیصل کالونی کراچی ۲۰۰۶ء ج ۳، ص ۵۸۶

$ $ $

 

--------------------------------

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ 6‏، جلد: 98 ‏، شعبان 1435 ہجری مطابق جون 2014ء