حرفِ آغاز

معاشرتی نظام

 

 مولانا حبیب الرحمن اعظمی

 

          ہرقوم اور ملت کا اپنا ایک مخصوص معاشرتی نظام اور اپنی ایک منفرد تہذیب ہوتی ہے۔ جس کے ذریعہ اس کی قومی شناخت ا ور ملّی تشخص قائم رہتا ہے۔ اور اس کا معاشرہ شکست و ریخت اور دوسری تہذیبوں میں جذب ہونے سے محفوظ رہتاہے؛ البتہ دیگر اقوام ومذاہب کے معاشرتی آئین بالعموم خود ان کے اپنے وضع کردہ عادات اور رسوم پر مشتمل ہوتے ہیں، جن کا مذہب سے تعلق برائے نام ہوتا ہے؛ جب کہ مسلمانوں کا یہ غیر متزلزل عقیدہ ہے کہ عبادت ومعاملات وغیرہ کی طرح اسلامی نظامِ معاشرت بھی اپنی تمام تر تفصیلات کے ساتھ خدا اور رسولِ خدا … کے ارشادات وہدایات پر مبنی ہیں؛ اس لیے کہ اسلام میں قانون سازی کا حق صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کو ہے۔ زندگی کے تمام شعبوں میں خدائے واحد ہی کے احکام وقوانین کی عملداری ہے۔

          اللہ تعالیٰ کا صاف اعلان ہے: ”ألاَلَہ الْخَلْقُ وَالْأمْرُ تَبَارَکَ اللہُ ربُّ العٰلمین“ (اعراف) یاد رکھو! اللہ ہی کے لیے خاص ہے، خالق ہونا، اور حاکم ہونا، بڑی خوبیوں والے ہیں اللہ جو تمام عالم کے پروردگار ہیں۔

          اس سلسلے میں اپنے رسول کو یہ ہدایت دی ہے:

          ثُمَّ جَعَلْنٰکَ عَلیٰ شَرِیْعَةٍ مِنَ الأمْرِ فَاتَّبِعْھَا وَلاَ تَتَّبِعْ أھْوَاءَ الَّذِیْنَ لاَ یَعْلَمُوْنَ (جاثیہ)

          پھر ہم نے آپ کو دین کے ایک خاص طریقہ پر کردیا؛ لہٰذا آپ اسی طریقہ پر چلیں اور ان جہلا کی خواہشوں پر نہ چلیں۔

          قانون الٰہی کے اساسی مجموعہ، قرآن کے مقصدِ نزول کی وضاحت کرتے ہوئے ارشاد ہوتاہے:

          اِنَّا أنْزَلْنَا الَیْکَ الْکِتَابَ بِالْحَقِّ لِتَحْکُمَ بَیْنَ النَّاسِ بِمَا أرَاکَ اللہُ (نساء)

          بیشک ہم نے آپ کے پاس یہ قرآن بھیجا ہے واقع کے موافق؛ تاکہ آپ اس کے مطابق فیصلہ کریں جو اللہ نے آپ کو بتایا ہے۔

          احکامِ خداوندی کو نظر انداز کرنے والوں کی مذمت ان الفاظ میں فرمائی گئی ہے:

          وَمَنْ لَمْ یَحْکُمْ بِمَا أنْزَلَ اللہُ فَاُولٰئِکَ ھُمُ الظَّالِمُوْنَ (مائدہ)

          اور جو لوگ اللہ کے بتائے ہوئے احکام وقوانین کے مطابق فیصلہ نہیں کرتے وہ ظالم ہیں۔ ان آیاتِ قرآیہ سے حسبِ ذیل باتیں ثابت ہوتی ہیں:

          (۱) تشریع اور قانون سازی کا حق صرف اللہ تعالیٰ کو ہے (۲) نبی کریم … ان قوانین کا نفاذ فرماتے ہیں (۳) خدا کے مقرر کردہ احکام میں کسی کو تغیر وتبدل کا حق واختیار نہیں ہے۔ ایسا کرنے والے اللہ کے نزدیک منکر، ستم گار اور نافرمان ہیں۔

          اسلام کا یہ نقطئہ نظر اتنا واضح اور روشن ہے کہ مستشرقین بھی اس سے چشم پوشی نہیں کرسکے اور انھیں اس کا اعتراف کرنا پڑا؛ چنانچہ مشہور مستشرق ”کولسن“ اقرار کرتا ہے کہ اسلام کی بنیاد اس بات پر ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی واحد قانون ساز ہے اور زندگی کے تمام شعبوں میں اسی کے احکام کا غلبہ ہے۔“ (اے ہسٹری آف اسلامک لا، کولسن ص ۱۲۰)

          فیزجیرالڈ بھی اسے تسلیم کیے بغیر نہ رہ سکا وہ لکھتا ہے: ”اسلام اللہ تعالیٰ کو واحد قانون ساز و صاحبِ تشریع قرار دیتا ہے اور اس سلسلہ میں کسی کو بھی اس کا شریک نہیں گردانتا“ (دی الیجڈڈف آف اسلامک ٹورومن، فیزجیرالڈ ص ۸۲ ج۶۸)

          گوائے ٹائن مستشرق کو بھی اعتراف ہے کہ دقیق قانونی معاملات میں بھی دین سے مربوط ہیں؛ بلکہ وہ وحی الٰہی کا ناقابلِ تقسیم حصہ ہیں، شریعت ایسے عصری تقاضوں کا مجموعہ نہیں ہے جو قرآن اور نبی … کے بعد مرتب ہوئے ہوں؛ بلکہ اسلامی معاشرہ میں ان کا باضابطہ نفاذ خود رسول اللہ … نے اپنی زندگی میں کیا۔“ (اسٹڈیز اِن اسلامک ہسٹری، گوائے ٹائن ص۱۲۹)

          آئیے اب دستورِ ہند پر بھی ایک نظر ڈالتے چلیں اور دیکھیں کہ سیکولر ہندوستان میں بسنے والی اکائیوں کو وہ کیا حقوق دیتا ہے اس سلسلہ میں ہم دیکھتے ہیں کہ دستور کی دفعہ (۲۵) میں یہاں کے ہر شہری کو کسی بھی مذہب کو قبول کرنے، اس پر قائم رہنے، اس پر عمل کرنے اور اس کی تبلیغ اور پرچار کرنے کا حق دیاگیا ہے۔ دفعہ (۲۶) کی رو سے مسلمانانِ ہند جداگانہ ایک مذہبی گروہ قرار پاتے ہیں اور انھیں اپنے مذہبی امور کے منظم کرنے کا پورا پورا حق حاصل ہے۔ دفعہ (۲۹) مسلمانوں کو اپنے کلچر، زبان اور رسم الحظ کے تحفظ کا حق اور اختیار دیتی ہے۔ دفعہ (۳۰) کے تحت انھیں تعلیمی ادارے قائم کرنے اور ان کے انتظام سنبھالنے کا حق ملتا ہے۔

          اوپر کی تفصیلات سے معلوم ہوچکا ہے کہ مسلمان اپنی کمیونٹی اور انفرادیت کی بقا اور جداگانہ شناخت کے لیے جن عناصر کو تسلیم کرتے ہیں، وہ ان کا عالم گیر مذہب، ان کی چودہ سو سالہ قدیم تہذیب اور مخصوص معاشرتی اقدار ہیں؛ جنھیں آئینِ ہند کا طاقتور تحفظ بھی حاصل ہے؛ اس لیے یکساں سول کوڈ کا نعرہ بلند کرنے والے نہ صرف مسلمانوں کے مذہب میں بیجا مداخلت کرتے ہیں؛ بلکہ آئینِ ہند کے بنیادی کردار کا بھی مضحکہ اڑاتے ہیں؛ اس لیے یہ لوگ قطعی طور پر ملک اور اس کے آئین کے وفادار نہیں ہیں؛ اس لیے لازمی طور پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ

(۱)      کیا اس نظریہ کو پیش کرنے والے آئینِ ہند کے حق میں وفادار ہیں؟

(۲)      یکساں سوِل کوڈ کے نفاذ کے بعد ہندوستان کی سیکولر حیثیت محفوظ رہ جائے گی؟

(۳)     کیا اس عظیم ملک میں جہاں مختلف مذہب، مختلف تہذیب ومعاشرت کے لوگ رہتے ہیں یکساں کوڈ کا نفاذ ملک میں انتشار اور خانہ جنگی کا سبب نہیں بنے گا؟

(۴)     کیا مسلمان! مسلمان رہتے ہوئے اس نظریہ کو قبول کرسکتے ہیں؟

(۵)      کیا اس نظریہ کو قبول کرلینے اور اپنی زندگی میں نافذ کرلینے کے بعد مسلمانوں کی علاحدہ شناخت اور ان کا ملی تشخص باقی رہے گا؟

(۶)      پھر یہ سوِل کوڈ کیا ہوگا، اور ملک کے مختلف مذاہب میں کس مذہب سے اخذ کرکے سب کو اس پر قانوناً مجبور کیا جائے گا، اس کی وضاحت ضروری ہے، اس کے بغیر یکساں سول کوڈ کا شوشہ چھوڑنا مجذوب کی بڑ سے زیادہ کی حیثیت نہیں رکھتا، شاید اس لیے پہلے یہ طے ہوجانا ضروری ہے اورظاہر ہے اس کا طے کرنا جوئے شیر لانے سے بھی مشکل ہے اوراس سے مشکل تر ملک میں موجود سارے اہلِ مذاہب کا اسے قبول کرلینا ہے۔

          امید ہے کہ ان سوالات پر علمائے امّت، دانشورانِ قوم اور ملکی وسیاسی رہنما بالخصوص حکومت میں موجود دخیل اصحابِ فکر ورائے ہر قسم کے سیاسی، مذہبی اور قومی تعصب اور جنبہ داری سے بلند ہوکر بالغ نظری کے ساتھ غور وخوص کرکے کوئی صحیح فیصلہ کریں گے۔

$ $ $

 

----------------------------------

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ 7‏، جلد: 98 ‏، رمضان المبارك 1435 ہجری مطابق جولائی 2014ء