اسلام کا مشاورتی نظام اہمیت اور طریقہٴ کار

 

 

از: مفتی تنظیم عالم قاسمی             

‏ استاذ حدیث دارالعلوم سبیل السلام حیدرآباد

 

انسان کو زندگی میں بیشتر ایسے امور پیش آتے ہیں جن میں وہ تذبذب کا شکار ہوجاتا ہے۔کرنے اور نہ کرنے دونوں پہلووٴں پر اس کی نظر ہوتی ہے، وہ سر دست یہ فیصلہ نہیں کرسکتا کہ موجودہ حالات میں اسے کیا کرنا چاہیے؟ کام کے کس رخ کو اختیار کرنے میں اس کے لیے بھلائی اور ہدایت ہے؟ کشمکش کی اس صورتِ حال میں شریعت نے ہدایت دی ہے کہ ایسے تمام مواقع پر ازخود فیصلہ کرنے اور اپنی عقل و دانش پر اعتماد کرنے کے بجائے متعلقہ کام کے ماہرینِ فن، اربابِ نظر اور ہمدرد وبہی خواہ افراد سے رائے معلوم کرلی جائے، پھر باہمی غور و فکر کے بعد جس جانب دل مائل ہو، ا للہ پر اعتماد کرتے ہوئے اسے اختیار کر لے، اس کو ”مشورہ یا مشاورت“ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔

          صالح، کامیاب اورپرامن زندگی گزارنے کے لیے مشاورتی نظام اپنانا ازحد ضروری ہے، بلاشبہ مشورہ خیر و برکت، عروج و ترقی اور نزولِ رحمت کا ذریعہ ہے، اس میں نقصان و شرمندگی کا کوئی پہلو نہیں ہے۔ رسولِ اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مَا شَقٰی عَبْدٌ بِمَشْوَرَةٍ وَمَا سَعِدَ بِاسْتِغْنَاءِ رَأیٍ یعنی کوئی انسان مشورہ سے کبھی نا کام اور نامراد نہیں ہوتا اور نہ ہی مشورہ ترک کر کے کبھی کوئی بھلائی حاصل کرسکتا ہے۔ (قرطبی۴/۱۶۱)

          ایک موقع پر آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی ارشاد فرمایا: مَاخَابَ مَنِ اسْتَخَارَ وَلَا نَدِمَ مَنِ اسْتَشَارَ ”جس نے استخارہ کیا وہ نا کام نہیں ہوا اور جس نے مشورہ کیا وہ شرمندہ نہ ہوا۔“ (المعجم الأوسط للطبرانی: ۶۸۱۶)

          اسی طرح آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ بھی ارشاد ہے: اَلْمَشْوَرَةُ حِصْنٌ مِنَ النِّدَامَةِ وَ أمْنٌ مِنَ الْمَلَامَةِ“ مشورہ شرمندگی سے بچاوٴ کا قلعہ ہے اور ملامت سے مامون رہنے کا ذریعہ ہے۔“ (ادب الدنیا والدین ۱/۲۷۷)

           اس میں حکمت یہ ہے کہ ایک انسان جب اپنی رائے پر عمل کرتے ہوئے کوئی کام کرتا ہے اگر اس میں نا کامی ہوجائے تو بہت سی زبانیں لعن طعن کرنے لگتی ہیں، ملامت کا ایک سلسلہ چل پڑتا ہے اور پھر بڑی ذلت محسوس ہوتی ہے؛ لیکن اگر مشورہ کے بعد کوئی کام کیا جائے تو عام طورپر اس میں نا کامی نہیں ہوتی، اللہ تعالیٰ مشورہ کی برکت سے خیر کی راہیں کھول دیتا ہے اور اگر فیصلہ تقدیر کے سبب مشورہ کے تحت کیا ہوا کام بار آور اور نتیجہ خیز نہیں ہوسکا تو بھی اس میں لوگوں کے سامنے شرمندگی اٹھانی نہیں پڑتی؛ اس لیے کہ اس میں صرف اسی کی عقل و فکر شامل نہیں ہے؛ بلکہ مختلف اربابِ نظر اور ماہرینِ فن کی رائیں اور عقلیں شامل ہیں، ملامت کس کس کو کی جائے اور ملامت کرنے والا بھی اپنی اصابتِ رائے کی ضمانت نہیں دے سکتا ؛اس لیے مشورہ میں دیگر اہم فائدوں کے ساتھ ا یک بڑا فائدہ ملامت اور طعن و تشنیع سے نجات بھی بتایا گیا ہے، ایک شاعر مشورہ کی اسی افادیت کے پیشِ نظر کہتا ہے :

الرأیُ کَاللَّیْلِ مُسْوَدٌّ جَوَانِبُہ      $       وَاللَّیْلُ لَایَنْجَلِی الّا بِالْاِصْبَاح

فَاضْمُمْ مَصَابِیْحَ آرَاءِ الرِّجَالِ الٰی      $       مِصْبَاحِ رَأیِکَ تَزْدَدْ وُضُوْءَ مِصْبَاح

          ” رائے تاریک رات کی طرح ہے کہ اس کے اطراف سیاہ ہیں اور رات کا اندھیرا بغیر صبح کے زائل نہیں ہوتا، لوگوں کی رائے کی مشعل کو اپنے چراغ کے ساتھ ملا لینے سے تیرے چراغ کی روشنی زیادہ ہوجائے گی “ یعنی آدمی اپنی رائے سے ایک پہلو کو سمجھتا ہے؛ مگر جیسا کہ رات میں اگرچہ قریب کی چیز کا احساس و ادراک ہوجاتا ہے؛ مگر ذرا فاصلہ کی چیز نظر نہیں آتی، اسی طرح تنہا اپنی رائے سے تمام پہلو روشن نہیں ہوتے، وہ برابر معرضِ خفاء میں رہتے ہیں؛ لیکن جب صبح ہوکر شب کی تاریکی زائل ہو جاتی ہے تو مشرق و مغرب، جنوب وشمال کی تمام چیزیں روشن ہوجاتی ہیں، اسی طرح جب اپنی رائے کے ساتھ دوسروں کی رائے کو ملالیا گیا تو گویا ایک چراغ کے ساتھ جس کی روشنی تھوڑی دور تک پھیلی ہوئی تھی، ہزاروں شمعوں کو روشن کر دیا اور عالم کے نورانی ہوجانے سے خود اس کے چراغ کی روشنی بھی بڑھ گئی اور اطراف و جوانب کی سب چھوٹی بڑی چیزیں ظاہر و نمودار ہو گئیں۔

          بعض بلغاء کا قول ہے:

          مِنْ حَقِّ الْعَاقِلِ أَنْ یُضِیْفَ الٰی رَأیِہ آرَاءَ العُقَلَاءِ، یَجْمَعُ الٰی عَقْلِہ عُقُوْلَ الْحُکَمَاءِ فَانَّ الرَّأیَ الْفَذَّ رُبَّمَا ذَلَّ وَالْعَقْلَ الْفَرْدَ رُبَّمَا ضَلَّ ”عاقل کا فرض یہ ہے کہ اپنی رائے کے ساتھ عقلاء کی رائے کا اضافہ کرے اور اپنی عقل کے ساتھ حکماء کی عقل کو جمع کرے؛ کیوں کہ اکیلی رائے بسا اوقات ذلیل ہوتی ہے اور پھسل جاتی ہے اور تنہا عقل بسا اوقات گمراہ ہوجاتی ہے“ ۔ ظاہر ہے کہ اپنی عقل کے ساتھ جب دیگر عقلوں اور اپنے تجربہ کے ساتھ دیگر تجربات کو ملا لیا جائے تو اس میں استحکام پیدا ہوگا اور غلطی کا امکان کم ہو جائے گا، خواہ وہ عقلیں اپنے تئیں ناقص ہی کیوں نہ ہوں؛ چوں کہ مشورہ میں شریک افراد بڑی مشقتوں سے حاصل کیے ہوئے تجربات کی روشنی میں رائے دیتے ہیں؛ اس لیے مشورہ کرنے والے کو اہم اور قیمتی باتیں مفت مل جاتی ہیں جن کو اگر وہ خود حاصل کرنا چاہے تو زندگی ختم کرکے بھی حاصل ہونا یقینی نہیں ہے؛ اسی لیے حکیم لقمان نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے کہا تھا: تجربہ کار تجھ کو وہ رائے دیتا ہے جو اس کو نہایت گراں قیمت پر ملی ہے یعنی نہایت مشقت و تحملِ مصائب کے بعد حاصل ہوئی ہے اور تو اس کو مفت بلا تعب اڑا تا ہے۔ (اسلام میں مشورہ کی اہمیت از مفتی محمد شفیع۶۱ تا۶۳)

           حضرت علی کا یہ قول بھی کتنا جامع ہے: اَلْاِسْتِشَارَةُ عَیْنُ الْھِدَایَةِ وَ قَدْ خَاطَرَ مَنِ اسْتَغْنٰی بِرَأیِہ۔ (المدخل: ۴/۲۸) مشورہ عین ہدایت ہے اور جو شخص اپنی رائے سے ہی خوش ہوگیا وہ خطرات سے دوچار ہوا۔ خلاصہ یہ کہ مشورہ ایک مہتم بالشان امر ہے، رشدوہدایت اور خیر وصلاح اس سے وابستہ ہے؛ جب تک مشورہ کا نظام باقی رہے گا، فساد اور ضلالت و گمراہی راہ نہیں پا سکے گی، امن اور سکون کا ماحول رہے گا، یہی وجہ ہے کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب تمہارے حُکّام تم میں سے بہترین آدمی ہوں اور تمہارے مالدار سخی ہوں اور تمہارے معاملات آپس میں مشورہ سے طے ہواکریں تو زمین کے اوپر رہنا تمہارے لیے بہتر ہے اور جب تمہارے حُکّام بدترین افراد ہوں اور تمہارے مالدار بخیل ہوں اور تمہارے معاملات عورتوں کے سپرد ہوں تو زمین کے اندر دفن ہوجانا تمہارے زندہ رہنے سے بہتر ہوگا۔“ (روح المعانی: ۷/۵۳۱)

           دنیا کے حالات پر جن کی نظر ہے وہ اچھی طرح جانتے ہوں گے کہ دنیا میں جتنے بھی دینی و ملی ادارے چل رہے ہیں، ان میں جن کا نظام مشورہ سے مربوط ہے، ان کے تمام امور مستحکم اور پائیدار ہیں اور وہ تمام داخلی و خارجی فتنے و فساد سے پاک ہیں؛ لیکن جب کسی ادارے یا حکومت کو خاندانی یا وراثتی نظام پر چلایا جاتا ہے کہ پہلے باپ حکمراں تھا تو محض اس بنیاد پر بیٹا اس کا اہل قرار پائے ا ور یہی سلسلہ چلتا رہے تو پھر یاد رکھنی چاہیے کہ یہ حکومت دیر پا نہیں ہوتی، ہزار طرح کے مسائل وہاں جنم لیتے ہیں اور ایک دن پورا شہر فتنہ وفساد کے لپیٹ میں آجاتا ہے، جیسا کہ زمانہٴ جاہلیت میں حکمرانی کا یہی طریقہ رائج تھا، اسی وجہ سے وہاں ہر گھر، ہر خاندان، ہر قبیلہ الگ الگ خانوں میں منقسم ہوگیا تھا فتنہ و فساد کا ایک سیلاب تھا، جس پر کوئی بندش نہیں تھی، لوگوں کو کسی گرفت کا احساس نہیں تھا؛ اس لیے جو شخص جو چاہتا کرتا تھا اور پھر یہیں سے زنا کاری ، شراب نوشی، ڈاکہ زنی، لوٹ کھسوٹ، قتل وغارت گری، جیسے ہزاروں جرائم وجودمیں آئے اسلام نے اس طریقہ کو مٹا کر مشاورتی نظام قائم کیا، مختلف نوعیتوں سے مشورہ کی اہمیت بیان کی گئی؛ بلکہ اس کو مسلمانوں کا وصف خاص قرار دیا گیا۔ ارشاد باری ہے : وَ الَّذِیْنَ اسْتَجَابُوْا لِرَبِّھِمْ وَ اَقَامُوْا الصَّلٰوةَ وَ اَمْرُھُمْ شُوْریٰ بَیْنَھُمْ وَ مِمَّا رَزَقْنٰھُمْ یُنْفِقُوْنَ۔ (شوریٰ:۳۸) ”ایمان والے وہ ہیں جنہوں نے اپنے رب کے حکم کو مانا، نماز قائم کی اور ان کے کام باہم مشورہ سے ہوتے ہیں اور جو ہم نے دیا ہے اسے خرچ کرتے ہیں۔“ اس آیت میں مسلمانوں کے جو اوصاف بیان کیے گئے ہیں، ان میں ایک وصف باہمی مشورہ بھی ہے یعنی کسی اہم معاملہ کو آپسی رایوں کے ذریعہ حل کیا جانا کامل اور پختہ ایمان مسلمانوں کی صفت ہے، اطاعت ِ خداوندی اور اقامت ِ صلوٰة کے بعد فوری طور پر مشورہ کے معاملہ کو بیان کرنے سے اس کی غیر معمولی اہمیت کا پتہ چلتا ہے، شاید یہی وجہ ہے کہ صحابہٴ کرام اور بالخصوص خلفاءِ راشدین نے مشورہ کو اپنا معمول بنایا تھا۔

          اللہ تعالیٰ نے نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی مشورہ کا حکم دیا تھا ارشاد ہے: ”وَشَاوِرْھُمْ فِیْ الْاَمْرِ۔“ (اٰل عمران: ۱۰۹) اے نبی! آپ معاملات اور متفرق امور میں صحابہٴ کرام سے مشورہ کیا کیجیے۔“ بظاہر رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو مشورہ کی حاجت نہیں تھی؛ کیوں کہ آپ کے لیے وحی کا دروازہ کھلا ہوا تھا، آپ چاہتے تو وحی کے ذریعہ معلوم ہوسکتا تھا کہ کیا اور کس طرح کرنا چاہیے؟ اسی لیے مفسرینِ کرام نے یہاں بحث کی ہے کہ حکمِ مشورہ سے کیا مراد ہے۔ حضرت قتادہ، ربیع اوردوسرے بعض مفسرین کا خیال ہے کہ صحابہٴ کرام کے اطمینانِ قلب اوران کو وقار بخشنے کے لیے یہ حکم دیا گیا تھا؛ اس لیے کہ عرب میں مشورہ اور رائے طلبی باعثِ عزت و افتخار تھا۔ علامہ قرطبی لکھتے ہیں: فَقَالَتْ طَائِفَةٌ ذَلِکَ فِيْ مَکَائِدِ الْحُرُوْبِ وَ عِنْدَ لِقَاءِ الْعَدُوِّ وَ تَطَیُّباً لِنُفُوْسِھِمْ وَرَفْعاً لِأقدْارِھِمْ وَ جَألُّفًا عَلٰی دِیْنِھِمْ (قرطی۴/۱۶۱)

          حقیقت یہ ہے کہ وحی کے ذریعہ اگرچہ بہت سے امور میں آپ کی رہنمائی کردی جاتی تھی؛ مگر بعض حکمت ا ور مصالح کے پیش نظر چند امور کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رائے اور صوابدید پر چھوڑ دیا جاتا، ان ہی مواقع میں آپ کو صحابہٴ کرام سے مشورہ کا حکم دیا گیا؛ تا کہ امت میں مشورہ کی سنت جاری ہوسکے اور لوگ یہ سمجھیں کہ جب نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو مکمل فہم و بصیرت ہونے کے باوجود مشورہ کا حکم دیا گیا تو پھر ہم اس کے زیادہ محتاج ا ور ضرورت مند ہیں؛ چنانچہ آپ نے ارشاد فرمایا:

          اَمَّا انَّ اللہَ وَ رَسُوْلَہ لَغَنِیَّا عَنْھَا وَلٰکِنْ جَعَلَھَا اللہُ تَعالٰی رَحْمَةً لِأمَّتِيْ (الدرالمنثور: ۴/۳۵۹) یعنی یاد رکھو! کہ اللہ اور اس کے رسول مشورہ سے بالکل مستغنی ہیں؛ لیکن خدا تعالیٰ نے اس کو امت کے لیے رحمت کا سبب بنایا ہے۔ وَ اِنَّمَا أرَادَ أنْ یُعَلِّمَھُمْ مَّا فِی الْمُشَاوَرَةِ مِنَ الْفَضْلِ وَلِتَقْتَدِیْ بِہ أُمَّةٌ مِّنْ بَعْدِہ ”اللہ تعالیٰ نے اس حکم کے ذریعہ مسلمانوں کو مشورہ کی فضیلت کا سبق سکھانے کا ارادہ کیا ہے؛ تا کہ آپ کے بعد آپ کی امت اس کی پیروی کریں“ (قرطبی:۲/۱۶۱)

           حضرت ابوہریرہ کا بیان ہے کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ مشورہ کرنے والا کسی کو نہیں پایا یعنی آپ ہر قابلِ غور معاملہ میں اپنے صحابہ سے مشورہ کر کے ہی کوئی فیصلہ فرماتے، مثلاً :بدر کی لڑائی سے فراغت ہوچکی تو آپ نے اسیرانِ جنگ ِ بدر کے بارے میں صحابہ سے مشورہ فرمایا کہ ان کو معاوضہ لے کر رہا کر دیا جائے یا قتل کیا جائے یا، مثلاً: غزوہٴ اُحد کے بارے میں مشورہ کیا کہ کیا مدینہ شہر کے اندر رہ کر مدافعت کی جائے یا شہر سے باہر نکل کر۔ عام طور سے صحابہ کرام کی رائے باہر نکلنے کی ہوئی تو آپ نے اس کو قبو ل فرمایا۔ غزوہٴ خندق میں ایک خاص معاہدہ پر صلح کرنے کا معاملہ درپیش ہوا تو سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ اور سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے اس معاملہ کو مناسب نہیں سمجھا؛ اس لیے ان دونوں نے اختلاف کیا آپ نے ان دونوں کی رائے قبول کرلی، حدیبیہ کے ایک معاملہ میں مشورہ لیا تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی رائے پر فیصلہ فرمادیا، قصہٴ اِفک میں صحابہٴ کرام سے مشورہ لیا، اسی طرح اذان کی بابت بھی اپنے صحابہ سے مشورہ کیا کہ نماز کی اطلاع دینے کے لیے کیا طریقہ اختیار کرنا چاہیے۔ اس طرح کی بے شمار مثالیں ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ جن امور میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے کسی حکمت کی بناء پر کسی خاص جانب رہنمائی نہ کی جاتی، ان میں صحابہٴ کرام سے آپ مشورہ فرماتے، اس میں ان لوگوں کے لیے جو مشورہ کو کھیل اور لغو کام سمجھتے ہیں یا جن کو مشورہ لینے میں عار اور خفت محسوس ہوتی ہے؛ حالانکہ مشورہ طلب کرنے میں ہی عزت ہے، مشورہ کرنے والا کبھی محروم نہیں ہوتا، اگر کامیاب ہوجائے تو اس کی مدح کی جاتی ہے اور اگر مشورہ کے بعد بھی کامیابی نہ ملی تو اسے معذور سمجھا جاتا ہے؛ لیکن اگر مشورہ کیے بغیر کوئی کام کیا گیا اور کام نہیں بن سکا تو پھر اس کی ذلت ہی ذلت ہے، ہزار لوگ اس کو طعن و تشنیع کریں گے اور مختلف باتیں اس کو سننے کے لیے اس کو تیار رہنا ہوگا۔

          تخلیق آدم علیہ السلام کے موقع پر اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے اس کا تذکرہ کیا تھا اور ان کی رائے معلوم کی تھی جس کی تفصیل (سورہ بقرہ آیت ۳۰) کے ذیل میں دیکھی جاسکتی ہے، اس سے در حقیقت فرشتوں سے مشورہ طلب کرنا مقصد نہیں تھا؛ بلکہ انسانوں کے دل و دماغ میں مشورہ کی اہمیت پیدا کرنا مقصد تھا کہ خالق کائنات کے اس عمل کو پوری کائنات میں طریقہ بنایا جائے؛ مگر افسوس ! کہ آج دیگر اعمالِ خیر کی طرح مشورہ کی سنت بھی ہماری زندگی اور معاشرہ سے رخصت ہوگئی جس کے بھیانک نتائج ہمارے سامنے ہیں، ساری محنتوں مشقتوں اور کوششوں کے باوجود نا کامی ہمارے حصہ میں ہے، ہر طرف انفرادی اور اجتماعی جگہوں میں خلفشار اور انتشار پایا جاتا ہے بسا اوقات نا کامی اور نقصان کے بعد مشورہ نہ کرنے پر افسوس بھی ہوتا ہے؛ مگر اب کیا حاصل؟ ضرورت ہے کہ اہم اور قابلِ غور مسائل میں کام کے آغاز سے پہلے ہی مشورہ کو اپنا معمول بنایا جائے؛ تا کہ محنتیں بار آور اور نتیجہ خیز ثابت ہوں، یقینا مشورہ میں اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت بھی ہے اور ہزار دینی و دنیوی فائدے بھی ، کاش! امت ِ مسلمہ کی زندگی اور معاشرہ میں مشورہ کی سنت جاری ہوجائے۔

مشورہ کے امور

          لیکن اب سوال یہ ہے کہ مشورہ کہاں اور کن چیزوں میں کیا جائے؟ اس سلسلہ میں یاد رکھنا چاہیے کہ جن امور میں شریعت کا فیصلہ متعین ہے کہ یہ چیز فرض ہے یا واجب ہے یا حرام یا مکروہ ہے، ان امور میں مشورہ کی ضرورت نہیں؛ بلکہ جائز بھی نہیں ہے، جیسے کوئی شخص یہ مشورہ کرے کہ نماز پڑھے یا نہیں، زکوٰة دے یا نہیں، حج کرے یا نہیں، یہ چیزیں مشورہ کی نہیں ہیں، ان کے لیے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم متعین ہے کہ ان کا کرنا ہر حال میں ضروری ہے یا اسی طرح جن چیزوں کو شریعت نے منع کیا ہے، جیسے زناکاری، شراب نوشی، ڈاکہ زنی وغیرہ ان میں بھی مشورہ کی حاجت نہیں، ان سے تو بہرحال رکنا لازمی ہے؛ البتہ طریق کار کے بارے میں مشورہ کیا جاسکتا ہے، جیسے حج میں جانے کے لیے مختلف راستے ہیں، بعض پُراَمن ہیں اور بعض میں خطرہ ہے، تو اس موقع پر تجربہ کار افراد کی رائے معلوم کی جاسکتی ہے کہ ان مختلف راستوں میں اس کے لیے کون سا راستہ بہتر ہوگا، یا اسی طرح ایک شخص مریض ہے اس کو تردد ہے کہ مجھ کو اس حالت میں تیمم کی اجازت ہے یا نہیں، اس بارے میں اطباء یا تجربہ کاروں سے مشورہ کرسکتا ہے، اسی طرح وہ احکام ومسائل جن کے بارے میں قرآن و حدیث، اقوالِ صحابہ یا سلف کی کتابوں میں کوئی صراحت نہیں ہے، جدید اور نئے زمانہ سے ان کا تعلق ہے، ان میں مشورہ کرنا نہ صرف جائز؛ بلکہ اربابِ فقہ اور صاحب ِ نظر علمائے دین سے ان کے بارے میں پوچھنا اور حکم ِ شرعی معلوم کرنا واجب ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ آپ کے بعد اگر ہمیں کوئی ایسا معاملہ پیش آجائے جس کا حکم صراحتا ً قرآن میں نازل نہیں ہوا اور آپ سے بھی اس کے متعلق کوئی ارشاد ہم نے نہ سنا ہو تو ہم کیا کریں؟ آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ایسے کام کے لیے اپنے لوگوں میں سے عبادت گزار فقہا کو جمع کرو اور ان کے مشورہ سے اس کا فیصلہ کرو، کسی کی تنہا رائے سے فیصلہ نہ کرو۔ (معارف القرآن: ۲/۲۲۰)

          دینی امور کے علاوہ معاشی، معاشرتی، سماجی، انفرادی اور اجتماعی زندگی میں پیش آنے والے معاملات میں بھی مشورہ کو اپنانا چاہیے، جہاں شریعت، عقل و عادت کے اعتبار سے کوئی جانب متعین ہو اور نہ ہی اس کا نافع ہونا یقینی ہو، امورِ طبعیہ جیسے بھوک اور پیاس کے وقت روٹی کھانا یا پانی پینا، اس میں مشورہ کرنے اور کسی سے پوچھنے کی ضرورت نہیں ہے کہ مجھے بھوک لگی ہے کھانا کھانا چاہیے یا نہیں؟ عام حالات میں یہ سوال حماقت ہے، ہاں بیماری کے وقت یا اس کے ذرائع اور طرق یا مختلف اغذیہ اور اشربہ میں سے کسی ایک کو اختیار کرنے میں اگر کسی کے اندر خطرہ کا احتمال ہو تو مشورہ کرنا مستحسن یا ضروری ہوگا۔ یہاں اس پہلو پر بھی نظر رہے کہ اللہ تعالیٰ نے مشورہ کی ترغیب اور ہدایت تو دی ہے؛ مگر اپنی رحمت ِ عامہ کی بناء پر چند مخصوص جگہوں کے علاوہ انسان کو مقید نہیں کیا کہ کوئی معاملہ بلامشورہ کر ہی نہ سکے، بسااوقات اہم معاملات پیش آتے ہیں اور ایک تجربہ کار انسان کو اس کے انتظام و انصرام اور حل کا طریقہ معلوم ہوتا ہے اور یہ بھی جانتا ہے کہ کسی صاحب ِ عقل و دانش سے مشورہ کرے گا تو اس کے سوا اور کوئی دوسرا راستہ نہیں بتلا سکتا، اس حالت میں اگر وہ بلامشورہ کام کربیٹھے تو کوئی حرج نہیں ہے، اسی طرح معاملات کی نوعیت اور منافع و خطرات کی عظمت و وقعت اور قوت و ضعف کے اعتبار سے مشورہ کے حکم ِ استحسان میں فرق ہوجائے گا، بعض مواقع میں مشورہ نہایت اہم اور ضروری ہوگا اور بعض جگہ درجہٴ استحسان میں رہے گا۔ بہرحال وہ امور جن میں کوئی جانب شرعاً، عقلاً، عرفاً، عادتاً معین نہیں اور جن کے مختلف جوانب میں خطرات و منافع کا احتمال ہے، یعنی نتائج مبہم اور مخفی ہوں، ان میں مشورہ کو اپنا معمول بنانا چاہیے۔ اس میں اتباعِ سنت کے علاوہ ہزار فوائد ہیں، اہلِ علم اور مشورہ کے پابند حضرات اس سے اچھی طرح واقف ہیں۔

مشورہ کن سے کیا جائے؟

          مشورہ ہمیشہ ایسے شخص سے کرنا چاہیے جس کو متعلقہ معاملے میں پوری بصیرت اور تجربہ حاصل ہو؛ چنانچہ دینی معاملات میں ماہر اور صاحب ِ نظر عالم ِ دین سے مشورہ کرنا چاہیے اور کسی بیماری اور جسمانی صحت کے بارے میں کسی اچھے ڈاکٹر کا انتخاب ہی مفید ہوگا۔ غرض جس طرح کا معاملہ ہے، اسی فن کے ماہرین اور تجربہ کار کا انتخاب کیا جائے؛ کیوں کہ تجربہ کے بغیر صرف عقل کامیابی سے ہمکنار نہیں کرسکتی، گویا مشورہ لینے کے لیے عقل اور تجربہ دونوں کا بیک وقت موجود ہونا نہایت ضروری ہے۔ ایک دوسرے کے بغیر صحیح رہنمائی نہیں مل سکتی۔ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر ارشاد فرمایا: اِسْتَشِیْرُوْا ذَوِيِ الْعُقُوْلِ تُرْشَدُوا وَ لَاتَعْصَوْھُمْ فَتَنْدَمُوا۔ (مسند ِ شہاب: ۶۷۳) ”عقلمندوں سے مشورہ کرو، کامیابی ملے گی اور ان کی مخالفت نہ کرو ورنہ شرمندگی ہوگی۔“ حضرت عبداللہ بن الحسن نے اپنے صاحبزادہ محمد بن عبداللہ کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا تھا: ”جاہل کے مشورہ سے بچو اگرچہ کہ وہ خیرخواہ ہو جیسا کہ عقلمند کی دشمنی سے بچتے ہو۔“ (المدخل: ۴/۲۹)

          کسی میں اگر عقل اور تجربہ نہیں ہے تو وہ مشورہ کا اہل بھی نہیں ہے، اگر اس سے مشورہ کیا جائے تو پہلے وہ مشورہ ہی کیا دے گا اور اگر مشورہ دے گا بھی تو اس مشورے سے کیا فائدہ؛ اس لیے مشورہ کے لیے عقلمند، ماہر اور تجربہ کار ہونے کی شرط لگائی گئی ہے۔ اسلام کی شورائیت اور موجودہ جمہوریت میں یہی بڑا فرق ہے کہ شورائیت کا تعلق اہلیت سے ہے اور جمہوریت کا اکثریت سے، جس پارٹی کو اکثر لوگوں نے منتخب کرلیا وہی حکمرانی کا حق دار ہے، چاہے ووٹ دینے والے پاگل اور دیوانہ ہی کیوں نہ ہوں، یہی وجہ ہے کہ جُمہوری نظام ایک تباہ کن نظام ہے، عقل و خرد سے اس نظام کا کوئی واسطہ نہیں ہے، اسلام نے اپنا نظام شورائیت پر رکھا ہے، یعنی ماہرین، تجربہ کار اور عقلمندوں کے مشورے سے کوئی فیصلہ صادر کیا جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم، حضراتِ شیخین، صدیق اکبر اور فاروقِ اعظم کی رائے کو جمہور صحابہ پر فوقیت دیتے اور آپ ان دونوں حضرات سے مخاطب ہوکر فرماتے: لَوِاجْتَمَعْتُمَا فِیْ مَشْوَرَةٍ مَاخَالَفْتُکُمَا۔ ”جب تم دونوں کسی رائے پر متفق ہوجاوٴ تو میں تم دونوں کے خلاف نہیں کرتا۔“ (مسند ِ احمد) معلوم ہوا کہ محض کثرت کا شریعت ِ اسلامی میں کوئی اعتبار نہیں، قوتِ عقل و بصیرت اہم چیز ہے۔

          اسی طرح مشورہ کے لیے ایسے شخص کا انتخاب کیا جائے جو متقی اور دیندار ہو، جس میں اللہ تعالیٰ کا خوف اور عنداللہ جواب دہی کا احساس نہ ہو، اس کے مشورہ پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا، پتہ نہیں اس نے صحیح مشورہ دیا ہے یا نہیں، ممکن ہے کہ اس کے نزدیک دوسری رائے بہتر ہو اور محض نقصان پہنچانے کے لیے اس کو یہ رائے دی ہو؛ تاکہ مشورہ کرنے والے کو نقصان اور پریشانی میں دیکھ کر ہنسنے اور مذاق کا موقع مل سکے۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ پرانے زمانے کا کوئی بغض دل میں چھپا ہوتا ہے اور وہ موقع کی تاک میں رہتا ہے، غلط مشورہ دے کر نقصان پہنچانے میں وہی بدلے کا جذبہ کارفرما ہوتا ہے؛ لیکن جب آدمی میں اللہ تعالیٰ کا خوف ہوگا تو اس طرح کے احتمالات اور امکان سے دل مطمئن ہوگا، اسی لیے اہل علم نے لکھا ہے کہ مشورہ دینے والے کو دیکھنا چاہیے کہ اس میں ہمدردی کا جذبہ ہے یا نہیں، اگر ہمدردی کا داعیہ نہیں بالخصوص مشورہ لینے والے کے حق میں مشیر کا دل حسد و کینہ اور بدخواہی سے پُر ہو تو اس سے مشورہ ہرگز نہیں لینا چاہیے، اس کا مشورہ سم ِ قاتل سے کم نہیں ہوگا۔

          مشورہ لینے کے لیے یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ مشیر فکر و نظر کے اعتبار سے صالح ہے یا نہیں، جذباتی انسان کا مشورہ معتبر نہیں ہوسکتا ہے؛ اس لیے کہ ایسے شخص کا مشورہ اس امکان سے خالی نہیں کہ غیظ و غضب میں مبتلا ہوکر یا جذبات کے رَو میں بہہ کر اس نے یہ رائے دی ہو، اسی طرح جس کا قلب ایسے ہجوم و افکار سے خالی نہ ہو جن کی وجہ سے دماغ پریشان اور قلب مشغول ہوجاتا ہے، ان سے بھی مشورہ طلب نہیں کرنا چاہیے؛ اس لیے کہ وہ اس پوزیشن میں ہے کہ اپنی پوری عقل لڑاکر اس کی تمام جہتوں پر غور کرسکتا ہے اور نہ ہی مستشیر کی رہبری کرسکتا ہے۔

          جس کا مفاد وابستہ ہو اس سے بھی مشورہ نہ کیا جائے، جیسے کسی دکاندار سے کسی چیز کے خریدنے کے بارے میں اگر پوچھا جائے گا تو وہ اس کی بہت ساری خوبیاں بیان کردے گا؛ کیوں کہ وہ جانتا ہے کہ اس سامان کے فروخت ہونے میں اس کے منافع پوشیدہ ہیں؛ اس لیے اس سامان کے کمزور پہلووٴں کو وہ پردہٴ راز میں رکھتا ہے۔ مشورہ لینے والے کو چاہیے کہ سوچ سمجھ کر مشیر کا انتخاب کرے، ورنہ مشورہ سے فائدہ کے بجائے نقصان پہنچا سکتا ہے۔

مشیر کے فرائض

          (۱) جس معاملہ میں اس سے مشورہ لیا جارہا ہے ، اگر اس میں مکمل بصیرت ہو تو مشورہ دے، ورنہ صاف کہہ دے کہ مجھے اس بارے میں کوئی جانکاری نہیں ہے ؛ اس لیے میں مشورہ کا اہل نہیں ہوں ، یہ کوئی ہتک اور بے عزتی کی بات نہیں؛ بلکہ اس کے اخلاص اور جذبہٴ ہمدردی کی بنیاد پر اجر وثواب کا مستحق ہوگا ، مشورہ لینے والے کا بھی اعتماد بڑھ جائے گا اور اسے یقین ہوجائے گا کہ یہ میرے حق میں مخلص ہے ، آج کل لوگوں کا یہ مزاج ہے کہ کچھ آئے یا نہ آئے مشورہ لیتے وقت ضرور کچھ نہ کچھ جواب اور مشورہ دے دیتے ہیں ، یہ دیانت کے خلاف ہے۔

          (۲) غور و فکر کے بعد مشیر کا ذہن جس طرف مائل ہورہا ہے ، کسی رعایت کے بغیر صاف طور پر اس کا اظہار کردے ، یعنی مشیر کا ایک اہم فریضہ یہ بھی ہے کہ اسے اپنے بھائی کا حق سمجھتے ہوئے صحیح مشورہ دے ، رسولِ اکرم ا نے جان بوجھ کر کسی کے معاملہ کو بگاڑنے کے لیے یا کسی کا نقصان کرانے کے لیے مشورہ دینے کو خیانت اور گناہ قرار دیا ہے ارشاد ہے : ”مَنِ اسْتَشَارَ أخَاہُ فَأشَارَہ عَلَیْہِ بِأمْرِہ وَھُوَ یَرَیٰ الرُّشْدَ غَیْرَ ذٰلِکَ فَقَدْ خَانَہ “ (مسند احمد) ” جس نے اپنے بھائی سے مشورہ کیا اور اس نے اسے کوئی ایسا مشورہ دیا جس کے علاوہ میں وہ کامیابی سمجھتا ہو تو اس نے اس کے ساتھ خیانت کی۔ “ مشورہ دینے میں اس بات کی ہرگز پرواہ نہ کرے کہ اگر میں اس کو یہ مشورہ دوں گا تو شاید اس کا دل ٹوٹ جائے گا ، یہ مجھ سے ناراض اور رنجیدہ ہوجائے گا ۔ کیوں کہ مشورہ طلب کرنے کے بعد اس کی گنجائش نہیں رہتی کہ خوش کرنے کے لیے غلط اور خلافِ حقیقت رائے دی جائے ، کسی انسان کی نہیں؛ بلکہ اللہ کی رضا مندی اور ناراضگی کا خیال رکھے اور جو مشورہ ذہن میں آئے دو ٹوک انداز میں بیان کردے ۔ اس کے ذیل میں علماء اور فقہاء نے اس بات کی بھی صراحت کی ہے کہ صحیح مشورہ دینے میں اگر کسی کی غیبت بھی ہورہی ہو تو بھی صحیح بات بتائے ، شرعاً ان مواقع میں غیبت معاف ہے ۔ مثلاً رشتہ کے لیے کسی لڑکی یا لڑکے کے بارے میں سوال کیا جائے ، اگر اس میں کوئی عیب ہے اور آپ کو معلوم ہے تو مشورہ لینے والے کو ضرور مطلع کردینا چاہیے اور اس موقع پر اظہارِ عیب معاف ہے؛ کیوں کہ یہاں کسی کی زندگی کے بننے اور بگڑنے کا مسئلہ ہے ۔

          (۳) مشورہ دینے والے کی ذمہ داری ہے کہ جس معاملہ میں مشورہ لیا گیا ہے ، اس کو راز میں رکھے ، لوگوں کے سامنے اس کو ظاہر نہ کرے ، جیسے کسی نے اپنی بیوی کے کسی معاملہ کے بارے میں مشورہ کیا یا لڑکی اور لڑکے کے رشتہ یا کسی اور معاملہ میں رائے معلوم کی تو گویا یہ مشیر اور مستشیر کے درمیان ایک راز کی بات ہوگی ، ہوسکتا ہے کہ مشورہ لینے والا چاہتا ہو کہ اس کی یہ باتیں مشیر کے علاوہ دوسروں تک نہ پہنچے ، دوسروں کے سامنے بیان کرنے سے یقینا اس کو تکلیف پہنچے گی اور یہ خیانت کا معاملہ ہوگا ، رسولِ اکرم ا نے ارشاد فرمایا ”اَلْمُسْتَشَارُ مُوٴتَمِنٌ “ ( ترمذی ) یعنی جس شخص سے مشورہ کیا جاتا ہے وہ امانت دار ہوتا ہے ، اسے امانت داری کا پورا حق ادا کرنا چاہیے۔ آج کل دیگر خرابیوں کے ساتھ ایک خرابی یہ بھی ہے کہ کسی کے راز کو راز نہیں سمجھا جاتا ، کسی کے بارے میں کوئی چیز معلوم ہوتی ہے تو فوراً اسے عام کرنے کی فکر ہوجاتی ہے اور پھر اس کے نتیجے میں جھگڑے، فسادات دشمنیاں اور ناچاقیاں پھیلتی ہیں ، ضرورت ہے کہ دلوں میں اللہ کا خوف پیدا کیا جائے اور اتحاد و یگانگت کا ماحول بنایا جائے ۔

          (۴) مشیر کا کام ہے صرف مشورہ دینا ، اصرار یا رائے تھوپنے کا مزاج درست نہیں ہے، مشورہ لینے والے کا مقصد ہوتا ہے کہ مختلف جہتوں سے معاملہ کو پہچانا اور جانا جائے پھر غور و فکر کے بعد کسی ایک پہلو کو اختیار کیا جائے ، ظاہر ہے کہ مشورہ طلب کرنے والا مشورہ میں شریک تمام افراد کی رایوں اور خیالات پر عمل نہیں کرسکتا ، وہ صرف اپنے ذاتی حالات کے اعتبار سے صرف کسی ایک کی رائے کو پسند کرسکتا ہے؛ اس لیے اگر کسی کے مشورہ پر عمل نہ کیا جائے تو اس سے دل گیر اور رنجیدہ نہیں ہونا چاہیے ، خوش دلی اور خندہ پیشانی سے مشورہ کرنے والے کے فیصلہ پر رضامندی کا اظہار کیا جائے ، حضرت بریرہ کا نکاح حضرت مغیث سے ہوا تھا ، حضرت بریرہ پہلے باندی تھیں ، جب وہ آزاد کی گئیں تو رسولِ اکرم ا نے شریعت کا حکم سنایا کہ تمہیں اختیار ہے چاہو تو اپنے شوہر کے نکاح میں رہو اور چاہو تو علاحدگی اختیار کرلو ، حضرت بریرہ شوہر سے خوش نہیں تھیں؛ اس لیے انہوں نے علاحدگی کا ارادہ کرلیا ، ان کے شوہر حضرت مغیث کو ان سے کافی محبت تھی ، وہ چاہتے تھے کہ بریرہ علاحدگی اختیار نہ کریں ، حضرت مغیث نے بہت کوشش کی؛ مگر وہ تیار نہ ہوئیں ، بالآخر نبیِ کریم ا سے حضرت مغیث نے سفارش کرائی ، حضرت بریرہ نے سوال کیا یا رسول اللہ ! یہ آپ کا مشورہ ہے یا حکم ہے ؟ اگر حکم ہے تو سرتابی کی مجھے جرأت نہیں ، آپ  نے فرمایا کہ یہ حکم نہیں مشورہ ہے ، حضرت بریرہ نے عرض کیا پھر تو میں آزاد ہوں کہ اس مشورہ کو قبول کروں یا نہ کروں ، میری زندگی ان کے ساتھ گزرنی مشکل ہے؛ اس لیے میں ان سے علاحدگی اختیار کرتی ہوں آپ نے فرمایا: ٹھیک ہے ۔ (مشکوٰة: ۲۷۶)

          حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ صائب الرائے کون ہوسکتا ہے؛ لیکن چوں کہ مشورہ تھا؛ اس لیے حضرت بریرہ کے نہ ماننے پر آپ نے کسی طرح ناراضگی ظاہر نہیں کی، موجودہ دور کے لیے یہ حدیث بڑی سبق آموز ہے ، ذاتی رائے کو عام لوگوں پر مسلط کرنے کا مزاج عام ہوگیا ہے، جس کے سبب بدنظمی اور بدعنوانی کا ہر طرف ایک سیلاب ہے۔ اپنی رائے کو محض ایک معمولی رائے سمجھنا چاہیے، نہ کہ قولی فیصلہ؛ تاکہ مشورہ کاحقیقی فائدہ حاصل ہوسکے ۔

مشورہ میں عمر کی قید نہیں

          ہر وہ شخص جس میں مشورہ کی اہلیت پائی جاتی ہو ، یعنی عقلمند تجربہ کار اور متقی وغیرہ ہو تو اس سے مشورہ لیا جاسکتا ہے خواہ عمر کم ہو یا زیادہ ، مشورہ کے لیے عمر کی کوئی قید نہیں ہے ، سیدنا حضرت عمر بن الخطاب بعض وقت حضرت عبد اللہ بن عباس کی رائے پر فیصلہ نافذ فرماتے تھے ، حالانکہ مجلس میں اکثر ایسے صحابہ موجود ہوتے تھے جو حضرت عبد اللہ بن عباس سے عمر، علم اور تعداد میں زیادہ ہوتے تھے ، معلوم ہوا کہ چھوٹوں سے مشورہ لینے میں کوئی حرج نہیں ہے ، یہاں یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ اگر مشورہ کی اہلیت رکھنے والے ضابطے کے بڑے موجود نہ ہوں تو اپنے اہل و عیال جن پر اعتماد ہو ان سے کم سے کم مشورہ ضرور کرلینا چاہیے ، انشاء اللہ، اللہ تعالیٰ غیب سے مشورہ کی برکت سے ضرور کوئی راستہ نکالے گا ، صلح حدیبیہ کے موقع پر جب کہ مسلمان عمرہ کرنے سے روک دیے گئے تھے ، حضورِ اکرم ا نے صحابہٴ کرام سے اسی مقام پر احرام کھولنے کا حکم دیا، مگر صحابہٴ کرام پس و پیش کررہے تھے ، آپ ا نے امّ المومنین حضرت امّ سلمہ سے مشورہ کیا ، انہوں نے فرمایا : یارسول اللہ ! یہ حضراتِ صحابہ جذبات اور جوش کے عالم میں مغلوب ہیں ، اس لیے ان کے طرزِ عمل کا کچھ خیال نہ کیجیے اور آپ خود پہلے اپنا احرام کھول لیجیے ، یہ مشورہ کامیاب ہوا، صحابہٴ کرام نے آپ کی اتباع میں احرام کھول دیا ۔ حضرت امّ ِ سلمہٴ آپ سے عمر میں چھوٹی اور بیوی تھیں پھر بھی ضرورت پڑنے پر آپ نے ان سے مشورہ کیا ۔

اگر مشورہ میں اختلاف ہوجائے

          کچھ لوگ اپنی عقل و دانش اور تجربہ و فن کے اعتبار سے ایک کام کو بہتر سمجھتے ہوں اور مشورہ میں شریک دوسرے افراد اس کو بہتر نہیں سمجھتے ہوں یا اس طرح کا اور کوئی اختلاف ہوجائے تو وہاں دیکھنا چاہیے کہ کون سی رائے قرآن و سنت کے مطابق یا قریب تر ہے، اس پر عمل کرلیا جائے ، اقلیت یا اکثریت کا شریعت میں کوئی اعتبار نہیں ، افراد کی کمی اور زیادتی پر نظر نہ رکھی جائے ، علامہ قرطبی لکھتے ہیں۔ ”وَالشُّوْریٰ مَبْنِیَّةٌ عَلٰی اخْتِلاَفِ الآرَاءِ وَالْمُسْتَشِیْرُ یَنْظُرُ فِیْ ذٰلِکَ الْخِلاَفِ وَیَنْظُرُ أَقْرَبَھَا قَوْلاً الٰی الْکِتَابِ وَالسُّنَّةِ انْ أمْکَنَہ فَاِذَا أرْشَدَہُ اللہُ تعالٰی الٰی مَا شَاءَ مِنْہُ عَزَمَ عَلَیْہِ۔“ (قرطبی: ۴/۱۶۲)

مانگے بغیر مشورہ دینا

          مشورہ طلب کیے بغیر از خود مشورہ دینا بہتر نہیں ہے، طرفہ کہتا ہے : نا اہل کے لیے اپنی ہمدردی خرچ مت کر جو شخص تیری رائے سے استغناء کرے تو اس سے بے پرواہ ہوجا! ( اسلام میں مشورہ کی اہمیت صفحہ ۱۰۷)؛ البتہ اگر مشیر یہ سمجھے کہ کوئی شخص غلط راہ پر چلنے سے ہلاکت میں پڑسکتا ہے اور اس کو یقین ہے کہ اگر میں نے سکوت اختیار کیا تو وہ تباہ و برباد ہوجائے گاتو اس وقت از خود بڑھ کر اظہارِ رائے کرنا اور صحیح راستہ بتانا ضروری ہوجاتا ہے ، جیسے ولایت و حکومت کی خواہش ممنوع ہے؛ مگر سیدنا حضرت یوسف علیہ السلام نے مصر کی حکومت طلب کی تھی؛ اس لیے کہ وہاں اصلاح اسی طریق سے ممکن تھی ۔

اللہ پر توکل

          اللہ تعالیٰ نے مشورہ کا حکم دیا ، ساتھ ہی یہ بھی فرمایا گیا کہ مشورہ کے بعد جس پہلو کو بھی اختیار کیا جائے، اس کے بارے میں اللہ پر توکل اور اعتماد رکھنا چاہیے؛ کیوں کہ مشورہ کا تعلق تدبیر سے ہے اور تدبیر پرتقدیر ہمیشہ غالب آتی ہے ، اصحابِ عقل اور اربابِ نظر و ماہرینِ فن کی رائے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ درست اور مثمر و منتج بھی ہو ، سب چیزیں اللہ تعالیٰ کے قبضہٴ قدرت میں ہیں؛ اس لیے ایک مسلمان کا کام ہے کہ مشورہ لینے کے بعد اس پر عمل کرتے ہوئے، اللہ تعالیٰ کی قدرت پر یقین اور اعتماد رکھے۔

%%%

 

-------------------------------------

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ 8-9‏، جلد: 98 ‏، شوال‏، ذی قعدہ 1435 ہجری مطابق اگست‏، ستمبر 2014ء