قرآن فہمی اور ہمارے درمیان حائل پردے

 

از: حکیم سید مزمل حسین نقشبندی

‏ مدیراعلیٰ: ماہنامہ علوم ربانیہ، لاہور

 

روایات میں آتا ہے کہ صحابہٴ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین قرآن کی ایک آیت سیکھتے، اس کو سمجھتے اس آیت میں بیان کردہ حکم کے مطابق اپنی زندگی ڈھا ل لیتے تھے۔ صحابہٴ کرام نے قرآن مجید میں تدبر کیا،اس کے معانی ومقصود کو سمجھا ،ا س کے مطابق عملی زندگی اختیار کی تو دنیا نے دیکھا کہ وہ قومیں جو باہمی انتشار وخلفشار کا شکار تھیں ، جو چھوٹی چھوٹی اور رذیل باتوں کی بنیاد پر سالہا سال میدان جنگ میں برسرِپیکار رہتیں اور بعض دفعہ تو سببِ جنگ بھی نہ ہوتا کہ محض انا پرستی کی خاطر کُشتوں کے پُشتے لگا دیے جاتے ، جو اتحادویگانگت جیسی دولتِ عظمیٰ سے محروم تھیں ، جو دل ہلادینے والی عادات وخرافات کا مظہر تھیں ، انھیں قوموں نے جب قرآن کے بیان کردہ طرزِ زندگی کو اپنایا ، کلامِ الٰہی کی معرفت اپنی زندگیوں کو قرآنی سانچے میں ڈھالا تو ان کا شمار دنیا کی بہترین قوموں میں ہونے لگا ۔ وہ قومیں دنیا میں ایسی چھائیں کہ ایک کونے سے لیکر دوسرے کونے تک اسلام کا پرچم لہرادیا۔ باہمی انتشار وخلفشار کو پسِ پشت ڈال کر مواخات کی شکل میں اتحادویگانگت کی ایسی فضا قائم کی کہ قیامت تک آنے والی قومیں حیران ہیں کہ یہ کیسا درس اور کیسا سبق تھا کہ ایک انصار ایک مہاجر کو اپنی بیوی تک کو عقد میں دینے کے لیے تیار ہے۔ رذیل عادات وخرافات کو خیرباد کہہ کر معرفتِ الٰہی کی جستجو میں ایسے غرق ہوئے کہ فرشتے ان پر رشک کرتے اور خلقِ آدم پر اعتراض کی بناء پر نادم وشرمندہ ہوکر پانی پانی ہوجاتے تھے۔ وہ نیک سرشت لوگ جانتے تھے کہ یہ حکیمانہ کتاب، زندگی کے تمام پہلووٴں کا احاطہ کیے ہوئے ہے اور زندگی کا کوئی پہلو اس سے مخفی نہیں ۔ اسی نظریے پر چلتے ہوئے انھوں نے زندگی کے ہر مسئلے کا حل اس کتاب میں ڈھونڈا اور ترقی کے اوجِ ثریا تک پہنچ گئے ۔

          آج مسلم امہ کی صورتحال عیاں ہے ۔ باہمی انتشاروخلفشار ، مسلم ممالک کی بگڑتی ہوئی سیاسی صورتحال،معاشی کیفیت، اپنوں کی غداری اور کفر کی یلغار ، عالمی طاقتوں کی ریشہ دوانیاں اور دنیا کے کونے کونے سے اٹھنے والے اسلام مخالف طوفان اسلام اور مسلمانوں کو ختم کرنے کا پیش خیمہ ہیں۔ قرونِ اولیٰ کی طرح آج بھی قرآن سے وابستگی ضروری ولازم ہوچکی ہے ۔ سچ جانو! ہم نے قرآن کو تدبر کی بجائے پس پشت ڈال دیا، فہمِ قرآن کی بجائے اپنے اور قرآن کے درمیان دبیز پردے حائل کر لیے جس کا خمیازہ بحیثیت مجموعی ہم بھگت رہے ہیں۔قرآن کی آیات پر عمل کرنے کی بجائے اُسے طاقِ نسیاں پر رکھ دیا۔ کفر کی کوششیں توبجا ،مسلمانوں کے ہی ایک مادیت پرست طبقے نے قرآن اور مسلم امہ کے درمیان دبیز پردوں کی ایک تہہ کھڑی کردی ہے ، نتیجتاً مسلم اُمّہ حکمرانی کی بجائے خود محکوم بن کر رہ گئی ہے ۔

          ذیل میں ہم قرآن فہمی اور تدبرِقرآن میں حائل پردوں کا ذکر کرتے ہیں:

          ۱- ہر اسلامی ملک میں اندرونی وبیرونی قوتوں نے مقدور بھر کوششیں کی ہیں کہ عملی زندگی کو قرآن کے بیان کردہ طرزِزندگی کی بجائے مغربی سیکولر ازم کے خطوط پر چلایاجائے نتیجتاً بعض جگہ ان کوششوں کو عملی جامہ پہنادیا گیا ہے،بعض جگہ جزوی کامیابی ملی جبکہ بعض جگہ کشمکش جاری ہے ۔

          ۲- جن ممالک میں سیکولرازم کی تبلیغ میں خاطرخواہ نتائج کے حصول میں غیرمعمولی رکاوٹیں ہیں ، وہاں فکر ونظر کے دائرہٴ کار میں رہ کر یہ سعی کی جارہی ہے کہ خود مسلمانوں کے اندر ہی سے ایسے افراد کو منتخب کیا جائے جو اسلام کے اساسی تصورات پر قدامت پرستی کالیبل چسپاں کرتے ہیں جس میں ٹی وی پر نمودار ہونے والے ’مشہور اسکالر ‘سرِفہرست ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ایسے ادارے قائم کیے جارہے ہیں جو ”قدامت پسند“ اسلام کے مقابلے میں ”ماڈرن اسلام“ تشکیل دینے میں مصروفِ عمل ہیں۔

          ۳- مسلم ممالک کی سیاسی صورتحال یہ ہے کہ آزادی سے قبل غیرمسلم حکومتوں کے شکنجے میں تھے اور اب آمریتوں کے زیرِتسلط آرہے ہیں ، ہر ملک میں آئے دن سیاسی وعسکری انقلابات واقع ہورہے ہیں ، دنیا کو اتحادویگانگت اور شورائیت کا درس دینے والی قوم اپنے پیش کردہ نظام کے نفاذ سے محروم ہے ۔ آئے دن اپنے ہاتھوں اپنی ہی قوتوں کی بربادی، عارضی اقتدار کی بھوک ، ایک مستقل عدمِ استحکام کا تصور ،بے یقینی کی کیفیت کا تسلسل ، کشتیِ جمہوریت کا نت نئے طوفانوں سے ٹکراوٴ اور پھر ان حالات میں مسلم ممالک کو توڑنے اور منقسم کرکے داخلی وخارجی سازشیں تدبرِقرآن اور فہمِ قرآن میں بہت بڑی رکاوٹ ہیں۔ اس سلسلے میں ہم ان سنگین حادثات کو نظرانداز نہیں کرسکتے جو عالمِ اسلام کے مختلف گوشوں میں اسلامی تحریکا ت کو کچلنے اور ان تحریکات کو فعال اور متحرک بنانے والی شخصیات کو موت کے گھاٹ اتارنے کی شکل میں پیش آتے رہے ہیں۔ان سنگین حادثات کی کڑیاں یا تو اسلام دشمن قوتوں سے ملتی ہیں یا ایسے نام نہاد اور مادیت پرست مسلم عناصر سے جو کفر کے ٹکڑوں پر پلے ،پڑھے اور بڑھے ہیں۔ ایسے واقعات نے عام مسلمانوں کو قرآن جاننے ، سمجھنے اور اس کے اجتماعی نظام کے علمبردار بن کر کام کرنے سے خوفزدہ کردیا ہے ۔ وہ قرآن کو پڑھنے ، سمجھنے ، اس پر عمل پیرا ہونے اور اس کی دعوت دینے والوں کا انجام دیکھ کر غیرشعوری طور پر ڈر گئے ہیں۔

          ۴- مسلمانوں کے نئے افکار کا جائزہ لیتے ہوئے ہم ادب کے محاذ کو نظر انداز نہیں کرسکتے ۔ ہمارا جدید ادب پوری دنیائے اسلام میں ایسے عناصر کے تصرف میں ہے جو اس میں ملحدانہ افکار کا زہر مسلسل بھرتے آرہے ہیں ۔ عام مسلم قاری اس زہرخورانی کا نہ صرف خوگر ہوگیا ہے؛ بلکہ ان خیالات کی خوراکیں نگل کر فخرومسرت محسوس کرتا ہے ۔ کہیں خدا کی ہستی کا مذاق اڑایا جاتا ہے اور کبھی ایک شریف انسان کو بدمعاش ثابت کردیا جاتا ہے ۔ کہیں پیروانِ مذہب کے کردار کو دوغلااور کھوٹا بناکر پیش کیاجاتاہے اور کہیں حاملانِ لوائے الحمد کے کرداروں کی خاک اڑائی جاتی ہے۔ ایسے ایسے موضوعات کو منتخب کیاجاتا ہے کہ جن کو پڑھنے سے خدا پرستی اور مذہب سے نفرت وبیزاری پیدا ہو۔ دوسری طرف ان تمام چیزوں کو خوشنما بنا کر شعروشاعری ، صورت گری وافسانہ نگاری میں لایاجاتا ہے جو قرآن کے بیان کردہ حقائق کی روشنی میں محسوس اور غیر محسوس طور پر ضرررساں ہیں۔ جدید ادب ہر مذہب پسند آدمی پر ”مُلاّ“ کا لیبل چسپاں کرکے اُسے سامانِ تمسخر اور ہدفِ تحقیر بناتا ہے اور اس کے ساتھ وہ ان ادبیات کو ترقی پسندی کے مرتبہ پر رکھتا ہے جو ہمارے مذہبی رجحانات سے صریح متصادم ہیں اور جو لوگ اسلامی نظریات، اصول واقدار کو محورِ فکر بناکر پاکیزہ تعمیری ادب کی تشکیل کرتے ہیں، وہ رجعت پسندی اور قدامت پسندی کے گنہگار ٹھہرتے ہیں۔ ایسا اد ب پڑھنے والے عام قارئین جب سالہا سال سے مخالفِ قرآن افکار کی زد میں رہتے ہیں تو آہستہ آہستہ ان کی ذہنیت اس سے ضرور اثرانداز ہوتی ہے ۔ اس حوالے سے ہمارا جدید ادب بھی تعلق بالقرآن میں ایک دبیز پردے کی صورت میں حائل ہوگیا ہے ۔

          ۵- قرآن جو دنیا پرستی کے مختلف مسالک کے خلاف تحریک اٹھانے کے لیے اُترا ہے ، آج مادیت پرستی اور دنیا پرستی کی تیز لہریں اس کے سامنے حائل ہورہی ہیں۔ صنعتی انقلاب اور سائنسی ایجادات سے انکار ممکن نہیں ، اسی طرح موٹر اور مشین سے کام لینا بھی ضروری ہے؛ لیکن بہ حیثیت حاملِ قرآن جب ہم دیکھتے ہیں کہ دولت ومادیت کا یہ سیلاب اپنے ساتھ بدترین مفاسد بھی لارہا ہے تو یہ صورتِ واقعہ بڑی تشویشناک ہوجاتی ہے۔ اس سیلاب کے ابتدائی ہلکے ہلکے ریلوں کو دیکھ کر علامہ اقبال نے پوری قوم کو متنبہ کیا تھا؛ مگر ہماری غفلت سے یہ نہ صرف مزارِاقبال سے گزر گیا؛ بلکہ اس کی اونچی ہوتی ہوئی لہریں ہمارے سروں پر سے بھی گزر گئی ہیں۔ اس کا عجب کرشمہ ہے کہ ہماری زندگی کا ایک سرا ترقی جبکہ دوسرا سرا محرومی ہے ۔ صنعتی انقلاب نے درمیانے طبقے کو پیس کر رکھ دیا ہے ، اس نے طبقاتی تقسیم پیدا کردی ہے ، فردفرد اور گروہ گروہ کو آپس میں مسابقت اور کشمکش میں لگادیا ہے ۔ ہر شخص پیسے کے حصول کے لیے اندھا دھند توڑرہا ہے ، ذریعہٴ عزت وتحفظ اور تمام اخلاقی قدروں اور انسانی روایتوں کا ٹھیکے دار فقط پیسہ ہی رہ گیا ہے ۔ مضمونِ حیات کا اب یہی عنوانِ واحد بچا ہے ۔ بینکوں ، کاروں ، کوٹھیوں ، بھاری کارخانوں ، محل نما ہوٹلوں اور بھاری بھرکم طیاروں کے درمیان گھرا ہوا انسان اپنے آپ کو بے وقعت محسوس کرتا ہے ۔ اکثر لوگوں کا سارا وقت اور سارا قویٰ دولت نے اس طرح جذب کرلیا ہے گویا اب یہی ان کا خدا ہے ۔ اب ترقی کا وہ متوازن تصور ذہنوں سے غائب ہورہا ہے ، جس میں معاشی واخلاقی ترقی اور جسم وروح دونوں کی فلاح شامل ہو۔ ایمان،مذہب ، روحانیت اور اخلاقیات کی باتیں گویا اب مانعِ ترقی ہیں ۔ اب ہر وہ شخص پاگل ، بے وقوف اور قدامت پرستی کا مریض سمجھاجاتا ہے جو مادی ترقی کے ساتھ روحانی واخلاقی ترقی کا متوازی طور پر جاری رہنا ضروری قرار دیتا ہے مادیت پرستی اور پیسے کی اس دوڑ نے توجیہہ الی القرآن کو پسِ پشت ڈال دیا ہے ۔

          ۶- مذکورہ رذائل کے ساتھ ایک انتہائی خطرناک ،عدم توجہہ الی القرآن کے لیے موٴثر کن ”بدن پرست ثقافت“ حریمِ امت مسلمہ بن گھس آئی ہے ۔ وہی ثقافت جس نے مغربی انسانیت کو گھن کی طرح کھاڈالا ہے ۔ گندی فلمیں شراب وکباب ، رقص وسرود، میلے ٹھیلے، مخلوط تقاریب ، ہوٹل بازی ، مخلوط نظامِ تعلیم ، بدنگاہی وآوارگی، ننگی تصاویر ، خواتین کی بے پردگی اور تنگ لباسی ، کپڑوں اور بالوں کے فیشنوں کی وبا ، فحش وعریاں سائن بورڈ، ہر بڑے چوک پر لگی خواتین کے نیم برہنہ فوٹوز وغیرہ ۔ حجاب سے اظہارِبیزاری ، شہوت انگیزفلمیں وڈرامے، نشہ آور ادویات ، کاروباری اداروں میں گاہکوں کی توجہ کے لیے لڑکیوں کا تقرر ،ان سارے امراض کے ساتھ پھر فیملی پلاننگ کی ’مقدس تعلیم“ کو عام کرنے کے لیے میڈیا کا آزادانہ استعمال ۔ یہ سب کچھ اسلام کی ثقافت نہیں کہلاسکتا اورکوئی بھی تاویل اس رنگِ ثقافت کو ”صبغة اللہ“ قرار نہیں دے سکتی۔ کوئی شخص ،خاندان یامعاشرہ مغرب کی اس ثقافتِ فسق وفجور میں مبتلا ہوکر فہمِ قرآن اور تدبر قرآن کی طرف مائل نہیں ہوسکتااور سچ یہ ہے کہ اس کے لیے حقائق ومعارف کے دروازے ہی بند کردیے جاتے ہیں۔

          ۷- ہمارے ہاں کے مذہبی اداروں اور دین کی نمائندگی کرنے والے علماء میں سے تھوڑی سی مقدار کے استنثاء کے ساتھ بقیہ حضرات چھوٹے چھوٹے فروعی اور فقہی مسائل پر آپس میں نبردآزما ہیں ۔ مسجد ومحراب سے آیات واحادیث پڑھ کر ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالی جاتی ہے۔ غضب آلود تقریروں کے جھکڑ چلتے ہیں اور تکفیر وتفسیق کا غبار اڑایا جاتا ہے ۔ دنیا کو حسنِ کلام ، آدابِ گفتار اور طریقِ اختلاف سکھانے والے غیرشائستہ لب ولہجہ اختیار کرکے خود اپنا وقار خراب کرتے ہیں۔ ان سطحی مناظروں اور فضول بحثوں نے عوام کو قرآن کے سادہ اور عام فہم حقائق سے دل برداشتہ کردیا ہے اور پڑھے لکھے لوگ ان ہنگامہ آرائیوں سے متنفر ہوکر سرے سے دین سے ہی دور ہوجاتے ہیں۔ افسوس کہ ایسے حاملینِ قرآن عوام وخواص کے لیے قرآن فہمی میں حائل ہوجاتے ہیں اور وہ بڑے بڑے مقاصد کے سامنے ہوتے ہوئے بھی چھوٹے چھوٹے جزئی اور فروعی امور میں ایک طوفان برپا کردیتے ہیں۔

          یہ وہ رکاوٹیں ہیں جنہوں نے قرآن کریم کو فصیل در فصیل قلعے میں محصور کردیا ہے ۔ اب جو شخص قرآن تک پہنچنا چاہے اس کے لیے ان فصیلوں کو پار کرنے کا کٹھن مرحلہ سرکرنا ضروری ہے۔ شعورِقرآن کے عام ہونے اور غلبہٴ قرآن کے کامیاب ہونے کا دور وہ ہوگا جب قرآن کو اس فصیل در فصیل قلعے سے باہر نکالاجائے گا۔

          اگر ہماری اپنی پیدا کردہ رکاوٹیں درمیان میں حائل نہ ہوں تو قرآن مقدس کی تعلیم کا مرکزی نقطئہ نظر نہایت جامع، نہایت مختصر آسان فہم اور بہت سادہ ہے جو تین بنیادی باتوں پر مشتمل ہے :

          (۱) ساری کائنات کا خالق ومالک فقط اللہ جَلَّ جَلاَلُہ ہے، اس کی کسی کے ساتھ شراکت داری نہیں ۔دنیا اس نے بنائی اور وہی اس کائنات کو ختم کرے گا۔ انبیاء، رسل، فرشتے ، کتب سماویہ ،جنت، جہنم اورتقدیر سب برحق ہیں۔ سجدہ اور عبادت کے لائق فقط وہی ذات ہے اور اس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے ۔

          (۲) حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول اور بندے ہیں۔ آخری نبی ہیں۔ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ نے آخری شریعت دے کر بھیجا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام حکموں کی اطاعت اور فرمانبرداری ایک مسلمان کے لیے فرضِ عین کا درجہ رکھتی ہے ۔ نماز ،روزہ ،حج، زکوٰة اور جہاد وغیرہ سمیت تمام امورِدین میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکموں کو پیش نظر رکھناتدبرِقرآن کا لازمی نتیجہ ہے ۔

(۳)     اسلام کا حکم ہے : لَا یَرْحَمُ اللہُ مَنْ لَایَرْحَم النَّاسَ جو لوگوں پر رحم نہیں کرتا خدا اس پر رحم نہیں کرتا ۔خالق کائنات (جل جلالہ )کی عبادت ، وجہ تخلیق کائنات( صلی اللہ علیہ وسلم) کی اطاعت کے بعد قرآن کریم کی آیات کا معانی ومفہوم مخلوقِ خدا کی خدمت ہے ۔چنانچہ مظلوم لوگوں کی دادرسی، بے کسوں کی مدد، مظلوموں کی نصرت اور لاوارثوں کی کفالت وہ مستحسن امور ہیں جن کی قرآن مقدس نے جگہ جگہ حوصلہ افزائی کی ہے ۔ پس وہ انسان دونوں جہانوں میں کامران ہوگیا جس نے قرآن کریم کی آیات میں غوطہ زن ہوکر اس کے اسرار ورموز اورمعانی ومطالب کو پالیااور خائب وخاسر ہوا وہ شخص جس نے قرآن کریم کی نورانی تعلیمات سے کنارہ کشی اور روگردانی کی۔

وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر

ہم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہو کر

 

%%%

 

--------------------------------------------

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ 8-9‏، جلد: 98 ‏، شوال‏، ذی قعدہ 1435 ہجری مطابق اگست‏، ستمبر 2014ء