مسائلِ کلامیہ کے باب میں مصنَّفاتِ امامِ نانوتویاستفادہ کا منہاج

 

از: ڈاکٹر مولانافخرالاسلام مظاہری علیگ‏، ایم․ ڈی میڈیسن

پروفیسر احمد غریب یونانی میڈیکل کالج اکل کوا        

 

حضرت شیخ الہند کی اُسی تحریک و ہدایت سے، جس میں حضرت نے طالبانِ حقائق اور حامیانِ اسلام کو فہمائش کی ہے کہ ”تائیدِ احکامِ اسلام اور مدافعتِ فلسفہٴ قدیمہ وجدیدہ کے لیے حضرت خاتم العلماء کے رسائل کے مطالعہ میں کچھ وقت ضرور صرف فرماویں اور پورے غور سے کام لیں اور انصاف سے دیکھیں کہ ضروریاتِ موجودہٴ زمانہٴ حال کے لیے وہ سب تدابیر سے فائق اور مختصر اور بہتر اور مفید تر ہیں یا نہیں“، اسی ہدایت و نصیحت سے متأثر ہوکر تصنیفاتِ نانوتوی سے استفادہ کے لیے دل میں ایک تحریض پیدا ہوئی۔

          اِن تصنیفات کا مطالعہ کرنے پر حضرت خاتم العلماء کی تقریر، تحریر، طرزِ استدلال اور اسلوبِ بیان کو دیکھ کر یہ اندازہ ہوا کہ اِن کتابوں میں شبہات واعتراضات کے کلی جواب ہی نہیں، بلکہ افکارِ حاضرہ کے حوالہ سے جزئیات وفروعات پر،اُن کا اطلاق بھی کیا گیا ہے، اسی طرح علمِ کلام کے حتمی و قطعی اصولوں پر تجزیاتی حیثیت سے نہ صرف سیر حاصل گفتگو موجود ہے؛ بلکہ احوالِ زمانہ کے تحت نئے علوم و فنون سے تعرُّض کرتے ہوئے، نئے اصول و کلیات کی وضع و تدوین بھی موجود ہے؛ اور ساتھ ہی زمانہٴ قدیم سے جاری و رائج متعین ومسلَّم اصولِ موضوعہ کی تہذیب وتشکیلِ نَو بھی۔

          البتہ مطالعہ کے دوران زبان اور اصطلاحات کا مسئلہ ضرور سامنے آیا۔ مولانا نانوتوی کی ایک خاص زبان، ایک خاص طرزِ ادا، ایک خاص طریقہٴ تعبیر اور مخصوص اصطلاحات ہیں؛ لیکن اس کے ساتھ ہی جب اس پر نظر کی، کہ عصرِ حاضر میں زبان کا مسئلہ، ایسا کوئی مسئلہ نہیں ہے جو استفادہ میں رکاوٹ بنے؛ کیوں کہ ادب و لسان کے ساتھ ہی علوم وفنون کے تنوُّع و توسیع، انقسام وانشعاب اور معیارات کے ”طبعی“، ”نفسی“ اور ”روحانی“ تفاوت کو دیکھتے ہوئے، سمجھ میں یہ آیا کہ صحیح قدر اور اصلی اہمیت تو فار مولہ اور اصول کی ہے، اس سے قطع نظر کہ کس زبان میں اور کس تعبیر میں ظاہر کیا گیا ہے؛ کیوں کہ پیش کیے گئے فارمولوں اور اصول سے اگر مقصود حاصل ہوتا ہو یعنی یہ کہ شبہات کو دور کیا جاسکتا ہو، ابہامات کورفع کیا جاسکتا ہو اور دینی و اعتقادی شبہات جوکہ روحانی امراض ہیں، اِن امراضِ متشابہہ کے مابین تشخیص فارقہ کی جا سکتی ہو، پھر اس فارمولے کو امثلہ، اجزاء اور خارجی تشکیکاتی حوادث پر منطبق کرکے دکھلایا جا سکتا ہو، تو جو شخص یہ کام کردے زمانہ اس کی قدر کرے۔ رہا مسئلہ تعبیرات و اصطلات کا تو اس کا تعلق متعلقہ علوم وفنون کی واقفیت سے ہے، رہیں مخصوص اصطلاحات تو ان کا فہم و ادراک تصانیف اور صاحبِ تصانیف سے مناسبت پر موقوف ہے۔ (۱)

تقریر، تحریر، طرزِ استدلال اور اسلوب بیان:

          مصنَّفاتِ امام قاسم نانوتوی کے متعلق یہ بات مشہور ہوگئی ہے کہ علومِ قاسمیہ جو تحریری شکل میں موجود ہیں، وہ بہت دقیق، انتہائی مشکل اور فہم سے بالا تر ہیں؛ لیکن مطالعہ سے یہ اندازہ ہو اکہ یہ بات علی الاطلاق تمام تصنیفات کے متعلق صحیح نہیں ہے؛ بلکہ بعض کتابوں کی نسبت ہی یہ بات درست ہے کہ وہ بہت مشکل ہیں،پھر اِن مشکل کتابوں کے متعلق بھی یہ دیکھنا ضروری ہے کہ ان کے مخاطب کون لوگ ہیں۔ ظاہر ہے کہ ایسی کتابوں کے مخاطب امام نانوتوی کی تعلیم و تربیت میں رہے ہوئے ذہین‘ ذی استعداد مخصوص تلامذہ اور علوم وفنون میں کمالِ درک رکھنے والے علماء ہیں۔یہ ایسے حضرات ہیں جو روحانیات، وجدانیات، علومِ ظاہرہ وباطنہ اور علومِ مکاشفہ ومعاملہ کے ماہر ہیں اور جن کے سامنے ایک طرف بو علی سینا کا نہ صرف فلسفہ، شفا اور اشارات؛ بلکہ القانون کے مضامین بھی بالکل پامال تھے، دوسری طرف شیخ الاشراق کی اشراقی روحانیت دست بستہ معذرت خواہ تھی، جن کے براہینِ قاطعہ کے سامنے صحیفہٴ فطرت کے رازہائے سربستہ سے پردہ اٹھانے والے، خود اپنے وضع کردہ فطری قوانین پر نظرِ ثانی کرنے یا کم از کم اُن کے ”ضروری“ ہونے کے دعویٰ سے دست کش ہونے کے لیے مجبور تھے(۲)، وہ ”مطالبِ عالیہ“اور ”معارج القدس“ کے عبور کرنے کے ساتھ ساتھ ”منقذ من الضلال“ سے آگاہ تھے؛ اسی لیے اُن کے ہاں ایک طرف ابن العربی کے ”مثالی“، ”ملکوتی“، ”لاہوتی“ انکشافات وتحقیقات کی توجیہات موجود تھیں، تو دوسری طرف مجدد الفِ ثانی کے وحدة الشہود اور حضرت حاجی امداداللہ مہاجر مکی کے وحدة الوجود کے مابین تناقض مرتفع تھا۔

          ایسے حضرات کے سامنے جب مولانا محمدقاسم نانوتوی تقریر کرتے یا درس دیتے تو اس وقت افادہٴ علوم کی عجیب شان ہوتی، حسبِ تصریح حضرت مولانا محمد یعقوب صاحب نانوتوی(۳) ”عجائب وغرائب تحقیقات ہر فن میں بیان فرماتے۔“ ”اس طرح کے مضامین بیان فرماتے کہ نہ کسی نے سنے اور نہ سمجھے۔“(۴) مولانا تھانوی نے یہ حکایت ذکر کی ہے کہ” ایک صاحب سے جنہوں نے مولانا موصوف اور حضرت حاجی صاحب کا درس مثنوی سنا تھا، کسی نے پوچھا کہ حضرت مولانا محمد قاسم صاحب اور حاجی صاحب کے مثنوی پڑھانے میں کیا فرق ہے؟ کہا کہ حضرت حاجی صاحب تو مثنوی پڑھاتے تھے اور مولانا نہ معلوم کیا پڑھاتے تھے۔“ (۵) درس کی کیفیت بیان کرتے ہوئے حضرت مولانا یعقوب نانوتوی نے یہ صراحت کی ہے کہ جب خواص اہلِ فہم کو درس دیتے تھے تو ”جو شخص طبّاع اور پہلے سے اصل کتاب سمجھا ہوا ہو، تب مولوی صاحب (امام نانوتوی) کی بات سمجھ سکتا تھا۔ حضرت شیخ الہند جو حضرت امام قاسم نانوتوی کے تین نہایت ممتازشاگردوں میں سے ایک ہیں(۶)، کا بیان کردہ یہ واقعہ بھی اہمیت کا حامل ہے جس کے راوی مولانا مناظر حسن گیلانی ہیں، وہ کہتے ہیں ”آدمی اپنے تجربہ اور مشاہدہ کا کیا کرے، حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن فرمایا کرتے تھے کہ ”دیکھ کر حضرت نانوتوی کے درس میں حاضر ہوتا اور وہ باتیں پوچھتا جو حضرت شاہ (ولی اللہ) صاحب کے کتب میں مشکل ہوتی تھیں“؛ لیکن”شاہ صاحب کی کتاب میں جو انتہائی جواب ہو تا تھا حضرت نانوتوی اول ہی دفعہ میں فرما دیا کرتے تھے۔“(۷)

          علوم کی یہی شان شاگردوں کو لکھے مکاتیب میں جھلکتی ہے، مفتی سعید احمد پالنپوری مدظلہ فرماتے ہیں:

          ”چوں کہ آپ کے تلامذہ نہایت ذکی اور صاحبِ علم تھے؛ اس لیے ان کے نام صادر ہونے والے مکاتیب نادر مضامین پر مشتمل ہوتے تھے؛ مگر ساتھ ہی نہایت مختصر اور بے حد دقیق بھی ہوتے تھے، یوں سمجھئے کہ صرف اشاروں میں باتیں ہوتی تھیں۔“ (۸)

          اِس سے یہ بات بھی معلوم ہوگئی کہ علومِ قاسمیہ کے دقیق ومشکل ہونے کی جو شہرت ہے، وہ بے حقیقت نہیں ہے؛ کیوں کہ جہاں تک تصنیفاتِ امام نانوتوی کے مشکل ہونے کی بات ہے، تو اس میں شک نہیں کہ بعض کتابیں یقینا بہت زیادہ دقیق بلکہ اَدق ہیں۔ ان میں پہلا نمبر ”آبِ حیات“ کا ہے، جس کے متعلق سنا یہ گیا ہے کہ حضرت شیخ الہند نے مصنفِ علام سے سبقاً سبقاً پڑھی؛ اور یہ بھی سنا گیا کہ شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانی نے یہ کتاب چودہ مرتبہ پڑھی۔(۹) اس کے علاوہ اَدق ترین کتابوں میں ”قبلہ نما“ ہے، جس کے متعلق مفتی صاحب موصوف لکھتے ہیں کہ ”آخر کے تین رُبع بے حد مشکل ہیں․ ․ ․ ․ ․ ․ حضرت مولانا اشتیاق احمد صاحب نے اِس کی قابلِ قدر خدمت کی ہے؛ مگر اس سے کماحقہ کتاب حل نہیں ہوئی۔“ اَدق کے بعد نمبر دقیق کا ہے، حضرت نانوتوی کی دقیق کتابوں میں ”تقریر دل پذیر، براہینِ قاسمیہ، مکاتیبِ قاسم العلوم، الخط المقسوم من قاسم العلوم“ شامل ہیں۔ اِن دقیق کتابوں میں علومِ عالیہ اور حکمتِ قاسمیہ جس شکل میں محفوظ ہیں، اُسے ایک بلیغ تمثیل کے پیرایہ میں حکیم الاسلام قاری محمد طیب صاحب نے ظاہر فرمایا ہے کہ ”یہ حکمت ایک ایسے عظیم اور زرخیز ملک کی مانند ہے جس میں زندگی کی تمام ضروریات نہایت ہی منظم طریق پر مہیا ہوں اور خزائن و دفائن کی کمی نہ ہو، وسائلِ نقل وحرکت سب جمع شدہ ہوں؛ مگر ملک میں پہنچنے کا راستہ گم، نہایت پیچیدہ اور دشوار گزار ہو، نہ راستہ کے نشانات ہوں جن سے کوئی راہ قطع کرسکے، نہ علائم و آثار ہوں، جن سے ملک کی زرخیزی اور آبادی کا پتہ چلتا ہو کہ نفع اٹھانے والے اُس کی طرف متوجہ ہوں اور سوائے مخصوص باخبر لوگوں کے، عامة الناس میں نہ کوئی اس ملک سے باخبر ہو، نہ اس میں پہنچ سکنے کی راہ پاتا ہو؛ ٹھیک اسی طرح حکمتِ قاسمیہ کے علوم و معارف کے بھرپور خزانوں کا ایک ملک ہے؛ مگر اُس تک پہنچنے کے نشاناتِ راہ، عنوانات، مضامین، ضروری تشریحات، فُٹ نوٹ، علوم کی فہرستیں اور تراجم وغیرہ نہ ہونے کے سبب عامہٴ علماء بھی اس سے مستفید نہیں ہوسکتے۔ تابعوام چہ رسد“(۱۰)لیکن دوسری طرف حال یہ ہے کہ نہ صرف اِن دقیق و اَدق کتابوں میں؛ بلکہ امام المتکلمین کی تمام تصنیفات میں یہ بات پائی جاتی ہے کہ خواص علماء جو ان تصنیفات سے مستفید ہوتے ہیں، وہ اِن کتابوں میں پائے جانے والے علوم و حِکم، دلائل و نتائج کے متعلق یہ محسوس کرتے ہیں کہ ان میں :

          ”مقدمات کی ترتیب طبعی، کہ اہم سے اہم نتائج گویا خود بخود نکلنے کے لیے اُبھر رہے ہیں، تقریر استدلالی، نہایت مرتب جو ذہن کو اپیل کرتی ہو، اس کی گہرائیوں میں اتر جاتی ہے اور ساتھ ہی حضرت والا کا شاخ در شاخ بیان مسئلہ کے تمام شقوق و جوانب پر اتنا حاوی اور اس کے تمام گوشوں کا اس درجہ واشگاف کنندہ ہوتا ہے کہ اس سے صرف وہی ایک زیر بحث مسئلہ حل نہیں ہوتا بلکہ اس کے سیکڑوں امثال جو اُس کی زد میں آجائیں خواہ وہ کسی دوسرے ہی باب کے ہوں، اس اصولی طرزِ بیان سے حل ہوتے چلے جاتے ہیں؛ بلکہ قلوب پر کتنے ہی علوم و معارف کے دروازے کھلتے جاتے ہیں، جن سے نئے نئے مسائل کا راستہ بھی ہموارہوتا چلا جاتا ہے۔ اِس صورتِ حال سے آدمی یہ ماننے پر مجبور ہوتا ہے کہ شریعت کے اِس جزئیہ کی پُشت پر عقلی کلیات کی کس قدر کمک موجود ہے اور کتنے کلیے اور عقلی اصول اس ایک جزئیہ میں اپنا عمل کر رہے ہیں جس سے وہ عقلی ہی نہیں، طبعی نظر آنے لگتا ہے۔ بقول حضرت عارف باللہ مولانا محمد یعقوب صاحب (اولین صدر مدرس دارالعلوم دیوبند) کہ حضرت والا (امام قاسم نانوتوی) کے دماغ کی ساخت ہی خلقی طور پر حکیمانہ واقع ہوئی تھی؛ اس لیے بلااختیار ان کے دماغ میں حکمت ہی کی باتیں آسکتی تھیں، جس سے ان کے ہاں جزوی مسائل کا کلام بھی کلیاتی رنگ اختیار کرکے ایک کلیہ بن جاتا تھا۔ اور اس سے وہی ایک جزئیہ نہیں؛ بلکہ اس جیسے سیکڑوں جزیئے حل ہو جاتے تھے، اور اوپر سے ان کا وہ کلی اصول کھل جاتا تھا، جس سے اس جزئیہ کا نشوونما ہوا ہے۔“

          ”بہرحال شرعی جزئیات کو اُن کے عقلی کلیات کی طرف راجع کرنا اور کلیات سے نادر جزئیات اور مقاصدِ دین کا استخراج کرلینا، یا متعدد جزئیات کے تتبع و استقرا سے ایک کلی اصول قائم کرکے ہزاروں جزئیات کا اس سے فیصلہ کردینا، آپ کا خاص علم اور علم کا خاص امتیازی مقام ہے۔“(۱۱)

          یہ تو وہ علومِ عالیہ ہیں جن کے مخاطب خواص علماء ہی ہو سکتے تھے؛ لیکن ان کے علاوہ حضرت نانوتوی کے ایک قسم کے علوم وہ بھی ہیں جو احکامِ اسلام کی صیانت، ضروریات و معتقداتِ دین کی حفاظت اور غیروں کے حملہ کے مقابلہ میں اسلام کے دفاع کے نقطہٴ نظر سے مدوّن ہوچکے ہیں، اور ان علوم کی شان یہ ہے کہ وہ علماء کے لیے جس طرح عہدِ قاسمی میں مفید تھے، اسی طرح آج بھی نہ صرف مفید ہیں؛ بلکہ ان کی ضرورت آج کے دور میں زیادہ بڑھ گئی ہے؛ کیوں کہ آج منطقی جواب، عقلی استدلال اور قطعی اصولوں پر مبنی نتائج ہی لوگوں کومطمئن کرسکتے ہیں۔ اِس لحاظ سے امام نانوتوی کے یہ علوم اسلام کا حفاظتی آہنی قلعہ ہیں اور خواص اور علماء کے لیے مولانا تھانوی کی صراحت کے مطابق نہایت درجہ مفید اور ضروری ہیں۔ (۱۲)

          اسی کے ساتھ ایک قسم کے علوم وہ بھی ہیں جو مواعظ وخطابات کے حوالہ سے جانے جاتے ہیں، ان کی افادیت عجیب ہے۔ حسب تصریح مولانا مناظر احسن گیلانی، افکار کی اصلاح، عقائد وخیالات کی تصحیح کے تعلق سے ”سہارنپور، دیوبند، میرٹھ خورجہ، رامپور، شاہجہاں پور، روڑکی وغیرہ میں سننے والوں کو خطاب و بیان کے جس ملکہٴ فائقہ کے مسلسل تجربات ہوئے، اُن ہی کی بنیاد پر اربابِ علم و بصیرت میں مشہور ہوگیا تھا کہ ”مولانا محمد قاسم رحمة اللہ علیہ کی زبانِ مبارک پر ایسا معلوم ہوتاہے کہ روح القدس کی تقریر ہو رہی ہے۔“(۱۳) ”آپ اپنی تقریروں میں موٴیَّد بروح القدس تھے، اس کا اندازہ شاہ جہاں پور کے میلہ خدا شناسی میں اُس صورت میں ہوا جب ہندووٴں ، مسلمانوں اور دوسرے اَدیان و مذاہب کے ہزارہا افراد کو دیکھا گیا تھا کہ سننے والوں پر ”ایک کیفیت تھی، ہر کوئی ہمہ تن گوش ہوکے مولوی صاحب کی جانب تک رہا تھا، کسی کی آنکھوں میں سنتے ہیں آنسو، کسی کی آنکھوں میں حیرت۔“ پادریوں کی یہ حالت تھی کہ بے حس و حرکت، ایک پادری ایسے موقعہ کا ذکر ان الفاظ میں کرتا ہے:

          ” اگرتقریر پر ایمان لایا کرتے تو اس شخص (یعنی مولانا نانوتوی) کی تقریر پر ایمان لے آتے۔“ اور کسی نے یہ بھی کہا: ”ایسی تقریریں بیان کیں کہ پادریوں کو جواب نہ آیا، کوئی اوتار ہوں تو ہوں۔“ (۱۴)

          ہماری بات مسائلِ کلامیہ کے باب میں امام قاسم نانوتوی کی تصنیفات کے متعلق چل رہی تھی کہ وہ مقتضیاتِ عصر کے تحت حالاتِ حاضرہ میں بہت مفید ہیں،اس حوالہ سے مولانا عتیق الرحمن عثمانی کی بات بہت اہم ہے، وہ فرماتے ہیں کہ ”جن خوش نصیب افراد کو آپ کی تصنیفات اورخصوصاً ’حجة الاسلام، آبِ حیات اور تقریر دل پذیر‘ وغیرہ کے مطالعہ کا موقع ملا ہے اور انہوں نے ان گوہرہائے آبدار کی صحیح قدر و قیمت پہچاننے کی سعادت حاصل کی ہے، وہ اِس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتے کہ مولانا مرحوم نے ان تصنیفات میں اسلام کو اور اس کی اصولی اور بنیادی تعلیمات کو ایسے ٹھوس اور ناقابل رَد عقلی اور مشاہداتی دلائل کے ساتھ پیش کیا ہے کہ کوئی سلیم الطبع اور متلاشیِ حق انسان اسلام کی صداقت وحقانیت کو تسلیم کرنے سے اِبا نہیں کرسکتا۔“ وہ مزید لکھتے ہیں:

          ”مولانا نانوتوی کی تحریروں کی اہم خصوصیت یہ ہے کہ وہ نہ بڑے بڑے فلاسفہ کے اقوال کا حوالہ دیتے ہیں، نہ کتابوں کی عبارت نقل کرتے ہیں اور نہ غیرمسلموں سے گفتگو کرتے ہوئے قرآن وحدیث کا ذکر درمیان میں لاتے ہیں؛ بلکہ خالص مشاہداتی اور محسوساتی امور کو جن کا کوئی شخص انکار ہی نہیں کر سکتا اور جو مسلماتِ عام کی حیثیت رکھتی ہیں، اُن کو آپ اپنی گفتگو کا اصولِ موضوعہ بناتے ہیں اور پھر اسی پر اپنے دلائل وبراہین کی بنیاد قائم کرتے ہوئے چلے جاتے ہیں“۔(۱۵)

          در حقیقت مولانا نانوتوی کا طرزِ بیان اور اسلوب یہی ہے، حتی کہ حمد و ثنا سے کتاب کی ابتدا کرتے ہیں تو یہی استدلالی وصف دعوتی رنگ لیے ہوئے نمایاں ہوتا ہے۔ بطور نمونہ ذیل کے اقتباسات ملاحظہ ہوں:

          ”ہزاروں حمد وسپاس اُس خالقِ بے چوں کو کہ جس نے عالم کو بنایا اور اس میں بنی آدم کو رتبہٴ اعلیٰ عطا فرمایا۔ ہزارہا نعمتیں عطا فرما کر سب سے بڑی ایک وہ نعمت دی کہ جس کے باعث سب کائنات سے اشرف ہوا۔وہ کیا ہے؟ ایک جوہرِبے بہا، عقلِ باصفا ہے کہ حق وباطل، نیک و بد، نفع ونقصان کے جاننے پہچاننے کے لیے ایسا ہے، جیسا سیاہ و سفید، زردو سرخ، عرض وطول، اچھی بری شکل و صورت کے دریافت کرنے کے لیے آگ کی چمک، یا چاند، سورج، ستاروں کا نور ہے۔ مگر عجب اس کی قدرت کی نیر نگی ہے کہ ہر چیز کا ایک جد ا رنگ ہے اور ہر شئ کا نیا ڈھنگ ہے۔ ہر ایک صورت جدا، سیرت جدا۔ کوئی اچھی، کوئی بری۔ کوئی کم، کوئی زیادہ، نہ کم زیادہ ہوسکے، نہ زیادہ کم ہوسکے ، نہ اچھا برا، نہ برااچھا۔ الغرض! عالم کو مختلف بنایا، تا (تاکہ) اُس کی قدرت اور اپنی بے اختیاری پر گواہی دیں۔ اسی طرح عقل میں سب کو متفاوت بنایا اور دانش و فہم میں اہلِ فہم کو مختلف پیدا کیا۔ سو جو باتیں کم فہموں سے رہ جاتی ہیں، اُس (ان) کو کامل عقل والے حل کرتے ہیں۔ اور جہاں کج فہم بچلتے ہیں، وہاں سے سیدھی عقل والے سیدھے نکلتے ہیں۔ اور اوروں کو سنبھالتے ہیں، اور آپ سنبھلتے ہیں۔

          سو ہزاروں رحمتیں اُن کی جانِ پاک پر، کہ آپ بچے اور اوروں کو بچایا اور بہکے ہووٴں کو سیدھاراستہ دکھایا، خصوصاً اُس پر کہ جو ان سب میں بمنزل آفتاب کے ستاروں میں ہو۔ اور اُس پر، جو اس کے پیرووٴں اور یاروں میں ہو۔ (۱۶)

          خالق کی معرفت کے لیے دعوتِ فکر دیتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:

          اس کے بعد گنہ گار، شرم سار، ہیچ مداں بندہ خیر خواہ ِ خلائق، سب ہندو، مسلمان، یہود، نصاریٰ، مجوس، آتش پرست کی خدمت میں بہ نظرِ خیر خواہی اپنے چند خیالاتِ پریشان کو جمع کرکے عرض کرتا ہے اور امیدوار ہے کہ سب صاحب اپنے تعصبِ مذہبی اور جی لگی باتوں کی محبت سے الگ ہوکر میری بات کو سنیں۔ اگر پسند آئے، قبول کریں، نہیں تو اصلاح فرمائیں۔ پر (لیکن) ایک بار اول سے آخر تک دیکھ جائیں۔ اور بے سب دیکھے حرف گیر نہ ہوں، کہ شاید پہلی بات کا ثبوت آخر میں نکلے اور آخر کا اول سے کام چلے۔

          مگر شدتِ تعصبِ اہلِ زمانہ اور ہر کسی میں خواہش کی پیروی کو دیکھ کر یوں ڈر تا ہوں کہ حسبِ مثلِ مشہور: ”نیکی برباد، گنہ لازم“ مجھے کیا کیا کچھ نہ کہیں گے۔ کوئی دیوانہ بتائے گا، کوئی خبطی بتائے گا؛ مگر مجھے کسی سے کیا کام؟ اپنے کا م سے کام۔“ (۱۷)

          ماقبل میں مولانا عتیق الرحمن عثمانی کے حوالہ سے ذکر کیا جا چکا ہے کہ حضرت مولانا نانوتوی کی بڑی خوبی یہ ہے کہ فلسفہ کی اصطلاحات اور علومِ عقلیہ کا بوجھ پڑھنے والے پر نہیں ڈالتے؛ چناں چہ مثالیں بہت آسان زبان میں روز مرہ بول چال کے مطابق اور رواج میں استعمال ہونے والے الفاظ ومحاورہ میں سمجھاتے ہیں۔ (۱۸) اور ایسے مسلَّمات سے گفتگو کرتے ہیں جو بد یہی بلکہ اجلی البدیہیات ہوتے ہیں، لیکن ان مسلَّمات کا استعمال کرنا ہر ایک کو نہیں آتا ،مثلاً ذیل کا اقتباس ملاحظہ ہو:

          ”جو بات بے دلیل عقلِ غالب کے نزدیک مسلّم ہوتی ہے، جیسے دو دونی چار، اس کے خلاف پرسو دلیلیں بھی ہوتی ہیں، تو اس پر، وَر نہیں ہوسکتیں۔“ یعنی غالب نہیں ہو سکتیں۔ پھر اس بے دلیل والی دلیل سے ایک طرف تو عقیدہٴ تثلیث کو باطل کیا۔ (۱۹) اور دوسری طرف آسمان کا ممکن الزوال ہونا، ثابت کیا۔ (۲۰) پھر یہی نہیں؛ بلکہ آسمان کا خرق و التیام اور ممکن الزوال ہونا ثابت کرنے کے بعد؛ دیکھیے کس انداز سے فہمائش کرتے ہیں:

          ”جنابِ من! دلائل سے اگر آسمان کے ٹوٹ پھوٹ جانے کا کوئی محال ہونا ثابت کرے ، تو بعد اس کے کہ اس کا ممکن ہونا آفتاب کی طرح دانشمندوں کے لیے واضح ہو چکا ہے․ ․ ․ ․ ․ ․، اس اپنے نہ جاننے، اپنی بے وقوفی اور بے علمی کی وجہ سے اس بات کے غلط ہونے میں متأمل نہ ہوگا۔ اسی طرح جب یہ واضح ہوگیا کہ ماسوا موجود اصلی کے، جو خدا وند کریم کے (سوا) اور کوئی نہیں، سب کا وجود عارضی ہے، تو بے وقوف سے بے وقوف بھی اس بات کو سمجھ کر اس (آسمان) کے زوال کے ممکن ہونے میں ہر گز تأمل نہ کرے گا۔ پھر اگر افلاطون بھی زمین سے نکل کر آئے اور ہزاروں دلیلوں سے اِس بات کو ثابت کرے کہ آسمان کے وجود کا زائل ہو جانا اور اس کا معدوم ہونا محال ہے، تو گو (ایک عام آدمی ”بیوقوف سے بیوقوف بھی“ جو ) ان دلیلوں کو نہ جانتا ہو؛ بلکہ ان کے سمجھنے کی بھی لیاقت نہ رکھتا ہو، یونہی کہے گا کہ ان دلیلوں میں کچھ نہ کچھ قصور ہے۔“

          مثالیں آسان دینا، اصطلاحات کا بوجھ نہ ڈالنا، ایسے محسوسات و مشاہدات کو اصولِ موضوعہ بنا کر گفتگو کرنا جو مسلّماتِ عام کا درجہ رکھتے ہوں، امام المتکلمین کے یہ خاص کلامی اوصاف ہیں۔ پھر آسان مثالوں کا یہ معیار جس کا نمونہ ابھی آپ نے ملاحظہ فرمایا، مشکل دلائل دیتے وقت بھی قائم رہتا ہے، تحریر ذیل ملاحظہ ہو:

          ”جس کارخانے کو دیکھیے، ایک اصل پر قرارہے۔ نورِ آفتاب کو دیکھیے تو ہزاروں مکانوں اور ہزاروں روشن دانوں میں جدا جدا جلوہ دکھلا رہا ہے، پرآفتاب کو سب کے ساتھ رابطہ ہے، عدد کے سلسلہ کو نظر کیجیے تو اول سے الی غیر النہایہ پھیلا ہوا ہے، کہیں دو ہیں، کہیں تین، کہیں چار، کہیں پانچ، کہیں دس، کہیں بیس، کہیں سو ، کہیں ہزار، علی ہٰذا القیاس۔ اور اس پرکہیں جذر کہیں مجذور، کہیں حاصلِ ضرب، کہیں مضروب، کہیں مضروب فیہ، کہیں حاصلِ قسمت، کہیں مقسوم ،کہیں مقسوم علیہ وغیرہ؛ پرسب کی اصل وہی ایک ہے۔“

          ”موجوں اوربلبلوں کے کارخانوں کو دیکھیے تو سب کی اصل وہی ایک پانی ہے، شاخوں کو دیکھیے تو سب کی اصل جڑ ہے، آدمی وغیرہ کو دیکھیے تو سب ایک اصل میں جسے انسانیت وغیرہ کہیے، مشترک ہیں۔ اسی طرح جس طرف نظر پڑتی ہے کوئی ایسا کارخانہ دیکھا نہیں جاتا کہ جس کا کوئی سِرِّ منشا نہیں ۔ پھر اِن سِرِّ منشاوٴں کو دیکھیے تو ان کا کوئی اور سِرِّ منشا ہے اور اسی طرح اوپر تک چلے چلو․ ․ ․ ․ ․ ․ سارے عالم میں وجود کا اشتراک ہے، پر چوں کہ شئ مشترک عین اشیاء متعددہ نہیں ہوسکتی تو (شئ مشترک اصل واحد ہی رہے گی، اس میں تعدد بھی نہیں ہوسکتا اور۔ف) تعدد کیوں ہو! (اس لیے کہ شئ مشترک تو ایک اصل ہے، اس کا جلوہ ہزاروں اشیاء تک پہنچے گا اور وہ اصل واحد ہی رہے گی، لہٰذا۔ف) یوں سمجھ میں آتا ہے کہ وجود، عینِ عالم اور عینِ موجودات نہیں۔“ (۲۱)

          حضرت مولانا نانوتوی کی یہی خوبی ہے کہ اتنے بڑے مسئلہ کو اس قدر سادہ طریقہ سے سمجھا دیا کہ اس کے مشکل ہونے کا احساس بھی نہ ہونے دیا، ورنہ یہ بالکل حقیقت ہے کہ حضرت نے ان مثالوں سے جس بڑے مسئلہ کو حل کیا ہے، وہ ایسا اہم اور بنیادی مسئلہ ہے کہ اس کے سمجھ لینے سے نہ معلوم کتنے مسئلے حل کرنے کی کلید ہاتھ آجاتی ہے؛ چناں چہ یہیں سے شاید وہ دقیق مسئلہ بھی حل ہوجائے جس کی تفہیم ہمیشہ مشکل رہی ہے،اور جس کی گرہِ نیم باز غالباً اب تک وا نہیں ہوسکی ہے۔ مسئلہ، باری تعالیٰ کی صفت سے تعلق رکھتا ہے جس کا اصطلاحی عنوان ”لاعین ولاغیر“ ہے۔ فہمِ مسئلہ کے لیے نورِ بصیرت حاصل کرنے کی خاطر ایک طرف تو مولانا نانوتوی کی عقل وحکمت پر مبنی مذکورہ وضاحت کو پیش نظر رکھیں، اورگرہِ نیم باز کو کھولنے میں ناخنِ اشرف کا استعمال کریں، یعنی اس تحقیق کا اطلاق کریں جو حکیم الامت کی زبانِ فیضان حق سے مظاہر علوم میں علماء وطلبا کے مجمع میں بیان کی گئی ہے (۲۲)، جسے ہم ذیل میں درج کرتے ہیں، مولانا تھانوی فرماتے ہیں: ”قرآن یعنی کلام لفظی بدرجہٴ کلام نفسی بِنا بر تحقیقِ متکلمین حق تعالیٰ کی صفتِ ذاتیہ نہ ہو؛ مگر ذاتِ حق سے اس کو ایسی نسبت ہے، جیسے شعاع کو آفتاب سے، پس ایک قرص آفتاب ہے کہ وہ اس کی ذات ہے، دوسری اس کی صفتِ نور جو اس کی ذات کے ساتھ قائم ہے، تیسری شعاع، چوتھی زمینِ منور۔ یہ شعاع نہ تو نور قائم بالشمس کی طرح ہے، نہ شمس سے متصل ہے اور نہ زمین کی طرح شمس سے بالکل منفصل۔“

          ”اسی طرح کلام لفظی نہ صفاتِ ذاتیہ کی طرح ذات کے ساتھ قائم اور نہ دوسرے حوادث کی طرح بعید التعلق؛ بلکہ باوجود حادث ہونے کے دوسرے حوادث سے زیادہ شدید التعلق، اور اسی شدتِ تعلق کے سبب اس کو کلام اللہ کہا جاتا ہے؛ دوسرے کلامِ حادث کو کلام اللہ نہیں کہا جاسکتا۔“(۲۳)

          یہ تو باری تعالیٰ کی ایک صفت یعنی کلام اللہ کی بات تھی؛ لیکن کل صفات بھی چوں کہ لا عین ولا غیر ہیں، لہٰذا مولانا تھانوی کی مذکورہ تمثیل میں صفاتِ ذاتیہ کی مثال شمس کی مذکورہ تمثیل میں ”نور“ سے ہوجائے گی، جس کو حضرت مولانا نانوتوی نے دوسری تحریروں میں حل فرمایا ہے، وہاں ملاحظہ کرنا چاہیے۔ یہاں پر تو مقصودِ ذکریہ ہے کہ حضرت نانوتوی نے وجو دو عدم سے متعلق جو کلیہ قائم کیا ہے اور اس کے تحت جو مثالیں ذکر کی ہیں، ان میں صرف یہی خوبی نہیں ہے کہ وہ مخاطب کے نزدیک بھی ثابت شدہ اور مسلّم ہیں؛ اور یہ کہ صانع کا موجودِ اصلی ہونا ان سے ثابت ہو جاتا ہے؛ جیسا کہ آگے چل کر ثابت کیا بھی گیا ہے؛ بلکہ یہ کلیہ ایسا مفید، موٴثر اور مضبوط ہے کہ جو ہلائے نہیں ہلتا اورکبھی نہیں ٹوٹتا اور پچاسوں(۲۴) مسئلے اسی ایک کلیہ اور اس کلیہ کے تحت مذکور امثلہ سے ثابت ہوتے چلے جاتے ہیں۔(۲۵)

          چندمثالیں جن سے بہت سے عُقدے اور مسئلے اسی کلیہ سے حل ہو جاتے ہیں، حضرت نانوتوی قدس سرہ کے اعجازی الفاظ میں ملاحظہ ہوں:

          ” القصہ! اشتراکِ وجود کے قرینہ سے معلوم ہواکہ وجودِ عالم اور عالم میں فرق ہے، یہ دونوں بالکل ایک شئ نہیں؛ بلکہ وجودِ عالم ایک خارجی چیز ہے اور ایک عارضی شئ ہے، اصلی اور ذاتی نہیں؛ اور جب وجودِ عالم عارضی اورخارجی اور مستعار ٹھہرا، اصلی اور ذاتی نہ ہوا، تو ہم بہ قیاس اس بات کے کہ جیسے گرم پانی کی گرمی، جو عارضی، خارجی، مستعار ہے، آگ کی عطا کی ہوئی ہے، جس کی گرمی اصلی اور ذاتی ہے؛ یا جیسے قلعی دار آئینے کا نور، جو آفتاب کے مقابل ہو، اصلی نہیں؛ بلکہ آفتاب کا فیض ہے، جس کا نور اصلی اور ذاتی ہے، بالیقین یوں سمجھتے ہیں کہ ایسے ہی عالم کا وجود، جو اصلی اور ذاتی نہیں، ایک شئِ عارضی ہے، کہیں خارج سے ایسے موجود سے ملا ہوگا جس کا وجود اصلی ہوگا، وہ بجز صانع کے، اور کون ہے۔“ (۲۶)

          پھر وجود کی اسی تحقیق و تفہیم سے وہ مسئلہ بھی حل ہو گیا جو علمِ کلام کے اِس امامِ زمانہ کے ہی عہد میں بعض خاص گروہ کی طرف سے پیش ہوا تھا۔ یہ گروہ مادہ کے قدیم و غیر مخلوق اورمادہ میں خدائی صفت کے حلول کا قائل تھا اور خدا کی ماہیت کے حوالہ سے کہتا تھا کہ ”خدا کی صفات کی تعداد نہیں، سب اکٹھی ہوں تو خدا ہو․ ․ ․ ․ ․ ․“ (۲۷)

          مذکورہ گروہ کی طرف سے پیش کیے گئے اِس اشتباہ کو رفع کرنے کے لیے مصنفِ براہینِ قاسمیہ(۲۸) نے اُسی مسئلہ کو بنیاد بنایا ہے، جس کا ذکر اوپر کیا گیا کہ جودِ عالم میں اور عالم میں فرق ہے۔ ذات اورشئ ہے، وجود اور شئ ہے۔ اور یہ ظاہر کرنے کے بعد کہ کسی چیز کی صفات و متعلقات تو متعدد ہوسکتے ہیں؛ لیکن اُن صفات و متعلقات کا مدارِ شئ ہونا ضروری نہیں ہے، ثابت کیا ہے کہ ذاتِ باری کے لیے مدار تو اُس کا وجود اصلی و ذاتی ہے۔ ”خدا اس کو کہتے ہیں جو خود موجود ہو کسی اور کے وجود پر اس کے وجود کا سہارا نہ ہو۔“(۲۹)”خدائی کو سب صفات سے کیا علاقہ“ ”صفات معلولِ ذات ہوتی ہیں۔ ذات اور مناصبِ ذاتیہ کومعلولِ صفات کہیں نہیں سنا تھا۔“ موٴلف براہینِ قاسمیہ نے پہلے تو یہ دعوے قائم کیے، پھر ان دعووٴں کے ثبوت کے لیے مثالیں ذکر کیں کہ مثلاً:

          ”سولہ چار کا جذر، دوکا آٹھ گنا، چار کا چوگنا، آٹھ کا دونا، بارہ کا ایک اور ایک ثلث (یعنی ۳۱۲--۱۲) ․ ․ ․ ․ ․ ․ بھی ہے اور منقسم بہ متساویین بھی ہے۔ (یعنی دو برابر کے حصوں پر بغیر کسر کے تقسیم بھی ہو جاتا ہے) مگر اُس کے زَوج ہونے کا مدار فقط انقسام بہ متساویین پر ہے، اور (دوسری) صفات کو اُس سے علاقہ نہیں (یعنی دوسری صفاتِ مذکورہ کا زوج ہونے سے کوئی تعلق نہیں)، ہاں جس کو فہم سے علاقہ نہ ہو اُس کے نزدیک سولہ کی زوجیت کو ا ور (دوسری) صفات سے بھی علاقہ ہو تو ہو۔

          دوسری مثال:

          آتش مصدرِ حرارت ہے، مُنوِّر بھی ہوتی ہے، سرخ وسبز بھی ہوتی ہے،نازک و لطیف بھی ہوتی ہے، خشک و آبدار بھی ہے؛ مگر اُس کے آتش ہونے کا مدار اُس کی مصدریتِ حرارت پر ہے اور صفات پر نہیں۔ ہاں فہم نہ ہو، تو جس کوچاہو اُس کا مدار بناوٴ۔

          تیسری مثال:

          آفتاب گول بھی ہے، گرم بھی ہے، ہم سے ایک فاصلہ پر بھی ہے جس کے سبب کسی سیارہ سے نیچا اور کسی سے اونچا ہے، اوراُس کے ساتھ مصدر النور بھی ہے؛ مگر سب جانتے ہیں کہ اس کے خود روشن ہونے اور اَوروں (یعنی دوسروں) کے روشن کرنے کے لیے فقط اُس کا مصدرالنور ہونا درکار ہے۔ ہاں کودَن،بیوقوف تمام اوصافِ مذکورہ پر اُس کی روشنی اور روشن کرنے کو چسپاں کریں تو کون مانع ہے۔ (اس بے وقوفی کے اظہار کے لیے۔ف) دو انگشت کی زبان اور چھوٹا سا قلم کافی ہے۔

          چوتھی مثال:

          معشوق لوگ جیسے حسین ہوتے ہیں ایسے ہی اور اوصاف بھی اُن میں ہوتے ہیں؛ مسلمان بھی ہوتے ہیں(۳۰)، کافر بھی ہوتے ہیں، شریف بھی ہوتے ہیں، رذیل بھی ہوتے ہیں اور لالہ لوگوں میں سے بھی ہوتے ہیں، دوسری قوموں میں سے بھی ہوتے ہیں، خوش اخلاق، بداخلاق، سخی، بخیل وغیرہ بھی ہوتے ہیں، یورپین بھی، ایشیائی بھی، افریقی بھی، امریکی بھی؛ مگر سب جانتے ہیں کہ اُن کے معشوق ہونے کا مبنیٰ اُن کے حسن و جمال پر ہوتا ہے اور اوصاف پرنہیں ہوتا۔ ہاں عقل کوطاق میں اُٹھا رکھیے تو پھر جس کو چاہو معشوقیت کا مبنیٰ بنادو۔

          پانچویں مثال:

          بادشاہانِ دنیا حسین بھی ہوتے ہیں، کم رو (کم خوبصورت) بھی ہوتے ہیں؛ قوی بھی ہوتے ہیں، ضعیف بھی ہوتے ہیں؛ ہنر مند بھی ہوتے ہیں، بے ہنر بھی ہوتے ہیں؛ ہر قوم کے ہوتے ہیں، ہر ملک کے ہوتے ہیں؛ مگر اہلِ فہم کو معلوم ہے کہ اُن کی بادشاہت اور سلطنت کی بناء اُن کے تسلُّط پر ہوتی ہے، دوسرے اوصاف کو اُس سے کچھ تعلق نہیں ہوتا۔ ہاں عقل کے دشمن جس بات کو چاہیں بنائے سلطنت بنادیں۔

          ان چار پانچ مثالوں پر قناعت کرکے اہلِ فہم کی خدمت میں یہ گزارش ہے کہ خدا اُس کوکہتے ہیں جوخو د موجود ہو، کسی اورکے وجود پر اُس کے وجود کو سہارا نہ ہو۔ چناں چہ لفظ ”خدا“ خود اس پر شاہد ہے۔

          حقیقت شناسانِ عالی فہم تو درکنار، فقط زباں سنج بھی اتنی بات سمجھتے ہیں ․ ․ ․ ․ ․ ․ تو، جب خدا اُسی کا نام ٹھہرا جس کا وجود خانہ زاد ہو، مستعار نہ ہو؛ تو پھر ہر ادنیٰ عقل والا بھی اس پر شاہد ہوسکتا ہے کہ مدارِخدائیِ خداوندِ عالم فقط اُس کے غیر مخلوق ہونے پرہے، دوسری صفات کو اُس سے کچھ علاقہ نہیں۔ ہاں فہم بغل میں مار، بُرقعِ حیا کومنہ سے اُتار جو چاہو سو کہہ دو۔ ․ ․ ․ ․ ․ ․ (ورنہ جو ذرا بھی فہم و انصاف سے کام لیں گے وہ۔ف) ”علی روٴسِ الاشہاد یہ کہہ دیں گے کہ خدا کی خدائی کا مدار بالبداہت اُس کے غیرمخلوق ہونے پر ہے۔“(۳۱)

          مظاہر الآمال کے حوالے سے مولانا تھانوی کے ایک خطاب کا تذکرہ پیچھے آچکا ہے۔ مظاہر علوم کے اپنے خطاب میں مولانا تھانوی نے حق تعالیٰ کی صفاتِ ذاتیہ کے ذکر میں یہ بھی فرمایا تھا کہ ”اور اسی جگہ سے بعض متکلمین نے اس کلام لفظی کو بھی قدیم کہہ دیا، گو ظہور اس کا حادث ہو۔ اور مسئلہ دقیق ہے، بلاضرورت اس میں خوض کرنا بھی جائز نہیں۔“ (۳۲)

          جس مسئلہ کی طرف مولانا تھانوی نے اشارہ فرمایا اور یہ فرمایا کہ مسئلہ دقیق ہے، پھر اشارہ اور تنبیہ جو فرمائی وہ ۵۰۰/ افراد کے اس مجمع میں، کہ جس میں سب کے سب تقریباً خواص علماء یا درسیات سے شغف رکھنے والے طلبہ تھے؛ اِسی سے مسئلہ کی دقت و نزاکت کا اندازہ کیا جاسکتا ہے(۳۳)، لیکن اس کے ساتھ ہی مسئلہ کا ایک پہلو اور بھی ہے جودہری فلاسفر اور ملحد سائنس داں کی طرف سے علمی و عقلی پیرایہ میں شبہ کی بنیاد بن سکتا ہے۔ اس شبہ کا جواب اور دفاع غالباً مولانا نانوتوی کی تحریروں کے علاوہ کسی اور جگہ نہیں پایا جاتا۔

          یہ مسئلہ جو اوپر سے چلا آرہا ہے کہ اشیاء کی ذات اور وجود دونوں الگ الگ چیزیں ہیں، اس کو حضرت امام المتکلّمین مولانا محمد قاسم نانوتوی پہلے تو ایک ایسی مثال سے حل فرماتے ہیں کہ وہ مثال خود ایک اصل اور بنیاد بن جاتی ہے، فرماتے ہیں: ”جنابِ من! جب کوئی معمار مکان بناتا ہے، تو اول اس کا نقشہ ذہن میں جما لیتا ہے اور پھر بن کر وہ مکان اگر ڈھہ جاتا ہے تو دیکھنے والوں کے دلوں میں اس کا نقشہ باقی رہ جاتا ہے۔ اب سنیے! کہ اُس نقشہ ہی سے وہ مکان اور مکانوں؛ بلکہ اور چیزوں سے متمیّز ہوتا ہے، سو یہ نقشہ اس مکان کی ذات ٹھہرا(۳۴)، اوریہ حال کہ وہ زمین پر بنا ہوا اَنکھیاروں کو نظر آنے لگا اور اندھوں کے ہاتھوں کو معلوم ہونے لگا اور اس میں آنے جانے والے اٹھنے بیٹھنے لگے، یہ اس کا وجود ہوا۔ سواب دیکھیے! ذات اس مکان کی، یعنی وہ نقشہ اور شئ ہے اور اس کا وجود اور شئ ہے؛ اور اسی سبب سے وہ دونوں کبھی اکٹھے ہو جاتے ہیں اور کبھی علیحدہ ہو جاتے ہیں، اگر دونوں ایک ہی ہوتے تو علیحدگی نہ ہوتی۔ سو اس بات میں مکان اور، زمین آسمان میں اور، اور موجودات میں کچھ فرق نہیں معلوم ہوتا، اُن کا بھی جدا ایک نقشہ ذہن میں آتا ہے اور وجود جدا۔ فرق ہے تو اتنا ہے کہ کوئی بِنا، محکم اور مضبوط ہے، کوئی نہیں۔“

          اب اس کے متعلق جو شبہ پیش آسکتاہے،اُس کا ازالہ کرتے ہیں:

          شبہ (۱): ”اس پر شبہ یہ ہے کہ نقشہ بھی تو ایک شئ ہے (جو) بے وجود کے سمجھ میں نہیں آتی، سو اگر نقشوں کے (جو کہ بے وجود سمجھ میں نہیں آتے۔ف) بھی نقشے ہیں اور اُن کے نقشوں اوروجود میں بھی فرق ہے“ تو یہ تو ایک تسلسل ہے جو محال ہے۔ لہٰذا ماننا پڑے گا کہ اِن (نقشوں) کا وجود اور ذات دونوں ایک ہی ہیں۔

          شبہ (۲): دوسرا شبہ یہ ہے کہ جب وجود اور ذات دونوں ایک ہی ہیں تواِن میں اورخدا میں کیا فرق رہا، وہ بھی مثلِ خدا کے موجود اصلی اور موجدِ قدیم ہوئے؟

          یہ دونوں شبہے نہایت سخت ہیں جن کے جواب امام نانوتوی نے دیے اور چوں کہ حضرت کے ساتھ تائیدِ غیبی اور توفیقِ الٰہی ہر وقت شامل حال رہی ہے؛ اِس لیے جواب بھی نہایت شاندار ادا ہوئے۔ ملاحظہ فرمایئے، خطاب اس طرح سے شروع فرمایا : ”اہلِ انصاف اگر غور فرمائیں اور میری کم حوصلگی پر نہ جائیں، تو اِس بڑی بات کو نامِ خدا، اس چھوٹے منہ سے ادا کرتا ہوں۔“ چناں چہ جو کچھ ادا فرمایا اُس کی روسے یہ مثال مذکور (نقشہ والی) خود ایک مستقل کلیہ کی شکل اختیار کرلیتی ہے، جس کے تحت انواع اور جزئیات اور فروعی مسائل آتے چلے گئے ہیں۔ پہلے کلی مسئلہ کی توجیہ چند مثالوں سے فرمائی، جس سے تفہیم میں آسانی ہوجائے، اُس کے بعد تقدیر کے مسئلہ کو ضمناً بطور نتیجہ اور اثر کے، اُسی پر مرتب کردیا اور یہ ثابت کردیا کہ کلامِ لفظی، حروف، نقوش سب اپنے ظہور کے اعتبار سے حادث ہونے کے بعد بھی خدا کے علمِ تفصیلی کی معلومات ہونے کی حیثیت سے موجوداتِ پنہانی ہیں اور وہ علم تفصیلی قدیم ہے اور اِس علم تفصیلی کے لیے تقدیر کا عقیدہ لازم ہے۔ اب یہ کون کہے کہ مولانا محمد قاسم نانوتوی کے ذریعہ بیان کیا گیا تقدیر کا یہ ضمنی ثبوت بھی، ثبوتِ اصلی سے بڑھ کر واقع ہوا، کہ جومسئلہ خطرہ کا تھا، دقیق تھا، بلاضرورت خوض نہ پہلے صحیح تھا، نہ اب صحیح ہے؛ لیکن امامِ زمانہ نے جس تعبیر اور طریقہٴ استدلال کو اختیار کیا، اُس سے یہ پتہ بھی نہ لگنے دیا کہ مشکل مقام اور دلائل کب آنے والے ہیں، پہلے سے نام بھی نہ بتایا؛ گویا باغ میں پہنچا کر دکھا دیا کہ دیکھو یہ باغ ہے، یہ تو ہمارا تأثر ہے، باقی امامِ فن کے اصل الفاظ میں چاشنی کیسی کچھ ہوگی، اُسے آپ بھی ملاحظہ فرمائیں:

          ”اِن نقشوں کے منجملہ موجودات کے ہونے کا انکار نہیں، ساری نشانیاں وجود کی موجود ہیں۔ اور یوں بھی نہیں کہا جاتا کہ نقشوں کے لیے بھی نقشے اور وجود جدا ہیں، نہیں تو ایک سلسلہ لا انتہا نکل آئے گا، سو اسے کسی کی عقل قبول نہیں کرتی، پر اگر یوں کہا جائے کہ جیسے آفتاب کے ساتھ شعاعیں لگی ہوئی ہیں اور شعاعیں آفتاب ہی کے سبب روشن ہیں، پر ان کی روشنی ایسی عارضی نہیں جیسے زمین، آسمان، درودیوار کی روشنی، کہ اصل میں وہ تیرہ اور سیاہ ہیں، پر آفتاب کا نور اُن کے اندھیرے کو مٹاتا ہے؛ بلکہ وہ (شعاعیں۔ف) بھی مثل آفتاب ہی کے اصل سے منور ہیں، ہاں اتنی بات ہے کہ آفتاب کو نہیں پہنچتیں؛ کیوں کہ اوّل تو وہ آفتاب سے پیدا ہوئیں، دوسرے وہ بات کہاں، جو کہ آفتاب میں ہے؟ ایسے ہی تمام عالم کا نقشہ بھی خدا کے سببِ قدیم سے ایک پنہا وجود رکھتا ہو، اور وجود اصلی ہو، مثل اِس ظاہری وجود کے عارضی نہ ہو؛ویسا اصلی بھی نہ ہو جیسا خداوند کریم کا وجود۔ اوراس نقشہ ہی کے مطابق اس وجود ظاہری کا کارخانہ برقرار ہوتا ہو؛ اور اس وجود پنہانی ہی کو وجود کہتے ہوں؛ اور اس وجود ظاہری کو اس وجود پنہانی سے ایسی نسبت ہو، جیسے کنویں کے عکس کو یا مہر کے حروف کو ہمارے ساتھ اور نگین کے نقوش کے ساتھ۔ یعنی جیسے کوئیں کے کنارے کھڑے ہوں، تو گو بعینہ ہماری صورت نظر آئے گی، پر کچھ کچھ مخالفت ضرور ہوتی ہے۔ سر یہاں اوپر ہے اور پاوٴں نیچے، تو وہاں برعکس ہے، ایسے ہی مہر کے حروف میں اور نگین کے نقوش میں الٹے سیدھے ہونے کا فرق ہے۔“ (۳۵) اور اِس وجود پنہانی کے ماننے میں ایک یہ بھی بڑا فائدہ ہے کہ خدائے تعالیٰ کا تفصیل وار اِس عالم کا قدیم سے جاننا ثابت ہو جائے گا۔ اگرچہ بالاجمال جاننے میں وہ اِس وجودِ پنہانی میں محتاج نہیں؛ بلکہ سب کو بغیر اِس کے بھی بالاجمال جانتا ہے۔ پر اس کے بالاجمال جاننے کے یہ معنی نہیں کہ کچھ جانا، کچھ نہ جانا؛ یہ تو جہل ہے اور عیب ہے۔ اور عیب کااس کی ذات و صفات میں پتہ بھی نہیں؛ بلکہ اس کا بالاجمال جاننا تفصیل وار جاننے سے بھی زیادہ ہو، تو کچھ عجب نہیں۔ جیسے آفتاب کی شعاعیں اور دھوپیں، اس کے نور کی تفصیل ہے، پر آفتاب کے جرم میں جو نور بھرا ہوا ہے، تو یہ بہ نسبت شعاعوں اور دھوپوں کے اجمالی معلوم ہوتا ہے؛ لیکن لاکھوں درجہ اُن سے زیادہ معلوم ہوتاہے؛ کیوں کہ یہ اسی سے پیدا ہوئی ہیں، اور اس کو لازم ہیں۔ ایسے اُس کے علمِ اجمالی سے تفصیلی پیدا ہوتاہے۔ سو ہم اُس علم تفصیلی ہی کی معلومات کو موجوداتِ پنہانی کہیں، تو کچھ مشکل نہیں۔ سو ہمیں اُس (علم تفصیلی) کے قدیمی ہونے میں کچھ انکار نہیں۔ (۳۶) بہت ہوگا تو یہ ہوگا کہ تقدیر کا ہونا لازم آئے گا، سو اِس میں کیا خرابی ہے۔“(۳۷)

          اور اسی کے ساتھ ایک مفید بات اور معلوم ہوگئی جو قرآن کریم کی اس آیت ”اِذَا اَرَادَ اللہُ شَیْئًا اَنْ یَّقُوْلَ لَہ کُنْ فَیَکُوْن“ (جب خدائے تعالیٰ کسی چیز کے موجود کرنے کا ارادہ کرتے ہیں، تو فرماتے ہیں کہ ہو جا ،تو ہو جاتی ہے) سے متعلق ہے؛ کیوں کہ اِس پر اشکال ہوتا ہے کہ شئ تو حادث ہے، جب وہ ابھی موجود نہیں تو خطاب کس کو ہے؟ اِس کا جواب مولانا تھانوی نے یہ دیا ہے کہ موجود فی العلم کو خطاب ہے کہ موجود فی الخارج ہو جائے۔ (۳۸)اِس جواب کے ساتھ مولانا نانوتوی کی مذکورہ تشریح سے حاصل ہونے والا نتیجہ بھی شامل کر لیا جائے کہ قادرِ مطلق کے علم تفصیلی کی معلومات جو موجوداتِ پنہانی ہیں، اُن میں سے ہی ایک کو خطاب ہے کہ موجود فی العلم کے بعد اب موجود فی الخارج بھی ہو جائے، تو بات اور زیادہ صاف ہو جائے۔

          اس کے علاوہ اِس توجیہ و تشریح سے ایک اورمسئلہ بھی بے غبار ہوگیا، جس میں یہ اشکال پیدا ہوا تھا کہ ارادہٴ واجب یعنی خدائے تعالیٰ کا ارادہ قدیم ہے، پھر اِس کی کیا وجہ ہے کہ ارادہ تو قدیم اورمراد (یعنی جسے پیداکرنا چاہا، وہ۔ف) حادث ہو۔ اِس صورت میں تخلّف مراد کا ارادہ سے لازم آتا ہے اور یہ محال ہے۔ ایسی صورت میں اگر مولانا نانوتوی کی مذکورہ تشریح کی روشنی میں اس مسئلہ کو دیکھیں کہ جب موجوداتِ پنہانی یعنی علم تفصیلی کی معلومات نقشہ کی تمثیل میں موجود ہیں یعنی ”تمام عالم کا نقشہ خدا کے سببِ قدیم سے ایک پنہاں وجود رکھتا ہو اور یہ وجودِ اصلی ہو؛ لیکن ویسا اصلی بھی نہ ہو جیسا خداوندِ کریم کا وجود۔“ تو اِس وضاحت کے بعد استحالہ کا شبہ ہی پیدا نہیں ہوتا۔ کیوں کہ استحالہ لازم آنے کا شبہ تو اسی لیے ہوا تھا کہ وجود، ذات سے علیحدہ تھا؛ البتہ اس جواب کی نزاکت کو سنبھالنا مولانا نانوتوی ہی کے علم کا حصہ ہے۔ متوسط عقول کے لیے مولانا تھانوی کا اور تمام متکلمین اہلِ حق کا صاف اور بے غبار جواب ہی کافی ہے کہ ”صفاتِ واجب اپنی ذات میں قدیم ہیں؛ مگر ان کا تعلق ممکنات کے ساتھ حادث ہے اور تخلُّف مراد کا تعلق ارادہ کے بعد محال ہے، اس سے پہلے نہیں۔“ (۳۹)

           لیکن اس مسئلہ میں حکماء، متکلمین اور صوفیا ء کے ہاں جس قسم کے محاورے اور اصطلاحیں استعمال کی جاتی ہیں اور قرآن کریم نے علم و قدرت وغیرہ صفاتِ باری تعالیٰ کو جس معنی میں استعمال کیا ہے، وہ ذرا وضاحت طلب ہے؛ چناں چہ مولانا اشرف علی تھانوی کی صراحت کے مطابق :

          ”صوفیاء کی اصطلاح کچھ تو خاص ہیں اورکچھ دوسری اصطلاحات و اطلاقات ہیں حتی کہ کچھ عوام کے محاورات سے لی ہوئی ہیں؛ مثلاً یہ کہ مخلوق کو عینِ حق کہتے ہیں، یہ خاص اصطلاح پر ہے۔ یہاں مطلب یہ ہے کہ تعلق خاص احتیاج و تابعیت کا ہے؛ بس یہی مراد ہے صوفیاء کے اِس قول کی (مخلوق عینِ حق ہے)۔ اور صوفیاء کے اِس قول کی اس توجیہ پر ایک قرینہ موجود ہے؛ کیوں کہ واجب کو خلق سے مبائن بھی کہتے ہیں، تو عین سے مراد معنی متعارف نہ ہوں گے۔ اور اسی طرح متکلمین بھی دوسرے محاورات کا استعمال کرنے لگتے ہیں، مثلاً صفاتِ واجب کو لا عین و لاغیر کہتے ہیں۔ یہاں غیر کے معنی بے تعلق اور منفصل کے ہیں، جیسا کہ آفتاب کی شعاع آفتاب کا غیر نہیں، یعنی منفصل اور بے تعلق نہیں۔ اور حکماء صفاتِ واجب کو عین، اصطلاح معقولیین (کے اعتبار سے) کہتے ہیں۔ متکلمین نے اِس لیے ان کا رد کیا کہ یہ درحقیقت صفات کی نفی ہے۔ اور قرآن کریم سے حسبِ معنی لغوی کہ وہ حقیقی معنی ہیں، معلوم ہوتا ہے کہ صفاتِ باری تعالیٰ اس کی ذات پر زائد ہیں، جیسے علیم و قدیر بمعنی موصوف بالعلم و بالقدرة، نہ کہ خود علم و قدرت۔ اور متکلمین پر حکماء کی طرف سے ایک سخت اعتراض بھی ہے اور یہ اعتراض یہ ہے کہ صفاتِ حق جب عین نہیں ہیں تو مغائر ہوں گی، پس واجب اپنے کمال میں غیر کا محتاج ہوا؟ اِس کا جواب قاضی ثناء اللہ صاحب پانی پتی نے بہت عمدہ دیا ہے کہ احتیاج واجب کی ہر مغائر کی طرف ممنوع نہیں ہے؛ بلکہ مغائرِ منفصل کی طرف ممنوع ہے اور صفاتِ باری مغائر تو ضرور ہیں؛ مگر مغائر منفصل نہیں؛ بلکہ متصل ہیں۔ (۴۰) اور آخری بات وہی ہے کہ ”مسئلہ دقیق ہے، بلاضرورت اس میں خوض کرنا بھی جائز نہیں۔“

          مذکورہ بالا تمام گفتگو سے یہ بات بھی کھل کر سامنے آگئی کہ علت ومعلول، واحد و کثیر اورموجود ومعدوم کی اَبحاث جو فلسفہٴ قدیمہ میں موجود ہیں، نیز درسیات میں ان کی تعلیم متداول چلی آرہی تھی اور اِن اَبحاث پرمشتمل کتابیں پڑھنے پڑھانے میں آتی رہی تھیں، کتنی ضروری تھیں اوراب بھی ہیں! ایسی حالت میں اِنھیں موقوف کر دینا، کس قدر نقصان دہ ثابت ہوا ہوگا، اس کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ مذکورہ بحثیں جس فن سے متعلق ہیں، وہ فلسفہ کی ایک شاخ ہے جس کا اصطلاحی نام ”امورِ عامہ“ ہے۔

          مسائلِ کلامیہ سے متعلق مصنفاتِ امام قاسم نانوتوی سے استفادہ کی خواہش رکھنے والا اِسکالر اُسی وقت اپنے لیے ایک رکاوٹ اور بَیْرِیَرْ پیدا کرلیتا ہے جب وہ امورِ عامہ پڑھے بغیر مطالعہ کی حرص کرتا ہے۔ امورِ عامہ وہ فن ہے جس میں اُن چیزوں سے بحث کی جاتی ہے جو مجردات و مادیات دونوں میں مشترک ہیں؛ لیکن اِس کی دوسری قسیم جس میں خدائے برتر کی ذات و صفات اور جواہرِ مجردہ کے اوصاف سے بحث کی جاتی ہے اور اُس کا اصطلاحی نام ”علمِ الٰہی“ (یاالٰہیات) ہے، اگر درسیات پڑھنے کے زمانہ میں مابعد الطبیعیات کے اِس فن کی کچھ اصطلاحات کانوں میں پڑ چکی ہیں، تو دلائل کے افہام و تفہیم میں ایک رکاوٹ ہی رہتی ہے۔ پھر استفادہ کی خواہش رکھنے والے اِسکالر کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ مولانا تھانوی کی تصانیف ، خصوصیت کے ساتھ بوادرالنوادر وغیرہ (۴۱)میں جو بحثیں ہیں اُن کو بھی ملاحظہ میں رکھے؛ کیوں کہ اگر اُن پر نظر نہیں ہے، تو موضوع اور مسئلے کو سمجھنا نہ صرف سخت دشوار ہے؛ بلکہ ایسی صورت میں مصنَّفاتِ امام نانوتوی کے اوراق، مطالعے کی غرض سے کھولنا ہی، شاید ایک زائد کام محسوس ہو۔ حضرتِ امام کی تمام کتابوں کے مضامین (حجة الاسلام کا استثناء ممکن ہو) اس کا کھلا ثبوت ہیں۔ مثال کے طور پر وجود و عدم، موجودِ اصلی، موجودِ عارضی کے متعلق وضاحت و طمانینت حاصل کرنے اور متعلقہ مسئلے سے پیدا ہونے والے شبہات کا ازالہ کرنے اور اُس بحث کو قابو میں لانے کے لیے، جو کہ تقریر دل پذیر کے صفحہ ۴۱ سے ۱۷۲/ تک چلی گئی ہے، ملاحظہ کر لینا بھی اس ضرورت کے احساس کے لیے کافی ہے۔ پھر علومِ عقلیہ کے مبادی، مسائل سے واقفیت کے ساتھ میبذی میں مذکور بحث ”فی اثبات الواجب لذاتہ“، ”واجب الوجود و مراتب الوجود“ کی اُن بحثوں کو نہ صرف ملاحظہ فرمانا؛ بلکہ اُن سے مناسبت ہونا بھی ضروری ہے جو مختلف فصلوں کے تحت میبذی کے صفحہ ۴۵ سے ۱۶۱/ تک چلی گئی ہے؛ نیز صفحہ ۱۶۱/ و مابعد کے صفحات میں عقولِ مجردہ کی بحث بھی متوازی مطالعے کی حیثیت سے مفید و مددگار ہیں۔ اگر اِن سب پر نظر رہے، تو اس وقت حضرت نانوتوی کی مذکورہ تشریحات اور ذکر کردہ مسائل کی اہمیت اور صحیح قدر معلوم ہو، اور دلائل کی کیفیت اوروزن کا بھی ہو۔

          عقائدِ اسلامی کی غیروں کے حملے سے حفاظت و مدافعت کے حوالے سے امامِ قاسم نانوتوی کی کلامی تصنیفات میں یہی ٹھوس اور ناقابلِ رد عقلی ومشاہداتی دلائل ہیں جن کی ایک ہلکی سی جھلک دکھائی گئی؛ لیکن واقعہ یہ ہے کہ مولانا نانوتوی کے کسی بھی مضمون کو پڑھنے کے بعد بالفاظ مولانا عتیق الرحمن عثمانی ”کوئی سلیم الطبع اور متلاشیِ حق انسان اسلام کی صداقت و حقانیت کو تسلیم کرنے سے اِبا نہیں کرسکتا۔“ کیوں کہ اِن دلائل میں طریقہٴ استدلال اور اسلوبِ بیان تصوراتی و خیالی طرز پر نہیں ہے؛ بلکہ خارجی تشکیکاتی حوادث پر محسوساتی و مشاہداتی اصولِ موضوعہ کے حوالے سے عقلی، کلامی اور شرعی حقائق کا انطباق دکھلانا اور اُس کے لیے دلائل میں مقدمات کی ترتیب ایسی مقرر کرنا جو بالکل عقلی اور طبعی ہوں، یہ پیش نظر ہے؛تاکہ ”اصولِ اسلام اور فروعِ ضروریہ حسبِ قواعدِعقلیہ منضبط ہو جائیں جس کی تسلیم میں کسی عاقل منصف کو کوئی دشواری نہ ہو۔“

حواشی:

(۱) مجالس الحکمت مرتبہ حکیم محمد مصطفی بجنوری میں مذکور ہے کہ حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی نے فرمایا ”تحذیر الناس“ میں کئی مقامات پر مولانا (محمد قاسم نانوتوی ) نے انبیاء کے اتصاف بالکمالات میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو واسطہ فی العروض کہا ہے، تو یہ مولانا کی اصطلاح ہے، اِس سے مر اد واسطہ فی الثبوت ہے؛ کیوں کہ واسطہ فی العروض کے معنی تو یہ ہیں کہ ذی واسطہ حقیقةً موصوف ہی نہ ہو؛ بلکہ موصوف، محض واسطہ ہی ہو، جیسے سفینہ و جالسِ سفینہ کہ متحرک، محض واسطہ یعنی سفینہ ہی ہے اور ذی واسطہ یعنی جالس حقیقةً متصف بالحرکت ہی نہیں، تو کمالاتِ انبیاء میں بھی واسطہ فی العروض کے معنی یہ ہوں گے کہ ”مَاکَانُوْا مُتَّصِفِیْنَ بِالنُّبُوَّةِ وَکَمَالاتِہَا حَقِیْقَةً“، حالاں کہ خود حق تعالیٰ نے جابجا قرآن شریف میں ارشاد فرمایا ہے: لَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا وَمثلہ اور اِنَّہ کَانَ صِدِّیْقًا نَبِیًّا وغیر ذالک۔ پس واسطہ فی الثبوت مراد ہے، جیسے حرکتِ ید، مفتاح کے لیے کہ واسطہ اور ذی واسطہ دونوں، بالذات متحرک ہے، محض تقدم ذاتی کا فرق ہے۔․ ․ ․ ․ ․ ․ اور اسی واسطے یعنی فی العروض کے اس معنی کے اعتبار سے کہ ”ذی واسطہ حقیقةً موصوف ہی نہ ہو“۔علامہ برزنجی مدنی نے واسطہ فی العروض ہونے پر انکار کیا ہے اور اس پر مولوی ظفر احمدصاحب نے کہا کہ مولانا خلیل احمد صاحب سلمہ سہانپوری نے فرمایا تھا کہ اس کا خلجان میرے دل میں بھی ہوا کرتا تھا، اس کی تاویل کرنا ہوگی، باقی اصطلاح کا علیحدہ ہونا، یہ امر کا براً عن کابرٍ موروث ہے، چناں چہ شاہ ولی اللہ صاحب کی بھی خاص اصطلاحات ہیں۔․ ․ ․ ․ ․ ․ اس کے بعد ایک صاحب نے کہا کہ اس واسطہ فی العروض کی مولانا (نانوتوی) نے یہ اَمثلہ لکھی ہیں، جیسے دیوار کا منور ہونا آفتاب سے، یاپانی کا آگ سے گرم ہونا، فرمایا بس اس سے تاویل کی تصریح تائید ہوگئی؛ کیوں کہ یہ اشیاء فی الحقیقت بھی موصوف ہوتی ہیں، اب صاف معلوم ہوگیا کہ واسطہ العروض سے واسطہ فی الثبوت ہی ہے، پھر فرمایا کہ مولانا کے علوم کشفی تھے، ان کو واقف ہی سمجھ سکتا ہے۔ (ملفوظات حکیم الامت:۲۹، مجالس حکمت: ۴۰۵، ۴۰۶)․ ․ ․ ․ ․ ․ یہی حقیقت ہے کہ مولانا نانوتوی کی اصطلاح کو واقف ہی سمجھ سکتا ہے، جسے ایک طرف علومِ مکاشفہ میں بھی کچھ درک ہو، دوسری طرف مولانا نانوتوی کی ذات سے بھی جو کہ اب واسطہ در واسطہ ہی ممکن ہے، مناسبت حاصل ہوگئی ہو، مولانا تھانوی کی مذکورہ بالا توجیہ بالکل حق اور درست ہے اور اسی توجیہ کے ذریعہ کتنے ہی مقامات سے خلجان دور ہوجاتا ہے؛ لیکن اس کے ساتھ ہی بعض مقامات پر مولانا نانوتوی نے ”عرض“ کے ایک دوسرے معنی بھی بتلائے ہیں، یعنی واسطہ فی العروض سے مراد واسطہ فی الثبوت ہونے کی نفی فرمائی ہے؛ چناں چہ آبِ حیات: ص۶۸/پر ارشاد ہے ”مگر یہ بات یاد رہے کہ وجودکا عارض ہونا بمعنی بالعرض جو مقابل بالذات ہوتا ہے ، بمعنی عرض مقابل جوہر نہیں، جو یوں کہا جائے کہ وجود جو اپنے تحقّق میں سب سے مستغنی ہے اور سب اپنے تحقّق میں اس کے محتاج۔“․ ․ ․ ․ ․ ․ مولانا نانوتوی یہ فرما رہے ہیں کہ بالعرض جوہر بھی ہو سکتا ہے، جوہر پر عرض کا اطلاق محال نہیں ہے یعنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے واسطہ فی العروض ہونے کے باوجود انبیاء کا استقلالی اور جوہری وجود برقرار رہتا ہے؛ اس لیے ”اِنَّہ کَانَ صِدِّیْقًا نَبِیًّا“ وغیرہ کے معارض نہیں۔ جب معارض نہیں تو یہ اشکال بھی وارد نہیں ہوتا کہ انبیاء کا وجود ”اگر عرض ہوگا تو پھر جوہر کون ہوگا“، ”ہاں بالعرض کا اطلاق جوہر پر محال ہوتا تو میرا کہنا بھی بیجا تھا۔“ (دیکھیے آبِ حیات:۶۸،۶۹، نیز ص۳۶،شیخ الہند اکیڈمی ۱۴۲۹ھ)

(۲) بطور نمونہ کے ملاحظہ ہو ”قبلہ نما“ میں لکڑی کے خشک ستون کا گریہ، سنگریزوں کی تسبیح اور شق القمر کی بحث، ”حجة الاسلام“ میں اعجاز عملی پر مفصل گفتگو اور تقریر دل پذیر میں صفحہ ۹۵ تا ۱۱۵ قانونِ کشش وغیرہ پر کی گئی تنقیدات۔

(۳) حضرت مولانا محمد یعقوب نانوتوی(ولادت ۱۳/ صفر ۱۲۴۹ھ مطابق ۲/جولائی ۱۸۳۳سء، وفات یکم ربیع الاول ۱۳۰۲ھ مطابق ۲۲/دسمبر ۱۸۸۸ء) دارالعلوم دیوبند کے ابتدائی بنیادی معاون، سرگرم سرپرست اور صدر مدرس تھے۔ حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی کے دست مبارک پر بیعت ہوئے، خلافت و اجازت سے نوازے گئے، حضرت حاجی صاحب کی کتاب ضیاء العلوم کا عربی میں ترجمہ کیا، مولانا یعقوب صاحب ہندوستان کے نامور علماء اہلِ درس و معرفت اور ممتاز ترین اصحاب کمال میں سے تھے اور مولانا تھانوی کے خاص استاذ مربی تھے، حضرت مولانا تھانوی نے فتویٰ نویسی کی مشق حضرت مولانا یعقوب صاحب کی ہی خدمت میں رہ کر کی۔ (دیکھیے قاسم العلوم احوال و آثار از مولانا نورالحسن راشد کاندھلوی، حاشیہ:ص۱۶۷)۔

(۴)سوانح قاسمی از مولانا مناظر حسن گیلانی :۳۵۰۔

(۵)ملفوظات حکیم الامت :۲، الافاضات الیومیہ :۲/۳۶۴۔

 (۶) وہ تین ممتاز شاگرد یہ ہیں: حضرت مولانا محمود حسن صاحب دیوبندی، حضرت مولانا فخر الحسن گنگوہی، حضرت مولانا احمد حسن امروہی۔

(۷) سوانح قاسمی از مولانا،مناظر احسن گیلانی:۲/۳۴۸۔

(۸) فاتحہ واجب ہے؟: ص۵۵۔

(۹) یہ بات ایسی ہے جیسے ”شیخ علی نے ۲۵/ دفعہ اول سے آخر تک احیاء العلوم کو پڑھا۔“

(۱۰) فاتحہ واجب ہے؟:ص ۳۱،۳۲۔

(۱۱)حکمتِ قاسمیہ:ص۲۰،۲۲، فاتحہ واجب ہے؟:۳۱،۳۲۔

(۱۲)انفعہم تصنیفا ․ ․ ․ ․ ․ ․ للخواص مولانا الحاج محمد قاسم النانوتوی آیة کبریٰ من آیات اللہ تعالیٰ: خواص کے لیے سب سے زیادہ نافع مولانا الحاج محمد قاسم نانوتوی کی تصانیف ہیں، اللہ کی بڑی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہیں۔ (مأة دروس از مولانا تھانوی اور ترجمہ مفتی محمد شفیع صاحب )

 (۱۳)سوانح قاسمی:۳۹۹۲۔

(۱۴) ایضا:ص۳۹۹۔

(۱۵) قاسم العلوم احوال و آثار:ص۷۶۶۔

(۱۶) مولانا تھانوی فرماتے ہیں ”انبیاء اور علماءِ محققین کامل العقل ہوتے ہیں۔ عقل ایک قوت ہے جو خدائے تعالیٰ نے انسان میں ودیعت کی ہے، جس سے کلیات کا ادراک کرتا ہے، پس علماءِ محققین خواہ تجربہ کار نہ ہوں؛ مگر کامل العقل ہوتے ہیں اور یہی ورثة الانبیاء ہیں۔“ (ملفوظات: ۲۸/۳۹۱،۳۹۲)

(۱۷) تقریر دل پذیر:۲۲ تا ۲۴، شیخ الہند اکیڈمی۔

(۱۸)ملاحظہ فرمائیے تقریر دل پذیر: ص۱۴۔

(۱۹)دیکھیے تقریر دل پذیرص ۱۳ تا ۳۹۔

(۲۰)دیکھیے تقریر دل پذیرص۷۸تا ۷۹

(۲۱)تقریر دل پذیر:ص۵۰۔

(۲۲)حضرت مولانا سید محمد شاہد صاحب مدظلہ امینِ عام جامعہ مظاہر علوم سہارنپور، اس موقع پر ہماری طرف سے بہت زیادہ شکریہ کے مستحق ہیں، جنہوں نے مظاہر علوم میں بیان کیے گئے حکیم الامت کے مواعظ جمع کر دیے، جس کی وجہ سے بطور خاص طلبا و علماء کے ذوق و ضرورت کا بے شمار تحقیقی مواد یکجا مل جاتا ہے۔ ․ ․ ․ ․ ․ ․ یہیں پر یہ مشورہ بھی دینے کا جی چاہتا ہے کہ حضرت کے مواعظ کا ایک اہم بلکہ اہم ترین حصہ وہ بیانات بھی ہیں جو دارالعلوم دیوبند میں ہوئے، اربابِ دارالعلوم دیوبند کی توجہ سے اگروہ مواعظ بھی یکجا ہوکر مجموعہ کی شکل میں مستقلاً چھپ جائیں، تو کیا ہی عمدہ بات ہو!

(۲۳)مظاہر الآمال وعظ نمبر ۵، ص۲۵۴، نیز دیکھیے اشرف التفاسیر: ج۲/ص۳۶۳،۳۶۴)

(۲۴) اس میں کچھ مبالغہ نہیں ہے؛ کیوں کہ واقعہ یہ ہے کہ اس کلیہ کی فروعات اورمندرج امثلہ کی تشقیقات و تجزیاتی تحقیقات سے جن بے شمار مسئلوں کا حل دریافت ہو جاتا ہے، ان کا کوئی حدوحساب نہیں ۔

(۲۵)ان میں سے کئی مسئلوں کو خود مولانا نانوتوی نے بیان بھی کیا ہے، ملاحظہ ہو تقریر دل پذیر :ص۴۷ تا ۱۷۲۔ اور تقریر دل پذیرکے علاوہ دوسری تصنیفات میں بھی مضمون کی مناسبت سے حسبِ موقع متعدد مسئلے موجود ہیں۔

 (۲۶)تقریر دل پذیر :ص ۵۲۔

(۲۷)براہین قاسمیہ: ص۲۷،مکتبہ دارالعلوم ۱۴۳۳ - ۱۲۱۲ء ۔

 (۲۸) حضرت مولانا عبدالعلی صاحب نے جو حضرت مولانا نانوتوی کے ارشد تلامذہ میں سے تھے، انہوں نے ہی حضرت نانوتوی کے مضامین دلائل اور براہین کو ترتیب دیا تھا۔ اس کے متعلق مولانا اشتیاق احمد صاحب نے تحریر فرمایا ہے کہ براہینِ قاسمیہ کے ”دلائل و تقریرات سب کی سب حضرت شمس الاسلام نانوتوی رحمہ اللہ علیہ کے زورِ قلم کا نتیجہ ہیں اور چوں کہ دلائل کے مقدمات دیگر کتب سے ماخوذ نہیں ہوتے؛ بلکہ وہ خود ممدوح کی طبع رسا کا نتیجہ ہوتے ہیں، جن کی تقریر کے ضمن میں ایسے فوائد علمی بھرے ہوئے ہوتے ہیں، جن میں بہت سے مشکل مضامین کا حل بھی مضمر ہوتا ہے؛ اِس لیے ان کی افادیت صرف اتنی ہی نہیں ہوتی کہ وہ کسی معترض کا منہ بند کرنے تک محدود ہو؛ بلکہ وہ پائیدار اصولوں کی حیثیت سے غور و فکر کی صحیح راہیں ایک متعلِّم و شائقِ علم کے سامنے کرنے والے پائیدار فوائد کے حامل ہوتے ہیں۔“

(۲۹)واجب الوجود کے مضمون کا بھی یہی حاصل ہے کہ اُس کی ذات خود اس کے وجود کی علت ہو۔ اور یہیں سے ایک اہم گتھی مولانا تھانوینے کھول دی ہے، یعنی جو لوگ خدا کے قائل ہونے کے ساتھ مادہ کو بھی قدیم سمجھتے ہیں، ایسے لوگوں کے مقابلے میں مولانا تھانوی نے قِدمِ مادہ کی دلیل کے طِلَسْمْ کو توڑ کر رکھ دیا ہے، فرماتے ہیں کہ ”حقیقت میں اگر غورِ صحیح کیا جاوے، قِدَمِ مادہ کے ہوتے ہوئے، پھر خود صانع ہی کی ضرورت نہیں رہتی؛ کیوں کہ جب اس کی ذات، اس کے وجود کی علت ہے تو وہ واجب الوجود ہو گیا اور ایک واجب الوجود کا دوسرے واجب الوجود کی طرف محتاج ہونا خود خلافِ عقل ہے، جو تعلق حق تعالیٰ کا اپنی صفات و افعال سے ہے، وہی تعلق اس (مادہ) کا اپنی صفاتِ حرکت و حرارت اور اپنے افعال و تنوعات وغیرہ سے ہوسکتا ہے۔ پس خدائے برحق کا قائل ہونا خود موقوف ہے حدوثِ مادہ پر“ اسی لیے ”اہل سائنس خود خدا ہی کے قائل نہیں۔“ (الانتباہات المفید:ص ۳۰، مطبع انتظام کانپور۱۳۳۱ھ)

(۳۰) لالہ آنند لال نے رسالہ ”آریہ سماچار“ میرٹھ میں اسلام کے خلاف ہرزہ سرائیوں کا سلسلہ جاری کر رکھا تھا، اور اندازِ نگارش بھی نہایت سوقیانہ بلکہ گستاخانہ تھا۔ براہینِ قاسمیہ اسی گستاخانہ تحریر کے جواب میں ۱۲۹۶ھ میں لکھی گئی تھی۔

(۳۱)براہینِ قاسمیہ: ص۲۹:۳۱۔

(۳۲) خطبات و مواعظِ حکیم الامت :۵، مظاہر الآمال: ص۲۵۴۔

(۳۳) خطبات و مواعظ حکیم الامت:۵، مظاہر الآمال:ص۲۵۴، مرتب مولانا ظفر احمد عثمانی۔

(۳۴) ”ذات اسے ہی کہتے ہیں جس سے تمیزحاصل ہو۔“

(۳۵)تقریر دل پذیر:ص۶۶ تا ۶۸۔

(۳۶) یہ قدیم کا لفظ صرف اعتباری ہے، یعنی دوسرے حوادث کے مقابلے میں پہلے پیدا کیا گیا، نہ کہ وہ قدیم جو فلاسفہٴ مشائین کی اصطلاح میں مستعمل ہے۔ حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی کے بیان کردہ اس مسئلہ کو گیارہویں صدی عیسوی کے مشہور طبیب و فلسفی ابوالحسن احمد بن محمد طبری نے اپنے الفاظ میں زیادہ صاف طریقے سے بیان کردیا ہے، وہ لکھتا ہے: ”ہیولیٰ تمام متضادات کے لیے مساوی طور پر بنایا گیا ہے۔ عنصر ہر مٹی سے بنی ہوئی چیز کی طینت اور اصل ہے، صورتیں اللہ کے یہاں محفوظ ہیں۔ اِنہی محفوظ صورتوں سے صورتیں پیدا ہوا کرتی ہیں۔ اگر سوال کیا جائے کہ یہ صورتیں اللہ کے ساتھ قدیم ہیں یا قدیم نہیں ہیں؟ تو جواب یہ ہے کہ ہر وہ چیز جو اللہ کے سوا ہے وہ تو پیدا اور حادث ہے، گویا مطلب یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے عقل، نفس، عنصر، صورت کواکب، افلاک اورامہات (اصلِ عناصر) کو پیدا فرمایا۔ پھر اُن کی آمیزش کی اور اُن سے حیوانات اور نباتات بنائے، پس اِس جواب پر کوئی اعتراض وارد نہ ہوگا۔“ (المعالجات البقرطیة، مقالہ اول، باب ۳۲”عدم مطلق و عدم مفید: ص۹۶، اردو ترجمہ سینٹرل کونسل فار ریسرچ اِن یونانی میڈیسن، سن اشاعت ۱۹۹۵ء)۔

 (۳۷)تقریر دل پذیر:ص۶۹، ۷۰، اشرف التفاسیر: ح۲/ ص۳۶۳۔

(۳۸)وَ اِذَا قَضٰٓی اَمْرًا فَاِنَّمَا یَقُوْلَ لَہ کُنْ فَیَکُوْنَ․ (خدائے تعالیٰ کی قدرت ایسی عظیم اور عجیب ہے کہ ) جب کسی کام کا پورا کرنا چاہتے ہیں تو (بس اتنی بات ہے کہ) اُس کو (اتنا) فرما دیتے ہیں کہ ہو بس وہ (اسی طرح) ہو جاتا ہے۔ اس آیت کے ذیل میں فائدے کے تحت مولانا تھانوی فرماتے ہیں کہ ”اِس کُنْ کہنے میں دو احتمال ہیں: ۱-ایک یہ کہ مجاز ہو، سرعتِ تکوین اور جلدی بنا دینے سے۔۲- دوسرے یہ کہ حقیقتاً حق تعالیٰ کی یہی عادت ہو۔

                 اس پر دو شبہے کیے گئے ہیں:۱- ایک یہ کہ جب وہ شئ موجود نہیں تو کُنْ کس کو کہا؟ جواب یہ ہے کہ علم میں موجود ہے۔ ۲-دوسرے یہ کہ خود کُنْ بھی حادث ہے، ورنہ (اگر کُنْ حادث نہ ہو بلکہ قدیم ہو تو۔ف) قِدم، مُکَوَّنْ کا لازم آوے گا۔ اور (یہ محال ہے، اس لیے جب کُنْ حادث ہوتو۔ف) اس کے لیے اگر کُنْ ہو تو تسلسل لازم ہے۔ جواب یہ ہے کہ صرف لفظ کُنْ کو بدون کُنْ پیدا کر دیا ہو۔ اور اگر قدیم بھی مان لیا جاوے تب بھی تعلق کے حدود سے مکوَّن محدَث رہے گا۔ رہا خود اس تعلقِ حادث کے ایجاد کے لیے ایک دوسرا تعلقِ حادث ہونا؛ اِس لیے ضرور نہیں کہ تعلق لاموجود و لامعدوم ہے، لہٰذا نہ ایجاد کی ضرورت ہے اور نہ علتِ ایجاد بننے میں کوئی اشکال۔ رہا کلام اس تعلق کے مرجح میں سو وہ ذاتِ حق ہے، اور بوجہِ وجودِ صفتِ ارادہ کے جس کی ذاتیات یا لوازم سے ترجیح و تخصیص، متی شاء ہے، یہ تخصیص و ترجیح بلامرجح و مخصِّص بھی نہیں بلکہ وجہِ ترجیح کا سوال کرنا تخلُّلِ جعل بین الذات والذاتی یا بین الملزوم واللازم کا تجویز کرنا ہے، وہو باطلٌ۔“ اس کے بعد مولانا تھانوی فرماتے ہیں : ”حضراتِ ناظرین اِس مقام پر مجھ کو اِس خاص طرز پر طالب علمانہ تحریر میں بوجہِ ضرورتِ تفہیمِ فلسفی مزاج صاحبوں کے معذور فرماویں۔“ (بیان القرآن:ج۱/ص۶۴، تاج پبلشرز دہلی)

(۳۹)اشرف الجواب: ص۵۶۸۔

 (۴۰)ملفوظات:ج۲۶، الکلام الحسن:۱۴۶،۱۴۷، ادارہٴ تالیفات اشرفیہ، ایڈیشن ۱۴۲۵ھ)

(۴۱) مثلاً القطائف من اللطائف یعنی لطائف ستہ، ظہور العدم بنور القدم، تمہید الفرش فی تحدید العرش۔

%%%

 

-------------------------------------------

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ 8-9‏، جلد: 98 ‏، شوال‏، ذی قعدہ 1435 ہجری مطابق اگست‏، ستمبر 2014ء