انسانی قانون کافی نہیں

انسانیت کو الٰہی قانون کی طرف لوٹنا ضروری

 

از: ڈاکٹر ایم اجمل فاروقی‏، 15-گاندھی روڈ دہرہ دون

 

          اس عظیم کائنات میں خالقِ کائنات کے عظیم الشان، پیچیدہ اور رنگا رنگ مظاہر اور توانائیوں کی مختلف شکلوں کے درمیان کمزور سے حضرتِ انسان کی موجودگی بذات خود ایک معجزہ ہے۔ خالقِ کائنات کی مخلوقات ہوا، پانی، آگ، شمسی، قمری توانائی زیر زمین وزیر سمندر پائی جانے والی معدنیات پر غور کرنے سے انسان اپنی حقیقت کو بخوبی سمجھ سکتا ہے، اگر وہ غور وفکر سے کام لے؛ مگر یہ حضرت تاریخ کے ہر دور میں عقل ودانش کی بدہضمی اور طاقت ودولت کے نشہ کا شکار ہوکر خود خالقِ کائنات کے خلاف ہی بغاوت پر آمادہ نظر آتے ہیں۔ انقلابِ فرانس کے بعد کے دورِ عقلیت پسندی اور خدابیزاری میں یہ مرض سب سے شدید نظر آتا ہے جس میں دین ودنیا کی تفریق کے ساتھ یہ اصول طے پاگیا کہ ”ماضی کے تجربوں اور عقل کی روشنی میں انسان اپنے لیے خود قوانین بناسکتا ہے۔“ اور اس طرح انسانی اجتماعی زندگی سے خدائی رہنمائی کو بے دخل کرنا ہی عقل پسند اور عقل مند، ترقی پسند وغیرہ وغیرہ ہونے کا پیمانہ مقرر ہوا۔ پچھلے 300/400 سالوں کی تاریخ اس پر گواہ ہے کہ اس خبط اور جنون میں مبتلا انسانوں نے اپنے ایوانوں اور تجربہ گاہوں سے جو قوانین بنائے وہ انسانیت کی تعمیر کے بجائے انسانیت کی بربادی کے لیے ہی کار آمد ثابت ہوئے۔ آزادی، جمہوریت، آزاد تجارت، صنفی مساوات کے نام پر جس طرح بظاہر چمک دمک دکھائی گئی؛ مگر آج پوری دنیا میں پھیلا سماجی، معاشی، اخلاقی، ماحولیاتی اسی خدابیزار اور بے قید عقلی آزادی کا نتیجہ ہے۔ انسانیت روزانہ قسطوں میں اپنے تجربوں کی ہلاکت خیزیوں کی گواہ بن رہی ہے۔ اپنی بے قید عقلی آزادی کے فساد کا نظارہ کررہی ہے۔ افراط وتفریط پر مبنی قانون سازیوں کے مہلک نتائج دیکھ رہی ہے؛ مگر خالقِ کائنات کی طرف رجوع ہونے کی توفیق نہیں ہورہی ہے۔

          صنفی مساوات، انسانوں کے مابین معاشرتی تعلقات، مردوزن کے دائرہٴ کار وآپسی تعلقات پر سپریم کورٹ کے دو فیصلے اور مساوات کے نام پر مصنوعی مساوات کے نتائج پر اس وقت دنیا میں محدود چند اعلیٰ ترین خاتون عہدے دار میں سے ایک Pepsi-Co کی بھارت نژاد افسر اعلیٰ C.E.O.اندرانوئی Indira Nooyi کا اعترافی انٹرویو ہماری اور تمام انسانیت کی آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہے کہ انسان خود اپنا شارع تعبیر کسی الٰہی رہنمائی کے نہیں ہوسکتا۔ پہلے فیصلہ میں سپریم کورٹ نے ایک بینکر اور ایک بین الاقوامی ایئرلائن کے عملہ کی رکن کے درمیان ”لِواِن رِلیشن شپ (Live-in-relationship) کے دوسال بعد خاتون کے ذریعہ زنا اور دھوکہ وغیرہ کا مقدمہ درج کرانے پر دہلی ہائی کورٹ کے فیصلہ پر کہ اس طرح کی الزام بازی کو مردوں سے بدلہ لینے یا شادی پر مجبور کرنے کے لیے کیا جارہا ہے۔ جسٹس وکرم جیت سن اور جسٹس ایس سنگھ کی Benchنے اس معاملہ سے متعلق قانونی سوالات کی جانچ کرنے کے لیے اتفاق کیا۔ سوال یہ ہے کہ کیا دو بالغ افراد کے درمیان مرضی سے بنا رشتہ ٹوٹنے پر ان دوسالوں کے رشتوں کی بنیاد پر جس میں جسمانی تعلقات شامل ہیں کو مرد کے خلاف زنا کے الزام کے لیے بنیاد بنایا جاسکتا ہے؟ دہلی ہائی کورٹ نے اس معاملہ میں کہا تھا ”ایسے بہت سارے معاملات دیکھنے کو مل رہے ہیں جن میں خاتون رضامندی سے جسمانی تعلقات بناتی ہیں پھر جب رشتہ ٹوٹتا ہے تو وہ قانون کو بدلہ لینے کے ہتھیار کی طرح استعمال کرتی ہیں، ایسا پیسہ جمع کرنے یا پھر لڑکے کو شادی کے لیے مجبور کرنے کے لیے کیا جاتاہے۔(29جون 2014یو․ این․ آئی)

          بہار کے ایک شخص کی طرف سے دائر پیشگی ضمانت کی درخواست پر سپریم کورٹ نے اپنے 4جولائی 2014کے فیصلہ میں جسٹس چندرمولی کمار اور جسٹس پنا کی چندراگھوش نے کہا کہ سپریم کورٹ جہیز مخالف قانون کے غلط استعمال پر تشویش کا اظہار کرتا ہے اور حکم دیتا ہے کہ اس طرح کے معاملات میں پولیس خود ہی ملزم کو گرفتار نہیں کرسکتی، اگر پولیس گرفتار کرتی ہے تو اسے گرفتاری کی وجہ بتانی ہوگی۔ جس کا عدالتی جائزہ لیا جائے گا۔ جہیزی اموات کے قانون مجریہ 1983کی دفعہ 498کے تحت متاثرہ خاتون کے ذریعہ نامزد ملزمان کو پولیس سب سے پہلے گرفتار کرتی ہے، پھر تحقیقات شروع کرتی ہے۔ فیصلہ میں کہاگیا کہ دفعہ از خود نوٹس اور غیرضمانتی دفعہ ہونے کی وجہ سے غیرمطمئن بیویاں اس کا استعمال دفاع کے بجائے ہتھیار کے طور پر کررہی ہیں؟ عدالت نے اس حقیقت کی طرف بھی اشارہ کیا کہ سال 2012میں اس دفعہ کے تحت گرفتار ہونے والوں میں ایک چوتھائی خواتین تھیں، جو زیادہ تر ملزم شوہروں کی مائیں اور بہنیں تھی۔ عدالت نے کہا ”ہمیں یقین ہے کہ کوئی بھی گرفتاری صرف اس لیے نہیں کی جانی چاہیے کہ دفعہ از خود نوٹس اور غیر ضمانتی ہے پولیس کو بھی اپنی روایتی ذہنیت سے باہر نکلنا ہوگا۔ (5-7-2014امر اجالا ودیگر اخبارات)

          تمام دنیا میں حقوقِ نسواں اورصنفی مساوات پر بہت زور ہے۔ اس کے باوجود تمام اداروں کے اعلیٰ ترین عہدیداروں میں تمام قابلیتوں کے باوجود خواتین کو تناسب تقریباً نہیں کے برابر ہے۔ گنی چنی اعلیٰ ترین عہدیداروں C.E.O. میں پیپسی کوPepsico کی ہندنژاد C.E.Oاندرانوئی Indira Nooyi کا نام سرِ فہرست ہے۔ خواتین کے کیریئر ملازمت وغیرہ اور ان کی خاندانی زندگی میں توازن کے مسئلہ پر انھوں نے اپنے ایک حالیہ انٹرویو کے ذریعہ صنفی عدل کے بجائے صنفی مساوات کے حامیوں اور عام انسانوں میں ہلچل پیدا کردی ہے۔ ہوا یہ کہ امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے ایک اعلیٰ عہدیدار این میری سلاٹر Ann Marie Slawghter کی کتاب ”خواتین اب بھی سب کچھ حاصل نہیں کرسکتی؟“ پر انٹرویو دیتے ہوئے کولوریڈوامریکہ میں کہا کہ ”میں سوچتی ہوں کہ خاتون سب کچھ حاصل نہیں کرسکتی۔ ہم ایسا دکھاوا کرتے ہیں؛ مگر ایسا ہوتا نہیں ہے۔ دنیا بھر میں سب سے زیادہ طاقتور شمار کی جانے والی خواتین میں سے ایک اندرانوئی نے کہا انسانی جسم میں موجود حساتیاتی گھڑی اور مستقبل بنانے کا کلاک ایک دوسرے کے بالکل متصادم ہیں۔ جب آپ کے بچے ہوتے ہیں، تب آپ کو کیریئر مستقبل بھی بنانا ہوتا ہے۔ جب اس کشمکش کے بالکل درمیان میں ہوتے ہیں آپ کو بچوں کے لیے بھی وقت درکار ہوتا ہے۔ جب آپ اور عمردراز ہوتے ہیں تو آپ کے والدین کو آپ کی ضرورت ہوتی ہے۔ (اس طرح ہم پس رہے ہوتے ہیں۔ دو مختلف طرح کے تقاضوں کے درمیان) آپ کو روزانہ فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ آپ ایک بیوی ہیں یا ماں ہیں۔ اگر آپ میری بیٹیوں سے پوچھیں گے تو میں قطعی طور سے نہیں کہہ سکتی کہ وہ مجھے اچھی ماں کے خانہ میں رکھیں گے۔ آپ کو اس کشمکش سے مقابلہ کرنا ہوتا ہے؛ کیونکہ آپ احساسِ جرم کے ساتھ موت کے دروازہ تک پہنچ جاتی ہیں۔ میں اپنی زندگی میں احساسِ جرم یا ندامت سے بہت بار موت کے دروازہ تک پہنچی ہوں۔ اپنی دو بچیوں کی پرورش کے دوران پچھلے 34سالوں میں مجھے اس احساس نے موت کا احساس دلایا ہے۔ خصوصاً جب کہ میں اپنی بچیوں کے اسکول میں مشترکہ چائے پارٹی میں حاضرنہیں ہوسکتی تھی، وہ واپسی پر مجھ سے شکایت کرتی تھیں۔ میں نے اس شکایت سے نبٹنے کا ایک طریقہ نکالا کہ میں نے اسکول سے ان والدین کی فہرست حاصل کرلی جو میری طرح ان پارٹیوں میں شریک نہیں ہوسکتی تھیں۔ میں نے اپنی بیٹیوں سے کہنا شروع کردیا کہ دیکھو میری طرح یہ بھی ہیں، میں اکیلی نہیں ہوں۔ جب بچے نو عمر ہوتے ہیں تب ان کو آپ کی شدید ضرورت ہوتی ہے اور ان کو وقت نہ دینے کا احساسِ جرم آپ کو موت تک ستاتا رہے گا۔ (ٹائمس آف انڈیا 4-5/7/2014نئی دہلی)

          تاریخ کی شاید سب سے سنگین اور مہلک اگر کوئی غلطی ہے تو وہ یہ ہے کہ مشین کسی اور نے بنائی اور اس کو چلانے اور رکھ رکھاؤ کے طریقے کوئی اور بنارہا ہے؛ حالانکہ ہم پلاسٹک کے معمولی ڈبہ اور بوتل کے طریقہٴ استعمال اور زیادہ بہتر فائدہ حاصل کرنے کے لیے اس بنانے والی کمپنی کے ہدایت نامہ پر عمل کرتے ہیں؛ مگراشرف المخلوقات حضرتِ انسان مرکز کائنات کے معاملہ میں ہم اس اصول کو اپنے نفس کے ہاتھوں گروی رکھ دیتے ہیں آج ہر طرف ترقی کی چمک ہے اونچی عمارتیں، مال، پلازہ، دانش گاہیں، بینک، ہوائی اڈہ، ذرائعِ نقل وحمل، ذرائعِ علاج ومعالجہ، ذرائعِ معیشت، ذرائعِ ابلاغ وغیرہ ہیں؛ مگر دنیا آج جتنی پریشان ہے اتنی شاید پہلے کبھی نہیں تھی۔ قرآنِ پاک میں اللہ پاک فرماتے ہیں کیا تم نے اسے دیکھا جس نے اپنی خواہشات کو اپنا معبود بنالیا ہے اور باوجود سمجھ بوجھ کے اللہ نے اسے گمراہ کردیا اور اس کے کان ودل پر مہر لگادی ہے اور اس کی آنکھ پر بھی پردہ ڈال دیا ہے، اب ایسے شخص کو اللہ کے علاوہ کون ہدایت دے سکتا ہے۔ کیا اب بھی تم نصیحت نہیں پکڑپاتے۔ انھوں نے کہا: ہماری زندگی تو دنیا کی ہی زندگی ہے، ہم مرتے ہیں اور جیتے ہیں اور ہمیں زمانہ ہی مارڈالتا ہے، دراصل انھیں اس کی کچھ خبرہی نہیں، یہ تو صرف قیاس اور اٹکل سے کام لے رہے ہیں۔ (الجاثیہ:23-24)

          دراصل علم اور حقیقت کے مقابلہ قیاس و اٹکل کی گرم بازاری ہے جس نے انسانوں کو ہمیشہ افراط و تفریط میں مبتلا رکھا۔ پوری انسانی تاریخ میں یہی حال ہے۔ کبھی مال ودولت عیش وعیاشی سب کچھ ماناگیا کبھی ہر چیز سے پرہیز اور دنیا سے مکمل پرہیزہی معراج قرار پائی۔ کبھی دولت اور طاقت کی پوجا ہوئی پھر ردِ عمل میں رہبانیت کا دور دورہ ہوگیا۔ آج بھی یہی حال ہے، ہم اپنی غیرمکمل معلومات، ناقص ادھوری معلومات اور علم کی بنیادپر انسان جس پیچیدہ مخلوق کے لیے قانون وضع کرنے لگ جاتے ہیں جو کہ اکثر ایجابی ہونے کے بجائے ردِ عمل پر مبنی ہوتا ہے۔ سپریم کورٹ کے مذکورہ دونوں فیصلے اس ضمن میں آتے ہیں۔ پہلے ہم اپنی کم علمی کی بناء پر ناقص نظامِ زندگی اور فلسفہ زندگی ترتیب دیتے ہیں جو بتاتا ہے کہ یہ دنیا کے مزہ ہی سب کچھ ہیں کھاؤ، پیو، موج کرو اور زمانہ ہمیں موت کی نیند سلادے گا کھیل ختم ہوجائے گا۔ اب اس فکر وفلسفہ کی بنیاد پر جو تہذیب کھڑی ہوگی اس کا رویہ اخلاقیات، معاشیات، سماجیات ہر معاملہ میں صرف ظاہری فوری فائدہ ”العاجلہ“ پر ہوگا۔ جس اصول، قانون اور اقدار کا فوری فائدہ نہ ہو وہ بیکار ہے۔ وہ بوجھ ہے، اسے ہٹادو، اس اصول، قدر، قانون کو ختم کردو۔ اس فکر میں تضاد اور منافقت اہم مظہر ہے۔ یہاں طاقت ہی حق ہے، پر عمل ہوتا ہے اور بات سماجی انصاف کی ہوتی ہے۔ یہاں نوجوان زنانہ جسموں کو ناپ تول کر ہر زاویہ سے عریاں کرکے ہرممکن اور نمایاں مقام پرپروسا جاتا ہے اور حفاظت عصمت کے قوانین ایسے بنائے جاتے ہیں، جس میں چھونا، گھورنا، اشارہ کرنا، لمس کرنا، لالچ دینا بھی جیل کی ہوا کھانے کے لیے کافی ہے۔ ایک طرف یہ نظریہ اسکول کالج، ادارہ، بس، ٹرین، پارک، کلب ہر جگہ آزادانہ میل جول کو بڑھاوادیتا ہے۔ دوسری طرف حفاظت عصمت کے نام پر پھانسی اور خصی کردینے تک کی سزا دیتا ہے۔ ایک غلط رسم ورواج کے کوکھ سے ہزاروں بلائیں جنم لیتی ہیں۔ مشترکہ خاندان اور جہیز کی رسم سے پیدا ہونے والے مسائل پر جو انسانی ذہنوں نے قانون سازی کی، اس کا نتیجہ جہیزی اموات اور خواتین کے بڑے پیمانہ پر جلائے جانے کی شکل میں نکلا۔ پھر قانون بنایاگیا کہ شادی کی فلاں مدت کے درمیان اگر شادی شدہ خاتون کو کچھ غیرفطری ہوا تو ساری سسرال والے اندر ہوں گے۔ اس کا نتیجہ وہ نکلا جس کا ذکر سپریم کورٹ نے کیا ہے کہ نئی تعلیم، نئی تہذیب کی پروردہ بدتہذیب دھوکہ کھائی ہوئی نسل نے اس قانونی سہولت کو ہتھیار بناکر ساس، سسر، نند سب کو جیل پہنچانا شروع کردیا۔ یہ سب کیوں ہوا؛ کیونکہ معاشرہ میں اکٹھا رہنے کے نام پر مشترکہ بڑے بڑے خاندان رائج ہیں۔ ایک طرف آپ خواتین کو پڑھا لکھاکر جاب کراکر پیسہ بھی کمانا چاہتے ہیں، پھر آفس جانے سے پہلے بچوں کو ٹفن، صاحب کے جوتے پر پالش ان کا ناشتہ، ساس سسر کا چائے، ناشتہ، دواء اور اپنا میک اپ سب کچھ کرانا چاہتے ہیں، واپسی پر سب کے نخرے چائے، ناشتہ، رات کا کھانا اور دلجوئی کے ساتھ، بچوں کے ہوم ورک میں مدد کے ساتھ رات میں سکون کی تلاش کو فریضہ بھی انجام دلانا چاہتے ہیں؛ جبکہ مرد کو اس کا آدھا کام کرنا ہے؛ مگر ستم ظریفی یہ ہے کہ اس غیر انسانی اور ظالمانہ فکر اور عمل پر خود خواتین کا بڑا طبقہ فریفتہ ہے یا ایسا باور کرایا جاتا ہے۔ اندرانوئی جیسی شخصیات اپنی عمر کے جس حصہ میں اپنے دل کے درد کا اظہار کررہی ہیں، کیا وہ دنیا بھر میں جدید انسان اور فطرت دشمن تہذیب اور نظام کے خلاف کھلی دلیل نہیں ہے؟

          سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلوں کے ذریعہ اپنے پہلے کے فیصلوں یا قوانین پر نظر ثانی کا مشورہ اور اندرانوئی کے خیالات صرف اور صرف اس بات کا اظہار ہیں کہ انسان محض اپنی عقل اور تجربہ سے ہی اپنے لیے، پوری کائنات کے لیے اور تمام مخلوقات کے لیے فساد اور افراط وتفریط سے پاک نظام نہیں ترتیب دے سکتا، اسے عقل اور تجربہ کی رہنمائی کے لیے اپنے رب، خالق، مالک، الٰہ کی ہدایت لینی ہوگی، ورنہ یہی معاشی، سماجی، فکری فساد و تباہی ہمارا مقدر ہوگی، جو آج پورے عالم میں پھیلی ہوئی ہے، انسانیت کو لازماً اپنے خالق کی طرف پلٹنا ہوگا۔

%%%

 

-----------------------------------------

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ 8-9‏، جلد: 98 ‏، شوال‏، ذی قعدہ 1435 ہجری مطابق اگست‏، ستمبر 2014ء