بہترین شخص

 

از: ڈاکٹر سید حسنین احمد ندوی         

‏ مدیر: سہ ماہی ”صفا“ حیدرآباد      

 

          معاشرہ میں بہترین شخص کا مصداق کسے قرار دیا جاسکتا ہے؟ اس سوال کا جواب ظاہر ہے، ہر شخص اپنے ذوق ،نقطئہ نظر اورسوچ کے مطابق الگ الگ دے گا، اہلِ علم اورارباب دانش کی نظر میں ہوسکتا ہے اس کا مستحق وہ ہو جس نے علم ودانش کی سنگلا خ وادیوں میں آبلہ پائی کی ہو اورمعرفت وحکمت کی بلندوبالا چوٹی تک پہنچنے میں کامیاب ہواہو؛ جبکہ مادیت کے متوالوں اوراسباب ووسائل کے دیوانوں کی نگاہیں اس ٹائٹل کے حوالہ سے ان افراد پر مرکوز ہوجائیں گی جنہوں نے مال ودولت کی ریس میں بہتوں کو پیچھے چھوڑدیاہو، جن کا عشرت کدہ ان کے بہت سے جاننے والوں کے لیے رشک وحسد کا مرکز ہو اوربینک بیلنس نہ صرف عزیز واقارب؛ بلکہ انکم ٹیکس والوں کے لیے بھی مرکزِتوجہ بنا ہوا ہو، اس کے برعکس شہرت وناموری کو سب کچھ سمجھنے والے یہ ٹائٹل اسے دینا پسند کریں گے جس کا ڈرائنگ روم تمغے اورانعامات سے بھرا ہوا ہو اورقریہ وشہر پرستاروں کی بھیڑ سے اٹاپڑا ہو ، ہوسکتا ہے بعض لوگوں کا ذہن اس کے لیے ان سوشل ورکروں کی طرف جائے جو اپنے لیے نہیں؛بلکہ دوسروں کے لیے جیتے ہیں ، ان سب آراء کا المیہ یہ ہے کہ یہ سب محدودیت کا شکار اورزندگی کی بس ایک خاص جہت کی آئینہ دار ہیں؛ اس لیے کہ ہو سکتا ہے ان حوالوں سے بہتر ین سمجھاجانے والا شخص زندگی کے وسیع تناظر میں بدترین شخص ثابت ہو۔

          اس سوال کا شاندار اورجامع جواب وہ ہے جو رسول اللہ… کی جانب سے دیا گیا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر میں” بہتر ین شخص “کے ٹائٹل کا مستحق وہ ہے جس کاسلوک اپنی گھروالی کے ساتھ بہتر ین ہو: خَیْرُکُمْ خَیْرُکُمْ لاِٴھْلِہ وَأنَا خَیْرُکُمْ لاِٴھْلِیْ(سنن الترمذی :4062)

          بظاہر یہ بات کچھ عجیب سی لگتی ہے اورایسا محسوس ہوتا ہے کہ شاید ازدواجی معاملات کو ضرورت سے زیادہ اہمیت دے دی گئی ہے ؛ لیکن اگر سنجید گی سے اس چیز کا جائزہ لیں تو اندازہ ہوگا کہ بہترین شخص کے انتخاب کے لیے گھروالی کے ساتھ سلوک سے بہتر کوئی معیار نہیں ہے، یہ اتنی جامع اوروسیع کسوٹی ہے جس پر کسی کو بھی پرکھنے کے بعد یہ فیصلہ کیا جاسکتا ہے کہ کیا واقعی وہ بہتر ین شخص ہے یا اس نے شرافت کا محض مکھوٹا لگا یا ہے ؛ اس لیے کہ لوگ بظاہرجیسے نظر آتے ہیں ویسے ہوتے نہیں ہیں؛ بلکہ ظاہر تو کبھی کبھی اتنا پرفریب ہوتا ہے کہ اس سے اچھے خاصے جہاں دیدہ اورتجربہ کار لوگ بھی دھوکہ کھاجاتے ہیں ؛چنانچہ بہت سے لوگ دینداری کالبادہ اس مہارت کے ساتھ اوڑھتے اورتقویٰ وطہارت کی مصنوعی کریم سے اپنی صورت کو اس قدر پرکشش اورچمکدار بنا لیتے ہیں کہ لوگ ان کی شرافت ودینداری کی قسمیں کھانے میں بھی نہیں جھجکتے ؛لیکن اگر ان کی عائلی زندگی کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلے گا کہ ظاہر ی شرافت ودینداری سب گھر سے باہر ہے، گھر کے اندر یہ شخص انتہائی بدتمیز ، خودغرض اور شقی القلب ہے، باہر شرافت ومروت کا دم بھر نے والا گھر میں انتہائی وحشی ہے اورہردن ظلم وبربریت کی ایک نئی داستان رقم کرتا رہتا ہے ، اسے نہ اللہ ورسول کے احکام وتعلیمات کی پرواہ ہے اورنہ ہی اسوہٴ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے گھر کو منور کرکے اسے جنت کا ایک ٹکڑا بنا نے کی فکر ، جہاں اضطراب کے بجائے سکون کاڈیرا ہو، نحوست کے بجائے سعادت کا بسیرا ہو، تنگی کے بجائے فراخی، نفرت کے بجائے محبت اورکراہت کی تیرگی کے بجائے انسیت کے دیپ جھلملاتے ہوں۔

          اس طرح بیوی کے ساتھ سلوک ایک ایسا آئینہ ہے جس میں ہر شخص کی اصلی تصویر نظر آجاتی ہے ؛ اس لیے کہ انسان کی یہ فطرت ہے کہ وہ اپنی بالادستی کے جو ہر عموماً کمزوروں کے سامنے ہی دکھانا پسند کرتا ہے،صنف نازک سے تعلق رکھنے کی وجہ سے بیویاں عام طور پر کمزوروبے بس وبے کسی کا پیکر ہوتی ہیں ، اپنے عزیز واقارب اورحامی وناصر سے دور بڑی حدتک شوہر اوراس کے گھر والوں کے رحم وکرم پر ہوتی ہیں ، یہی وجہ ہے کہ ان کی تھوڑی سی کوتاہی شوہر کے آتش غضب کو بھڑکا دیتی ہے وہ ان کی معمولی سی غفلت سے چراغ پاہو جاتا ہے، عام طور پر وہ بیوی کی مستقل حیثیت کو تسلیم کرنے کے لیے تیارنہیں ہوتا، اس خیال سے کہ اس کے ٹکروں اورچتھڑوں پر پلنے والی ہستی کی حیثیت ہی کیا ہے ، یہی وجہ ہے کہ وہ بیوی کے ساتھ توہین آمیز رویہ اپنا نے میں کوئی حرج نہیں سمجھتا، نازیبا کلمات کا استعما ل تو عام سی بات ہے، بعض گھر وں میں تو معاملہ گالی گلوج اورمارپیٹ تک پہنچ جاتاہے، اس معاملہ میں جاہل اورتعلیم یافتہ کے درمیان کوئی زیادہ فرق نہیں ہے ، اس حمام میں سبھی ننگے ہیں، بعض تعلیم یافتہ افراد اپنے اس طرح کے رویہ کو حق بجانب قرار دینے کے لیے بعض اقوال کا سہارا لینے سے بھی نہیں چوکتے، جیسے یہ کہ شوہر کی حیثیت مجازی خدا کی ہے، اسلام میں اگر اللہ کے علاوہ کسی کو سجدہ جائز ہوتا تو بیو یوں کو اپنے شوہر کو سجدہ کرنا پڑتا ، وہ اس ہندوفلسفہ کے قائل ہو تے ہیں جو بیویوں کو داسی اورشوہر وں کو سوامی قرار دے کر بیویوں کے ساتھ کسی بھی سلوک کی اجاز ت دیتا ہے، جب کبھی عورتوں کے حقوق کی بات اٹھتی ہے تو مسلمان یہ کہہ کر اس سے اپنا پیچھا چھڑا لیتے ہیں کہ اسلام نے اس طرح تمام حقوق آ ج سے پندرہ سوسال قبل عورتوں کو دے دیا ہے ،اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اسلام نے عورتوں کو معاشرہ میں جو عزت واحترام اوروسیع وجامع حقوق عطاکیے ہیں، مغرب اپنی طویل جدوجہد کے باوجود اس تک نہیں پہنچ سکا ہے؛ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اسلام کے عطا کردہ حقوق مسلم خواتین کو حاصل ہیں، اس کا جواب یقینا نفی میں ہے، ہوسکتا ہے اس سلسلہ میں کچھ استثناء ات ہوں ؛ لیکن عام طور پر مسلم خواتین کے حالات غیر مسلم خواتین سے اچھے نہیں ہیں ، وہ بھی انھیں کی طرح گھر یلو تشد د کا شکار ہیں ، مظلومیت ان کا مقدر ہے اس سے بعض خوش نصیب کوہی نجات مل پاتی ہے۔

          رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہترین شخص ہونے کے لیے جو معیار متعین فرمایا ہے، اس کی روشنی میں اگر حیاتِ طیبہ کا جائزہ لیں تو اندازہ ہوگا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اس حوالہ سے بھی عالمِ انسانیت کے لیے مثالی نمونہ ہے ،بس ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمان اسے اپنی زندگی میں اتاریں اور اس سے اپنی عائلی زندگی کوسنواریں ۔

          رشتہٴ ازدواج میں اللہ تعالیٰ نے موٴدت ورحمت کاتخم فطری طور پرڈال دیا ہے، جو لوگ اس کی آبیاری ودیکھ بھا ل کرتے ہیں ، وہ نہ صرف اس کے ثمرات سے لطف اندوز ہوتے ہیں؛ بلکہ اس کی گھنی وٹھنڈی چھاوٴں میں زندگی کے سفر کو آسان وسہانا بنا لیتے ہیں، اس کے برعکس جو لوگ اس کی قدر نہیں کرتے، وہ اس کے فیضان وبرکات سے بہت حدتک محروم ہی رہتے ہیں ، یہ رشتہ اپنی پائیداری اوربرگ وبار کے لیے باہمی اعتماد ، تعاون وہمدردی ،ایثار وقربانی، عزت واحترام اور پیار ومحبت کا محتاج ہوتا ہے ، آپ کی ازدواجی زندگی پر اس کی گہری چھاپ تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سلوک اپنی شریکِ حیات کے ساتھ ہمیشہ ہمدردانہ ومشفقانہ ہواکرتا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی دلجوئی واحترام میں کبھی کوئی کمی نہیں کرتے تھے، اوراس سلسلہ میں چھوٹی چھوٹی باتوں تک کا خیال رکھتے تھے، ایک سفر میں جب انجشہ نامی غلام نے اس اونٹ کو تیز چلانے کی کوشش کی جس پر بعض ازواج مطہرات سوار تھیں توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں آہستہ چلانے کا حکم دیا اس خیال سے کہ کہیں وہ ڈرنہ جائیں یا انہیں کوئی تکلیف نہ ہو(صحیح بخاری :6159)

          ”حضرت صفیہ ایک سفر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھیں، انہوں نے اس بات پر رونا شروع کردیا کہ وہ جس اونٹنی پرسوار تھیں وہ بہت آہستہ چلتی تھی ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس گئے اپنے دست مبارک سے ان کے آنسو پوچھے اوردلاسہ دیا“(سنن النسائی :9072) آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیویوں کی تعریف میں بھی کمی نہیں کرتے ؛ بلکہ برملا اس کا اظہار کیاکرتے تھے؛ چنانچہ ایک مرتبہ فرمایا ”خدیجہ سے مجھے شدید محبت ہے“(صحیح مسلم: 6231) حضرت عائشہ کے بارے میں فرمایا :”عائشہ کی فضیلت دیگر عورتوں پر ایسی ہی ہے جیسے ثرید کی دیگر کھانوں پر“(صحیح البخاری :3341) آپ صلی اللہ علیہ وسلم پلیٹ میں اس جگہ سے کھانا کھاتے تھے، جہاں سے عائشہ کھاتی تھیں“(صحیح مسلم :466) آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیویوں کی دلجوئی کا اس حد تک خیال رکھتے تھے کہ جب ایک ایرانی پڑوسی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پسندیدہ ڈش ”مرق “بنا یا اورآپ ا کو دعوت دی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دعوت کو قبول نہیں فرمایا؛ اس لیے کہ اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے تنہا آنے کے لیے کہا تھا، اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ گوارہ نہ تھا کہ شریکِ حیات کے بغیر دعوت میں جائیں، لہٰذا جب اس نے آپ کے ساتھ عائشہ کو بھی دعوت دی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعوت قبول فرمائی اورتشریف لے گئے “ (صحیح مسلم:5268) آپ صلی اللہ علیہ وسلم ازواج مطہرات کا نہ صرف حدددرجہ خیال رکھتے تھے؛ بلکہ ان کے مزاج شناس تھے اوران کے چشم وابرو کے اشارے کو بھی اچھی طرح سمجھتے تھے؛ چنانچہ ایک مرتبہ ”عائشہ سے فرمایا : میں یہ جان جاتاہوں کہ کب تم مجھ سے ناراض ہواورکب خوش ؟ انہوں نے دریافت کیا: وہ کیسے یارسول اللہ ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم ناراض ہوتی ہو تو کہتی ہو: رب ابراہیم کی قسم اورجب خوش رہتی ہو تو کہتی ہو: رب محمد کی قسم “ (صحیح مسلم:6238)

          آپ صلی اللہ علیہ وسلم ازواج کے ساتھ اس حد تک عزت واحترام کا معاملہ فرماتے تھے کہ ایک مرتبہ حضرت ”صفیہ“آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اعتکاف کے دوران آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مسجد نبوی میں ملنے آئیں تو جب وہ واپس جانے لگیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم احتراما انھیں مسجد کے دروازہ تک چھوڑنے کے لیے تشریف لائے“(بخاری:2011)

رائے کی اہمیت

          خواتین کو گھروں میں چونکہ عام طور پر کوئی خاص اہمیت نہیں دی جاتی اس وجہ سے نہ اہم امور میں ان سے مشورہ کیا جاتا ہے اورنہ ہی ان کی رائے کو ترجیح دی جاتی ہے ، تمام اہم فیصلے شوہر خود کرتے ہیں اوربیگم کا کام صرف سمع وطاعت ہوتا ہے؛ جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حال تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہ صرف گھر یلو امور بلکہ امت سے متعلق بعض امور میں بھی بوقت ضرورت ازواج سے مشورہ کیا کرتے تھے، اوران کے مشوروں پر عمل بھی کیا کرتے تھے؛ چنانچہ صلح حدیبیہ کے موقع سے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے باوجود حضراتِ صحابہ میں سے کسی نے بھی نہ قربانی کی اورنہ بال منڈائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس صورت حال سے کافی پریشان ہوئے اورخیمہ میں آکر اپنی اہلیہ ام سلمہ سے اس سلسلہ میں مشورہ کیا، انھوں نے یہ مشورہ دیا کہ یا رسول اللہ ! آپ باہر تشریف لے جائیے اور اپنی قربانی ذبح کیجیے اور حلق کرالیجیے اورواپس آجائیے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا ہی کیا جسے دیکھ کر حضراتِ صحابہ بھی بادل ناخواستہ اٹھ کھڑے ہوئے قربانی کی اورپھر بال منڈائے(صحیح البخاری:4995)

گھر یلو امور میں تعاون

          شریک حیات کے ساتھ گھر یلوامور میں مشارکت وتعاون جس میں عام طور پر شوہر حضرات کم ہی دلچسپی لیتے ہیں؛ بلکہ بعض تو کسرشان سمجھتے ہیں یہاں تک کہ وہ چھوٹی چھوٹی چیزوں کے لیے بھی بیوی پر انحصار کرتے ہیں؛ جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حال یہ تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھریلو کام میں اپنی بیویوں کا ہاتھ بٹاتے تھے؛ چنانچہ عائشہ سے جب دریافت کیا گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا گھر کے اندر کیا معمول ہواکرتا تھا تو انہوں نے بیان کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر کے کاموں میں گھروالوں کی مدد کیا کرتے تھے، (صحیح البخاری:667) ایک اورروایت میں انہوں نے بیان کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے کپڑے خودہی سی لیا کرتے تھے، چپل کی مرمت کرلیتے تھے، اس کے علاوہ، وہ سارے کام کرتے تھے جو عام طور پر مرد حضرات اپنے گھر میں کرتے ہیں (مسندالامام احمد:24510)

          انسان کی یہ فطرت ہے کہ وہ زندگی کی یکسانیت معمول کے کا م اورسنجیدہ وٹھوس اعمال کے تسلسل سے بور ہوجاتا ہے، قویٰ مضمحل ، اعصاب پژمردہ اوردلچسپیا ں مدہم پڑجاتی ہیں، ایسے میں ضرورت ہوتی ہے کچھ تبدیلی ، تنوع اورچٹپٹی چیزوں کی جس سے تھکن کے غبار چھٹ جائیں اورانسان تازہ دم ہوکر نئی آن اورنئی شان کے ساتھ کشاکش حیات کی جانب پھر سے متوجہ ہو، کھیل تفریح یا آج کی اصطلاح میں انٹرٹینمنٹ اس میدان میں تیر بہدف کاکام کرتاہے، اسلام جو کہ فطری مذہب ہے، وہ انسان کی اس فطری طلب پر قدغن لگانے کے بجائے صحیح ودرست انداز میں اس کی تسکین کی راہیں کھلی رکھتاہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف جلوت بلکہ خلوت میں بھی اسے برتا ہے اوررزم وبزم کے علاوہ اپنی خانگی زندگی کو بھی اس کی پھلجھڑی سے گلنار وگلزار بنائے رکھا ہے؛ چنانچہ ایک مرتبہ ”حبشہ کے کچھ لوگ آکر مسجد نبوی کے سامنے اپنے کرتب اورکھیل تماشہ کا مظاہرہ کررہے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ہی حضرت عائشہ سے پوچھا کہ کیا یہ تماشہ دیکھنا چاہوگی ؟انہوں نے ہاں میں جواب دیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم دروازہ کے پاس کھڑے ہوگئے اورعائشہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کندھے پر ٹیک لگا کر کھیل دیکھتی رہیں “(النسائی:8858)

          ایک غزوہ سے واپس آتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قافلہ کو آگے جانے کا حکم دیا، ان کے جانے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ کے ساتھ دوڑلگائی، (سنن ابی دواوٴد) حضور… جب گھر پر نہیں ہوتے تو حضرت عائشہ کی سہیلیاں آجاتیں اورسب مل کر کھیلاکرتی تھیں، حضور…کے آتے ہی سب ادھر ادھر چلی جاتیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم انھیں بلواتے اورخود باہر چلے جاتے، اس طرح حضرت عائشہ کو سہیلیوں کے ساتھ وقت گزارنے اورکھیلنے کے مواقع فراہم کرتے۔ (صحیح مسلم:6240)

ناپسندیدہ بات

           عام زندگی کی طرح ازدواجی زندگی بھی نشیب وفراز سے گزرتی ہے اورمن میں لڈو پھوٹنے والی باتوں کے ساتھ ساتھ کبھی کبھی تن میں آگ لگادینے والی باتیں بھی سننے کو ملتی ہیں، کاشانہٴ نبوت بھی اس سے مستثنیٰ نہیں تھا، اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ازواج مطہرات سے کوئی نامناسب بات سننے کو ملتی تو اس پر ڈانٹ ڈپٹ اورلعنت ملامت کے بجائے حکیمانہ انداز میں اس طرح غلطی کی تصحیح فرماتے کہ اصلاح بھی ہوجائے اورکسی کی دل آزاری بھی نہ ہو؛ چنانچہ ایک مرتبہ ”رسول اللہ… گھر تشریف لائے تو دیکھا کہ حضرت صفیہ زار وقطار رورہی ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رونے کا سبب دریافت فرمایا: انہوں نے عرض کیا کہ حفصہ نے مجھے یہودی کی بیٹی ہونے کا طعنہ دیاہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں تسلی دی اورفرمایا کہ اس میں عار کی کوئی بات نہیں ہے؛ بلکہ یہ تو ایک اعزاز ہے جو اللہ نے تمہیں عطاکیا ہے، تم ان سے کہہ دو کہ میرے شوہر محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، باپ ہارون ں ہیں اورچچا موسیٰ ں ؛لہٰذ ا میرے سامنے کیا اہمیت جتاتی ہو“(سنن الترمذی: 6240)

ازدواجی چشمک

          میاں بیوں کے درمیان نوک جھونک ، بحث وتکرار اورآپسی شکر رنجی بھی عجیب چیزیں ہیں، پیارو محبت کی اس نگر ی کے اصول وضابطے عام دنیا کے آئین وقوانین سے بالکل الگ ہوتے ہیں یہاں ہار میں جیت ہوتی ہے اورجیت میں ہار؛لہٰذ ا وہ ناداں جو اس حقیقت کو نہیں سمجھتے اور چھوٹی چھوٹی باتوں کو انا کا مسئلہ بنالیتے ہیں، اس رشتہ کی لطافت ولذت سے محرومی ان کا مقدر بنتی ہے، دیکھئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اس طرح کے مواقع پر کیا اندازہواکرتاتھا، ایک مرتبہ ”حضرت عائشہ کا کسی سلسلہ میں حضورصلی اللہ علیہ وسلم سے رائے کا اختلاف ہوگیا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ سے پوچھا کہ ہمارے درمیان تم کس سے مفاہمت کرانا پسند کروگی ، کیا عمرص پر تم متفق ہو؟ عائشہ نے کہا کہ عمرص کے مزاج میں سختی ہے؛ اس لیے میں انھیں اس معاملہ میں لانا نہیں چاہتی ، پھر حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کیا تم یہ پسند کروگی کہ تمہارے باپ ابوبکر ہم دونوں کے درمیان صلح کرادیں، انھوں نے کہا: ہاں یہ ٹھیک ہے، حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکرص کو بلوایا ، جب وہ آگئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عائشہ سے پھر پوچھا کہ پہلے تم اپنی بات کہو گی یامیں؟عائشہ نے کہا کہ پہلے آپ ہی اپنی بات کہیں؛ لیکن بالکل ٹھیک ٹھیک کہیں، یہ سنتے ہی ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عائشہ کو ایک تھپڑرسید کردیا اوراس سے پہلے کہ مزید پڑے عائشہ جلدی سے بھاگ کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اوٹ میں آگئیں“یہ صورت حال دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کہا: آپ جاسکتے ہیں، میں نے آپ کو اس لیے نہیں بلایا تھا، جب ابوبکر ص چلے گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عائشہ سے کہا: ادھر قریب آوٴ ؛ لیکن وہ نہ آئیں، توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابھی تو باپ کے ڈر سے مجھ سے چپکی جار ہی تھیں، اور اب کیا ہوگیا؟ تھوڑی دیر بعد حضرت ابوبکرص واپس آئے تو دیکھا دونوں ہنس رہے ہیں ، تو انھوں نے کہا : مجھے بھی اپنی صلح میں ویسے ہی شریک کریں، جیساکہ ناچاقی کے دوران شریک کیا تھا “(ابوداوٴد: 4665) آپ صلی اللہ علیہ وسلم اگر کسی بات پر اہلیہ سے شدیدناراض ہوتے تو اس کا اظہار اس طرح کرتے کہ انھیں اکیلا چھوڑ دیتے، جیساکہ آپ نے اس وقت کیا جب ازواجِ مطہرات نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کثیر نان ونفقہ کا مطالبہ کیا تھا۔

کیرکٹر سے متعلق شکوک وشبہات

          ازدواجی رشتہ کی خوب صورت شاہراہ پر کبھی کبھی ایسے پیچ وخم بھی آتے ہیں، جو آگے کے سفر کو مشکل بنا دیتے ہیں، بہت سے لوگ تو ایسے مواقع پر اپنا توازن برقرار نہیں رکھ پاتے اورحادثہ کا شکار ہوجاتے ہیں، اس لیے کہ بیوی کے کیرکٹر سے متعلق شکوک وشبہات ایسی چیز ہے جس کا تصور ہی کسی بھی شوہر کے لیے انتہائی تکلیف دہ ہے، یہ وہ حسّاس موضوع ہے جو بسااوقات ایک شریف اورسنجیدہ شخص کو بھی مشتعل کردیتا ہے اوربعض تو جو شِ غضب میں انتہائی خطرناک اقدام تک کرجا تے ہیں، ایسے مواقع سے حضور… کو بھی گزرنا پڑا ، اس طرح کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی چہیتی بیوی حضرت عائشہ کے کیرکٹر پر بعض شرپسندوں نے کیچڑ اچھالے اوراس افواہ کو مدینہ کی گلی کوچے میں پھیلا دیا، اس کی خبر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے محض بے بنیاد افواہ کی بنیاد پر بیوی کو قصوروار گرداننے کے بجائے مسجدِ نبوی کے منبر سے ان کا دفاع کیا؛ چنانچہ فرمایا: ”اے مسلمانو! میرے اہل سے متعلق بعض تکلیف دہ بات مجھ تک پہنچی ہے، خدا کی قسم میں ان کے بارے میں خیر کے سواکچھ نہیں جانتا“اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے براہِ راست حضرت عائشہ سے بات کی اورفرمایا:مجھ تک تمہارے بارے میں ایسی ایسی باتیں پہنچی ہیں ، اگر تم اس تہمت سے بری ہو تو اللہ تعالیٰ تمہاری براء ت واضح کردے گااوراگر تم سے ایسا کوئی گناہ ہوگیاہے، تو اللہ سے توبہ واستغفار کرو!

          یہ محض چند نمونے ہیں جو سیرتِ نبوی سے یہاں پیش کیے گئے،ورنہ سیرتِ نبوی اس طرح کے واقعات سے بھری پُری ہے، مسلمان اگر اسے اپنی زندگی میں اپنالیں تو وہ بہت سی ازدواجی پیچیدگیوں سے نجات پاجائیں گے۔

 

%%%

 

-----------------------------------------------

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ 8-9‏، جلد: 98 ‏، شوال‏، ذی قعدہ 1435 ہجری مطابق اگست‏، ستمبر 2014ء