صحیح مسلم کے ابواب و تراجم

 

 

از: مولانا کامران اجمل              

جامعة العلوم الاسلامیہ علامہ محمد یوسف

بنوری ٹاؤن کراچی، پاکستان          

 

حسن ترتیب اور مضامین وموضوعات کی تقسیم ہرکتاب کی نہ صرف ضرورت ہوتی ہے؛ بلکہ اس سے استفادہ کی آسانی اور مطلوبہ مضمون وموضوع تک رسائی کا ذریعہ بھی بنتی ہے۔

          موضوعات کے اعتبار سے کتابوں کی تقسیم کا ثبوت خود آسمانی کتابوں سے بھی ملتا ہے؛ بلکہ ان کتابوں کواس چیز کے لیے بنیاد کہنا چاہیے، مثلاً :زبور سے متعلق کہا جاتا ہے کہ اس کے موضوعات ومضامین مواعظ وحکم کے عنوان کے تحت آتے ہیں، یعنی وہ مواعظ وحکم کی کتاب ہے؛جبکہ تورات وانجیل میں کئی موضوعات تھے، جو مواعظ وحکم کے علاوہ احکام وآداب وغیرہ سے متعلق تھے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآنِ کریم کے ساتھ جب موضوعات کے اعتبار سے سابقہ کتابوں کا مقارنہ کیا جاتا ہے تو تورات وانجیل کو مقدم ذکر کیا جاتا ہے؛ کیونکہ ان دونوں کتابوں میں موضوعات کی تقسیم اور تنوع کا سلسلہ قرآنِ کریم کے قریب قریب ہے۔(۱)

          پھر قرآن کریم میں بھی (سورتوں کی شکل میں) عنوانات موجود ہیں اوریہ عنوانات (سورتوں کے نام) اجتہادی نہیں؛ بلکہ توقیفی ہیں،(۲)کیونکہ جب بھی کوئی آیت نازل ہوتی تو رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم صحابہٴ کرام سے فرماتے کہ اس آیت کو فلاں سورت میں فلاں آیت کے ساتھ لکھ دو۔(۳)

          معلوم ہوا کہ قرآن میں عنوانات موجود ہیں؛ لیکن قرآن کریم صرف فقہ یا احکام کی کتاب نہیں؛ بلکہ یہ کتاب عام ہدایت کے لیے نازل کی گئی ہے؛ اس لیے اس کے عنوانات میں بجائے فقہی ترتیب کے عام ترتیب اختیار کی گئی ہے۔اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہٴ کرام کو جو مسائل واحکامات لکھوائے، وہ بھی خاص مسائل پر مشتمل تھے، مثلاً: بعض صحابہٴ کرام کے پاس دیت کے مسائل تھے۔(۴) بعض کے پاس زکوٰة سے متعلق مسائل تھے۔(۵) ان پر اگر عنوانات قائم نہ بھی کیے گئے ہوں؛ لیکن اتنی بات ضرور ہے کہ یہ مسائل یکجا تھے اور صحابہٴ کرام نے انھیں خاص نام دیے تھے۔(۶) پھر اس کے بعد ائمہٴ کرام نے جو تصانیف فرمائیں، وہ بھی ابواب پر مشتمل تھیں؛ مگر ابواب کی موجودہ فقہی ترتیب علمائے احناف کا کارنامہ ہے۔(۷) پھر امام مالک نے یہ ترتیب اختیار کی اور یہی ترتیب چلتی رہی، حتیٰ کہ امام بخاری کے ابواب وتراجم ان کا خاصہ شمار ہونے لگے اور ان پر باقاعدہ کتابیں لکھی گئیں، تاہم صحیح مسلم کے ابواب کے بارے میں آراء مختلف رہیں کہ اس میں قائم کردہ ابواب امام مسلم کے ہیں یا نہیں، اگرچہ بالاتفاق امام مسلم نے احادیث کو ابواب کی ترتیب پر ذکر کیا، جس میں وہ (بعض کے ہاں) امام بخاری سے سبقت لے گئے؛ کیونکہ امام مسلم نے اس عمدہ اندازمیں احادیث کو ذکر کیا ہے کہ ان کی کتاب سے استفادہ بہ نسبت امام بخاری کی کتاب کے آسان ہے،(۸) کیونکہ امام بخاری نے استنباطِ مسائل کے لیے احادیث کے اجزاء کو مختلف ابواب کے تحت ذکر کیا ہے جس سے استفادہ مشکل ہے؛ جبکہ امام مسلم نے تمام روایتیں یکجا جمع کردیں، جس کی وجہ سے استفادہ آسان ہے۔(۹)

صحیح مسلم کے ابواب وتراجم

          صحیح مسلم کے عنوانات کس نے قائم کیے ہیں؟ اس بارے میں تین قسم کی رائیں ہیں:

پہلی رائے

          دکتور یحییٰ اسماعیل کا خیال ہے کہ صحیح مسلم کے ابواب خود امام مسلم کے قائم کردہ ہیں اور یہ کہنا کہ امام مسلم نے ابواب قائم نہیں کیے، طلبہ کی عمومی اورمتخصصینِ علومِ حدیث کی خصوصی غلطی ہے۔ چنانچہ لکھتے ہیں:

          ”أن الاکمال کشف عما جاء فی بعض النسخ لصحیح مسلم من تبویب وتراجم غابت عن کثیرٍ من الشراح الذین تناولوا النسخ غیر المبوبة، حتی ذاع -خطأ- بین طلبة العلم بعامة، والمتخصصین فی الحدیث وعلومہ بخاصة، أن مسلما لم یبوّب کتابہ وأن البخاری فضل علیہ فی ذلک، وذلک فی مثل ما جاء فی کتاب الطھارة، باب التطییب بعد الغسل من الجنابة، قال: عقبہ القاضی: وبذلک بطل من ادعی أن مسلما لم یبوب کتابہ“(۱۰)

          ان کااستدلال قاضی عیاض کی درج ذیل عبارت سے ہے:

          ”قال القاضی: ترجم البخاری علی الحدیث: من بدأ بالحلاب والطیب، وقد وقع لمسلم فی بعض تراجمہ من بعض الروایات مثل ترجمة البخاری علی ہذا الحدیث، ونصہ: باب التطییب بعد الغسل من الجنابة“(۱۱)

          اس عبارت سے موصوف کا استدلال ہے کہ مذکورہ ابواب خود امام مسلم کے قائم کردہ ہیں۔

          علامہ لکھنوی نے ”سباحة الفکر“ میں ایک عبارت ذکر کی ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ بھی اس بات کے قائل تھے، لکھتے ہیں:

          ”والی ھذا أشار مسلمٌ فی صحیحہ بعنوان الباب“ (۱۲)

دوسری رائے

           یہ ہے کہ صحیح مسلم میں موجود کتب کے عنوانات خود امام مسلم نے لگائے ہیں اور ذیلی عنوانات امام مسلم نے خود نہیں لگائے۔ ابوعبیدہ مشہور بن حسن فرماتے ہیں:

          ”ومن الجدیر بالذکر أن مسلماً ھو الذی وضع عناوین الکتب الرئیسة فی صحیحہ“ (۱۳)

          ان کا استدلال ان کتب میں موجود عنوانات سے ہے، جو انتہائی مقدم مصنّفین کی لکھی ہوئی ہیں:

          ”ولذا تجد أن لھا ذکراً فی کتب الأقدمین“(۱۴)

          جیساکہ رجال مسلم پر کلام کرنے والے پانچویں صدی ہجری کے عالم ابن منجویہ (۳۴۷- ۴۲۸ھ) کی کتاب سے معلوم ہوتا ہے۔ لکھتے ہیں:

          ”أحمد بن محمد بن حنبل… روی عن: محمد بن جعفر غندر فی الایمان، وعن ھشیم بن بشیر فی الایمان، وعن معتمر بن سلیمان فی الصلاة والجھاد“(۱۵)

          دوسری جگہ فرماتے ہیں:

          ”ثابت بن الضمان… روی عنہ أبو قلابة فی الایمان وعبد اللہ بن معقل فی البیوع“ (۱۶)

          کتاب کے شروع سے آخر تک تمام راویوں کا ذکر فرماکر یہ نشاندہی کی ہے کہ ان کی روایت فلاں کتاب میں ذکر ہے اور وہ رواة انھیں کتب میں موجود ہیں جن کا ذکر موصوف نے کیا ہے؛ البتہ بعض مقامات پر ابن منجویہ کے عنوانات اورصحیح مسلم کے مطبوعہ نسخہ کے عنوانات میں کچھ فرق پایا جاتا ہے، جس کی طرف ”الامام مسلم بن الحجاج ومنھجہ فی الصحیح وأثرھا فی علم الحدیث“ کے موٴلف نے اشارہ کیا ہے۔(۱۷)

تیسری رائے

          یہ ہے کہ امام مسلم نے نہ کتب کے عنوانات خود لگائے ہیں اور نہ ہی ابواب کے؛ بلکہ یہ کاوش امام نووی کی ہے۔ امام نووی لکھتے ہیں:

           ”ان مسلما رتب کتابہ علی الأبواب، فھو مبوَّب فی الحقیقة، ولکنہ لم یذکر تراجم أبواب فیہ لئلا یزداد حجمُ الکتاب أو لغیر ذلک وقد ترجم جماعة أبوابہ بتراجم بعضھا جید وبعضھا لیس بجید اما لقصور فی عبارة الترجمة أو لرکاکة فی لفظھا واما لغیر ذلک وأنا أحرص علی التعبیر عنھا بعبارات تلیق بھا فی مواطنھا“(۱۸)

          علامہ شبیر احمد عثمانی کا بیان ہے:

          ”واعلم أن صحیح مسلم قد قرئ علی جامعہ مع خلو أبوابہ عن التراجم“

          پھر امام نووی کی مذکورہ بالا عبارت کو بعینہ نقل فرماکر آگے لکھتے ہیں:

          ”والانصاف أنہ لم یترجم الی الیوم بما یلیق بشأن ھذا المصنف الجلیل“(۱۹)

          ہمارے ہاں برِصغیر پاک وہند میں بھی یہی بات رائج اور مشہور ہے کہ صحیح مسلم کے ابواب امام نووی نے قائم کیے ہیں؛ لیکن یہ بات کس حد تک صحیح ہے، اسے ہم آگے ذکر کریں گے۔

پہلی رائے پر تبصرہ

          جہاں تک پہلی رائے کا تعلق ہے، تو وہ کئی وجوہات کی بنا پر درست معلوم نہیں ہوتی۔

پہلی وجہ

          خود قاضی عیاض نے ذکر فرمایا ہے کہ

           ”وقد وقع لمسلم فی بعض تراجمہ من بعض الروایات مثل ترجمة البخاری“(۲۰)

          اس عبارت سے یہ بات واضح ہوگئی کہ یہ عنوانات بعض حضرات کی روایت میں ہیں، دیگر نسخوں میں نہیں ہیں؛لیکن دکتور یحییٰ اسماعیل نے اپنے مقدمہ میں قاضی عیاض کی عبارت سے عجیب استدلال کیا ہے، موصوف کا بیان ہے:

          ”ان الاکمال کشف عما جاء فی بعض النسخ لصحیح مسلم من تبویب وتراجم ، غابت عن کثیر من الشراح الذین تناولوا النسخ غیر المبوبة“(۲۱)

          ملاحظہ فرمایئے کہ عبارت میں خود ذکر کیا ”فی بعض النسخ“ کہ یہ عنوانات بعض نسخوں میں ہیں، اکثر میں نہیں، جیساکہ خود صراحت کی کہ ”غابت عن کثیرٍ من الشراح“ اس کے باوجود دعوی یہ کیا کہ ”یہ کہنا کہ صحیح مسلم کے ابواب امام مسلم نے نہیں لگائے، غلطی ہے“۔

          یہ استدلال عجیب اس اعتبار سے ہے کہ موصوف نے خود ذکر کیا کہ اکثر شراح کے نسخوں میں عنوانات موجود نہیں، پھر ان اکثر کے مقابلے میں ایک قاضی عیاض کے نسخے میں موجود ہونے سے ترجیح کیسے ثابت ہوئی؟

          ایک وجہ ترجیح جو دکتور موصوف نے ذکر کی ہے، وہ یہ ہے کہ قاضی عیاض کے پاس امام مسلم کے شاگردوں کا نسخہ تھا، جس سے انہوں نے صحیح مسلم کو لیا ہے اور اس میں یہ ابواب موجود ہیں:

          ”لقد حصل القاضی صحیح مسلم المسمی عندہ ”المسند الصحیح المختصر من السنن،، من نسختین: أولاھما: نسخة الجلودی، وھی روایة عن ابراھیم بن سفیان المروزی عن الامام مسلم، وھی النسخة المعتمدة المشھورة۔ الثانیة: نسخة القلانسی“(۲۲)

          لیکن یہ بات ترجیح کا سبب نہیں بن سکتی؛ کیونکہ ممکن ہے کہ مذکورہ ابواب امام مسلم کے کسی شاگرد نے لگائے ہوں، نہ کہ امام مسلم نے اور اس پر یہ دلیل بھی ہے کہ دیگر حضرات کے ہاں یہ عنوانات موجود نہیں۔

دوسری وجہ

          قاضی عیاض (۵۴۴ھ) کے علاوہ دیگر علماء کی رائے یہی ہے کہ صحیح مسلم ابواب وتراجم سے خالی ہے، جیساکہ ابن صلاح، علامہ سیوطی اور دیگر حضرات نے ذکر کیا ہے۔ علامہ ابن صلاح  (۶۴۳ھ) لکھتے ہیں:

          ”ثم ان مسلماً رحمہ اللہ وایانا رتب کتابہ علی الأبواب فھو مبوب فی الحقیقة، ولکنہ لم یذکر فیہ تراجم الأبواب، لئلا یزداد بھا حجم الکتاب أو لغیر ذلک وتحریہ رحمہ اللہ فیہ ظاھر“(۲۳)

          امام بقاعی (۸۸۵ھ) فرماتے ہیں:

           ”انہ لیس فیہ (مسلم) بعد خطبتہ الا الحدیث الصحیح مسروداً، غیر ممزوج بمثل ما فی کتاب البخاری فی تراجم أبوابہ من الأشیاء التی لم یسندھا علی الوصف المشروط فی الصحیح، فھذا لابأس بہ“(۲۴)

          علامہ سیوطی  (۹۱۱ھ) کا بیان ہے:

          ”ان کتاب مسلم یترجح بأنہ لم یمازجہ غیر الصحیح فانہ لیس فیہ بعد الخطبة الا الحدیث الصحیح مسروداً غیر ممزوج بمثل ما فی کتاب البخاری فی تراجم أبوابہ من الأشیاء التی لم یسندھا علی الوصف المشروط فی الصحیح“(۲۵)

          امیر صنعانی  (۱۱۸۲ھ) تحریر فرماتے ہیں:

          ”تفضیل صحیح مسلم ان کان المراد بہ أن کتاب مسلم یترجح بأنہ لم یمازجہ غیر الصحیح، قال ابن الصلاح: فانہ لیس فیہ بعد خطبتہ الا الحدیث الصحیح مسروداً غیر ممزوج“(۲۶)

          بلکہ خود قاضی عیاض فرماتے ہیں:

          ”قال الشیخ المحدث أبو مروان الطبنی کان من شیوخی من یفضل کتاب مسلم علی کتاب البخاری“(۲۷)

          اس عبارت میں تفضیل کی وضاحت کرتے ہوئے علامہ سیوطی فرماتے ہیں:

          ”وقد وجدت تفسیر ھذا التفضیل فی فھرست أبی محمد القاسم التجیبی قال کان أبومحمد بن حزم یفضل کتاب مسلم علی کتاب البخاری، لأنہ لیس فیہ بعد خطبتہ الا الحدیث السرد وعندی أن ابن حزم ھذا، ھو شیخ الطبنی الذی أبھمہ القاضی عیاض (۲۸)

          یہی بات علامہ لکھنوی  (۱۳۰۴ھ) نے لکھی: ”کان أبومحمد بن حزم یفضل کتاب مسلم علی کتاب البخاری“۔(۲۹)

          علامہ سیوطی دوسری جگہ ارشاد فرماتے ہیں:

          ”ثم انہ سلک فی کتابہ طریقةً حسنةً بحیث فضل بسببھا علی صحیح البخاری وذلک انہ یجمع المتون بطرقھا فی موضع واحد ولایفرقھا فی الأبواب، ویسوقھا تامةً ولایقطعھا فی التراجم، ویحافظ علی الاتیان بلفظھا ولایروی بالمعنی ولم یخلط معھا شیأً من أقوال الصحابة ومن بعدھم، حتی و لا الأبواب والتراجم -کل ذلک حرصا علی أن لایدخل فی الحدیث غیرہ، فلیس فیہ بعد المقدمة الا الحدیث السرد، ومایوجد فی نسخہ من الأبواب مترجمة فلیس من صنع المؤلف“(۳۰)

          پھرقاضی عیاض کی سابقہ عبارت اور علامہ سیوطی کی وضاحت سے یہ بات معلوم ہوئی کہ خود قاضی عیاض نے تفضیل مسلم کا مسئلہ ذکر کیا اور اس پر رد بھی نہیں کیا، جو دلیل ہے کہ اس قدر تفضیل کے قاضی صاحب بھی قائل تھے، لہذا یہ دعوی کرنا کہ قاضی عیاض اس بات کے قائل ہیں کہ مسلم کے ابواب خود امام مسلم نے قائم کیے، درست معلوم نہیں ہوتا۔

          یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ دکتور یحی اسماعیل نے قاضی عیاض کی طرف جو عبارت منسوب کی ہے کہ قاضی عیاض نے ”باب التطییب بعد الغسل من الجنابة“ میں فرمایا ہے کہ ”وبذلک بطل من ادعی أن مسلما لم یبوب کتابہ“۔(۳۱)مذکورہ عبارت اکمال المعلم میں اس باب کے تحت نہیں ملی؛ حالانکہ یہ نسخہ خود دکتور موصوف کی تحقیق کے ساتھ شائع ہوا ہے، پھر بھی یہ عبارت اس میں نہ ملی، ممکن ہے کہ بعض نسخوں میں ہو؛ لیکن اس کی طرف دکتور موصوف کو اشارہ کرنا چاہیے تھا؛ لیکن موصوف نے اشارہ بھی نہ کیا، لہذامعلوم یہ ہوتاہے کہ یہ عبارت قاضی صاحب کی نہیں؛ بلکہ ان کی عبارت سے دکتور موصوف نے نتیجہ نکالا ہے، جو کہ درست نہیں۔

تیسری وجہ

           مسلم شریف کے مخطوطات اور اسی طرح شارحین کے ابواب میں اس قدر تفاوت کا پایا جانا بھی دلیل ہے کہ یہ عنوانات امام مسلم کے لگائے ہوئے نہیں ہیں، مثلا :علامہ ابو العباس قرطبی کے عنوانات الگ ہیں، امام نووی اورعلامہ أبیّ کے عنوانات الگ ہیں۔

          مخطوطات میں ابن خیر کا نسخہ جو سب سے نفیس مخطوطہ شمار ہوتا ہے(۳۲) اور مکتبة القرویین میں موجود ہے، اس میں موجود عنوانات امام نووی کے عنوانات سے مختلف اور زائد ہیں، مثلاً: کتاب التفسیر میں مطبوعہ نسخوں میں ذیلی کوئی عنوان نہیں؛ جبکہ ابن خیر کے مخطوطہ میں کتاب التفسیر میں کئی ابواب قائم کیے گئے ہیں۔

          رہی بات علامہ لکھنوی کی ”سباحة الفکر“ میں ذکر کردہ عبارت کی تو ممکن ہے کہ موصوف کو ذہول ہوگیا ہو؛ کیونکہ ماقبل میں صحیح مسلم کی صحیح بخاری پر فضیلت کے وجوہات میں یہ بات ان کے حوالے سے گزر چکی کہ امام مسلم کی کتاب میں ابواب نہیں۔

دوسری رائے پر تبصرہ

          دوسری رائے ممکن ہے کہ کسی حد تک درست ہو، اسی وجہ سے ان کے قریب زمانے کے مصنفین کی کتابوں میں بھی موٹے موٹے عنوانات کا ذکر ہے، جیساکہ ماقبل میں ابن منجویہ (۴۲۸ھ) کے حوالہ سے گزرا؛ لیکن یہ بات یقین سے اس لیے نہیں کہی جاسکتی ہے کہ جس طرح یہ امکان ہے کہ امام مسلم نے عنوانات لگائے ہوں، یہ بھی امکان ہے کہ یہ عنوانات ان کے کسی شاگرد نے لگائے ہوں؛ کیونکہ ابن منجویہ براہِ راست امام مسلم کے شاگرد نہیں ؛ بلکہ بعد کے ہیں اور ان تک پہنچے ہوئے مخطوطات امام مسلم کے شاگردوں یا ان کے بھی بعد کے لکھے ہوئے ہوں گے۔

تیسری رائے پر تبصرہ

          تیسری رائے سے متعلق عرض یہ ہے کہ اتنی بات تو واضح ہے کہ صرف امام نووی نے صحیح مسلم کے ابواب نہیں باندھے؛ بلکہ ان سے پہلے بھی صحیح مسلم کے عنوانات لگائے گئے ہیں، جیساکہ ماقبل میں ذکر ہوا؛ البتہ یہ کہنا بے جا نہیں کہ ہمارے ہاں متداول نسخے کے عنوانات امام نووی کے ہوں؛ کیونکہ خصوصاً ہمارے دیار میں بعد کے علماء نے صحیح مسلم کو امام نووی کی شرح کے ساتھ شائع کیا ہے؛ اس لیے ان کی طرف نسبت کی گئی ہے، ورنہ عنوانات لگانے والے اور حضرات بھی ہیں؛ بلکہ علامہ سیوطی نے بعض اہلِ اندلس سے نقل کیا ہے کہ صحیح مسلم کے عنوانات قاضی عیاض نے لگائے ہیں، ملاحظہ ہو:

          ”وذکر ابن دحیة فی شرح التحریر أن الذی ترجم أبوابہ القاضی“(۳۳)

          اسی طرح ابو العباس احمد بن عمر القرطبی (۶۵۶ھ) نے مسلم کے ابواب ذکر کیے ہیں، ملاکاتب چلپی فرماتے ہیں:

           ”شرح أبی العباس أحمد بن عمر بن ابراھیم القرطبی المتوفی سنة ست وخمسین وستمائة وھو شرح علی مختصرہ لہ، ذکر فیہ أنہ لما لخصہ ورتبہ وبوبہ شرح غریبہ ونبہ علی نکت من اعرابہ“(۳۴)

          بلکہ صاحب کشف الظنون کے مطابق مسلم کے ابواب کئی حضرات نے لگائے ہیں۔ لکھتے ہیں: ”ان مسلماً رتب کتابہ علی الأبواب ولکنہ لم یذکر تراجمَ الابواب و قد ترجم جماعة أبوابہ“۔(۳۵)

          معلوم ہوا مسلم کے ابواب وغیرہ کے عنوانات لگانے والے صرف امام نووی نہیں ہیں؛ بلکہ ان سے پہلے بھی عنوانات لگائے گئے ہیں، جیساکہ قاضی عیاض متوفی ۵۴۴ھ اور ابوالعباس القرطبی متوفی ۶۵۶ھ کے متعلق ماقبل میں گزرا۔ اس بات کی صراحت خود امام نووی نے بھی کی ہے کہ ”مجھ سے پہلے بھی عنوانات لگائے گئے تھے؛ لیکن بعض سے مقصود ادا نہیں ہوتا تھا اور بعض کے الفاظ عمدہ نہ تھے؛ اس لیے میں نے یہ عنوانات قائم کیے ہیں، فرماتے ہیں:

          ”وقد ترجم جماعة أبوابہ بتراجم بعضھا جید وبعضھا لیس بجید اما لقصورٍ فی عبارة الترجمة او لرکاکة فی لفظھا واما لغیر ذلک وأنا أحرص علی التعبیر عنھا بعبارات تلیق بھا فی مواطنھا“(۳۶)

          اس عبارت سے جہاں امام نووی سے پہلے لگائے گئے تراجم ابواب کا پتہ چلتاہے، یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ امام نووی کی شرح میں موجود تمام عنوانات امام موصوف کے قائم کردہ نہیں ہیں؛ بلکہ سابقہ عنوانات میں موصوف نے جہاں ضرورت محسوس کی، وہاں تبدیلی کی ہے؛ کیونکہ بعض عنوانات کو امام مرحوم نے خود جیّد(عمدہ) کہا ہے اور ظاہر ہے کہ جب عنوان عمدہ ہو تو اس کے تبدیل کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے؟ البتہ جن کے الفاظ عمدہ نہ تھے یا تعبیر میں نقص تھا، وہاں عنوان تبدیل کیا؛ اس لیے یہ کہا جاسکتا ہے کہ امام نووی نے تمام عنوانات نہیں لگائے؛ بلکہ جہاں تبدیلی کی ضرورت محسوس کی، وہاں پر عنوان تبدیل کیا ہے۔

          اس بات کی تائید دیگر شروحات میں موجود عنوانات سے بھی ہوتی ہے؛ کیونکہ ان کے بعض عنوانات اور امام نووی کے قائم کردہ عنوانات میں اشتراک پایا جاتا ہے، مثلاً: ”المفھم“ میں ”باب فضل مجالس الذکر، باب مایقول عند النوم وأخذ المضجع، باب فی الفتنة التی تموج کموج البحر، باب فی صفة الدجال وما یجئ معہ من الفتن“ کے ابواب علامہ ابو العباس قرطبی نے قائم کیے ہیں، یہ عنوانات امام نووی کی کتاب میں بھی اسی طرح موجود ہیں اور ابو العباس قرطبی امام نووی سے مقدم بھی ہیں۔ اس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ تمام عنوانات امام موصوف کے نہیں؛ بلکہ سابقہ ابو اب میں کچھ تبدیلی کی ہے۔

امام نووی کے تراجم ابواب

          امام نووی تراجم ابواب کے قائم کرنے میں کس قدر کامیاب رہے، اس کے متعلق عرض کرنے سے پہلے یہ بتا نا ضروری ہے کہ تراجم نووی کو اللہ تعالیٰ نے قبولیت اس قدر عطا فرمائی کہ ان کے بعد تراجم ابواب کی نسبت عموماً انہیں کی طرف کی جاتی ہے۔

          لیکن نفس عنوانات کے بارے میں یہ بات ملحوظ رہے کہ امام نووی نے جو عنوانات قائم کیے ہیں، ان میں بسا اوقات فقہی مذہب کی طرف میلان پایا جاتا ہے، جس کی وجہ سے وہ بسا اوقات عبارت ِ حدیث سے صرفِ نظر کرکے عنوان قائم کرکے کسی ایسے مسئلہ کو ثابت کرتے ہیں، جو اس میں موجود نہیں ہوتا۔ مثلاً حضرت وائل بن حجر کی ”وضع یدہ الیمنی علی الیسری“ والی حدیث پر عنوان قائم کیا ”باب وضع یدہ الیمنی علی الیسری بعد تکبیرة الاحرام تحت صدرہ فوق سرتہ ووضعھما فی السجود علی الارض حذومنکبیہ“ اس حدیث میں کہیں پر ”تحت صدرہ فوق سرتہ“ کے الفاظ نہیں ہیں؛ لیکن باب میں اسے ذکر کیا ہے۔(۳۷)

          اسی طرح ”باب استحباب تحیة المسجد برکعتین وکراھة الجلوس قبل صلوتھما وانھا مشروعة فی جمیع الأوقات“ کا عنوان (مسلم:۱/۲۴۸) قائم کیا؛ حالانکہ ”وانھا مشروعة فی جمیع الأوقات“ کتاب میں موجود دونوں رواتیوں میں سے کسی میں نہیں ہے، اس قسم کی مثالیں امام نووی کے عنوانات میں کافی موجود ہیں۔

          یہی وجہ ہے کہ بعض حضرات نے فرمایا کہ تراجم نووی میں شافعیت کی بو ہے، جس سے امام مسلم کے شافعی المسلک ہونے کا شبہ ہوتا ہے؛ جبکہ یہ بات درست نہیں، ملاحظہ ہو:

          ”تراجمہ فیھا نفس فقیہ شافعی، ولعل ھذا سبباً فی عد الامام مسلم شافعی المذھب، ولیس الأمر کذلک“(۳۸)

          اسی وجہ سے علامہ شبیر احمد عثمانی کا قول بالکل درست ہے کہ ”صحیح مسلم کے ابواب کا اب تک حق ادا نہ ہو سکا“

          علامہ عثمانی فرماتے ہیں:

          ”والانصاف انہ لم یترجم الی الیوم بما یلیق بشأن ہذا المصنف الجلیل“(۳۹)

          اس کے علاوہ امام نووی کے تراجم میں طوالت بھی بہت پائی جاتی ہے، جو بسااوقات اکتاہٹ کا ذریعہ بن جاتی ہے۔

تعیین ابواب کے بارے میں علامہ سیوطی کی رائے

          علامہ سیوطی کی رائے یہ ہے کہ امام مسلم کی کتاب کو بغیر عنوانات کے ویسے ہی چھوڑ دینا زیادہ بہتر ہے؛ تاکہ مصنف کی غرض برقرار رہے؛چنانچہ فرماتے ہیں:

          ”وما یوجد فی نسخہ من الأبواب مترجمة فلیس من صنع المؤلف وانما صنعہ جماعة بعدہ وکان الصواب ترک ذلک“(۴۰)

          لیکن علامہ شبیر احمد عثمانی کی خواہش تھی کہ صحیح مسلم پر عنوانات قائم ہونے چاہئیں، یہی وجہ ہے کہ فرماتے ہیں:

           ”ولعل اللہ یوفق عبداً من عبادہ لما یؤدی حقہ وبیدہ التوفیق“(۴۱)

          بلکہ انہوں نے خود عنوانات قائم کرنا شروع بھی کیے؛ لیکن شرح کی تکمیل سے پہلے ان کا انتقال ہوگیا، جس کی وجہ سے مکمل نہ کرسکے:

          ”وقد کانت للدیوبندی جھود مشکورة فی تراجم ھذا الصحیح، فقد أجاد فیھا، وزاد علی النووی زیادات حسنة وأبقی علی البعض الّا أن المنیة اختر متہ قبل تمام الکتاب ولعلہ رجا أن یکون ذلک العبد الذی تحدث عنہ فی عبارتہ السابقة“(۴۲)

          اللہ کرے کہ کوئی دوبارہ مختصر اور عمدہ الفاظ میں خوش اسلوبی کے ساتھ صحیح مسلم کو عنوانات سے مزین کرکے اس کمی کو پورا کردے۔آمین

خلاصہٴ بحث:

          اس بحث سے یہ حقیقت معلوم ہوتی ہے کہ صحیح مسلم کے ابواب امام مسلم نے خود قائم نہیں کیے، یہ ممکن ہے کہ کتب کے عنوانات انہوں نے قائم کیے ہوں؛ لیکن ذیلی عنوانات امام مسلم کے بجائے دیگر کئی حضرات نے قائم کیے ہیں، جن میں قاضی عیاض، علامہ ابو العباس قرطبی، امام نووی وغیرہ شامل ہیں اور ہمارے ہاں متداول نسخوں میں عنوانات امام نووی نے قائم کیے ہیں؛ لیکن تمام عنوانات ان کے نہیں ہیں؛ بلکہ سابقہ عنوانات میں تبدیلی کی ہے؛ البتہ اب بھی اس بات کی ضرورت ہے کہ صحیح مسلم کی احادیث پر مختصر اور عمدہ الفاظ میں عنوانات قائم کیے جائیں۔

حوالہ جات:

۱-          تفسیر البغوی، سورة الاسراء، آیت:۵۵، ۳/۱۲۰،ط:دارالمعرفة بیروت، روح المعانی، سورہ آل عمران:۳،۳/۷۷، ط:مکتبہ امدادیہ، ملتان۔

۲-         الاتقان فی علوم القرآن للسیوطی، فصل فی أسماء السور: ۱/۵۲،ط:سہیل اکیڈمی۔

۳-         تاریخ القرآن وغرائب رسمہ، الفصل الرابع فی ترتیب آیات القرآن وسورہ:۷۵،ط:مصطفی البابی مصر۔

۴-         سنن الدارمی، کتاب الدیات، باب الدیة فی قتل العمد:۲/۱۸۸،ط:دار احیاء السنة النبویة۔

۵-         سنن أبی داؤد، کتاب الزکوٰة، باب فی زکوٰة السائمة:۲/۳۱۹،ط:مؤسسة الریان بیروت۔

۶-         سنن الدارمی، کتاب الدیات، باب لایقتل مسلم بکافر: ۲/۱۹۰،ط: دار احیاء السنة النبویة۔

۷-         تبییض الصحیفة، الامام ابوحنیفہ أول من دوّن علم الشریعة: ۱۲۹،ط:ادارة القرآن کراچی۔

۸-         البحر الذی زخر فی شرح الفیة الاثر للسیوطی:۲/۵۵۶،ط:مکتبہ الغرباء الاثریہ۔

۹-         البحر الذی زخر فی شرح ألفیة الأثر للسیوطی:۲/۵۵۶،ط:مکتبة الغرباء الاثریة

۱۰-        مقدمة المحقق لاکمال المعلم، کتاب الاکمال وقیمتہ العلمیة:۱/۲۴،ط:دار الوفاء۔

۱۱-         اکمال المعلم، کتاب الطہارة، باب التطییب بعد الغسل من الجنابة: ۲/۱۶۰،ط:دار الوفاء۔

۱۲-        سباحة الفکر فی الجہر بالذکر: ص:۱۹، مجموعة رسائل اللکنوی: ۳/۴۷۵،ط:ادارة القرآن کراچی۔

۱۳-        الامام مسلم بن الحجاج ومنہجہ فی الصحیح:۱/۳۸۸،ط:دار الصمیعی۔

۱۴-        (ایضاً)

۱۵-        رجال صحیح مسلم لابن منجویہ:۱/۳۰،ط:دار المعرفة بیروت۔

۱۶-        رجال صحیح مسلم لابن منجویہ:۱/۱۰۹،ط:دارالمعرفة بیروت۔

۱۷-        الامام مسلم بن الحجاج ۱/۳۹۰-۳۹۱، ط:دارالصمیعی۔

۱۸-        مقدمة النووی علی شرح صحیح مسلم، فصل فی بیان عدد احادیث البخاری ومسلم دون المکررات: ۱/۱۳۸،ط: دارالمعرفة۔

۱۹-        مقدمة فتح الملہم، تراجم صحیح مسلم، ص:۲۴۷،ط:مکتبة الحجاز ناظم آباد، کراچی۔

۲۰-        اکمال المعلم:۲/۱۶۰،ط:دار الوفاء۔

۲۱-        مقدمة المحقق لاکمال المعلم:۱/۲۴،ط:دارالوفاء۔

۲۲-        ایضاً: ۱/۴۰-۴۱،ط: دارالوفاء۔

۲۳-        صیانة صحیح مسلم من الاخلال والغلط․․․․ لابن الصلاح۳۲،ط:دارالکتب العلمیة۔

۲۴-        النکت الوفیة للامام البقاعی:۱/۱۱۹، ط:مکتبة الرشد۔

۲۵-        البحر الذی زخر فی شرح الفیة الاثر:۲/۵۴۶،ط:مکتبة الغرباء الاثریة۔

۲۶-        توضیح الأفکار:۱/۴۶،ط:مطبعة السعادة، مصر ۱۳۶۶ھ۔

۲۷-       مقدمہ اکمال المعلم للقاضی عیاض:۱/۸۰،ط:دار الوفاء۔

۲۸-        البحر الذی زخر:۲/۵۵۳،ط:مکتبة الغرباء الأثریہ۔

۲۹-        ظفر الأمانی بشرح مختصر السید شریف جرجانی:۱۲۵،ط:مکتب المطبوعات الاسلامیة، حلب۔

۳۰-        الدیباج علی صحیح مسلم بن الحجاج:۱/۴۰،ط:ادارة القرآن والعلوم الاسلامیة، کراچی۔

۳۱-        مقدمة المحقق لاکمال المعلم: ۱/۲۴،ط:دارالوفاء۔

۳۲-        الامام مسلم ابن الحجاج ۱/۳۸۸،ط:دار الصیمعی۔

۳۳-       البحر الذی زخر:۲/۵۶۴،ط:مکتبة الغرباء الاثریة مدینہ منورہ۔

۳۴-       کشف الظنون، الجامع الصحیح:۱/۵۵۷،ط:مکتبة المثنی، بغداد۔

۳۵-       ایضاً:۱/۵۵۶،ط:مکتبة المثنی، بغداد۔

۳۶-        مقدمہ النووی علی شرح مسلم، فصل فی بیان عدداحادیث البخاری ومسلم دون المکررات:۱/۱۳۸، ط: دارالمعرفة۔

۳۷-       صحیح مسلم:۱/۱۷۳،ط:قدیمی کتب خانہ، کراچی۔

۳۸-       الامام مسلم بن الحجاج ومنہجہ فی الصحیح:۱/۳۸۶،ط:دار الصمیعی۔

۳۹-        مقدمہ فتح الملہم، تراجم صحیح مسلم: ۲۴۷،ط:مکتبة الحجاز، کراچی۔

۴۰-        الدیباج علی صحیح مسلم بن الحجاج:۱/۴۰،ط:ادارة القرآن والعلوم الاسلامیة۔

۴۱-        مقدمة فتح الملہم، تراجم صحیح مسلم:۲۴۷،ط:مکتبة الحجاز، کراچی۔

۴۲-        الامام مسلم بن الحجاج ۱/۳۸۷،ط: دار الصمیعی۔

$ $ $

 

-----------------------------------------------

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ 10‏، جلد: 98 ‏، ذی الحجہ 1435 ہجری مطابق اكتوبر 2014ء