عصر حاضر کی سائنسی تحقیق اور متعلقہ اسلامی احکام

 

 

تحریر وتخریج: ڈاکٹر مبشرحسین رحمانی

 

          پچھلی دو تین صدیوں سے سائنسی ایجادات (scientific inventions) نے ہماری زندگی پر گہرے اثرات مرتب کئے ہیں۔ یہ سائنسی ایجادات ہمیں زندگی کے ہر شعبے میں نظر آتی ہیں، چاہے وہ ہماری روزمرہ کے استعمال کی اشیا ہوں یا جنگی سازو سامان، چاہے وہ طب (medical science) ہو یا مواصلاتی نظام (telecommunication systems) ۔ غرض زمین کی گہرائیوں سے لے کر آسمان کی بلندیوں تک، سمندروں میں پانی سے لے کر پہاڑوں کی چوٹیوں تک، سائنسی ایجادات نے زندگی کے طول و عرض کو گھیر رکھا ہے۔ ہر سائنسی ایجاد کے پیچھے سائنسدانوں کی ایک ٹیم (team) کی انتھک محنت شامل ہوتی ہے اور وہ دن رات سائنسی تحقیق کر کے کسی ایجاد کو پایہٴ تکمیل تک پہنچاتے ہیں۔

          عمومی طور پر سائنسی ایجادات اور تحقیق کرنے کے لیے ڈاکٹریٹ (Doctor of Philosophy PhD) ایک باضابطہ ڈگری سمجھی جاتی ہے [1] ۔ ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد ایک انسان کے اندر سائنسی تحقیق اور ایجاد کرنے کی باقائدہ صلاحیت پیدا ہو جاتی ہے۔ آسان الفاظ میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ڈاکٹریٹ کی ڈگری (PhD) سائنسی تحقیق کرنے کے لیے ایک باضابطہ لائسنس (license) ہے ۔ ایک طالب علم کو تقریبا تین سے چار سال کا عرصہ درکار ہوتا ہے، ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرنے کے لیے اور اس دورن وہ کسی مضمون پر تحقیق کرتا ہے اور کوئی ایجاد کرتا ہے؛ چونکہ طالب علم کا یہ پہلا یا دوسرا تجربہ ہوتا ہے، لہٰذا وہ کوئی بڑی ایجاد نہیں کرپاتا؛ البتہ اپنے پی ایچ ڈی سپروائزر (PhD supervisor) کی سربراہی میں پہلے سے موجودہ ایجادات کے اندر تھوڑا سا تنوع پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ جب پی ایچ، ڈی کا طالبِ علم تین چار سال تک اس سارے عمل سے دو تین مرتبہ گزر جاتا ہے تو اس کو تھوڑی بہت سائنسی تحقیق اور ایجاد کرنے سے مناسبت پیدا ہو جاتی ہے۔ ایک پی ایچ ڈی کے طالبِ علم کو اپنی تحقیق اور ایجاد کو عالمی سطح پر منوانے کے لیے تحقیقی مقالے (research papers) لکھنے پڑتے ہیں [2] ۔ ان ہی تحقیقی مقالوں کی بنیاد پر سائنسدانوں اور پروفیسرز کی ایک کمیٹی اس کو ڈاکٹریٹ کی ڈگری سے نوازتی ہے۔

          اس مضمون کے اندر ہم سائنسی تحقیقات، ایجادات اور متعلقہ امور پر تفصیل سے معلومات فراہم کریں گے اور ہماری یہ کوشش ہوگی کہ انشااللہ اگر کوئی مسلمان سائنسدان اس مضمون کو پڑھ کر سائنسی تحقیقات اور ایجادات، اسلامی احکامات کی روشنی میں شروع کردے تو انشااللہ اس کی دنیا و آخرت دونوں سنور جائیں گی۔جیسا کہ ہم سب لوگوں کو اس بات کا یقین ہے کہ اللہ رب العزت نے ہماری کامیابی اپنے پورے کے پورے دین پر چلنے میں رکھی ہے۔چونکہ ہمارا دین، دینِ فطرت ہے، لہٰذا اس میں ہر ہر شعبے سے متعلق احکامات بھی موجود ہیں۔ اب چونکہ ہم اس مضمون میں سائنسی تحقیق اور اس سے متعلقہ امور پر بات کر رہے ہیں تو ہمیں اس شعبے سے متعلق اللہ تعالی کے احکامات اور حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے ارشادات کو سامنے رکھنا ہو گا۔ ان احکامات کو جاننے کے لیے ہم نے حضرت مولانا مفتی محمد نعیم میمن صاحب دامت برکاتہم خلیفہ حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید سے اس شعبے سے متعلق مسائل پوچھ کر اس مضمون میں شامل کیے ہیں۔ اگر سائنسدان اور پروفیسرحضرات سائنسی تحقیق کے شعبے میں ان احکامات کو سامنے رکھ کر تحقیق کریں گے تو انشااللہ، اللہ رب العزت دونوں جہانوں میں کامیاب کریں گے۔

          اب سب سے پہلے ہم سائنسی تحقیقی مقالہ (research paper) اور اس کی متعلقہ اقسام بیان کرتے ہیں؛ تاکہ قارئین کو سائنسی اصطلاحات سمجھنے میں آسانی ہو۔ سائنٹفک کمیونٹی کے اندرعمومی طور سے سب سے زیادہ اہمیت (weightage) حقِ سندِ ایجاد کو دی جاتی ہے، پھر جرنل کے مقالہ کو اور پھر کانفرنس کے تحقیقی مقالہ کو۔ ہم مثال کے طور پر یہ بات قارئین کو بتاتے چلیں کہ اگر کوئی سائنسدان کسی یونیورسٹی میں یا کسی سائنسی تحقیقاتی ادارے میں روزگار کے حصول کے لیے درخواست بھیجتا ہے تو اس کے لکھے ہوئے تحقیقی مقالہ جات کو دیکھا جاتا ہے کہ اس سائنسدان نے کتنے حقِ سندِ ایجاد رجسٹرڈ کروائے ہیں، کتنے اس نے جرنل کے تحقیقی مقالے لکھے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ اس کے علاوہ حکومتی اداروں اور بین الاقوامی فنڈنگ اداروں سے پیسوں کے حصول کے لیے بھی یہ تحقیقی مقالے ہی معیار ہوتے ہیں۔ نیز محکماتی ترقی کے لیے بھی یہ تحقیقاتی مقالے دیکھے جاتے ہیں۔

ٹیبل نمبر: سائنسی تحقیقی مقالہ اور اس کی متعلقہ اقسام

سائنسی تحقیقی مقالہ

انگریزی نام

حقِ سندِ ایجاد

Patent

کتاب کا باب

Book Chapter

جرنل مقالہ

Journal Research Paper

میگزین مقالہ

Magazine Research Paper

کانفرنس مقالہ

Conference Research Paper

پوسٹر

Poster Abstract

ٹیکنیکل رپورٹ

Technical Report

 

          اب چونکہ کسی سائنسدان کی ترقی کا دارومدار کسی حد تک اس کے چھپے ہوئے تحقیقی مقالوں کی بنیاد پر ہوتا ہے، لہٰذا ہر سائنسدان کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ اچھی سے اچھی جگہ اور زیادہ سے زیادہ اس کے تحقیقی مقالہ جات چھپیں۔اس کی وجہ سے سائنسدانوں کے اندر ایک مقابلہ کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے جو کہ اچھی سے اچھی ایجاد کا پیش خیمہ بنتی ہے؛ مگر اس کا ایک دوسرا پہلو بھی ہے وہ یہ کہ بعض سائنسدان حضرات جن کو سائنسی تحقیق سے متعلق احکامات کا پتہ نہیں ہو تا، وہ اپنے قیاس پر ہی عمل کرتے ہیں اور یہ کوشش کرتے ہیں کے جائز ناجائز ہر طریقے سے ان کے تحقیقی مقالہ جات چھپ جائیں اور اس کے لیے وہ مختلف تاویلات کے استعمال سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ ذیل میں ہم نے سائنسی تحقیق سے ایجاد تک کے مرحلے کو عمومی طور پر ایک تصویر کے ذریعے سمجھانے کی کوشش کی ہے (دیکھیے تصویر نمبر۱)۔ تصویر نمبر(۱) دیکھنے کے بعد یہ بات عیاں ہے کہ آئیڈیا سے لے کر ایجاد کے منظرِ عام ہونے تک ، ہر مرحلے پر دھوکہ دہی ہوسکتی ہے۔ اس دھوکہ دہی اور فریب سے بچنے کے لیے سائنسدانوں نے تحقیقی مقالوں کو جانچنے کا عمل وضع کیا ہے جو کو سائنسی اصطلاح میں تحقیقی مقالہ کا جانچنا (Peer Review) کہتے ہیں۔ کسی سائنسی تحقیقی مقالہ کے جانچنے کے طریقہٴ کار کو ہم نے عمومی طور پر ایک تصویر کے ذریعے سمجھانے کی کوشش کی ہے (دیکھیے تصویر نمبر۲)۔

تصویر نمبر 1: سائنسی تحقیقی اور ایجاد كا منظر عام پر آنا

ایجاد كا منظر عام پر آنا

¬

تحقیقی مقالہ كا چھپنا

¬

تحقیقی مقالہ لكھنا

¬

آئیڈیا اور اس كا جواز دینا

اب ہم حق تصنیف‏‏، حق ایجاد اور اس سے متعلقہ شرعی امور كا ذكر كرتے ہیں۔

تصویر نمبر (2):تحقیقی مقالہ كے جانچنے كا طریقہ كار [3]

3 تنقید نگاروں كی طرف سے تنقید كو مرتب كرنا

¬

تحقیقی مقالہ كم از كم 3 تنقید نگاروں كو بھیجنا

¬

ایڈیٹر كا تحقیقی مقالہ كو جانچنا

¬

مصنف كا تحقیقی مقالہ جرنل میں جمع كرنا

¯                                            

ایڈیٹر انچیف كو رائے دینا

®

تحقیقی مقالہ كو منظور كرنا

®

تحقیقی مقالہ كا چھپنا

                                       9 

تحقیقی مقالہ كو نامنظور كرنا

حقِ تصنیف اور حقِ ایجاد کی شرعی حیثیت

          وکی پیڈیا (wikipedia) میں سندِ حقِ ایجاد (patents) کی تعریف لکھی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ ایک طرح کے حقوق ہیں جو کہ ایک ملک ایک سائنسدان اور محقق کو ایک محدود وقت کے لیے دیتا ہے؛ تاکہ عوام کو اس کی ایجاد سے آگاہ کیا جائے[4] ۔ یہ ایک طرح کی فکری ملکیت (intellectual property) ہے۔ سندِ حقِ ایجاد (patents) دینے کے طریقہٴ کار اور قوانین ملک در ملک الگ الگ ہوتے ہیں۔ سندِ حقِ ایجاد (patents) میں اصل میں کسی دوسرے شخص کو بغیر اس کی اجازت کے وہ ایجاد بنانے، اس کا استعمال کرنے، اور اس کو بیچنے وغیرہ کے حق سے روکا جاتا ہے۔

          یہ بات بہت اہم ہے کہ جب سائنسدان کوئی ایجاد کرتا ہے تو وہ اپنی اس ایجاد کو تحقیقی مقالے (research paper) کے ذریعے منواسکتا ہے؛ البتہ سندِ حقِ ایجاد کے اندر بہت زیادہ تکنیکی تفصیلات ہوتی ہیں اور اس ایجاد کو بنانے کی تفصیلات بہت گہرائی میں ہوتی ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک کے اندر زیادہ تر یہ سندِ حقِ ایجاد رجسٹرڈ کروائے جاتے ہیں۔ مثلا ایک کمپنی نے ایک سائنسدان سے ایک دوائی کی سندِ حقِ ایجاد خرید رکھا ہے تو صرف وہی کمپنی اس دوائی کو بنا سکتی ہے اور اس سے منافع حاصل کر سکتی ہے اور ا س کا کچھ حصہ سائنسدان کو بھی دے گی۔ اب ذیل میں ہم حقِ تصنیف اور سندِ حقِ ایجاد سے متعلق سوال و جواب پیش کرتے ہیں۔

          سوال :- مفتی اعظم پاکستان حضرت مفتی محمد شفیع صاحب دیوبندی نے اپنی تصنیف جواھرالفقہ، جلد دوم، باب حقِ تصنیف اور حقِ ایجاد کی شرعی حیثیت کے اندر حقِ سندِ ایجاد کا ذکر کیا ہے [5]۔ اس میں حضرت مفتی صاحب نے لکھا ہے کہ اپنی کسی تصنیف اور ایجاد کو رجسٹرڈ کرواکر دوسروں کو اس کی اشاعت یا صنعت سے روکنا جائز نہیں! ۔ تو کیا سندِ حقِ ایجاد حاصل کرنا بھی شرعی طور پر جائز ہے؟

          جواب :- حضرت مفتی محمد تقی عثمانی صاحب مدظلہ عالی صاحب نے اس کی اجازت دی ہے کہ حقِ تصنیف بیچنا جائز ہے اور اس کی تفصیل فقہی مقالات، جلد اول حقوق مجردہ کی خرید و فروخت میں موجود ہے [6]۔

          سوال :- جو سائنسدان تحقیقی مقالے چھاپتے ہیں وہ مختلف پبلیشرز (publishers) کے ذریعے منظرِ عام پر آتے ہیں ۔ ٹیلی مواصلات (telecommunications) اور کمپیوٹر نیٹ ورکس (computer networks) سے متعلق جو مشہور پبلیشرز ہیں وہ (IEEE, Elsevier, Springer, Wiley, Inderscience, ACM etc) وغیرو ہیں۔ ہر سائنسدان پبلیشر کو کاپی رائٹ (copy right) دیتا ہے اور پھر وہ پبلیشر اس تحقیقی مقالے کو پیسوں کے عوض بیچتے ہیں۔ لہٰذا کیا ایسا کرنا جائز ہے؟ نیز کیا تحقیقی مقالے بھی مفتی اعظم پاکستان حضرت مفتی محمد شفیع صاحب کے اس حکم کے ذیل میں آتے ہیں جو کہ انھوں نے جواھر الفقہ میں لکھا ہے یعنی اپنی کسی تصنیف اور ایجاد کو رجسٹرڈ کرواکر دوسروں کو اس کی اشاعت یا صنعت سے روکنا جائز نہیں؟

          جواب :-اب جائز ہے، جیسا کہ حضرت مفتی محمد تقی عثمانی صاحب مدظلہ العالی صاحب کی تحقیق ہے [6]۔

          تحقیقی مقالوں سے متعلق شرعی احکام (Islamic Commandments related to Research Papers)

          حکومتِ پاکستان کے ذیلی ادارے اعلیٰ تعلیمی کمیشن (Higher Education Commission) نے معیار بنا رکھا ہے کہ اسسٹنٹ پروفیسر (Assistant Professor) کو ایسوسی ایٹ پروفیسر (Associate Professor) کے عہدے پر ترقی حاصل کرنے کے لیے ایک مخصوص تعداد میں تحقیقی مقالے شائع کرنے ہوں گے۔نیز عالمی سطح پر بھی اس سائنسدان اور محقق کو کافی پذیرائی ملتی ہے جو کہ زیادہ سے زیادہ تحقیقی مقالے لکھتا ہے اور اسی سائنسدان کو ریسرچ فنڈز (research funding) اور پی ایچ ڈی (PhD) کے طلبا ملتے ہیں جو کہ زیادہ سے زیادہ تحقیقی مقالے لکھتا ہے۔ لہذا ہر محقق اور سائنسدان کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ اعلی معیار کے تحقیقی مقالے لکھے؛ البتہ کچھ لوگ ان میں ایسے بھی شامل ہوتے ہیں جو کہ پروفیشنل (professional) طور پر تحقیق و ٹیکنالوجی (research and technology) میں اتنے مضبوط نہیں ہوتے، لہٰذا وہ لوگ کوشش کرتے ہیں کہ کسی بھی طریقے سے تحقیقی مقالہ شائع ہو جائے۔ اس کے لیے وہ پیسے دے کر بھی تحقیقی مقالے شائع کرنے کی کوشش کرتے ہیں، نیز وہ تحقیقی مقالے چھاپنے میں اپنے اثر و رسوخ کو بھی استعمال کرتے ہیں۔ ان سب کوششوں کا بنیادی مقصد الگے گریڈ میں ترقی اور پذیرائی حاصل کرنا ہوتا ہے۔ اب اس تمہید کے بعد تحقیقی مقالوں سے متعلق سوال و جواب پیش کرتے ہیں۔

          سوال :- بعض مرتبہ دوستی یاری کے اندر یا دوسرے پر احسان کرنے کے لیے، کیا ایک شخص کا اپنے تحقیقی مقالے (research paper) میں نام ڈالنا درست ہے؟

          جواب :- جائز نہیں ہے۔

          سوال :- بعض پروفیسرز حضرات اور سائنسداں، تحقیقی مقالوں کے اندر ایک دوسرے کے نام ڈالتے ہیں؛ جبکہ اس سائنسداں یا پروفیسر نے اس تحقیقی مقالے کے اندر کوئی کام نہیں کیا ہوتا۔ کیا یہ شرعی طور پر جائز ہے؟

          جواب :- اگر اس ساتھی نے کام نہیں کیا تو اس کا نام ڈالنا خیانت ہو گا اور ایک قسم کا دھوکہ اور جھوٹ کا گناہ بھی لازم ہو گا۔

          سوال :- پیسے دے کر معیاری جرنلز (journals) کے اندر تحقیقی مقالہ چھپوانا جائز ہے یا نہیں؟

          جواب :- پیسے دے کر تحقیقی مقالہ شائع کرنا جائز نہیں اور یہ رقم رشوت شمار ہو گی۔

          سوال :- کیا غیر معیاری جرنلز میں چھاپنا جائز ہے؟

          جواب :- گنجائش ہے۔

          سوال :- کیا پیسے والے جرنلز میں چھاپنا جائز ہے؟

          جواب :- بغیر پیسوں کے چھپوایا جائے۔

          سوال :- کیا ہم کسی ساتھی کی مدد کرنے کی نیت سے اس کا نام تحقیقی مقالے میں ڈال سکتے ہیں؟

          جواب :- قانوناً گنجائش ہو تو ڈال سکتے ہیں یا پھر مقالہ میں اس سے کچھ کام لیا جائے؛ تاکہ جھوٹ لازم نہ آئے۔

          سوال :- کیا ہم کسی ادارے کی بااثر شخصیت کا نام، مثلا ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ (Head of Department) ، ڈین آف انجینئر نگ (Dean of Engineering) وغیرہ کا نام تعلقات بڑھانے کی خاطر تحقیقی مقالے میں ڈال سکتے ہیں؟

          جواب :- اگر قانوناً اجازت ہو تو ڈال سکتے ہیں، دھوکہ اور جھوٹ نہ ہو۔

          سوال :- کیا بیرون ملک کے کسی پروفیسر یا سائنسدان کا نام فنڈز حاصل کرنے کے لیے تحقیقی مقالے میں ڈال سکتے ہیں؟

          جواب :- اوپر کی شرط کے ساتھ۔

          سوال :- کیا ہم ایک وقت میں ایک تحقیقی مقالہ دو یا دو سے زیادہ جرنلز میں جمع کرواسکتے ہیں؛ جبکہ پبلشرز اس کی اجازت نہیں دیتے؟

          جواب :- ان کے علم میں لاکر ایسا کرلیں۔

          سوال :- کیا ایسا کرنا جائز ہے کہ چند سائنسداں مل جائیں اور ایک دوسرے کا نام تحقیقی مقالے میں ڈال دیا کریں؟

          جواب :- گنجائش ہے، اگر سب نے مل کر کام کیا ہے۔

          ان تمام تفصیلات کے بتانے کے بعد ہم دعاگو ہیں کہ اللہ رب العزت ہمیں پورے کے پورے دین پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

***

حواشی و حوالہ جات

http://en.wikipedia.org/wiki/Doctor_of_Philosophy [1]

http://en.wikipedia.org/wiki/Academic_paper#Scholarly_paper [2]

Peer review: The nuts and bolts, July 2012 [3]

http://www.senseaboutscience.org/resources.php/99/peer-review-the-nuts-and-bolts

http://en.wikipedia.org/wiki/Patent [4]

[5] مفتی اعظم پاکستان حضرت مفتی محمد شفیع صاحب دیوبندی ، جواھر الفقہ، جلد دوم، باب حقِ تصنیف اور حقِ ایجاد کی شرعی حیثیت ۔

[6] حضرت مفتی محمد تقی عثمانی صاحب مدظلہ عالی ،فقہی مقالات، جلد اول حقوق مجردہ کی خرید و فروخت ۔

$ $ $

 

-------------------------------------------

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ 11‏، جلد: 98 ‏، محرم الحرام 1436 ہجری مطابق نومبر 2014ء