عیدین اور رمضان کی تعیین میں شریعت کا ضابطہ

 احادیث کی روشنی میں

 

از: مفتی زین الاسلام قاسمی الہ آبادی  

‏ مفتی دارالعلوم، دیوبند               

 

امسال یعنی۱۴۳۵ھ مطابق ۲۰۱۴/ میں گزشتہ سالوں کے برخلاف اتفاق سے” سعودی عرب“ کی ۱۰/ذی الحجہ میں ”ہندوستان“ کی ۸/ ذوالحجہ کی تاریخ واقع ہوئی؛ حالانکہ پچھلے سالوں میں عیدالاضحی کے حوالے سے” سعودی عرب“ اور”ہندوستان“ کی تاریخ میں عموماًایک ہی دن کا فرق ہوتاتھا ، اسی وجہ سے ”ہندوستان“ میں بقرعید کے ایام کی تعیین میں بعض لوگوں کو شبہ پیدا ہوگیا، ملک کے مختلف علاقوں سے راقم الحروف کے پاس کثرت سے فون موصول ہوئے کہ امسال بقرعید کس دن ہے؟ کیاایسا تو نہیں کہ ذی الحجہ کا چاند حقیقت میں ۲۹ / ذوقعدہ میں افق پر موجود ہو؛ لیکن کسی وجہ سے لوگوں کو چاند نظر نہ آیا ہو؟بعض لوگوں نے توصرف تشفی اور تحقیق کے لیے رابطہ قائم کیا؛ جب کہ کچھ علاقوں سے ایسی بھی خبریں موصول ہوئیں کہ وہاں پر غلط قسم کی افواہیں پھیلانے کی کوشش کی جارہی ہے اور بقرعید ہی نہیں؛ بلکہ عید الفطر اورماہِ رمضان کی تعیین میں بھی شرعی نقطئہ نظر کے حوالے سے لوگ شک وشبہہ میں پڑ رہے ہیں، چنانچہ” دہلی“ کے ایک دیندار اعلی عہدیدار نے یہ خبرد ی کہ ہمارے یہاں چند غیرملکی افرادنے امسال” سعودی عرب“ کی تاریخ کا اعتبار کرتے ہوئے ”ہندوستان“ کی تاریخ کے حساب سے ۸ذوالحجہ کو قربانی کی ہے، انھوں نے یہ بھی بتایا کہ رمضان اور عیدالفطر میں بھی وہ لوگ” سعودی عرب“ کی تاریخ کا اعتبار کرتے ہیں، موصوف نے اس مسئلے سے متعلق قرآن وحدیث کی روشنی میں شرعی نقطئہ نظر واضح کرنے کی خواہش ظاہر کی، زیرنظر تحریر اسی مسئلہ سے متعلق ہے، جس سے امید ہے کہ ان شاء اللہ رمضان ، عید اور بقرعید وغیرہ ایام کی تعیین میں شریعت کا اصل حکم واضح ہوکر سامنے آجائے گا۔

 

          شریعتِ اسلام نے انسانی فطرت کا لحاظ کرتے ہوئے سال میں دودن خوشی ومسرت کے لیے تجویز کیے ہیں؛ لیکن یہ ایام دنیا کے عام تہواروں کی طرح محض رسمی تہوار نہیں؛ بلکہ انعاما تِ خداوندی کی شکر گزاری کے ایام ہیں، اسلام نے ان کو عبادت کے ایام قرار دیاہے ، اِن سے متعلق شریعت کی مستقل تعلیمات وھدایات ہیں، اِن ایام کی ابتداء وانتہاء اور ان کومنانے کاطریقہ شریعت کی طرف سے متعین کردیا گیاہے، یہ اللہ کا کتنا بڑا فضل وانعام ہے کہ اس نے خوشی کے لیے جن ایام کو منتخب فرمایا، اُس کو بھی ہمارے لیے عبادت بنادیا کہ ایک طرف انسان اپنی فطرت کے مطابق خوشی منائے اور دوسری طرف آخرت کے اجروثواب کو بھی حاصل کرے، اِس سے اسلام کی جامعیت وشمولیت کے ساتھ ساتھ اس کا دینِ فطرت ہونا بھی ثابت ہوتا ہے۔

          لیکن کوئی بھی عبادت اُس وقت عبادت بنے گی؛ جب کہ اُس کو اس طریقے پر ادا کیا جائے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وحیِ الٰہی کے ذریعے بندوں کے لیے متعین فرمایا ہے۔ احکام واوامر کے جو اصول اور ضابطے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے طے فرمائے ہیں ، اُن کو تسلیم کرتے ہوئے ان پر عمل کرنا ہی اصل بندگی ہے، عبادات کا مدار عقلِ انسانی پر نہیں؛ بلکہ وحیِ الٰہی کے مطابق اِطاعت وفرماں برداری پر ہے، اسی لیے شریعت نے بندے کو اس بات کا مکلف بھی نہیں بنایا ہے کہ وہ احکام خداوندی کو عقلی پیمانے پر جانچنے اور پرکھنے کی کوشش کرے، اِس سے بندگی کی روح پر آنچ آتی ہے، حقیقت میں اللہ تعالی ہی اپنے ہر حکم کی علل وحکمتوں سے واقف ہے، انسان کی ناقص عقل حکمِ الٰہی کی ساری حکمتوں کے ادراک سے قاصر ہے؛ چنانچہ فرض نمازوں کا پانچ کے عدد میں منحصر ہونا،روزہ کی ابتداء صبح صادق سے اور انتہا غروبِ آفتاب پر ہونا، فرض روزوں کے لیے بارہ مہینوں میں سے رمضان ہی کے مہینے کا متعین ہونا، وغیرہ وغیرہ احکام شرعیہ کے رازوں سے اللہ تعالی ہی کی ذات خوب واقف ہے۔

          رمضان ، عید اوربقرعید اِسلام میں وہ عبادتیں ہیں جن کی ابتداء اور انتہاء کی تعیین کو شریعتِ اسلام نے چاند سے متعلق کیاہے؛ لیکن چاند سے متعلق کرنے کا کیا مطلب ہے؟ اس سلسلے میں شریعت کے قوانین وضابطے کیاہیں ؟ اس کو سمجھنا ضروری ہے؛ اس لیے کہ ان احکام کا چاند سے تعلق اُسی وقت معتبر ہوگا؛ جب کہ اس سلسلے میں شریعت کے مسلمہ اصول وضابطوں کو ملحوظ رکھا جائے، اس کے بغیر یہ عبادتیں عبادت کہلانے کی مستحق نہیں ہونگی ۔

          افسوس کہ آج کل عبادتوں میں انسانی رایوں کی دخل اندازی کثرت سے ہونے لگی ہے، شریعت کا جو حکم بھی انسان کی ناقص عقل کے ناقص معیار پرنہ اتر سکے، اُس مسئلے میں بے جا تاویلات وتشریحات کی بھی جرأت ہونے لگی ہے، ترقی یافتہ شکلوں سے فائدہ اٹھانے کے نام پر اسلام کے مسلمہ اصول وضوابط بھی مجروح کیے جانے لگے۔الأمان والحفیظ۔[1]

          بہرِحال ! چاند سے متعلق احکامِ شرعیہ کے حوالے سے پہلے چند مسلمہ ضابطے اور ان کی مختصر ضروری تشریحات ملاحظہ فرمائیں:

          (۱) شریعتِ اسلام نے جن معاملات کامدار چاند ہونے پر رکھاہے،اُس سے مراد چاند کا افق پر موجود ہونا نہیں؛ بلکہ اُس کا قابلِ رویت ہونااور عام نگاہوں سے دیکھا جانا ہے۔

          چاند سے متعلق شریعت کے مسلمہ ضابطوں میں یہ ضابطہ بہت اہمیت کا حامل ہے، اگر اس ضابطہ کو صحیح طو رپر سمجھ لیا جائے تو چاند سے متعلق کسی بھی حکمِ شرعی میں شک وشبہ کی کوئی نوبت ہی نہ آئے، چاند سے متعلق قرآن و حدیث کی روشنی میں اس بات کو اچھی طرح سمجھا جا سکتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چاند ہونا کس کو قراردیا اور نہ ہونا کس کو کہا؟ آیا چاند کا صرف افق پر موجود ہونا شرعی احکام میں کافی تسلیم کیا جائے گا یا عام انسانی آنکھوں سے دیکھنے پر اس کے ہونے کا فیصلہ کیا جائے گا؟ اس مسئلے میں ارشاداتِ نبوی ملاحظہ فرمائیں!

          حدیث کی سب سے بڑی مستند کتاب جو اعتماد میں قرآن کے بعددوسرا درجہ رکھتی ہے یعنی: صحیح بخاری میں آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادہے:

          لاَتَصُوْمُوْا حَتّٰی تَرَوْہُ وَلاَ تُفْطِرُوْا حتّٰی تَرَوْہُ فانْ غُمَّ عَلَیْکُمْ فَاقْدُرُوْا لَہ (بخاری: ۱/۲۵۶)

          روزہ اس وقت تک نہ رکھو جب تک چاند نہ دیکھ لو اور عید کے لیے افطار اس وقت تک نہ کرو؛ جب تک چاند نہ دیکھ لو اور اگر چاند تم پر مستور ہو جائے تو حساب لگالو( یعنی حساب سے تیس دن پورے کرلو)۔

          اسی کی ایک دوسری روایت میں یہ الفاظ ہیں۔

          اَلشَّھْرُ تِسْعٌ وَّ عِشْرُوْنَ لَیْلَةً، فَلاَ تَصُوْمُوْا حَتّٰی تَرَوْہُ فَاِنْ غُمَّ عَلَیْکُمْ فَأکْمِلُوا الْعِدَّةَ ثَلاَثِیْنَ(صحیح بخاری۱/۲۵۶)

          مہینہ (یقینی) انتیس راتوں کاہے؛ اس لیے روزہ اس وقت تک نہ رکھو جب تک (رمضان کا) چاند نہ دیکھ لو۔ پھر اگر تم پر چاند مستور ہوجائے تو ( شعبان) کی تعداد تیس دن پورے کرکے رمضان سمجھو۔

          یہ دونوں حدیثیں حدیث کی دوسری سب مستند کتابوں میں بھی موجود ہیں جن پر کسی محدث نے کلام نہیں کیا۔ اور دونوں میں روزہ رکھنے اور عید کرنے کا مدار چاند کی رویت پر رکھا ہے۔ لفظ ”رویت“ عربی زبان کا مشہور لفظ ہے جس کے معنی:”کسی چیز کو آنکھوں سے دیکھنے کے ہیں“۔ اس کے سوا اگر کسی دوسرے معنی میں لیا جائے تو حقیقت نہیں مجاز ہے؛اس لیے حاصل اس ارشادِ نبوی کا یہ ہوا کہ تمام احکامِ شرعیہ جو چاند کے ہونے یا نہ ہونے سے متعلق ہیں، ان میں چاندکا ہونا یہ ہے کہ عام آنکھوں سے نظر آئے۔ معلو م ہوا کہ مدارِ احکام چاند کا افق پر وجود نہیں؛ بلکہ رویت ہے۔ اگر چاند افق پر موجود ہو؛ مگر کسی وجہ سے قابلِ رویت نہ ہو تو احکامِ شرعیہ میں اس وجود کا اعتبار نہ کیا جائے گا۔

          حدیث کے اس مفہو م کو اسی حدیث کے آخری جملہ نے اور زیادہ واضح کردیا، جس میں یہ ارشاد ہے کہ اگر چاند تم سے مستور اور چھپا ہوا رہے یعنی: تمہاری آنکھیں اس کو نہ دیکھ سکیں تو پھر تم اس کے مکلّف نہیں کہ ریاضی کے حسابات سے چاند کے وجوداور پیدائش معلوم کرو اور اس پر عمل کرو۔ یا آلاتِ رصدیہ اور دور بینوں کے ذریعہ اُس کا وجود دیکھو؛ بلکہ فرمایا:

          فانْ غُمَّ عَلَیْکُمْ فَأکْمِلُوْا الْعِدَّةَ ثَلاَثِیْنَ

          یعنی: اگر چاند تم پر مستور ہو جائے تو تیس دن پورے کرکے مہینہ ختم سمجھو۔

          اس میں لفظ ”غمَّ“ خاص طورسے قابلِ نظر ہے۔ اس لفظ کے لغوی معنی عربی محاورہ کے اعتبار سے بحوالہ ”قاموس وشرح قاموس“ یہ ہیں:

          غُمَّ الْھِلَالُ عَلَی النَّاسِ غَمًّا اذا حَالَ دُوْنَ الْھِلاَلِ غَیْمٌ رَقِیضرٌ أو غَیْرُہ فَلَمْ یُر (تاج العروس شرح قاموس)

          لفظ ”غم الھلال علی الناس“ اُس وقت بولاجاتاہے؛ جب کہ ہلال کے درمیان کوئی بادل یا دوسری چیز حائل ہوجائے اور چاند دیکھا نہ جاسکے۔

          جس سے معلوم ہوا کہ چاند کا وجود خود آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تسلیم کرکے یہ حکم دیا ہے؛ کیونکہ مستور ہو جانے کے لیے موجود ہونا لازمی ہے ، جو چیز موجود ہی نہیں اس کو معدوم کہا جاتاہے ، محاورات میں اس کو مستور نہیں بولتے اور یہ بھی معلوم ہوگیا کہ چاند کے مستو رہوجانے کے مختلف اسباب ہوسکتے ہیں، ان میں سے کوئی بھی سبب پیش آئے ۔ بہرِحال جب نگاہوں سے مستور ہوگیا اور دیکھا نہ جاسکا تو حکمِ شرعی یہ ہے کہ روزہ وعیدوغیرہ میں اُس کا اعتبار نہ کیا جائے گا۔

          (۲)قرآن وحدیث میں یہ بات منصوص اور قطعی ہے کہ کوئی مہینہ انتیس دن سے کم اور تیس دن سے زائد نہیں ہوتا، لہٰذا جن بلاد میں اتنا فاصلہ ہو کہ ایک جگہ کی رویت دوسری جگہ معتبر ماننے کے نتیجے میں مہینے کے دن اٹھائیس رہ جائیں یا اکتیس ہو جائیں، وہاں اختلافِ مطالع کا اعتبار کیا جائے گا اور جہاں اتنا فاصلہ نہ ہو، وہاں اختلافِ مطالع غیر معتبر ہوگا۔

          (۳) ہر جگہ کے لیے اُسی جگہ کی روٴیت معتبر ہوگی ۔

          ترمذی شریف میں امام ترمذی نے مستقل ایک باب قائم کیا ہے ”بابُ مَا جَاءَ لِکُلِّ أھْلِ بَلَدٍ رُوٴْیَتُھُمْ“ یعنی: ہر جگہ کے لیے اُسی جگہ کی روٴیت معتبر ہوگی ، پوری حدیث کا ترجمہ یہ ہے:

          ابن عباس کی والدہ ام الفضل نے کُریب کو (جو حضرت ابن عباس کے آزاد کردہ تھے) کسی ضرورت سے حضرت معاویہ کے پاس ملک شام بھیجا،کریب نے ام الفضل کا کام نمٹایا، ابھی وہ شام ہی میں تھے کہ رمضان کا چاند نظر آیا، چاند جمعہ کی رات میں نظر آیا تھا (اور انھوں نے پہلا روزہ جمعہ کو رکھا تھا) پھر وہ مہینہ کے آخر میں مدینہ آئے ابنِ عباس نے دریافت کیا تم نے چاند کب دیکھاتھا؟ انھوں نے کہا ہم نے جمعہ کی رات چاند دیکھا تھا،ابنِ عباس نے پوچھاکیا تم نے خود جمعہ کی رات میں چاند دیکھا تھا (مسلم کی روایت میں ہے نعم، ہاں خود دیکھا تھا)لوگوں نے بھی دیکھاتھا، پس انھوں نے روزہ رکھا اور امیر معاویہ نے بھی روزہ رکھا، ابنِ عباس نے فرمایا: مگر ہم نے سنیچر کی رات میں چاند دیکھا ہے، پس ہم برابر روزے رکھتے رہیں گے؛ تاآنکہ ہم تیس دن پورے کریں یا چاند دیکھ لیں،کریب نے پوچھا:کیا آپ کے لیے حضرت امیرمعاویہ کا چاند دیکھنا اور ان کاروزہ رکھنا کافی نہیں؟ابنِ عباس نے فرمایا:نہیں ہمیں رسول اللہ… نے ایسا ہی حکم دیا ہے۔ (تحفة الالمعی) آگے امام ترمذی فرماتے ہیں: وَالْعَمَلُ عَلیٰ ھٰذالْحَدِیثِ عِنْدَ أھْلِ الْعِلْمِ أنَّ لِکُلِّ أَھْلِ بَلَدٍ رُوٴیَتُھُمْ یعنی: تمام اہلِ علم کا اسی پر عمل ہے کہ ہر جگہ کے لیے اسی جگہ کی روٴیت معتبرہوگی۔ (ترمذی شریف۱/۱۴۸)

          ترمذی شریف کی دوسری حدیث میں ہے: انَّ النَّبِيَّ صلی اللہ علیہ وسلم قال: اَلصُّوْمُ یَوْمَ تَصُوْمُوْنَ وَالْفِطْرُ یَوْمَ تُفْطِرُوْنَ وَالأضْحٰی یَوْمَ تُضَحُّوْنَ (ترمذی شریف ۱/۱۵۰) یعنی رمضان، عیدالفطر اور عید الاضحی جماعت اور سواداعظم کے ساتھ ہے۔[2]

          (۴) عام طور پرروٴیتِ ہلال کے معاملہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام نے شہادت کا معاملہ قراردیا ہے؛ البتہ رمضان کے چاند میں خبر کو کافی سمجھا ہے بشرطیکہ خبر دینے والا ثقہ مسلمان ہو، ترمذی ،ابوداوٴ، نسائی وغیرہ میں ایک اعرابی اور ابوداوٴد کی روایت میں حضرت ابن عمر کے واقعہ سے ثابت ہے کہ صرف ایک ثقہ مسلمان کی خبر پر آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان شروع کرنے اور روزہ رکھنے کا اعلان فرمادیا، نصابِ شہادت کو ضروری نہیں سمجھا رمضان کے علاوہ دوسرے ہرچاند کی شہادت کے لیے نصاب ِشہادت اور اس کی تمام شرائط کو ضروری قراردیا اور سب فقہاء امت کا اس پر اتفاق ہے، اور سنن دار قطنی میں ہے کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہلالِ عید کے لیے دوآدمیوں سے کم کی شہادت کافی نہیں قرار دی۔

          پھر شہادت کی ایک قسم تو یہ ہے کہ آدمی بچشم خود چاند دیکھنے کی گواہی دے ، دوسری قسم یہ ہے کہ کسی شہادت پرشہادت دے، یہ ”شہادة علی الشہادة“ کہلاتی ہے۔تیسری صورت یہ ہے کہ گواہ اس بات کی گواہی دیں کہ ہمارے سامنے فلان شہر کے قاضی کے سامنے شہادت پیش ہوئی، قاضی نے اس کا اعتبار کرکے شہر میں رمضان یا عید کا اعلان کردیا؛ یہ شہادت علی القضاء کہلاتی ہے۔

           حاصل یہ ہواکہ جب کسی شہر میں عام طور پر چاند نظر نہ آئے تو چاند کے ثبوت کے لیے مذکورہ تین صورتیں شرعاً معتبر ہیں اور دوسرے شہر میں روٴیت ہلال کے ثبوت کے لیے کافی ہیں، (کبھی استفاضے کے ذریعے بھی روٴیت کا ثبوت ہوجاتا ہے، جس کی شرائط کتبِ فقہ میں مذکور ہیں؛ لیکن استفاضے کے ذریعے چاند کے ثبوت میں بھی یہ بات ضروری ہے کہ مہینے کا ۲۸ یا ۳۱ کا ہونا لازم نہ آئے) البتہ دور دراز ممالک سے اگر مذکورہ بالا طریقوں پر شہادت پہنچتی ہے، تو بعض فقہاء جن کے نزدیک اختلافِ مطالع کا اعتبار ہوتا ہے ،وہ اس شہادت کوقابلِ عمل قرار نہیں دیتے اور جن کے نزدیک اختلافِ مطالع کا اعتبار نہیں ہوتاہے، اُن کے نزدیک اس شہادت کے معتبر ہونے کے لیے مذکورہ نصوص کی روشنی میں ایک شرط یہ بھی ضروری ہوگی کہ اس شہادت کے قبو ل کرلینے سے مہینہ اٹھائیس یا اکتیس کا ہونا لازم نہ آئے، اگر ایسا ہوگا تو وہ شہادت معتبر نہ ہوگی۔

          چاند سے متعلق مذکورہ بالا شرعی ضابطوں کی روشنی میں یہ بات بغیر کسی شک وتردد کے کہی جاسکتی ہے کہ امسال یعنی ۱۴۳۵ھ میں ذی قعدہ کا مہینہ ۳۰/دن کا تھا ؛ کیونکہ ۲۹/ ذی قعدہ کو ملک کے کسی بھی علاقے سے رویت کی خبر موصول نہیں ہوئی اور تادمِ تحریر (۱۰،ذوالحجہ۱۴۳۵ھ) بھی کوئی خبر نہیں مل سکی ہے، لہٰذا ۲۹/ ذی قعدہ کو اگر کسی ذریعہ سے چاند کا افق پر موجود ہونا ثابت بھی ہوجائے، تب بھی پہلے ضابطے کی وجہ سے اس کو شرعاً غیر معتبر قرار دیا جائے گا ، نیز” سعودی عرب“ کی تاریخ ”ہندوستان“ میں رہنے والوں کے لیے شرعاً حجت نہ ہوگی ؛ اس لیے کہ ہر علاقے کے لیے اسی جگہ کی رویت شرعاً معتبر ہوتی ہے، جیسا کہ ضابطہ نمبر۲ میں اس کی تفصیل گزرچکی ہے، اور امسال تو ”سعودی عرب“ کی تاریخ اور” ہندوستان“ کی تاریخ میں دودن کا فرق ہوگیا، ایسی صورت میں ”سعودی عرب“ کی روٴیت ”ہندوستان“ کے لیے اور بھی زیادہ غیر معتبر ہوگی ورنہ تو ”ہندوستان“ میں ذی قعدہ کے مہینے کا ۲۸/ دن کا ہونا لازم آئے گا، جونص قطعی کی رو سے ممنوع ہے۔

          اسی طرح اِس موقع پر احتیاط کی بات کہنا (مثلاً: بقرعید کے دو ہی دن قربانی کی جائے، تیسرے دن قربانی نہ کی جائے۔ وغیرہ) شرعی اعتبار سے درست نہیں ہے، جب مسئلہ بالکل صاف اور واضح ہو، اس میں کسی طرح کا کوئی شک نہ ہو تو ایسے موقع پر مسئلے کی ناواقفیت کی بناء پر احتیاط کی بات کرنا بلا وجہ لوگوں کو شک و شبہے میں ڈالنا ہے ۔

          حاصل یہ ہے کہ امسال ۱۴۳۵ھ مطابق۲۰۱۴/ میں ذی قعدہ کا مہینہ ۳۰ / دن کا تھا، جس کے مطابق ۱۰/ذی الحجہ یعنی ۶/ اکتوبر بروز دوشنبہ بقرعید تھی ، لہٰذا جن لوگوں نے امسال” سعودی عرب“ کی تاریخ کا اعتبار کرتے ہوئے ”ہندوستان“ میں دو روز قبل یعنی ۸/ ذی الحجہ کو قربانی کی ہے، اُن کی قربانی درست نہیں ہوئی، ان کاعمل احادیثِ نبویہ کے صریح خلاف تھا، اُ ن کو غور کرنا چاہیے کہ کیا وہ نمازیں بھی سعودی وقت کے مطابق ادا کرتے ہیں؟شبِ قدر، عاشورہ کی تعین بھی سعودی تاریخ سے کرتے ہیں ؟اگر وہ تمام شرعی اعمال میں سعودی تاریخ کا اعتبار کرتے ہیں، تو اُن کا عمل شرعاً صحیح نہیں ہے اور اگر عید و بقرعید ہی میں ایسا کرتے ہیں، تو فرق کی وجہ کیا ہے؟

$ $ $



[1] اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ نئی ایجادات سے فائدہ اٹھانا ناجائز ہے، نہیں ، ہر گز نہیں، نئی ایجادات بھی اللہ کی نعمتیں ہیں ،ان سے وحشت و بیزاری نہ کوئی دین کا کام ہے، نہ عقل کا ؛ البتہ ان چیزوں سے فائدہ اٹھانے میں شریعت کے حدود و قیود کو سامنے رکھنا ضروری ہے؛چنانچہ اُس وقت تک ان سے استفادہ جائز ہوگا؛ جب تک کہ ان کی وجہ سے شریعت پر کوئی آنچ نہ آئے، نئی ایجادات کو شریعت کی روشنی میں پرکھا جائے گا، نہ کہ شریعت کو نئی ایجادات کی روشنی میں۔

[2] اس حدیث کی روشنی میں اس صورت کا حکم بھی معلوم ہو گیا کہ اگر کوئی شخص جدہ سے تیس رمضان کو سحری کھا کر ہندوستان آیا، یہاں انتیسواں روزہ تھا اور شام کو چاند نظرنہیں آیا؛ اس لیے اگلے دن لوگوں نے تیسواں روزہ رکھا ؛ لیکن جدہ سے آنے والے کا اکتیسواں روزہ ہوجائے گا ، پھربھی اسے اس دن عید منانے کی اجازت نہیں؛ بلکہ عید اگلے دن مقامی سب مسلمانوں کے ساتھ منائے گا، یہ حکم مذکورہ حدیث سے ہی نکلاہے۔

 

 

 

---------------------------------------

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ 12، جلد: 98 ‏، صفرالمظفر 1436 ہجری مطابق دسمبر 2014ء