ایک مرد دُرویش کی رحلت

 

 

مولانا حبیب الرحمن اعظمی (مدیر)

 

علمی ودینی حلقوں کے لیے یہ خبر باعثِ رنج وغم ہوگی کہ جامعہ بدرالعلوم گڑھی دولت کاندھلہ کے مہتمم حضرت مولانا محمد کامل کاندھلوی خلیفہٴ اجل حضرت فدائے ملت مولانا سید اسعد مدنی قدس سرہ ۱۵/ربیع الاوّل ۱۴۳۶ھ مطابق ۷/جنوری ۲۰۱۵/، ۸۲ سال کی عمر میں انتقال کرگئے، انا للہ وانا الیہ راجعون، اللّٰھُمَّ اغْفِرْ لَہ وَارْحَمْہُ وَاجْعَلْ مِنْ عِبَادِکَ الْمُقَرَّبّیْنَ! (آمین)

مولانا مرحوم ایک نیک دل، نیک ذات، نیک صفات با فیض عالمِ دین تھے، تواضع وانکساری ان کا طرہٴ امتیاز تھا، نرم خوئی و نرم روی ان کی عادتِ ثانیہ تھی، حلم و بردباری ان کا مزاج وطبیعت تھی، ان کی کتابِ زندگی میں نمود ونمائش اور خواہشِ شہرت وناموری کا باب گویا تھا ہی نہیں، ان کے پیشِ نظر تو محض رضائے الٰہی کے لیے اللہ کے بندوں کی علمی و دینی ہدایت اور رہنمائی تھی، ستائش کی تمنا اور صلہ کی پرواہ کیے بغیر اسی میں انھوں نے اپنی پوری حیات صرف کردی، پھر اس احتیاط کے ساتھ کہ کسی دل کو ان کے کسی عمل سے رنج اور ٹھیس نہ پہنچے۔

قدرتِ الٰہی جب کسی بندہ سے کوئی خدمت لینا چاہتی ہے تو اسی انداز سے اس کی نشو ونما اور تربیت کی تدبیر بھی کرتی ہے؛ چنانچہ انھیں ابتدائی تعلیمی و تربیتی زندگی میں حضرت مولانا محمد ادریس کاندھلوی جیسا باکمال عالم باعمل مربی میسر آگیا اور برسوں ان کی کی خدمت میں رہ کر تعلیم کے ساتھ دینی وفکری تربیت بھی حاصل کی؛ چونکہ معمارِ اولین نے ان کی زندگی کی تعمیر کی خشتِ اول مستقیم اور سیدھی رکھی تھی؛ اس لیے اس پر جو عمارت بلند ہوئی وہ استحکام واستقامت کا نمونہ ثابت ہوئی، اس کے بعد حضرت مولانا عبدالجلیل صاحب اور علمائے کاندھلہ کے علوم وہدایت کے باصفا امین و وارث حضرت مولانا افتخارالحسن معروف بہ بڑے حضرت جی دامت فیوضہم سے درسِ نظامی کی متوسطات کی تحصیل وتکمیل کی، ان دونوں بزرگ اساتذہ کی صاف وستھری علمی ودینی تربیت کا اثر مولانا مرحوم کی سیرت و کردار میں آخر تک نمایاں رہا، آگے کی تعلیم کے لیے دارالعلوم دیوبند پہنچے اور پانچ سال یہاں زیر تعلیم رہ کر ۱۹۵۲/ میں شیخ العرب والعجم حضرت شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنی قدس سرہ جیسے محدثِ کبیر اور شیخِ کامل سے صحیح بخاری وغیرہ پڑھ کر سند فراغت حاصل کی، تعلیمی مراحل طے کرلینے کے بعد حضرت شیخ الاسلام کے دستِ حق پرست پر بیعتِ طریقت سے فیض یاب ہوئے اور حضرت کی ہدایت ورہنمائی میں ذکر واذکار اور تزکیہٴ نفس و تطہیر قلب میں مشغول ہوگئے۔ دراصل مولانا مرحوم کا یہی طبعی ذوق بھی تھا جس کو حضرت شیخ الاسلام کی صحبت و تربیت نے مجلّی اور روشن کردیا۔

چونکہ اکابر واسلاف کا عمومی طریقہ یہی رہا ہے کہ وہ ارشاد وطریقت کے ساتھ علمی وابستگی بھی رکھتے رہے ہیں؛ اس لیے مولانا مرحوم بھی اپنے علاقہ کے ایک مدرسہ سے وابستہ ہوگئے، وہیں سے گڑھی دولت کے اصحابِ خیر وصلاح باصرار مولانا کو اپنے مدرسہ بدرالعلوم میں لے آئے اور تدریس کے ساتھ مدرسہ کا اہتمام بھی انھیں سپرد کردیا، اس وقت سے تادمِ واپسیں مولانا مرحوم اسی کی خدمت کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنائے رہے اور اپنے حسنِ انتظام وخلوصِ نیت سے اسے ایک مدرسہ سے جامعہ بنادیا، جہاں اس وقت دورہٴ حدیث تک کی مکمل تعلیم ہورہی ہے۔

مولانا محمد کامل رحمہ اللہ نام ہی کے نہیں؛ بلکہ صحیح معنوں میں ایک مردِ کامل تھے، فقر و درویشی اگرچہ ان کی شرشت میں شامل تھی پھر بھی وہ علوم وفنون میں بھی قابلِ قدر دستگاہ رکھتے تھے، اور چھوٹی بڑی سب کتابوں کا درس دیتے تھے۔ اسی کے ساتھ ایک اچھے منتظم بھی تھے اور سب سے بڑھ کر ایک کامیاب مرشد ومربی تھے، ان کے دامنِ تربیت سے ہزاروں لوگ منسلک تھے، وہ مدرسہ کی انتظامی مشغولیتوں کے ساتھ ان کی اصلاح وتربیت پر بھی نظر رکھتے تھے۔

مولانا مرحوم ایک خاموش طبع آدمی تھے، اپنی علمی ودینی وتربیتی خدمات بھی خاموشی کے ساتھ انجام دینے کے عادی تھے، اس کے باوجود اللہ رب العزت نے بڑی مقبولیت سے نوازا تھا، جس کا کچھ اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ موسم کی سخت ناسازگاری اور کڑاکے کی سردی کے باوجود ان کی نمازِ جنازہ میں پچاس ہزار سے زیادہ کا مجمع تھا۔

حضرت مولانا مرحوم اب اس دنیا میں نہیں ہیں؛ اس لیے مجھے اب اپنے اس تاثر کے اظہار میں کوئی تردد نہیں ہے کہ ان سے جب بھی ملاقات ہوئی تو ان کے چہرے پر نظر پڑتے ہی دل میں یہ خیال آجاتا تھا کہ مولانا اللہ تعالیٰ کے ان مخصوص بندوں میں سے ہیں جن کے بارے میں ارشاد نبوی … ہے کہ ”اذا روٴا ذکر اللہ“۔

دعا ہے کہ خدائے رحیم وکریم ان کی بال بال مغفرت فرمائے، اپنے مرحوم ومغفور بندوں کی اعلیٰ علیین میں رفاقت عطا فرمائے، نیز پس ماندگان کو صبرِ جمیل اور ان کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق بخشے، آمین!

کچھ ایسے بھی اٹھ جائیں گے اس بزم سے جن کو

تم ڈھونڈھنے نکلوگے ؛ مگر پا نہ سکوگے

$ $ $

 

-------------------------------------

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ 1، جلد: 99 ‏، ربیع الاول1436 ہجری مطابق جنوری 2015ء