عصرحاضر کے سیاسی مسائل کا حل

اسوہٴ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے تناظر میں

 

از: مولاناظفردارک قاسمی                      

ریسرچ اسکالر، شعبہٴ سنی دینیات، اے ایم یو، علی گڑھ

 

پوری انسانیت کی فلاح و بہبود کے لیے جو بہترین نظامِ زندگی اس آسمان کے نیچے اور زمین کے اوپر قیامت تک کے لیے ہوسکتا تھا، وہ اللہ تعالیٰ نے خاتم الانبیاء کے ذریعے اپنی کامل اور اکمل ترین شکل میں دے دیا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بعثت کے بعد عمر بھر جس لگن اور ذمے داری کے ساتھ اپنے فرض کو پورا کرکے انسانیت کو پستی سے نکال کر رفعت تک پہنچانے کا فریضہ انجام دیا، اس کی مثال تاریخِ عالم پیش کرنے سے قاصر ہے۔ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا مثالی طرزِ حکم رانی، جس نے داخلی و خارجی سطح پر بکھرے یثرب کو دنیا کی بہترین اسلامی فلاحی ریاست مدینہ میں تبدیل کر دیا، اْس کی جھلک ہمہ وقت ہمارے سامنے ہونی چاہیے؛ تاکہ ان مشکل ترین حالات میں ہم اْسوہٴ حسنہ کی روشنی میں اپنے مسائل حل کر سکیں۔ زیر نظر مضمون میں ہم نے نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ کے اْن پہلوؤں پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی ہے؛ جو ایک اسلامی فلاحی ریاست کے قیام میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔

یہ بات ذہن نشیں رہے کہ جب بھی کوئی نیا نظام نافذ کرنا ہوتا ہے تو اس کے لیے پہلے ایک ایسی ٹیم تیار کی جاتی ہے جو نہ صرف اس نئے نظام کی جزئیات سے آگاہ ہو؛ بلکہ اس پر غیر متزلزل یقین بھی رکھتی ہو۔ اسی بنیادی اصول کے پیشِ نظر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک طویل عرصہ مکہ میں اسلام کی تبلیغ کرتے ہوئے گزارا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی انتھک کوششوں کی وجہ سے اچھا خاصا طبقہ مسلمان ہو گیا؛ مگر ابھی ایک ضرورت باقی تھی یعنی ایسا خطہٴ زمین جہاں کی آبادی مکمل طور پر یا اکثریت اس نظام کے قبول کرنے پر تیار ہو؛ اس لیے مکہ میں اکثریت غیر مسلموں کی تھی، ایسی حالت میں اسلامی نظام قانون کا نفاذ بے اثر ہو کر رہ جاتا۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ منورہ میں تشریف آوری کے بعد فوری طور پر مسجد نبوی کی بنیاد رکھی گئی، دوسرے لفظوں میں ریاست کے لیے سیکریٹریٹ قائم کر دیا گیا۔ اس کے ساتھ معاشرے کے معاشی مسائل کے حل کو اوّلیت دی گئی۔ ایک طرف ریاست میں ہنگامی حالت تھی تو دوسری طرف انصارِ مدینہ تھے جن میں متوسط بھی تھے اور کافی مالدار بھی ۔ ہمارے ہاں بھی ایک طبقہ معاشی ظلم کی وجہ سے بدحالی کا شکار ہے اور دوسرا طبقہ کافی متمول ہے۔ ایسی حالت میں محسنِ انسانیت نے یہ طریقہ اختیار فرمایا کہ تمام مسلمانوں کو بھائی بھائی بنا دیا۔ ایک ٹیم موجود تھی جو اسلامی فلاحی نظام پر پختہ یقین رکھتی تھی۔ اس ٹیم میں شامل لوگوں نے ایک دوسرے کے لیے قربانیاں دیں اور اس طرح دو طبقوں میں جو غیر معقول معاشی فرق تھا، وہ ختم ہو گیا۔

یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ ان دنوں مدینہ منورہ کی معیشت کا سارا انحصار یہودیوں کے سودی کاروبار پر تھا؛ مگر حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مہاجرین سے یہ نہیں فرمایا کہ تم بھی یہودیوں سے سود پر قرض لے کر اپنا کاروبار شروع کر دو؛ کیوں کہ اس طرح معاشی انصاف پر مبنی معاشرے کی تشکیل ناممکن تھی؛ بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصارِ مدینہ سے فرمایا کہ اپنے بھائیوں کی مدد کرو اور پھر قرضِ حسنہ کا نظام رائج فرمایا اور جب معاشرے کے افراد عملاً باہمی تعاون کے ذریعے بلا سود قرضوں پر معیشت کو قائم کرنے میں لگ گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سود کو مکمل طور پر حرام قرار دے کر اس لعنت کو ختم کر دیا۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدنی زندگی بھرپور مصروفیت کا نقشہ پیش کرتی ہے۔ انتہائی مشکل اوقات میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی خداداد بصیرت سے سلامتی کی راہیں نکالیں۔ مدینہ طیبہ میں تشریف لانے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیثیت مکے سے مختلف ہو گئی تھی؛ کیوں کہ مکہ میں مسلمان ایک مختصر اقلیت کے طور پر رہ رہے تھے؛ جب کہ یہاں انھیں اکثریت حاصل تھی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلمنے شہریت کی اسلامی تنظیم کا آغاز کیا جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو منتظمِ ریاست کا درجہ حاصل ہو گیا۔ اس میں شک نہیں کہ مکی زندگی کے مقابلے میں یہ بڑی کام یابی تھی؛ لیکن پر سکون معاشرے کے لیے ابھی بہت کچھ کرنا باقی تھا۔

موٴاخات کے طرزِ عمل نے مسلم معاشرے کو استحکام بخشا اور اسے ہر جارحیت کے خلاف مجتمع ہو کر لڑنے میں مدد دی۔ جن لوگوں میں موٴاخات قائم کی گئی تھی، ان کے متعلق دل چسپ اور حیرت انگیز تفصیلات کتبِ سیرت میں موجود ہیں۔ رسول  صلی اللہ علیہ وسلم کو مسلمانوں کے درمیان موٴاخات قائم ہوجانے سے اطمینان حاصل ہو گیا۔ منافقین نے مہاجرین و انصار کے درمیان منافرت پھیلانے کی ہر ممکن کوشش کی؛ مگر موٴاخات نے ان کی چالیں ناکام بنادیں،اب ضرورت اس بات کی تھی کہ اہلِ مدینہ کو بیرونی خطرات سے بچانے کے لیے مسلم اور غیر مسلم کسی خاص نکتے پر متفق ہوتے، اہل مدینہ کے باہمی اختلافات کو بھی ہوا نہ ملتی اور مدینہ کے باہر کے لوگ بھی مدینہ منورہ پر حملے کی جرأت نہ کرتے۔ انھیں اغراض و مقاصد کو مدِ نظر رکھتے ہوئے حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کے چند ہی ماہ بعد ایک دستاویز مرتب فرمائی، جسے اسی دستاویز میں کتاب اور صحیفہ کے نام سے یاد کیا گیا۔ اس دستاویز کو متعلقہ اشخاص سے گفت و شنید کے بعد لکھا گیا۔

دستاویز کے ذریعے شہر مدینہ کو پہلی مرتبہ ”شہری مملکت“ قرار دینا اور اس کے انتظام کا دستور مرتب کرنا تھا۔ اس معاہدے سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کی شہری ریاست کو ایک مستحکم نظم عطا کیا اور اس کے لیے خارجی خطرات سے نمٹنے کی بنیاد قائم کی۔ اس دستاویز نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک منتظمِ اعلیٰ کی حیثیت سے پیش کیا اور یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبردست کام یابی تھی۔ دستاویز میں ایک بار لفظ ”دین“ بھی استعمال کیا گیا ہے۔ اس لفظ میں بیک وقت مذہب اور حکومت دونوں کا مفہوم پایا جاتا ہے اور یہ ایک ایسا اہم امر ہے کہ اس کو پیش نظر رکھے بغیر مذہبِ اسلام اور سیاسیاتِ اسلام کو اچھی طرح نہیں سمجھا جا سکتا۔

’یہ تحریری معاہدہ ہے جس کی رو سے حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے آج سے چودہ سو سال قبل ایک ایسا معاشرتی ضابطہ قائم کیا، جس سے شرکائے معاہدہ میں سے ہر گروہ اور ہر فرد کو اپنے اپنے عقیدے کی آزادی کا حق حاصل ہوا۔ اس سے انسانی زندگی کی حرمت قائم ہوئی، اموال کے تحفظ کی ضمانت مل گئی۔ ارتکابِ جرم پر گرفت اور موٴاخذے نے دباؤ ڈالا اور معاہدین کی یہ بستی اس میں رہنے والوں کے لیے امن کا گہوارہ بن گئی۔ غور فرمائیے کہ سیاسی اور مذہبی زندگی کو ارتقاء کا کتنا بلند مرتبہ حاصل ہوا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب سیاست اور مدنیت (دونوں ) پر دستِ استبداد مسلط تھا اور دنیا فساد و ظلم کا مرکز بنی ہوئی تھی۔

یہ معاہدہ اسلامی ریاست کی بنیاد تھا، یہاں سے حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی نیا رخ اختیار کرتی ہے۔ اب تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تدبر و فراست کے تمام پہلو ایک ایسے مرکز کے قیام کے لیے تھے جہاں سے دعوتِ اسلام موٴثر طریق سے دی جا سکے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سابقہ کوششیں ایک مدبر کی تھیں؛ لیکن اب آپ منتظمِ ریاست کے طور پر سامنے آ رہے ہیں، لہٰذا آپ کے تدبر کا مطالعہ اسی زاویے سے کرنا ہو گا۔

سب سے پہلی بات تو یہ ذہن نشین رہنی چاہیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیشِ نظر ایک اہم مقصد صالح معاشرے کا قیام تھا اور اس کے لیے حکومت کا ہونا ناگزیر تھا۔ آپ اکثر دعا فرمایا کرتے تھے کہ اے اللہ! اقتدار کے ذریعے اسلام کی مدد فرما۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ دعا قبول ہوئی۔ اب ایک اسلامی ریاست کے قیام کی حرکت تیز ہو گئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حکومت دینی حکومت تھی اور اس کا مقصد دعوتِ دین، اصلاحِ اخلاق اور تزکیہٴ نفس تھا۔ قرآن پاک نے اسلامی ریاست کا مقصد متعین کر دیا ہے۔ ترجمہ: ”یہ وہ لوگ ہیں جنہیں اگر ہم زمین میں اقتدار بخش دیں تو یہ نماز قائم کریں گے، زکوٰةدیں گے، معروف کا حکم دیں گے اور منکر سے روکیں گے اور سب کاموں کا اختیار اللہ کے حکم میں ہے۔“ (الحج: ۱۴)

یہ آیت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حکومت کے طریقِ کار کو متعین کرتی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حکومت کا مقصود رضائے الٰہی کا حصول اور عوامی بہبود تھا۔ اس حکومت کی بنیاد خاندانی عصبیت اور نسلی شعور کی جگہ دینی وحدت پر قائم تھی۔ اس انوکھی اور اپنی نوعیت کی منفرد ریاست کے منتظم کا انداز بھی عام حکمرانوں سے یکسر مختلف تھا۔ منتظمِ ریاست کی حیثیت سے آپ صلی اللہ علیہ وسلمکے تدبر کی بے شمار مثالیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حقیقی عظمت کا پتا دیتی ہیں۔

معاشی انصاف قائم کرنے کے بعد حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلامی مملکت کی داخلی سیاسی پالیسی کا اعلان فرمایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ اور اس کے نواحی علاقوں پر مشتمل خطے کو ایک وحدت قرار دیا۔ اس وحدت میں بسنے والے غیر مسلموں کے ساتھ معاہدہ فرمایا۔ ان غیر مسلموں کو مکمل شہری حیثیت دی گئی۔امورِ داخلہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خصوصی توجہ استحکامِ امن اور اخلاقی تربیت کی طرف رکھی۔ شہری ریاست کو اندرونی خلفشار سے بچانے اور استحکام بخشنے کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلمنے مسلسل تدابیر اختیار کیں۔

موٴاخات اور میثاقِ مدینہ کے علاوہ قریبی قبائل سے معاہدے کیے۔ اس طرح مدینے کے گرد و نواح میں دوستوں کا اضافہ ہوا اور مخالفتوں میں مسلسل کمی ہوتی چلی گئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک تدبیر اختیار فرمائی کہ عرب میں جو شخص خاندان یا قبیلہ مسلمان ہو تو وہ ہجرت کر کے مدینہ یا مضافات میں آبسے؛ تاکہ آبادی بڑھنے سے فوجی و سیاسی پوزیشن مضبوط ہو۔ اس طرزِ عمل کا فائدہ یہ ہوا کہ مسلمان فوج کے لیے محفوظ رضا کاروں میں روز افزوں اضافہ ہوا اور نو مسلموں کے لیے تعلیم و تربیت کا انتظام ہوا۔

خارجہ پالیسی کے لیے حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے امنِ عامہ اور بین الاقوامی اتحاد کو بنیاد بنایا۔ اسلامی ریاست کی خارجہ پالیسی جغرافیائی حدود میں وسعت اور جنگ و جدل پر مبنی نہیں ہوتی۔ اگر ایسا ہوتا تو حدیبیہ کے مقام پر صلح کا معاہدہ طے نہ ہوپاتا۔ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس وقت مسلمان کم زور تھے اور غیر مسلموں کی قوت سے خوف زدہ تھے؛ کیوں کہ صحابہٴ کرام نے تو جانیں قربان کر دینے کی قسمیں کھائی تھیں؛ مگر ہادیِ کونین  صلی اللہ علیہ وسلم نے غیر مسلموں کی تمام شرائط مان کر صلح کر لینا ہی بہتر سمجھا۔

اسلام کی خارجہ پالیسی کا اصول یہ ہے کہ باوقار زندگی کے لیے پْر امن جدو جہد جاری رکھی جائے۔ اگر کوئی شرپسند اس راہ میں حائل ہو تو اس حد تک اس کے خلاف کارروائی کی جائے جس حد تک اس کی ضرورت ہو۔ یہی وجہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلمنے مختلف اقوام کے ساتھ دوستی کے معاہدے کیے۔ جو قومیں غیر جانبدار رہنا پسند کرتی تھیں، ان کی غیر جانبداری کا احترام کیا۔

اسلامی ریاست میں نظام تعلیم کو بڑی اہمیت دی گئی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت سے قبل ہی حضرت مصعب بن عمیر کو معلم بنا کر مدینہ بھیج دیا تھا اور ہجرت کے بعد مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کو باقاعدہ درس گاہ کا درجہ حاصل ہو گیا۔ طلبہ کے لیے چبوترہ ڈالا گیا جس کو ”صفہ“ کہا گیا۔ یہاں یہ طلبہ قیام کرتے تھے۔ عرب میں چوں کہ لکھنے کا رواج نہیں تھا؛ اس لیے مسجد نبوی ہی میں عبد اللہ بن سعید بن العاص اور عبادہ بن صامت کو لکھنا سکھانے پر مامور کیا گیا۔ بعض صحابہٴ کرام صلی اللہ علیہ وسلم کو مختلف زبانیں سکھائی گئیں اور فنونِ جنگ کی تعلیم بھی ہر جوان کے لیے ضروری قرار دی گئی۔ خواتین گھریلوں صنعتوں کے ساتھ علاج معالجے کا انتظام بھی کرتی تھیں؛ حتیٰ کہ ایک صحابیہ نے مسجد نبوی ہی میں خیمہ لگا دیا تھا، جہاں زخمیوں کی مرہم پٹی کی جاتی تھی۔

حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت میں عام تقسیم کے مطابق دینی و دنیاوی دونوں حیثیتیں جامع طور پر موجود تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حکومت اساسی طور پر دینی تھی؛ اس لیے آپ کی سیاست بھی دینی تھی۔ انتظامِ سلطنت کے بعض امور وہ تھے جن کا تعلق وحی اور الہام سے ہوتا، اس میں آپ کو کسی مشورے کی ضرورت نہیں تھی، باقی امور میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھا کہ مختلف معاملات میں صحابہٴ کرام صلی اللہ علیہ وسلم سے مشورہ کیا کرتے تھے۔ قرآن کریم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی الہامی حیثیت کو اس طرح بیان کرتا ہے۔’ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلمپر برحق کتاب اتاری؛ تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے درمیان اللہ کے احکام کے مطابق حکومت فرمائیں۔“ (النساء:۱۰۵)

رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم صحابہٴ کرام سے مشورہ کرتے تھے اور عام اور خاص معاملات ان کے سپرد کرتے، خاص طور پر حضرت سیدنا ابو بکر صدیق کو دوسروں کی نسبت خصوصیت دیتے۔ یہاں تک کہ وہ عرب جو قیصر اور کسریٰ اور نجاشی کی سلطنتوں اور ان کے حالات سے واقف تھے،وہ حضرت ابو بکر صدیق کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا وزیر کہا کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت کے اس پہلو کو جس کا تعلق عام معاملات سے ہے، قرآن پاک نے مشورے کے اصول سے واضح کیا۔ ” ان سے معاملات میں مشورہ کریں اور پھر جب آپ عزم کرلیں تو اللہ پر بھروسارکھیں۔“ (آل عمران:۱۵۹)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حسنِ انتظام کا ایک پہلو وہ ملکی تقسیم ہے جس سے سلطنت داخلی طور پر مستحکم ہوئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں بعض علاقے بذریعہٴ فتح اسلام کے زیر نگیں ہوے اور بعض معاہدے کے تحت قبضے میں آئے۔ جو علاقے فتح کے ذریعے قبضے میں آئے، وہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے گورنر مقرر کیے۔ مثلاً حجاز اور نجد کے صوبے کا گورنر اْنھیں بنایا جن کا صدر مقام مکہ تھا اور جو علاقے صلح نامے کے ذریعے اسلامی سلطنت میں شامل ہوئے، ان کے حکم ران وہیں کے امراء رہے خواہ وہ مسلمان ہوں یا جزیہ دینے پر رضا مند ہوگئے ہوں۔ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلامی حکومت کا انتظام چلانے کے لیے مختلف اوقات میں عامل (گورنر) مقرر کیے۔

حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں چوں کہ یمن اور حجاز اسلامی حکومت میں شامل ہو چکے تھے؛ اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان علاقوں میں والی مقرر کرتے ہوئے ان کے تقویٰ، علم و دانش، عقل و عمل اور فہم فراست کا خاص طور پر خیال رکھتے تھے۔ امراء کے انتخاب میں حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حکمتِ عملی کا ایک اہم جزء یہ تھا کہ جو لوگ والی بننے کی درخواست کرتے ان کی درخواست رد کر دیتے۔ افسروں کے انتخاب کے سلسلے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حکمتِ عملی قرآن پاک کی اس آیت کی تعبیر تھی۔ ترجمہ: ”بلا شبہ اللہ تعالیٰ تمہیں حکم دیتا ہے کہ عہدے ان کے اہل کو دیے جائیں۔“ (النساء)

اگر چہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں احتساب کا کوئی مستقل محکمہ قائم نہیں تھا؛ مگر حضورِ اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم یہ فرض خود انجام دیا کرتے تھے۔ تجارتی معاملات کی بھی نگرانی فرماتے۔ عرب میں تجارتی معاملات کی حالت نہایت قابلِ اصلاح تھی۔ مدینہ منورہ میں آنے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان اصلاحات کو جاری کر دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تمام لوگوں سے اصلاحات پر عمل کراتے، جو باز نہیں آتے انھیں سزائیں دیتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں کوئی باقاعدہ جیل خانہ نہیں تھا؛ اس لیے صرف اتنا خیال کیا جاتا تھا کہ مجرم کو کچھ مدت کے لیے لوگوں سے ملنے جلنے اور معاشرتی تعلقات قائم نہ رکھنے دیے جائیں۔

اس کی صورت یہ ہوتی تھی کہ مجرم کو کسی گھر یا مسجد میں بند کر دیا جاتا تھا اور اس کے مخالف کو اس پر متعین کر دیا جاتا تھا؛ تاکہ وہ مجرم کو لوگوں سے ملنے نہ دے۔ صحیح بخاری میں ہے۔ ”حضرت عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں دیکھا کہ لوگ تخمیناً غلہ خریدتے تھے۔ ان کو اس بات پر سزا دی جاتی تھی کہ اپنے گھروں میں منتقل کرنے سے پہلے اس کو خود ہی وہاں بیچ ڈالیں جہاں اس کو خریدا تھا۔“ (بخاری شریف)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم عمال پر کڑی نگاہ رکھتے، کسی عامل کی شکایت پہنچتی تو فوراً تحقیقات کراتے؛ کیوں کہ حکم ران کی حیثیت ایک داعی کی ہے۔ اگر سلطنت عدل کی جگہ ظلم و تشدد قبول کر لے تو سلطنت کا نظام درہم برہم ہو جائے۔

حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا سیکریٹریٹ یا مرکزِ حکومت مسجد نبوی تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تمام وفود اور سفیروں سے یہیں ملاقات کیا کرتے تھے۔ گورنروں اور عمائدینِ حکومت کو ہدایات مسجدنبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے روانہ کی جاتیں۔ سیاسی و دیگر معاملات میں صحابہٴ کرام سے یہیں مشورہ کرتے۔ ہر قسم کی سیاسی اور مذہبی تقاریب کا انعقاد مسجدِنبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں ہوتا۔ تاریخ عرب میں ہے ”مسجد مسلمانوں کی مشترکہ عبادت، فوج اور سیاسی اجتماع کی جگہ تھی۔ نماز پڑھانے والا اما م ہی اہل ایمان کی فوج کا سپہ سالار ہوتا تھا اور جملہ مسلمانوں کو حکم تھا کہ ساری دنیا کے مقابلے میں ایک دوسرے کے محافظ و معاون رہیں۔ مالِ غنیمت مسجدنبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں آتا تھا اور یہیں پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسے مستحقین میں تقسیم کیا کرتے تھے۔

سطور بالا کی روشنی میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ آج جو پوری دنیا میں بد امنی اور ابتری کا دور دورہ ہے اسے ختم کر نے کے لئے نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کی ۲۳ سالہ مکی اور مدنی زندگی میں تلاش کریں، آپ نے اپنے دورِ حکمرانی میں تمام نوعِ انسانیت کے ساتھ عدل مساوات اور سما جی برا بری کا رویہ اپنایا، لہٰذا ہمارے ملک کی صوبائی و مرکزی حکومتوں کو چاہیے کہ وہ فوراً امن وسلامتی کی روایت کو مضبوط کریں، تبھی جاکر یہ ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہوگا ۔

$ $ $

 

--------------------------------------

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ 2، جلد: 99 ‏، ربیع الثانی1436 ہجری مطابق فروری 2015ء