خود بدلتے نہیں، قرآن کو بدل دیتے ہیں

 

 

از: ڈاکٹر ایم اجمل فاروقی‏، ۱۵-گاندھی روڈ، دہرہ دون

 

ملک کی عدالت عظمیٰ اور مدراس ہائی کورٹ کی مدورائی بینچ نے دو اہم فیصلوں میں شریعت کی رہنمائی پر سوال کھڑے کیے ہیں۔ مدورائی بینچ نے ایک مسلم والد کے ذریعہ دائر اپیل پر فیصلہ سنایا ہے۔ والد نے اپنی ۱۸سال سے کم عمر بچی کی شادی مقامی مجسٹریٹ کے ذریعہ رکوانے پر اپیل دائر کی تھی۔ ہائی کورٹ نے کہا ”شریعت میں جو چیز جائز کی گئی ہے اس کا مطلب اس کو کرنے کا حکم نہیں ہے۔ صرف اجازت ہے۔ ۲۰۰۶/ کا قانون تمام پرسنل لاء سے اوپر ہے وہ سب پر لاگو ہوتا ہے۔“ اس فیصلہ پر ہندوستان کے ماہرقانون طاہر محمود صاحب نے انڈین ایکسپریس کی ۱۴/۳/۲۰۱۵/ کی اشاعت میں ”یہ دعویٰ کیا کہ الٰہی یا خدائی قوانین ماوراء دستور قوانین ہیں احمقوں کی جنت میں رہنے جیسا ہے“ موصوف کا کہنا ہے کہ مسلم پرسنل لاء کے تحت لڑکا لڑکی کے بلوغ کی عمر ۹-۱۲ سال ہے۔ اگر یہ بعض وجوہات کی بناء پر پہلے نہ ہوجائے تو دونوں کی عمر ۱۵ سال ہے۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ عمروں کا یہ تعین قرآن وحدیث سے نہیں؛ بلکہ اسلام کے شروعاتی دور کی قوانین کی کتابوں میں پائی جاتی ہیں۔ شریعت کے ذریعہ صرف جائز قرار دی گئی اجازتیں جیسے تعدد ازدواج اور یک طرفہ طلاق کو غیر منصفانہ طریقہ سے الہامی یا کتابی حکم بتایا جاتا ہے۔ اسے بنیاد بناکر مسلم پرسنل لاء میں کسی بھی اصلاح کی مخالفت کی جاتی ہے، دستور جو ہر شخص کو اس کے ایمان کے مطابق عمل کی اجازت دیتا ہے، وہ صرف مذہب کی ضروری بنیادی تعلیمات پر ہی لاگو ہوتا ہے۔ نہ کہ ان رسومات پر عمل کی بھی آزادی دیتا ہے، جن کو مذہب نے صدیوں پہلے مخصوص ماحول میں جائز قرار دیا تھا۔ یہ دعویٰ کرنا کہ کوئی بھی مزعومہ الہامی قانون دستور سے اوپر ہے، احمقوں کی جنت میں رہنے کے مترادف ہے۔ (انڈین ایکسپریس دہلی ۱۴/۳/۲۰۱۵/)

اسی طرح فروری ۲۰۱۵/ میں سپریم کورٹ کے ذریعہ دیے گئے ایک فیصلہ میں عدالت نے سرکاری ملازم کے ذریعہ دوسری شادی پر برخاستگی کی اپیل پر فیصلہ میں کہا کہ ”ایک سے زیادہ شادی اسلام کی بنیادی تعلیمات میں سے نہیں ہے اور ایسا کرنے کا حکم بھی نہیں ہے، صرف اجازت ہے۔ مسلمان جو ایک سے زیادہ شادی کرتا ہے وہ نہ تو اسلام کی بنیادی تعلیمات پر عمل کررہا ہوتا ہے نہ اسے اپنا رہا ہوتا ہے، نہ اس کی تبلیغ کررہا ہوتا ہے؛ اس لیے وہ دفعہ ۲۵ کے تحت دی گئی آزادی کا حقدار نہیں ہوتا۔“

اس پرتبصرہ کرتے ہوئے Nalsar کے وائس چانسلر فیضان مصطفی صاحب کہتے ہیں کہ اس فیصلہ سے مسلم پرسنل لاء میں اصلاح کا عمل فروغ پائے گا۔ وہ فرماتے ہیں کہ قرآن وحدیث اسلام کے بنیادی مآخذ ہیں۔ جو رشتوں کو منظم اور مربوط کرتا ہے۔ اس کے برعکس یہ سماجی تعلقات ہیں جوکہ ریاست کی عملداری میں آتے ہیں؛ اس لیے تعدد ازدواج کے مذہبی محرکات نہیں ہیں۔ مسلم پرسنل لاء میں ترمیم یا منسوخی سے مذہبی آزادی پر حملہ ہوتا ہے، جب یہ مان لیا جائے کہ مسلمانوں کا تہذیبی تشخص صرف پرسنل لاء پر ہی منحصر ہے۔ انڈین مسلم قوانین برائے نکاح، طلاق، تعدد ازدواج قرآنی آیات کی اخلاقیات کے مطابق نہیں ہیں۔ قرآن عدل کی شرط کے ساتھ تعدد ازدواج کی اجازت دیتا ہے جو کہ ناممکن ہے؛ مگر ہندوستانی مسلم قانون اس پیشگی شرط کو نظر انداز کرتا ہے؛ جب کہ کثرتِ ازدواج کی عالمی تاریخ میں پیشگی شرط زیادہ اہم ہے، نہ کہ صرف اجازت کا ہونا۔

مندرجہ بالا دواہم فیصلوں پر مسلم ماہرین قانون کی رائے بہت سے سوالات کھڑی کرنے والی ہے:

(۱) قرآن وحدیث کے علاوہ اجماع، قیاس، اجتہاد کو یکسر رد کرنا یا اہمیت دینا

(۲)اسلام کے کچھ احکامات لازمی حصہ ہیں اور کچھ اختیاری

(۳)آپسی تعلقات اور سماجی تعلقات میں الہامی قوانین کا ماننا ضروری نہیں ہے

(۴)اسلامی الہامی قوانین کو دستور سے اوپر ماننا بے وقوفی ہے

شاید الجھن کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اسلام کو زندگی کے محدود دائرے میں منحصر کرکے یہ سارے مفروضات قائم کیے جارہے ہیں؛ جب کہ اسلام دین کا لفظ اپنے لیے استعمال کرتا ہے۔ اس کامطلب اور مفہوم سب جانتے ہیں کہ مکمل زندگی میں رہنمائی پر اس کا اطلاق ہوتا ہے۔ اس میں بعض کا انکار اور بعض کا اقرار بغیر اضطراری حالت یا مجبوری کے منافقت ہے، اتباع یا اطاعت نہیں ہے۔ اگر ہم نفس پرستی کے ہاتھوں بے عقل اور بے بصیرت نہیں ہوگئے ہیں تو ہمیں انسانی تاریخ کے تجربہ سے دیکھنا ہوگا کہ شریعت کے برعکس قوانین اپناکر انسانیت کے کتنے مسائل ہوئے؟ معاشرہ میں مجموعی طور پر انصاف، حقوق، امن، ترقی کی صورت حال ابتر ہوئی یا بہتر ہوئی؟ کیا یک زوجگی نے عورتوں کے مسائل حل کیے؟ کیا آج بڑھتے ہوئے معیارِ زندگی اور اوسط شرح زندگی بڑھنے کی وجہ سے زیادہ مرد تعدد ازدواج پر عمل نہیں کررہے ہیں؟ ۲۰۱۱/ کی مردم شماری بتارہی ہے کہ ملک میں ۶۶لاکھ عورتیں غیراعلان شدہ شادی میں ہیں اور کتنے کروڑ مرد خفیہ اعلانیہ نکاح کے بندھن کے باہر جنسی تعلقات بنارہے ہیں، اس کی کوئی حد نہیں ہے۔

مطلب یہ کہ باعزت زندگی اور حقوق کے ساتھ نہیں رہ سکتے، موج مستی کرسکتے ہیں۔ کیا یہ حدیث قابل اعتنا نہیں ہے کہ نماز کا وقت ہونے کے بعد اس کی ادائیگی، انتقال کے بعد تدفین اور رشتہ ملنے کے بعد شادی میں تاخیر نہ کی جائے۔ اس حدیث میں سنِ بلوغت طے کرنے میں کوئی رہنمائی نہیں ہے؟ جہاں تک قوانین یا سہولتوں کے غلط استعمال کی بات ہے تو دنیا کا کونسا قانون یا سہولت ہے جس کا غلط استعمال نہیں ہوتا؟ مجموعی صورتِ حال پر فیصلہ کیا جاتا ہے۔ قوانین کا غلط استعمال روکنے کے لیے سب سے زیادہ تقویٰ کی صفت پیدا کرنے پر زور دینا چاہیے، اس کے علاوہ کوئی مختصر تدبیر نہیں ہے۔

$ $ $

 

-----------------------------------

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ4، جلد: 99 ‏، جمادی الثانیہ 1436 ہجری مطابق اپریل 2015ء