فقہ حنفی کی نشرواشاعت کے اسباب وعوامل

(۱/۲)

 

از: عبید اختر رحمانی

 

فقہ حنفی کو اللہ نے جس قبول عام سے نوازاہے، اس سے ہرخاص وعام بخوبی واقف ہے۔ دنیابھرکے سنی مسلمانوں کا دوتہائی حصہ امام ابوحنیفہ علیہ الرحمہ کے اجتہادات کے مطابق عبادات کی ادائیگی کرتاآرہاہے ۔فقہ حنفی کے اس قبول عام کی کچھ خاص وجوہ رہی ہیں؛ لیکن اکثر ایسا ہوا ہے کہ اس کے اسباب پر گہرائی سے غوروفکر کرنے کے بجائے محض یہ کہہ کر اس حقیقت کو گدلانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ حکومت عباسیہ کی سرپرستی اوراثرونفوذ کے سبب فقہ حنفی کوفروغ حاصل ہوا، یہ ایک وجہ ہوسکتی ہے؛ لیکن مکمل اور سب سے بڑی وجہ نہیں ۔دورحاضر میں بعض لوگ جب فقہ حنفی کی خداداد مقبولیت کا انکار نہیں کرسکے توانھوں نے بطورتحقیر بعض نامکمل حوالے پیش کرکے یہ کہنا اور بھرم پھیلاناشروع کردیاکہ فقہ حنفی کو مسلمانوں کے درمیان اتنی بڑی پذیرائی ملنا محض حکومت وسلطنت کے نظرکرم کی وجہ سے تھا،اس کاخداداد مقبولیت سے کوئی لینادینانہیں ہے۔ ذیل کے مضمون میں اسی غلط فہمی کو دورکرنے کی کوشش کی گئی ہے اوریہ اس کی قبولیت کے واقعی اسباب ووجوہ بیان کیے گئے ہیں:

۱-      امام ابوحنیفہ کااخلاص

اس میں کوئی شک نہیں کہ جس کے اندر اپنے کام کے تعلق سے اخلاص ہوتاہے۔خداکی رضامقصود ہوتی ہے خداکے بھی اس کے نام اورکام کو زندہ اورباقی رکھتاہے۔ہم میں سے کون نہیں جانتاکہ امت محمدیہ کثیرالتصانیف امت ہے۔اس کے باوجود عالم گیر قبولیت کی حامل کتابوں کی فہرست بہ آسانی مرتب کی جاسکتی ہے۔

ہم یہ نہیں کہتے کہ جن کے مذاہب مٹ گئے یاپھرزیادہ مقبول نہ ہوئے ان کے موٴسسین کے اندراخلاص نہ تھا،ایسی بات سے خداکی پناہ!ہوسکتاہے اس کی کچھ دوسری وجوہ ہوں۔ ان کے موٴسسین کے اخلاص میں شبہ نہیں کیاجاسکتا۔

ہماراکہنایہ ہے کہ جولوگ فقہ حنفی کی توسیع اورنشرواشاعت اوراکثر بلادوامصار میں قبولیت عامہ کو صرف سلطنتوں کی پشت پناہی کا ثمرہ سمجھتے ہیں وہ لوگ یقیناغلطی پر اورفاش غلطی پرہیں۔ اس قبولیت عامہ کا مرجع اورمنبع امام ابوحنیفہ کااخلاص اورخداکی رضاجوئی ہے۔

عن وکیع بن الجراح ”کان واللہ ابوحنیفة عظیم الأمانة، وکان اللہ فی قبلہ، جلیلا عظیما یوٴثر رضاہ علی کل شی ولواخذتہ السیوف فی اللہ تعالیٰ لاحتمل، فرضی اللہ عنہ رضا الابرار، فلقد کان واللہ منھم (مناقب الائمة الاربعة لعبد الہادی المقدسی، ص۶۰)

عَنْ اَبِی ھُرَیْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِنَّ اللہَ إِذَا اَحَبَّ عَبْدًا دَعَا جِبْرِیلَ فَقَالَ إِنِّی اُحِبُّ فُلَانًا فَاَحِبَّہُ قَالَ فَیُحِبُّہُ جِبْرِیلُ ثُمَّ یُنَادِی فِی السَّمَاءِ فَیَقُولُ إِنَّ اللہَ یُحِبُّ فُلَانًا فَاَحِبُّوہُ فَیُحِبُّہُ اَھْلُ السَّمَاءِ قَالَ ثُمَّ یُوضَعُ لَہُ الْقَبُولُ فِی الْاَرْضِ

ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ…نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ جب کسی بندے سے محبت کرتے ہیں تو جبریل علیہ السلام کو بلا کر فرماتے ہیں: میں فلاں شخص سے محبت کرتا ہوں تو بھی اس سے محبت کر،چنانچہ جبریل علیہ السلام بھی اس سے محبت کرنے لگتے ہیں اور (ساتھ ہی) آسمان میں اعلان کرتے ہیں کہ فلاں شخص سے اللہ تعالیٰ محبت فرماتے ہیں تم بھی اس سے محبت کرو،چنانچہ آسمان والے (سب کے سب) اس سے محبت کرنے لگتے ہیں۔پھر زمین میں اس کے لیے قبولیت رکھ دی جاتی ہے۔(صحیح مسلم)

یہ امام ابوحنیفہ کااخلاص ہی تھاکہ انھوں نے زندگی بھراپنے مخالفین سے الجھنے کی کوشش نہیں کی۔اگرکسی نے کچھ غلط سلط کہابھی تواس کو سناان سناکردیااورمعاملہ خداکے سپرد کردیا۔اللہ کو اپنے بندے کی اداپسند آئی کہ اس کی خاموشی کے بدلے پورے عالم میں شہرت دے دی۔

جعفر بن حسن کہتے ہیں کہ میں نے امام ابوحنیفہ کو خواب میں دیکھاتوپوچھاکہ اللہ نے آپ کے ساتھ کیامعاملہ فرمایا انھوں نے کہا:میری مغفرت فرمادی۔انھوں نے پوچھاعلم کی وجہ سے۔ توفرمایاکہ فتویٰ توفتویٰ دینے والے کے لیے بہت ہی سخت معاملہ ہے۔پھرانھوں نے پوچھاکہ کس وجہ سے مغفرت ہوئی توفرمایاکہ لوگوں کی میرے بارے میں ایسی باتوں کی وجہ سے جومجھ میں نہیں تھی۔ (مناقب الامام ابی حنیفة وصاحبیہ ص۵۲)

عباد تمارکہتے ہیں کہ میں نے امام ابوحنیفہ کو خواب میں دیکھاتوپوچھاکہ کیامعاملہ پیش آیا۔ انھوں نے کہاکہ اپنے رب کی وسیع رحمت کا معاملہ ہوا۔میں نے پوچھاکہ علم کی وجہ سے۔ انھوں نے جواب دیاکہ ہائے افسوس علم کے لیے توسخت شرائط ہیں اوراس کی اپنی آفتیں ہیں بہت کم لوگ اس سے بچ سکتے ہیں۔پھرمیں نے پوچھاکہ توپھرکس وجہ سے رحمت کا معاملہ ہوا؟فرمایاکہ میرے بارے میں لوگوں کی ایسی ایسی باتوں کی وجہ سے جس سے میں بری تھا۔(المصدرالسابق)

یہی وجہ ہے کہ جولوگ امام ابوحنیفہ کے مخالفت کرتے رہے انھوں نے بھی اعتراف کیاکہ امام ابوحنیفہ کی مقبولیت کا دائرہ کوفہ سے گزرکرسارے عالم اسلام میں پہنچ چکاہے۔

اَخْبَرَنِی إبراھیم بن مخلد المعدل، قَال: حَدَّثَنَا الْقَاضِی اَبُو بکر اَحْمَد بن کامل، إملاء، قَال: حَدَّثَنَا مُحَمَّد بن إِسْمَاعِیل السلمی، قَالَ: حَدَّثَنَا عبد اللہ بن الزبیر الحمیدی، قال: سمعت سفیان بن عیینة، یقول: شیئان ما ظننت انھما یجاوزان قنطرة الکوفة، وقد بلغا الآفاق: قرائة حمزة، ورای اَبِی حنیفة (تاریخ بغداد ۱۵/۴۷۵، اسنادہ صحیح)

سفیان بن عینیہ کہتے ہیں کہ دوچیزوں کے بارے میں میراگمان تھاکہ وہ کوفہ کی حدود سے بھی تجاوز نہیں کریں گی؛ لیکن وہ دنیابھر میں پھیل چکی ہیں۔ایک حمزہ کی قرات دوسرے ابوحنیفہ کے اجتہادات۔ فقہ حنفی کی قبولیت عامہ کی بنیادی اوراولین وجہ یہی ہے۔ (واللہ اعلم)

۲-     رضائے الٰہی

حقیقت یہ ہے کہ فقہ حنفی سے جس طرح اسلامی ممالک اوربلادوامصار معمور رہے، اسے صرف اللہ کی مرضی اورمنشاء سے ہی تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ ورنہ کسی انسان کے بس کی بات نہیں کہ کسی کے اجتہاد کو اتنی ہردلعزیزی اورمقبولیت نصیب ہواورعالم اسلام کا بیشتر علاقہ فقہ حنفی کواپنائے؛ حالانکہ یہ تمام علاقے ثقافت اورکلچر کے اعتبار سے ایک دوسرے سے بہت مختلف ہیں۔کہاں چین اورکہاں عراق،کہاں ہندوستان اورکہاں بلادروم،اس کے باوجود فقہ حنفی کاعلم ہرجگہ نورافشاں ہے، تویہ صرف مشیت الٰہی اوررضائے خداوندی ہی ہے۔ ہم دنیا میں ایسے کتنے ہی واقعات سے واقف ہیں کہ بہت سارے اشخاص جونہ صرف نہایت قابل اورعالم وفاضل تھے؛ لیکن دنیاان کے فیض سے محروم رہی اوربہت سارے افراد بھلے ہی علمی اعتبار سے کم درجہ کے ہوں؛ لیکن ان سے زیادہ فیض پہنچا۔اوراس کی وجہ صرف یہ ہوتی ہے کہ اس شخص کی کوئی ادااللہ کوپسند آجاتی ہے اوراللہ اس کے فیض کو عام کردیتے ہیں اوراس کے لیے صدقہٴ جاریہ بنادیتے ہیں۔

خدانخواستہ ہماراکہنایہ نہیں ہے کہ امام ابوحنیفہ علم یاعمل کے اعتبار سے کسی سے کمترتھے؛ بلکہ وہ علم وعمل کی جس بلندی پر تھے وہ تاریخ اورکتب سوانح میں مذکور ہے۔کہنے کا مقصد یہ ہے کہ فقہ حنفی کی نشرواشاعت اورلوگوں کے قبول عام کو صرف رضائے الٰہی کا ثمرہ سمجھناچاہیے ۔اس کی جانب بعض علمائے نے رضائے الٰہی اوربعض نے سرالٰہی سے تعبیر کرکے اشارہ کیاہے۔چنانچہ امام ابن الاثیر لکھتے ہیں۔

ویدل علی صحة نزاہتہ عنھا، ما نشر اللہ تعالی لہ من الذِّکْر المنتشر فی الآفاق، والعلم الذی طبق الأرض، والاَخْذ بمذھبہ وفقھہ والرجوع إلی قولہ وفعلہ، وإن ذلک لو لم یکن للہ فیہ سرّ خفی، ورضی إِلھیّ، وفقہ اللہ لہ لما اجتمع شطرُ الإسلامِ او ما یقاربہُ علی تقلیدہ، والعمل برایہ ومذھبہ حتی قد عُبِدَ اللہُ ودُیِّنَ بفقھہ، وعُمل برایہ، ومذھبہ، واُخذَ بقولہ إلی یومنا ھذا ما یقارب أربعمائة وخمسین سنة (جامع الأصول۱۲/۹۵۲)

ترجمہ :اورامام ابوحنیفہ کے فقہ کی پاکیزگی کی دلیل یہ ہے کہ اللہ نے ان کو پوری دنیا میں شہرت بخشی ہے اوران کے علم سے روئے زمین کے علماء سیراب ہورہے ہیں اور پوری دنیا میں ان کے مذہب اورفقہی اجتہادات پر عمل کیاجاتاہے اوران کے قول وفعل کی جانب توجہ دی جاتی ہے اور اگراس بارے میں اللہ تبارک وتعالیٰ کا پوشیدہ رازنہ ہوتا اوراللہ کی مرضی نہ ہوتی جس کی اللہ نے امام ابوحنیفہ کو توفیق ارزانی کی ہے تونصف اہل اسلام یااس کے قریب ان کی تقلید پر اوران کی رائے پر عمل کرنے پر متفق نہ ہوتے اوریہی وجہ ہے کہ امام ابوحنیفہ کے دور سے لے کرآج تک سنہ ۴۵۰ہجری تک ان کے اجتہادات کے مطابق اللہ کی عبادت کی جاتی رہی ہے ان کی رائے اور مذہب پر عمل کیاجاتارہاہے(واضح رہے کہ یہ ابن اثیر نے اپنے عہد کے بارے میں تحریر کیاہے۔ ورنہ امام ابوحنیفہ کے دور سے لے کر پندرہویں صدی یعنی موجودہ دورتک امام ابوحنیفہ کی فقہ پر بیشتراہل اسلام عمل کرتے چلے آرہے ہیں۔

ایک دوسری وجہ یہ بھی سمجھ میں آتی ہے کہ فقہ حنفی بواسطہ امام حماد،ابراہیمی نخعی، علقمہ واسود حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے خزانہٴ علم وفکر سے مستفیض ہے ۔اورصرف فقہ حنفی ہی کیوں کہیے؛ بلکہ تمام فقہاء کوفہ کافقہ وفتاویٰ میں اصل مرجع حضرت عبداللہ بن مسعود ہی ہیں اوروہی دراصل فقہ کوفی کے بانی مبانی ہیں۔اورحضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے بارے میں رسول پاک … کاارشاد ہے کہ ابن ام عبد جوتمہارے لیے پسند کریں میں بھی اس کوتمہارے لیے پسند کرتاہوں۔

رَضِیْتُ لاُمَّتِی مَا رَضِیَ لَھَا ابْنُ اُمِّ عَبْدٍ(مستدرک حاکم ۳/۳۱۷)

ایک دوسری روایت میں یہ لفظ بھی آیاہے۔

قَدْ رَضِیْتُ لَکُم مَا رَضِیَ لَکُمُ ابْنُ اُمِّ عَبْدٍ(مستدرک حاکم۳/۳۱۹)جب کہ ایک اورروایت میں اس طرح مذکور ہے:

رَضِیتُ لاُمَّتِی مَا رَضِیَ لَھُمُ ابْنُ اُمِّ عَبْدٍ، وَکَرِھْتُ لاُمَّتِی مَا کَرِہَ لَھَا ابْنُ اُمِّ عَبْدٍ (فضائل الصحابہ لاحمد بن حنبل)

اوریہ سمجھنامشکل نہیں کہ جواللہ کے رسول کی پسند ہوگی وہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی بھی پسندیدہ ہوگی ۔

اس طرح اگرمنطق کی زبان میں کہیں تو اللہ کے رسول نے عبداللہ بن مسعود کے بارے میں فرمایاکہ میں اپنی امت کے بارے میں وہی پسند کرتاہوں جس کو ابن مسعودپسندکریں،ابن مسعود کے اقوال ہی فقہ حنفی کا اصل سرمایہ ہیں ،اس طرح یہ منطقی نتیجہ کے طورپر حضورپاک صلی اللہ علیہ وسلم کی پسند قرارپاتی ہے اور بالواسطہ طورپر اللہ تبارک وتعالیٰ کی پسند قرارپاتی ہے اورظاہرسی بات ہے کہ قبول عام اسی کو نصیب ہوگاجس کو اللہ پسند کریں گے ۔فقہ حنفی کوقبول عام جونصیب ہواہے تواس لیے کہ اس کو اللہ نے پسند کیاہے۔

فقہ حنفی کی قبولیت میں رضائے الٰہی کو دخل ہے اس کی جانب حضرت شاہ ولی اللہ نے بھی اپنے بعض رسالوں میں اشارہ کیاہے، وہ اپنے مکاتیب میں لکھتے ہیں:

ایک روز اس حدیث پر ہم نے گفتگو کی کہ ایمان اگرثریاکے پاس بھی ہوتا تو اہل فارس کے کچھ لوگ یاان میں کاایک شخص اس کوضرورحاصل کرلیتا۔فقیر (شاہ صاحب)نے کہاکہ امام ابوحنیفہ اس حکم میں داخل ہیں؛ کیونکہ حق تعالیٰ نے علم فقہ کی اشاعت آپ ہی کے ذریعہ کرائی اور اہل اسلام کی ایک جماعت کو اس فقہ کے ذریعہ مہذب کیا۔ خصوصا اس اخیر دور میں کہ دولت دین کا سرمایہ یہی مذہب ہے۔سارے ملکوں اورشہروں میں بادشاہ حنفی ہیں،قاضی حنفی ہیں ۔اکثر درس علوم دینے والے علماء اوراکثرعوام بھی حنفی ہیں۔ (کلمات طیبات مطبع مجتبائی ص۱۶۸)

حضرت شاہ ولی اللہ علیہ الرحمہ نے ایک دوسرے مقام پر اپنے مکاشفات ذکر کرتے ہوئے لکھاہے:

مذہب کا معاملہ بھی ایساہی ہوتاہے کہ کبھی ایک ملت کی حفاظت کی طرح حق تعالیٰ کی عنایت خودکسی مذہب کی حفاظت کی طرف بھی متوجہ ہوتی ہے۔ اس معنی کرکہ اس مذہب کے نگہبان وپیرو ہی اس وقت ملت کی جانب سے مدافعت کرنے والے ہوتے ہیں۔یایہ کسی علاقے میں انہی کا شعارحق وباطل کے درمیان وجہ فرق ہوتاہے۔اس صورت حال کے پیش نظرملاء اعلی یاملاء اسفل میں یہ بات کہی جاتی ہے کہ ملت دراصل یہی مذہب ہے۔

آگے حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں:

”جب یہ تمہید ذہن نشیں ہوگئی توآگے کہتاہوں:مجھے ایسانظرآتارہاکہ مذہب حنفی میں کوئی خاص بات اوراہم راز ہے ۔میں برابر اس مخفی راز کو سمجھنے کے لیے غوروفکر کرتارہاحتیٰ کہ مجھ پر وہ بات کھل گئی جسے بیان کرچکاہوں۔میں نے دیکھاکہ معنی دقیق کے اعتبار سے اس مذہب کو ان دنوں تمام مذاہب پر غلبہ وفوقفیت حاصل ہے۔ اگرمعنی اولیٰ کے اعتبار سے بعض دوسرے مذاہب اس پر فائق بھی ہیں۔اورمیرے سامنے یہ بات بھی آئی کہ یہی وہ راز ہے جس کابسااوقات بعض ارباب کشف کسی درجہ میں ادراک کرلیتے ہیں اورپھراس کو تمام مذاہب کے مقابلے میں ترجیح دیتے ہیں اوربعض مرتبہ یہی رازتصلب وپختگی کی بابت الہام کے طورپر اورکبھی خواب کی صورت میں اس طورپر ظاہر ہوتاہے کہ اس سے اس مذہب پر عمل کے سلسلہ میں تحریض ہوتی ہے“۔ (فیوض الحرمین ۱۰۵،بحوالہ فقہ ولی اللہی۱۵۰)

یہ حقیقت ہے کہ تاریخ کے بیشترادوار میں اسلامی مملکتوں کے سربراہ حنفی رہے ہیں اور سرحدوں کی حفاظت،دشمنان دین اسلام سے مقاتلہ،دارالاسلام کی توسیع اوراحکام شرعیہ کانفاذ انہی کے ہاتھوں میں رہالہٰذا حنفی مذہب کی بقاء اورحفاظت خود مرضی الٰہی رہی ہے۔

ایک دوسرے مقام پر حضرت شاہ صاحب نے فروعات فقہیہ میں اپنی قوم کی مخالفت کومراد حق کی مخالفت قراردیاہے؛چنانچہ وہ لکھتے ہیں:

ان مراد الحق فیک ان یجمع شملامن شمل الامة المرحومہ بک․․․․․․ وایاک ان تخالف القوم فی الفروع فانہ مناقضة لمراد الحق(فیوض الحرمین ص۶۲)

حق تعالیٰ کی مراد تم سے یہ ہے کہ امت مرحومہ کی شیرازہ بندی کی جائے اورخبردارفروعات میں اپنی قوم کی مخالفت سے بچتے رہنا؛کیونکہ وہ حق تعالیٰ کی مراد کے خلاف ہے۔

یہ تھوڑے سے نصوص یہ بتانے کے لیے کافی ہیں کہ رضائے الٰہی کے عنوان سے میں نے جوفقہ حنفی کی نشرواشاعت کا سبب بیان کیاہے ۔وہ مضبوط بنیادوں پر قائم ہے اوریہ راقم الحروف کی اختراع نہیں؛ بلکہ دیگر سابق علماء کی تحقیق سے استمداد واستفادہ ہے۔

۳-     قابل اورباصلاحیت شاگرد

حقیقت یہ ہے کہ شخصیت کتنی بھی عظیم کیوں نہ ہو؛ لیکن تاریخی طورپر اس کانام اورکام جاری رہنے کے لیے ایسے افراد کی ضرورت ہوتی ہے جواپنی ذات کی قربانی دے کر اپنے استاد یاتحریک کے موسس کے کام کو آگے بڑھاسکیں۔ایسے شاگردوں کاملنااورایسے افراد کا تحریک سے جڑنامحض فضل ربانی اورعطائے ایزدی ہے۔ ورنہ تاریخ کی کتنی ہی نامور ہستیاں ایسی ہیں جوباوجود علم وفضل کا پہاڑ ہونے کے محض اس لیے صرف کتابوں میں دفن ہوکر رہ گئیں کہ ان کے بعد ان کے کام اورکاز کوآگے بڑھانے والے مخلص شاگرددستیاب نہ ہوئے ۔یاان کے شاگردان کے علمی امانت کے لائق امین نہ بن سکے۔

حضرت لیث بن سعد علم حدیث وفقہ میں ممتاز مقام کے حامل ہیں، مجتہد ہیں،مصر میں ان کا مذہب بھی ایک عرصے تک رائج رہا۔ان کی فقاہت کی تعریف موافق ومخالف سبھی نے کی ہے، وہ امام مالک کے ہم عصر تھے۔ ان دونوں میں بعض امور کے تعلق سے اختلاف بھی تھا،جس پر دونوں میں مشہور خط وکتابت بھی ہوئی جس کو پڑھ کر آج بھی آنکھوں میں ٹھنڈک اترتی ہے اوردل کوسکون ملتاہے کہ ہمارے اسلاف اختلاف میں بھی کتنا مہذب اورشائستہ طریقہٴ کاراختیار کرتے تھے۔

لیث بن سعد کے بارے میں امام شافعی کہتے ہیں:

اللیث أفقہ من مالک إلا أن أصحابہ لم یقوموا بہ (طبقات الفقہاء۷۸،تاریخ دمشق لابن عساکر۵۰/۳۵۸،تہذیب الکمال فی اسماء الرجال۲۴/۲۷۵،سیراعلام النبلاء ۷/۲۱۶، الوافی بالوفیات۲۴/۳۱۲،تہذیب التہذیب۸/۴۶۳،مغانی الاخیار فی شرح اسامی رجال معانی الآثار۲/۵۰۴)

یہ دیکھئے امام شافعی کااعتراف کہ لیث امام مالک سے زیادہ فقیہہ تھے۔انھوں نے امام مالک کے سامنے زانوئے تلمذتہہ کیاتھااوران کے بڑے قدرشناس تھے، کہتے ہیں کہ جب علماء کا ذکر ہوتوامام مالک ستاروں کے مانند ہیں؛لیکن فقہی تقابل میں انھوں نے امام مالک پر لیث بن سعد کو ترجیح دی ۔اوراس کے ساتھ ہی ایک چھپے ہوئے سوال کاجواب بھی دے دیا۔

جب لیث بن سعد مصری زیادہ فقیہہ ہیں توپھران کو وہ شہرت وہ مقام اورمتبعین کی وہ کثرت کیوں نصیب نہ ہوئی جوامام مالک کونصیب ہوئی تواس کا جواب امام شافعی یہ دیتے ہیں کہ ان کے شاگردان کے کام اورمشن کو لے کر کھڑے نہیں ہوئے، اس وجہ سے ان کا علم اوران کی فقاہت عروج پذیر نہیں ہوئی اوران کانام اورکام اورکارنامہشہرت دوام حاصل نہ کرسکا۔

امام ابوحنیفہ کو اللہ نے ایسے باصلاحیت مخلص اورمحبت کرنے والے شاگردوں سے نوازا جنہوں نے اپنے استاد کے منہج کو اپنامنہج بنایااوراپنے استاد کے علمی کارنامہ کو دنیابھر میں مشتہر کیا۔ انھوں نے اپنے استاد سے بجاطورپر علمی اختلاف بھی کیا،استاد کے دلائل اورنظریہ پر تنقید بھی کی؛ لیکن اسی کے ساتھ استاد کی ذات سے چمٹے رہے۔ ان کو چھوڑانہیں ان سے جدائی اختیار نہیں کی۔

یوں توامام ابوحنیفہ کے شاگردوں کی تعداد ہزاروں میں ہے؛ لیکن جوشاگردان سے بطورخاص وابستہ رہے وہ ہیں:

امام ابویوسف،امام محمد بن الحسن،امام زفر،امام حسن بن زیاد۔

امام ابویوسف علیہ الرحمہ نے جب دیکھاکہ اوزاعی نے امام ابوحنیفہ کے سیر کے مسائل پر تنقید کی ہے توانھوں نے اس کا مدلل جواب لکھاجوالردعلی الاوزاعی کے نام سے مشہور ہے۔اسی طرح انھوں نے اپنے استاد کی مرویات کو کتاب الآثار کے نام سے جمع کیا۔ اسی طرح اپنے سابق استاد ابن بی لیلی اورامام ابوحنیفہ کے درمیان بعض مسائل میں اختلاف کو دلائل کے ساتھ واضح کیااوراپنارجحان بھی بتایا۔

امام محمد نے استاد کے مسلک اورمنہج پر کتابیں لکھیں۔جوظاہرالروایة کے نام سے مشہور ہے۔ اہل عراق اوراہل مدینہ کے اختلافات پر الحجة علی أہل المدینہ لکھی اوراس کے علاوہ دیگر کتابیں لکھ کر استاد کے نام اورکام کوآگے بڑھایا۔

امام زفر نے اہل بصرہ کی اہل کوفہ سے عداوت کی وجہ سے امام ابوحنیفہ سے برگشتگی کو حکمت اور حسن تدبیر سے دورکیااوراہل بصرہ کو بھی آپ کا محب ومطیع اورفرمانبرداربنادیا۔

امام ابن عبدالبر اس سلسلے میں لکھتے ہیں:

”زفربصرہ کے قاضی بنائے گئے تو انھوں نے فرمایاکہ آپ سے پوشیدہ نہیں ہے کہ اہل بصرہ اورہمارے مابین حسد وعداوت پائی جاتی ہے۔لہٰذا آپ کا سلامت بچ نکلنادشوار ہے۔جب بصرہ میں قاضی مقرر ہوکر آئے تو اہل علم جمع ہوکرروزانہ آپ سے فقہی مسائل میں مناظرہ کیاکرتے تھے۔ جب ان میں قبولیت اورحسن ظن کا رجحان دیکھتے توکہتے یہ امام ابوحنیفہ کا قول ہے۔ اہل بصرہ متعجب ہوکر پوچھتے کیاابوحنیفہ ایساکہہ سکتے ہیں، امام زفرجواب دیتے: جی ہاں اوراس سے بھی زیادہ!

اس کے بعد تومعمول ساہوگیاکہ جب بھی زفراہل بصرہ کا رجحان تسلیم وانقیاد دیکھتے تو کہتے کہ یہ ابوحنیفہ کاقول ہے اس سے اہل بصرہ اورمتعجب ہوتے چنانچہ امام زفر کااہل بصرہ سے یہی رویہ رہا یہاں تک کہ بغض وعداوت چھوڑ کر وہ امام صاحب کے معتقد ہوگئے ۔پہلے برابھلاکہتے تھے اب ثناخوانی میں رطب اللسان رہنے لگے۔(الانتقاء لابن عبدالبر)

عبدالبرکے اس بیان میں یہ بات غلط ہے کہ امام زفر بصرہ کے قاضی بناکر بھیجے گئے تھے؛ بلکہ جب ان کو قاضی بنانے کا فرمان صادر ہواتو انھوں نے اپناگھر منہدم کردیااورروپوش ہوگئے۔ بصرہ وہ اپنے بھائی کے میراث کے سلسلہ میں گئے تھے۔ اہل بصرہ کوان سے اتنی عقیدت ہوگئی کہ انھوں نے پھران کو بصرہ سے باہر جانے نہیں دیا۔علامہ کوثری لمحات النظرفی سیرة الامام زفر میں اس پر تفصیلی بحث کی ہے۔(دیکھئے ص۲۵)

مغرب میں امام ابوحنیفہ کے مذہب اورمسلک کوپھیلانے والے اسد بن فرات ہیں۔اسد بن فرات نے امام مالک سے بھی تحصیل علم کیاتھااوراسی کے ساتھ امام محمد بن حسن رحمہ اللہ کے خرمن علم سے بھی خوشہ چینی کی تھی۔ ان کا رجحان احناف کی جانب زیادہ تھا؛چنانچہ مغرب میں ان کی علمی وجاہت سے فقہ پھیلا۔(امام ابوحنیفہ مصنف ابوزہرہ ص۷۵۷)

امام حسن بن زیاد نے مختلف موضوعات پر خصوصاقضاء کے مختلف موضوعات پر کتابیں لکھ کر اس موضوع کے خس وخاشاک کو صاف کیااوربعد والوں کے لیے راہ ہموار کی۔

پھران چراغوں سے نئے چراغ جلے اوران چراغوں نے مزید چراغ جلائے اورپوری دنیا فقہ حنفی سے منور ہوگئی اوراس کی ضیاء پاشیوں نے پوری دنیا کو اپنے احاطہ میں لے لیا۔

بات صرف ان چاروں کی ہی نہیں ہے؛ بلکہ دیگر افراد کی بھی ہے جوفقہ حنفی سے جڑے رہے۔

مثلاعبداللہ بن المبارک کی ذات گرامی کو لے لیں، انھوں نے بھی فقہ حنفی کی خدمت کی ہے اورامام ابوحنیفہ کے مسائل پر مبنی کتاب لکھی ہے۔اس سلسلے میں جب ان سے پوچھاگیاکہ آپ نے امام ابوحنیفہ کے مسائل پرکتاب لکھی ہے؛ لیکن امام مالک کے مسائل پر کتاب نہیں لکھی تو عبداللہ بن مبارک نے جواب دیاکہ میں اس کو علم نہیں سمجھتا۔

سَلَمَةَ بْنَ سُلَیْمَانَ یَقُولُ: قُلْتُ لِابْنِ الْمُبَارَکِ: وَضَعْتَ مِنْ رَاْیِ اَبِی حَنِیفَةَ وَلَمْ تَضَعْ مِنْ رَاْیِ مَالِکٍ قَالَ: لَمْ اَرَہْ عَلَمًا (جامع بیان العلم وفضلہ۲/۱۱۰۷)

اس حوالہ سے مقصود امام مالک کی تنقیصِ شان نہیں؛بلکہ مراد یہ ہے کہ فقہ حنفی کی خدمت کرنے والوں میں سے ایک عبداللہ بن المبارک ہیں۔

شیخ ابوزہرہ فقہ حنفی کی نشرواشاعت کے تحت لکھتے ہیں۔

”جب سیاسی قوت کمزور پڑگئی تو وہ علماء کی ہی جدوجہد تھی جس نے مختلف امصاروبلاد میں فقہ حنفی کو زندہ رکھا۔اس ضمن میں علماء کی کوشش ایک نہج پر قائم نہیں رہی؛ بلکہ رفتار زمانہ کے پیش نظر کبھی اس میں قوت رونماہوئی اورکبھی کمزوری واقع ہوئی۔جن بلاد وامصار میں علماء اثرورسوخ کے حامل تھے، وہاں یہ مذہب پھلاپھولااوربرگ وبار لایا؛لیکن جہاں علماء کمزورتھے، وہاں مذہب بھی کمزورپڑگیا“۔(حیات حضرت امام ابوحنیفہ ص۷۵۶)

نوٹ: بعض محدثین نے کچھ ایسے حوالے جات پیش کیے ہیں، جس سے معلوم ہوتاہے کہ آخر میں عبداللہ بن المبارک امام ابوحنیفہ سے متنفر ہوگئے تھے؛لیکن یہ بات چند وجوہ کی بنیاد پر قابل اعتبار نہیں ہے۔

۴-     تصنیفی خدمات

اس کا تعلق اگرچہ ماقبل سے ہی ہے؛ لیکن اس کے باوجود اس کو اس کی اہمیت کے پیش نظرعلیحدہ طورپرذکرکیاگیاہے۔کسی بھی مسلک اورمذہب کو تابندہ اورزندہ رکھنے میں تصنیفی خدمات بہت اہم کرداراداکرتی ہیں۔تصنیفی خدمات سے اندازہ ہوتاہے کہ کسی مذہب کاخدوخال کیاہے۔ اس کے نقوش کیاہیں۔ اس کی بنیاد اوراصول کیاہیں ۔اگرتصنیفی خدمات نہ ہوں اوراس کے جاننے والے فنا کے گھاٹ اترجائیں توپھریہ مذہب سرے سے نیست ونابود ہوجاتاہے ۔کسی مذہب کے دوام کے لیے دونوں چیزیں ضروری ہیں یعنی اس مذہب کے جاننے والے اوراس مذہب کی تصانیف۔

اللہ نے اپنے بندوں کی ہدایت کے لیے بھی یہی نظام قائم کیاہے؛ چنانچہ ایک جانب انبیاء اوررسولوں کو بھیجااوردوسری طرف صحائف اورکتب بھی نازل فرمائیں ۔ کتابوں میں بہت سی باتیں ایسی ہوتی ہیں کہ جب تک کوئی ان کو عملی طورپر برت کرنہ بتائے سمجھنامشکل ہوتاہے۔یہی وجہ ہے کہ محض تصنیفی خدمات یاپھر محض اس مذہب کے جانکار رہنے سے کسی مذہب کو دوام نصیب نہیں ہوتادونوں چیزوں کا ہوناضروری ہے۔

مذاہب اربعہ زندہ اورپایندہ ہیں تواس کی وجہ یہی ہے کہ ہردور میں اس مذہب کے علماء اورفقہاء بھی رہے ہیں اورانھوں نے تصنیفی خدمات کے ذریعہ پیش آمدہ واقعات اورحوادث میں لوگوں کی رہنمائی کا فریضہ بھی انجام دیاہے۔

محمد بن جریرالطبری،ابن حزم ظاہری کی کتابیں موجود ہیں؛ لیکن چونکہ اس مذہب کے جاننے والے واقف کار علماء نہیں ہیں، لہٰذا یہ مذہب فناء کے گھاٹ اترگیا۔

ابن خلدون اس تعلق سے لکھتے ہیں:

آج ظاہریہ کامذہب بھی مٹ مٹاگیا کیونکہ اس کے امام ختم ہوگئے․․․․․․ بہت سے طلبہ جوان کے مذاہب کامطالعہ کرناچاہتے ہیں اوران کتابوں سے ان کا فقہ اورمذہب سیکھناچاہتے ہیں وہ اپناوقت ضائع کرتے ہیں اوراس سے جمہور کی مخالفت اوران کے مذہب سے انکار بھی لازم آتاہے ۔ہوسکتاہے کہ وہ اس مذہب کی وجہ سے بدعتیوں میں شمار کرلیے جائیں؛ کیونکہ وہ اساتذہ کی چابی کے بغیرکتابوں سے علم کو نقل کررہے ہیں۔(مقدمہ ابن خلدون ص۲۸۳)

ائمہ اربعہ میں سے ائمہ ثلاثہ کی تصانیف تومشہور ہیں؛لیکن امام ابوحنیفہ کی تصانیف کے تعلق سے تاریخی نقوش اتنے دھندلے ہیں کہ کچھ کہنامشکل ہے۔ویسے ماقبل کے مورخین نے اس تعلق سے کچھ کتابوں کے نام لیے ہیں تواس بناء پر کہاجاسکتاہے کہ امام ابوحنیفہ نے کچھ کتابوں کی تصنیف ضرورکی لیکن وہ ہم تک نہیں پہنچ سکی جیساکہ دیگر علماء کے ساتھ بھی ہواہے ۔

ان کے شاگردوں نے جوکتابیں لکھیں ان میں سے کچھ ہم تک پہنچی ہیں اوربیشتر ہم تک نہیں پہنچ سکی ہیں۔

ان کے شاگردوں میں نمایاں نام امام ابویوسف کاہے۔ انھوں نے درج ذیل کتابیں لکھی ہیں۔ابن ندیم نے امام ابویوسف کی تصانیف میں مندرجہ ذیل کتب کانام لکھاہے۔

کتاب الصلاة، کتاب الزکاة، کتاب الصیام، کتاب الفرائض، کتاب البیوع، کتاب الحدود، کتاب الوکالة، کتاب الوصایا، کتاب الصید والذبائح، کتاب الغصب والاستبراء ولأبی یوسف املاء رواہ بشر بن الولید القاضی یحتوی علی ستة وثلثین کتابا مما فرعہ أبو یوسف، کتاب اختلاف الأمصار، کتاب الرد علی مالک بن أنس، کتاب رسالتہ فی الخراج إلی الرشید، کتاب الجوامع ألفہ لیحیی بن خالد یحتوی علی اربعین کتابا ذکر فیہ اختلاف الناس والرای الماخوذ بہ. (الفہرست لابن ندیم ۱/۲۵۳)․

اس فہرست میں ابن ندیم نے ”کتاب الردعلی مالک بن انس“ کانام لیاہے؛ لیکن ایسالگتاہے کہ یاتوسبقت قلم سے ایساہوگیاہے صحیح نام ہوناچاہیے ”کتاب الرد علی سیرالاوزاعی“۔

امام زفر کی کتابوں کا ابن ندیم نے کوئی تذکرہ نہیں کیاہے؛ لیکن یہ حقیقت ہے کہ انھوں نے بھی کچھ کتابیں لکھی ہیں۔ ابن ندیم نے امام زفر کے ترجمہ میں صرف اتنالکھ کر چھوڑدیاہے کہ ولہ من الکتب ان کی چند کتابیں ہیں۔ کون کون سی ہیں یہ نہیں بتایا۔

الفہرست کے محقق نے حاشیہ میں لکھاہے کہ ان کی ایک کتاب مجرد فی الفروع کے نام سے ہے۔ اس کے علاوہ جیساکہ مولانا عبدالرشید نعمانی نے ثابت کیاہے کہ ان کی ایک اورکتاب کتاب الآثار کے نام سے ہے جس کاحاکم نے بھی ذکر کیاہے۔لہٰذاان کی زیادہ تصانیف نہ ہوناکوئی مستبعد نہیں ہے۔

امام محمد بن الحسن کی درج ذیل کتابوں کاابن ندیم نے ذکر کیاہے۔

ولمحمد من الکتب فی الاصول کتاب الصلاة، کتاب الزکاة، کتاب المناسک، کتاب نوادر الصلاة، کتاب النکاح، کتاب الطلاق، کتاب العتاق وامھات الاولاد، کتاب السلم والبیوع، کتاب المضاربة الکبیر، کتاب المضاربة الصغیر، کتاب الاجارات الکبیر، کتاب الاجارات الصغیر، کتاب الصرف، کتاب الرھن، کتاب الشفعة، کتاب الحیض، کتاب المزارعة الکبیر، کتاب المزارعة الصغیر، کتاب المفاوضة وھی الشرکة، کتاب الوکالة، کتاب العاریة، کتاب الودیعة، کتاب الحوالة، کتاب الکفالة، کتاب الإقرار، کتاب الدعوی والبینات، کتاب الحیل، کتاب الماذون الصغیر، کتاب الدیات، کتاب جنایات المدبر والمکاتب، کتاب الولاء، کتاب الشرب، کتاب السرقة وقطاع الطریق، کتاب الصید والذبائح، کتاب العتق فی المرض، کتاب العین والدین، کتاب الرجوع عن الشھادات، کتاب الوقوف والصدقات، کتاب الغصب، کتاب الدور، کتاب الھبة والصدقات، کتاب الایمان والنذور والکفارات، کتاب الوصایا، کتاب حساب الوصایا، کتاب الصلح والخنثی والمفقود، کتاب اجتھاد الرای، کتاب الإکراہ، کتاب الاستحسان، کتاب اللقیط، کتاب اللقطة، کتاب الآبق، کتاب الجامع الصغیر، کتاب اصول الفقہ ولمحمد، کتاب یعرف بکتاب الحج یحتوی علی کتب کثیرة، کتاب الجامع الکبیر، کتاب امالی محمد فی الفقہ وھی الکیسانیات، کتاب الزیادات، کتاب زیادة الزیادات، کتاب التحری، کتاب المعاقل، کتاب الخصال، کتاب الاجارات الکبیر، کتاب الرد علی اھل المدینة، کتاب نوادر محمد روایة بن رستم (الفہرست لابن ندیم ۱/۲۵۴)

حقیقت یہ ہے کہ امام محمد نے اپنی تصانیف کے ذریعہ ہی فقہ حنفی کا نام زندہ اورروشن رکھاہے اورانہی کی کتابیں فقہ حنفی کا دارومدار ہیں۔اگرکہاجائے کہ فقہ حنفی کو زندہ رکھنے میں ایک بڑاسبب اوراہم کردار امام محمد بن الحسن کی کتابوں اورتصنیفی خدمات کا ہے تو یہ غلط نہ ہوگا۔

امام حسن بن زیاد لولوئی۔یہ بھی بڑے مرتبہ کے فقیہہ تھے۔یحییٰ بن آدم جوبڑے درجہ کے مجتہد ہیں وہ کہتے ہیں کہ میں نے ان سے بڑھ کر فقیہہ نہیں دیکھا۔ان کی تصنیفیں بقول امام طحاوی درج ذیل ہیں:

قال الطحاوی ولہ من الکتب کتاب المجرد لابی حنیفة روایتہ کتاب ادب القاضی کتاب الخصال کتاب معانی الإیمان کتاب النفقات کتاب الخراج کتاب الفرائض کتاب الوصایا. (الفہرست لابن ندیم ۱/۲۵۵)

پھراس کے بعد امام ابویوسف،امام محمد ،امام زیاد بن حسن کے شاگردوں اورپھران کے شاگردوں نے جوتصنیفی خدمات انجام دی ہیں ع

سفینہ چاہیے اس بحربیکراں کے لیے

اوراس کے بعد بھی حالت یہی ہوگی۔”ورق تمام ہوااورمدح ابھی باقی ہے“۔

مشہور مورخ ابن خلدون لکھتے ہیں:

”ان کے(امام ابوحنیفہ) فقہ پر کثرت سے کتابیں لکھی گئیں اورشافعیوں سے مناظرہ کی مجلسیں بھی خوب گرم رہیں اوراختلافی مسائل میں انتہائی نفیس ومفید مذاکرات ہوئے اورانھوں نے گہرے وسنجیدہ نظریات پیش کیے“۔ (مقدمہ ابن خلدون ص۶۲۵)

اصول فقہ کے باب میں ابن خلدون حنفیہ کی کاوشوں کااعتراف کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

”پھر(امام شافعی کے بعد)اس پر فقہائے احناف نے کتابیں لکھیں اوران قواعد کی تحقیق کی اوران میں تفصیل سے گفتگو کی۔ اسی طرح اہل کلام نے بھی اس پر کتابیں لکھیں؛ مگراس موضوع پر فقہاء کی کتابیں فقہ کے لیے زیادہ موزوں اورفروع کے مناسب ہیں؛ کیونکہ وہ ہرجزئی مسئلہ میں کثرت سے امثلہ وشواہد پیش کرتے ہیں اورفقہی نکات پر مسائل اٹھاتے ہیں ․․․․․․ فقہائے حنفیہ اس میں بڑے ماہر ہیں ۔وہ فقہی نکات کے دریامیں غوطہ لگاکر مقدوربھرمسائل فقہ سے ان قوانین کے موتی چن لیتے ہیں۔ جیساکہ انہی کے امام میں سے ابوزید دبوسی کازمانہ آیاتوانھوں نے قیاس پر سب سے زیادہ لکھااوران بحثوں اورشرطوں کو تکمیل تک پہنچادیا، جن کی قیاس میں ضرورت پڑتی ہے۔ ان کی تکمیل سے اصول فقہ کی صنعت مکمل ہوگئی اوراس کے مسائل مرتب اورقواعد تیار ہوگئے․․․․․․․حنفیہ نے بھی اس علم پر بہت سی کتابیں لکھیں ہیں۔پہلے علماء میں ابوزید دبوسی کی اورپچھلے علماء میں سیف الاسلام بزدوی کی بہترین کتاب ہے۔جو اس فن کے تمام مسائل کی جامع ہے۔ ابن ساعاتی حنفی نے کتاب الاحکام اوربزدوی کی کتاب کو ایک جگہ ترتیب سے جمع کردیااوراس کا نام البدائع رکھا۔اس کی ترتیب انتہائی بہترین ہے اوریہ بے حد نادرکتاب ہے۔اس زمانے کے علماء کے مطالعہ میں یہی رہتی ہے اوروہ اسی کے مسائل پر تبادلہ خیالات کرتے ہیں۔بہت سے علمائے عجم نے اس کی شرحیں لکھی ہیں“۔(مقدمہ ابن خلدون، ص۶۳۲)

جن کو اس تعلق سے زیادہ معلومات چاہیے وہ کشف الظنون، معجم المولفین، المدخل الی المذھب الحنفی اوردیگر کتابوں کا مطالعہ کریں۔جس سے یہ حقیقت بخوبی کھل کر واضح ہوگی کہ علمائے احناف نے تصنیف وتالیف اورپیش آمدہ مسائل میں لوگوں کی رہنمائی ہر دور میں جاری رکھی اوریہی وجہ ہے کہ امت کا ایک بڑاطبقہ فقہ حنفی سے وابستہ رہاہے۔

(جاری)

$ $ $

 

-----------------------------------

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ6، جلد: 99 ‏، شعبان 1436 ہجری مطابق جون 2015ء