نئے تعلیمی سال کے موقع پر طلبہ ساتھیوں سے کچھ باتیں

 

 

از: مولانا محمد راشد ڈَسکوی            

رفیق شعبہٴ تصنیف وتالیف واستاذ جامعہ فاروقیہ کراچی 

 

شوال المکرم کے مبارک مہینے سے دینی مدارس کی دو ماہ سے جاری ویرانی اور بے آبادی دور ہو کر دوبارہ رونقیں لوٹ آتی ہیں، علوم دینیہ کے حصول کے جذبات سے سرشار طلبہٴ کرام میل ہا میل کے سفر کی صعوبتوں کو طے کرتے ہوئے ، مشفق، والدین اور اعزہ واقرباء کی جدائی کو برداشت کرتے ہوئے، اپنے وطن میں گزرنے والے شب وروز کی سہولتوں کو ترک کر کے پردیس کی مشکلات تک کو برداشت کرنے کی نیت سے مدارس کو اپنا وطن بناتے ہیں، اپنے اساتذہ کو اپنے والدین کا قائم مقام تصور کر کے ، اپنے طلبہ ساتھیوں کو اپنے بھائیوں کا درجہ دیتے ہوئے سالہا سال کا سفر طے کرتے ہیں۔

قرباینوں کے اعتبار سے امتِ مسلمہ کے اس طبقے کو دیکھا جائے تو یقینا ان کی قربانیاں بے مثال ہیں؛ لیکن اس کے ساتھ ساتھ اُن اَفراد کی قربانیوں کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا جن کو چھوڑ کر یہ طبقہ آیا ہوتا ہے۔

اِ ن سب باتوں کے سامنے ہوتے ہوئے خیال ہوا کہ عزیز طلبہ کی دورانیہٴ تعلیم میں کرنے والے چند اہم اور ضروری کاموں کی طرف راہنمائی کر دی جائے، شاید کہ کسی طالبِ علم کے دل میں کوئی بات اُتر جائے اور اُس کی قربانیاں ٹِھکانے لگ جائیں اور اُس کی زندگی سنورنے کا ذریعہ بن جائے، اَللّٰھُمَّ وَفِّقْنَا لِمَا تُحِبُّ وَتَرْضیٰ

پہلا کام: تصحیحِ نیت

علم کی افادیت کا تعلق نیت کے صحیح ہونے یا صحیح نہ ہونے سے ہے، اگر حصولِ علم سے مقصود خدانخواستہ دنیا، حب ِ جاہ ہوئی تو یہ نیت اُس طالبِ علم کو اسی دنیا میں دنیا والوں کے سامنے ذلیل کروائے گی اور آخرت میں تو ایسے شخص کو سب سے پہلے جہنم میں اوندھے منہ پھینک دیا جائے گا، یہ علم اُس کے لیے وبالِ جان بن جائے گا، اعاذنا اللہ منہ۔ یہ بات حدیثِ پاک میں مذکور ہے: ”رجُلٌ تَعَلَّمَ الْعِلْمَ وعلَّمَہُ وقَرَأَ الْقُرآنَ، فأُتِيَ بِہ، فَعَرَّفَہُ نِعَمَہ، فَعَرَفَھَا، قال: فَمَا عَمِلْتَ فِیْھَا؟ قَال: تَعَلَّمْتُ الْعِلْمَ وعَلَّمّْتُہ، وَقَرَأْتُ فِیْکَ الْقُرْآنَ، قَال: کَذَبْتَ وَلٰکِنَّکَ تَعَلَّمْتَ الْعِلْمَ لِیُقَالَ إنِّکَ عَالِمٌ، فَقَدْ قِیْلَ، ثُمَّ أُمِرَ بِہ، فَسُحِبَ عَلٰی وَجْھِہ حَتّٰی أُلْقِيَفِيْ النَّارِ“۔ (صحیح مسلم)

ایک دوسری جگہ ارشاد فرمایا: علم کو علماء پر بڑائی جتانے ، ناسمجھ عوام سے الجھنے اور مجلسیں جمانے کے لیے حاصل نہ کرو، جو شخص ایسا کرے گا، اس کے لیے آگ ہے آگ۔قال(ﷺ): لا تعَلَّمُوا العلمَ لِتُبَاھُوْا بہ العلَماءَ، ولا تُمارُوا بہ السُّفَھاءَ، ولاتَخیَّرُوْا بہ المجالِسَ، فمَن فَعَل ذٰلک، فالنَّارُ فالنَّارُ“ (سنن ابن ماجة، باب الانتفاع بالعلم والعمل بہ، رقم الحدیث:۲۵۴)

بلکہ نیت یہ ہونی چاہیے کہ اس علم کے ذریعے پوری دنیا میں دینِ اسلام کو زندہ کروں گا، اس نیت کے کرنے والے کو اسی حالت میں موت بھی آ گئی تو اللہ تعالیٰ اس طالبِ علم کا حشر اس طرح فرمائیں گے کہ اُس کے اور انبیاء علیم الصلوات والتسلیمات کے درمیان صرف ایک درجہ کا فرق ہو گا، آپ … کا ارشادِ مبارک ہے:

”مَنْ جَآءَ ہُ الْمَوتُ، وھُو یطْلُبُ العِلمَ لِیُحْیِيَ بہ الإسلامَ، فبَینَہ وبینَ الأنبیاءِ فِي الجنةِ درَجَةٌ واحِدَةٌ“ (جامع بیان العلم وفضلہ، باب جامع في فضل العلم، رقم الحدیث: ۲۱۹، دار ابن الجوزي)

    چناں چہ سب سے پہلا کام اپنی نیت کو ٹٹولنا اور اس کو صحیح کرنا ہے اور یہ کام بار بار کرنا ہو گا، جب بھی اپنی نیت کو بگڑا ہوا پائے اسی وقت اپنی نیت کی تصحیح کی جائے۔ایک بات سامنے رہے، اس پہلی بات میں جو عرض کیا جا رہا ہے، وہ ہے تصحیح نیت، اس کا مقتضیٰ یہ ہے کہ اگر حصولِ علم کے وقت نیت ٹھیک نہ ہو تو اس حصولِ علم کو ترک نہیں کرنا چاہیے؛ بلکہ اپنی نیت کو درست کر لینا چاہیے، اور جب تک نیت درست نہ ہو، محض نیت درست نہ ہونے کی وجہ سے ترکِ علم صحیح نہیں؛ کیوں کہ بزرگوں کا مقولہ ہے: ”تَعَلَّمْنَا الْعِلْمَ لِغَیْرِ اللہِ، فَأبٰی الْعِلْمُ إلَّا أنْ یَکُوْنَ لِلہ“․(کہ ہم نے علم غیر اللہ کے لیے پڑھا تھا، مگر وہ مانا ہی نہیں، لہٰذا وہ اللہ کا ہو کر ہی رہا)اس لیے علم کے حاصل کرنے کو ترک نہ کرے؛ بلکہ اپنی نیت درست کر لے۔

دوسرا کام: علمی استعداد مضبوط کرنا

تصحیح ِ نیت کے بعد جو اہم ترین کام ہے، وہ اپنی علمی استعدادکو مضبوط سے مضبوط کرنا ہے، اس کے لیے پہلے دن سے ہی اپنی کمر کسنا ہو گی، مدارسِ دینیہ میں جتنے بھی علوم پڑھائے جاتے ہیں، اُن میں اپنے آپ کو اتنا ماہر اور مضبوط بنانا ضروری ہے کہ علوم کا کوئی بھی شعبہ ہو(صرف و نحو ہو یا منطق، علم الکلام ہو یا فلسفہ وبلاغت، اصول فقہ ہو یا فقہ، اصول حدیث ہو یا حدیث، اصول تفسیر ہو یا تفسیر) کسی شخص کے سامنے ان علوم میں آپ کی کمزوری نہ آ سکے، اور انھیں علوم میں لغزش کھانے والے کوئی بھی اہلِ علم آپ کی نظر سے بچ کے نہ گزر سکے، اس استعداد کے حصول کے لیے اگر حضرت مولانا محمد اشرف علی تھانوی صاحب رحمہ اللہ کا ملفوظ سامنے رکھ لیا جائے تو انشاء اللہ وہ ہی کافی ہو جائے گا، حضرت فرمایا کرتے تھے، جو طالبِ علم تین کام کر لے ، اللہ تعالیٰ اسے ضرور علم کی دولت سے نواز دیں گے: مطالعہ، سبق میں توجہ سے حاضری اور تکرار۔

ان تینوں کاموں کو بہر صورت انجام دینا حصول ِ علم کی کامیابی کی کنجی ہے، اِن تینوں کاموں کے بارے میں اجمالا یہ عرض کرنا ہے کہ

 ”مطالعہ“ نام ہے، معلومات کو مجہولات سے الگ کر دینے کا، یعنی: جب آپ سبق میں شریک ہونے سے پہلے کتاب کھول کے مطلوبہ سبق کا مطالعہ کریں ، اُس سبق کو صرفی، نحوی اور لغوی اعتبار سے حل کریں، اُس کے ترجمے ، ترکیب اور مفہوم کے سمجھنے کی کوشش کریں، اس کوشش میں جو جو کامیابی آپ کو حاصل ہو جائے، وہ ”معلومات“ کہلائیں گی، اور جو بات سمجھ میں نہ آ سکے، اسے ”مجہولات“ کا نام دیا جائے گا، ”مجہولات “آپ کے ذہن میں مستحضر ہونی ضروری ہیں؛ تا کہ کسی دوسرے وقت، کسی دوسرے ساتھی یا استاذ سے یا سبق میں انھیں خاص طور پر حل کیا جاسکے، مطالعہ کی اتنی کوشش انشاء اللہ آپ کو آگے سے آگے لے جانے کا ذریعہ بنے گی۔

اس کے بعد ”سبق میں حاضری“ کا مرحلہ ہے، اس مرحلے میں بھرپور کوشش یہ ہونا ضروری ہے کہ آپ سے نہ تو کوئی سبق چھوٹنے پائے اور نہ ہی کسی سبق میں بے توجہی اور غفلت سے شریک ہوں؛ بلکہ سبق کی ابتداء سے انتہاء تک پوری بیدار مغزی سے شرکت ضروری ہے، اس کوشش میں کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ دورانِ سبق استاذ کی زبان سے جو بات بھی نکلے اُس بات کے علاوہ کوئی بات آپ کے کانوں میں داخل نہ ہو، اسی طرح آپ کی آنکھ استاذ سے ہٹ کر کسی اور طرف مشغول ہونے والی نہ ہو، نیز! دل ودماغ پوری طرح سبق میں ہی حاضر رہیں، سبق میں سامنے آنے والی باتوں کو ذہن میں محفوظ کرنے کی کوشش کی جائے، اور سبق کے بعد انھیں کاغذ پر محفوظ کر لیا جائے۔

اس کے بعد آخری مرحلہ ”تکرار“ کا ہے،سبق میں سنی ہوئی باتوں کے دُہرانے کو ”تکرار“ کہتے ہیں۔اس مرحلے میں مطالعہ اور سبق میں رہ جانے والی کسریں نکل جاتی ہیں، تکرار کا عمل جتنے بھرپور طریقے سے مکمل ہو گا، آپ کی سبق پر گرفت اتنی ہی زیادہ ہو گی، بزرگوں کا مقولہ ہے کہ جو طالبِ علم جتنا زیادہ تکرار کا ماہر ہوگا، وہ اتنا ہی بہترین مدرس بن سکے گا۔تکرار کے بارے میں تجربہ یہ ہے کہ تکرار میں بولنے والے کو جو فائدہ حاصل ہوتاہے، وہ سننے والے کو نہیں ہوتا؛ اس لیے زیادہ بہتر یہ ہے کہ تکرار کی جوڑی دو افراد کی ہو، پہلے ایک بولے پھر دوسرا، اگر دو سے زیادہ ہوں، تو وقت کی قلت کے باعث ایک ہی بول سکے گا باقی صرف سننے والے ہوں گے، ان کے اندر اس مرحلے میں کمال حاصل کرنا ممکن نہ ہو سکے گا۔ یہ تینوں مرحلوں کا اجمالی خاکہ تھا، ان کی طرف مزید راہنمائی متعلقہ اساتذہ سے حاصل کر کے قدم اٹھایا جائے۔

تیسرا کام: خوشخطی اور عمدہ تحریر

خوشخطی اور عمدہ تحریر کے ذریعے ایک عالم ِ دین بہتر سے بہتر انداز میں دین کی خدمت کر سکتا ہے اور سامنے والے پراچھا اثر ڈال سکتاہے، اس صفت میں ملکہ حاصل کرنے کے لیے بھی پہلے دن سے ہی محنت کرنا ضروری ہے، اگر ممکن ہو سکے تو کسی ماہر کاتب سے باقاعدہ وقت لے کر مشق کرے، اس کے لیے سب سے پہلے حروف تہجی کی صورتوں کو قواعد کے مطابق ذہن میں محفوظ کرے، اس کے بعد مرکبات کی مشق کرے، بالخصوص تین حروف تک کے مرکبات کی پہچان ضرور کر لی جائے، یعنی: کسی بھی حرف کے استعمال کی تین صورتیں تو یقینی ہیں: وہ حرف شروع میں ہو گا، درمیان میں ہو گا، یا آخر میں آئے گا، اِن تینوں حالتوں میں اُس کی شکل اور بناوٹ کیا ہو گی، اس کو سیکھ کر مشق کرے، اس بارے میں ایک مفید صورت یہ بھی ہوتی ہے کہ جہاں کہیں بھی کسی کاتب کا لکھا ہوا کوئی لفظ دیکھیں اُس کی بناوٹ کو ذہن میں محفوظ کر لیں اور بعد میں اس کی نقل اُتارنے کی کوشش کریں، اس طریقے سے بہت جلد آپ کی خوشخطی میں نکھار آتا چلا جائے گا۔

چوتھا کام: خطابت

اپنی بات دوسروں کے سامنے رکھنے کے لیے، دوسروں کو دین کی طرف راغب کرنے کے لیے سب سے موٴثر ذریعہ زبان ہے، گفتگو کے فن اور خطابت کے اسرار ورموز سیکھے بغیر معاشرے میں پیدا ہونے والے سیکڑوں برائیوں کا سدباب آسانی سے ممکن نہیں ہے،ایک اچھا خطیب اور مقرر اپنے زورِ بیان کے ساتھ بے حس قوموں میں حِس پیدا کرتا ہے، سوئی ہوئی اقوام کو بیدار کرتا ہے، بگڑے ہوئے اَخلاق کو سنوارسکتاہے۔

 اور یہ بدیہی بات ہے کہ ہر انسان میں قدرت کی طرف سے کچھ نہ کچھ قوتِ بیان عطا کی گئی ہوتی ہے، اب انسان کا کام ہے کہ وہ اپنی اس استعداد کو مسلسل مشق کرتے ہو ئے درجہٴ کمال تک پہنچائے، اس مشق کے لیے ضروری ہے کہ ماہرین کے اندازِ بیان کو خوب اچھی طرح پرکھا جائے اور خوب مشق کی جائے، اپنی بات میں وزن ، قوت اور اثر پیدا کرنے کے لیے سب سے پہلے اپنی زبان کو سہل اور آسان کرنا ہو گا، یعنی: اپنی گفتگو میں آسان سے آسان تعبیرات، الفاظ اور اُسلوب اپنانا ہو گا، اس سے آہستہ آہستہ چہرے کے تأثرات، آواز کے اُتار چڑھاوٴ اور جسم کی حرکات وسکنات پر کنٹرول حاصل ہو گا، الغرض چہرہ، آواز اور ہاتھوں کے مناسب اشارے ہماری بات میں قوت، تاثیر اور تفہیم پیدا کرتے چلے جائیں گے۔

پانچواں کام: غیر نصابی مطالعہ

درسِ نظامی کی تعلیم کے ساتھ ساتھ اپنی دینیات کے مطالعہ کووسیع کرنا بھی ہماری ضرورت ہے، دینی مطالعہ کے ساتھ خارجی حالات سے تازہ ترین واقفیت بھی ہونی چاہیے؛ تاکہ اعتماد کے ساتھ پختہ اور معتمد دینی معلومات رکھتے ہوئے عوام کا سامنا کر سکیں، اس کے لیے یہ ضروری ہے کہ اس کی وجہ سے ہماری نصابی تعلیم متأثر نہ ہونے پائے، دوسری بات یہ کہ مضرکتب کا مطالعہ نہ ہو، اس کا حل یہ ہے کہ یہ مطالعہ اپنے اساتذہ کی نگرانی میں ہو، ان کے مشورے سے، درجہ وار، الاہم فالاہم کے قاعدے کے مطابق تدریجاً ہو، اور سب سے اہم بات یہ کہ فرصت کے اوقات میں ہو، نہ کہ تعلیمی اوقات میں۔

چھٹا کام: تجوید وحفظ القرآن

 وہ طلبہ جو حافظِ قرآن نہیں ہوتے، انھیں عام طور پر دو تین مشکلات میں مبتلا دیکھا گیاہے، ایک توقرآنِ کریم حفظ نہ ہونے کی وجہ سے بہت سے مقامات پر دشواری ہوتی ہے، نماز پڑھاتے وقت بالخصوص نمازِ فجر پڑھاتے وقت بہت دشواری محسوس کرتے ہیں، ان کی قرأت تجوید کے قواعد کو پورا کرنے سے قاصر نظر آتی ہے، اسی طرح ان کے بیانات اور تقاریر کے درمیان بھی قرآن پاک کی آیات کا بر محل استعمال بھر پور اعتماد سے نہیں کر پاتے، اس لیے طلبہ سے یہ بھی گزارش ہے کہ اپنی اس کمی کو پورا کرنے کی ابتدا سے ہی فکر کریں، کچھ نہ کچھ قرآنِ پاک روزانہ یاد کرتے رہیں، کم از کم آخری دو تین پارے اور مشہور بڑی سورتیں تو یاد ہی کر لینی چاہییں، اور کسی ماہر ِ فن قاری صاحب سے ضروری تجوید پڑھ کر اس کی مشق بھی کر لی جائے، اس ضمن میں خطباتِ جمعہ و عیدین اور خطباتِ نکاح بھی یاد کیے جائیں۔

ساتویں بات: غیر تعلیمی سرگرمیاں

    یہ بات ہمیشہ سامنے رکھنے کی ہے کہ ہم اپنے گھر بار کو جو چھوڑ کر آئے ہیں ہمارا مقصد علمِ دین حاصل کرنا ہے، لہٰذا ہمارے لیے ہر ایسی سرگرمی سے بچنا نہایت ضروری ہے جو ہماری تعلیم کے لیے نقصان دہ ہو، اس میں سر فہرست امر یہ ہے کہ ہم اس زمانہ میں ہر طرح کی تنظیمی وابستگی سے اپنے آپ کو دور رکھیں، یہ وابستگیاں ہمارے تعلیمی پروگرام کے لیے زہرِقاتل کی مانند ہیں، یہ زمانہ ہمارے لیے ایک ایک لمحے کے اعتبار سے نہایت قیمتی ہے؛ اس لیے اس دورانیے میں ہماری مشغولیت صرف اور صرف تعلیم کے ساتھ ہونی چاہیے، ہاں فراغت کے بعد ہمارے کرنے کے کاموں میں حسب مزاج جس کام کی طرف میلان ہو یا ضرورتِ زمانہ جس کی متقاضی ہو، اُسے اختیار کر لینا چاہیے اور ضرور اختیار کیا جائے؛ لیکن ابھی نہیں، ابھی تو اس تعلیم کے ساتھ عملی میدان میں تحریک پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔

آٹھواں کام: اساتذہٴ کرام اورطلبہ ساتھیوں کے حقوق

ایک اچھے اور باکردار طالبِ علم کے مقام کو حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ آپ کے دل میں اپنے محسنین اساتذہ کرام کی محبت اور ادب غایت درجے کا ہو، اُن کی دل جوئی، خدمت اور اکرام کو اپنی سعادت سمجھیں، ان کا ادب ، ان کی بات کو دھیان اور توجہ سے سنیں، اُن کی نصائح کو اپنی کامیابی کا راز سمجھ کر اپنائیں اور اُن کی خدمت کے کاموں کو تلاش کر کے پوری لگن کے ساتھ کریں، یہ سب اُمور ایک طالبِ علم کو بہت جلد ترقی کی منازل طے کروا دیتے ہیں؛ لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ اِن سب اُمور کا انجام دینا بد نیتی ، مجبوری یا کسی غرضِ فاسدکے لیے نہ ہو، کہ یہ نیت فوائد تو درکنار تباہی اور بربادی کی طرف لے جانے والی ہے۔

ایک دوسری چیز زمانہٴ تعلیم میں آپ کا اپنے طلبہ ساتھیوں کے ساتھ برتاوٴ ہے، ایک مخصوص عرصے کے لیے آپ کو ایک اجتماعی ماحول میں رہنا ہے، اس ماحول میں ایک نشست آپ کی درس گاہ کے ساتھیوں کی ہے، دوسری نشست آپ کے کمرے کے ساتھیوں کی ہے، تیسری نشست عمومی طور پر پورے جامعہ کے ساتھیوں کی ہے، اِن تمام مراحل میں اگر آپ اپنے ساتھ یہ طے کر لیں گے کہ میں اپنے اِن تمام قسم کے ساتھیوں کے ہر قسم کے حقوق ادا کروں گا اور میری طرف سے کسی کو کسی قسم کی تکلیف نہیں پہنچے گی، میں کسی کی چیز بغیر اجازت استعمال نہیں کروں گا تو اللہ رب العزت آپ کی اِس مبارک صفت کی وجہ سے آپ کی عزت اور احترام آپ کے تمام طلبہ ساتھیوں کے دلوں میں ڈال دیں گے، بصورتِ دیگر ! جہاں آپ بے اطمینانی اور بے سکونی کا شکار ہوں گے، وہاں ہر کوئی آپ سے اس طرح دور رہنے کی کوشش کرے گا، جیسے کوئی شخص کسی موذی جانور سے بچنے کی اور دور رہنے کی کوشش کرتا ہے، لوگ آپ کے شر سے بچنے کی خاطر آپ سے سلام دعا اور میل جول رکھیں گے؛ لیکن ان کے دل آپ کے بارے میں نفرتوں سے بھرے ہوں گے۔

ایک اچھا انسان بننے کے لیے آپ اپنے ساتھ یہ طے کر لیں کہ آپ جب بھی کسی سے ملیں تو اس طریقے اور ان اَخلاق سے ملیں کہ وہ آئندہ آپ سے ملناپسند کرے، آپ کے پاس بیٹھنا پسند کرے، آپ کے ساتھ کچھ وقت گذارنا اپنی سعادت سمجھے تو انشاء اللہ آپ ہر دل عزیز شخصیت بنتے چلے جائیں گے۔

نواں کام: مدرسہ کے ضوابط اور قوانین

علم کی ترقی کے راستوں میں ایک ضروری چیز اس ادارے کے نظم ونسق اور اصول وضوابط کو پورا کرنابھی ہے، یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ کوئی بھی ادارہ ہو، وہ بغیر اصول وضوابط کے نہیں چل سکتا اور یہ بات بھی بالکل بدیہی ہے کہ اصول وضوابط اجتماعی نظم کے درست رکھنے کے لیے ہوتے ہیں؛ اس لیے اپنے ادارے کے اصو ل وضوابط کو پورا کرنا ہماری خوشگوار زندگی کا سبب بنے گا، اس سے ہمارے اندر نکھار پیدا ہو گا، ہماری زندگی ایک مرتب نظام کے مطابق سلجھی ہوئی گزرے گی، ہر کوئی ہم سے خوش ہو گا اور ہم سب سے خوش ہوں گے، مثلاً: اس کے لیے یہ اصول بنا لیں کہ تعلیم کا وقت شروع ہوتے ہی درس گاہ میں پہنچ جانا ہے، کھانے کا وقت ہوتے ہی کھانے کے لیے چلے جانا ہے، سونے کا وقت ہوتے ہی سونے کے لیے لیٹ جانا ہے، درس گاہ ہو یا رہائشی کمرہ ، اپنی باری پر خدمت اور صفائی کرنی ہے، تو یقین جانیے کہ مدرسہ کے کسی استاذ کو، حتی کہ مدرسہ کے کسی بھی کارکن کو آپ سے کوئی تکلیف نہیں پہنچے گی، کوئی آپ سے تنگ نہیں ہو گا، نہ کسی کو آپ سے کسی قسم کی کوئی شکایت ہو گی اور نہ ہی آپ کو کسی کی طرف سے کسی قسم کی ناگواری کا سامنے کرنا پڑے گا۔

دسواں کام: تعلق مع اللہ اور اصلاحِ ظاہر وباطن

ایک انتہائی اہم بات یہ ہے کہ ہماری سالہا سال کی یہ محنت اس لیے ہے کہ ہم میں سو فیصد اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرنے کی استعداد پیدا ہو جائے، لہٰذا عبادات کے ذریعے، مناجات کے ذریعے اور موقع ومحل کے مطابق اتباعِ رسول … کے ذریعے ہم لمحہ بہ لمحہ اللہ تعالیٰ کے قرب میں آگے بڑھ سکتے ہیں، آپ علیہ الصلوٰة والسلام کی مسنون زندگی کا کوئی گوشہ ہم سے مخفی نہ ہو اور اسی طرح ہماری زندگی کا کوئی عمل سنتِ نبوی … کے خلاف نہیں ہونا چاہیے، یہ کوشش ہماری ہر کوشش سے زیادہ قیمتی اور ضروری ہے، اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی سامنے رہے،ہم اپنی مدرسہ اور مدرسہ سے باہر کی زندگی میں اپنی طرف سے عبادات، معاملات، معاشرت، اخلاق اور خدمت ِ خلق کا ایسا نمونہ چھوڑیں کہ آپ کی مثال دے کر لوگ اپنے بچوں کی تربیت کریں، ہم اپنے مقام پر، اپنے گھروں میں، اپنے گلی محلوں میں،اپنے معاشرے میں اپنے آپ کو ایسا پیش کرنے کی کوشش کریں کہ ہمارے متعلقین واضح طور پر، کھلی آنکھوں ہمارے بارے میں یہ محسوس کریں کہ ”ہمارا یہ عزیز “ مدرسہ کی زندگی اختیار کرنے سے قبل ، یا سابقہ سال میں تو (اپنی عبادات، اپنے معاملات، اپنی حسنِ معاشرت اور اپنے اخلاق میں ) ترقی کے اس معیار پر نہیں تھا، جس معیار پر اب پہنچ چکا ہے۔اس سے آپ انشاء اللہ العزیز ایک ایسے مثالی طالب ِ علم بن جائیں گے کہ لوگ آپ کی صلاحیتوں کی وجہ سے آپ کو اپنے کندھوں پر بٹھائیں گے، آپ کا ادب کریں گے، آپ کی بات توجہ سے سنیں گے، آپ کے مشوروں پر عمل کریں گے، آپ کی خدمت کو اپنی سعادت سمجھیں گے، اپنے فیصلوں کے لیے آپ کو حَکَم بنانا تسلیم کریں گے، آپ کی مثالیں دے کر اپنی اولاد اور اپنے ماتحتوں کی تربیت کریں گے، آپ کو دیکھ کر اپنی اولاد کو بھی مدارس دینیہ میں داخل کروانے کا فیصلہ کریں گے۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اللہ رب العزت دنیا وآخرت کی سعادتیں آپ کا مقدر بنا دیں گے۔

اللہ رب العزت ہم سب کو اپنی مرضیات پر چلنے کی توفیق مرحمت فرمائے! آمین!

$ $ $

 

---------------------------------

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ6، جلد: 99 ‏، شعبان 1436 ہجری مطابق جون 2015ء