نیپال میں بھارتیہ خواتین کے ساتھ

اسرائیلی شہریوں کا ظالمانہ رویہ

 

از: ڈاکٹر ایم اجمل فاروقی‏، ۱۵-گاندھی روڈ، دہرہ دون

 

نیپال کے بدترین زلزلہ کی خبروں کے درمیان ایک خبر ایسی آئی ہے جس نے انسانی پستی، خود غرضی اور قدرت سے انسانوں کی چھیڑ چھاڑ کے سیاہ پہلو کو بے رحمی کے ساتھ اجاگر کردیا ہے۔ مورخہ ۲/مئی کے ہندی اخبار کے اپنے نیپال کے خصوصی نامہ نگار کے حوالے سے اسرائیلی حکومت اور شہریوں کی ایسی ہی انسانیت سوز اور بے رحم تصویر کو اجاگر کیا ہے۔ خبر میں بتایاگیا ہے کہ زلزلہ کے تیسرے دن اسرائیلی فوجیوں نے ایک پرواز کے ذریعہ ایسے پندرہ نوزائدہ بچوں کو جن کی عمر ۲-۴ ہفتہ کے درمیان تھی، ان کی کرایہ کی ماؤں سے لے کر اسرائیل میں ان کے مرد ہم جنس پرست جوڑوں کے پاس پہنچا دیا۔ یہ ساری خواتین جو ابھی ٹھیک سے چلنے پھرنے کے لائق بھی نہیں ہیں ایک بارگی اپنے جگر کے ٹکڑوں سے محروم کرکے ہزاروں میل دور بھیج دیے جانے کے صدمہ سے مغموم ہیں۔ اسرائیل میں کرایہ کی کوکھ (رحم مادر) کے دھندہ میں ملوث کمپنی ”تموز“ کے مطابق ہمارے زیادہ تر گاہک 75% اسرائیلی مرد ہم جنس پرست ہوتے ہیں، باقی میں چین، امریکہ، یوروپ، آسٹریلیا وغیرہ کے لوگ ہوتے ہیں۔ یہ کمپنی اس کے لیے ۷۰ ہزار ڈالر لیتی ہے۔ اس عمل میں مرد کے تولیدی مادہ کو کرایہ کی ماں کے بیضہ سے تجربہ گاہ میں جنین کی شکل دے کر اس جنین کو ماں کے رحم میں پہنچادیا جاتا ہے۔ پہلے یہ کام زیادہ تر تھائی لینڈ میں ہوتا تھا۔ اسرائیل میں اسرائیلی خاتون یہ کام نہیں کرسکتی۔ نیپال میں بھی نیپالی خواتین یہ کام نہیں کرسکتیں۔ نیپال میں غیرنیپالی خواتین یہ کام کرسکتی ہیں۔ اسرائیلی شہری وہاں پر زیادہ تر یہ عمل بھارتیہ خواتین سے کرارہے ہیں۔ غور طلب بات یہ ہے کہ جس عمل کو نیپال جیسے غریب اور کم ترقی یافتہ ملک میں اجازت نہیں ہے، اس عمل کے لیے ہندوستانی خواتین کو استعمال کیا جارہا ہے۔ کیا یہ بات بھارت کے چہرہ اور اس کی بین الاقوامی حیثیت پر ایک بدنما داغ نہیں ہے؟ اسرائیلی حکومت کی خبیث ذہنیت ملاحظہ کریں کہ اس دھندہ میں اپنی خواتین استعمال نہیں ہونے دیتے۔ دوسر یہ کہ ایک سیدھے سادے فطری عمل کے لیے بھی اتنا لمبا شیطانی غیرفطری راستہ یا طریقہ کار اختیار کیا جانا خود ان کی نسلی خبیث فطرت اور ذہنیت کی غمازی کرتا ہے۔ اپنے آپ کو ہمیشہ انسان دوست اور مظلوم ظاہر کرنے والے کتنے بے رحم ہیں۔ یہ اس بات سے ظاہر ہے کہ اسرائیلی قانون کے مطابق یہ بیچاری مائیں اسرائیل نہیں جاسکتیں۔ بچہ پیدا ہونے کے بعد ہی ان کو رقم کی ادائیگی کی جاتی ہے۔ اس کے بعد کمپنی کی کوئی ذمہ داری نہیں ہوتی۔

ان پندرہ بچوں کو خصوصی پرواز سے اسرائیلی فوجیوں کے ذریعہ نیپال سے لے جانا خود اس بات کو ظاہر کرتاہے کہ حکومت اسرائیل اپنے یہاں افزائشی نسل کے لیے جانوروں کی سطح پر اتر آئے معاشرہ کی ہرممکن مدد کررہی ہے۔ اس وقت جن بھارتیہ ماؤں کی کوکھ میں اسرائیلی بچے پل رہے ہیں، وہ پچھلے اسرائیلی قوانین کے مطابق اسرائیل نہیں جاسکتی تھیں؛ مگر زلزلہ کے فوری بعد اپنی نئی نسل کے بچاؤ کے لیے آناً فاناً اس قانون میں تبدیلی کرکے ان ماؤں کو وضع حمل تک اسرائیل جانے کی اجازت دی جارہی ہے۔ اس معاہدہ کے تحت ایک بہت بڑا ظلم کیا جارہا ہے کہ اگر یہ بھارتیہ خاتون بچہ کی پیدائش سے قبل بھارت آنا چاہتی ہے تو وہ ایسا بھی نہیں کرسکتی۔ بھارتیہ خارجہ آفس کے ترجمان وکاس سروپ فرمارہے ہیں کہ یہ دولوگوں کے درمیان معاہدہ ہے، ہم اس میں ہاتھ نہیں ڈال سکتے۔ اسی روز بھارتیہ خارجہ سکریٹری اور صلاح کار برائے ملکی سلامتی نیپال کے دورہ پر تھے؛ مگر انھوں نے اس معاملہ میں کچھ سرگرمی ظاہر نہیں کی۔ صرف دو لوگوں کے درمیان معاہدہ کی دہائی دے کر پلہ جھاڑ لیا۔

مندرجہ بالا خبر کی تفصیل پر کئی پہلوؤں سے غور کریں تو اتنے حساس انسانی بقاء اور اخلاقی مسئلہ پر میڈیا تقریباً مکمل خاموشی، حکومت ہند کا تجاہل عارفانہ، بین الاقوامی انسانی اور نسوانی حقوق کے نام نہاد علمبرداروں کی مجرمانہ خاموشی اور ہمارے ملک کے منافق قوم پرستوں کی مجرمانہ چشم پوشی کے پس پردہ کیا محرکات ہیں؟ اس کے برعکس اگر کہیں ایسا معاملہ مسلم دنیا سے ہوتاتو کیا تب بھی مذکورہ حریفوں کا یہی رویہ ہوتا؟ حیدرآباد میں اگر ایک گمراہ یا عیاش عرب کا نکاح کم سن ہندوستانی بچی سے ماں باپ کی مرضی سے ہوجاتاہے تو میڈیا، انسانی حقوق کے منافق علمبرداروں اور میڈیا کا تعصب پر مبنی ہمدردی کا رویہ ان کے خلوص پر کھلم کھلا سوال کھڑا کرتا ہے۔ اصولی بات یہ ہے کہ غیرانسانی رویہ کسی کا بھی ہو اس کی گرفت ہونی چاہیے، عرب ہو، امریکی ہو، اسرائیلی ہو؛ مگر یہ کیا کہ ․․․․․․ مسلم کا محاسبہ و دیگر سے در گذر۔

$ $ $

 

----------------------------------

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ6، جلد: 99 ‏، شعبان 1436 ہجری مطابق جون 2015ء